Category: اسپورٹس

  • مغربی کرکٹ ٹیمیں ایشیا میں کیوں ناکام ہو رہی ہیں؟ عمر فاروق

    مغربی کرکٹ ٹیمیں ایشیا میں کیوں ناکام ہو رہی ہیں؟ عمر فاروق

    عمر فاروقٹیسٹ کرکٹ میں آسٹریلیا کی سری لنکا کے ہاتھوں ہوئی یادگار شکست کے بعد نیوزی لینڈ بھی انڈیا سے وائٹ واش کروانے کے لیے تیار ہے. آسٹریلیا کو ایشین کنڈیشنز میں کوئی ٹیسٹ میچ جیتے ہوئے بھی 5 سال بیت چکے اور اس نے 2008ء سے لے کر 2016ء تک کھیلے گئے 18 ٹیسٹ میچز میں سے صرف 1 جیتا، 13 ہارے اور 4 ڈرا کیے ہیں جبکہ پچھلے مسلسل 9 ٹیسٹ میچز میں شکست کا ذائقہ چکھا ہے. کم و بیش یہی حال انگلینڈ اور ساؤتھ افریقہ وغیرہ کا بھی ہے.

    کیا ایشین کنڈیشنز اتنی ہی خطرناک ہوچکی ہیں کہ یہ ٹیمیں سروائیو ہی نہیں کرپاتیں؟ جب اس بات کا موازنہ ایشین پلیئرز کی اپنی کارکردگی سے کیا جاتا ہے تو اس کے بالکل مختلف صورتحال نظر آتی ہے. فاسٹ باؤلرز ریورس سوئنگ سے جبکہ سپنرز اپنے سپن کے جال میں دوسرے بلے بازوں کو ایسا پھانستے ہیں کہ پھر ان سے سوائے پچز کے بارے میں کمپلین کرنے کے کوئی بات نہیں بن پاتی. جبکہ انھی پچز پر ایشین بیٹسمین رنز کے انبار لگا رہے ہیں، اور ایک ایک سیریز میں ریکارڈ سنچریاں بھی بنا رہے ہیں.

    مہمان یعنی مغربی ٹیموں کی بیٹنگ کی اگر بات کی جائے تو ان کے بلے باز اپنی اننگز کی شروعات فاسٹ باؤلنگ کے خلاف کرنے کے عادی ہوتے ہیں، اور لیکن جب ایشین کنڈیشنز میں سپنرز کے خلاف شروعات کرنی پڑے تو ان کے لیے اپنی وکٹ بچانا ہی مشکل تر ہوجاتا، کیونکہ سپنر کے خلاف کھیلنے کے لیے قدموں کا استعمال اور گیند کی لینتھ کا سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے. کیونکہ انہیں اس چیز کی اتنی پریکٹس نہیں ہوتی تو اس صورتحال سے نکلنے کے لیے وہ سلاگنگ کرتے یا کراس کھیلتے ہوئے سویپ شاٹ کا سہارا لیتے ہیں، اور آسان شکار ثابت ہوتے ہیں. انڈین آف بریکر ایشون تیز ترین 200 وکٹیں اور پاکستانی سپنر یاسر شاہ ابتدائی چند ٹیسٹ میچز میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے کا ریکارڈ ایسے ہی بلے بازوں کے خلاف کھیل کر بنا چکے ہیں جبکہ سری لنکن رنگنا ہیراتھ کی کارکردگی بھی مثالی ہے.

    آسٹریلیا نے اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے برسبین میں سپیشل ٹرننگ وکٹ کا انتظام کیا اور اپنے پلیئرز کو اس پر کھلانے اور پریکٹس کروانے کا سلسلہ شروع کیا لیکن ان کے پلیئرز ابھی بھی ایڈجسٹ نہیں کر پا رہے کیونکہ میچ سچویشن کے پریشر میں کھیلنا اور پریکٹس وکٹس پہ کھیلنا، جہاں آئوٹ ہونے کا ڈر نہ ہو، ایک بالکل مختلف چیز ہے. اسی طرح کوالٹی سپنرز کے نہ ہونے کی وجہ سے باؤلنگ مشینز کا بےتحاشا استعمال بھی شروع کیا گیا جو کہ ابھی تک مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام ہے.

    مغربی ٹیمیں اپنے ٹوورز میں کوچنگ کنسلٹنٹ کے نام سے اسی ٹیم کے متعلق علم رکھنے والے مقامی افراد کو بھی مختصر عرصے کے لیے ہائیر کرنے لگی ہیں. ان میں مہیلا جےوردھنے، ثقلین مشتاق اور مرلی دھرن وغیرہ کے نام قابل زکر ہیں. یہ پلیئرز چونکہ پروفیشنلز ہوتے ہیں اس لیے اپنی ڈیوٹی تو سرانجام دیتے ہیں لیکن جدید کوچنگ ٹیکنیکس یا سائیکلوجیکل حوالے سے یہ طریقے بھی کسی نہ کسی حد تک اپنا کردار ادا کر رہے ہیں.

    ٹورنگ ٹیمز کی باؤلنگ کا جہاں تک تعلق ہے تو سب سے بڑی کمزوری جو ان ٹیمز میں نظر آتی ہے، وہ ٹیسٹ کوالٹی سپنرز کی ہے جو اپنی ٹیمز کے لیے بالکل وہی کارکردگی سرانجام دے سکیں جو ایشین سپنرز اپنی ٹیمز کے لیے سرانجام دیتے ہیں. معین علی یا عادل رشید اکیلے میچ جتوانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے. اسی طرح ناتھن لائن آسٹریلیا کو کبھی بھی ایشیا میں فتح نہیں دلوا سکے. فاسٹ باؤلنگ کے معاملے میں بھی سوائے مچل سٹارک، جیمز اینڈرسن اور ڈیل سٹین کے کوئی ایک بھی بالر میچ وننگ کارکردگی دکھانے کے قابل نظر نہیں آتا. اکیلے فاسٹ بالر کے لیے ٹیم کو ایشین کنڈیشنز میں جتوانا اگر ممکن ہوتا تو سٹارک کی موجودگی میں آسٹریلیا اور اینڈرسن کی موجودگی میں انگلینڈ شکست سے دوچار نہ ہوتے.

    ایشین ٹیمز کی جہاں تک بات کریں تو پچھلے کچھ عرصے میں خاص کر پاکستان اور انڈیا کی کارکردگی آسٹریلیا اور انگلینڈ وغیرہ میں اتنی بری نہیں رہی جتنی بری کارکردگی وہ ٹیمیں ایشین کنڈیشنز میں دکھاتی ہیں. حال ہی میں پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف سیریز انگلینڈ میں ڈرا کی بلکہ ساؤتھ افریقہ میں پہلی بار ون ڈے سیریز بھی اپنے نام کی. مغربی ٹیموں کی ایسی پرفارمنسز ایشین شائقین کے لیے تو بہت خوش آئند ہیں لیکن اپنی ہوم کنڈیشنز کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی حد مقرر کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہوتا جا رہا ہے.

  • آج کے دن کی ایک عظیم فتح – محسن حدید

    آج کے دن کی ایک عظیم فتح – محسن حدید

    محسن حدیدا آج کے دن 1956ء میں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان سب سے پہلا ٹیسٹ میچ نیشنل سٹیڈیم کراچی میں کھیلا گیا تھا. فخر کی بات یہ ہے کہ پاکستان نے آسٹریلیا کو پہلی اننگز میں صرف 80 رنز پر آؤٹ کر دیا تھا. پاکستان کی طرف سے صرف دو بالرز خان محمد (4 وکٹیں) اور فضل محمود (6 وکٹیں ) نے ساری آسٹریلین ٹیم کو آؤٹ کر دیا تھا. اس سے بھی زیادہ ناقابل یقین بات یہ ہے کہ آسٹریلیا نے 80 رنز بنانے کے لیے 53.1 اوورز کھیلے تھے اور یہ سارے اوورز انھی دو باؤلرز نے پھینکے تھے. آج کل اکثر فاسٹ باؤلرز زیادہ سے زیادہ 8 یا 9 اوورز کا سپیل ہی کر پاتے ہیں، اتنا لمبا سپیل کرنے کا توسوچا بھی نہیں جا سکتا، ان دو کے علاوہ کسی بھی فاسٹ باؤلنگ جوڑی نے اتنا لمبا سپیل کیا ہو، میرے علم میں نہیں ہے. (ریکارڈ نہیں مل سکا)

    پاکستان کے اس وقت کے صدر اسکندر مرزا اور وزیراعظم حسین شہید سہروردی تاریخی میچ دیکھ رہے ہیں
    پاکستان کے اس وقت کے صدر اسکندر مرزا اور وزیراعظم حسین شہید سہروردی تاریخی میچ دیکھ رہے ہیں

    ٹیسٹ میچ کے پہلے دن صرف 95 رنز بنے تھے، اور یہ کسی بھی ٹیسٹ میچ کے پہلے دن (جب مکمل دن کا کھیل ہوا ہو) کا سب سے کم سکور بھی ہے. پاکستان نے اپنی پہلی باری میں 199 رنز بنائے تھے، جس میں لٹل ماسٹر حنیف محمد کا صفر بھی شامل تھا. آسٹریلیا نے جواب میں 187 رنز بنائے تھے. یہ رنز بنانے کے لیے آسٹریلیا نے 110 اوورز کھیلے. یہاں ایک اوردلچسپ بات یہ ہے کہ ان 110 اوورز میں سے 89 اوورز پھر فضل محمود (48 اوورز) اور خان محمد (41 اوورز) کے حصے میں آئے. دوسری اننگز میں بھی آسٹریلیا کی ساری وکٹیں انھی دو باؤلرز کے حصے میں آئیں، فضل محمود نے 7 آسٹریلوی بلے بازوں کو پویلین بھیجا اور خان محمد کے حصے میں 3 وکٹیں آئیں. یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے کہ جب کسی ٹیسٹ میچ کی تمام 20 وکٹیں صرف دو باولرز نے حاصل کر لی ہوں.

