Category: اسپورٹس

  • انگلینڈ سے مسلسل دوسری ہار، وجہ کیا ہے؟ محسن حدید

    انگلینڈ سے مسلسل دوسری ہار، وجہ کیا ہے؟ محسن حدید

    محسن حدیدا جب پاکستان انگلینڈ ون ڈے سیریز شروع ہوئی تو ایک دوست جنہیں کرکٹ کی بہترین سمجھ اللہ نے عطا کی ہے، ان کا فرمانا تھا کہ اس بار یہ سیریز انگلینڈ یا تو وائٹ واش کرے گا یا 4-1 سے جیت لے گا. ٹیم کی بری ترین حالت کے باوجود میرا گمان تھا کہ مقابلہ بہت قریبی رہےگا اور شاید ہم یہ سیریز بھی جیت سکیں، مگر کل والا میچ دیکھ کر اب مجھے ان کی بات سے اتفاق کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آرہا. رات ناصر حسین بھی کہہ رہے تھے کہ پاکستان کی یہ ٹیم کسی طرح بھی ایسا ون ڈے یونٹ نہیں لگتا جو 300 رنز بنا سکے. کبھی ہم سوچتے تھے کہ کوئی بات نہیں، ہماری بیٹنگ 240 تک کر لے تو ہم بائولنگ کے سہارے جیت جائیں گے مگر اب حالات بدل گئے ہیں. اب تو آسٹریلیا اور انگلینڈ میں بھی 300 رنزعام سی بات ہے اور اکثر یہ ہدف کامیابی سے حاصل ہونے لگا ہے.

    azhar-ali-600 اصل مسئلہ ٹیم کے انتخاب کا ہے. اظہر علی پر پہلے بھی بات ہوتی ہے، اب بھی انہی سے بات شروع ہوگی. ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ٹیم میں بطور کپتان جگہ ان کی پکی ہے مگر وہ سٹرائیک روٹیٹ نہیں کرتے. بہت سے لوگ انہیں مصباح کی طرح کہتے ہیں مگر مصباح اور اظہر میں بہت فرق ہے. مصباح ایک مکمل بلے باز تھے، وہ محتاط بلے بازی ضرور کرتے تھے مگر ان کے پاس سارے شاٹس موجود تھے، جب چاہتے بڑی آسانی سے چھکا لگا لیتے تھے اور اظہر میں سب سے بڑی کمی ہی یہ ہے کہ وہ کبھی بھی بڑا شاٹ لگاتے ہوئے آرام دہ محسوس نہیں ہوتے. ان کے سلو سٹارٹر ہونے کا مسئلہ تو ہے ہی، اس سے زیادہ مگر یہ کہ لمبی باری میں بھی وہ گیندوں کا فرق نہیں نکال سکتے. اس کا مظاہرہ انہوں نے پہلے ون ڈے میں بھی کیا تقریبا 75-80 گیندوں پر 50 مکمل کرنے کے بعد بھی وہ بڑی شاٹ لگانے کے چکر میں بہت مضحکہ خیز انداز میں بلا گھماتے نظر آئے.

    sharjeel_khan شرجیل خان کی بیٹنگ میں اتنی خامیاں ہیں کہ کوئی بھی بڑی ٹیم انہیں دو چار شاٹس میں پکڑ سکتی ہے. فٹ ورک اور وزن ان کا بہت بڑا مسئلہ ہے، پھر شاٹ سلیکشن بھی ان کی بہت بری ہے. ٹاپ آرڈر میں یہ چیزیں کسی ٹیم کو وارا نہیں کھاتیں. ایک اور مسئلہ بیٹنگ آرڈر کا ہے. شعیب ملک کو چھٹے نمبر پر بھیجنے کی تک سمجھ نہیں آتی. ملک کا سب کو پتہ ہے کہ وہ ٹائم لیتے ہیں، آتے ہی بڑے شاٹس نہیں لگا سکتے مگر ان کو نچلے نمبروں پر بطور فنشر بھیجا جارہا ہے جو کہ ہماری ٹیم مینیجمنٹ کی ناقص حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت ہے. ان کی رننگ بٹوین دی وکٹ اچھی ہے، اس لیے مڈل اوورز میں وہ فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں.20140522030906 ملک کا انگلینڈ میں ریکارڈ البتہ بہت برا ہے، 17 اننگز میں صرف 168 رنز اور وہ بھی 9.88 کی ایوریج سے جس میں 28 رنز ان کا بیسٹ سکور ہے. اصولا تو اگر ان سے بائولنگ نہیں کروانی تو ان کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی.

    335484-sarfraz-ahmed-odi-ton شکر ہے کہ سرفراز احمد کو اوپری نمبرز پر بھیجا جا رہا ہے جس کے فوائد بھی سامنے آرہے ہیں مگر ضروری ہے کہ انہیں ایک مستقل نمبر دے دیا جائے. بطور اوپنر انہیں کھلا کر اگر رضوان کو کھلا لیا جائے تو نچلے نمبرز پر ایک ہٹر کی کمی بہت حد تک پوری ہوسکتی ہے. (سرفراز بطور اوپنر 9، تیسرے اور چوتھے نمبر پر7، پانچویں نمبر پر 3 اور چھٹے یا اس سے نیچے کے نمبر پر27 دفعہ بیٹنگ کر چکے ہیں). یہ کسی بھی کھلاڑی کے ساتھ زیادتی ہے کہ جب دل کرے اسے کہیں اٹھو اور بیٹنگ کرنے چلے جائو.

    Muhammad-Nawaz محمد نواز کو دومیچز میں شاندار کارکردگی کے باجود باہر بٹھا دینا سمجھ سے بالاتر ہے. اس طرح کے برتاؤ سے کھلاڑی کیسے تیار ہوگا؟ نواز پر محنت کر لی جائے تو مستقبل کا بہترین بیٹنگ آل رائونڈر ہمیں مل جائے گا. لڑکا دلیر بھی ہے اور تکنیکی طور پر بھی مضبوط ہے.

    Yasir-Shah-2-1 یاسرشاہ ون ڈے کا کامیاب بائولر نہیں ہے کل پھر یہ بات ثابت ہوگئی. زمبابوے کے خلاف میچز نکال دیے جائیں تو یاسر نے 10 میچز میں 5.7 کی ہائی اکانومی سے صرف 8 وکٹیں حاصل کی ہیں. کل بھی موصوف نے 6.52 کی بھاری اوسط سے مار کھائی ہے اور کوئی وکٹ بھی حاصل نہیں کر پائے. یہاں بری کپتانی کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ 7 اوورز میں 38 رنز دے کر دو اہم وکٹیں حاصل کرنے والے عماد وسیم سے بعد میں بائولنگ ہی نہیں کروائی گئی اور یاسر شاہ بائولنگ کرتے رہے.

    بابراعظم بہترین ہیں مگر دو میچز میں ان کی بلے بازی دیکھ کر لگتا ہے کہ ان پر اپنے کزن عمر اکمل کا خاصا اثر ہے. یہ چیز بہت نقصان دہ ہے، انہیں اس سے پرہیز کرنا ہوگا. ایگریشن اچھی چیز ہے مگر شاٹ سلیکشن بھی اہم ہے. آپ کو ہر حال میں وکٹ کی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے. پاکستان کا بیٹنگ آرڈر تبدیل کرنا بہت اہم ہے. اگر شرجیل کی چھٹی (مسلسل کھلانے کا جوا کھیلنا ہے تو آپ کی مرضی) کرکے ان کی جگہ رضوان کو کھلا لیا جائے تو سرفراز بڑے آرام سے ون ڈائون آسکتے ہیں جبکہ ملک بھی پانچویں نمبر پر کھیل سکیں گے اور چھٹے پر رضوان ہو جائیں گے. محمد نواز کو یاسرشاہ کی جگہ ٹیم میں لیا جاسکتا ہے. اس سے بیٹنگ آٹھویں نمبر تک ہو سکتی ہے اور مسائل میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے.

