Author: مفتی منیب الرحمن

  • کیا مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟ مفتی منیب الرحمن

    کیا مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟ مفتی منیب الرحمن

    پروفیسر مفتی منیب الرحمن گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارے لبرل دانشوروں کو کوئی اور پرکشش موضوع ہاتھ نہ آئے تو مذہب اور اہلِ مذہب کی خبر گیری اور اصلاح کے درپے ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ باور کراتے ہیں کہ ہماری تمام تر ناکامیوں اور زوال کے ذمے دار مذہبی طبقات ہیں اور مذہب ہی ہماری ترقی میں رکاوٹ ہے۔ پھر اچانک انہیں خیال آتا ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے اورجمود طاری ہے، حالانکہ علامہ اقبال نے کہا تھا: اجتہاد جاری رہنا چاہیے۔

    اصلاح کے اس مشن کے عَلَمبردار دانشوروں کے لیے یہ جاننا بھی ضروری نہیں ہے کہ اجتہاد کا معنی و مفہوم کیا ہے، اس کی ضرورت کب پیش آتی ہے اور اس کے لیے کس طرح کی علمی قابلیت اور اہلیت درکار ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ ترقی سے کیا مراد ہے، اگر اس سے مادّی، سائنسی، علمی، معاشی اور سماجی ترقی مراد ہے، تو اس میں مذہب کہاں رکاوٹ بنتا ہے۔ کیا مذہب یا اہل مذہب نے کبھی آپ سے مطالبہ کیا ہے کہ آپ یونیورسٹیاں، کالج اور جدید علوم پر مشتمل اعلیٰ تعلیمی، تحقیقی اور تربیتی ادارے قائم نہ کریں۔ کیا آپ کی نظر میں سائنس اور مذہب کا کہیں ٹکراؤ ہے؟ کیا ہماری یونیوسٹیوں میں عالمی سطح کا تحقیقی کام اس لیے نہیں ہو رہا کہ ہم مسلمان ہیں یا اہلِ مذہب ہیں؟ کیا صنعتی ترقی کی راہ میں مذہب حائل ہوگیا ہے یا اہلِ مذہب نے اس کا راستہ بند کردیا ہے؟

    سو جب تک ہم اپنے مسائل کا حقیقت پسندانہ انداز میں تجزیہ نہیں کریں گے، اُن کا تشفّی بخش حل بھی ہمیں سجھائی نہیں دے گا۔ ہماری نظر میں جدید سائنسی، فنی، طبی، معاشی، سماجی، ادبی، بحریات، فلکیات، ارضیات، حیاتیات، حیوانیات اور خلائی تحقیقات سمیت کسی شعبہ علم کا مذہب سے کوئی تعارض نہیں ہے، البتہ اتنی سی بات ہے کہ اسلام مالیاتی شعبے میں رِبا کی حرمت کا قائل ہے اور ادبی و سماجی علوم میں اخلاقی اَقدار کا عَلَم بردار ہے۔ پھر ریاستی وسائل جن تعلیمی شعبوں اور اداروں پر خرچ ہوتے ہیں، وہ سب کے سب جدیدیا عصری علوم سے متعلق ہیں اور اُن میں سے کسی کی باگ ڈور علماء کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ کسی شعبے میں کامیابی مل جائے تو اُس کا افتخار آپ کے حصے میں آئے اور ناکامی ہو تو اُسے مذہب کے سر تھوپ دیا جائے۔

    ہمارے ہاں تو حال یہ ہے کہ کئی جدید علوم کے حامل پروفیسر، دانشور اور مذہبِ انسانیت کے دعوے دار پاکستان کے ایٹمی دھماکے اور ایٹم بم بنانے کے شدید مخالف تھے اور اس میں وہ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کے ہم نوا تھے، جبکہ کسی مذہبی شخصیت نے نہ صرف یہ کہ اس کی مخالفت نہیں کی بلکہ سب یک زباں ہوکر اس کی پرزور تائید کرتے رہے ہیں۔ آج پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت اور ایٹم بم کا وجود ہی ظاہری اسباب کے تحت سدِّ جارحیت کا سب سے مؤثر ذریعہ یعنی Deterrent ہے۔ یہ امر مسلّم ہے کہ جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت کا کوئی بدل نہیں ہے، مگر ہم عالَمِ اسباب میں جی رہے ہیں اور اگر ظاہری اسباب کی کوئی حیثیت نہ ہوتی تو آج امریکہ بلاشرکتِ غیرے دنیا پر اپنی شرائط کیسے مسلّط کرتا۔
    درپیش مسائل میں اجتہاد کی اجازت خود رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمائی ہے:
    ’’رسول اللہ ﷺ نے جب معاذ بن جبل کو یمن کی طرف حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو فرمایا: جب تمہارے سامنے کوئی مقدمہ پیش ہوگا تو کس طرح فیصلہ کروگے؟ انہوں نے عرض کی: کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہیں درپیش مسئلے کا جواب کتاب اللہ میں نہ ملے تو (کیا کرو گے؟)، انہوں نے عرض کی: رسول اللہ ﷺ کی سنت کی روشنی میں فیصلہ کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہیں اس کا جواب کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ (دونوں) میں نہ ملے، (تو کیا کرو گے؟)، انہوں نے عرض کی: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور (کسی اورجانب) مڑ کر نہیں دیکھوں گا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اُن کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے اپنے رسول کے نمائندے کو ایسی توفیق عطا فرمائی جو رسول کی رضا کا باعث ہے. (ابودائود: 3592)‘‘۔
    قرآنِ مجید میں سورۃ الانبیاء،آیت:78میں ایک مقدمے کے حوالے سے حضرتِ داؤد وسلیمان علیہما السلام کے اجتہادی فیصلے مذکور ہیں، اُن میں سے ایک کو ہم ’’حَسَن‘‘اور دوسرے کو ’’اَحسن‘‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اسی طرح حالتِ احرام میں شکار کے حوالے سے المائدہ:95 میں اللہ تعالیٰ نے مُحرِم پر فدیے کے حوالے سے فرمایا: دو مُنصِف اس کا فیصلہ کریں، ظاہر ہے اُن کا یہ فیصلہ اجتہاد پر مبنی ہوگا۔ دین کا اصول یہ ہے کہ جن امور کے بارے میں قرآن و سنت میں صریح نصوص اور احکام موجود ہیں، اُن کے بارے میں اجتہاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ غیر منصوص مسائل میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے، ائمہ کرام کے اجتہادات اسی اصول کے تحت آتے ہیں۔ مزید یہ کہ اجتہاد مقاصدِ شرعیہ کو حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے، باطل کرنے کے لیے نہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کرنے کے لیے تو ابلیس نے اجتہاد ہی کیا تھا، قرآنِ مجید میں ہے:
    (1)’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اے ابلیس!) جب میں نے تجھے (آدم کو) سجدہ کرنے کا حکم دیا، تو تم کو سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا تھا؟، اُس نے کہا: میں اُس سے بہتر ہوں، (اے اللہ!) تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُس کو مٹی سے پیدا کیا ہے، (اعراف:12)‘‘۔
    (2)اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’(اے ابلیس!) تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہیں دیا؟، اُس نے کہا: میں ایسے بشر کو سجدہ کرنے والا نہیں ہوں، جس کو تو نے بجتی ہوئی خشک مٹی کے سیاہ سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے، (الحجر: 32-33)‘‘۔
    سو ابلیس کا یہ اجتہاد اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کرنے کے لیے تھا اور جو اجتہاد اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولِ مکرم ﷺ کے صریح حکم کو رد کرنے کے لیے کیا جائے، وہ باطل ہوگا۔