    پاکستان نے یہ ٹیسٹ 9 وکٹوں کے بڑے مارجن سے جیت لیا تھا. یاد رہے آسٹریلیا اور انگلینڈ کو ہرانے کے لیے اکثر ٹیموں نے بہت لمبے عرصے تک انتظار کیا ہے. پاکستان کی یہ فتح ایک عظیم ترین فتح گنی جاتی ہے۔ اس آسٹریلین ٹیم میں رچی بینو، نیل ہاروے اور کیتھ ملر جیسے عظیم کھلاڑی شامل تھے. خاص کر نیل ہاروے اپنے زمانے کے عظیم ترین بلے بازوں میں سے ایک شمار کیے جاتے ہیں.

    amtiaz-ahmd اس یادگار فتح میں بطور وکٹ کیپر حصہ ڈالنے والے امتیاز احمد بہت سالوں بعد اس میچ کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کھیل کے چوتھے دن 20 ہزار کے قریب تماشائیوں کا جوش و خروش دیدنی تھا. پاکستان کو چوتھی اننگز میں میچ جیتنے کے لیے صرف 69 رنز کا ٹارگٹ ملا تھا مگر کھیل بہت سلو تھا، تماشائی بے تاب تھے اور آج ہی فتح چاہتے تھے، ان کے نعروں سے تنگ آ کر ایک بار تو علیم الدین جو اس وقت کریز پر کھڑے تھے، انہون نے اپنا بیٹ تماشائیوں کی طرف لہرا کر کہا کہ آؤ تم لوگ بیٹنگ کرلو. اس دن فتح کے لیے 6 رنز باقی تھے، جب کھیل ختم ہوگیا، اگلے دن ریسٹ ڈے تھا کیونکہ لیاقت علی خان کی شہادت کی یاد میں پبلک ہالی ڈے تھا، اس سے اگلے دن پاکستان نے 6 رنز بنا کر میچ جیت لیا. تماشائی بھی سچے تھے کیونکہ پاکستان نے 69 بنانے کے لیے 48 اوورز بیٹنگ کی تھی اور تماشائیوں کو ایک عظیم فتح کے لیے تقریبا 36 گھنٹے انتظار کرنا پڑا.

  • جاوید میانداد کے نام – شعیب محمد خان

    جاوید میانداد کے نام – شعیب محمد خان

    %d8%b4%d8%b9%db%8c%d8%a8-%d9%85%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%ae%d8%a7%d9%86-%d8%a7 جاوید بھائی! بیوپاری اور کھلاڑی میں فرق ہوتا ہے۔ بیوپاری سودے کرتا ہے، مال بکواتا ہے، پیسہ کماتا ہے، اپنا ”کٹ“ بھی بیچ میں ہی رکھتا ہے اور آڑھتی کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔ ظاہر ہے جو بیوپاری آڑھتی کی بِکری بڑھائےگا، فائدہ دلوائےگا اور پیسے کا بول بالا کروائےگا، وہی تو آڑھتی کا منظورِ نظر ٹھہرے گا۔

    javed-miandad-and-kiran-more آپ کیا چاہتے ہیں کہ یہ دو دو کوڑی پر مر مٹنے والے بیوپاریوں کا آپ ایسے شاندار کھلاڑیوں سے موازنہ کیا جائے؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ گدھے اور گھوڑے کو ایک ہی ریس میں دوڑایا جائے، اور جبکہ پورا گاؤں، بستی، شہر یا پورا ملک گدھے کی مینگنیاں اٹھاتا پھر رہا ہو، آپ چاہتے ہیں کہ گھوڑے کی شان میں قصائد پڑھ کر پورے کا پورا کاروباری دھندا ٹھپ کر دیا جائے؟ نہیں صاحب! یہ روپیے کا دھندا ہے، یہاں سب سے اہم وہ ہے جو بکتا ہے۔ عقل، نسب، خوبی وغیرہ سب فروعی باتیں ہیں۔ کوئی نہیں یاد رکھےگا کہ جس جاوید میانداد کی لکنت کا مذاق ساری زندگی اڑایا جاتا رہا، اس جاوید میانداد کے بارے میں سر ویوین رچرڈز کے تاثرات یہ ہیں کہ
    ”Javed Miandad is the one who I’d want to bat for my life“

    نہ صرف یہ بلکہ جاتے جاتے بھی جاوید بھائی ایسٹ لندن، جنوبی افریقہ کی مشکل وکٹ پر اس صورتحال میں سو رنز کر کے گئے تھے کہ جب پاکستان کے نوجوان کھلاڑی بھی گھبرائے ہوئے تھے کہ ڈونلڈ اور ڈی ویلیئرز کی طوفانی باؤلنگ کا سامنا کس طرح کرنا ہے تو عظمت و ہمت کے اسی کوہ گراں نے پاکستانی ٹیم کی ڈولتی ہوئی نیَا کو سنبھالا اور نازک موقع پر شاندار سینچری بنا کر قومی ٹیم کی عزت کو داغدار ہونے سے بچایا۔

    39 سال کی عمر میں اپنا آخری میچ کھیلنے والے جاوید میانداد اس وقت بھی اپنی قوم کی امیدوں کا مرکز تھے جب انڈیا کے مقابل ورلڈ کپ کوارٹرفائنل کھیلتے ہوئے پاکستانی ٹیم کا مڈل آرڈر ایک بار پھر ریت کی دیوار ثابت ہوا تھا اور جاوید میانداد اکیلے ہی پاکستان کی نیَا کو ایک بار پھر پار لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاریخی کتب میں شاید پاکستان کی ٹیم کی ہار کا ذکر ہو، لیکن عوام کے دلوں میں جیتے ہوئے جاوید میانداد ہمیشہ کے لیے امر ہوچکے تھے۔ اس بات کے ثبوت میں راشد لطیف کی اسٹمپنگ پر جاوید بھائی کا ری ایکشن دیکھا جاسکتا ہے۔

    93266 پاکستانی کرکٹ میں شاید اب تک صرف دوکھلاڑی ایسے آئے ہیں کہ جن میں عوام کی مرچکی امید کو واپس بیدار کرنے کی صلاحیت تھی۔ ایک تو بلاشبہ جاوید بھائی ہیں اور دوسرے کسی حد تک وقار یونس کا نام لیا جاسکتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق جاوید میانداد نے 124 ٹیسٹ میچز میں 52 رنز کی اوسط سے 8832 اسکور کیے ہیں، جبکہ 233 ون ڈے میچز میں 41 رنز کی اوسط سے 7381 رنز اسکور کیے ہیں۔ 1992ء ورلڈ کپ کے سیمی فائنل اور فائنل میں ففٹی اسکور کرنے کے علاوہ سب سے زیادہ لگاتار ففٹیاں بنانے کا اعزاز بھی جاوید میانداد کے پاس ہے جس میں سے 2 پچاس انہوں نے انڈیا میں اور 3 پچاس سے زائد اسکورز والی اننگز انہوں نے انگلینڈ میں کھیلیں۔ پاکستان کے لیے سب سے زیادہ ٹیسٹ ڈبل سنچریاں بنانے کا اعزاز بھی جاوید میانداد کے پاس ہے جسے حال ہی میں یونس خان نے برابر کیا ہے.

    شاہد آفریدی جن صاحب کا خیال ہے کہ جاوید بھائی کا پیسوں کا مسئلہ ہے تو ان کے علم میں ہونا چاہیے کہ جس دور میں وہ پانچ پانچ سو روپے میں برتھ سرٹیفیکٹ اور بے فارم اور 3،3 ہزار روپے میں ”ڈبل میٹرک“ کی باتیں کرتے تھے، اس دور میں جاوید بھائی کے ساتھ تصویریں اتروا کر لوگ اپنے اور پرایوں کو دکھا کر کہا کرتے تھے کہ یہ ہے وہ بندہ جس نے شارجہ میں آخری بال پر چھکا مارا تھا، یا یہ ہے وہ بندہ جس کے بارے میں انڈیا کے سابق کپتان کپل دیو نے کہا تھا کہ جاوید ایک ایسا پلیئر تھا جو پننگا لے کر کھیلتا تھا، اس جیسا پلیئر شاید کسی حد تک ویرات کوہلی ہے، ورنہ اور کوئی بھی نہیں۔ یاد رہے یہ بات وہ شخص کہ رہا ہے جو خود سنیل گواسکر، نوجوت سنگھ سدھو، وینگسارکار، وشواناتھ اور سب سے بڑھ کر کرکٹ کے بےتاج بادشاہ سچن ٹنڈولکر ایسوں کا کپتان رہا ہے۔

    39 سال کا جاوید میانداد سنہ 96ء میں بھی شاہد آفریدی ایسوں کے ایوریج اسکور سے زیادہ رنز کرکے ہی آؤٹ ہوا تھا۔ یہ اس کی فائٹنگ اسپرٹ کا کمال تھا کہ جس وقت وہ آؤٹ ہوکر سر جھکا کر گراؤنڈ سے آخری بار رخصت ہورہا تھا، اس وقت بھی پڑوسی ملک کے شائقین زوردار تالیاں بجا کر اسے الوداع کہہ رہے تھے۔

    افسوس اس بات کا نہیں کہ گھوڑے کو دیکھ کر گدھے نے ہنکار بھری، افسوس اس بات کا بھی نہیں کہ گاؤں، شہر اور ملک میں رہنے والی عوام کو گدھے سے پیار ہے، بلکہ افسوس تو اس بات کا ہے کو ہجومِ شہرِ ستم گراں میں ایک شخص ایسا نہیں جو اٹھ کر کھرے اور کھوٹے میں تمیز کر سکے۔

  • کرکٹ سیزن پر ایک نظر – عمرفاروق

    کرکٹ سیزن پر ایک نظر – عمرفاروق

    عمر فاروق کرکٹ کا سیزن اپنے عروج پر ہے اور ٹیمیں مختلف فارمیٹس میں ای کدوسرے سے نبرد آزما ہیں. ایسے میں کئی اپ سیٹ اور حیران کن نتائج بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں.