    116677 اس ٹیم میں عامر یامین یا حماد اعظم جیسا فاسٹ بائولنگ آل رائونڈر بہت ضروری ہے. عامر یامین اور حماد دونوں کو مناسب مواقع دیے بغیر ٹیم سے نکال دیا گیا. اسی لیے آج ہم آخری اوورز میں اچھے ہٹرز سے محروم ہیں. گزرے سات سال میں پاکستان ٹیم اپنے 45 فیصد ون ڈے میچز میں آل آئوٹ ہوچکی ہے جو کہ ٹیسٹ نیشنز میں زمبابوے کے بعد سب سے زیادہ بار ہے. اس سے ہماری بیٹنگ کا حساب لگا لیں. گزشتہ 11 باہمی مقابلوں میں سے10 انگلینڈ ہمیں ہرا چکا ہے.

    اب بھی وقت ہے کہ ہم سوچیں اور فیصلہ کریں. ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ حفیظ اور اظہر علی جیسے کھلاڑی مسلسل ناکام ہو کر بھی کھیلتے رہتے ہیں جبکہ نئے لڑکوں کو اچھی کارکردگی کے باوجود ٹیم سے نکال دیا جاتا ہے. اگر تو ہمیں اپنی رینکنگ بہتر کرنا ہے تو کپتان سمیت موجودہ ٹیم پر نظرثانی کرنا ہوگی ورنہ پھر رینکنگ میں اس سے نیچے بھی جگہ موجود ہے

  • عبدالحفیظ کاردار سے محمدحفیظ بے کار تک! شاہد نذیر واثق

    عبدالحفیظ کاردار سے محمدحفیظ بے کار تک! شاہد نذیر واثق

    شاہد نذیر کرکٹ بلاشبہ پاکستانیوں کے خون میں رچ بس چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی ٹیم کی محدود اوورز کے فارمیٹ میں خوفناک حد تک تنزلی کے باوجود لوگ اب بھی یہ کھیل پورے انہماک سے دیکھتے ہیں۔ قومی کرکٹ کو اس سطح تک لانے میں سیاسی مداخلت کا اپنا کردار ہے جس نے رخنہ اندازیوں سے دیگر نفع بخش اداروں سمیت اسے بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پی سی بی کے اہلکاروں میں اختیارات کی رسہ کشی، ٹیم میں مبینہ گروہ بندی، ٹیلنٹ کا قتل عام اور بعض منظورِ نظر کھلاڑیوں کی اجارہ داری نے اس کھیل کو محض پیسہ کمانے کا ذریعہ بنا دیا ہے جبکہ شائقین آج بھی اس سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔

    موجودہ دور کا کرکٹر بلاشبہ ماضی کے مقابلے میں مالی لحاظ سے بہت مظبوط ہے۔ کم ازکم اس نے اتنا پیسہ کما لیا ہے کہ آخری عمر میں لٹل ماسٹر حنیف محمد کی طرح اسے علاج کے لیے کسی امداد کی ضرورت نہیں رہے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ معاوضوں پر من مانی کرنے والے کھلاڑی اپنے آپ کو دیگر ٹیموں کی طرح پیشہ ور کیوں نہیں بناتے۔ وہ اپنی بیگمات کی تفریح کے لیے تو بورڈ سے الجھ سکتے ہیں مگر پیہم مایوس کن کارکردگی سے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی؟ پاکستانی ٹیم اتنے تسلسل سے کیسے ہار جاتی ہے؟ بظاہر یہ وہ عام سا سوال ہے جس کا جواب ہر پاکستانی بیشتر مقابلوں کے بعد جاننا چاہتا ہے۔ ٹیسٹ ٹیم کی ساکھ دیگر دونوں طرز کی کرکٹ سے بلاشبہ بہت بہتر ہے مگر کارکردگی میں بے ترتیب اتار چڑھاؤ شائقین پر بہت گراں گزرتا ہے۔

    اس کا آسان جواب یہ ہے کہ کسی فرد یا گروہ کا طرزِفکر ہی اس کے طرزِعمل کا تعین کرتا ہے۔ محمد حفیظ کی مثال لیں، ایشا کپ اور عالمی ٹی ٹونٹی کپ میں ٹیم فلاپ ہوئی، جس میں موصوف کا کردار اگر کسی سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہ تھا۔ اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے ایک نجی یونیورسٹی سے میڈیا ہینڈلنگ کی تربیت لینے چل پڑے۔ یہ کام سیاست دانوں کو زیب دیتے ہیں کہ جنہوں نے اپنی ناکامیوں کا ازالہ محض قینچی جیسی زبان سے کرنا ہوتا ہے۔ ایک کھلاڑی کی زبان نہیں، ہمیشہ مہارت بولتی ہے۔ جب آپ کا بلا رنز اگلے اور بال وکٹیں گرائے تو صحافی کے سوال میں کبھی چبھن، ملامت یا مذمت کی آمیزش نہیں، بلکہ وہ ستائش ہوتی ہے جس کا مزہ یاسرشاہ نے حالیہ سیریز کے پہلے اور دوسرے ٹیسٹ میچ کے بعد چکھا۔

    پاکستان ٹیم کا ناسور سلامی بلے بازی، آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں سعید انور اور عامر سہیل چھوڑ کر گئے تھے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کا سب سے لاڈلا کھلاڑی محمد حفیظ کپتان اور انتخابی کمیٹی کی آنکھوں میں مسلسل دھول جھونکنے میں مصروف ہے۔ شائیقین جاننا چاہتے ہیں کہ آخر موصوف کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے جو اسے ٹیم سے باہر نہیں ہونے دیتی۔ باؤلنگ پر پابندی ہے، بیٹنگ انہیں آتی نہیں اور فیلڈنگ ان سے ہوتی نہیں۔ اس کھلاڑی کے ساتھ میدان میں اترنا اپنے آپ کو دس کھلاڑیوں پر محدود کرنے کے مترادف ہے۔ اگر یہ بنگلہ دیش کی ٹیم میں بھی ہوتے تو اب تک قصہ پارینہ بن چکے ہوتے لیکن نہلے پر دہلا یہ کہ موصوف کو بدترین کارکردگی کے باوجود بھی ون ڈے ٹیم کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے۔ حالانکہ ٹیم کو اس وقت ایک کل وقتی آل راؤنڈر کی ضرورت ہے جو نہ صرف نحیف باؤلنگ اٹیک کی اشک شوئی کرے بلکہ کمزور ترین ٹیل کا بھی سہارا بنے۔ ایسا تبھی ممکن ہے اگر حکام روایتی انداز کو جدید طرز فکر سے بدلنے کے خواہاں ہوں۔

  • ہاکی کی حالت زار – شہریار احمد سعید

    ہاکی کی حالت زار – شہریار احمد سعید

    شہریار سعید یوں تو پاکستان کھیل اور کھلاڑی کے اعتبار سے انتہائی خود کفیل ملک ہے. اس زرخیز مٹی نے دنیائے کھیل میں ایسے نام پیدا کیے ہیں جن کو ان کے کھیل کے اعتبار سے اس کھیل میں سب سے معتبر لسٹ یعنی ’’ہال آف فیم‘‘ میں جگہ دی گئی ہے. اور ہاں اگر کسی کھیل میں ابھی تک پاکستان نے جھنڈا نہیں گاڑا تو میرا سو فیصد یہ ماننا ہے کہ یہ کھیل ضرور حکومتی عدم توجہ کاشکار ہوگا یا اس کی راہ میں ضرور کچھ ایسے انتظامی امور حائل ہوں گے جنھوں نے کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیت کا لوہا نہیں منوانے دیا.

