Category: دلیل

  • وزیراعظم صاحب کے نام کھلا خط – ریحان اصغر سید

    وزیراعظم صاحب کے نام کھلا خط – ریحان اصغر سید

    ریحان اصغر سید جناب وزیراعظم صاحب
    السلام علیکم !
    ہم بہت عرصے سے آپ سے گفتگو کرنا چاہتے تھے۔ بہت سی باتیں ہیں جو آپ کے گوش گزار کرنی ہیں، بہت سے شکوے شکایتیں ہیں جو آپ تک پہنچانی ہیں، کچھ سوال ہیں جو آپ سے پوچھنے ہیں اور کچھ تجاویز ہیں جو آپ کو پیش کرنی ہیں۔

    افسوس اس بات کا ہے کہ آج فائیو-جی 5G کے اس دور میں بھی ہمیں آپ سے ہم کلام ہونے کے لیے خط کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ آپ کے حواریوں نے آپ کو اتنے بلند قلعوں کے پیچھے قید کر رکھا ہے کہ جہاں تک نہ ہماری رسائی ہو پاتی ہے اور نہ ہی آپ کو ہماری آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ اس لیے آج یہ خط ہم آپ کو اس امید پر لکھ رہے ہیں کہ شاید آپ کا کوئی پی اے اسے پرنٹ کر کے دیگر اخباری تراشوں اور خبروں کے ساتھ آپ کی ٹیبل پر رکھ دے اور شائد آپ تک ہمارے جذبات پہنچ جائیں۔

    جناب وزیراعظم!
    آپ نے بطور کاروباری شخص کے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ آپ کے محترم والد مرحوم ایک سیلف میڈ انسان تھے۔ آپ پنجاب کے وزیر خزانہ رہے، پھر وزیراعلی منتخب ہوئے۔ بعدازاں پاکستان کی عوام نے آپ کو تین بار اپنے ووٹوں کی طاقت سے آپ کو وزیراعظم بنوایا۔ نیز آپ اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔ آپ مختلف سیاسی اتحادوں اور تحریکوں کا حصہ رہے۔ آپ کو مختلف آرمی چیفس اور اعلی عدلیہ کے ججوں سمیت ہر طرح کی بیوروکریسی کے ساتھ کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ کچھ سال چھوڑ کر عملاً آپ کی پارٹی پچھلے تیس سال سے پنجاب میں برسر اقتدار ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ اس وقت پاکستان کے سب سے زیادہ تجربہ کار اور زیرک سیاستدان ہیں ، تو یہ قطعاً غلط نہ ہوگا۔ اس لیے جب ہم آپ سے مخاطب ہیں تو ہم ایک سسٹم سے، ایک سیاسی جماعت، ایک نظریے سے مخاطب ہیں۔ اس حکومت کے بطور وزیراعظم بے شک آپ کو تیین سال ہوئے ہیں لیکن آپ عملاً پچھلے تیس سال سے پنجاب کی حد تک برسر اقتدار ہیں جو کہ پاکستان کی کل آبادی کا تقریبا نصف ہے۔ اس لیے آپ پاکستان بالخصوص پنجاب کی ہر خوبی و خامی کے براہ راست یا بالواسطہ طور پر ذمہ دار تصور کیے جاتے ہیں۔

    جنابِ وزیراعظم!
    ہم روزانہ ٹی وی و اخبارات پر آپ کی اور پنجاب حکومت کی اعلی کارکردگی کے تعریفی اشتہارات دیکھتے ہیں۔ ان کروڑوں اربوں کے اشتہارات کی ادائیگی اس غریب اور مقروض ملک کے قومی خزانے سے کی جاتی ہے۔ ہماری حکومتوں کی اعلی کارکردگی کو جانچنے کے لیے کچھ دیگر ادارے بھی ہیں جو فی سبیل اللہ ہمیں یہ خدمات فراہم کرتے ہیں۔ جن کی رپورٹس کا لب لباب یہ ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم خوراک کی خطرناک حد تک کمی کا شکار ممالک میں سرفہرست دس ممالک میں شامل ہیں۔ خطرناک موسمی تبدیلیوں اور مستقبل میں شدید خشک سالی اور پانی کی کمی کا شکار ہونے والے پہلے دس ممالک میں بھی ہمارا ذکر کیا جا رہا ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ بدامن اور غیر محفوظ پہلے دس ممالک میں کی فہرست میں بھی اپنی پوزیشن پکی ہے۔ کرپشن، بیڈ گورئنس اور ٹیکس کولیکشن میں بھی ہم آخری نمبروں پر ہیں۔ ہمارا لٹریسی ریٹ اور نظام تعلیم شرمناک ہے۔ انتالیس فیصد عوام خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ سرکاری سکولوں اور کالجوں کی حالت ابتر ہے۔ طبعی سہولیات برائے نام اور ناقص ہیں۔ ملک کی بیشتر عوام بیماریوں کی بنیاد بننے والا آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کا لوئر جوڈیشنری نظام دنیا کے کرپٹ ترین اور سست ترین نظاموں میں شامل ہے۔
    پاکستان اور بالخصوص پنجاب پولیس کا تاثر انتہائی کرپٹ اور ظالم ادارے کا ہے۔ سرکاری محکمے رشوت خوری اور بدنظمی کا گڑھ بن چکے ہیں جہاں روزانہ عوام کی تذلیل کی جاتی ہے اور انھیں رشوت دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ٹریفک کے مسائل، گندگی، پولوشن، اشیاء خورد و نوش میں ملاوٹ، گرانی، بے روزگاری، میرٹ کا قتل عام، اقربا پروری سمیت درجنوں مسائل ہیں جن سے روازنہ ایک عام آدمی کا پالا پڑتا ہے اور وہ اس نظام کی بربادی کی دعا کرتا ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا جب اخبارات میں مالی پرشانیوں سے تنگ آئے ہوئے عوام کی خودکشیوں کی خبریں نہیں چھپتی۔ کہیں ماں بچوں سمیت نہر میں کود جاتی ہے تو کہیں باپ بچوں کو زہر کھلا کر مار دیتا ہے اور کہیں کوئی اپنے بچے بیچنے سڑکوں پر آ جاتا ہے۔
    جناب ! ہمارا سوال آپ سے صرف اتنا ہے کہ ان مسائل کو کون حل کرے گا؟ اور ان مسائل کو حل کرنے کے لیے آپ کو مزید کتنے عشرے درکار ہیں؟؟؟ کیونکہ پچھلے آٹھ سال سے مسلسل آپ کے برادر خورد اور آپ کی ہی پارٹی کی پنجاب میں حکومت قائم ہے جبکہ مسائل ہیں کہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ کیا عام آدمی یہ سوچنے میں حق بجانب نہیں کہ آپ کی حکومت ظلم و جبر پر مبنی یہ نظام بدلنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی یا پھر اس کو بدلنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی۔

    جنابِ وزیراعظم !
    2013ء کے عام انتخابات کی الیکشن کمپئین میں آپ نے زرداری حکومت کے احتساب کا نعرہ لگایا تھا ! آپ نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا ! آپ نے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا عظم دکھانا تھا ! آپ نے طاہر لاہوتی کو باعزت رزق کی فراہمی کا مژدہ سنایا تھا۔ وزیراعظم بننے کے بعد آپ نے پہلی تقریر میں فرمایا تھا کہ نہ خود کرپشن کریں گے اور نہ کسی کو کرنے دیں گے۔ آپ نے وفاقی کابینہ کی کارکردگی کو مستقل بنیادوں پر جانچنے اور خراب کارکردگئی والوں کو فارغ کرنے کی بھی نوید سنائی تھی ! آپ نے کہا تھا کہ آپ قومی اداروں کے سربراہوں کی تعیناتی کا ایک جدید اور شفاف طریقہ کار متعین کریں گے۔ آج آپ کی حکومت کو تین سال سے زائد ہو چکے ہیں، جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے میں کیا پیش رفت ہوئی ہے؟؟؟ پنجاب اور مرکز میں آپ کی حکومت ہے، کوئی بھی قابل ذکر سیاسی جماعت اس صوبے کی مخالف نہیں ہے، پھر ہم جان سکتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے میں کیا امر مانع ہے ؟
    لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا اپنا وعدہ پورا کرنے میں حکومت واقعی متحرک نظر آتی ہے لیکن بجلی کے منصوبوں میں کرپشن، ناقص منصوبہ بندی، غلط ترجیہات اور نااہلی کی بازگشت مسلسل سنائی دے رہی ہے۔
    آئی پی پی پیز کو بغیر آڈٹ کے دیے گئے پانچ سو ارب روپے، نندی پور پاور پروجیکٹ، قائداعظم سولر پلانٹ، ساہیوال تھر کول پلانٹ اور قطر ایل این جی معاہدے کے سلسلے میں مکمل تفصیلات عوام کے سامنے کیوں پیش نہیں کی جاتی؟ اب پھر یہ نوید سنائی جا رہی ہے کہ آئی پی پی پیز کا گردشی قرضہ دوبارہ تین سے چار سو ارب تک جا پہنچا ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟؟؟ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کا احتساب کیوں نہیں کیا گیا؟؟؟ ملک پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ ماہر معاشیات پاکستان کے مستقبل کی انتہائی افسوسناک تصویر کشی کر رہے ہیں۔ آخر اتنے بھاری قرضے کیوں لیے جا رہے ہیں، آپ اس معاملے میں قوم کی تشویش کیوں دور نہیں کرتے۔۔؟

    جنابِ وزیر اعظم!
    پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کی بنیادی اکائی تصور کی جاتیں ہیں۔ نہایت افسوس اور دکھ سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ آپ کی جماعت سمیت ہماری بیشتر سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کی بجائے آمریت رائج ہے، یہاں طوعاً و کرہاً انڑا پارٹی الیکشن کروائے بھی جائیں تو وہ خانہ پوری اور مجبوری کے تحت کروائے جاتے ہیں، آپ پیچھلے تین عشرے سے پارٹی کے سربراہ ہیں آپ کے برادر خورد تین دفعہ پنجاب کے وزیر اعلٰی اور آپ تین دفعہ وزیر اعظم منتحب ہو چکے ہیں۔ کیا یہ فرض ہے کہ آپ دونوں بھائیوں کے علاوہ کوئی وزیر اعظم یا وزیر اعلی نہیں بن سکتا؟ اس وجہ سے سیاسی جماعتوں میں ترقی کا پیمانہ قابلیت، صلاحیت، حب الوطنی، محنت و دیانت کی بجائے پارٹی راہنماوں کی ذاتی وفاداری، خوش آمد اور چاپلوسی قرار پا چکا ہے۔ اسی وجہ سے ہی نا اہل اور کمتر صلاحیت کے وزیر مشیر جنم لیتے ہیں۔ جس سے اہل قیادت اور نوجوان نہ صرف سیاست اور سیاست دانوں سے متنفر ہو رہے ہیں بلکہ یہ جمہوریت کے لیے بھی اچھا شگون نہیں ہے۔ کیا سبب ہے کہ امریکہ میں ایک کالا ملک کا صدر بن جاتا ہے لندن میں ایک تارک وطن مسلمان کا بیٹا مئیر منتحب ہو جاتا ہے۔ حتی کے انڈیا میں ایک چائے بیچنے والا سیاسی کارکن ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچ جاتا ہے لیکن اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں نسلی اور موروثی سیاست کا دور ہے کہ ختم ہونا کا نام نہیں لے رہا۔ جناب کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ مریم نواز ،حمزہ شہباز اور دوسرے شاہی خاندان کے افراد کسی قانون و آئین کے تحت امور مملکت میں براہ راست مداخلت کرتے ہیں اور سرکاری اجلاسوں کی صدارت فرماتے ہیں؟ آخر ہر اہم عہدے پر کیوں آپ اپنے خاندان کے اور اپنے ذاتی وفاداروں کو ہی تعینات کرنا چاہتے ہیں؟ اقربا پروری کی کوئی حد ہے بھی یہ نہیں؟

    جنابِ وزیر اعظم!
    آپ کی حکومت بننے سے پہلے عام تاثر یہی تھا کہ جلا وطنی نے آپ پر بہت مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ آپ نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے۔ عام انتحابات کے بعد آپ نے خیبرپختون خواہ اور بلوچستان میں جس طرح دیگر سیاسی جماعتوں کو حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا وہ آپ کی اخلاص اور معاملہ فہمی کا ثبوت تھا۔ آپ عمران خان صاحب کے پاس چل کے گئے آپ نے چار حلقوں میں دھاندلی تحقیقات کا مطالبہ تسلیم کیا، آپ کے وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی کے فلور پر چالیس حلقے کھولنے کی پیشکش کی، پھر کیا سبب ہے کہ اس ایشو کو اتنا سنجیدہ بنا دیا گیا کہ عمران خان صاحب کو مسلسل احتجاج اور دھرنا دینا پڑا، پانامہ لیکسں کے معاملے میں بھی یہی راویت دہرائی گئ، آپ نے ٹی وی پر اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں خود کو تحقیقات کے لیے پیش کرنے کی پیش کش کی پھر اپوزیشن کو اتنا زچ کر دیا کہ وہ احتجاج اور اسلام آباد کو بند کرنے پر تل گئ۔ کیا دھرنوں اور احتجاجوں سے ہونے والے نقصان میں حکومت برابر کی قصوروار نہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ آپ کی پیچھلی دو حکومتوں کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئ، آپ کو معزول کر کے گرفتار کیا گیا اور پھر جلا وطن کر دیا گیا۔ ملڑی اسٹبلشمنٹ سے آپکے تحفظات اور کھنچاو ایک فطری امر ہے۔ بلا شبہ آپ سول بالادستی کے شدید حامی ہیں لیکن کیا یہ اس طرز حکومت سے ممکن ہے جو آپ نے اختیار کر رکھا ہے؟ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ کیا سبب ہے کہ ایک جمہوری ملک میں ایک آرمی چیف ایک منتحب وزیر اعظم سے زیادہ مقبول کس طرح ہو جاتا ہے؟ سول بالادستی اخباروں میں خبریں فیڈ کروانے اور چالبازیوں سے ممکن نہیں اسکے لیے آپ کو گڈ گورنس کے ذریعے ڈلیور کرنا ہو گا۔ قومی ادروں کو سیاسی دباوٴ سے آزاد اور خود مختار بنانا ہو گا۔ قومی مفاد کے لیے ذاتی اور سیاسی مفادات کو قربان کرنا ہو گا ۔ جب تک سیاسی قیادت اپنی اہلیت، دیانت داری اور خلوص ثابت نہیں کرتی طاقت کا کھویا ہوا توازن حاصل کرنا ناممکن ہے۔ آپ سے گزارش ہے تب تک مزید ایڈونچرز سے باز رہیں اور سسٹم کو چلنے دیں۔

    جنابِ وزیراعظم!
    آپ ناصرف ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ آپ بذات خود بھی صوم صلاة کے پابند مسلمان ہیں۔ یہ بات ہمارے آئین میں بھی لکھی ہے اور بطور مسلمان یہ ہمارا ایمان بھی ہے کہ اصل حاکم اعلیٰ اور اختیارت کا منبع الله تعالی کی ذات ہے۔ بطور حکمران آپ کی ذمہ داری ایک نائب اور عوام کے خادم کی ہے۔ ایک مسلمان حکمران کے لیے حکمرانی کا بوجھ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کیوں کے ہمارے سامنے نبی کریمﷺ سے لیکر خلفا راشدین کے طرز حکمرانی کی روشن مثالیں موجود ہیں۔ جناب ہم آپ سے یہ نہیں چاہتے کہ آپ سایئکل پر سفر کیا کریں یا آپ پیوند لگے کپڑے پہنے کریں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ خود اپنا محاسبہ کریں اور اپنے طرز حکمرانی پر غور کریں۔ زندگئ موت الله کے ہاتھ میں ہے۔ اپنے گرد یہ سیکورٹی کی فیصیلں کم کریں عوام سے رابطے بڑھائیں۔ الله نے آپ کو بہت عزت، دولت شہرت دی ہے آپ نے ایک بھرپور زندگئی گزاری ہے کیا اب آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ اب قوم کو ریڑن کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ خدارا اپنا سارا تجربہ اور مہارت اس ملک اور اسکی عوام کی بہتری اور فلاح کے لیے صرف کر دیجیے۔ ،ماڈل ٹاوٴن میں جو چودہ مرد و زن بے دردی سے قتل کر دیے گئے۔ انکی تحقیق و تفتیش کے لیے ہر ممکن کوشش کیجے۔ ایسا نہ ہو انکے پس ماندگان کی آہیں آپ کے اقتدار اور دولت کے سورج کو لے ڈوبیں۔ اگر ان کو اس دنیا میں انصاف نہ ملا تو اگلی دنیا میں تو ملے گا ہی۔ ہر ذی نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اور اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہے۔ میدان حساب میں نہ بیٹے کام آتے ہیں نہ مال دولت اور نہ وزیر مشیر۔
    سکندر جب دنیا سے گیا تھا تو اسکے دونوں ہاتھ خالی تھے۔
    ہمیں اور کچھ بھی نہیں کہنا جناب۔
    والسلام۔
    آپ کی مجبور اور سسکتی رعایا

  • صوبائیت کی لعنت اور ہمارے اہل علم – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    صوبائیت کی لعنت اور ہمارے اہل علم – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر صوبائیت کے خلاف بہت زبردست مہم چل رہی ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوتی اگر اس مہم میں حصہ ڈالنے والے اہل علم خود صوبائیت میں مبتلا نہ ہوتے ۔ بہت سے لوگ بہت کچھ کہہ رہے ہیں اور اس بہت کچھ کا خلاصہ ایک جملے میں یہ بنتا ہے کہ صوبائیت بہت بڑی لعنت ہے ، بشرطیکہ اس کا اظہار اہلِ پنجاب کے بجائے کسی اور صوبے کے لوگوں کی جانب سے ہو!