    Sri Lanka Australia Cricket ٹیسٹ کرکٹ کی بات کریں تو سری لنکا نے آسٹریلیا جیسے حریف کو اپنے ملک میں آسانی سے وائٹ واش کر دیا. ویسٹ انڈیز بھی انڈیا کے خلاف ایک بالکل ہارا ہوا میچ ڈرا کرنے میں کامیاب ہوا. اسی طرح پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف انگلینڈ میں ہی کرکٹ پنڈتوں کو حیران کرتے ہوئے سیریز ڈرا کی. اسی طرح نیوزی لینڈ انڈیا اور ساؤتھ افریقہ کے خلاف بالکل بھی فائٹ نہ کرتے ہوئے سیریز گنوا بیٹھا.

    australia-vs-south-africa ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کرکٹ میں نتائج اس سے بالکل مختلف نظر آتے ہیں. آسٹریلیا نے بآسانی سری لنکا کو ون ڈے اور ٹی ٹونٹی سیریز میں شکست دی اور اس سے پہلے ویسٹ انڈیز میں کھیلی گئی ٹرائی اینگولر سیریز بھی اپنے نام کی. لیکن ساؤتھ افریقہ کے خلاف سیریز میں ناقص سلیکشن اور بری باؤلنگ پرفارمنسز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا. اسی طرح نیوزی لینڈ بھی پاکستان کی طرح مختلف فارمیٹس میں بالکل مختلف ریکارڈ رکھتی ہے. ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کرکٹ میں تو وہ ٹاپ پوزیشن پہ نظر آتی ہے لیکن ٹیسٹ میچز میں وہ ساتویں نمبر پر ہے.5922763201 نیوزی لینڈ کے کرکٹ سٹرکچر اور پروفیشنل ازم کو دیکھتے ہوئے یہ ایک حیران کن فرق ہے. ساؤتھ افریقہ کی حالیہ کچھ عرصے کی پرفارمنسز مختلف فارمیٹس میں ملی جلی رہیں، ویسٹ انڈیز کی ٹرائی اینگولر سیریز میں وہ فائنل کے لیے بھی کوالیفائی نہیں کر سکے تھے. اسی طرح اب وہ ٹیسٹ کرکٹ کی رینکنگ کے حساب سے پانچویں اور ون ڈے کرکٹ میں دوسرے نمبر پر ہیں. انڈیا کی پرفارمنس تینوں فارمیٹس میں اچھی ہے اس لیے وہ رینکنگ میں ٹاپ فور میں ہی ہے. سری لنکا بھی اب ایک اوسط درجے کی ٹیم بن چکی ہے اور تینوں فارمیٹس میں کسی میں بھی اس کی کارکردگی قابل ستائش نہیں رہی. بنگلہ دیش بھی اپنے ملک میں کھیلی گئی ون ڈے کرکٹ میں ہی اچھی پرفارمنس دکھاتا ہے. انگلینڈ کی ٹیم نے ایک روزہ اور ٹی ٹونٹی کرکٹ میں سب سے زیادہ امپروو کیا ہے اور پہلی بار انہوں نے وائٹ بال کرکٹ کو بھی اہمیت دی ہے اور پلیئرز کی سلیکشن پر خاص طور پہ دھیان دیا ہے جس کے حوصلہ افزا نتائج حاصل ہو رہے ہیں.

    مختلف فارمیٹس میں ٹیمز کی پرفارمنسز میں یہ فرق کیوں ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو اکثر شائقین کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے. آئیے اس کی کچھ ممکنہ وجوہات تلاش کرتے ہیں.

    pakistan-test-cricket-uae-2015_3742149 پچھلے کافی عرصے سے ٹیموں کی پرفارمنسز پر جس چیز نے سب سے زیادہ اثر کیا، وہ ان کا ہوم اور اوے کی بنیاد پر کھیلنا ہے. یو اے ای کو بھی اگر پاکستان کا ہوم وینیو سمجھا جائے تو تقریبا سب ٹیمز ہی صرف اپنے گرائونڈز میں اچھا پرفارم کر رہی ہیں. اس سلسلے میں بنگلہ دیش کی اپنے ملک میں ون ڈے پرفارمنسز اور آسٹریلیا کی ایشیا میں ٹیسٹ پرفارمنسز کو دیکھا جائے تو یہ فرق آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے.

    پلیئرز اور ٹیموں کا مختلف فارمیٹس میں فوکس ان کی پرفارمنس پر اثر انداز ہوتا ہے. کچھ عرصہ پہلے تک انگلینڈ اور آسٹریلیا کی ٹیسٹ پرفارمنسز میں ایشیز سیریز حرف آخر کا درجہ رکھتی تھی. لیکن انگلینڈ نے اپنا فوکس جب سے وائٹ بال کرکٹ پر کیا ہے ان کی پرفارمنسز میں آنے والی تبدیلی اس بات کو واضح کرتی ہے کہ فارمیٹ کی اہمیت کا ان کی پرفارمنسز پر اثر ہوتا ہے.

    psl-players-pkg-03-092-e1443437921838 ٹی ٹونٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور مختلف لیگز میں پلیئرز کی بڑھتی ہوئی مانگ اور اس سے حاصل ہونا والا کئی گنا زیادہ معاوضہ پلیئرز کو چھوٹے فارمیٹس پر زیادہ توجہ دینے پر مجبور کر رہا ہے جس سے ٹیسٹ کرکٹ میں پلیئرز کی کوالٹی خاص طور پر متاثر ہوتی ہے جس کا پھر نتائج پر بھی اثر پڑتا ہے. ویسٹ انڈیز کے پلیئرز کو اسی لیے ٹیسٹ کرکٹ میں کوئی خاص کشش محسوس نہیں ہوتی.

    پلیئرز کی سلیکشن میں تسلسل، ان کو کانفیڈینس دینا اور کپتان کو مکمل اختیار دے کہ ٹیم کا وننگ کامبینیشن بنانا اور بورڈ کی پا لیسیز کو ٹیم کے فائدے کے لیے تشکیل دینا ہی بہترین ٹیم بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے. آسٹریلیا، انگلینڈ اور ساؤتھ افریقہ نے اسی طرح ٹیسٹ کرکٹ پر کئی سال تک اپنی اجارہ داری قائم کیے رکھی. لیکن جو ٹیمیں بھی مسائل کا شکار نظر آتی ہیں، ان میں یہ سب پرابلمز خاص طور پہ محسوس کی جاسکتی ہیں.

    بیک اپ پلیئرز تیار کیے بغیر کبھی بھی ٹیم زیادہ عرصے تک کامیابیاں نہیں سمیٹ سکتیں. کیونکہ کرکٹ اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ اپنی فٹنس کو اتنا عرصہ برقرار رکھنا پلیئرز کے لیے بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے. اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیمز نے روٹیشن پالیسی بھی اپنائی لیکن پھر ٹیم کامبینیشن بنانے کے مسائل پیدا ہوتے ہیں. نیوزی لینڈ نے اپنے کوچ مائیک ہیسن کے دور میں خاص طور پر ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کرکٹ کےلیے اپنی ٹیم کےلیے ایک وننگ کامبینیشن سوچا اور سلیکشن کو اس سے مشروط کر دیا. اور like for like replacement کا تصور دیا جسے استعمال کرتے ہوئے انہوں نے انڈیا میں کھیلا جانے والا ورلڈ کپ ٹم سائوتھی اور ٹرینٹ بولٹ کے بغیر کھیلا کیونکہ ان کے کامبینیشن میں وہ فٹ نہیں بیٹھ رہے تھے، جس میں انہیں سیمی فائنل تک رسائی ملی. اور انہوں نے انڈیا تک کو ان کے ملک میں شکست دی.

    ڈومیسٹک کرکٹ اور انٹرنیشنل کرکٹ کا فرق ٹیموں کی پرفارمنس میں بہت حد تک فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے. جو ٹیمز اس فرق کو کم سے کم رکھ پاتی ہیں وہ کامیاب رہتی ہیں. اسی لیے آسٹریلیا، انگلینڈ اور ساؤتھ افریقہ کا ڈومیسٹک سسٹم سب سے اچھا مانا جاتا ہے کیونکہ ان کا معیار باقی ممالک سے بہت بہتر ہے.