    ایسے کھیلوں پر میڈیا بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دیتا. پاکستان میں ہاکی کا کھیل کچھ ایسی ہی ستم ظریفی کا شکار ہے، میڈیا نے ہاکی کے کھیل سے ایسی نظریں ہٹائی ہیں جیسے کوئی دودھ میں سے مکھی کو نکال کر باہر پھینک دیتا ہے. ہاکی کے کھلاڑیوں کی حالت زار یہ ہے کہ انھیں ڈیلی الاؤنس تک نہیں ملتا. اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ کئی سالوں سے ہاکی فیڈریشن سنگین مالی بحران کا شکار ہے اور ہاکی ٹیم اس وجہ سے ایک نجی کمپنی کی مالی مدد کی بدولت بیرون ملک دوروں پر مجبور ہے. جب کھلاڑی کسی کھیل میں اپنا مستقبل خطرے میں دیکھتا ہے تو غالب امکان یہی ہوتا ہے کہ وہ اس کھیل کو ترک کر دیتا ہے. ہاکی کے کھیل میں اس وقت ٹیلنٹ نہ ملنے کی وجہ یہی ہے کہ نوجوان کھلاڑیوں کے لیے اس میں کوئی کشش باقی نہیں رہی. اور نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ پاکستان جو کبھی ورلڈ چیمپئن اور اولمپک چیمپئن تھا، 2016 کے ریواولمپکس میں شامل ہی نہیں.

    ضرورت اس امر کی ہے کہ ہاکی کے فروغ کے لیے شہروں کی سطح پر ایونٹس کروائے جائیں، نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دیا جائے اور اس میں سے قومی ٹیم کےلیے ٹیلنٹ تلاش کیا جائے. ان کھلاڑیون کی حوصلہ افزائی کے لیے میڈیا کو مثبت کردار ادا کرنا ہو گا. صرف کرکٹ کھلاڑی ہی قوم کا ہیرو نہیں ہوتا، میڈیا کو کھیلوں کی کوریج کے مابین توازن قائم کرنا ہوگا. تعلیمی ادارے بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے قومی کھیل کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کر سکتے ہیں. طلبہ کو غیرنصابی سرگرمیوں میں قابلیت کا مظاہرہ کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں. تعلیمی اداروں نے غیرنصابی سرگرمیوں پر توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے پوشیدہ ٹیلنٹ ضائع ہو گیا. حکومت کو ہاکی فیڈریشن کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے شہروں کی سطح پر کوچنگ اکیڈمیز کا قیام عمل میں لانا ہوگا اور وہاں کوالیفائیڈ کوچز فراہم کرنا ہوں گے تاکہ نوجوانوں کو اپنے ہنر کو مزید تراشنے کا موقع مل سکے. حکومت کھیلوں کی بحالی کے لیے فنڈز مختص کرے اور یقینی بنایا جائے کہ رقم درست جگہ پر صرف کی جائے –

  • ایجبسٹن ٹیسٹ جیت سکتے ہیں، اگر؟ محسن حدید

    ایجبسٹن ٹیسٹ جیت سکتے ہیں، اگر؟ محسن حدید

    تیسرا ٹیسٹ آن پہنچا. پاکستان کی ٹیم نے پہلے ٹیسٹ کے بعد جتنا بھی اعتماد حاصل کیا تھا وہ اولڈ ٹریفورڈ میں کھو چکی، اب انگلینڈ پورے رعب سے میدان میں اترے گی. یاد رہے کہ یہ وہی گراونڈ ہے جہاں گزشتہ دورہ انگلینڈ میں پاکستان کی ٹیم صرف 72 رنز بنا کر آئوٹ ہو گئی تھی. اس گراونڈ پر پاکستان کبھی بھی ٹیسٹ میچ جیت نہیں سکا. یہاں ٹوٹل 7 میچز کھیلے ہیں جن میں سے 4 میں شکست ہوئی اور 3 ڈرا ہوئے. مشہور زمانہ وکٹ کیپر ذوالقرنین حیدر کا ڈیبیو (واحد ٹیسٹ بھی) یہیں ہوا تھا، جس میں انھوں نے ایک انوکھا ریکارڈ بنایا تھا (پہلی اننگز میں صفر اور دوسری اننگز میں ٹیم کا ٹاپ سکور88).

    England v Pakistan کیا پاکستان کے پاس کچھ بھی پازیٹو نہیں ہے تو اس کا جواب ہے کہ پاکستان کے پاس بھی چند مثبت چیزیں ہیں جن پر بات کی جاسکتی ہے مثلا گزشتہ ٹیسٹ میں انگلش ٹیم کی اچھی کارکردگی کا زیادہ حصہ روٹ اور کک کے کھیل پر مشتمل تھا، ہیلز ابھی تک ٹیسٹ معیار کے بلے باز ثابت نہیں ہو سکے جبکہ گیری بیلنس ایک سال کے بعد آئے ہیں اور ٹیم میں اپنی جگہ پکی کرنے کے چکر میں ہیں، جیمز ونس بھی کیرئیر کی شروعات میں ہیں اور ابھی تک کچھ خاص نہیں کرپائے. (انگلینڈ کا سسٹم اچھا ہے جو کسی نئے لڑکے کو مسلسل موقع دیتا ہے ورنہ کسی اور ملک میں ہوتے تو ونس اب تک ٹیم سے نکالے جا چکے ہوتے) پاکستان کے کوچ نے بھی انگلش ٹیم کے ٹاپ آرڈر کی انھی کمزوریوں پر بات کی ہے. سب سے بڑی بات کہ انگلینڈ کے اہم کھلاڑی بین سٹوکس انجری کی وجہ سے ٹیم سے باہر ہوچکے ہیں. پچھلے کئی دن سے بات چل رہی تھی کہ انگلینڈ ان کی جگہ ٹیم میں عادل رشید، جیک بال یا سٹیون فن میں سے کسی کو شامل کرے گا. زیادہ تر چانس یہی تھا کہ انگلینڈ اپنی سٹرینتھ پر کھیلےگا اور ایک سیمنگ پچ بنائے گا جس کی وجہ سے سٹیون فن کے ٹیم میں شمولیت کا چانس بن جائے گا. وہی ہوا اور انگلینڈ نے فن کو عادل رشید پر ترجیح دی. کرس ووکس اب تک انگلینڈ کے سب سے کامیاب بائولر ہیں اور یہ ان کا ہوم گرائونڈ بھی ہے، یہاں وہ اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے جارہے ہیں.