    پرویز خٹک کی تقریر میں صوبائیت تھی ۔ اس سے ہمیں انکار نہیں ۔ ان پر تبرا کریں ۔ ضرور کریں ۔ تاہم پرویز خٹک کی تقریر سے مختلف اقتباسات لے کر صوبائیت کی لعنت پر بہت سنجیدہ ، پر مغز اور علمی تبصرہ کرتے ہوئے ہمارے دوست یہ بات بالکل ہی نظرانداز کردیتے ہیں کہ جب 2 نومبر سے دو دن قبل صوبۂ پنجاب کے تمام راستے صوبۂ خیبر پختونخوا سے آنے والے تمام لوگوں کے لیے عین صوبۂ پنجاب کی سرحد پر مکمل طور پر بند کردیے گئے تو کیا یہ صوبائیت نہیں تھی؟ یہ بات جس کے سامنے بھی رکھی ،عجیب طرح کے عذر سامنے آئے ۔ وفاق کو بچانا تھا۔ ایک صوبے کا وزیر اعلی حملہ آور ہورہا تھا۔ دہشت گردی کا خطرہ تھا ۔ اور پتہ نہیں کیا کچھ۔

    پوچھا کہ کیا اس خطرے سے نمٹنے کا حل اس کے سوا اور کوئی نہیں تھا کہ ایک صوبے کے تمام راستے دوسرے صوبے کے تمام لوگوں پر مکمل طور پر بند کردیں اور وہ بھی دو دن قبل؟ کیا دار الحکومت کو بچانے کے لیے دار الحکومت کے نزدیک ہی کچھ بندوبست نہیں کیا جاسکتا تھا ؟ عین صوبے کی سرحد پر راستے بند کردینے سے کیا پیغام دیا جارہا تھا؟ کیا یہ کہ اسلام آباد تک جانے والے سارے راستے پنجاب سے ہوکر گزرتے ہیں؟ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ موٹروے بے شک بند کردی جاتی اور جی ٹی روڈ پر رکاوٹیں ڈال دی جاتیں لیکن پی ٹی آئی والوں اور عام لوگوں میں فرق کا کوئی بندوبست کرلیا جاتا ؟ کسی کو جانے دیا جاتا ، کسی کو روک لیا جاتا ۔ اسلام آباد کے قریب زیادہ سختی کی جاتی۔ اہم سوال یہ ہے کہ عین صوبے کی سرحد کو کیوں بند کیا گیا؟ اگر وفاق کا وزیر اعظم اور صوبے کا وزیر اعلی ایک ہی گھر سے نہ ہوتے تو پھر بھی کیا یہی آپشن اختیار کیا جاتا؟ کتنی دفعہ اس سے قبل اسلام آباد پر چڑھائی کی گئی؟ کتنی پارٹیوں نے کی؟ خود اہل پنجاب نے کی؟ لیکن کیا ایسا کبھی پہلے ہوا تھا؟
    اب آئیے ایک اور پہلو کی طرف ۔

    ہمارے ایک پسندیدہ دانشور نے اپنے بلاگ میں تاریخ کی “پنجابی تشریح ” کرچکنے کے بعد انگریزوں اور “شمال سے آنے والے لٹیروں” کو ایک صف میں کھڑا کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ ڈیورنڈ لائن اس لیے کھینچی گئی کہ ان لٹیروں میں بعض کو افغانستان کی حکومت کنٹرول کرے اور بعض کو انگریز ! یہ زاویۂ نظر لیکن تعصب اور صوبائیت پر مبنی نہیں ہے ۔ یہ بھی فرمایا کہ سوئی گیس برآمد ہونے سے کئی صدیاں پہلے بھی پنجاب خوش حال تھا ۔ پنجاب کی صدیوں قبل خوش حالی کا تو خیر کسی نے انکار نہیں کیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لمحۂ موجود میں بلوچستان کی سرزمین پر موجود غریب بلوچی کو آپ اس دلیل سے مطمئن کرسکتے ہیں؟ کیا اسے یہ پوچھنے کا حق نہیں ہے کہ آپ صدیوں سے خوش حال سہی ، لیکن سوئی کی گیس سیکڑوں میل دور جاکر رائیونڈ کے محلات میں آپ کے ڈرائنگ روم گرم کرے مگر چند میلوں کے فاصلے پر میرے گھر میں چولہا بھی نہ جلاسکے تو کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ اگر میں مان بھی لوں کہ میرے اجداد لٹیرے تھے جنھوں نے آپ کے خوش حال اجداد کو لوٹا تھا، تو کیا اب اس کے کفارے کے طور پر میں آپ کی جانب سے سی پیک میں میرے حق پر ڈاکا ڈالنے کو معاف کردوں؟

    پھر جب آپ اپنی خوش حالی کا تذکرہ اس انداز میں کرتے ہیں تو محروم لوگوں کو یہ کیوں نہ یاد آئے کہ اس طرح تو آپ وہی بات کہہ رہے ہیں جو بش نے امریکیوں سے کی تھی کہ ہماری خوش حالی اور ترقی کی وجہ سے مسلمان ہم سے نفرت کرتے ہیں! حضور، آپ سے کوئی نفرت نہیں کرتا ۔ بس اپنی چارپائی کے نیچے ذرا ڈانگ پھیر لیجیے۔ اس سے زیادہ آپ سے کچھ نہیں چاہیے ۔

    ان دانشور صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ عمران خان پنجاب میں رہ کر بھی پختون عصبیت کو پکاررہا ہے حالانکہ نواز شریف کشمیری ہوکر بھی پنجاب سے ووٹ لیتے ہیں۔ عمران خان جانیں اور ان کی عصبیت۔ یہ سوال بھی ہم نہیں اٹھائیں گے کہ اٹک اور میانوالی کب اور کیسے پنجاب کا حصہ بنے؟ نہ ہی یہ پوچھیں گے کہ کشمیر اور پنجاب کا سکھوں کی حکومت میں کیا انتظامی تعلق اور قانونی رشتہ رہا؟ ہاں یہ سوال ضرور پوچھنا چاہتے ہیں کہ کشمیری ہونے کے باوجود “جاگ پنجابی جاگ” کا نعرہ کس نے بلند کیا تھا؟
    جب بات اس نعرے تک آہی گئی ہے تو یہاں مجھے ایک نہایت ہی محترم اور عالی مقام مفتی صاحب کی تاویل بھی پیش کرنے دیں ۔ انھوں نے اس نعرے کو کس طرح شریفوں کے کھاتے سے اٹھا کر بے چہرہ اسٹیبلشمنٹ کے نام کردیا ، ملاحظہ کیجیے اور داد دیجیے ۔ فرماتے ہیں :

    “میری یادداشت کے مطابق یہ نعرہ بذات خود ن لیگ نے نہیں لگایا تھا نہ ہی ن لیگ کا وجود تھا نواز شریف آئی جے آئی کا حصہ تھے مسلم لیگ کے ایک گروپ کی حیثیت سے جس کا نام یاد نہیں آ رہا ۔ آئی جے آئی کے سربراہ مصطفی جتوئی تھے نواز شریف سمیت یہ سب اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے تھے۔ در حقیقت سندھ کارڈ کے مقابل پنجاب کارڈ انہی قوتوں کی ضرورت تھی جو بے نظیر کو ہر حال میں ہرانا چاہتی تھیں مہاجر کا نعرہ بھی انہوں نے لگوایا اب پی ٹی آئی بھی انہی کی نمائندہ ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ نعرہ گم نام لوگوں کی طرف سے چلایا ضرور گیا تھا جیسے شکریہ شکریہ کے بینر لگتے ہیں لیکن چل نہیں سکا تھا جیسے پرویز خٹک کا نہیں چلا ۔ کوئی صاحب میری معلومات کی تصحیح کر دیں تو ممنون ہوں گا۔”

    میں نے اس پر عرض کیا تھا کہ اتنی خوش گمانیوں کے ساتھ تصحیح کا رسک نہ لیں۔ ہمارے ایک اور دوست نے لیکن مفتی صاحب کی تائید کرتے ہوئے انھیں لقمہ دیا کہ قومی اسمبلی کے الیکشن ہوچکے تھے اور صوبائی اسمبلین کے الیکشن تین دن بعد ہونے تھے۔ اچانک جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل جاتا ہے۔ حضرت نے اس پر عمارت تعمیر کرتے ہوئے فرمایا:

    میری یادداشت کے مطابق ان تین دنوں میں ایک اشتہار بھی چھپا تھا لیکن اس میں جاگ پنجابی جاگ نہیں تھا وہ اشتہار نہ بھی ہوتا تب بھی قومی اسمبلی کے نتائج کا اثر پڑنا ہی تھا۔ اسی لئے محترمہ نے اسی وقت سے قومی و صوبائی الیکشن ایک دن کرانے کا مطالبہ شروع کر دیا تھا۔ 2002 کے الیکشن میں شام کو جب سرحد میں ایم ایم اے کی لیڈ نظر آئی تو بعضوں کو یہ کہتے سنا “پتا ہوندا تے اسیں وی مولویاں نو ووٹ دے دندے۔”

    ان کمنٹس میں ایک جید عالم دین کی خوش گمانیاں اور تاویلات دیکھیں اور پھر دیکھیے کہ کیا یہی خوش گمانیاں اور تاویلات وہ وہاں بھی دکھاتے ہیں جب کسی اور صوبے کی جانب سے صوبائیت کا نعرہ اٹھے؟ میرا جو گلہ ہے وہ بس اسی حد تک ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔

  • دوسرے کو سپیس دینا سیکھیں – محمد عامر خاکوانی

    دوسرے کو سپیس دینا سیکھیں – محمد عامر خاکوانی

    تین چار دن پہلے ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔باتوں باتوں میں دلچسپ قصہ انہوںنے سنایا۔ کہنے لگے کہ رات کو گھر جاتے ہوئے گھر کے قریب مارکیٹ رکا، دو چار چیزیںلیں۔ واپس آیا اور گاڑی کھولنے کےلئے چابی نکالنا چاہی تو جیب میں نہیں تھی۔ پریشانی سے ادھر ادھر دیکھا، پھر خیال آیا اور کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو چابیاں اندر لگی رہی گئیں۔ پریشان ہوا کہ اس وقت کہاں سے کوئی میکینک یا تالہ کھولنے والا پکڑا جائے۔ مارکیٹ میں آتا جاتا رہتا تھا، ایک ٹھیلے والا نوجوان جس سے کبھی کبھار کچھ لے لیتا تھا، ایک دو بار گپ شپ بھی ہوئی، وہ گزرا تو میرے چہرے پر پریشانی دےکھ کر رک گیا۔ اسے چابی کا بتایا،اس نے تھوڑی کوشش کی تو پچھلا دروازہ کھل گیا۔ اس نوجوان کا شکریہ ادا کیا ، رسمی سلام دعا ہوئی، اچانک وہ بولا، سر جی !آپ بڑی گاڑی لے لیں، آپ اس میں زیادہ اچھے لگیں گے۔ میرے دوست کہنے لگے کہ اس کی اس بات نے غصہ تو بہت دلایا، مگر چونکہ اس نے مدد کی تھی اس لئے خون کا گھونٹ پی کر رہ گیا، دھیرے سے صرف اتنا کہا کہ یار تم دعا کرو، اللہ کوئی سبب بنا دے تو ضرور لے لوں گا۔ یہ واقعہ سنا کر وہی دوست کہنے لگے کہ معلوم نہیں، ہمیں ہر معاملے میں اپنا مشورہ دینے، رائے ٹھونسنے کا کیوں شوق ہے، کسی کے پاس گاڑی ہے یا نہیں، چھوٹی ہے یا بڑی، یہ اس کا اپنا مسئلہ ہے، کسی دوسرے کو کیا ضرورت ہے کہ بلا مانگے مشورہ دے۔ اس دوست کی جھنجھلاہٹ نے مزا دیا، کیونکہ ایسے واقعات سے میں خود بھی کئی بار گزر چکا ہوں اور ہر بار میری بھی یہی کیفیت تھی۔

    کچھ عرصہ قبل ٹی وی چینلز پر ایک دلچسپ اشتہار آتا تھا۔مختصر سی مگر دلچسپ کہانی تھی،کسی خاتون کے گھر میں ہمسایے کی لڑکی چینی یا کچھ اور مانگنے آتی ہے، وہ سیدھی کچن میں چلی جاتی ہے کہ ڈبے سے چینی نکال لوں۔ چولہے پر پر سالن بن رہا ہے، اس کی خوشبو سونگھ کر وہ اس طرف متوجہ ہوئی، چمچ ڈال کر باہر نکالا ، چکھا اور پھر بغیر کسی سے پوچھے گرم مسالہ کا ڈبہ اٹھا کر کچھ مزید مسالہ ڈال دیا، یہ کہتے ہوئے کہ قورمہ سپائسی ہی مزا دیتا ہے۔ خاتون خانہ بیچاری ہکا بکا کھڑی اسے دیکھتی رہ جاتی ہے کہ اپنے گھر والوں کا مزاج میں جانتی ہوں یا تم۔ اسی اشتہار کی ایک اور کہانی میں ایک تیز طرارقسم کی درزن کو دکھایا گیا ، اسے محلے کی کوئی خاتون اپنا سوٹ سلائی کے لئے دے گئی اور اچھی طرح سمجھایا کہ کس طرح سوٹ بنانا ہے، لیس وغیرہ کی قطعی ضرورت نہیں۔ جب سوٹ لینے آئی تو لیس لگی ہوئی اور درزن نے الٹا لیکچر پلا دیا کہ تمہیں کیا معلوم کہ کیسے لباس پہنے جاتے ہیں، تم یہ سوٹ لے کر جاﺅ، تمہارے خاوند کو یہ لیس اچھی لگے گی۔ وہ خاتون تلملاتی رہ گئی، جسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کے خاوند کو اس طرح کے لیس والے ملبوسات سے چڑ ہے ۔وہ اشتہار تو کسی ڈبے والے دودھ کا تھا ، مگر جو کہانیاں اس میں بیان کی گئیں، ان میں بلا کی سچائی تھی۔

    ہمارے ہاں یہ عام مسئلہ ہے کہ دوسرے کو بلا مانگے مشورہ دے ڈالتے ہیں۔ مشورہ دے دینے پر ہی اکتفا نہیں بلکہ اس پر اصرار بھی کرتے ہیں کہ تم اس کو مان کیوں نہیں رہے۔ بھئی، اس کی اپنی زندگی ہے، اپنی مرضی سے گزارنے دو، جب وہ مشورہ مانگے تب ضرور دو، مگر ایسے مفت مشورے کی قدر بھی نہیں ہوتی اور بعض اوقات دوسرا آدمی اس سے چڑ بھی جاتا ہے ۔ میرے اپنے ساتھ کئی بار ایسا ہوا کہ ان لوگوں نے خواہ مخواہ کا ناصح بن کرمشورے دینے شروع کر دئیے، جن کا مجھ سے لینا دینا بھی نہیں ۔ جن دنوں موٹر سائیکل چلاتا تھا، آئے روز کوئی نہ کوئی دکان دار، دفتر کاچپڑاسی یا گیٹ کیپر اپنا قیمتی مشورہ ضرور دیتا کہ سر جی تسی ہن گڈ ی لے لو۔ بندہ پوچھے کہ لینی ہوگی تو تم سے مشورہ کروں گا۔ ایک بار ہماری گلی کی نکڑ کی دکان سے رات کو جاتے وقت انڈے ،ڈبل روٹی لینے رکا۔ اس نے چینج دینے کے بعد ایک تنقیدی نظر بائیک پر ڈالی اور پھر وہی مشورہ دہراہا۔ ایک لمحے کے لئے میرا بھی ناریل چٹخ گیا۔ اپنے لہجے پر قابو پاتے ہوئے اسے کہا، یار اچھا ہو گیا کہ آج تم نے یہ بات کہہ دی، مجھے یہی ڈر تھا کہ تم اجازت نہیں دو گے، اب اجازت مل گئی تو ضرور لے لوں گا۔ وہ ایک لمحے کے لئے ہکا بکا رہ گیا ، پھر احساس ہوا تو معذرت کرنے لگا۔ اسے سمجھایا کہ بھائی بائیک چلانے سے جو تکلیف اور بے آرامی مجھے ہوتی ہے، تمہیں تو نہیں ہوسکتی؟گرمی، سردی، بارش ، دھند ان سب میں مصیبت مجھے رہتی ہے تو اگر اس کے باوجود گاڑی نہیں لے پا رہا تو کوئی وجہ ہوگی۔ تم کیوں چاہتے ہو کہ میرا بھرم ختم ہو اور تمہارے سامنے اپنی کم مائیگی کا اعتراف کروں۔ بات اس کی سمجھ میں آگئی، اس نے معذرت کی اور بولا کہ آئندہ میں اس کا ہر جگہ خیال رکھوں گا، یہ نکتہ کبھی سمجھ میں آیا ہی نہیں تھا۔