    ڈومیسٹک ٹیمز سے انٹرنیشنل ٹیم کے لیے سلیکشن اور پھر پلیئرز کو ان کا صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے ڈیبیو کروانا اور مکمل اعتماد دیتے ہوئے ان کو اپنا ٹیلنٹ دکھانے کا پورا موقع فراہم کرنا پلیئرز کی پرفارمنس اور ڈویلپمنٹ کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن اگر ایسا نہ کیا جائے تو ان کی پرفارمنس ٹیم کی پرفارمنس پہ بھی اثر انداز ہوتی ہے.

    1164421-image-1471413353-885-640x480پاکستان کی ون ڈے کرکٹ کے مسائل کی بات کی جائے تو مسائل ہی مسائل نظر آتے ہیں . ناصر جمشید، عمر اکمل، احمد شہزاد اور جنید خان یہ وہ پلیئرز تھے جو ایک وقت تک ٹیم کا اثاثہ تھے. لیکن ٹیم مینجمنٹ کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے کیریئر کے انتہائی اہم موڑ پہ یہ پلیئرز نظر انداز کر دیے گئے. ان کے متبادل پلیئرز کو بھی ٹیم میں شامل کیا جاتا رہا اور کئی بار تو بغیر کھلائے ہی ٹیم سے باہر کیا جاتا رہا. یا پھر کسی ایک فارمیٹ کی پرفارمنس پہ ان کو دوسرے فارمیٹ میں کھلانے یا نہ کھلانے کے فیصلے کیے گئے. ایسے میں ٹیم کمبینیشن ہی نہیں بن پایا. تو وننگ کامبینیشن خواب ہی بن گیا. پھر اظہر علی کو کپتانی سونپی گئی تو اس کے ساتھ ہی ٹیم میں ان کی جگہ پہ سوالیہ نشان لگا دیے گئے. جس سے ان کا دھیان بہت بری طرح بٹ گیا. اس کے علاوہ ٹیم میں کھیلنے والے پلیئرز کو ان کے اصل نمبرز پہ بیٹنگ پہ نہ بھیجنا بھی اہم مسئلہ رہا. ایک اچھے فاسٹ بالنگ آل رائونڈر اور آخری اوورز میں ہارڈ ہٹنگ بیٹسمین کی کمی کو ہمیشہ محسوس کیا گیا. لیکن ان کی طرف ابھی بھی ہماری سلیکشن کمیٹیز کو دھیان ہی نہیں جارہا. ویسٹ انڈیز کے خلاف حالیہ پرفارمنسز سے شائقین کی کچھ امید تو بندھی ہے کہ مسائل کم ہوئے ہیں. اب بہتری کے اس سلسلے کو مزید جاری رکھنے کی ضرورت ہے.

  • اظہر علی، مصباح الحق کا نیا جنم – شاہد اقبال خان

    اظہر علی، مصباح الحق کا نیا جنم – شاہد اقبال خان

    misbah-ul-haq-and-azhar-ali-3 کچھ دنوں سے تمام توپوں کا رخ اظہر علی کی طرف ہو گیا ہے۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے ہر مسئلے کی وجہ اظہر علی ہے۔ تجزیہ نگار اور کچھ سابق کرکٹرز اظہر علی پر مضحکہ خیز حد تک تنقید کر رہے تھے. عبدالقادر صاحب نے تو ایک اوور میں 20 رنز پڑنے پر اظہر علی پر ون ڈے کرکٹ پر تاحیات پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کر دیا تھا۔ سرفراز احمد کی بطور کپتان 4 لگاتار فتوحات نے اس جلتی پر تیل کا کام کیا۔ مگر ون ڈے سیریز کے تینوں میچ جیت کر اور آخری ون ڈے میں سنچری کر کے اظہر علی نے وقتی طور پر ناقدین کو خاموش تو کیا ہے مگر چند اور ناکامیوں کے بعد یہی تبصرے پھر سے شروع ہو جانے کا قوی امکان ہے۔ اظہر علی پر ہونے والی تنقید اور اس کی حقیقت کو جاننے کے لیے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا۔

    2011ء میں ویسٹ انڈیز کی اس وقت کی کمزور ترین ٹیم جس میں کرس گیل، ڈیرن براوو، سیمی، پولارڈ، ساروان، چندرپال سمیت کوئی بھی اہم کھلاڈی حصہ نہیں لے رہا تھا، اس سے دو میچ ہارنے کے بعد اس وقت کے کوچ وقاریونس کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے شاہد آفریدی کو ہٹا کر مصباح الحق کو کپتان بنا دیا گیا جو اس وقت ٹیسٹ ٹیم کو فتوحات کی طرف گامزن کر چکے تھے۔ اس تبدیلی کے مثبت رزلٹ آئے۔ مصباح کی قیادت میں پاکستان نے بہت تسلسل کے ساتھ ون ڈے میں فتوحات تو حاصل نہیں کیں مگر پاکستان نے ون ڈے کرکٹ میں بہت سے سنگ میل ضرور عبور کیے۔ پاکستان نے بہت عرصے بعد بھارت کو بھارت میں ہرانے کا کارنامہ سرانجام دیا، تاریخ میں پہلی بار جنوبی افریقہ کو اسی کی سرزمین پر شکست دی،12 سال بعد ایشیا کپ بھی جیتا۔ پھر سعید اجمل اور محمد حفیظ پر اچانک لگنے والی پابندی اور پچھلے 2 سال میں پاکستان کے سب سے کامیاب فاسٹ باؤلر جنید خان کے ان فٹ ہو جانے سے پاکستان مصباح کی کپتانی کے آخری سال میں اچھی کارکردگی نہ دکھا سکا جس میں ورلڈکپ2015ء بھی شامل ہے کیونکہ پاکستان کی ٹیم کا 2 سال سے چلتا ہوا کمبی نیشن اچانک ڈسٹرب ہو گیا تھا، مگر اس سب میں حقیقت کو سمجھنے کے بجائے مصباح الحق پر تنقید شروع ہو گئی؛
    ”وہ بہت دفاعی کپتان ہے، اسے ماڈرن کرکٹ کی سمجھ ہی نہیں ہے، وہ آہستہ کھیلتا ہے جس سے ٹیم پریشر میں آجاتی ہے، وہ ٹیم کے لیے نہیں اپنے آپ کے لیے کھیلتا ہے، مسٹر ٹک ٹک ہے“، جیسی باتیں ہر طرف سنای دینےلگیں۔

    mibah-reuters2 2015ء ورلڈ کپ کے بعد اس نے ون ڈے کو خیر آباد کہہ کر صرف ٹیسٹ کھیلنا جاری رکھا مگر وہ کسی کو بھی پسند نہیں تھا سوائے چند پرانی سوچ کے لوگوں کی۔ وہ کھیلتا رہا، کھیلتا رہا، ہر بار ملک سے باہر کھیلتا رہا اور پھر اس نے پاکستان کو ٹیسٹ رینکنگ میں پہلی بار پہلی پوزیشن دلا دی۔ پاکستان کی طرف سے بطور کپتان سب سے زہادہ ٹیسٹ جیتنے کا ریکارڈ بنا دیا۔ بطور کپتان 50 سے زیادہ کی اوسط سے کھیلا۔ ٹیسٹ کرکٹ کی تیز ترین ففٹی اور تیز ترین سنچری بنا ڈالی۔ اس نے ٹیسٹ میں یہ سب اس لیے حاصل کیا کیونکہ ہم نے اسے ٹیسٹ میں اپنے طریقے سے کھیلنے دیا۔ وہ ورلڈکپ نہ جیت سکا کیونکہ قسمت نے عین موقع پر اس سے اہم کھلاڈی چھین لیے اور کیونکہ ہم نے اسے ون ڈے میں اپنے طریقے سے نہیں کھیلے دیا۔

    azhar-ali 2015ء کے ورلڈ کپ کے بعد اظہرعلی کو کپتان اس لیے بنایا گیا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان ٹیم میں اس وقت پورے 50 اوور کھیلنے والا اور کوئی کھلاڈی تھا ہی نہیں۔ اسے نوجوانوں کی ٹیم دی اور ہر سیریز کے بعد اس میں تبدیلی کی جاتی رہی۔ اس نے انگلینڈ کے خلاف چند میچ نکال کر ہمیشہ اچھی کارکاردگی دکھائی اور اس کی اوسط اب بھی 42 کی ہے جو ٹیم میں بابر اعظم کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ اب اس پر بھی انھی الفاظ میں تنقید کی جا رہی ہے جن میں مصباح پر کی جاتی تھی، اور مجھے پورا یقین ہے کہ کچھ عرصہ بعد اسے بھی ایسے ہی سراہا جائے گا جیسے مصباح کو سراہا جا رہا ہے کیونکہ اظہر علی مصباح الحق کا ہی دوسرا کرکٹنگ جنم ہے۔

  • دنیائے کرکٹ اور پاکستان، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ محمود شفیع بھٹی

    دنیائے کرکٹ اور پاکستان، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ محمود شفیع بھٹی

    محمود شفیع

    کرکٹ کا خالق تو گورا ہے، اسی نے اس کو پروان چڑھایا، اور جینٹل مین گیم کا نام دیا، گورا ہی اس کھیل کو برطانوی دور میں برصغیر لایا مگر اس نے یہاں آتے ہی قدم جما لیے۔اس وقت دنیائے کرکٹ کا سب سے زیادہ ریونیو اسی خطے سے حاصل ہوتا ہے۔ یہیں سب سے زیادہ کرکٹ کھیلی اور دیکھی جاتی ہے۔ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں اس کھیل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، اور یہ تفریح کا بنیادی اور بڑا ذریعہ ہے۔ عالمی مقابلوں میں جس دن میچ ہو، اس دن بازار بند اور گلیاں سنسان ہوجاتی ہیں۔ لوگ جنون کی حدتک اس کھیل کے دیوانے ہیں۔ اس کھیل میں سپانسرز، میڈیا پارٹنرز اور اشتہارات کی بھرمار ہے۔ ساتھ میچ فکسنگ کی بھی یلغار ہے۔