    یاسرشاہ ایجبسٹن کی پچ عام طور پر خشک ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ سپنر کے لیے سازگار ہو جاتی ہے، اس لیے سیمنگ پچ کے باوجود بھی یاسرشاہ اس میں اپنے لیے کچھ مدد کے منتظر ضرور ہوں گے. یاسر شاہ کا اپنی سپیڈ اور لائن لینگتھ میں تبدیلی کرنا بہت ضروری ہے ورنہ یہ ٹیسٹ بھی ان کے لیے امتحان سے کم نہں ہوگا کیونکہ انگلینڈ اس میچ میں بھی شاید سپورٹنگ پچ بنائے اور ایسی پچ پر ٹاس بہت اہم ہوجاتا ہے. یاسرشاہ کو وکٹ ٹیکنگ آپشن کے طور پر دیکھا جاتا ہے مگر اس چکر میں انھیں جلد بازی بالکل نہیں کرنی چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ پچ کا مزاج کیا ہے. ایک اور بات کہ یاسر کے بارے میں کبھی شک گزرتا ہے کہ وہ بہت سکرپٹڈ بائولر ہیں اور میچ کی صورتحال کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتے نہیں. یہ خیال بھی انہیں غلط ثابت کرنا ہوگا.

    محمد عامر کو اب کچھ کر دکھانا ہوگا، دو میچز ہوگئے، اب یقینی طور پر مشکل وقت گزر چکا، ہوٹنگ اور نعروں کا پریشر بھی وہ جھیل چکے. اب انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ٹیسٹ کے بہترین بائولر ہیں اور ان کا جو انتظار شائقین نے 6 سال کیا، وہ واقعی اسی لیول پر ہیں. Pakistan v England وہاب ریاض کو کاش کوئی بتا دے کہ اگر قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہو ہی گئی ہے تو وہ کچھ محنت ہی کرلیں، سپیڈ سے کیا ہوتا ہے، گرائونڈ میں کوئی تیز ترین گیند پھینکنے کا مقابلہ نہیں چل رہا ہوتا بلکہ بات تو وکٹ لینے پر ختم ہوتی ہے جس میں وہ بری طرح ناکام ہو رہے ہیں. اور یہ کوئی زمبابوے یا بنگلہ دیش کے سب سٹینڈرڈ بلے باز نہیں جو آپ کی طوفانی بائولنگ سے ڈر کر بیک فٹ پر چلے جائیں گے اور آپ کو وکٹ دے دیں گے. یہ آپ کی 150 کی رفتار سے آنے والی گیند کو 350 کی رفتار سے باہر پھینکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں. بظاہر تو وہاب کے کھیلنے کی کوئی وجہ نہیں بلکہ ان کی جگہ عمران خان کو کھلانا چاہیے، ایک تو ٹیم کو رائٹ ہینڈ فاسٹ بولنگ آپشن ملے گا اور فاسٹ بائولنگ میں کچھ ورائٹی آجائے گی، دوسرا یاسر شاہ کو رف پیچز مل جائیں گے جس سے وہ بائیں بازو کے انگلش بلے بازوں کے لیے مصیبت کھڑی کرسکتے ہیں. اس کے علاوہ اگر پچ سپورٹنگ بھی ہوئی تو ٹاس ہارنے کی صورت میں شروع کے دو گھنٹے ملنے والی سوئنگ سے عمران اچھا فائدہ اٹھا سکتے ہیں. راحت ٹھیک ہیں مگر انھیں خراب گیندوں کا تناسب بہت کم کرنا ہوگا اس کی وجہ سے وہ بیٹسمین کا سارا پریشر ختم کر دیتے ہیں اور بہترین سوئنگ کے باوجود بھی وکٹ نہیں لے سکتے.

    محمد حفیظ سے صرف اتنا کہنا ہے کہ جناب آپ سپیشلسٹ اوپنر بیٹسمین ہیں، یہ نائٹ واچ مین والی باریاں نہ کھیلیں اور ذمہ داری لیں، آپ پر ایک بڑی اننگز ادھار ہے، اگر وہ اس میچ میں کھیل دیں تو کمال ہوجائے گا. بہت زیادہ چانس ہے کہ سمیع اسلم کھیلیں گے تو سمیع اسلم کے لیے دعا ہے کہ اپنا بہترین کھیل پیش کردے تاکہ ایک مدت سے جو اوپنر کا قحط ہے ختم ہوسکے، ان کے ٹیلنٹ میں کوئی شک نہیں بس پریشر کا ڈر ہے کہ جھیل پائیں گے یا نہیں. ( پریکٹس میچ میں شان مسعود کی اچھی اننگز کہیں کپتان اور کوچ کا ذہن خراب نا کردے). یونس خان آپ بہت بڑے پلئیر ہیں، اپنی پرانی تکنیک سے ہی کھیلیں، اتنے ہزار رنز اسی سے بنائے ہیں، مزید بھی بنیں گے. 575429160اظہر علی بھول جائیں کہ ون ڈے اور ٹی 20 میں آپ کی کیا پوزیشن ہے، آپ مستقبل کے ٹیسٹ کپتان ہیں، اس لیے اپنی ذمہ داری پوری کریں. ٹاپ آرڈر کی بہتری آپ کی اچھی کارکردگی سے مشروط ہے اور اگر سٹرائیک روٹیشن بہتر ہوجائے تو پریشر خودبخود ختم ہوجائےگا. سرفراز اور اسد شفیق پلیز اپنی وکٹ کی قدر جانیں 30-40 یا 60-70 کی اننگز سے آگے کا سوچیں اور خراب شاٹ کھیلنے کی عادت سے جان چھڑائیں. ٹیسٹ کرکٹ میں سیٹ ہو کر آووٹ ہوجانا بہت بڑا جرم ہے. مصباح جی آپ کمال ہیں، بس تھوڑی سی ایگریشن اور ہلہ بول کرکٹ دکھائیں، اب آپ کے پاس مکمل اختیار ہے، ان کھلاڑیوں کی بھی کھنچائی کریں. آپ نے پاکستان کرکٹ کا مثبت امیج بحال کیا بلکہ اس میں مزید شاندار روایات شامل کیں مگر اب اپنے آخری سال میں بطورکپتان جارحانہ کھیل دکھائیں تاکہ یہ کمی بھی پوری ہوجائے. دوسرا جب آپ بیٹنگ کررہے ہوں تو نان سٹرائیکر اینڈ پر کھڑے ہوکر صرف دیکھا نہ کریں بلکہ غلط شاٹ کھیلنے پر اسی وقت دوسرے بلے باز کو ٹوکا بھی کریں. بدقسمتی سے اولڈ ٹریفورڈ کی پہلی اننگز میں اسد شفیق اور سرفراز کو آپ نے نہیں سمجھایا جبکہ وہ مسلسل غلط شاٹس کھیل رہے تھے. فیلڈنگ میں بھی چیزوں کے وقوع پذیر ہونے کا انتظار نہ کیا کریں بلکہ ٹرائی کیا کریں اور فیلڈ سیٹنگ یا بائولنگ چینجز سے صورت حال بدلنے کی کوشش کیا کریں. ہم ایجبسٹن میں پہلی دفعہ جیت سکتے ہیں، بس توجہ اور جارحانہ کھیل کی ضرورت ہے صورت حال کچھ بھی ہو ہمیں مثبت کھیلنا ہوگا ورنہ غیرضروری پریشر لینے کی عادت ہمیں ہزیمت سے دوچار کردے گی.