    دراصل ہم لوگ بولنے سے پہلے شائد سوچتے نہیں یا پھر یہ خیال آتا ہے کہ ہم زیادہ ذہین اور یہ شخص غبی العقل ہے، تو جو سادہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی، وہ اسے بتائی جائے۔ یہ بات غلط ہے۔ہر آدمی کو اپنا اچھا برا زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے ، اس کی اپنی پرائیویٹ لائف ہے، جس کا احترام کرنا چاہیے اور اسے کچھ سپیس دی جائے ۔ اسی طرح کسی کا وزن زیادہ ہو، بال اڑنے لگیں، ہیر سٹائل مختلف کر لے، مونچھیں رکھ لے یا کلین شیو کرا لے، ہم لوگ اپنے تبصرے اور مفت مشورے دینے میں ایک لمحے کی کوتاہی نہیں کرتے۔ شائد ہمارے پاس وقت بہت زیادہ ہے اور یہ سمجھ نہیں آتا کہ اسے کس طرح گزارا جائے ۔ ورنہ کامن سینس کی بات ہے کہ اپنا چہرہ ہر آدمی دن میںتین چار بار تو آئینے میں دیکھتا ہی ہے، وہ اپنے بارے میں زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اس پر کیا اچھا لگ رہا ہے ۔ اگر وہ مشورہ مانگے تو ضرور دیا جائے، پورے خلوص سے دیا جائے ، مگر اس کے بغیرایسا کرنے کی زحمت نہ فرمائی جائے تو عزت بڑھے گی ، کم نہیں ہوگی۔یہ بھی اکثر دیکھا گیا کہ کسی نے فیس بک پر اپنی پروفائل تصویر تبدیل کی۔ اب وہ بیچارہ اپنی کسی تازی تصویر کو دوستوں سے شیئر کرنا چاہ رہا ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ دوست کی خوشی میں خوش ہوں، اگر کچھ پسند نہیں تو چلو خاموش رہ جائیں، اچھا لگا تو اظہار کر دیں۔ اس کے بجائے انواع واقسام کے تبصرے شروع ہوجائیں گے۔ کسی کو چہرے پر غصہ نظر آئے گا تو کوئی میز کی بے ترتیبی کی طرف اشارہ کرے گا اورایسے کئی لوگ ہوں گے جو وزن کم کرنے کا مشورہ جڑ دیں گے۔ دلیل یہ ہوتی ہے کہ ایسا ہم نے اپنی محبت اور کیئر کی وجہ سے کیا۔ صاحبو! انسان کا سب سے بڑا ہمدرد وہ خو د ہے، زیادہ سے زیادہ اس کے بہن بھائیوں، لائف پارٹنر کو یہ حق دیا جا سکتا ہے، ہر ایک کو یہ ذمے داری نہیں سنبھالنی چاہیے۔ اگلے روز ایک گروپ میں چیٹ ہورہی تھی، انگلینڈ میں مقیم ایک دوست کہنے لگے کہ مغرب میں یہ روایت ہے کہ میں اپنی بیوی تک کو موٹاپے کے حوالے سے کوئی غیر محتاط جملہ نہیں کہہ سکتا ، نہیں کہتا۔ کہنے لگے کہ ان کی اہلیہ نومسلم ہیں، انہوں نے پاکستانی فیملیز سے ملنا اس لئے چھوڑ دیا ہے کہ ان کے بقول یہ عورتیں مجھ سے وہ سوال پوچھتی ہیں جو میری ماں نے کبھی نہیں پوچھے ۔ وجہ یہی ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی نجی زندگی کا احترام کرنا سکھایا ہی نہیں گیا، ہم دوسرے کو کچھ سپیس دینے کے قائل ہی نہیں۔ اس ایک عادت کو اپنا لینے سے اگرچہ ہمارے کئی سماجی مسائل ختم
    ہوسکتے ہیں۔

  • محبتِ نبوی کی علامات اور حرمتِ مکہ – خطبہ جمعہ مسجد نبوی

    محبتِ نبوی کی علامات اور حرمتِ مکہ – خطبہ جمعہ مسجد نبوی

    فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان حفظہ اللہ نے 4 صفر 1438 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان ”محبتِ نبوی کی علامات اور حرمتِ مکہ“ ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے نبی ﷺ سے محبت کی اہمیت ، ضرورت اور وجوہات کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کیں، پھر صحابہ کرام کی زندگیوں سے نبی ﷺ سے محبت کی مثالیں بیان کرتے ہوئے آج بھی ایسی مثالیں پیدا ہونے کی دعا فرمائی، پھر انہوں نے اتباع سنت، دفاعِ حرمت رسول، کثرت سے درود و سلام، آپ کے دیدار کا شوق اور اس کے تقاضوں کی تعمیل، غلو سے اجتناب، مطالعہ سیرت نبویہ، نبی ﷺ کی محبوب چیزوں سے محبت کو حقیقی اور سچی محبت کی علامات قرار دیا، اور کہا کہ مکہ آپ ﷺ کی محبوب جگہ ہے لہذا اس کا احترام ایمان کی علامت ہے اور اس پر حملہ عذاب الہی کو دعوت دینا ہے۔

    پہلا خطبہ
    یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے مانگتے ہیں، نیز نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، اور اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمد اللہ بندے اور اس کے رسول ہیں۔
    [pullquote]يَا أيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہ حَقَّ تُقَاتِہ وَلَا تَمُوتُنَّ إلَّا وَأنْتُمْ مُسْلِمُونَ[/pullquote]

    اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں ہی آئے۔[آل عمران : 102]

    [pullquote]يَا أيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِہ وَالْارْحَامَ إنَّ اللہ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا[/pullquote]

    لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے [دنیا میں] بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں ، نیز اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور قریبی رشتوں کے بارے میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو ، بلاشبہ اللہ تم پر ہر وقت نظر رکھے ہوئے ہے [النساء : 1]

    [pullquote]يَا أيُّھا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللہ وَرَسُولَہ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا[/pullquote]

    ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور سچی بات کیا کرو، اللہ تعالی تمہارے معاملات درست کر دے گا، اور تمہارے گناہ بھی معاف کر دے گا ، اور جو اللہ کے ساتھ اس کے رسول کی اطاعت کرے وہ بڑی کامیابی کا مستحق ہے۔ [الاحزاب: 70، 71]

    حمد و صلاۃ کے بعد:
    لوگو! میں آپ سب اور کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں؛ کیونکہ یہی دنیا میں سعادت مندی اور آخرت میں نجات کا باعث ہے،
    [pullquote]يَاأيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا إنْ تَتَّقُوا اللہ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللہ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ[/pullquote]

    اے ایمان والو ! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہے تو اللہ تمہیں قوت تمیز عطا کرے گا، تم سے تمہاری برائیاں دور کردے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑا ہی فضل کرنے والا ہے [الانفال: 29]

    اللہ کے بندو!
    اللہ تعالی نے ہمارے نبی محمد ﷺ کو تمام لوگوں اور سب مخلوقات سے چنیدہ، برگزیدہ اور فضیلت والا بنایا، اللہ تعالی نے آپ کو جہانوں کے لیے رحمت اور خاتم الانبیاء و المرسلین بنا کر اس امت کی جانب مبعوث فرمایا، اللہ تعالی نے آپ کو گواہ، خوش خبری دینے والا، ڈرانے والا، اللہ کے حکم سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا۔ اللہ تعالی نے آپ کا اختیار اعلی اور معزز ترین خاندان اور شہر سے کیا آپ کے لیے بہترین زمان و مکان چنا، آپ کا تزکیہ کامل، احسن اور افضل ترین صفات و اخلاقیات سے فرمایا۔ آپ کو اپنی تمام مخلوقات پر فوقیت دی، آپ کی شرح صدر فرمائی، آپ کا بول بالا فرمایا، آپ کی لغزشیں بھی معاف فرما دیں، بلکہ ہر چیز میں آپ کو خاص مقام عطا فرمایا، چنانچہ:

    آپ کی عقل و دانش کو خاص قرار دیتے ہوئے فرمایا:[pullquote] مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى[/pullquote]

    تمہارا ساتھی نہ راہ بھولا ہے اور نہ ہی بھٹکا ہے۔[النجم: 2]

    آپ کے اخلاق کو خاص قرار دیتے ہوئے فرمایا: [pullquote]وَإنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ[/pullquote]

    اور بیشک آپ عظیم اخلاق کے مالک ہیں۔ [القلم: 4]

    آپ کے حلم و بردباری کو خاص قرار دیتے ہوئے فرمایا: [pullquote]بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ[/pullquote]

    مؤمنوں کے لیے نہایت رحم دل اور مہربان ہیں۔[التوبہ: 128]

    آپ کے علم کو خاص قرار دیتے ہوئے فرمایا: [pullquote]عَلَّمَہ شَدِيدُ الْقُوَى[/pullquote]

    اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے۔ [النجم: 5]

    آپ کی صداقت کو خاص قرار دیتے ہوئے فرمایا: [pullquote]وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْھَوَى[/pullquote]

    وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا۔ [النجم: 3]

    آپ کے سینے کو خاص قرار دیتے ہوئے فرمایا:[pullquote] ألَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ[/pullquote]

    کیا ہم نے آپ کی شرح صدر نہیں فرمائی۔[الشرح: 1]

    آپ کے دل کو خاص قرار دیتے ہوئے فرمایا: [pullquote]مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأى[/pullquote]

    جو کچھ اس نے دیکھا دل نے اسے نہیں جھٹلایا۔ [النجم: 11]

    آپ کی شان کو خاص قرار دیتے ہوئے فرمایا:[pullquote] وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ[/pullquote]

    اور ہم نے آپ کی شان بلند کر دی۔ [الشرح: 4]

    آپ کو چنیدہ بنا کر آپ کو راضی بھی کیا اور فرمایا: [pullquote]وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى[/pullquote]

    اور عنقریب آپ کو آپ کا رب اتنا عنایت کرے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔[الضحى: 5]

    اللہ تعالی نے اپنی اطاعت کو آپ ﷺ کی اطاعت سے اور اپنی محبت کو آپ ﷺ کی محبت سے نتھی فرمایا، چنانچہ اللہ کی بندگی اور قرب الہی کا وہی طریقہ روا ہوگا جو اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کی زبانی بیان کروایا، لہذا جنت کے لیے آپ ﷺ کے راستے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ آپ ہی لوگوں کے لیے ہدایت اور نجات کا باعث ہیں، آپ ہی شفاعت کبری کے حقدار ہیں، جس دن انسان اپنے بھائی، ماں، باپ، دوست اور اولاد سے راہِ فرار اختیار کرے گا۔ سلیم فطرت اور مثبت ذہنوں میں ان صفات اور اخلاق کی مالک شخصیت کی محبت رچ بس جاتی ہے۔ ہمارے نبی محمد ﷺ کو محبت کا بہت وافر اور بڑا حصہ ملا، چنانچہ آپ ﷺ سے محبت تاکیدی فرض، واجب رکن اور ایمان کی شرط ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
    [pullquote]قُلْ إنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللہ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللہ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ[/pullquote]

    آپ کہہ دیں: اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے [آل عمران: 31]

    اسی طرح فرمایا: [pullquote]قُلْ إنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأبْنَاؤُكُمْ وَإخْوَانُكُمْ وَأزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوھَا وَتِجَارَۃ تَخْشَوْنَ كَسَادَھَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَھَا أحَبَّ إلَيْكُمْ مِنَ اللہ وَرَسُولِہ وَجِھَادٍ فِي سَبِيلِہ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَاتِيَ اللہ بِامْرِہ وَاللہ لَا يَھدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ[/pullquote]

    آپ کہہ دیں: اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں، اپنے کنبہ والے اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے مکان جو تمہیں پسند ہیں، اللہ، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے۔ اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دکھاتا ۔[التوبہ: 24]

    قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں:”آپ ﷺ سے محبت ضروری ہونے کے لیے یہ آیت ترغیب اور محبت کی اہمیت، نیز وضاحت اور دلیل بیان کرنے کے لیے کافی ہے، یہ آیت رسول اللہ ﷺ سے محبت کی فرضیت، [عدم محبت کی صورت میں] خطرات اور اس پر آپ ﷺ کا حق بیان کرنے کے لیے بہت ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے ایسے شخص کو یہاں ڈانٹ پلائی ہے جس کے ہاں مال، اہلیہ اور اولاد اللہ اور اس کے رسول سے زیادہ محبوب ہوں اور انہیں یہ کہتے ہوئے دھمکی دی کہ: [pullquote]فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَاتِيَ اللہ بِامْرِہ[/pullquote]

    پھر [تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے] آیت مکمل کرتے ہوئے انہیں فاسق قرار دیا اور انہیں بتلا دیا کہ وہ گمراہ لوگوں میں سے ہیں، اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہیں: [pullquote]وَاللہ لَا يَھدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ[/pullquote]

    [اور اللہ نافرمان لوگوں کو راہ نہیں دکھاتا]“

    اور صحیح بخاری میں عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، آپ ﷺ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا، تو آپ ﷺ سے عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے میری ذات کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں تو نبی ﷺ نے فرمایا: (نہیں [ایسے ایمان مکمل نہیں ہو گا]! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جب تک میں تمہارے ہاں تمہاری جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں) اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے جلدی سے عرض کیا: بیشک ابھی سے آپ، اللہ کی قسم، میرے ہاں میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں، تو پھر نبی ﷺ نے فرمایا: (عمر! اب [تمہارا ایمان کامل ہے]
    انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میں اس کے ہاں اس کے والد، بچوں اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں. بخاری
    یہ واضح برہان ہے کہ آپ ﷺ کی محبت ایمان کی بنیاد اور شرعی طور پر واجب ہے، چنانچہ دوسری طرف آپ سے بغض خاتمۂ ایمان اور خرابیِ عقیدہ کا باعث ہے، آپ ﷺ سے کامل محبت کامل ایمان کی اور ناقص محبت ایمان میں نقص کی علامت ہے۔

    اللہ کے بندو!
    رسول اللہ ﷺ سے محبت ایسی عبادت ہے جو قرب الہی کا باعث ہے، اور یہ شریعت کے دائرے میں بند ہے، اس کے ایسے مظاہر اور علامات ہیں جن سے محبت کی حقیقت اور سچائی آشکار ہوتی ہے۔
    [pullquote]مَنْ اِدَّعَى مَحَبَّۃ اللہ وَلَمْ يَسِرْ عَلَى سُنَّةِ سَيِّدِ الْامَمِ[/pullquote]

    جو اللہ سے محبت کا دعوے دار ہو لیکن وہ تمام امتوں کے سربراہ کی سنت پر نہ چلے

    [pullquote]فَذَاكَ كَذَّابٌ أخُوْ مَلَاھيْ كَذَّبَ دَعْوَاہ كِتَابَ اللہ[/pullquote]

    تو وہ انتہائی جھوٹا ترین اور ہوس پرستی کا دلدادہ شخص ہے، اس کے دعوے کو اللہ کے قرآن نے مسترد کر دیا ہے۔

    اور آپ سے محبت کی اہم ترین علامت یہ ہے کہ: آپ کی سنت پر چلے اور آپ کا طریقہ اپنائے؛ کیونکہ فرمانبرداری اور اطاعت محبت کا تقاضا ہے: [pullquote]قُلْ إنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللہ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللہ وَيَغْفِرْلَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللہ غَفُورٌ رَحِيمٌ[/pullquote]

    آپ کہہ دیں: اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے [آل عمران: 31]

    آپ سے محبت کی علامات میں یہ بھی ہے کہ: آپ کا دفاع کیا جائے، آپ کی سنت کا پرچار کریں، فرمانِ باری تعالی ہے: [pullquote]إنَّا أرْسَلْنَاكَ شَاھدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (8) لِتُؤْمِنُوا بِاللہ وَرَسُولِہ وَتُعَزِّرُوہُ وَتُوَقِّرُوہُ وَتُسَبِّحُوہُ بُكْرَۃ وَأصِيلًا}[/pullquote]

    یقیناً ہم نے تجھے گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔ [8] تاکہ تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرو ۔[الفتح: 8، 9]

    قرآنی حکم:{ وَتُعَزِّرُوہُ} کی تعمیل آپ کے دفاع اور آپ کی باتوں کی تائید سے ہو گی، اور اسی طرح { وَتُوَقِّرُوہُ} آپ ﷺ کے احترام اور تکریم سے ہو گی۔