    کرکٹ پاکستان میں ایک جذبہ، ایک جنون ہے، نوجوان نسل میں ایک مقصد تصور کیا جاتا ہے۔ اس وقت کرکٹ کھیل کم اور سائنس زیادہ بن گیا ہے۔ آئے روز بننے والے قوانین، کرکٹ کے بلوں کے سائز، باؤلر کے بازو کا مخصوص ڈگریز میں خم وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جن کو جب تک اپنایا نا جائے باقی دنیائے کرکٹ سے ہم آہنگی ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کرکٹ نے ماضی میں کئی ستارے پیدا کیے۔ دنیا آج تک عمران خان جیسے کپتان، وسیم اور قار جیسے تیز باؤلر، عبدالقادر جیسے لیگ سپنر، ثقلین مشتاق جیسے آف سپنر اور انضمام الحق جیسے ٹائمر کی مثالیں دیتی ہے۔

    آج دنیائے کرکٹ اور پاکستان کرکٹ کا موازنہ کیا جائے تو ہم پچھلی صف میں کھڑے ہیں۔ کسی بھی کھیل کی پختگی کا انحصار اس کے بنیادی ڈھانچے پر ہوتا ہے لیکن افسوس کہ اس وقت ہمارے ہاں بنیادی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈومیسٹک میں بجائے کوالٹی کے تعداد پر انحصار کیا جاتا ہے۔ اس وقت چوبیس سے زائد ریجنز اور درجن سے زائد ڈیپارٹمنٹس ہیں جن سے معیاری کرکٹرز کا انتخاب ناممکن ہے۔ بین الاقوامی سطح پر مقابلوں میں کوکا بورا گیند کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ڈومیسٹک نظام میں گریس بال کا استعمال ہوتا ہے جس سے باؤلرز کو آگے جا کر مشکلات پیش آتی ہیں اور اس گیند کے درست استعمال میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ گریس بال کی سلائی (سیم) موٹی اور باؤلر کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے جبکہ کوکابورا کی باریک، ڈومیسٹک میں بھی کوکابورا گیند کا استعمال ہونا چاہیے۔ ماضی میں کوششوں کے باوجود یہ تجربہ ناکام ٹھہرا جس کے کئی محرکات ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں پچز کا معیار بھی دوسرے ممالک سے بہت برا ہے جس کی وجہ سے تین سو رنز بھی بڑی مشکل سے بن پاتے ہیں۔ ڈومیسٹک پچز کا معیار اتنا برا ہے کہ کیا کہنے۔ یہ پچز پروفیشنل کیوریٹرز کے بجائے مالی تیار کرتے ہیں۔ ناقص ایمپائرنگ بھی بہت زیادہ ہے، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کم ہے جس کی وجہ سے غلط فیصلے ہوتے ہیں، بالخصوص بائولر کی تکنیک جیسے مسائل جنھیں ڈومیسٹک لیول پر اجاگر ہونا چاہیے۔ اس وقت پاکستان ایک روزہ کرکٹ میں آٹھویں نمبر پر ہے جس کی بڑی وجہ ناقص نظام اور نا اہل انتظامیہ ہے۔ ترجیحات واضح نہیں ہوں گی تو نتائج خاک آئیں گے؟

    پاکستان سپر لیگ کا انعقاد خوش آئند تھا اور امید تھی بین الاقوامی کرکٹ نہ ہونے کی وجہ سے کھلاڑیوں میں حوصلے کی کمی پوری ہوجائے گی لیکن یہاں بھی پچز کے معیار نے قلعی کھول دی۔ لو سکورنگ میچز سے شائقین کرکٹ مایوس رہے۔ جب کراچی جم خانے جیسی پچز بنائی جائیں گی تو معیار کیسے حاصل ہوگا؟ ساری لیگ میں سپنر ہی چھائے رہے۔

    پاکستان کرکٹ کے لیے ضروری ہے کہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی کی رونقیں بحال کی جائیں۔ کھلاڑیوں کی ٹیکنیک پر کام کیا جائے۔ ڈومیسٹک نظام کو عالمی معیار کے مطابق لایا جائے۔پاٹا، فلیٹ پچز اور Turning کی جگہ سپورٹنگ پچز بنائی جائیں۔ ٹیموں کی تعداد کم کر کےمعیار کو بلند کیا جائے۔ انڈر 19، انڈر 16 اور اے ٹیم کے ساتھ ہائی کوالی فائیڈ سٹاف رکھا جائے. تبھی آئندہ سالوں میں بہتر نتائج کی توقع کی جا سکے گی۔