    ہمارے بعض تجَدُّد پسند دوست کہتے ہیں کہ اجتہاد پارلیمنٹ کرے گی، سادہ سا سوال ہے کہ ہماری پارلیمنٹ جن عناصرِ ترکیبی کا مجموعہ ہے، کیا اُن میں کتاب وسنت سے احکام مستنبط کرنے اور اجتہاد کرنے کی صلاحیت موجود ہے؟ ہمارے دستور میں قوانین کے کتاب و سنت کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک آئینی ادارہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان ‘‘ قائم کیا گیا ہے، لیکن پارلیمنٹ کے پاس فرصت ہی نہیں ہے کہ اِس ادارے کی سفارشات پر غور کرے، ان پر بحث کرے اور ان کی منظوری دے۔ اگر پارلیمنٹ کو کسی قانون کے بارے میں شرحِ صدر نہ ہو تو نظرِثانی کےلیے دوبارہ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کو بھیج سکتی ہے۔ ہمارے میڈیا میں بیٹھے ہوئے خود ساختہ (Pseudo) ماہرین زبان اور قلم کے زور پریہ اختیار خود ہی حاصل کرلیتے ہیں، وہ جس شعبے میں چاہیں، اپنے شوقِ اجتہاد کو پورا کر سکتے ہیں، ہر ایک کی نفی کرسکتے ہیں۔ ہر ایک کی تجہیل و تحقیر اُن کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ہاں! جب وہ اسکرین سے آف ہوجائیں تو پھر ہم جیسے انسان ہوتے ہیں، لیکن جب تک اسکرین پر براجمان ہوں، تو پھر ماورائی مخلوق ہوتے ہیں۔

    یقینا ہمارے مذہبی طبقات میں بھی کمزوریاں ہیں، کیونکہ وہ بھی اِسی سرزمین کی پیداوار ہیں اور ہمارے مجموعی قومی مزاج سے بالاتر نہیں ہیں، ماسوا اِس کے کہ کسی فرد یا افراد پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہوجائے، کیونکہ مستثنیات ہر طبقے میں ہوتی ہیں۔ فقہی اعتبار سے سحر و افطار کے اوقات میں معمولی تقدیم و تاخیر یا بعض نمازوں کے اوقات میں معمولی فرق ہماری علمی و سائنسی اور صنعتی و معاشی ترقی میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتا۔ بعض دوستوں کو ہمیشہ دینی مدارس اور اہلِ مدارس سے گِلہ رہتا ہے، یقینا مدارس کے نظام میں بھی خامیاں اور کمزوریاں موجود ہیں اور اُن کی اصلاح اور معیار کی بہتری کے لیے کوشش جاری رہنی چاہیے اور اصلاح کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔

    لیکن حال ہی میں فیڈرل سروس کمیشن آف پاکستان نے سی ایس ایس یعنی سینٹرل سپیریر سروسز آف پاکستان کے امتحانات کے تحریری نتائج کا اعلان کیا ہے۔ پورے پاکستان سے 9643 طلبہ تحریری امتحان میں شریک ہوئے اور صرف 202 پاس ہوئے اور نتیجے کی شرح 2.09 فیصد رہی، اللہ ہی جانے کہ زبانی انٹرویو کے بعد اِن میں سے کتنے سرخرو ہوتے ہیں۔ یہ امر بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ ملک بھر سے ذہین طلبہ بھرپور تیاری کر کے مقابلے کے اِن امتحانات میں شریک ہوتے ہیں اور پھر یہی ہماری بیوروکریسی کی ریڑھ کی ہڈی بنتے ہیں۔ اِس سے ہمارے تعلیمی زوال کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، لیکن اس کا ملبہ مدارس پر نہیں ڈالا جاسکتا، اس کے ذمہ دار ہمارے عصری تعلیم کے اسکول سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک کے ادارے ہیں، جن میں طرح طرح کے پرائیویٹ انگلش میڈیم ادارے بھی شامل ہیں۔ اِسی طرح حال ہی میں انٹرمیڈیٹ اور سیکنڈری تعلیمی بورڈز کے نتائج کے اعلانات ہوئے، کراچی کے نتائج بھی مُشتَبہ قرار پائے اور یہی صورتِ حال پنجاب کے مختلف بورڈز کے نتائج کی ہے۔