    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ ﷺ کی محبت اور احترام کی اعلی ترین عملی مثالیں پیش کی ہیں؛ کیونکہ آپ کی خالص ترین محبت ان کے سودائے قلب میں بس چکی تھی، جس کی ترجمانی انہوں نے اپنے اقوال، افعال سے کی اور اسی کیلیے انہوں نے کسی بھی قیمتی چیز کو خرچ کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ یہ ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ غزوۂ احد میں اپنی ترکش رسول اللہ ﷺ کے سامنے بکھیر کر کہتے ہیں: میری جان آپ پر قربان تو رسول اللہ ﷺ لوگوں کی صورتحال دیکھنے کے لیے دیکھتے تو آپ کو ابو طلحہ کہتے: اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ مت دیکھیں مبادا کوئی دشمن کا تیر آ کر لگ جائے، میرا سینہ آپ کے سینے کے لیے سِپر ہے. ادھر ابو دجانہ رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال سے رسول اللہ ﷺ کو بچاتے ہیں، یہاں تک کہ ابو دجانہ آپ ﷺ پر جھک گئے اور ان کی ساری کمر تیروں سے چھلنی ہو گئی۔ اور زید بن دَثِنَہ رضی اللہ عنہ کو سولی چڑھانے کے لیے بلند کیے جانے کے بعد مشرکین نے کہا: زید! تمہیں اللہ کی قسم ہے، یہ تو بتلاؤ کہ کیا تم پسند کرو گے کہ محمد ہمارے پاس تمہاری جگہ ہوں اور ہم ان کی گردن مار دیں، اور تم اپنے گھر میں پرسکون رہو؟ اس پر انہوں نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تو یہ بھی گوارا نہیں کرتا کہ وہ جہاں بھی ہوں، انہیں وہاں پر ایک کانٹا بھی چبھے اور میں اپنے گھر میں بیٹھا رہوں. اللہ تعالی ہمارے نبی محمد ﷺ پر درود و سلام نازل فرمائے اور آپ کے صحابہ کرام سے راضی ہو۔

    ایسی مثالیں، اے اللہ کے بندو! سلف صالحین میں بہت زیادہ ہیں اور ہماری شدید خواہش ہے کہ ایسی ہی مثالیں آج بھی امت میں رونما ہوں، ہر مسلمان اس کے لیے زیادہ سے زیادہ اپنا حصہ ڈالے۔
    آپ ﷺ سے محبت کی علامت یہ بھی ہے کہ: آپ ﷺ کا زیادہ سے زیادہ تذکرہ کیا جائے؛ کیونکہ جس چیز سے محبت ہوتی ہے اس کا زبان پر تذکرہ بھی زیادہ ہوتا ہے، اور آپ کا تذکرہ کرنے کا حکم اللہ تعالی نے کچھ اس انداز میں دیا ہے: [pullquote]إنَّ اللہَ وَمَلَائِكَتَہُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا[/pullquote]

    اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56] اور قیامت کے دن آپ ﷺ کے قریب ترین وہی لوگ ہوں گے جو آپ ﷺ پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھتے ہوں۔

    آپ ﷺ سے محبت کی علامت یہ بھی ہے کہ: آپ کے دیدار اور ملاقات کا شوق دل میں ہو، اللہ تعالی سے ایمان کی حالت میں نبی ﷺ کا ساتھ مانگے، اور اپنے حبیب ﷺ کے ساتھ جنت میں یک جا فرما دے۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت ذکر کی ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھ سے شدید ترین محبت کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو میرے بعد آئیں گے، ان میں سے ایک اپنے اہل خانہ اور پوری دولت کے بدلے میں مجھے دیکھنے کی خواہش کرے گا. آپ ﷺ سے محبت کی علامت یہ بھی ہے کہ: آپ کی محبت میں غلو نہ کیا جائے؛ کیونکہ غلو آپ ﷺ کی مخالفت اور تصادم ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: [pullquote]وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَھَاكُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوا[/pullquote]

    اور رسول تمہیں جو کچھ دے دے لے لو، اور جس چیز سے روک دے تو اس سے رک جاؤ۔[الحشر: 7]

    اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرا مقام ایسے بڑھا چڑھا کر بیان مت کرو جیسے عیسائیوں نے عیسی بن مریم کے ساتھ کیا، یقیناً میں صرف اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں. بخاری

    آپ ﷺ سے محبت کی علامت یہ بھی ہے کہ: آپ ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں، آپ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کریں؛ کیونکہ یہ بھی محبت کا تقاضا ہے کہ آپ کی سیرت، سوانح، اوصاف اور اخلاقیات کے متعلق معرفت حاصل کریں، جس کے بارے میں آپ بالکل نہیں جانتے اس کی محبت دل میں پیدا ہی نہیں ہو سکتی، نہ اس کا آپ کبھی دفاع کریں گے ، اسی طرح آپ ﷺ کی سنت کا دفاع بھی انہیں جانے اور سمجھے بغیر ممکن نہیں ہے۔ حتی کہ جانوروں اور جمادات کو بھی آپ ﷺ کی معرفت حاصل ہوئی تو آپ ﷺ سے محبت کی مثالیں قائم کر دیں، چنانچہ آپ کی محبت میں کھجور کا تنا رو پڑا، آپ کو پتھروں نے بھی سلام کیا، رسول اللہ ﷺ سے اپنی محبت اور احترام کے اظہار کے لیے جبل احد بھی حرکت میں آیا، اونٹنیاں ایک دوسرے سے بڑھ کر آپ کے آگے آتیں کہ آپ انہیں ذبح کر دیں، اسی طرح آپ ﷺ نے چاند کو اشارہ کیا تو دو لخت ہو گیا، بادلوں کو اشارہ کیا تو سب منتشر ہو گئے، یہ سب کچھ اللہ تعالی کے حکم سے ہوتا تھا۔

    یا اللہ! آپ ﷺ کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے اور آپ کی محبت ہمارے سودائے قلب میں بسا دے، آپ ﷺ سے محبت ہمارے دلوں میں ہماری جانوں اور اہل و عیال سے بھی زیادہ اہم بنا دے، اور ہمیں آپ کی محبت کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین

    اللہ تعالی میرے اور آپ کے لیے قرآن مجید کو بابرکت بنائے، مجھے اور آپ کو قرآنی آیات اور حکمت بھری نصیحتوں سے مستفید فرمائے، میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور عظمت و جلال والے اللہ سے اپنے اور سب مسلمانوں کیلیے تمام گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہوں، اس لیے آپ بھی اسی سے بخشش طلب کرو، بیشک وہ بخشنے والا ہے اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

    دوسرا خطبہ
    تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اس کی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ حصولِ رضائے الہی کی دعوت دینے والے تھے، اللہ تعالی ان پر، ان کی آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔

    مسلم اقوام!
    رسول اللہ ﷺ سے سچی اور دلی محبت میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ ﷺ کی پسند کو اپنی پسند بنائیں کیونکہ اپنے تاثرات میں محبوب کی اقتدا محبت کی سچی دلیل ہے۔ لہذا رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات، آپ کے صحابہ کرام اور اہل بیت سے محبت شرعی فریضہ ہے جو کہ آپ ﷺ کی محبت کے ساتھ نتھی ہے، یہ آپ ﷺ کی اقتدا سے الگ نہ ہونے والا آپ کا حق ہے، بلکہ یہ آپ ﷺ کے کردار کے ساتھ گفتار کہ میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہو، کا تقاضا بھی ہے۔

    مسلم اقوام:
    رسول اللہ ﷺ سے محبت اللہ تعالی کی محبت سے منسلک ہے، اسی طرح اس کا تعلق اللہ تعالی کی وحی اور شریعت سے بھی ہے۔ اللہ تعالی نے مکہ کو اعزاز بخشا اور اسے اعلی مقام دیا، نیز مکہ کی قسم بھی اٹھائی اور فرمایا: [pullquote]لَا أقْسِمُ بِھَذَا الْبَلَدِ[/pullquote]

    قسم ہے اس [مکہ] شہر کی۔[البلد: 1]

    اللہ تعالی نے اس شہر کو حرمت والا بنایا، اسی کو مھبط الوحی ، مسلمانوں کا قبلہ، مناسک ادا کرنے کی جگہ اور ایسا مقام بنایا جس کے ساتھ دلوں کی دھڑکن وابستہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس شہر سے محبت فرماتے تھے، بلکہ آپ اس شہر کی محبت دل میں چھپا نہ سکے اور واضح لفظوں میں اس کا اظہار کر دیا، بلکہ اسی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ قسم اٹھا کر اس کی مزید تاکید بھی فرما دی، آپ اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکے اور آبدیدہ ہو گئے، آپ کے آنسو چھلک رہے تھے اور آپ فرما رہے تھے: اللہ کی قسم! تم میرے نزدیک سب سے محبوب جگہ ہو اگر مجھے یہاں سے نہ نکالا جاتا تو کبھی نہ نکلتا. اس لیے تمام مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس شہر کی شان اور حرمت پہچانیں، اس شہر کو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھنے والوں کے خلاف متحد ہو جائیں، بیت اللہ کا پروردگار بیت اللہ کی حفاظت فرمائے گا۔ مسلمانوں کے جذبات اور طبیعت میں ہیجان پیدا ہو جانا چاہیے، سب کے سب یک لخت اٹھ کھڑے ہوں جیسے کوئی مکہ کی بےحرمتی کرے، مکہ کے احترام کو پامال کرے اور اس پر حملہ کرے۔

    مسلمانو!
    اللہ تعالی نے مکہ مکرمہ کو دائمی حرمت والا شہر قرار دیا ہے، بلکہ اس پر حملہ کرنے والے کے جرم کو سنگین ترین جرم قرار دیا اور فرمایا:[pullquote] إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاہُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيہِ وَالْبَادِ وَمَنْ يُرِدْ فِيہِ بِالْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ ألِيمٍ[/pullquote]

    بیشک جو لوگ کافر ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں نیز مسجد الحرام سے بھی روکتے ہیں جسے ہم نے مقامی یا بیرونی تمام لوگوں کیلیے برابر بنایا ہے، اور جو بھی اس میں الحاد اور ظلم کمانے کا ارادہ کرے گا ہم اسے درد ناک عذاب چکھائیں گے۔[الحج: 25]

    یہ مکہ مکرمہ کی امتیازی صفت ہے کہ اگر کوئی دل میں برائی کا پختہ ارادہ بھی کرے تو اسے سزا ملے گی، چاہے عملی طور پر نہ کرے، چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کوئی بھی شخص برائی کا ارادہ کرے تو وہ اس پر لکھ دی جاتی ہے، چاہے کوئی عدن ابین میں بیٹھ کر اس گھر میں کسی کو قتل کرنے کا ارادہ بھی کرے گا تو اللہ تعالی اسے درد ناک عذاب سے دوچار فرمائے گا.

    قرآن کریم کی آیت میں مذکور ”الحاد“ میں ہر وہ چیز آتی ہے جو راہِ حق سے دور اور ظلم ہو؛ یہی وجہ ہے کہ جس وقت ہاتھی والوں نے بیت اللہ کو ڈھانے کی کوشش کی تو اللہ تعالی نے ان پر ابابیل بھیج دیے جو انہیں کھنگر کے پتھر مارتے تھے ابابیلوں نے انہیں کھایا ہوا بھوسا بنا دیا۔
    اور بخاری مسلم میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک لشکر کعبہ پر حملے کی کوشش کرے گا جب وہ بیداء مقام پر ہوں گے تو شروع سے آخر تک سب کو زمین بوس کر دیا جائے گا.
    اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے سال خزاعہ قبیلے نے بنو لیث کے ایک شخص کو دورِ جاہلیت میں ہونے والے ایک قتل کے قصاص میں قتل کر دیا، تو رسول اللہ ﷺ خطابت کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالی نے مکہ سے ہاتھیوں کو روکا لیکن مکہ پر اپنے رسول اور مومنوں کو مسلط فرمایا؛ خبردار! مجھ سے پہلے یا میرے بعد کسی کیلیے بھی مکہ [میں قتال] جائز نہیں تھا، مجھے بھی دن کے کچھ حصے میں [قتال کا ]جواز دیا گیا تھا، خبردار! مکہ مکرمہ اس وقت [کے پورا ہونے]سے ہی حرمت والا ہو گیا ، یہاں کے کسی کانٹے یا درخت کو نہ کاٹا جائے، اور گری پڑے چیز صرف اعلان کرنے والا ہی اٹھائے. متفق علیہ
    اس لیے [ان لوگوں سے] بالکل لاتعلقی کا اظہار کرو. اللہ کے بندو! اور ان کی سخت مذمت کے ساتھ انہیں ملامت بھی کرو جو رسول اللہ ﷺ کے محبوب شہر ام القری مکہ مکرمہ پر بزدلانہ حملے کرتے ہیں، اللہ تعالی اس شہر کو تمام جاہل حملہ آوروں، دھوکا باز سیاہ کاروں، شیطان مردود، اجڈ اور بےنسب لوگوں سے محفوظ رکھے جو کہ اسلام کے خلاف دسیسہ کاریوں میں لگے رہتے ہیں، اسی کا مقدر تباہی ہے، اللہ تعالی اس مکاری کو ان کی تباہی کا باعث بنائے، اور تباہ و برباد فرما کر دوسروں کے لیے عبرت بنا دے۔
    یا اللہ! اس ملک کی خصوصی حفاظت فرما،
    یا اللہ! اس ملک کو اپنا خصوصی تحفظ عطا فرما،
    یا اللہ اس ملک کے بارے میں برے ارادے رکھنے والوں کو اپنی جان لے لالے پڑ جائیں، اس کی عیاری اسی کے گلے میں ہڈی بنا دے ، اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے،
    یا قوی! یا عزیز!
    یا اللہ! سرحدوں پر پہرہ دینے والے ہمارے فوجیوں کی مدد فرما،
    یا اللہ! ان کی خصوصی حفاظت فرما، یا اللہ! انہیں اپنا خصوصی تحفظ عطا فرما،
    یا اللہ! ان کے نشانے درست فرما، ان کے عزائم مضبوط فرما، اور ظالموں کے خلاف ان کی خصوصی مدد فرما۔
    یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما اور اپنے موحد بندوں کی مدد فرما،
    یا اللہ! ہمارے حکمران کو خصوصی توفیق سے نواز، ان کی خصوصی مدد فرما، ان کے ذریعے اپنا دین غالب فرما، یا اللہ! انہیں اور ان کے دونوں نائبوں کو ملک و قوم حق میں بہتر فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرما۔
    یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا رب العالمین!
    یا اللہ! تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ، تو ہی غنی ہے اور ہم فقیر ہیں، تو ہی غنی ہے اور ہم فقیر ہیں، ہم پر بارش نازل فرما، اور نازل ہونے والی بارش کو ہمارے لیے قوت اور سہارے کا باعث بنا، یا اللہ! ہم پر بارش نازل فرما، اور ہمیں مایوس مت کرنا، یا اللہ! ہم پر بارش نازل فرما، اور ہمیں مایوس مت کرنا۔
    یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ایسی بارش ہو جو برکت والی، بے ضرر، زر خیز، موسلا دھار، بڑے بڑے قطروں والی، بھر پور ، ساری زمین پر ہونے والی مفید اور نقصانات سے مبرّا بارش عطا فرما، یا ارحم الراحمین ! اپنی رحمت کے صدقے جلد از جلد ہمیں بارش عطا فرما۔
    یا اللہ! بارش کے ذریعے دھرتی کو لہلہا دے، شہروں اور دیہاتوں سب کیلیے بارش کو مفید بنا دے، یا اللہ! شہروں اور دیہاتوں سب کیلیے بارش کو مفید بنا دے۔
    یا اللہ! ہم تجھ سے مغفرت طلب کرتے ہیں ؛ کیونکہ تو ہی گناہ بخشنے والا ہے، ہم پر آسمان سے موسلا دھار بارش نازل فرما، یا اللہ! اپنے بندوں اور جانوروں سب کو بارش عطا فرما، یا اللہ! اپنے بندوں اور جانوروں سب کو بارش عطا فرما، یا اللہ! اپنے بندوں اور جانوروں سب کو بارش عطا فرما، اپنی رحمت سب کو عطا فرما، اور اپنی رحمت کے صدقے ویران ہوتی دھرتی کو پھر سے زندہ کر دے، یا ارحم الراحمین!

    اللہ کے بندو!
    اللہ تعالی نے تمہیں اپنے جس نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے ان پر درود و سلام پڑھو، حکم دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا: [pullquote]إنَّ اللہ وَمَلَائِكَتَہُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْہ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا[/pullquote]

    اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الاحزاب: 56]

    [pullquote]اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إبْرَاھِيمَ وَعَلَى آلِ إبْرَاھِيمَ، إنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اَللَّھُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إبْرَاھِيمَ وَعَلَى آلِ إبْرَاھِيمَ، إنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.[/pullquote]

    یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین : ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

    (مسجد نبوی ﷺ میں فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان حفظہ اللہ کے اس خطبہ جمعہ کا ترجمہ شفقت الرحمن نے کیا ہے. جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ایم ایس تفسیر کے طالب علم ہیں اور ادارہ ترجمہ، مسجد نبوی میں بطور اردو مترجم فرائض انجام دے رہے ہیں. مسجد نبوی ﷺ کے خطبات کا ترجمہ اردو دان طبقے تک پہنچانا ان کا مشن ہے. ان کے توسط سے دلیل کے قارئین ہر خطبہ جمعہ کا ترجمہ دلیل پر ملاحظہ کرتے ہیں.)