  • کامیابی ہے منتظر حسیب اعجاز عاشرؔ

    آئو کسی مقصد کے لئے جیتے ہیں،آئو کسی مقصد کے لئے مرتے ہیں۔۔۔میری سوچ کا محور اسلام امت اور پاکستان۔۔۔سب کچھ نہ سہی کچھ نا کچھ ضرور کرنا ہے۔۔۔ہاں میرا دل بار بار مجھ سے کہتا ہے کہ ’’نوک نوک۔۔کامیابی ہے منتظر‘‘۔۔‘‘یہی وہ سوچ ،فکر،نظریہ ہے جو رضوان اللہ خان کو شب و روز بے چین کئے ہوئے ہیں۔بے فکر دنیا کی فکر میں ہے بے فکر لوگوں کو دیکھ کر فکر میںہے۔۔۔۔رضوان کے خیالات کو جانچنے ،پڑھنے،سمجھنے کا موقع ملے تو یہ بات خوب عیاں ہو گی کہ اتنی کم عمری میں ہی یہ نوجوان اپنے ایک اندر کمال خصوصیات رکھتا ہے۔بات کرتا ہے عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔لکھتا ہے تو بڑے بڑے لکھاریوں کوبھی حیرت زدہ کر دیتا ہے ۔کچھ کرنے کا عزم لئے ، کچھ کر گزرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔۔سنیئے یہ نوجوان کیا کہتا ہے ۔۔’’میںکون ہوں؟۔۔میرا مقصد بتائے گا‘‘
    رضوان اللہ خان ایک موٹیویشنل سپیکر ہیں اور بطور یوتھ اینرجائزر جانے جاتے ہیں، کالم نگار اور فیچر رائٹر ہونے کے ساتھ سوشل ایکٹیوسٹ بھی ہیں، رضوان اس وقت پاکستان کی مقبول و معرف ٹریننگ اینڈ کونسلنگ کمپنی ’’ہائی پوٹینشل آئیڈیاز‘‘ میں اپنی خدمات سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ نوجوان کالم نگاروں کی تنظیم پی ایف یو سی میں بھی بطور ڈائریکٹر پبلک ریلیشن اپنی ذمہ داری بھی باخوبی نبھا رہے ہیں۔اِس نوجوان کی حالیہ دنوں میں منظرعام پے آنے والی کتاب ’’نوک نوک۔۔کامیابی ہے منتظر‘‘ بارے یہ کہوں کہ اہل ذوق احباب کیلئے ایک نادر تحفہ ہے کتاب کی تعریف میں ناکافی ہے۔۔زیرنظر اِس کتاب پر مجھے تبصرہ ،تجزیہ،یا کوئی جائزہ نہیں لکھنا۔۔اور رضوان اللہ خان کے سوشل میڈیا پے لوگوں کے پوچھے گئے سوال کہ’’ہم کیا لکھیں؟ جو لکھتے ہیں لوگ اختلاف کرتے ہیں‘‘پر دیئے گئے اِس جواب نے، مجھے ویسے ہی لکھنے میں بہت محتاط بھی کر دیا ہے کہ ’’ ۱۔اگر تو آپ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے لکھنا چاہتے ہیں تو انہی لوگوں پر لکھیں اور تعریفوں کے پل باندھ دیجئے وہ خوش ہو جائیں گے۔۔۔۲۔اگر آپ خواتین میں مشہوری چاہتے ہیں تو غم،عشق اور اداسی کی چکی پیس کر تحریر لکھیں۔۔۔۔۳۔اگر آپ ریٹنگ چاہتے ہیں تو جتنا ہو سکے جھوٹ بولیں۔۔۔۔۴۔اگر آپ سب کے لئے قابل قبول بننا چاہتے ہیں تو جھوٹے اعتدال کا نعرہ لگا کر سچ بولنے سے پرہیز کریں۔۔۔۵۔اور اگر آپ صرف سچ، امید، مثبت پیغام، حق بات کا فروغ اور باطل سے پردہ اٹھانا چاہتے ہیں تو کسی بھی چیز کی پرواہ کئے بنا، لوگوں کے طعنوں سے ڈرنے بنا، ریٹنگ کی فکر کئے بنا، سب کو خوش رکھنے کی پالیسی کے بنا بس لکھتے چلے جائیں کیوں کہ میرے نزدیک ہر شے سے بہتر حق بات کرنا ہے‘‘۔۔۔ تو اس لئے بغیر کسی تمہیدکے اِسی کتاب کا مختصر تعارف پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوںجس میں رضوان نے اپنے اساتذہ سے سیکھے اسباق اور اپنی جواں عمری میں زندگی سے سیکھے ہوئے تجربات قارئین کے سامنے رکھنے کی بڑے اہتمام سے کامیاب کاوش کی ہے۔۔
    یہ کتاب بتائے گی کہ کیسے زندگی میں پریشانیوں اور ناکامیوں کے خوف سے خود کو بچاتے ہوئے اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانا ہے،یہ کتاب آپ کو سیلف ایویرنس کے ساتھ آپ کی پوشیدہ صلاحیتیں اور زندگی کے عظیم مقاصد کو جاننے میں مدد دے گی،اس میں آپ سیکھیں گے کہ زندگی میں کامیاب ہونے کے لئے گولز کس طرح سیٹ کئے جاتے ہیں اور کس طرح اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارا جاتا ہے، اپنی خود اعتمادی جگانے اور خوابوں کو حقیقت میں بدلنے میں یہ کتاب ایک معاون دوست کا کردار ادا کرتی ہے،یہ کتاب ناکامی کے اندھیروں میں کامیابی کی شمع جلاتی ہے، یہ کتاب نوجوانوں بالخصوص ’’سٹوڈنٹس‘‘کے لئے شاندار روڈمیپ ہے۔
    ــ سعید قاسم کے بنائے ہوئے شاہکار دیدہ ذیب سرورق کے ٹاپ پر لکھا ہے کہ’’ہر اس شخص کے لئے جو زندگی میں کامیاب ہونا چاہتا ہے‘‘مگر مطالعہ بتائے گا کہ یہ کتاب فقط اِس زندگی کی ہی نہیں بلکہ بعد ازموت زندگی میں بھی کامیابیوں کی ضامن ثابت ہوگی،انشاء اللہ تعالی۔۔والدِ محترم اور اُستادِ محترم کے نام انتساب میں لکھتے ہیں کہ ’’والدِ محترم عبدالروف خان جن کا خواب اپنی اولاد کو بڑا اور کامیاب انسان بنتے دیکھنا ہے اور اُستادِ محترم اختر عباس جن کی محبت،شفقت اور خلوص نے اس خواب کو تعبیر کرنے کا حوصلہ دیا‘‘بذریعہ ای میل موصول ہونے والے مداحوں ،جن میں ہارون وقار، عفاف ابراھیم، ڈاکٹر کامران اقبال، عمرحیات گلریز، جاوید میاں، شہزاد خان، ڈاکٹر فرید حیات اور فرید سجاد کے نام شامل ہیں، کے فیڈ بیک کو بھی کتاب کی زینت بنانے کی ایک نئی روایت رکھی گئی ہیں ۔جو قابلِ تحسین ہے۔کتاب میں ’’آپکا شکریہ‘ ‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں رضوان نے بڑے سلیقے اور احترام سے تمام محسنین سے اظہار تشکر بھی کیا ہے جن کی دعائیں اور ہمت افزائی انکے ساتھ ساتھ ہیں۔
    کتاب کا دیباچہ بعنوان ’’دھیمی سی پُرخلوص دستک‘‘ میں معروف ٹرینر،مصنف ،افسانہ نگار چیف انسپائرنگ آفیسر ہائی پوٹینشل آئیڈیاز محترم اخترعباس لکھتے ہیں کہ ’’کامیابی ہے منتظر‘‘ بے شک ایک دھیمی سی پرخلوص دستک ہے دستک دینے والا بھی ہمیں بہت عزیز ہے اور یہ دستک بھی۔یہ کتاب آپ کو آگے بڑھنے پر اکسانے میں مدد دے گی ۔نوجوان کالم نگار فرخ شہباز وڑائچ صدر پی ایف یو سی اپنے تاثرات بعنوان ’’پہلی محبت‘‘میں لکھتے ہیں رضوان کی آنکھوں میں کامیابی کی چمک اسے عام نوجوانوں سے ممتاز کرتی ہے،لگتا ہے یہ کچھ بدلنا چاہتا ہے یہ زندگیوں میں تبدیلی لانا چاہتا ہے،یہ نوجوان اپنی پہلی کتاب کے ساتھ آپ کے دروازے پر دستک دے رہا ہے،پہلی کتاب ٹھیک ’’پہلی محبت‘‘کی طرح ہوتی ہے، مجھے یقین ہے آپ اس نوجوان کی پہلی محبت کے امتحان میں اسے ناکام نہیں ہونے دیں گے۔معروف سکالر شفیق احمد کمبوہ(جرمنی) کتاب پر اپنی آرا کا اپنے مضمون ’’نوک نوک۔۔ایک جائزہ‘‘میں کچھ یوں اظہار خیال کرتے ہیںکہ اپنی کتاب میں ہر جگہ مصنف نے زندگی میں حقیقی کامیابی کے حصول کے لئے کنایوں،استعاروں اور تلمیحات کا استعمال انتہائی خوش اسلوبی سے کیا ہے۔یہ کتاب دل شکستہ اور ناکامی کے خوف سے دو چار افراد کے لئے ایک قیمتی تحفہ ہے۔بلکہ تمام قارئین کے لئے دورِ حاضر کی مایوسیوں سے بھری زندگی میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔سحرین بخاری اپنے مضمون’’میرا تاثر‘‘میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیںکہ مجھے خوشی کے ساتھ ساتھ فخر بھی کہ نہایت ذہین اور باادب رضوان اللہ خان نے معاشرہ میں مفید شہری ہونے کی ذمہ داری اُٹھاتے ہوئے ، اپنی کتاب میں کامیابی کے حصول کے حوالے سے راہنمااصولوں کا جائزہ لیا ہے۔’’حرفِ آغاز ‘‘ میں رضوان نے اپنی قلمی سفر میں دوستوں،معاون کاروں ،اساتذہ ،محسنوں کا ذکر بھی نہایت ادب سے کیا ہے اور آخر میں قارئین کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اسی وقت خود کو بدلنے کا فیصلہ کیجئے اور ناکامی کا خوف دل سے نکالنے کا عزم لئے کامیابی کے اصول سیکھنے اور ان پر عمل کر کے کامیابی پانے کے لئے ’’کامیابی ہے منتظر‘‘ کا مطالعہ کیجئے ،بقول شاعر۔۔‘‘
    جو وقت کو مفت گنوائے گا۔۔۔وہ آخر کو پچھتائے گا
    کچھ بیٹھے ہاتھ نہ آئے گا۔۔۔جو بوئے گا سو کھائے گا
    تو کب تک دیر لگائے گا۔۔یہ وقت بھی آخر جائے گا
    اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے۔۔۔پھر دیکھ، خدا کیا کرتا ہے
    کتاب کے پندرہ باب ہیں ’’’آخرکامیابی ہوتی کیا ہے؟، کامیابی کیسے حاصل ہوتی ہے؟، خواب سے حقیقت تک، من اپنے نوں۔۔پڑھ بندیا، خود پر بھروسہ کرنا سیکھیں!، آئو راستہ تلاش کریں، ناممکن تو کچھ بھی نہیں، اپنی صلاحتیں کو چمکائیں، گھبرائو نہیں۔۔قدم بڑھائو، تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرائو۔۔اے عقاب، اعتماد کی اہمیت ضرور جان لیجئے، یہ تو میری ذمہ داری ہے!، یہ تو آتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کو!، بزنس میں بنیں، مانگنے میں کنجوسی نہ کریں‘‘‘عنوانات کی کشش قارئین کو اپنی طرف راغب کرتی ہے،مضامین بامقصد ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔بڑی خوبصورتی اور نفاست سے انگلش لٹریچر کو سلیس اُردو اور عام فہم انداز میں اُردو ادب میںجس سلیقے سے پیش کیا گیا ہے،جو کہ ایک خوشگوار اضافہ ہے۔،قرانی آیات اور مقدس احادیثﷺ کو بھی بڑی عقیدت مندانہ انداز میں مضامین میں شامل کیا گیا،بلاشبہ رضوان کو اُردو سے زیادہ انگلش لٹریچر پر انگلش سے زیادہ عربی لٹریچر پر اور عربی سے زیادہ اُردو لٹریچر پر عبور حاصل ہے ۔کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ رضوان کو کتابوں سے کس کدھر عشق ہے اور اُس کے مطالعہ کا دائرہ کار کتنا وسیع ہے۔
    کتاب کے آخرمیں کنٹکٹ ڈیٹیل کے علاوہ ایک صفحہ قارئین کے لئے لائف گولز اور تاثرات لکھنے کے لئے مختص کیا گیاہے۔جو رضوان کی بالغ النظری، دور اندیشی کی اعلی مثال ہے۔ستمبر ۲۰۱۶ میں۱۵۰ صفحات پر مشتمل کتاب ’’کامیابی ہے منتظر‘‘کو دارالمصحف نے شائع کیا،جسکی قیمت ۴۰۰ روپے مگر خصوصی رعایت پر ۳۰۰ پر بھی مصنف سے حاصل کی جا سکتی ہے۔تو اب سوچنا کیسا۔۔۔۔۔۔؟منتظر ہے۔۔۔’’کامیابی کا منتظر‘‘