  • پاکستانی بلےباز کیا غلطیاں‌ کر رہے ہیں ؟ عمرفاروق

    پاکستانی بلےباز کیا غلطیاں‌ کر رہے ہیں ؟ عمرفاروق

    انگلینڈ کے مشہور بیٹسمین این بیل ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ 2006 کی سیریز میں پاکستان کے کوچ باب وولمر نے ایک نیٹ سیشن میں بیٹنگ کرتا ہوا دیکھ کر کہا کہ “بیٹ کی گرپ کو تھوڑا سا لوز کریں” اس سیریز سے پہلے مجھ سے رنز نہیں بن رہے تھے لیکن اس مشورے پہ عمل کرنے سے مجھے بہت فائدہ ہوا اور پاکستان کے خلاف اسی سیریز میں تین سینچریز بنانے میں کامیاب رہا. موجودہ نئ سلیکشن کمیٹی، نئے کوچ، ان کی نئ ٹیکنیکس اور ہمارے وہی پرانے پلیئرز اور ان سب پہ کروڑوں میں اخراجات، یہ ایسا کمبینیشن ہے جو کوئی بہتری ہی نہیں لا پا رہا کیونکہ کوئی سیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں اور کہاں وہ پلیئرز جو صرف ایک مشورہ سن کر اس پہ ایسے عمل کرتے ہیں کہ رنز کے انبار لگا دیتے ہیں. پہلے دو ٹیسٹ میچز میں ٹیم کی بیٹنگ پرفارمنس سب کے سامنے ہے، جس پہ بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے اس لیے کچھ ٹیکنیکل چیزوں کو دیکھتے ہیں جو ان کے مسلسل ڈائون فال کا سبب بن رہی ہیں. سب سے پہلے تو ایک بات سب کو مان لینی چاہیے کہ ہمارے بیٹسمین میں ڈیٹرمینیشن اور ایپلیکیشن کی شدید کمی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے اور مسائل بھی ہیں جن پہ نظر ڈالنا ضروری ہے.

    شان مسعود ……..شان مسعود…….
    ان کو کھلانے اور ان کے مسلسل فیل ہونے میں سلیکٹرز اور کوچز برابر کے شریک ہیں. سب سے پہلے ان کا آف سٹمپ پہ گارڈ لینا( جہاں بیٹسمین سٹمپس کے سامنا کھڑا ہوتا ہے) ان کو مصیبت میں ڈال رہا ہے کیونکہ اگر آپ پہلے ہی آف سٹمپ پہ ہوں تو آپ کے پاس کسی بھی قسم کی موومنٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی. ایک سٹیپ بھی اور اٹھانے پہ ان کی لیگ سٹمپ اوپن ہوجاتی ہے اور ان کا سر ان کے لیفٹ سائڈ پہ فال کر جاتا ہے جس سے وہ گیند کی لائن کو مس کر جاتے ہیں تو وہ لیگ سٹمپ پہ گری ہوئی گیند پیڈز پہ لگواتے ہیں اور ایل بی ڈبلیو کے امیدوار بنتے ہیں اور آف سٹمپ سے باہر جاتی ہوئی گیند کو سوائے پش کرنے یا سلپس میں کیچنگ پریکٹس کروانے کہ اور کچھ نہیں کرپاتے کیونکہ وہ بیک فٹ یا فرنٹ فٹ پہ جانے سے خود کو پہلے ہی محروم کر چکے ہوتے ہیں. سوئنگ کو کور کرنے اور کھیلنے کا اگر یہ طریقہ انھیں کسی کوچ نے بتایا ہے تو یہ کوچنگ کے معیار پہ بھی سوالیہ نشان ہے. اگر انھیں مزید پاکستان کے لیے کھیلنا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنا گارڈ اور سٹانس دونوں کو بدلنا ہوگا.

    ……محمد حفیظ……..
    MUHAMMAD HAFEEZ ٹیم میں پروفیسر کے نام سے جانے جاتے اس اوپنر کا حال بھی اتنا ہی برا ہے. 2010 سے یہ مسلسل ٹیم میں ہیں اور تب سے ان کی ٹیسٹ میچز میں ایک ہی پرابلم ہے آف سٹمپ سے باہر جاتی یا اندر آتی ہوئی گیند کو کھیلنا. ون ڈے کرکٹ میں چونکہ گیند زیادہ سوئنگ نہیں ہوتی اور پچز بھی فلیٹ ہوتی ہیں اس لیے وہاں تیکنیکی خامیوں کے ساتھ بھی رنز مل جاتے ہیں اس لیے زیادہ مسائل نہیں ہوتے. اگر تو انھیں اگلے میچز میں کھلایا جاتا ہے تو انھیں اپنے آف سٹمپ کا آئیڈیا ہونا بہت ضروری ہے، دوسرا انھیں اپنا گیم پلان بدلنا ہوگا اور ون ڈے موڈ اپنانا ہوگا شاید اس طرح کچھ سکور کرنے میں کامیاب ہوجائیں کیونکہ صرف بلاک کرنے کی نہ ان میں اہلیت نظر آتی ہے نہ ان کی تیکنیک اس قابل ہے.

    ………..اظہر علی………
    اظہر علی پاکستان کی ون ڈے ٹیم کے کپتان نے پریکٹس میچز میں دو سنچریاں بنائیں اور اپنے فارم میں ہونے کا ثبوت دیا لیکن لارڈز ٹیسٹ کی پہلی اننگز سے ہی مشکل میں نظر آئے. اظہر نے بھی شان مسعود والی ٹیکنک اپنائی اور سوئنگ کو کنٹرول کرنے کے چکر میں آف سٹمپ کا گارڈ لیا. جس سے وہ آف سٹمپ سے باہر یا لیگ سٹپ پہ گری ہوئی ڈلیوریز کھیلتے ہوئے ہر بار اپنا بیلنس کھو دیتے ہیں اور ایک سے زیادہ بار ایل بی ڈبلیو ہو چکے ہیں. اس سٹانس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بیک فٹ یا فرنٹ فٹ پہ دونوں طرح کھیلتے ہوئے گیند کی لائن آسانی سے مس ہو جاتی ہے جس سے بالر کے لیے انھیں آئوٹ کرنا بہت آسان ثابت ہو رہا ہے. سٹرائیک روٹیٹ کرنے میں بھی اظہر علی بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں، ہر گیند کو صرف بلاک کرنے کی نیت سے کھیلنا بھی ان کے سکورنگ چانسز کو بہت محدود کر رہا ہے جس سے بھی بالرز انھیں ٹریپ کر پا رہے ہیں. اپنی فارم حاصل کرنے کے لیے انھیں اپنی پرانی ویڈیوز دیکھنی چاہییں اور اپنی پرانی ٹیکنیک کو اپنانا چاہیے جس سے وہ پہلے رنز کر چکے ہیں.