    ہمارا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ناکامیوں کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال کر بریُ الذِّمہ ہوجائیں، نہ ہی ہم دوسرے کی ناکامی کو جواز بنا کر سرخرو ہوسکتے ہیں، ہر ایک کو اپنا حساب دینا ہے، کیونکہ ہم ایک ملّت اور ایک قوم ہیں۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی سب کی کامیابی ہے اور ناکامی کا وبال بھی سب کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ آج کل ہم قومی سطح پر بھی انتشار کا شکار ہیں اور سیاسی قیادت اپنی اجتماعی دانش سے مسائل کا حل نکالنے میں ناکام ہے، اور ایسے عالَم میں کہ ہر جانب سے ہماری سرحدوں پر حالات حسّاس ہیں، ہمیں آپس کی جوتم پیزار سے ہی فرصت نہیں ہے۔

  • علمِ نبوت کی کرنیں اور جدید سائنس – پروفیسر مفتی منیب الرحمن

    علمِ نبوت کی کرنیں اور جدید سائنس – پروفیسر مفتی منیب الرحمن

    مفتی منیب الرحمن جدید میڈیکل سائنس کی ارتقا کا عمل جاری وساری ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ یہ سفر کہاں جا کر ختم ہوگا یا کبھی ختم ہوگا بھی یا نہیں۔ لیکن جس سطح تک یہ ارتقائی عمل اب تک پہنچ چکا ہے، اُس کی اساس ہمیں بخوبی علمِ نبوت میں نظر آتی ہے اور احادیثِ مبارکہ کا ذخیرہ اس پر شاہدِ عدل ہے۔ انسانی رنگت، شکل و شباہت، اَعضاء کی ساخت، مزاج کے تنوُّع اور نسَب کے جانچنے کے حوالے سے سائنس دانوں نے قانونِ توارُث کو متعارف کیا، اس میں Mandel,LvonPoalov اور Calvin Hall کے نام قابلِ ذکر ہیں اور ڈی این اے بھی اِسی کا تسلسل ہے۔

    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بےشک اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو جب پیدا کیا، تو پورے کُرَۂ ارض سے ایک مُشتِ خاک لی، تو مٹی کی جتنی رنگتیں اور قِسمیں ہیں، وہ سب بنی آدم کی رنگتوں اور مزاج میں ڈھل گئیں۔ سو بنی آدم میں سرخ، سفید، سیاہ اور ملی جلی رنگتوں کے افراد موجود ہیں۔ اِسی طرح بعض مٹی نرم ہوتی ہے، بعض سخت، بعض درمیانی خاصیت کی اور اِسی طرح کوئی مٹی اپنی اصل کے اعتبار سے خبیث، کوئی پاکیزہ اور کوئی درمیانی خاصیت کی ہوتی ہے، (طبقات الکبریٰ لابن سعد:30)‘‘۔ سو مٹی کے یہ خواص انسانی مزاج میں ڈھل گئے۔

    پس انسانوں میں بھی آپ کو ہر طرح کے مزاج والے ملیں گے، نرم خو بھی ہوتے ہیں، معتدل مزاج بھی ہوتے ہیں، اکھڑ، اَڑیَل اور دُرُشت مزاج بھی ہوتے ہیں۔ اِسی طرح بنی آدم میں بدطینت، اَخلاقِ رذیلہ و خبیثہ کے حامل اور اخلاقِ حمیدہ سے مزیّن ہر طرح کے افراد ملتے ہیں۔ الغرض اصل خِلقتِ آدم تو مٹی سے ہے اور وہ قطرۂ آب جو انسان کے وجود کا نقطۂ آغاز ہے، ان تمام خصوصیات کا حامل ہے اور یہ سب چیزیں انسانوں میں منعکس نظر آتی ہیں۔ حدیث پاک میں ہے:
    ’’ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول اللہ! (صلی اللہ علیک وسلم)، میرے ہاں ایک سیاہ فام بیٹے نے جنم لیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اُس نے جواب دیا: جی ہاں!، آپ ﷺ نے پوچھا: اُن کے رنگ کیسے ہیں؟ اُس نے عرض کی: سرخ، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا اُن میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟ اُس نے عرض کی: جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا: تو وہ (یعنی سرخ اونٹوں میں خاکستری رنگ کا اونٹ) کہاں سے آ گیا؟ اُس نے عرض کی: شاید کسی رگ نے اُسے کھینچ لیا ہو، آپ ﷺ نے فرمایا: شاید تمہارے بیٹے کو بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو، (بخاری: 5305)‘‘۔
    اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ قیاس فرماتے تھے اور اس میں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حیوانات میں بعض نسلی خصوصیات پر مبنی قانونِ توارُث جاری ہوتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک عظیم شاہکار ہے، اِسی طرح انسانوں میں بھی یہ قانون ِ فطرت جاری و ساری ہے۔ حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً وہ شخص سفید رنگ کا تھا، تو اُسے اپنے سیاہ فام بیٹے کے بارے میں شُبہ ہوا کہ کہیں اس کا نسب مشتبہ تو نہیں ہے، آپ ﷺ نے اپنی پاکیزہ الہامی بصیرت سے اُس کے شک و شبہے کو دور فرما دیا اور درج ذیل حدیثِ مبارک میں اس کی مزید وضاحت ملتی ہے:
    علی بن ابی رباح اپنی سند کے ساتھ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اُن سے پوچھا: تمہارے ہاں کیا پیدا ہوا؟ اُس نے جواب دیا، میرے ہاں جو بھی پیدا ہوگا بیٹا ہوگا یا بیٹی، آپ ﷺ نے پوچھا: وہ بچہ (صورت میں) کس سے مشابہ ہوگا؟ اُس نے عرض کی: یارسول اللہ! (صلی اللہ علیک و سلم)، یقینا اپنے باپ یا ماں میں سے کسی کے مشابہ ہوگا، آپ ﷺ نے فرمایا: ذرا رکو، اس طرح نہ کہو، (بات یہ ہے کہ) جب نطفہ ماں کے رحم میں قرار پاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ (اپنی قدرت سے) اُس کے اور آدم علیہ السلام کے درمیان تمام رشتوں (یعنی اُن کی صورتوں) کو حاضر فرما دیتا ہے، (پھر آپ ﷺ نے فرمایا) کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں پڑھا: ’’وہ جس صورت میں چاہتا ہے، تمہارے وجود کی تشکیل فرما دیتا ہے. (المعجم الکبیر للطبرانی: 4624)‘‘۔