  • دھرنا تحریک: مثبت اور منفی پہلو – محمد عامر خاکوانی

    دھرنا تحریک: مثبت اور منفی پہلو – محمد عامر خاکوانی

    کئی ماہ پہلے کی بات ہے، عالمی شہرت یافتہ موٹی ویشنل سپیکر اور مائنڈ میپ تکنیک کے بانی ٹونی بوزان کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ ٹونی کے ساتھ تین چار گھنٹوں کی نشست رہی، جس کے دوران کئی کتابوں کے مطالعہ سے بھی زیادہ باتیں سیکھیں۔ ٹونی بوزان نے سکندر اعظم کا واقعہ سنایا کہ جب وہ کوئی معرکہ جیت جاتا تو تھکا ہارا اور کبھی زخمی ہونے کے باوجود اپنے شاہی خیمے میں نہ جاتا۔ سکندر عام سپاہی کا لباس پہن کر اپنے چہرے پر کچھ کالے نشان لگا لیتا تاکہ پہچانا نہ جائے اور پھر لشکر کے مختلف حصوں میں جاتا۔ عام سپاہیوں کے ساتھ بیٹھتا، ان کی تکلیف کو محسوس کرتا، ان کے مائنڈ سیٹ اور احساسات کا اندازہ کرتا۔ باتوں باتوں میں ان سے جنگ کا فیڈ بیک لیتا اور پھر رات گئے اپنے خیمے میں جا کرغسل کرتا، شاہی لباس پہن کر باہر آتا، سپاہیوں کو جمع کرتا، ایک چبوترے پر کھڑا ہو کر ان سے خطاب کرتا اورکہتا: ”آج ہم جنگ جیت گئے ہیں، مگر مجھے اندازہ ہے کہ لڑائی کتنی سخت رہی، تمہارے کچھ دوست کام آئے، کچھ زخمی ہوئے، تم لوگوں کا بھی لہو بہا، مجھے اس کا اندازہ ہے۔ میں بھی تمہارے ساتھ ہی تھا، میرا بھی خون نکلا، میرے بھی عزیز دوست نشانہ بنے، مگر آخری نتیجہ یہ نکلا کہ ہم جنگ جیت گئے۔ اپنی غلطیوں کو ہم نہیں دہرائیں گے اور اگلی جنگ اس سے بہتر انداز میں لڑیں اور جیتیں گے‘‘۔ اس کے بعد سکندر اعلان کرتا کہ اگلے تین دن جشن کے ہیں۔ کسی سپاہی پر کوئی روک ٹوک نہیں، خوب کھاؤ پیو، جو مرضی آئے کرو، جی بھر کر جشن مناؤ۔ اس انداز میں سپاہیوں کے دلوں کو چھونے، ان کے دکھ درد میں شریک ہونے کی وجہ سے یونانی فوج سکندر کو دیوتا مانتی اور اس کے پسینے پر خون بہانے کو تیار رہتی۔

    عمران خان نے بدھ کو یوم تشکر منانے کا اعلان کیا۔ مجھے خیال آیا کہ کیا یوم تشکر منانے سے پہلے گزری رات عمران خان نے بھی اپنی پالیسیوں، حالیہ حکمت عملی کا تجزیہ کیا یا یہ رات بھی عام راتوں کی طرح گزرگئی؟

    عمران خان کی حکمت عملی کا تجزیہ کیا جائے تو بعض چیزیں اس نے حاصل کی ہیں اور کچھ نقصانات بھی ہوئے۔

    سب سے اہم یہ کہ وہ ایک بار پھر حقیقی اپوزیشن لیڈر بن کر ابھرا۔ اس پورے احتجاج کے دوران ملک بھر پر یہ واضح ہوگیا کہ اچھا یا برا، جذباتی یا دانشمند، کم عقل یا عقلمند کی بحث سے قطع نظر اپوزیشن لیڈر وہ اکیلا ہی ہے۔ واحد شخص ہے جو میاں نواز شریف کی حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتا اور اپنی کمزور تنظیم کے باوجود ان پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ اپوزیشن کی دوسری جماعتیں ایک بار پھر پیچھے چلی گئی ہیں، خاص کر پیپلزپارٹی کو شدید دھچکا پہنچا۔ پنجاب سے پہلے ہی فرینڈلی اپوزیشن کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا صفایا ہوچکا، اب بلاول بھٹو کو میدان میں اتار کر اور اس سے جذباتی تقاریر کروا کے کچھ ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ پہلے یہ کہا کہ ستائیس دسمبر سے پیپلز پارٹی لانگ مارچ شروع کرے گی، پھر جب دیکھا کہ عمران بہت آگے نکل گیا ہے اور کہیں میدان مار نہ لے تو پھر جلد بازی میں سات نومبر سے احتجاج کرنے کا اعلان ہوا، مگر اب تحریک انصاف کا احتجاج ختم کرنے سے پیپلزپارٹی کے پاس کچھ نہیں بچا۔ جماعت اسلامی کو بھی دھچکا لگا؛ حالانکہ جماعت نے اس حوالے سے کچھ بھاگ دوڑ کی تھی۔ سپریم کورٹ میں وہ سب سے پہلے گئے، سراج الحق واحد سیاسی لیڈر تھے جو یکم نومبر کو سپریم کورٹ پہنچے۔ کرپشن کے خلاف جماعت احتجاجی جلسے بھی کر رہی ہے؛ تاہم سپریم کورٹ میں بڑا فریق تحریک انصاف ہے، کریڈٹ بھی اسی کو جائے گا۔

    عمران خان کا دوسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ پڑھے لکھے پروفیشنلز کو عملی سیاست میں لے آیا۔ یہ پڑھا لکھا طبقہ ہر معاشرے کی کریم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر، انجینئر، چارٹرڈ اکائونٹنٹ، آئی ٹی پروفیشنلز، سافٹ ویئر ڈویلپرز، اداکار، فیشن ڈیزائنر، ٹیچر اور دیگر شعبوں کے پڑھے لکھے لوگوں کو صرف تحریک انصاف ہی سیاست کی طرف کھینچ لائی ہے۔ پہلے یہ صرف ووٹر تھے، اب پہلی بار انہیں ماریں کھانے اور پولیس کی آنسو گیس شیلنگ کا بھی تجربہ ہوا۔

    تیسری کامیابی ممکنہ پاناما کمیشن کے حوالے سے ہے۔ عمران خان نے اپنے دباؤ کے ذریعے تین چار وہ باتیں حکومت سے منوا لی ہیں جو اس سے پہلے نوازشریف صاحب ماننے کو قطعاً تیار نہیں تھے۔ مثال کے طور پر میاں صاحب اپنی مرضی کا کمیشن بنانا چاہتے تھے، اب یہ کمیشن سپریم کورٹ کی مرضی سے بنے گا۔ حکومت اس کمیشن کا دائرہ کار متعین کرنے پر بضد تھی، اب یہ دائرہ کار سپریم کورٹ طے کرے گی۔ میاں صاحب اور ان کے اتحادیوں کی یہ بھرپور کوشش تھی کہ اگر کمیشن بن جائے تو اس کا فیصلہ حکومت پر بائنڈنگ نہ ہو، سپریم کورٹ نے پہلی شرط ہی یہ منوائی کہ دونوں فریق اس کا فیصلہ مانیں گے۔ پاناما لیکس والے معاملے کو سات آٹھ ماہ ہوگئے، ابھی تک میاں نوازشریف کی طرف سے اس کا کوئی باقاعدہ جواب آیا تھا اور نہ ہی وہ ٹی او آرز طے کرنے دے رہے تھے، اب حکومت یہ جواب دینے کی پابند ہے اور ٹی او آرز کے حوالے سے بھی حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کا ہوگا۔

    عمران نے خاصا کچھ کھویا بھی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ تحریک انصاف کی تنظیمی کمزوریاں بری طرح ایکسپوز ہوئیں۔ درست کہ پنجاب حکومت نے بڑی بے رحمی سے تشدد کیا اور پکڑ دھکڑ کی، مگر کسی بھی احتجاجی تحریک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اپوزیشن اسے ناکام بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ تحریک انصاف ایسا نہیں کر سکی۔ یہ ایک حقیقت ہے جو انصافی کارکنوں کو تسلیم کرنی چاہیے۔ وہ کوئی ایک شہر بھی بند کرنے کی سکت اور استعداد نہیں رکھتے۔ پنجاب سے جتنے لوگ نکلنے چاہیے تھے، نہیں نکل پائے۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ جن لیڈروں نے اپنے شہروں سے کارکنوں کو موٹی ویٹ کر کے باہر نکالنا تھا، وہ سب تو بنی گالہ پہنچ گئے تھے۔ وقت سے پہلے ان کے جانے کی کوئی تک نہیں تھی۔ اگر خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ جلوس لے کر نہ چلتے تو تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کا بھرم بھی رکھنا ممکن نہیں تھا۔ عمران خان کی اپنی پالیسی بھی سمجھ نہ آنے والی تھی۔ انہیں اب عوامی سیاسی لیڈر بننے کے گر سیکھنے چاہییں۔ انہیں باہر نکل کر اپنے کارکنوں کا ساتھ دینا اور پولیس کے ساتھ سینگ پھنسانے چاہییں۔ نجانے وہ کیوں دو نومبر کے چکر میں گھر بیٹھے رہے جبکہ پورے ملک میں کارکن مار کھا رہے تھے،گرفتاریاں دے رہے تھے۔ خاص کر جب بنی گالہ کے باہر خواتین تک کو پولیس پکڑ رہی تھی، تب عمران خان کو باہر آنا چاہیے تھا۔ ان کے اس رویے سے بہت سوں کو مایوسی ہوئی۔ یہ بھی واضح ہوگیا کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی پہلی، دوسری صف میں خاصی صفائی کی ضرورت ہے۔ علی امین گنڈا پور جیسے لوگوں سے فوری طور پر جان چھڑا لینی چاہیے۔ ایسی بدنامی پر ایک کیا ایم پی اے کی کئی سیٹیں قربان کی جا سکتی ہیں۔ تحریک انصاف کونئے سرے سے اپنی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے، اس پر ان شاء اللہ تفصیل سے بات ہوگی۔

  • نواز شریف، فوج اور پنجابی اشرافیہ – مجاہد حسین خٹک

    نواز شریف، فوج اور پنجابی اشرافیہ – مجاہد حسین خٹک

    مجاہد حسین خٹک اس وقت صورتحال یہ ہے کہ میاں نواز شریف صاحب نے پاکستان کے انتخابی نظام میں موجود خامیوں کو پوری طرح سمجھ لیا ہے اور وہ اس پوزیشن میں آ چکے ہیں کہ الیکشن Manipulate کر کے اپنی حکومت قائم کرسکیں۔ انہیں پنجاب کے مخصوص شہروں سے ہی اتنی نشستیں مل جاتی ہیں کہ وہ صوبے کے دیگر حصوں سے تھوڑے سے مفاد پرست سیاست دانوں کو ملا کر حکومت بنا سکتے ہیں۔ اگر کوئی کمی بیشی ہو جائے تو آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد کاسہ گدائی ہاتھ میں تھامے ان کے در پر بیٹھی ہوتی ہے۔

    1985ء سے پنجاب پر ان کے خاندان کی حکمرانی ہے، جس کی وجہ سے یہاں کے دانشوروں کی ایک بڑی کھیپ وہ خرید چکے ہیں۔ بیوروکریسی ان کے انگوٹھے کے نیچے تڑپ تڑپ کے نیم جان ہو چکی، عدلیہ میں ان کے ممنون احسان لوگوں کی شمولیت کئی دہائیوں سے مسلسل جاری ہے۔ یہی لوگ آگے جا کر ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز بنتے ہیں۔ یہ تمام عناصر مل کراس پنجابی اشرافیہ کی تشکیل کرتے ہیں جس سے جنوبی پنجاب اور ملک کے تین دوسرے صوبوں میں شدید نفرت کی جاتی ہے۔ اشرافیہ کے اس گروہ میں سرمایہ داروں کو بھی شامل کرلیں تو یہ ایک بہت طاقتور مافیا بن جاتا ہے جس کے لیے نواز شریف کے حق میں انتخابی نظام ہائی جیک کر لینا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

    تاہم اشرافیہ کا یہ کلب صرف اتنا ہی نہیں کرتا بلکہ نواز شریف کی حکومت کے اردگرد ایک طاقتور حصار بھی قائم کر لیتا ہے۔ یہ حصار ایک کثیرالسطحی (Multi-layered) نظام ہے۔ ہرسطح حکومت پر ہونے والے وار خود پہ سہتی ہے جس کی وجہ سے حملہ آور حصار کی ہر دیوار پر اپنی توانائیاں خرچ کرتے کرتے جب آخری سطح تک پہنچتا ہے تو نیم جان ہو چکا ہوتا ہے۔ اس حصار کا پہلا دائرہ بیوروکریسی ہے جو شہر اور قصبے کی سطح پر طاقتور برادریوں کو اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔ دوسری سطح پولیس کی ہے جس کے ذریعے مخالفین کی سرکوبی کی جاتی ہے۔ اس نظام کی سب سے آخری سطح عدلیہ ہے جو اس وقت میدان عمل میں آتی ہے جب حملہ آور اپنی توانائیاں خرچ کر کے واپسی کا باعزت رستہ مانگ رہا ہوتا ہے۔ پچھلے دھرنے میں عمران خان نے اس سطح کو بھی روند ڈالا تھا لیکن اس وقت تک اس کا غنیم اس قدر نڈھال ہو چکا تھا کہ نواز شریف پر آخری حملہ کرنے کی طاقت ہی نہیں بچی تھی۔

    نوازشریف نے بھی مارٹن لوتھر کی طرح تمام عمر ایک خواب دیکھا ہے مگر اس کی نوعیت یکسر مختلف ہے۔ وہ ہر صورت فوج کو ایک مغلوب حالت میں اشرافیہ کے اس کلب کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔ اسے بخوبی معلوم ہے کہ جونہی فوج اس کی گرفت میں آ گئی، اس کے خاندان کو اگلی کئی نسلوں تک حکمران رہنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ باقی صوبے جتنے بھی ناراض رہیں، فوج کے ذریعے انہیں اپنی اوقات میں رکھنا ممکن ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے چیلنج کرنے والا کوئی بھی ادارہ باقی نہیں رہے گا۔ اس کے برعکس فوج یہ سمجھتی ہے کہ وہ خود اشرافیہ کے اس کلب کا حاکم بننے کا حق رکھتی ہے۔ اقتدار کے کیک کو وہ بطور ایک غالب فریق کے کھانا چاہتی ہے۔ اسے کوئی اعتراض نہیں کہ اس کیک کے کچھ ٹکڑے نوازشریف اور باقی ادارے لے جائیں۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں جاری اس کشمکش کی شاخسانے مسلسل ہمارے سامنے احتجاجی تحریکوں کی صورت میں آتے رہتے ہیں۔

    نواز شریف کے اس سارے ماڈل میں ایک اہم خامی ہے۔ اقتدار کے کھیل میں شامل دیگر سیاست دان یہ جانتے ہیں کہ انتخابی نظام کی خرابیاں انہیں کبھی اقتدار میں نہیں آنے دیں گی۔ وہ نہ ہی طویل عرصہ سے پنجاب پر حکمران رہے ہیں جس کی وجہ سے بیوروکریسی ان کے حق میں کام کرے اور نہ ہی عدلیہ میں اپنے لوگ شامل کرا سکے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے چور رستے تلاش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کا دور اقتدار کبھی بھی پرسکون نہیں ہوتا۔ دیگر سیاست دان فوج سے ہاتھ ملا لیتے ہیں اور حکومت کو مسلسل دباؤ میں رکھتے ہیں۔ نواز شریف پر جب بہت دباؤ آجائے تو وہ فوج سے سمجھوتہ کر لیتا ہے جبکہ باقی سیاست دان صرف وعدہ فردا پر ہی ٹرخا دیے جاتے ہیں۔

    عمران خان کی پارلیمنٹ سے بےزاری اور فوج کی طرف واضح رجحان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ انتخابی نظام سے اپنی امیدیں ختم کر بیٹھا ہے، تاہم چونکہ وہ خود سر انسان ہے، اس لیے فوج اسے حکومت میں لانے سے ہچکچاتی ہے۔ یہ بات اب یقینی نظر آتی ہے کہ فوج اور نواز شریف ایک فیصلہ کن جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ شاید عمران خان اسی وقت کا منتظر ہے جب اس جنگ کا فائنل راؤنڈ شروع ہو اور اسے اقتدار کی غلام گردشوں میں داخل ہونے کا موقع مل سکے۔

    میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر نواز شریف کی جگہ کوئی مدبر سیاست دان اقتدار میں ہوتا تو وہ انتخابی نظام کو شفاف بنانے کی کوشش کرتا اور اداروں کو خودمختاری دیتا تاکہ اقتدار کے دیگر کھلاڑیوں کے پاس اپنی قسمت آزمائی کے لیے ایک ایسا میدان موجود رہے جہاں وہ اپنی کارکردگی کی وجہ سے میچ جیت سکیں۔ اس سے غیر ضروری جھگڑے پیدا نہ ہوتے اور ملک ترقی کی جانب گامزن رہتا۔ لیکن شاید ابھی ایک لمبا انتظار ہمارے نصیب میں لکھا ہے۔ اس وقت تک اس ساری کشمکش کو میں جمہوریت کا نام دینے سے گریزاں ہی رہوں گا۔

  • دھرنا منسوخی، عمران خان کی کامیابی کیسے؟  آصف محمود

    دھرنا منسوخی، عمران خان کی کامیابی کیسے؟ آصف محمود

    آصف محمود شام سے ایک ہی سوال دریچہ دل پر دستک دے رہا ہے، کیا عمران خان ناکام ہوئے؟ پانامہ لیکس پر عمران خان کی ساری جدوجہد کا حاصل کیا ہے؟ وہ کامیاب ہوئے یا بری طرح ناکام؟ عمران خان کو میں نے کبھی’گنجائش‘ نہیں دی بلکہ بعض اوقات تو کچھ زیادہ ہی شدت سے میں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے، میری رائے میں وہ اپنی جدوجہد کے باب میں کامیاب اور سرخرو ہیں۔ اور یہ کامیابی اتنی غیر معمولی ہے کہ وہ مبارک کے مستحق بھی ہیں۔ ایک ایسے عالم میں جب ان کے تازہ فیصلے پر طنز و تشنیع کے تیر برسائے جا رہے ہیں، اپنے اس ناقد کی جانب سے وہ مبارک قبول فرمائیں۔

    عمران خان کی کامیابی کیا ہے؟ میں عرض کر دیتا ہوں۔

    1۔ ان کی پہلی کامیابی یہ ہے کہ نظام کی خرابیوں کے خلاف انہوں نے عوام میں جو شعور پیدا کیا اسے آخری مرحلے میں اداروں کی مضبوطی کے قالب ڈھال دیا۔ ایسا نہیں کیا کہ لوگوں کو نظام سے متنفر کر کے کسی انتہا کی طرف دھکیل دیا ہو۔ انقلابی تصورات کے حامل گروہ بالعموم اسی انتہاء کا شکار ہو جاتے ہیں اور بغاوت پر اتر آتے ہیں یا پھر وہ اپنے تصورات کی ایک الگ دنیا آباد کر کے اس میں یوں بسیرا کرتے ہیں کہ معاشرے کے لیے اجنبی ہو جاتے ہیں۔ عمران اس نظام کو چیلنج بھی کر رہا ہے لیکن ان دونوں انتہاؤں سے بھی اپنے وابستگان کو بچا رہا ہے۔ وہ نظام کی خرابیوں کو للکار رہا ہے لیکن اس کی یہ للکار کسی انارکی کی شکل اختیار کرنے کے بجائے سپریم کورٹ کی بات مان کر اداروں کی طاقت میں اضافہ کر رہی ہے۔ وہ نظام کی خرابیوں کا خاتمہ چاہتا ہے لیکن کسی غیر فطری طریقے سے نہیں بلکہ ایک آئینی طریقے سے اور اداروں کو مضبوط کر کے۔ اس توازن کو قائم رکھنا کیا یہ معمولی کامیابی ہے۔

    2۔ بعض ناقدین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ عمران نے حاصل کیا کیا؟ یہ سب کچھ تو وزیر اعظم پہلے ہی آفر کر رہے تھے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ ٹی او آرز پر حکومت مان کر نہیں دے رہی تھی۔ اسے اپنے ٹی او آرز پر اصرار تھا۔ اس نے معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجا تو ٹھوس اعتراضات کے ساتھ عدالت نے واپس بھجوا دیا۔ ایسے میں بات آگے کیسے بڑھتی۔اس وقت سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ ٹی او آرز وہ خود بھی بنا سکتی ہے۔ میں نے دو ہفتے قبل عمران خان سے سوال کیا کہ حکومت آپ کا وہ کون سا مطالبہ مان لے تو آپ اسلام آباد دھرنا منسوخ کر سکتے ہیں۔ ان کا جواب تھا ’’حکومت ا پنے ٹی او آرز پر اصرار نہ کرے، اپوزیشن کے ٹی او آرز مان لے تو دھرنا منسوخ کیا جا سکتا ہے‘‘۔ اس وقت جب دھرنا منسوخ ہوا ہے عملا یہی صورت حال ہے کہ اب معاملہ حکومتی ٹی او آرز کے تحت نہیں دیکھا جائے گا۔ کیا یہ عمران خان کی کامیابی نہیں ہے؟

    3۔ عمران خان نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ اس کا مقصد تصادم یا لاشے گرا کر جمہوریت کا بستر گول کرنا نہیں بلکہ احتساب کی ایک بامعنی صورت گری ہے۔ انا کا قیدی بن جاتا تو تصادم کرانا اس کے لیے مشکل نہ تھا کہ ہر رہنما اپنے حصے کے بےوقوف ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے لیکن عمران نے دھرنا منسوخ کر کے بتا دیا کہ وہ یہ سب نواز شریف کی نفرت میں نہیں بلکہ بامعنی احتساب کے لیے کر رہا ہے۔ اب احتساب کی ایک صورت نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ اگرچہ اس میں بہت سے قانونی اور فنی مسائل ہیں لیکن بہرحال ایک سمت میں سفر شروع ہو گیا ہے اور قوموں کی زندگی میں تبدیلی دھیرے دھیرے ارتقاء سے آتی ہے، کسی راتوں رات آنے والے انقلاب سے نہیں۔ یہ سفر کبھی بار آور ثابت ہوا تو عمران خان کا شمار اس کے اولین نقوش میں ہو گا۔

    احتساب کا جو سفر اب شروع ہوا ہے، یہ اگر سست روی کا شکار ہو جاتا ہے تو کٹہرے میں قاضی ہوگا، عمران خان نہیں۔
    عمران خان پر تنقید ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی، لیکن فی الوقت اسے دل کی گہرائیوں سے مبارک۔
    ویل پلیڈ عمران خان۔ تم ہارے نہیں ہو، تمہارا سفر امید کا سفر ہے۔ تمہاری پہاڑ جیسی غلطیوں کے باوجود یہ سفر جاری رہنا چاہیے۔

  • پاناما لیکس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، مقامِ شکر تو یقیناً ہے – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    پاناما لیکس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، مقامِ شکر تو یقیناً ہے – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق حکومتی اہل کار جو بھی کہیں آج سپریم کورٹ نے جو فیصلہ کیا ہے اس پر یقیناً اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ پچھلے چھ مہینوں سے حکومت جو کچھ کر رہی تھی، اس کے بعد آج جو کچھ ہوا یہ یقیناً حکومت کے لیے بہت بڑا سیٹ بیک ہے۔

    جو لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ سپریم کورٹ آج ہی نواز شریف صاحب کو فارغ کر دے گی، وہ عدالتی نظام سے واقف نہیں ہیں۔ کسی بھی وکیل کو اس کی توقع نہیں تھی۔ نہ ہی قانوناً اس کی کچھ گنجائش تھی۔ اگر آج عدالت پٹیشنز خارج کر کے کہہ دیتی کہ معاملہ قابلِ سماعت نہیں ہے تو یہ حکومت کی فتح ہوتی۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ پہلے ایک دفعہ اس معاملے میں پڑنے سے پہلوتہی کرچکی تھی۔

    جن کا یہ خیال ہے کہ عمران خان کو کمیشن پر راضی نہیں ہونا تھا، وہ یہ سوچ لیں کہ کیا اس کا مطلب سپریم کورٹ پر عدم اعتماد نہ ہوتا؟ اس کے بعد سپریم کورٹ اس معاملے میں کیا کرسکتی؟ یہ آپشن تو تب آتا ہے جب آپ ریاست کے پورے نظام کا انکار کر دیں۔

    جن کا یہ کہنا ہے کہ کمیشن تو حکومت پہلے ہی بنا رہی تھی وہ یا خود ناسمجھ ہیں یا دوسروں کو سادہ لوح سمجھتے ہیں۔
    چند پہلو یہ ہیں:
    1۔ نواز شریف صاحب اپنی مرضی کا کمیشن بنانا چاہ رہے تھے. کورٹ نے کہا کمیشن ہماری مرضی کا ہوگا۔
    2۔ نواز شریف صاحب کہتے تھے اس کمیشن کا دائرہ کار میں متعین کروں گا. کورٹ نے کہا ہم کریں گے۔
    3۔ نواز شریف صاحب کی ساری کاوش یہ منوانے کےلیے تھی کہ کمیشن کا فیصلہ ان پر بائنڈنگ نہ ہو. کورٹ نے پہلے ہی ان سے ضمانت لی کہ فیصلہ وہ مانیں گے۔
    4۔ نواز شریف صاحب نے آج تک نہ جواب دعوی دیا تھا نہ ہی ٹی او آر. کورٹ نے ان کو پابند کیا کہ پرسوں تک دونوں دینے ہیں ۔

    عملاً تو سپریم کورٹ نے شریف صاحب کی ”تلاشی لینے“ کا کام شروع کر لیا ہے! کیس کی پہلی سماعت میں بندہ اس سے زیادہ کیا چاہتا ہے؟ اس لیے مقامِ شکر تو یقیناً ہے۔

    جو کہتے ہیں اتنا پریشر بڑھانے کے بجائے آج تک انتظار کرنا چاہیے تھا، وہ اس پر غور کریں کہ اتنا پریشر نہ ہوتا تو شریفوں کی سفاکیت کا مظاہرہ کیسے ہوتا؟ خود غرضی کی یہ بدترین مثال کیسے قائم ہوتی کہ ذاتی مفاد کے لیے ایک صوبے سے دوسرے صوبے تک جانے کے تمام راستے اس دوسرے صوبے کی عین سرحد پر بند کر دیں اور پھر طاقت کا اتنا سفاک مظاہرہ بھی کریں؟ پھر یہ بھی سوچیں کہ کیا پھر کورٹ یہی فیصلہ کرتی؟ کمیشن بنانے کے مسئلے پر کورٹ کے سابقہ رویے اور آج کے رویے پر فرق تو امید ہے کہ اب صاف واضح ہوگا۔

    یہی امید کی وہ کرن ہے جو مجھ جیسے رجائیت پسند لوگوں کو شکر پر ابھارتی ہے کیونکہ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اس دفعہ کورٹ اور ریاستی ادارے واقعی تلاشی لینا چاہتے ہیں۔ یاد ہوگا۔ چند دن قبل میں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ دھرنے کی نوبت بھی نہ آئے اور شریفوں سے جان بھی چھوٹ جائے۔ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری سن لی ہے! فالحمد للہ علی ذلک

  • کیا عمران خان کو شکست ہوئی ہے؟ محمد عامر خاکوانی

    کیا عمران خان کو شکست ہوئی ہے؟ محمد عامر خاکوانی

    منگل کی سہ پہر فیس بک کھولی تو ہر جگہ یہی سوال بکھرا نظر آیا۔ کہیں اعلانیہ لفظوں میں اظہار، کہیں پر شاکڈ اور سیڈ کے علامات والے سٹیٹس، کہیں بغیر الفاظ کے حزن برستا نظر آیا۔ ناصر کاظمی کی زبان میں ”اداسی بال کھولے سو رہی تھی“۔ مسلم لیگ ن کے حمایتی جو رات تک گھبرائے ہوئے، چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے تھے، آج ان کی خوشی سمائے نہیں سما رہی تھی۔ پرجوش، خوشی سے سرشار سٹیٹس۔ کہیں پر انصافیوں کو چٹکیاں لی جارہی ہیں تو کسی جگہ طنز کے تیر برسا کر اگلے پچھلے حساب چکائے جا رہے ہیں۔

    صاحبو! مسلم لیگ ن کے متوالوں پر تو کوئی حیرت نہیں کہ وہ اپنی خوشی اور غم میاں صاحب بلکہ زیادہ درست یہ کہہ لیں کہ شاہی خانوادے سے وابستہ کر بیٹھے ہیں۔ میاں صاحب کی مسکراہٹ سے ان کے متوالے پرستار کھل اٹھتے ہیں، میاں کے جگمگاتا چہرہ غبار آلود ہوجائے، پیشانی پر پسینہ اور مسکراہٹ غائب ہو تو مسلم لیگی متوالوں کے لیے وہ روز ماتم بن جاتا ہے۔ حیرت تو مجھے تحریک انصاف کے کارکنوں، حمایتیوں پر ہے کہ وہ کس بات پر اداس، فرسٹریشن کا شکار اور خود کو لوزر سمجھ رہے ہیں؟

    جہاں تک میں پچھلے دو ہفتوں کے اخباری بیانات، ٹی وی انٹرویوز اور فیس بک سٹیٹس سے سمجھا ہوں، تحریک انصاف کے قائد، رہنما، کارکن اور حامی اپنی احتجاجی تحریک دو تین نکات کی بنیاد پر چلا رہے ہیں۔ بنیادی نکتہ یہی ہے کہ پاناما لیکس کے بعد جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے جو وزیراعظم نوازشریف اور دیگر لوگوں کے خلاف تحقیقات کرے، جن کے نام پاناما لیکس میں آئے ہیں۔ تحریک انصاف کا شروع دن سے یہی مطالبہ رہا کہ فوری طور پر جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے جس کے ٹی او آرز ایسے ہوں کہ وزیراعظم کا نام تحقیقات کرنے والوں میں لازمی شامل ہو۔

    دوسری طرف مسلم لیگ ن کا یہی جواب اور دلیل تھی کہ چونکہ پانامہ لیکس میں وزیراعظم کے بچوں کے نام آئے ہیں، وزیراعظم کا نہیں، اس لیے ان کے خلاف تحقیقات کا کوئی جواز نہیں، مسلم لیگ ن کمیشن بنانے پر تو رضامند تھی، مگر اس کے لیے وہ مطلوبہ قانون سازی کرنے کو تیار نہیں تھی اور وہ کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) کو دانستہ اس قدر پھیلانے پر اصرار کر رہی تھی کہ تحقیقات کے بعد نتیجہ جلدی نہ نکل سکے اور وزیراعظم کے خلاف کچھ فائنڈنگ نہ ہوسکے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مسلم لیگ ن اپنے اتحادیوں اور پیپلزپارٹی جیسی فرینڈلی اپوزیشن پارٹی کے ساتھ مل کر ٹی ا و آرز کا معاملہ ہی اس قدر لمبا کھینچ گئی کہ دو تین ماہ اسی میں ضائع ہوگئے، پلاننگ غالباً یہی لگ رہی تھی کہ اس معاملے کو جتنا لمبا کھینچا جا سکے، کھینچا جائے، حتیٰ کہ پارلیمنٹ کی مدت ہی ختم ہوجائے۔

    تحریک انصاف نے پارلیمنٹ میں ٹی او آرز ڈرامے میں ڈھائی تین ماہ ضائع کیے، جب اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ یہ سب ڈرامہ بازی ہے، جس میں پیپلزپارٹی بھی کھل کر شامل ہے اور متحدہ اپوزیشن کی چھتری دراصل میاں صاحب کو سپورٹ فراہم کرنے کے لیے ہے تو پھر عمران خان الگ ہوگئے۔ رائے ونڈ میں عمران خا نے ایک الگ جلسہ کیا۔ مزے کی بات ہے کہ اسی روز عمران خان کی خیبر پختون خوا میں اتحادی جماعت اسلامی نے فیصل آباد میں جلسہ رکھا اور تقریروں کا وقت کم وبیش بھی تحریک انصاف کے جلسے والا رکھا۔ عمران کا شو کامیاب رہا اور پھر اس نے اسلام آباد جانے اور شہر بند کرنے کی دھمکی دی اور پھر اس جانب عملی اقدامات بھی کیے۔

    عمران خان اور تحریک انصاف پچھلے کئی روز سے ایک ہی بات کہتی رہی کہ میاں صاحب یا تو استعفا دیں یا پھر تلاشی دیں۔ تلاشی کی اصطلاح تحریک انصاف نے خاص طور سے گھڑی، مطلب اس کا یہی تھا کہ میاں صاحب جوڈیشل کمیشن بننے دیں اور اس کی تحقیقات کا سامنا کریں، سپریم کورٹ میں بھی تحریک انصاف اسی لیے گئی تھی، تاہم رائیونڈ جلسے کے بعد اس نے عوامی احتجاج کی پالیسی پر زیادہ فوکس کر دیا۔