    ………یونس خان…….
    YUNIS KHAN اپنے آخری دورہ انگلینڈ کو یادگار بنانے میں یونس خان ابھی تک ناکام ہی نظر آرہے ہیں. 4 اننگز میں ابھی تک وہ کسی ایک اننگز میں بھی مکمل کنٹرول میں نظر نہیں آئے. کریز کے باہر گارڈ لینا، اپنا سٹانس بہت نیچا رکھنا اور ہر بار جمپ کر کے گیند تک پہنچنا ان کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے. اس دورے میں ابھی تک بیٹنگ کا ردھم اور فلو وہ حاصل نہیں کر پائے جس کی ان سے بہت توقع تھی. نمبر 4 پوزیشن پر کھیلتے ہوئے رنز نہ کرپانا ٹیم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا ہے کہ کیونکہ ٹاپ آرڈر کو ساتھ لے کر چلنے میں وہ کافی تجربہ رکھتے ہیں لیکن اس بار ان کی ناکامی سے ٹاپ آرڈر مکمل طور پر ناکام نظر آرہا ہے. انھیں چاہییے کہ کریز کے اندر لیگ سٹمپ پہ گارڈ لیں. اور اپنی ٹرگر موومنٹس کو جتنا کم اور اپنا سر جتنا ساکت رکھ سکتے ہیں رکھ کہ کھیلیں اور سوئنگ اور سیم کو کھیلتے ہوئے اپنا بیلنس برقرار رکھیں اور غیر ضروری جمپ لگانے سے پرہیز کریں. اس سیریز میں وہ جن مختلف طریقوں سے آئوٹ ہوئے ہیں وہ بھی ان جیسے مایہ ناز بلے باز کے لیے لمحہ فکریہ ہے.

    ……..مصباح الحق……….
    مصباح الحق اپنے ناقدین کو بلے سے جواب دینا مصباح کو بہت اچھی طرح آتا ہے. اپنی ڈیٹرمینیشن اور گیم پلان سے مصباح ابھی تک ٹیم کے سب سے کامیاب بیٹسمین رہے ہیں. کریز پہ ڈٹے رہنا اور سکور کرنے کا کوئی بھی آسان موقع جانے نہ دینا ہی ان کی کامیابی کا راز رہا ہے. اپنی رینج سے دور بالنگ کو انھوں نے ابھی تک اچھی طرح کنٹرول کیا ہے. ابھی تک انھیں ٹیم کے باقی پلیئرز کی جانب سے خاص سپورٹ بھی نہیں مل سکی. انھیں چاہیے کہ اپنے اس سٹائل کو اپنائے رکھیں اور ٹیم کے لیے سکور بناتے رہیں. انھیں بھی سٹرائک روٹیشن پہ دھیان دینے کی ضرورت ہے. کریز پہ نئے آنے والے بیٹسمین کو سیٹ ہونے کا موقع دینے کے لیے بھی انھیں اپنی گیم کو ایڈجسٹ کرتے رہنا چاہیے. بعض دفعہ کسی خاص بالر کے سامنے کسی بیٹسمین کو اننگز کی شروعات میں نہ آنے دینا بالنگ سائیڈ کے لیے فرسٹریشن کا باعث بنتا ہے.

    ……..اسد شفیق………
    اسد شفیق برطانوی میڈیا نے مصباح الحق کے بعد اس ٹور پہ سب سے زیادہ جس پلیئر کو اپریشیٹ کیا ہے وہ اسد شفیق ہیں. ان کی تکنیک اور اسٹائل کو کافی سراہا گیا ہے. اس سیریز میں جو سب سے خاص بات نوٹ کی گئی ہے وہ ان کا اسٹانس ہے اور انھوں نے اپنی بیٹنگ تکنیک میں جو تبدیلی کی ہے وہ ان کا بیٹ گرپ کو تھوڑا سا اوپن کرنا ہے. جس سے ان کا بیلنس اور سٹروکس کی رینج میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے ایل بی ڈبلیو یا انسائیڈ ایج سے بولڈ ہونے کی روایت ختم ہوئی ہے. اس لیے بھی وہ اب آف سائیڈ پہ رنز بنا پا رہے ہیں. انھیں رنز بنانے کا یہ سلسلہ برقرار رکھنا ہوگا. بیٹنگ آرڈر میں انھیں ٹاپ آرڈر میں بھی آزمایا جا سکتا ہے.

    ………..سرفراز احمد………
    سرفراز احمد یو اے ای اور سری لنکا میں ٹیسٹ کرکٹ میں کافی رنز کرنے والے سرفراز احمد انگلینڈ میں ابھی تک اپنا ٹاپ گیم پیش نہیی کرسکے. کچھ ان کی شاٹ سلیکشن بھی بہت اچھی نہیں رہی. وہ بزی پلیئر ہیں اور ہر بال پہ سٹرائیک روٹیٹ کرنے کا سوچتے ہیں. وکٹ کی جانب آتی ہوئی گیند کھیلنے میں انھوں نے کافی مہارت کا ثبوت دیا ہے اسی لیے اب بالرز انھیں آف سٹمپ کے باہر زیادہ بالنگ کرتے ہیں جس کے مطابق انھیں اچھا گیم پلان بنانا ہوگا اور لوز بال کا انتظار کرنا ہوگا کیونکہ ابھی تک اس تکنیک سے وہ کامیاب نظر نہیں آرہے اور ایک آسان شکار ثابت ہو رہے ہیں.

    …….لیٹ آرڈر بیٹنگ….
    ٹیسٹ کرکٹ کی ٹاپ ٹیمز میں پاکستان شاید وہ واحد ٹیم ہے جس کا لیٹ آرڈر بیٹنگ کا کنٹری بیوشن نہ ہونے کے برابر ہے. اس لیے بھی ہماری ٹیم اچھی بیٹنگ پرفارمنسز پیش کرنے مین ناکام رہی ہے. مکی آرتھر کو چاہیے کہ وہ اس شعبے میں تھوڑی سی بہتری لانے کی کوشش کریں اور بالنگ پریکٹس کے بعد ان پلیئرز کو بیٹنگ بھی انجوائے کرنا سکھائیں. آسٹریلیا، سائوتھ افریقہ، انگلینڈ، انڈیا اور نیوزی لینڈ نے اپنے ٹیل اینڈرز کی بیٹنگ کی وجہ سے کئ ٹیسٹ میچز بچائے بھی ہیں اور جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں. اس لیے ہماری ٹیم کو بھی اس سلسلے میں کافی محنت کی ضرورت ہے.

  • دوسرے ٹیسٹ میچ کا پہلا دن – محسن حدید

    دوسرے ٹیسٹ میچ کا پہلا دن – محسن حدید

    محسن حدیدا پہلے دن کا کھیل مکمل طور پر انگلینڈ کے نام رہا. اولڈ ٹریفورڈ کی ڈرائی پچ پر بیٹنگ کے لیے سازگار ماحول میں انگلینڈ کا ٹاس جیت جانا بہت بڑا بونس تھا. کک اینڈ کمپنی نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاکستانی بائولرز کو حاوی ہونے کا کوئی موقع نہیں دیا. محمد عامر کا پہلا سپیل شاندار تھا گو کہ پچ میں بائونس کافی بہتر ہے مگر اس کے علاوہ بائولرز کے لیے کچھ زیادہ مدد نہیں تھی مگر عامر نے ہیلز کو بڑی حکمت عملی سے قابو کی،ا انہیں ایک دو گیند باہر کھلا کر جب وہ اس بات پر مطمئن تھے کہ عامر کی ان سوئنگ ابھی شاید نا آئے بلکہ جیفری بائیکاٹ بھی کہہ رہے تھے کہ آج عامر گیند اندر نہیں لا پا رہا، اسی وقت ایک شاندار ان سوئنگر پر ہیلز کی وکٹیں بکھر گئیں حالانکہ اس سے دو گیند پہلے ہی آوٹ سوئنگر پر اسد شفیق سلپ میں کیچ ڈراپ کر چکے تھے.dc-Cover-oou9ltbnnperrbnmvl0dkdk0k0-20160722171059.Medi سیریز میں عامر کی بائولنگ پر ابھی تک 4 کیچز ڈراپ ہو چکے ہیں اورعامر نے اب تک سیریز میں جو 5 وکٹیں حاصل کی ہیں سب کی سب بولڈ کر کے حاصل کی ہیں. فیلڈرز کو عامر کا ساتھ دینا ہوگا