    غور کا مقام ہے کہ اُس دور میں جسے دورِ جہالت کہا جاتا ہے، نورِ نبوت کے سوا، جو وحیِ الٰہی کا منبع ہے، کسی اور صاحبِ علم و دانش کی بصیرت و فراست کے بارے میں یہ سوچا جاسکتا ہے کہ وہ اتنی گہرائی اور گیرائی کی حامل ہو اور علم کی ایسی کرنیں بکھیر دے کہ جن تک جدید دور کے ذی عقل و ذی شعور انسانوں کی صدیوں بعد جزوی رسائی ہوئی ہو۔ یہ مظاہر ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ بچے کی صورت نہ باپ کے مشابہ ہے اور نہ ماں کے، اِسی سبب بعض لوگ صحتِ نسب کے بارے میں شکوک میں مبتلا ہوتے ہیں، لیکن رسول اللہ ﷺ نے علمِ نبوت کے فیض سے اِس مسئلے کو کم و بیش سوا چودہ سو سال پہلے حل فرما دیا ۔ اس مسئلے کی مزید تصدیق و تصویب اس حدیثِ پاک سے ہوتی ہے. ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ آپ کا رُخِ انور مسرّت و شادمانی سے دمک رہا تھا۔آپ ﷺ نے فرمایا: (عائشہ!) تمہیں معلوم ہے کیا ہوا؟ زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید چادریں اوڑھ کر اس طرح لیٹے ہوئے تھے کہ اُن کے سر (اور بدن کا بالائی حصہ) ڈھکا ہواتھا اور پاؤں کھلے تھے۔ اس اثنا میں بنو مُدلِج کاایک قیافہ شناس مُجَزَّزْ مُدْلِجِی آیا، اچانک اُس کی نظر دو لیٹے ہوئے اشخاص پر پڑی (جن کے صرف پاؤں نظر آ رہے تھے)، تو اُس نے کہا: یہ پاؤں ایک دوسرے سے ہیں، یعنی یہ آپس میں باپ بیٹا ہیں. (صحیح مسلم: 1459)‘‘۔

    حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اسلام لانے والے چار نفوس میں شامل ہیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام اور متبنّیٰ تھے، جب آپ ﷺ نے انہیں آزاد کردیا، تو انہوں نے آزاد ہوکر اپنے ماں باپ اور خاندان کے پاس جا کر رہنے کے بجائے، رسول اللہ ﷺ کی دائمی غلامی کو ترجیح دی۔ انہوں نے ایک حبشی عورت بَرَکہ، جن کی کنیت اُمِّ اَیمَن تھی، سے شادی کی اور اُن سے اُن کے فرزند اسامہ پیدا ہوئے۔ حضرت اسامہ کا لقب ’’حِبُّ رسولِ اللّٰہ‘‘یعنی ’’رسول اللہ ﷺ کا محبوب‘‘ تھا۔ رسول اللہ ﷺ آپ کو ایک ہی سواری پر اپنے پیچھے بٹھاتے تھے، عربی میں اونٹ یا گھوڑے پر سوار کے پیچھے بیٹھنے والے کو ردیف کہتے ہیں۔ وہ رنگت میں سیاہ فام لگتے تھے۔ باپ سے رنگت کے فرق کی وجہ سے کسی بدنیت شخص نے اُن کے نسب پر شک ظاہر کیا، اس سے رسول اللہ ﷺ کو رنج ہوا ۔لہٰذا جب مُجَزَّزْمُدْلِجِی نے قیافے کی بنا پر محض دونوں کے پاؤں دیکھ کر انہیں باپ بیٹا قرار دیا، تو آپ ﷺ کو نہایت مسرت ہوئی۔ شرعاً تو ان کا نسب پہلے ہی ثابت تھا، مگر قرائن کی شہادت سے اس کو تقویت ملی، اس لیے ہم کہتے ہیں کہ شہادت کا اصل معیار تو شریعت ہی کا رہے گا، تاہم قرائن کی شہادت اس کے لیے تقویت کا باعث بنتی ہیں۔