  • تلملاہٹ تو بنتی ہے نا؟ محمد کفیل اسلم

    کہا جاتا ہے اگر آپ اپنی کارکردگی کو ٹھیک ٹھیک ماپنا چاہتے ہیں تو اسکا اس سے بہتر طریقہ نہیں کہ آپ اسکے متعلق اپنے دشمنوں کی رائے جانیں۔ اگر آپ ترقی کررہے ہیں تو اسکی تلملاہٹ صفِ دشمناں میں ضرور سنیں گے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف اور پاک فوج کے سپہ سالار راحیل شریف کے خلاف آجکل بھارتی میڈیا پر جو ہذیان بکا جارہا ہے وہ اس بات کی خوب غمازی کرتا ہے کہ پاکستان کے چند اقدامات نے انڈیا کو پریشان کررکھا ہے۔
    غیرجانبدار ہوکر دیکھا جائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے پاکستان کبھی کسی بیرونی معاملہ میں دراندازی تو درکنار خوامخواہ ہے بیانات دینے کا بھی قائل نہیں۔
    پاکستان خود روزِ اوّل۔سے عموماً اور پچھلی ایل دہائی سے خصوصًا بیرونی سازشوں، گٹھ جوڑوں، دراندازیوں، مداخلتوں اور اغیار کی چیرادستیوں کا بدترین شکار رہا ہے قطع نظر اسکے کے ہم خود بھی کسی حد تک اس کے ذمہ دار ہیں ۔
    گزشتہ دنوں بھارت کے مشہور جریدے “انڈیا ٹوڈے” کا سرِ ورق بھارتی حلقوں میں مچی افراتفری کا ایسا مظاہرہ تھا جس سے اندازہ ہورہا ہے کہ اب بارڈر پار لگی آگ کی شدت کتنی ہے۔ ٹائٹل پیج پر جرنل راحیل شریف کے گال پر خون آلود ہاتھ چھَپا دکھایاگیا ہے۔ یہ اب تک بھارتی صحافت کے حلقے کے پیٹ میں اٹھنے والی مروڑ کی انتہا تھی۔
    خیر سوال یہ ہے کہ مروڑ کیسی؟ وہ کونسی ضرب ہے جو بھارتی مفادات پر پڑی ہے جس پر اتنا ہیجان بپا ہے دلی میں؟
    1- پاک۔چائینا اکنامک کاریڈور کا تیزی سے تکمیل اور اس میں دیگر ممالک کی دلچسپی۔
    2- جموں کشمیر میں تحریکِ آزادی عروج کی طرف گامزن ہے ۔ پاکستان کا کشمیر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنا۔ حالیہ دنوں میں ہونے والی بھارتی بربریت پر اقوامِ متحدہ میں میاں نواز شریف کی تقریر اور دنیا کے بڑے ممالک بشمول چین، ترکی اور سعودیہ عرب کی پاکستانی موقف کی تائید جس سے بھارت پر مزید دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔
    3- کراچی میں بلاتفریق سیاسی و مذہبی جماعتوں کیخلاف آپریشن۔ خاص طور پر بھارتی تربیت یافتہ سیاسی جماعت کیخلاف ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کاروائی۔ یہاں بھی بھارت کا بنا بنایا پلاٹ خراب ہوگیا۔ ساری سرمایہ کاری غارت گئی۔ کراچی میں بدامنی پھیلانے کیلئے یہ ہتھیار جو بھارت بہت عرصے سے استعمال کرتا آیا ہے وہ ہاتھ سے چلے جانے بلکہ چھِن جانے کا دُکھ۔
    اگر ان تمام عوامل کو ساتھ رکھ کر دیکھا جائے تو بحیثیت جانی دشمن بھارت کی تلملاہٹ تو بنتی ہے نا؟

  • کھیلوں کی ماں’ کبڈی‘ کی ابتر صورتحال – محسن حدید

    کھیلوں کی ماں’ کبڈی‘ کی ابتر صورتحال – محسن حدید

    محسن حدیدا پرسوں ایک خبر سنی کہ انڈیا نے رواں سال پاکستان کو کبڈی ورلڈکپ میں شرکت کی اجازت نہیں دی. آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ورلڈ کپ تو ساری دنیا کا ہے مگر اجازت انڈیا نے دینی ہے؟ تو بدقسمتی یہ ہے کہ اجازت واقعی انڈیا نے دینی ہے کیونکہ انڈیا اس کا ہمیشہ کے لیے میزبان ہے، اس کی بنیادی وجہ فنڈز اور کبڈی کے لیے انڈین حکومت کی سنجیدگی ہے. 2010ء میں انڈیا نے ہی اس ورلڈکپ کا اجرا کیا تھا اور اب تک وہی اس کو منعقد کرتا ہے. انڈین پنجاب کی سرکار اس حوالے سے خاص اہتمام کرتی ہے اور تمام فنڈز بھی وہی جاری کرتی ہے. ٹورنامنٹ ہمیشہ انڈین پنجاب کے شہروں میں منعقد ہوتا رہا ہے. 2015ء میں انڈین پنجاب اور ہریانہ میں سکھوں کے احتجاج کی وجہ سے اس ٹورنامنٹ کا انعقاد نہیں ہوسکا تھا اس بار بھی یہ ٹورنامنٹ گجرات کے شہر احمد آباد میں منعقد ہوگا، اسی وجہ سے ریاستی حکومت نے پاکستانی ٹیم کو سکیورٹی تھریٹ قرار دے کر اس کی میزبانی سے انکار کردیا ہے. یہ ایک سیدھا سادہ سیاسی فیصلہ ہے.

    مجھے اپنا بچپن یاد آگیا جب کبڈی سکول کھیلوں کا لازمی حصہ تھی. پرائمری سکول کی سطح تک بھی کبڈی کھیلی جاتی تھی. پانچویں کلاس میں تھے جب ایک دن ماسٹر صاحب نے میرا بازو پکڑا اور کہا کہ اسے بھی کبڈی ٹیم میں شامل کرلو. شروع سے قد لمبا اور مضبوط جسم تھا اس لیے ماسٹر صاحب کی نظر انتخاب مجھ پر ٹھہری، ویسے بھی باتوں اور کھیل کود کے لیے ہم ہر وقت حاضر تھے اور جوتے بھی اسی پر کھاتے تھے. اس کے علاوہ ماسٹر جی سے زیادہ ہماری جسمانی طاقت سے کون واقف ہوتا کیونکہ ماسٹر جی کی بھینس کے لیے چارے کی بھری پنڈ (گٹھا) ہم ان دنوں بھی اٹھا لیا کرتے تھے. یہ ان دنوں کی بات ہے جب 12، 13 سال کے لڑکے پرائمری سکول میں عام نظر آتے تھے. ہمارے لیے یہی کافی تھا کہ اب ٹریننگ کے نام پر کلاس سے جلدی چھٹی مل جاتی تھی. ایک ہفتہ سکول کے ساتھ موجود خالی کھیتوں میں ہمیں ٹریننگ دی گئی. ٹریننگ تو خیر کیا دینی تھی ہم خود ہی جاپھی (سٹاپر) تھے اور کبھی ہم ہی سائی (ریڈر) بن جاتے تھے. گھر سے بھی دودھ کا اضافی گلاس ملنے لگا کہ منڈے نے کوڈی کھیلنی ہے. جب فیصلہ کن دن آیا تو ماسٹرصاحب نے مجھے جاپھی (سٹاپر) بنا دیا. کھیل شروع ہوا، ریتلی مٹی تھی اور گرائونڈ کے اطراف پانچ سکولوں کے (پانچ پرائمری سکولوں کے درمیان مقابلے ہوتے تھے، اسے سنٹر کہتے تھے) کے ٹیچرز اور سٹوڈنٹس موجود تھے. ہمارا میچ ہمسایہ گائوں کی ٹیم کے ساتھ تھا، اس میں کافی سارے پٹھان لڑکے تھے جن کی اپنی ہیبت تھی. ان میں سے ایک لڑکا بہت تیز تھا، ہم اسے طاری طاری کہتے تھے. میں نے 3-4 بار پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ تگڑا تھا. مزے کی بات ہے میرے علاوہ کوئی اسے ہاتھ ہی نہیں ڈال رہا تھا. وہ آتا اور پوائنٹ لے کر نکل جاتا. ہم تھوڑے جنونی تھے، ویسے بھی مجھے اس کی مسکراہٹ بہت چھبتی تھی، جب وہ فنش لائن کے پاس جاکر للکارتا تو بہت غصہ آتا. وہ فزیکل گیم بھی کرتا تھا، اچھا خاصا دھکا شکا مارتا تھا مگر میچ کے آخری لمحات میں میں نے اس کی کلائی پکڑ ہی لی. مجھے آج بھی وہ منظر یاد ہے جب اس کی کلائی میرے دونوں ہاتھوں میں تھی، بہت زور تھا اس میں مگر میں نے بھی اپنی ساری توانائی لگادی، آمنے سامنے کھڑے تھے ہم دونوں آنکھوں میں آنکھیں ڈالے، کوئی 10 سیکنڈ گزرے ہوں گے کہ تالیاں بجنے لگ گئیں. ریڑھ کی ہڈی میں جو جوش بھری لہر تب دوڑی تھی وہ بہت کم دوڑتی ہے اور ساری زندگی یاد رہتی ہے. طاری کی آنکھوں میں توہین اور بےبسی کا جو احساس میں نے تب دیکھا تھا، اس نے مجھے بہت سکون اور طاقت بخشی، بہت تڑپا اور بہت مچلا مگر 30 قیمتی سیکنڈ گزر چکے تھے. میچ تو ہم ہار گئے مگر وہ لمحہ کبھی نہیں بھولا جب ریفری کی سیٹی پر میں زمین سے اچھلا تھا اور ماسٹر صاحب نے 10 روپے کا انعام دیا تھا بلکہ لڑکوں نے تو باقاعدہ نعرے بھی لگائے تھے. وہ تحسین اور فخر پھر پوری زندگی کام آیا. میں اس کے بعد شاید ہی کبھی کبڈی کھیلا ہوں مگر ایک اعتماد جواس ایک سٹاپ سے ملا، وہ اثاثہ بن گیا. پہلی دفعہ احساس ہوا کہ کوشش کریں تو کسی کو بھی آپ ہرا سکتے ہیں. 5-6 دفعہ طاری سے ملی ہزیمت پر ایک دفعہ اسے شکست دینے کا فخربہت بھاری تھا. طاری تو خیر بعد میں بہت آگے تک کھیلا، ہم اسے ہیرو مانتے رہے اور ہائی سکول کے دنوں میں اس کے میچز دیکھنے تحصیل اور ضلع کی سطح پر جاتے رہے. ہمارے پی ٹی صاحب (ہائی سکول کے) کبڈی سے خاص محبت رکھتے تھے، وہ دور دور سے لڑکے چن کے لاتے اور انہیں کلاس میں داخلہ دیتے، ان کی حاضریاں پوری کرتے اور پھر ان کو کھلاتے. 90 کے عشرے میں ہمارے شہر کی ہائی سکول کی ٹیم ڈویژنل سطح کے مقابلے جیتتی رہی. اکثر لڑکے فرضی سٹوڈنٹ ہوتے اور کھیل کے بعد سکول سے تیتر ہوجاتے. اب کئی سال ہوگئے، کبڈی کی ٹیم ہی نہیں رہی، ایک تو کورس کی لمبی چوڑی کتابیں، اوپر سے چھوٹی عمر کے کمزور جسموں والے بچے، رہتی کسر اساتذہ کے حوصلہ شکنی پر مبنی رویے نے پوری کردی ہے.