    اس پہلے نقصان کے بعد ٹیکسٹ بک بیٹنگ کا شاندار مظاہرہ دیکھنے کو ملا. روٹ اور کک کی سنچری اننگز بہت لاجواب ہیں. دونوں نے کسی بھی موقع پر غلط شاٹ نہیں کھیلا اور نہ ہی کسی باہر جاتی ہوئی گیند کو چھیڑنے کی کوشش کی. پاکستانی بائولرز کسی حد تک اوور ایکسائٹڈ بھی نظر آئے اور اس کوشش میں کئی ایک بری گیندیں تحفہ کیں جن کا روٹ اور کک نے بخوبی فائدہ اٹھایا. فاسٹ بائولرز کے خلاف آسانی دیکھتے ہوئے کپتان مصباح الحق یاسرشاہ کو 13 ویں اوور میں ہی بائولنگ کے لیے لے آئے. ڈرائی پچ اور چمکتے ہوئے سورج کو دیکھتے ہوئے یاسر سے اچھے شو کی امید تھی مگر یاسر تھوڑی جلد بازی کرتے نظر آئے گو کہ بال کو ٹرن مل رہا تھا مگر مطلوبہ لینتھ اور لائن نہیں سیٹ ہو پائی. خاص کر کک نے انہیں اپنے پیڈ پر گیند نہیں مارنے دیا. یاسر انہیں ٹریپ کرنے کے چکر میں نظر آئے جس کا انہوں نے بخوبی جواب دیا اور یاسر کو زچ کر کے رکھ دیا. مجبورا یاسر تھوڑی سی جگہ دیتے اور کک اس گیند پر ٹوٹ پڑتے. سچی بات تو یہ ہے کہ وہاب ریاض کی جگہ ایک رائٹ آرم فاسٹ باولر کھلانا چاہیے تھا. اگر رائٹ آرم فاسٹ بائولر کھیلتا تو یاسر کو لیفٹ آرم بیٹ کے لیے رف مل جاتا مگر یہاں مینجمنٹ چوکتی نظر آئی.promo293458483 روٹ نے سکوائر کے پیچھے شاٹ نہیں مارے اور واضح طور سے محسوس ہورہا تھا کہ روٹ اپنے جسم سے دور گیند کو نہیں کھیلنا چاہتے تاکہ یاسر کو کوئی ایج نا مل سکے. جب جب یاسر ان کی حکمت عملی کا توڑ کرنے کے لیے مڈل کی طرف آئے، روٹ نے انہیں لیگ پر چوکا مارنے میں کوئی غلطی نہیں کی. یاسر کی 50٪ گیندیں ہاف وولی تھیں جس کی وجہ سے انہیں اتنی مار بھی پڑی. یاسر کو لارڈز ٹیسٹ میں ٹوٹل 17 چوکے پڑے تھے اور کل صرف ایک دن کی باولنگ میں 16 چوکے پڑ گئے. پاکستان نے کل پانچواں بائولر بہت مس کیا. اگر حفیظ کا ٹیسٹ کلیئر ہوجائے تو کمال ہوجائے ورنہ یاسر سے زیادہ کام لینا ان کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے. حفیظ ویسے بھی لیفٹ ہینڈڈ بلے بازوں کے لیے بہت موثر ہیں. انگلینڈ کے پاس 4 -5 بائیں بازو کے بلے باز ہیں اس لیے ایک آف سپنر بہت ضروری ہے جو کم از کم 15-20 اوورز کروا سکے.

    مجموعی طور پر کل سب بائولرز نے انتہائی خراب باولنگ کی. وہ تو انگلینڈ کے دوسرے بلے باز اپنی ناتجربہ کاری سے مار کھاگئے اور 300 پر چار وکٹیں مل گئیں، اب بھی انگلینڈ کے پاس بہت موقع ہے کیونکہ ان کی بیٹنگ میں ڈیپتھ بہت ہے مگر صبح کا سیشن بہت اہم ہے. اب بھی میچ میں واپسی ہوسکتی ہے. اگر پہلے گھنٹے میں دو تین وکٹیں مل جائیں. بہرحال اگر لنچ تک انگلینڈ نے اچھا کھیل لیا تو پاکستان بیک فٹ پر چلا جائےگا. کپتانی بھی کل تھوڑی آف کلر رہی. غیر ضروری سنگل ہم نے بہت لیک کیے، شاید اس کی وجہ خراب بائولنگ اور لیگ سائیڈش لائن بھی رہی ہو مگر بعض دفعہ لگا جیسے مصباح بیٹسمین کی غلطی پر تکیہ کر بیٹھے ہیں. اتنی آسان پچ پر کک اور روٹ جیسے بلے باز کیوں غلطی کریں گے؟ یہاں آپ کو کچھ خاص کرنا پڑے گا اور کل پاکستان کچھ خاص نہیں کر پایا. امید ہے رات میٹنگ میں سب نے چیزوں کو نئے سرے سے دیکھا ہوگا اور آج ہم 400 سے کم پر انگلینڈ کو آوٹ کر سکیں گے. کک نے کل اپنی 29 ویں سنچری مکمل کی اور سر ڈان بریڈ مین کا ریکارڈ برابر کردیا. بطور کپتان یہ ان کی 11 ویں سنچری تھی جو کہ انگلینڈ کی طرف سے سب سے زیادہ سنچریاں ہیں

  • پاکستان بمقابلہ انگلینڈ۔ جنگ شروع ہو گئی – ثاقب ملک کا تجزیہ

    پاکستان بمقابلہ انگلینڈ۔ جنگ شروع ہو گئی – ثاقب ملک کا تجزیہ

    saqibاسٹیڈیم میں آگ لگ چکی تھی. گراؤنڈ دھویں سے بھر رہا تھا. پاکستان اور انگلینڈ کے کھلاڑی گراؤنڈ سے منہ اور آنکھوں پر ہاتھ رکھے بھاگ رہے تھے. یہ 1967-68 ہے.

    وہ دونوں ایک دوسرے کو خوانخوار نظروں سے دیکھ رہے تھے. دونوں کی تیوریاں چڑھی ہوئی تھیں. مائیک گیٹنگ نے غصے سے اپنا معافی نامہ شکور رانا کو پکڑایا. یہ 1987 ہے.

    ایمپائر نے انگلی فضا میں بلند کی مگر بلے باز کرس براڈ نے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا. کافی دیر کھڑے رہنے کے بعد ساتھی کھلاڑی اور ڈریسنگ روم سے کپتان اور مینجر کی ہدایت وہ کریز چھوڑنے پر آمادہ ہوا. یہ بھی 1987 ہے.