    موسمیاتی تغیر: آج کل موسمیاتی تغیر کا عالَمی چیلنج درپیش ہے۔ Global Warming یعنی عالمی سطح پر درجۂ حرارت میں اضافہ ایک خطرے کی صورت میں نمودار ہوا ہے۔ سو ماحولیاتی حرارت میں کمی یا کم از کم اسے موجودہ حد تک برقرار رکھنے کے لیے ایک مفید حکمت عملی شجرکاری اور جنگلات میں اضافہ ہے۔ عالمی ماہرین کسی بھی ملک کی زمین میں جنگلات کا ایک کم از کم تناسب ضروری سمجھتے ہیں۔ جنگلات اور درخت موسم کو بہتر رکھنے، زلزلوں اور طوفانی بارشوں میں زمین کے کٹاؤ کو روکنے کا باعث بنتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے شجر کاری کی ترغیب دیتے ہوئے اس فعل کو نیکی کا درجہ دیا اور اس کے ثمرات کو صدقہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
    (1) ’’جو شخص کوئی درخت لگائے یا فصل کاشت کرے، پھر اُس سے کوئی انسان یا پرندہ یا درندہ یا چوپایا کھائے، تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے. (مسند احمد:15201)‘‘۔
    (2) ’’جو بھی مسلمان کوئی پودا اُگاتا ہے، تو اُس درخت سے جو کچھ کھایا جائے، وہ اُس کے لیے صدقہ ہے اور جو اُس سے چوری ہوجائے، اور جو درندے اُس سے کھا لیں، وہ (بھی) اُس کے لیے صدقہ ہے اور جو پرندے اُس سے کھا لیں، وہ بھی اُس کے لیے صدقہ ہے، اور کوئی شخص اُس میں سے کم کرے گا، وہ بھی اُس کے لیے صدقہ ہوجائے گا. (مسلم: 1552)‘‘۔
    (3) ’’اگر قیامت سر پہ کھڑی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کسی درخت کا کوئی قلم یا پودا ہے، اگر وہ کھڑا ہونے سے پہلے اُسے زمین میں لگا سکتا ہے، تو ضرور لگا لے.(ادب المفرد:479)‘‘۔

    یہ انسان کی فطرت ہے اور اس کی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ اس کی کاشت کی ہوئی فصل، لگایا ہوا باغ اور بویا ہوا پودا جب کامل ہوجائے، تواپنی محنت کا سارا ثمر وہ اپنے دامن میں سمیٹ لے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اُس کا کوئی دانہ، کوئی پھل، کوئی پھول، کوئی سبزی الغرض کوئی بھی چیز ضائع ہوجائے۔ لیکن شجر کاری وہ شعبہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے نیت کے بغیر ہی انسان کو اجر کا حق دار قرار دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اسے صدقے سے تعبیر فرمایا ہے۔ اُس میں سے کوئی چیزانسان، حیوانات، چرند، پرند، درندے حتیٰ کہ حشراتُ الارض کھائیں یا چوری ہوجائے یا کوئی کمی ہوجائے، تو اللہ تعالیٰ اُس پر بھی اُسے اجر عطا فرماتا ہے۔ انسان کے لگائے ہوئے درخت کی چھاؤں میں کوئی راحت پالے تو یہ بھی صدقہ ہے، کوئی پرندہ اُس کی شاخوں میں آشیانہ بنا لے تو یہ بھی صدقہ ہے۔ جو دین اتنا ماحول دوست ہو، انسان نواز ہو، اللہ کی ہر مخلوق کے لیے وسیلۂ رحمت ہو، حتیٰ کہ اللہ کی زمین کی برقراری اور شادابی کے لیے سہارا ہو، اُس کے ماننے والوں کے وطن میں جنگلات تباہ و برباد ہوتے رہیں، زمین درختوں کے سائبان سے بےلباس ہوجائے، اِسے دنیا و آخرت کی محرومی کے سوا اور کس چیز سے تعبیر کیا جائے۔ اس کی اہمیت کا بیان زبانِ نبوت ہی فرما سکتی ہے کہ تمہارے ہاتھ میں قلم یا شاخ ہے اور قیامت سر پہ کھڑی ہے، تب بھی اٹھنے سے پہلے اسے زمین میں لگا سکتے ہو تو لگا لو۔

    کلوننگ: کسی جاندار کے وجود کے ایک خَلیے (Cell) سے دوسرے جاندار کے پیدا کیے جانے کے جدید سائنسی نظریے کو کلوننگ کہتے ہیں، جیسا کہ سائنس دانوں نے اپنے دعوے کے مطابق ایک بھیڑ کے خَلیے سے ’’ڈولی‘‘ نامی دوسری بھیڑ پیدا کی۔ الحمدللہ! قرآن کریم نے ماں باپ دونوں کے واسطے کے بغیر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش، عورت کے واسطے کے بغیر حضرت آدم کے وجود سے حضرت حوا کی پیدائش اور مرد کے واسطے کے بغیر حضرت مریم کے وجود سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا حوالہ دے کر روزِ اول سے بتا دیا ہے کہ یہ تمام صورتیں نہ صرف ممکن ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وجود میں آچکی ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    (1)’’بےشک عیسیٰ کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدم کی سی ہے، جسے اس نے مٹی سے بنایا، پھر (اسے) فرمایا: ہوجا، سو وہ ہوگیا، (آل عمران:59)‘‘۔
    (2)’’(اللہ) وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا (الاعراف:189)‘‘۔
    (3)’’فرشتے نے کہا: میں تو صرف تمہارے رب کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ میں تمہیں ایک پاکیزہ بیٹا دوں، مریم نے کہا: میرے ہاں بیٹا کیسے ہوسکتا ہے، حالانکہ کسی بشر نے مجھے چھوا تک نہیں اور نہ میں بدکار ہوں، فرشتے نے کہا: (مَشِیْئَتِ باری تعالیٰ) اِسی طرح ہے، آپ کے رب نے فرمایا: یہ مجھ پر آسان ہے تاکہ ہم اسے لوگوں کے لیے (اپنی قدرت کی) نشانی اور اپنی طرف سے رحمت بنا دیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں طے شدہ امر ہے، (مریم: 19-21)‘‘۔
    (4)’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان (آدم) سے پیدا کیا اور اُسی سے اس کا جوڑا (Spouce یعنی حواکو) پیدا کیا اور اُن دونوں سے بہ کثرت مَردوں اور عورتوں کو (زمین میں) پھیلا دیا، (النساء:1)‘‘۔
    یہی بات حدیث پاک میں بیان کی گئی ہے، فرمایا:’’عورتوں کے ساتھ خیرخواہی کرو، کیونکہ (کائنات کی پہلی) عورت کو (آدم) کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی کی سب سے اوپر والی ہڈی ٹیڑھی ہے، پس اگر تم ان کو (زاویۂ قائمہ کی طرح) سیدھا کرنے لگو گے، تو توڑ دوگے اور اگر تم اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دوگے تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہےگی، سو عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو. (صحیح بخاری:3331)‘‘۔