    اب یہ دیکھا جائے کہ آج ہوا کیا ہے؟ آج تین کام ہوئے۔

    سپریم کورٹ نے ایک بڑے خوفناک ٹکراؤ کو روک دیا، حکومت کو کنٹینر وغیرہ ہٹانے کا کہہ دیا، تحریک انصاف کو ایک جگہ دے دی کہ وہاں اپنا احتجاج یا جو بھی کرنا ہے کرو، تیسرا اور سب سے اہم نکتہ یہ کہ پانامہ کی تحقیقات کے لیے کمیشن کا مطالبہ مان لیا بلکہ اس کیس کی تیز رفتار سماعت کا عندیہ بھی دے دیا۔ کمیشن کے لیے حکومت وکیل کو صرف دو دن کا وقت دیا گیا، تین نومبر کو اگلی سماعت ہے اور توقع ہے کہ تیزرفتاری سے ایک بااختیار کمیشن بن جائے گا۔ اب وہ کمیشن کیا تحقیقات کرتا ہے، اس سے کیا ثابت ہوتا ہے، نہیں ہوتا ہے، یہ ایک الگ ایشو ہے، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

    میرا سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف اسی ایشو کو لے کر نہیں کھڑی ہوئی تھی کہ وزیراعظم تلاشی دیں یعنی پانامہ کے لیے کمیشن بنایا جائے۔ عدالت نے ان کا وہ مطالبہ مکمل کر دیا، ان کے لیے پرامن احتجاج کا بھی راستہ نکال دیا، حکومت اور انتظامیہ کو بھی تشدد اور جبر سے روک دیا۔ تو اس کے علاوہ تحریک انصاف اور کیا چاہتی تھی؟ یا عمران خا ن کو یو ٹرن خان کہنے والے کس حوالے سے تنقید کر رہے ہیں؟

    یہ درست ہے کہ دباﺅ بڑھانے کے لئے عمران خان نے کئی سخت بیانات دیے، اسلام آباد لاک ڈاﺅن کرنے کی بات بار بار کی، جو کہ قطعی طور پر غلط تھا اور اس فقرے کی وجہ سے عمران خان پر تنقید بھی ہوتی رہی۔ میرے جیسے اس کے نیم ہمدرد بھی لاک ڈاﺅن یعنی شہر بند کرنے، انتظامیہ مفلوج کرنے کے زبانی بیانات کی مذمت اور اس پر تنقید کرتے رہے۔ ہمارا کہنا یہ تھا کہ عمران خان کو صرف جوڈیشل کمیشن کے لیے دباؤ پیدا کرنا چاہیے اور ایسا کچھ نہ کیا جائے، جس سے یہ سسٹم ڈی ریل ہوجائے۔

    اگر عمران خان نے عقلمندی اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدالتی مداخلت پر ہولناک ٹکراؤ کو روک دیا اور کل کے احتجاج کو یوم تشکر میں بدل دیا تو اس پر ناراضی کیسی؟ یہ تو خوشی کی بات ہے کہ ملک ایک بڑے ٹکراؤ سے بچ گیا اورایک پرامن، جائز، قانونی حل نکل آیا۔ اس پر تحریک انصاف کے حامیوں اور کارکنوں کو بھی خوش ہونا، سجدہ شکر بجا لانا چاہیے اور ن لیگی متوالوں کو بھی خوش ہونا چاہیے کہ کوئی بڑا ٹکراؤ، نقصان نہ ہوا اور پرامن حل نکل آیا۔

    یہ یاد رہے کہ اگر کسی کے ذہن میں یہ پانامہ کمیشن بنوانے والا معاملہ نہیں تھا اور وہ ہر صورت میں نواز شریف حکومت کے خاتمے کا متمنی تھا تو پھر یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ ایسا صرف اس صورت میں ہوسکتا تھا جب کچھ لاشیں گرتیں، خون خرابہ ہوتا اور فوج مداخلت کر کے یا تو کھلا مارشل لا لگا دیتی یا پھر کوئی غیر آئینی کردار ادا کر تے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو باہر نکال باہر پھینکتی۔ اس کے سوا کوئی بھی قانونی، آئینی، جائز آپشن موجود نہیں۔

    اس لیے عمران خا ن کو یو ٹرن کہنے والے، احتجاج ختم کرنے کے اعلان پر مایوس ہونے والے، تنقید کرنے والے کھل کر یہ بتائیں کہ وہ دراصل ملک میں خون خرابے، لاشیں گرنے اور مارشل لا کی خواہش رکھتے تھے۔ میاں نواز شریف سے ان کی نفرت اور بیزاری اس قدر پہنچ چکی ہے کہ وہ میاں صاحب کی حکومت ہٹانے کے لیے یہ سب کشت وخون اور پورا سسٹم ڈی ریل ہوجانا بھی قبول کرنے کو تیار تھے۔

    ایسا شخص اگر کوئی ہے تو وہ سامنے آ کر بات کرے۔ خاکسار کی تو کبھی یہ رائے نہیں تھی، اسی لیے ہم عمران خان کے ضرورت سے زیادہ جارحانہ رویے پر تنقید کرتے رہے، دھرنے، شہر بند کرنے کی دھمکی کو غلط کہتے رہے اور اسے پرامن احتجاج کے لیے ہی کہتے رہے۔ عدالت کی مداخلت پر عمران خان کی طرف سے احتجاج ختم کر دینا میرے نزدیک تو بہت اچھا، مثبت اقدام ہے۔

    جہاں تک اس پورے معاملے میں تحریک انصاف، حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے، انہوں نے کیا کھویا، کیا پایا؟ یہ الگ سوال ہے، اس پر الگ سے بات ہوگی۔ سردست تو پاکستانیوں کو مبارک ہو۔ اللہ نے رحمت کی اور ملک بڑے ٹکراؤ سے بچ گیا۔ اس میں کسی کی فتح وشکست نہیں ڈھونڈنی چاہیے۔ ویسے اگر اس میں شکست ڈھونڈنی ہی ہے تو وہ تمام فریقوں کو ہوئی ہے۔ فتح البتہ ملک کی ہوئی، آئین، عدلیہ اور جمہوریت کی ہوئی۔ اب آگے بڑھناچاہیے۔ کمیشن والے معاملے میں معمولی سی بھی تاخیر نہ کی جائے اور اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے ۔

  • جنسی مساوات، مسلمانوں کا عائلی قانون اور قضیہ طلاق – زاہد علی ایڈووکیٹ

    جنسی مساوات، مسلمانوں کا عائلی قانون اور قضیہ طلاق – زاہد علی ایڈووکیٹ

    زاہد علی بدقسمتی سے برصغیر کے مسلمان عمومی طور پر اسلام کے قوانین اور احکامات سے ناواقف ہونے کی وجہ سے زندگی کے بہت سے معاملات میں غیر اسلامی قوانین اور رسوم و رواج پر عمل پیرا ہیں اور کئی مواقع پر گناہ کبیرہ کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ خراب حالت اُن مسلمانوں کی ہے جو اقلیت میں ہونے کی وجہ سے غیر مسلم حکمرانوں کے تسلط میں ہیں اور قانون سازی کے اختیارات میں اُن کا کوئی نمایاں حصّہ نہیں ہے اور عدلیہ بھی اُن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو اسلام کے ساتھ کوئی سروکار نہیں رکھتے ہیں۔ ان مسلمانوں میں بھارت کے کروڑوں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ متنازعہ جموں و کشمیر کے اُس خطّے میں بسنے والے مسلمان بھی شامل ہیں جس پر بھارت قابض ہے۔ بھارت کے سنگھاسن اقتدار پر فی الوقت جس تنظیم کا تسلط ہے وہ اسلام دُشمنی کے لیے بدنام زمانہ ہے اور بھارت کے مسلمانوں کی دینی شناخت کو ختم کرنے کے درپے ہے، اگرچہ اس سلسلے میں کانگریس کے دور حکومت میں بھی مسلمانوں پر کافی ظلم ہوا ہے۔ بر صغیر پاک وہند کی تقسیم سے قبل ہی ہندوستان میں انگریز حکمرانوں نے 1937ء میں مسلم پرسنل لا کے نام سے ایک قانون وضع کیا تھا جس کے تحت مسلمانوں کو اپنے عائلی معاملات میں شرعی احکامات کے تحت عمل کرنے کا اختیار دیا گیا تھا لیکن تقسیم ہند کے بعد آر ایس ایس اور جن سنگھ جیسی ہندوتوا فلسفے کی حامل تنظیموں نے مسلمانوں کی دینی شناخت کے ساتھ ساتھ اُن کے وجود کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر سازشیں رچائیں اور ہزاروں کی تعداد میں فرقہ وارانہ فسادات کروا کے لاکھوں مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا، اُن کی بستیوں کو تاراج کیا، اُن کے کاروبار کو برباد کروایا، اُن کو زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے دھکیل دیا تا کہ وہ مجبور ہو کر اپنی شناخت سے ہی دستبردار ہو کر، آر ایس ایس کے منصوبے کے مطابق ہندو راشٹر کا حصہ بنیں اور ہندوانہ رنگ میں اپنے تہذیب وتمدن کی تشکیل نو کا سلسلہ شروع کریں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ہندو فرقہ پرست تنظیمیں اپنی گھناونی سازشوں کو عملانے میں ناکام رہیں اور مسلمان دینی لحاظ سے دن بدن بیدار ہوتے گئے اور اسلام کے قریب تر آنے لگے۔ اس سلسلے میں جہاں ادارۂ دیوبند اور دیگر مکاتب فکر سے وابستہ علماء اور درسگاہوں کا ایک اہم رول رہا وہیں پر اقامت دین کے نصب العین کی حامل ایک عالمگیر تنظیم ’’جماعت اسلامی‘‘ نے بھی نمایاں کارنامہ انجام دیا۔ درسگاہوں، خطابات اور لٹریچر کے ذریعے مسلمانوں کو اسلام کی اہمیت اور بنیادی تعلیمات سے واقف کرایا گیا۔ اگر چہ اس سلسلے میں قابل قدر کام کیا گیا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

    دنیا میں چند دین بیزار نظریات کو وقتی طور پر فروغ ملا اور مسلمانوں کا ایک طبقہ ان نظریات کی زد میں آگیا خاص کر جدید تعلیم یافتہ طبقہ ان گمراہ کن نظریات سے زیادہ متاثر ہوگیا اور اس طبقے نے ان دین دُشمن نظریات کو مسلمانوں میں بھی پھیلانے کی جی توڑ کوشش کی لیکن اس محاذ پر جماعت اسلامی علی الخصوص مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے تیار کردہ لٹریچر نے وہ کام کیا جو ایک مضبوط بند سیلاب کے وقت انجام دیتا ہے اور اس طرح عام مسلمان اللہ کے خاص کرم سے گمراہی کے اس طوفان سے بچ نکلے۔ اس لٹریچر نے دین بیزاری کے اس طوفان کو توڑ کر رکھ دیا مگر دین بیزاری کے مہلک جراثیم ابھی بھی مسلم معاشرے میں موجود ہیں جن کو اسلام کی حقیقی تعلیمات کی اشاعت سے ہی بے اثر بنایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں دین پسند تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ علماء کرام اور انشوران ملت کی انتھک اور مخلصانہ کوششوں کی اشد ضرورت ہے تا کہ دور دراز دیہات میں بسنے والے عام لوگ بھی دین کی حقیقی تعلیمات سے آشنا ہوں اور دین مخالف نظریات اور اعمال سے مسلم معاشرے کو پاک کیا جاسکے۔

    اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور جہاں اس میں ایک انسان کی کامیاب اور پُر سکون زندگی گزارنے کی مکمل رہنمائی موجود ہے وہیں پر اس میں معاشی، معاشرتی، عائلی اور سیاسی شعبوں کے لیے بھی اصولی قوانین موجود ہیں۔ عائلی زندگی میں نکاح، طلاق، وراثت، وصیت، نان ونفقہ وغیرہ اہم شعبہ جات کے متعلق مفصل قوانین قرآن وسنت اور تعامل صحابہ کرام ؓ سے اخذ کیے گئے ہیں لیکن ان کے متعلق عامۃ المسلمین کو اتنی جانکاری حاصل نہیں ہے جتنی ہونی چاہیے جس کے سبب ان معاملات میں مسلمان غیر شرعی طور طریقے کے عادی ہوگئے ہیں اور جاہلی رسوم ورواج پر عمل پیرا ہیں۔ آج کل بھارت کے لا کمیشن نے آر ایس ایس کے ایجنڈا کے ایک اہم حصّہ کو عملانے کی خاطر ’’جنسی مساوات اور برابری‘‘ کا ایک گمراہ کن نعرہ کھڑا کیا ہے جس کا اصلی ہدف ’’مسلمانوں کا عائلی قانون‘‘ ہے اور اسی نعرے کی آڑ میں اس قانون کو منسوخ کروا کے، مسلمانوں کی اسلامی شناخت کو زک پہنچانا ہے۔ اس طرح عالم انسانیت میں مسلمانوں کی امتیازی پہچان کو ختم کروانا ہے۔ ایک طرف بھارتی لا کمیشن نے ’’یکساں سول کوڈ‘‘ کے نفاذ کی خاطر تگ و دو کا آغاز کیا ہے دوسری طرف عدالتوں کے ذریعے مختلف بہانوں کے ذریعے مسلمانوں کی دینی شناخت کو ختم کروانے کی سازشوں کو بھی عملانے کا کام شروع کیا گیا ہے۔ کبھی ’’تعداد ازدواج‘‘ کا مسئلہ کھڑا کیا جاتا ہے اور کبھی ’’سہ طلاق‘‘ کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے اور عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا رونا رویا جاتا ہے۔ اس کے لیے مسلمان سماج میں ایسے افراد تیار کیے جاتے ہیں جن کو نام کے بغیر اسلام کے ساتھ کوئی نظریاتی یا عملی وابستگی نہیں ہوتی ہے اور انہی کے ذریعے اسلامی قوانین کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔ کریم چھاگلہ، عارف خان، شاہنواز حسین، سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین جیسے نام کے مسلمان استعمال کیے جاتے ہیں جو نہ صرف اسلام کی حقانیت کے منکرہیں بلکہ ایسے لوگوں نے دہریت اور ارتداد کے تمام حدود بھی پار کیے ہوتے ہیں۔

    یہ اسلام ہی ہے جس نے عورت کو اس کے حقیقی مقام اور عزت و وقار سے ہم کنار کیا ہے۔ نکاح بھی ان ذرائع میں سے ایک اہم ذریعہ ہے جو عورت کی فطری ترقی اور عزت و ناموس کے محافظ اور ضامن کا کام انجام دیتے ہیں لیکن وہ نکاح جو مرد و عورت کے درمیان محبت و مودّت قائم کرنے میں ناکام ہوتا ہے اور اُن کے وقار و شرف کے لیے باعث ضرر بن جاتا ہے تو انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ ایسا نکاح قائم رکھنا باعث فتنہ و فساد ہی بن جاتا ہے اسی لیے ایسے نکاح سے خلاصی کے فطری طریقے بھی انسانی فطرت کے خالق نے خود عطا فرمائے ہیں۔ انہی طریقوں میں سے مرد کے لیے ایسے باعث ضرر ملاپ سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خاطر ’’طلاق‘‘ کا اختیار دیا گیا ہے۔ مخصوص الفاظ کے ساتھ قید نکاح کو فی الفور یا بالنتیجہ اٹھا دینے کو طلاق کہتے ہیں۔ شوہر کی جانب سے اصالتاً یا وکالتاً، نیابتاً یا تفویضاً مخصوص الفاظ کے ساتھ یا بالکنایہ، فی الفور یا بالنتیجہ، رشتۂ ازدواج ختم کرنے کا نام طلاق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق کے متعلق یہ خبر دی ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسند حلال (جائز کام) طلاق ہے۔

    طلاق کی کئی قسمیں ہیں، بہ لحاظ کیفیت اور بہ لحاظ تاثیر،
    بہ لحاظ کیفیت طلاق کی دو قسمیں ہیں، (۱)مسنون طلاق اور (۲) غیر مسنون طلاق
    بہ لحاظ تاثیر طلاق کی تین قسمیں ہیں، (۱) طلاق رجعی، (۲) طلاق بائن صغریٰ اور (۳) طلاقِ بائن کبریٰ (مغلظہ) ۔

    طلاق سنت کا مطلب یہ ہے کہ طلاق ایسے طریقہ پر دی جائے جس کو آنحضورﷺ اور صحابہ کرامؓ نے پسند فرمایا۔ اس طریقہ پر طلاق دینے سے کوئی ثواب نہیں ملتا البتہ موجب گناہ نہیں بنتا! طلاق دینے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ شوہر اپنی زوجہ مدخولہ ایسے طہر (حیض سے پاک ہوجانے کے بعد کا زمانہ) میں، جس میں اس سے صحبت نہ کی ہو اور نہ کوئی طلاق دی ہو اور نہ اس طہر سے قبل حیض میں طلاق دی ہو، ایک رجعی طلاق دے، پھر اس کو چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے یا اگر حاملہ ہوتو وضع حمل ہوجائے۔ اس طلاق کو طلاق احسن کہتے ہیں۔ اس کے بعد جو طریقۂ طلاق بہتر سمجھا جا تا ہے وہ طلاق حسن ہے یعنی شوہر اپنی زوجہ مدخولہ کو ایسے طہر میں جس میں اُس سے صحبت نہ کی ہو ایک رجعی طلاق دے۔ پھر دوسرے طہر میں دوسری اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے۔ اس طرح تین طہر میں تین طلاقیں مکمل ہوں گی۔