    بولر نے ایمپائر سے اپنی سوئیٹر لینا چاہی. ایمپائر غصے میں تھا اور سوئٹر اسکی بیلٹ سے الجھ بھی گئی تھی نتیجتاً عاقب جاوید کو بھی لگا کہ ایمپائر اسکے ساتھ بدتمیزی کر رہا ہے. اس نے ایمپائر کو دھمکی آمیز انداز میں دیکھا اور ہاتھ کمر پر رکھ کر بولنے لگا. اس سے قبل کپتان جاوید میانداد بھی اسی انداز میں ایمپائر سے بحث کر چکا تھے جب رائے ایمرسن نے عاقب کو لگاتار باونسر کروانے سے منع کیا تھا. یہ 1992 ہے.

    انگلینڈ کے کپتان کی جیب سے مٹی اور بوتل کھولنے والی چابی نکلتی ہے. مائک ایتھرٹن اسکو اپنی غلطی اور تجربہ قرار دیتے ہوئے نظر انداز کرنے کا کہتے ہیں. یہ 1996 ہے.

    گیس سلنڈر کے دھماکے سے کھیل رک جاتا ہے. اس دوران ایک پاکستانی کھلاڑی پچ پر جاتا ہے اور زور زور سے اپنے بوٹ پچ کے درمیان رگڑنا شروع کر دیتا ہے. یہ کھلاڑی شاہد آفریدی ہے. یہ 2005 ہے.

    انضمام کی آنکھیں بال ٹمپرنگ کے الزام پر غصے سے سرخ ہوجاتی ہیں وہ فوراً ایمپائر ڈیرل ہیر سے معافی کا مطالبہ کرتا ہے. ہیر انکار کرتا ہے. انضمام وقفے کے بعد ٹیم کو واپس گراؤنڈ میں لے کر جانے سے انکار کر دیتا ہے. یہ 2006 ہے.

    مظہر مجید کے سامنے پیسوں کا ڈھیر لگا ہے. وہ فکسنگ کی تفصیلات بتاتا ہے. کچھ دن قبل عامر اور آصف اوول اور لارڈز میں فٹ فٹ کی نو بالز کرتے ہیں. اسپاٹ فکسنگ کے الزامات بعد میں ثابت ہوجاتے ہیں. یہ 2010 ہے.

    اب 2016 یے اور آج ،جمعرات کے دن سے پاکستان انگلینڈ کی ایک اور ہنگامہ خیز ٹیسٹ سیریز کا آغاز ہوگیا ہے ۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم کم سے کم پہلے ٹیسٹ میں فیورٹ ہے اور پاکستان انگلینڈ کو ہرا سکتا ہے. لیکن اگلے تین ٹیسٹ میچز کے لئے انگلش ٹیم کا پلڑا بھاری ہوگا. اس دوران اگر موسم خشک اور گرم رہا تو پاکستان ایک مزید ٹیسٹ جیت سکتا ہے. میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر پاکستان یہ سیریز برابر بھی کر لے تو ایک بہتر رزلٹ کہا جا سکتا ہے. لیکن زیادہ متوقع خدشہ انگلینڈ کی 2-1 سے جیت لگ رہی ہے. پاکستان کے میچ ونرز ٹیسٹ میں بولنگ میں یاسر شاہ اور عامر جبکہ بیٹنگ یونس اور سرفراز ہوسکتے ہیں. مصباح، اسد اور سہیل خان عمدہ مدد دے سکتے ہیں.

    امکان غالب ہے کہ پاکستان سری لنکا سے کہیں بہتر کھیلے گا اور سیریز ایک اچھی اور دلچسپ ہوگی. جانے کیوں میں ایک عرصے بعد پاکستانی ٹیم کے لئے مثبت جذبات اور جوش محسوس کر رہا ہوں. پاکستانی ٹیم اچھا کھیلے اور ڈٹ کر مقابلہ کرے تو ہار جیت کا بہت دکھ نہیں ہوگا. مصباح، اظہر اور حفیظ کو صرف بیٹنگ پچز پر رنز کرنے کی تنقید کو اس سیریز میں غلط ثابت کرنا ہوگا وگر نہ وہ صرف سلو پچز کے شیر قرار پائیں گے.

    لارڈز میں پچ کا سلوپ پہلی بار وہاں کھیلنے والے کے لئے بہت ایشو ہوتا ہے. اس لئے امید ہے کہ پریکٹس میں خصوصی توجہ دی گئی ہوگی. اگر موسم ابر آلود ہوا تو گیند سوئنگ کرے گی اور انگلینڈ کے پاس ووکس یا پہلا میچ کھیلنے والا جیک بال یا رولینڈ جونز ہی سوئنگ بولر ہیں. اینڈرسن اور اسٹوکس کی غیر موجودگی میں انگلش بولرز کا بھی امتحان ہوگا. اگلے پانچ دن لندن میں شاید ایک دن بارش کا امکان ہے دو دن ٹھیک ٹھاک دھوپ اور مناسب موسم ہوگا اس لیے ٹیسٹ کے نتیجے کا امکان غالب ہے لیکن یاسر شاہ کو کم مدد ملے گی کیونکہ سخت گرمی یا شدید دھوپ کا امکان نہیں لگ رہا ہے. پاکستان کو سہیل خان کو کھلانا چاہئے تھا کیونکہ وہ سوئنگ بولر ہے اور اسکی لینتھ بھی فل ہے. نیز ہم سارے ہی کھبے فاسٹ بولرز نہیں کھلا سکتے، تاہم ٹیم مینجمنٹ نے سہیل کو بارہ کھلاڑیوں میں بھی شامل نہ کیا اور پھر آخری مرحلے پر عمران خان کی جگہ راحت علی کو ترجیح دی گئی۔. ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ برا فیصلہ نہیں یوگا کیونکہ لارڈز کی پچ تقریباً چار دن تک عموماً بہترین رہتی ہے صرف پہلے دن کچھ سوئنگ اور پیس کا امکان ہوتا ہے لیکن اگر پہلے بیٹنگ کرکے پاکستان بیٹنگ بھی کر لے تو تیسرے دن بادل اور بارش کا امکان ہے اور اس دن پاکستان کی بولنگ زیادہ کامیاب رہ سکتی ہے. پچ سے زیادہ آسمان کو دیکھ کر فیصلہ کرنا مناسب ہوگا. مصباح کو چاہیے کہ دو سلپ تو اپنے فاسٹ بولرز کے لئے ہر حال میں رکھے. آغاز میں چار سلپ رکھی جانی چاہئے. ہیلز کے لئے دو گلی رکھنی چاہئے. روٹ کو کھبے عامر اور وہاب آؤٹ کر سکتے ہیں. انگلش لوئر آرڈر کو جلد نپٹا نا ہوگا انکی ٹیل اچھی اور نمبر دس تک بیٹنگ کرنے والے ہیں اس لئے صرف روٹ اور کک کو آؤٹ کرکے مطمئن نہیں ہونا چاہئے.

    پاکستان کی پلئنگ الیون یہ ہونی چاہئے.
    حفیظ، شان، اظہر، یونس، مصباح، اسد، سرفراز، یاسر، وہاب، عامر اور راحت علی۔عمران خان ایک محنتی بولر ہے اسکو کھلانا برا فیصلہ نہیں تھا،مگر ایک جینوئن فاسٹ بولر وہاب کی شکل میں ٹیم میں ڈالنا ضروری تھا۔یونس کو بطور چوتھے سیمر کے استعمال کیا جا سکتا ہے، اظہر علی بوقت ضرورت پارٹ ٹائم سپنر کے طور پر بائولنگ کرا سکتے ہیں۔