    ہماری دینی بہنیں اس حدیث کو سن کر ناگواری محسوس کرتی ہیں کہ انہیں ٹیڑھا کہا گیا ہے۔ دراصل رسول اللہ ﷺ نے طبائع اور مزاجوں کے تفاوت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ عورت کو سو فیصد اپنی مرضی کے تابع کرنے کی کوشش نہ کرو، بلکہ اس کے مزاج کے ساتھ مطابقت (Adjustability) پیدا کرو۔ ظاہر ہے کہ مطابقت پیدا کرنے کے لیے ہر فریق کو دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرنی ہوتی ہے، سو خاندانی نظام کو استوار رکھنے کے لیے مرد کو بھی جھکنا پڑے گا، اکڑ کر رہنے سے ٹکراؤ تو ہو سکتا ہے، مطابقت نہیں ہوسکتی اور خاندان بکھر جاتا ہے، جو منشائے ازدواج کے خلاف ہے۔

    کتے کے منہ کے جراثیم: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈالے (یعنی زبان سے چاٹے)، تو اُسے پاک کرنے کے لیے سات مرتبہ دھویا جائے، جن میں سے پہلی مرتبہ اُسے مٹی سے مانجھا جائے(بخاری:168)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ کتے کے منہ سے نکلنے والے جراثیم موذی ہوتے ہیں اور اُن سے بچاؤ کے لیے احتیاط نہایت ضروری ہے، آج کل مٹی کی جگہ کیمیکل یا واشنگ پاؤڈر استعمال کیے جاتے ہیں۔ حدیثِ پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ کتے کے لعاب کا تریاق مٹی میں ہے اور شاید مٹی میں ایسا دافع عفونت (Antiseptec) مادہ ہوتا ہے جو کتے کے جراثیم کے برے اثرات کا خاتمہ کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے فقہائے کرام نے کہا: خشک مٹی پاک ہے اور اُس پر کوئی کپڑا بچھائے بغیر نماز پڑھ سکتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میرے لیے مٹی کو پاک کردیا ہے، (سنن ابودائود:489)‘‘۔

    ماہرین بتاتے ہیں کہ کتا جب فُضلہ خارج کرتا ہے تو اُس کے ذرّات اُس مقام کے اطراف کے بالوں کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں، پھر اُن میں موذی جراثیم (Viruses) پیدا ہوتے ہیں اور کتا جب اُس مقام کو چاٹتا ہے، تو وہ جراثیم اُس کے لعاب میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کتا جب باؤلا ہوجاتا ہے، تو اُس کے لُعاب (Spittle) میں Lyssaviruses پیدا ہوجاتے ہیں اور اگر اُن کا بروقت علاج نہ کیا جائے، تو اُس سے Rabies کی بیماری پیدا ہوتی ہے، علامات (Symptoms) ظاہر ہونے کے بعد یہ بیماری تقریباً ناقابلِ علاج ہوتی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ اس آخری مرحلے کے بعد اب تک طبی دنیا میں صرف پانچ مریضوں کا شفایاب ہونا ریکارڈ پر ہے۔ اس بیماری کے بعد دماغی اعصاب (Neuro Nerves) متاثر ہوتے ہیں اور Hydrophobia یعنی پانی سے خوف کی بیماری لاحق ہوتی ہے اور مریض شدید پیاس کے باوجود پانی نہیں پی پاتا۔ ابتدائی مراحل میں اگر زخم کو اچھی طرح Antibiotic سے دھو لیا جائے اور Immunoglobulin کے انجکشن دے دیے جائیں، تو بچنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ سرِ دست کوئی ایسا میڈیکل ٹیسٹ ایجاد نہیں ہوا کہ اس بیماری کو ابتدا ہی میں Diagnose کیا جاسکے، جدید تحقیق کے مطابق یہ چھ ہفتے سے لے کر چھ ماہ تک کے عرصے میں نمودار ہوسکتی ہے، البتہ پوسٹ مارٹم میں تشخیص ہوسکتی ہے۔

    یہ علمِ نبوت ہی کا فیضان ہے کہ آپ ﷺ نے دینی و اَخلاقی تعلیمات کے ذریعے اِن مہلک جسمانی امراض اور اَخلاقی عوارض کے علاج تجویز فرمائے۔

    کلمات کی تاثیر: قرآن مجید کی سورہ المائدہ:4 میں تربیت یافتہ اور سِدھائے ہوئے کتوں کے ذریعے حلال جانور کے شکار کے جواز کا حکم بیان فرمایا گیا ہے، کتبِ فقہ میں اس کے تفصیلی احکام اور شرائط موجود ہیں، حدیثِ پاک میں ہے:
    حضرت عدی بن ابی حاتم نے نبی ﷺ سے عرض کی: ہم لوگ کتوں کے ذریعے شکار کرتے ہیں (یعنی اس کا حکم کیا ہے؟)، نبی ﷺ نے فرمایا:’’جب تم نے بسم اللہ پڑھ کر اپنے شکاری کتے کو چھوڑا اور اس نے شکار کو روکے رکھا اور مار ڈالا، تو تم اس کو کھالو اور اگر اُس نے خود کھا لیا تو پھر تم مت کھاؤ، کیونکہ اُس نے اِس جانور کو اپنے لیے شکار کیا ہے۔اور اگر اُس کے ساتھ دوسرے شکاری کتے بھی مل جائیں، جن پر بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو اور انہوں نے اُس شکار کو روکے رکھا اور مار ڈالا، تو تم اس کو نہ کھاؤ، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ ُان میں سے کس کتے نے اِس شکار کو مار ڈالا ہے،(بخاری:5484)‘‘۔

    اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے مقدس نام میں ایسی معنوی اور روحانی تاثیر موجود ہے، جس کے سبب اللہ کے نام پر چھوڑے ہوئے اور سِدھائے ہوئے کتے کا شکار حلال ہو جاتا ہے، حالانکہ کتے کے لعاب کا حکم آپ حدیثِ پاک میں پڑھ چکے ہیں کہ اُس کی پاکیزگی میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے، لیکن شکاری کتے پر بسم اللہ پڑھنے کی برکت سے شریعت نے کتنی رعایت دی۔ بعض ماہرین نے اس کا حسّی سبب بھی بتایا ہے اور علامہ ابن حجر نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے کہ جب کتا شکار کے پیچھے دوڑتا ہے، تو اُس کے منہ کا لعاب خشک ہوجاتا ہے اور وہ جب شکار کو پکڑتا ہے تو اُس کا لعاب شکار کو آلودہ نہیں کرتا۔ الفاظ کی روحانی تاثیر کو تو سبھی مانتے ہیں، عربی شاعر نے کہا ہے:
    جَرَاحَاتُ السَّنَانِ لَھَا الْتِیَامُ وَلَا یَلْتَامُ مَاجَرَحَ اللِّسَانُ
    ترجمہ: تیر کے زخم تو وقت گزرنے کے ساتھ مُندَمِل (Recover) ہو جاتے ہیں، لیکن زبان کا لگا ہوا زخم کبھی مندمل نہیں ہوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ الفاظ میں تاثیر ہے۔ اچھی نیت سے پیار بھرے الفاظ سن کر انسان کا قلب مسرور ہوجاتا ہے اور روح کو سکون ملتا ہے، جبکہ نفرت انگیز الفاظ سُن کر دل پر چوٹ لگتی ہے اور روح سے ٹِیسیں اٹھتی ہیں۔ سو اگر کوئی شیطانی کلمہ روح کو بےچین کرسکتا ہے، تو پھر اللہ تعالیٰ کے اِس ارشاد کی صداقت میں کوئی شبہ رہ جاتا ہے؟۔’’سنو! اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے، (الرعد:)‘‘۔ اور حدیثِ پاک میں ہے:’’دو کلمے اللہ کو پسند ہیں، جو پڑھنے میں نہایت سہل ہیں اور (قیامت کے دن) میزانِ عمل میں وہ بھاری ہوں گے اور وہ یہ ہیں:’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ‘‘(بخاری:7563)‘‘

    ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:’’میں نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پست قد کے بارے میں طعن کیا، تو نبی ﷺ نے فرمایا: (اے عائشہ!) تم نے ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر اُسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے، تو وہ اُسے بھی بدمزہ کردے، (سنن ترمذی: 2502)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ اچھے اور برے کلمات کی تاثیر ہوتی ہے اور وہ انسان کے ذہن پر مُثبت یا منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    (1)’’اچھی بات کہنا اور (کسی کی غلطی سے) درگزر کرنا اُس صدقے سے بہتر ہے جسے بعد میں جِتلا کر اذیّت پہنچائی جائے اور اللہ بےنیاز، نہایت حِلم والا ہے اور اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور (ذہنی) اذیت پہنچا کر ضائع نہ کرو. (البقرہ:263-64)‘‘۔
    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پاکیزہ بات صدقہ ہے (یعنی کسی کو اچھی بات کہنے پر بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اجر ملتا ہے) ، (بخاری:2891)‘‘۔ جب رسول اللہ ﷺ نے بدشگونی کی مذمت فرمائی، تو فرمایا: نیک فال لینا بہتر ہے، سوال ہوا: یارسول اللہ! نیک فال کیا ہے؟، آپ ﷺ نے فرمایا: وہ پاکیزہ بات جسے کوئی سنے (اور خوش ہو)، (بخاری:5754)‘‘۔اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے، ورنہ (بےہودہ بات کہنے کے بجائے) چپ رہے. (6018)‘‘۔

  • نسبی شرافت اور انبیائے کرام کا نسب – پروفیسر مفتی منیب الرحمن

    نسبی شرافت اور انبیائے کرام کا نسب – پروفیسر مفتی منیب الرحمن

    مفتی منیب الرحمن 22 اکتوبر کو ’’اَخلاقی اَقدار کا زوال‘‘ کے عنوان سے ہمارا کالم شائع ہوا، اُس پر جناب نعمان شہیر نے ای میل کے ذریعے یہ اِشکال وارد کیا ہے:

    آپ نے کالم میں روم کے بادشاہ اور حضرت ابوسفیان کے درمیان ایک تاریخی مکالمے کا ذکر کیا ہے، اس میں ہے: ’’انبیائے کرام علیہم السلام اپنے عہد کے لوگوں میں عالی نسب رہے ہیں‘‘، مجھے اس پر تشویش ہے، اس کی وضاحت فرمائیں۔ ہم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں، لہٰذا نسبی برتری کا کیا معنی؟ جب سب سے اہم چیز تقویٰ ہے، تو پھر نسب کی کیا اہمیت؟، کوئی انسان اپنے والدین کی کسی کمزوری کا ذمہ دار نہیں ہے۔ العیاذ باللہ ! جدید دور میں اسے نسل پرستی سے تعبیر کیا جاتا ہے، یہ نظریہ قرآن سے متصادم ہے۔ حضرت عبداللہ اور حضرت ابوطالب معمولی تاجر اور اپنے قبیلے کے سردار تھے، وہ عالی نسب کیسے ہوگئے؟ وہ کوئی اسکالر، فلاسفر، سائنس دان یا انسان دوست نہیں تھے۔ اس کا مطلب تویہ ہے کہ کوئی شخص کوئی عظیم کارنامہ انجام دے دے، تو اُس کے آباء و اَجداد کی شان بڑی ہوجائے گی اور وہ عالی نسب قرار پائے گا، اس سے قطع نظر کہ وہ کتنے معمولی لوگ تھے۔ اسی طرح اگر کوئی برا کام کرتا ہے، تو اس کی وجہ سے اس کے آباء واَجداد کم تر نسب والے قرارپائیں گے، خواہ اس نے نوبیل انعام حاصل کیا ہو۔ امید ہے آپ میری اس الجھن کوحل کریں گے۔‘‘