    طلاق بدعت کا مطلب یہ ہے کہ طلاق ایسے طریقہ پر دی جائے جس کو آنحضورﷺ اور صحابہ ؓ نے پسند نہیں فرمایا ہے۔ ایسی طلاق جمہور مسلمانوں کے نزدیک واقع ہوجاتی ہے البتہ موجب گناہ ہے۔ اگر ایسے وقت میں طلاق دی جائے جب عورت حالت حیض میں ہو تو یہ غیر مسنون ہے مگر جمہور علماء (مذاہب اربعہ) کے نزدیک واقع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ایسے طہر میں طلاق دینا بھی غیر مسنون اور موجبِ گناہ ہے جس میں شوہر اپنی زوجہ سے صحبت کر چکا ہو۔ ایسے ہی ایک ہی طہر میں ایک طلاق دینے کے بجائے دو یا تین طلاقیں دینا بھی بدعی طلاق میں شامل ہونے کی وجہ سے موجب گناہ ہے لیکن جمہور علماء کے نزدیک طلاق ہوجاتی ہے۔ بیک وقت تین طلاقیں دینا عورت کے وقار کے خلاف ہے اور ایسا کرنا عورت کی عزت نفس کو زبردست زک پہنچانے کے مترادف ہے۔ عورت چونکہ ایک انسان ہے جس طرح کہ مرد، لیکن اس طرح طلاقیں دینا عورت کو ایک بازاری کھلونا سمجھنے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ یہ انتہائی توہین آمیز سلوک ہے جو کہ زن و شوہر کے مقدس رشتے کے شایان شان نہیں ہے۔ اس لیے ایسے شخص کے ساتھ رشتہ قائم رکھنا، رشتہ کے تقدس کے خلاف ہے۔ جب کوئی شخص اپنی زوجہ کو بیک وقت تین طلاقیں دے دے تو جمہور فقہا کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی لیکن شیعہ زیدیہ کے نزدیک ایک طلاق واقع ہوگی اور شیعہ امامیہ کے نزدیک کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔ اسی طرح ظاہر یہ صرف ایک طلاق واقع ہونے کے قائل ہیں۔ ایک مشہور واقعہ ہے کہ حضرت ابن عمرؓ نے اپنی زوجہ کو بحالت حیض ایک طلاق دی۔ پھر ارادہ کیا کہ باقی دو قروء میں آخری دو طلاقیں دیں کہ حضور اکرم ﷺ کو اس کی اطلاع پہنچی۔ آپﷺ نے فرمایا : اے ابن عمر تم نے سنت کے خلاف کیا، پھر ان کو اپنی زوجہ سے رجوع کا حکم دیا، حضرت ابن عمرؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ ! یہ فرمائیے کہ اگر میں اپنی زوجہ کو تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لیے رجوع کرنا حلال ہوتا؟ حضورﷺ نے فرمایا: ’’نہیں! وہ تم سے بائنہ (جدا) ہوجاتی اور یہ عمل معصیت ہوتا ‘‘۔ (السنن الکبری۔ بیہقی)

    بیک وقت تین طلاقیں دینا اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نزدیک غیر مستحسن اور اخلاقی نقطہ نظر سے بھی ایک بُرا فعل ہے لیکن اس فعل کے کرلینے یعنی تین طلاقیں دینے سے وہ طلاقیں واقع ہوجائیں گی اور اس کا وہ فعل اپنے اثر ونتیجے کے اعتبار سے لازم ہوجائے گا۔

    جہاں تک مسلمانوں میں طلاق دینے کے طریقوں کا تعلق ہے تو بیشتر طلاقیں افہام وتفہیم کے ذریعے دی جاتی ہیں۔ فریقین کی طرف سے چند معززین افہام و تفہیم کے ذریعے ازدواجی تعلقات میں پیدا شدہ دراڑوں یا تلخیوں کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور جہاں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا اور حالات بھی تقاضا کرتے ہیں کہ ازدواجی تعلقات میں پیدا شدہ تلخی کو ختم کرنا بس سے باہر ہے تو اُس صورت میں باہمی تصفیہ کے ذریعے نکاح کو فسخ کیا جاتا ہے۔ مرد کی طرف سے طلاق کے اختیار کا استعمال بہت ہی کم بلکہ اگر کہا جائے نایاب ہے، تو غلط نہیں ہوگا۔ میاں بیوی کے درمیان مناقشات کو فریقین سے وابستہ ذی عزت لوگوں کی مداخلت کے ذریعے دور کرنے کا طریقہ عام ہے۔ بہت ہی کم معاملات عدالتوں میں جاتے ہیں۔ عدالتی کارروائی کی طوالت سے تنگ آ کر فریقین باہمی رضامندی سے ہی ایسے تنازعات ختم کرتے ہیں۔ یہی طریقہ مسلمانوں میں عام ہے اور احسن ہے۔ فسخِ نکاح کے اسی طریقے کو عوام طلاق کہتے ہیں حالانکہ طلاق دینا مرد کے حدِ اختیار میں ہے اور شریعت نے اس اختیار کے استعمال کا ایک بہترین طریقہ فراہم کیا ہے کہ اگر مسلمان اُس پر عمل کریں تو تمام پریشانیوں سے نجات حاصل کریں گے۔

    قرآن مجید میں واضح ہدایت ہے کہ اگر کوئی مرد اپنی زوجہ کو طلاق دینا چاہتا ہے تو اُس طہر میں صرف ایک طلاق دے جس میں اُس نے اپنی زوجہ سے کوئی صحبت نہ کی ہو، پھر اُس کے بعد تین طہروں کا انتظار کرے، پھر یا تو متعلقہ زوجہ کو احسن طریقے سے رکھ لے یا احسن طریقے سے رخصت کرکے اپنے سے جُدا کرلے یعنی عدت کی مدت گزرنے تک وہ مرد اُس عورت کو دی گئی طلاق کو قولاً یا فعلاً رد کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ عدت گزرنے کے بعد بھی اگر دونوں فریق باہم رضامند ہوں تو وہ دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں اور ایک خوشحال زندگی بسر کرکے اپنے گھر کو منتشر ہونے سے بچاسکتے ہیں۔ طلاق دینے کا یہ طریقہ سب سے بہتر ہے اور تمام مسلمانوں کو اس طریقے کی حقیقت سے روشناس کرانے کی ذمہ داری علماء کرام اور خطباء حضرات پر عائد ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک طہر میں طلاق دینے کے بعد مرد اپنی زوجہ سے صحبت کرتا ہے تو یہ طلاق غیر مؤثر ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر دوسرے طہر میں دوسری طلاق بھی دے اور دوران مدتِ عدت طلاق دینے والا مرد متعلقہ بیوی سے صحبت کرے تو اُس صورت میں بھی طلاق کالعدم ہوجاتی ہے البتہ اس طرح ایک یا دو طلاقیں دینے کی صورت میں مدتِ عدت گزرنے کے بعد ایسا مرد متعلقہ عورت سے خلوت یا صحبت نہیں کرسکتا ہے جب تک کہ باہمی رضامندی سے یہ دونوں دوبارہ نکاح نہ کرلیں جس طرح عموماً نکاح انجام دیا جاتا ہے۔ نکاح کے بغیرصحبت کرنا، زنا تصور ہوگا۔ یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اگر کوئی مرد اپنی زوجہ کو مسلسل تین طہروں میں تین بار (ہر طہرمیں ایک بار) طلاق دے دے تو اُس صورت میں یہ طلاق غیر رجعی مغلظ بن جاتا ہے یعنی جب تک مطلقہ عورت کسی اور مرد سے باضابطہ نکاح نہ کرلے اور وہ مرد (دوسرا خاوند) اُس عورت کو معروف طریقے سے طلاق نہ دے یا وہ عورت اپنے دوسرے خاوند سے منعقدہ نکاح سے شرعی طریقے پر گلو خلاصی حاصل نہ کرلے یا اُس کا دوسرا خاوند مر نہ جائے، تب تک ایسی عورت پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کرنے کی مجاز نہ ہوگی۔ اس لیے مسلمانوں کو اس بات کی جانکاری فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ طلاق احسن کا طریقہ ہی اختیار کرلیں، اگر انہیں کسی وقت اپنی ازواج کو طلاق دینے کی ناگزیر مجبوری ہی ہو۔ یہی مسنون اور پسندیدہ طریقہ ہے اور باقی طریقے اختیار کرنا مصائب ومشکلات کے بھنور میں اپنے آپ کو پھنسانے کے مترادف ہے۔ نیز طلاق کے اختیار کا استعمال صرف اُسی صورت میں ہونا چاہیے جب صلح کی تمام راہیں مسدود ہوں۔

    یاد رہے کہ جب شوہر اپنی مدخولہ عورت کو طلاق دے تو اُس طہر جس میں طلاق دی گئی ہو اُس کے بعد تین حیض تک کی مدّت کو عدّت کہا جاتا ہے۔ البتہ وہ مطلقہ عورت جس کو بوجہ کم سنی، کبرسنی، مرض یا کسی اور وجہ سے حیض نہ آتا ہو، اُس کے مدت عدت تین ماہ ہے۔ جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے، اُس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ حاملہ کی عدت وضعِ حمل تک ہے چاہے تین ماہ ہو یا کم یا زیادہ! اگر شوہر نے طلاق رجعی دی اور عدت کے دوران مرگیا تو عورت پر وفات کی عدت واجب ہوگی یعنی تاریخ وفات سے چار ماہ دس دن! یاد رہے کہ عدت تفریق طلاق یا وفات کے وقت سے واجب ہوتی ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ تاریخ تفریق یا وفات اچھی طرح یاد رکھی جائے۔ اگر دورانِ عدت شوہر مر جائے تو عورت اپنے شوہر کی وراثت میں سے اپنا حصہ حاصل کرنے کی حقدار ہے بشرطیکہ طلاق رجعی ہو! دورانِ مدت عدت متعلقہ مطلقہ عورت دوسرا نکاح نہیں کرسکتی ہے البتہ دخول سے قبل طلاق یا تفریق کی صورت میں زوجہ پر عدت واجب نہ ہوگی اور ایسی عورت طلاق یا تفریق کے بعد ہی نکاح ثانی کرنے کی مجاز ہوگی۔ جب تک عدت باقی ہے نکاح بھی باقی رہتا ہے بشرطیکہ طلاق رجعی ہو۔ رجوع کرنے کے لیے نہ معاوضہ کی ضرورت ہے اور نہ عورت کی رضامندی کی۔ مستحسن طریقہ یہ ہے کہ مرد طلاق اور رجوع، دونوں اوقات پر دوگواہ بنالے جس طرح نکاح کے وقت دو گواہ بنائے جاتے ہیں۔ یہی مسنون اور پسندیدہ طریقہ ہے۔ یعنی زبان سے اقرار کر لے کہ وہ طلاق دیتا ہے یا رجوع کرتا ہے اور یہ اقرار کرتے وقت دو گواہ حاضر رکھے۔ یہی سب سے اچھی صورت ہے۔ یہ بھی ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ طلاق رجعی کی صورت میں تیسرا حیض اگر برابر دس روز کا ہو تو حیض سے پاک ہوتے ہی مرد کے لیے رجوع کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔ طلاق رجعی کی صورت میں اگر مرد یا عورت میں سے کوئی دورانِ عدت فوت ہوجائے تو دوسرا وراثت میں سے بحیثیت شوہر یا بیوی کے اپنا حصہ پانے کا حقدار ہوگا۔ طلاق بلا دخول، طلاق بالعوض (خلع) یا طلاق ثلاثہ کے بعد رجوع کا حق نہیں رہتا ہے اور ایسی طلاق کو طلاق بائن کہتے ہیں، پہلی دو صورتوں یعنی طلاق بلا دخول یا خلع کی صورتوں، دونوں کی باہمی رضامندی کے ساتھ نکاح ثانی ہوسکتا ہے۔

    دوران حیض طلاق دینا، ایک ہی طہر کی مدت میں ایک سے زیادہ طلاق دینا یا جس طہر میں بیوی سے صحبت (مجامعت) کی ہو اسی طہر کے اندر بیوی کو طلاق دینا، اسی طرح دوران نفاس طلاق دینا، غیر مسنون اور انتہائی ناپسندیدہ طریقے ہیں جن کو اختیار کرنے سے ایک مرد سخت گنہگار ہو جاتا ہے اور اگر اسلامی حکومت ہو تو مستوجب سزا بھی ہوسکتا ہے لیکن ایسی طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور جمہور علماء کے نزدیک ایسی طلاقیں مؤثر ہیں۔ اسی طرح ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں، تین ہی شمار ہوں گی الا یہ کہ طلاق دینے والے کی نیت صرف ایک طلاق دینے کی ہو اور صرف تکرار کی خاطر اُس نے تین بار لفظ طلاق استعمال کیا ہو اور یہ وہ ثابت بھی کردے۔ اسلام سے قبل زمانے میں ایک عورت کی نہ کوئی مستوجب حیثیت تھی اور نہ کوئی سماجی وقار بلکہ اس کو لذت کی شے یا بازاری مال سمجھا جاتا تھا لیکن اسلام نے دنیا کو صاف صاف بتا دیا کہ مرد اور عورت ایک ہی جنس ہیں اور ایک ہی نفس سے پیدا کیے گئے ہیں، مرد عورت کا سہارا ہے اور عورت مرد کے لیے ایک سہارا ہے۔ مرد کے بغیر عورت کی زندگی نامکمل ہے اور عورت کے بغیر مرد کی زندگی نامکملً، بحیثیت انسان دونوں برابر ہیں، البتہ میدان کار الگ الگ ہیں۔ مگر فطری طور پر مرد کو جسمانی اعتبار سے عورت پر فوقیت حاصل ہے اور اسی باعث مرد کو عورت کی نگرانی سونپی گئی ہے، اور اُس کے تمام لوازمات پورا کرنے کی ذمہ داری بھی تفویض کی گئی۔ عورت کو گھر کی ملکہ قرار دیا گیا۔ دونوں کو ایک دوسرے کے لیے امن سکون کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ماں کے قدموں کے تلے جنت ہے۔ ماں عورت ہی ہوتی ہے اور سب سے زیادہ حق اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد، ماں کا ہی ہے۔ گھر کے اخراجات پورا کرنے کی خاطر، کمانے کی ذمہ داری بھی مرد پر ہی ہے اور عورت کا کام گھر کا اندرونی نظام سنبھالنا اور بچوں کی صحیح تربیت کرنا ہے۔ اس لیے عورت کا بذات خود واقف کار اور تربیت یافتہ ہونا ناگزیر ہے۔ اسی لیے اُس مسلمان باپ کو جنت کی بشارت دی گئی ہے جو اپنی بیٹیوں کی صحیح اور درست تربیت کرے اور اُن کو دینی و دنیوی علوم سے آراستہ کرے۔

    اسلام پر اعتراضات جُڑنے والے اکثر لوگ متعصب، ضدی اور ہٹ دھرم ہوتے ہیں اور وہ مسلمانوں کی اپنے دین سے عدم واقفیت کی بنا پر ان اعتراضات کا ہوا کھڑا کرتے ہیں تاکہ ایسے مسلمانوں کے دلوں میں شک و شبہ کے بیج بوئے جائیں اور اس طرح اُن کی اسلام پر عقیدت کو متزلزل کیا جاسکے۔ یہ شیطان کا پُرانا حربہ ہے، لوگوں کو گمراہی کے دلدل میں پھنسانے کا لیکن شیطانی حربے ہمیشہ ناکام رہ جاتے ہیں بشرطیکہ اہل ایمان اپنے ایمان اور دین کے تقاضوں سے واقف ہوں اور اس بات پر انہیں یقین ہو کہ اللہ کا دین ہی حقیقت ہے اور اس میں کسی کمی یا کوتاہی کا پایا جانا ہر حال میں ناممکن ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مسلمانوں میں طلاق کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے اور طلاق یا تفریق جب بھی واقع ہوجاتی ہے تو اس میں دونوں فریقین کی باہمی گفتگو بھی شامل ہوتی ہے۔ بیک وقت ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینے کا غیر مسنون طریقہ مسلمانوں میں شاذ و نادر ہی استعمال ہوتا ہے اور اس کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے دشمنان اسلام ’’سہ طلاق‘‘ کا ہوا کر کے جس طرح اعتراضات کرتے ہیں اس میں صاف بدنیتی عیاں ہے۔ ہمیں دُشمنوں کا آلۂ کار بننے کے بجائے آپسی اتحاد واتفاق کو مزید مستحکم کرنا چاہیے اور فروعی اختلافات سے بالاتر ہو کر دین کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ مسلم پرسنل لا، اسلامی نظام حکومت کے قیام تک ہماری شناخت ہے اور اس شناخت کی حفاظت کرنا ہمارا فرض عین ہے۔
    اللہ ہمیں دین کا صحیح فہم عطا کرے، اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

    (زاہد علی ایڈووکیٹ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے ترجمان ہیں اور اس وقت سب جیل کوٹھی باغ سری نگر میں قید ہیں. دوران قید ہی دلیل کےلیے یہ خاص تحریر بھجوائی ہے)