    بات ملکی سطح کی تھی اور مجھے اپنا بچپن یاد آگیا. 2014ء ورلڈکپ فائنل کے موقع پر میاں شہباز شریف صاحب نے فرمایا تھا کہ اگلا ورلڈ کپ گورنمنٹ آف پنجاب منعقد کرائے گی مگر افسوس وہ بھی جوش خطابت نکلا. کیا تھا اگر میاں صاحب یہ وعدہ پورا کر دیتے. ہزاروں ارب کے بجٹ سے 10-15 کروڑ کھیلوں کی ماں پرنچھاور نہیں کیے جاسکتے تھے. اگر ایسا ہوجاتا تو مجھ جیسے کروڑوں پاکستانی اپنی محبوب کھیل سے کتنا لطف اندوز ہوتے اور کبڈی کا کلچر کتنا پروموٹ ہوتا. جب لالے عبیداللہ جیسے شیر جوان کا سینہ پالے جلالپوریے (انڈیا کا ٹاپ سٹاپر) سے ٹکراتا اور ان میں سے ایک للکاریں مارتا ہوا میدان میں دھاڑتا، دوسری طرف سے گگن دیپ گگی جیسے مہان ریڈر کی کلائی مشرف جنجوعہ کے ہاتھ میں ہوتی، اکمل شہزاد ڈوگر جسے دنیا فلائنگ ہارس کے نام سے جانتی ہے جب منگت سنگھ منگی جیسے چست سٹاپر کو غچہ دے کر نکلتا ہوا فنش لائن کراس کرتا تو تماشائی جوش سے سٹیڈئم سر پر اٹھا لیتے. پرنس آف پاکستان بابرگجر جب یاروندر سنگھ یادیو کو پالے میں اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا یا سجاد گجرسکھبیر سراواں کے ساتھ بھڑ رہا ہوتا یا پھر شفیق چشتی بلویر سنگھ پالا سے پوائنٹ کے لیے لڑتا ہوا نظر آتا، رانا علی شان ہو، عرفان مانا ہو، اختر پٹھان، صدیق بٹ، محسن واہلہ یا پھر انڈیا کا سندیپ لدھڑ ہو، وقاص ہریانے والا ہو، کیا کھیل پیش کرتے ہیں یہ شیرجوان، کس کس کا نام لکھوں مگر افسوس اب ہم صرف سیاست کی وجہ سے ان مناظر سے محروم رہیں گے. افسوس انڈیا کی حکومت پر جسے نفرت کی سیاست کے علاوہ کوئی کام نہیں. بندہ پوچھے اگر پاکستان کی ٹیم نہیں کھیلے گی تو انڈیا مقابلہ کس سے کرے گا. دنیا میں دوہی تو ٹیمیں ہیں. بہرحال اس میں پاکستان حکومت کا رویہ بھی کم افسوسناک نہیں ہے جو اپنے وعدے پورے نہیں کرسکی، کاش کوئی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور ماں کھیل کبڈی تباہی سے بچ جائے. سوچتا ہوں اگر حکومت نے اب بھی توجہ نہ دی تو یہ محبوب کھیل اگلی نسل تک شاید ویسے ہی ختم ہو کر رہ جائے. تو کیا کبڈی اب صرف کتابوں میں رہ جائے گی؟ کیا ہم اپنے بچوں کو صرف کہانیاں ہی سنائیں گے ان میلوں ٹھیلوں کی جہاں ہم دال روٹی اور کبڈی کے شوق میں پہنچ جایا کرتے تھے؟ کیا اب ہمارے ہیروز ڈورے مون اور بین 10 بن جائیں گے.

  • پاکستان کرکٹ کا مذاق – بدر تنویر

    پاکستان کرکٹ کا مذاق – بدر تنویر

    بدر تنویر ہوش آیا تو چڑیاں چگ گئیں کھیت ! ہر ادارے کی طرح پاکستان کرکٹ بورڈ کا بھی برا حال ہے. ون ڈے کرکٹ میں پاکستان ٹیم سب سے نچلے درجے یعنی نویں پوزیشن پر جا پہنچی ہے. غالب امکان ہے کہ اگلے ورلڈکپ میں شرکت کےلیے وہ ٹیم کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلے گی جو ایک دفعہ ورلڈ چیمپئن بن چکی ہے، اور دو مرتبہ ولڈ کپ کا فائنل اور چار مرتبہ سیمی فائنل کھیل چکی ہے۔

    حد یہ ہے کہ بورڈ کے کرتا دھرتائوں سے کپتان تک کسی کو احساس زیاں بھی نہیں ہے. انگلینڈ کے خلاف تیسرے میچ میں انگلینڈ نے ریکارڈ پر ریکارڈ بنائے اور برے طریقے سے شکست ہوئی مگر ناکام ترین ون ڈے کپتان اظہر علی صاحب کا فرمانا تھا کہ ہم اتنا برا بھی نہیں کھیلے، سبحان اللہ! تو جناب کے خیال میں برا کھیل کچھ اور ہوگا اور وہ کسی وقت پیش کیا جا سکے گا. مگر قوم بیک زبان سوال کر رہی ہے کہ کیا اس سے بھی برا کوئی کھیلتا ہے؟ سابق مایہ ناز کرکٹرز اور کپتان کہہ رہے ہیں کہ انگلینڈ کے کھلاڑیوں نے مارا کم اور گھسیٹا زیادہ۔

    وقار یونس کو کوچنگ اور ہارون الرشید کو چیف سلیکٹر کے عہدے سے ہٹایا گیا تو باور کروایا گیا کہ اب شاید ناکامیوں کا سلسلہ تھم جائے اور ٹیم کی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی رینکنگ کچھ بہتر ہوجائے لیکن موجودہ صورتحال کو دیکھ کر تمام امیدوں پر پانی پڑتا نظر آ رہا ہے۔ غیر ملکی کوچ ٹیسٹ کا تو کریڈٹ لے رہے تھے مگر ون ڈے میں شکست پر آرام سے پیچھے ہوگئے اور کہنے لگے کہ مجھے تو نئی ٹیم وراثت میں ملی ہے، میں کیا کروں، ابھی کچھ وقت لگے گا؟ اب بندہ ان کو کیا کہے، پچاس لاکھ مہینے کا وصول کر رہے ہیں تو ذمہ داری بھی اٹھائیں! انضمام الحق کو چیف سلیکٹر بنایا گیا حالانکہ وہ کوچ کے طور پر زیادہ مثبت کردار ادا کر سکتے تھے. افغانستان جیسی ٹیم انھی کی کوچنگ میں ابھر کر سامنے آئی۔

    یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ایک غیر ملکی کوچ کا ہونا کیوں ضروری ہے. ایک طرف تو رونا رو رہے ہوتے ہیں کہ ٹیم کے لڑکے پڑھے لکھے نہیں اور انہیں انگلش بولنی نہیں آتی، تو پھر ایک غیر ملکی کوچ ایسے کھلاڑیوں کے ساتھ کیسے بات کرے گا اور انھیں گائیڈ کر سکے گا. اب حال یہ ہے کہ اس صورتحال کی وجہ سے انڈین میڈیا اور کھلاڑی پاکستان ٹیم کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اسی سے ابتری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روایتی حریف مذاق اڑانے لگا ہے جو کبھی شکستوں کے بوجھ تلے دبا رہتا تھا.

    ضرورت اس امر کی ہے کہ کرکٹ بورڈ میں فوری تبدیلی لائی جائے، نجم سیٹھی اینڈ کو سے نجات دلائی جائے، ٹیلنٹ کو تلاش کیا جا ئے اور اچھی پرفامنس دینے والے کھلاڑیوں کو موقع دیا جائے