    قارئین سے گزارش ہے کہ اِس سوال پر مشتعل نہ ہوں، ہمیں حُسنِ ظن سے کام لینا چاہیے، ہوسکتا ہے اُن کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوا ہو، پس اس اشکال کو رفع کرنا ہماری دینی ذمے داری ہے، یہ فریقِ مخالف کو قائل کرنے کا دور ہے، کسی پر ہم اپنی رائے جبراً مسلّط نہیں کرسکتے، ہوسکتا ہے کہ ہماری ِاس مخلصانہ کاوش سے بہت سے ذہنوں کے بند دریچے کھل جائیں۔

    آپ کا یہ کہنا بَجا ہے کہ ہم سب آدم کی اولاد ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’(اللہ) وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ، (الاعراف:189)‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ نے تم سے جاہلیّت کا غرور و تکبرنکال لیا ہے، بس مومن پارسا ہوتا ہے اور فاجر محروم، سب لوگ آدم کی اولاد سے ہیں اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے، (ترمذی:3955)‘‘ یقینا قیامت کے دن فیصلے ایمان واعمال کی بنیاد پر ہوں گے، محض نسبی برتری سببِ نجات نہیں بنے گی، اِسی لیے مفسرینِ کے نزدیک آل اور اہل کا ایک معنی پیروکار ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ (نوح نے اپنے رب کو پکارا: عرض کی: اے میرے رب! بےشک میرا بیٹا میرے اہل سے ہے اور بےشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے، (اللہ نے)فرمایا: اے نوح! وہ تمہارے اہل میں سے نہیں ہے ، بےشک اُس کے کرتوت برے ہیں، سو آپ مجھ سے اُس چیز کا سوال نہ کریں، جس کا آپ کو علم نہیں ہے، (ہود:45-46)‘‘۔

    ایک ہی بیج سے فصل کاشت کی جاتی ہے، بعض پھل لذیذ ہوتے ہیں اور بعض بد ذائقہ۔ اِسی طرح انسانی نسل میں شریف و رذیل، نیک و بد، ذہین و غبی، الغرض ہر طرح کے افراد ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی ماں باپ کی اولاد میں رنگت، صورت، سعادت و شقاوت، ذہانت و غَباوت اور شَجاعت و بزدلی کے اعتبار سے فرق ہوتا ہے۔ حدیثِ پاک میں فرمایا: وجودِ آدم کی اصل مٹی ہے اور مٹی کی رنگتیں اور خاصیتیں مختلف ہوتی ہیں اور یہ سب خاصیات نسلِ آدم میں منتقل ہوئی ہیں۔ اسی طرح قامت و جسامت اور صورت و جمال کے اعتبار سے بھی بنی آدم میں تفاوُت ہے۔ لیکن یہ تمام چیزیں تکوینی ہیں، اللہ تعالیٰ کی حکمت پر مبنی ہیں، اس میں انسان کی اپنی محنت یا خواہش کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس لیے قیامت میں جزا و سزا اور نجات و خُسران کا مدار اِن تکوینی امور پر نہیں ہوگا، بلکہ تشریعی امور پر ہوگا، جس میں انسان کو خیر و شر کی نشاندہی کر کے اپنی صوابدید سے اپنے لیے راہِ عمل متعیّن کرنے کا اختیار دیا ہے اور اِسی پر آخرت میں جزا و سزا کا مدار ہوگا۔

    اِسی طرح نَسبی کمال و شرافت کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا تکوینی امر اور اُس کی عطا ہے، اگرچہ جزا و سزا کا مدار نسب پر نہیں ہوگا، مگر اِس کی اہمیت بہرحال مسلَّم ہے۔ جس طرح ہم حسین و ذہین انسان کی تعریف کرتے ہیں، اِسی طرح سے عَالی حسب و نَسب کی تعریف کرنا امرِ واقع ہے اور یہ خلافِ عقل و عدل نہیں ہے۔ انبیائے کرام کے بارے میں فرمایا: ’’اور بےشک وہ ہمارے چُنیدہ (اور) پسندیدہ بندے ہیں، (ص:47)‘‘۔ ہر شخص جانتا ہے کہ بعض چیزیں ناپسندیدہ ہونے کے باوجود معاشرے میں رائج ہوتی ہیں اور اُن میں نسب کی نَجابت اورخَسَاسَت دونوں شامل ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنتِ جلیلہ ہے کہ اُس نے اپنے انبیائے کرام کو بشری خصوصیات کے اعتبار سے اعلیٰ مقام پر فائز فرمایا تاکہ کوئی کسی بھی حوالے سے اُن پر طعن نہ کرسکے اور اُن کے مقام و مرتبے کو معاشرے میں کم تر نہ سمجھے۔ سو اعلیٰ بشری خصوصیات میں جہاں پاک بازی و پاک دامنی، عِفّت وحیا، شَجاعت و سخاوت، صِدق و صَفا، دیانت و امانت، علم و ذکاوَت اور عدالت شامل ہیں، وہیں حُسنِ صورت اور اعلیٰ نَسب بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اظہارِ تشکر کے طور پر اپنے نسب کی فضیلت کو بیان فرمایا:
    (1): ’’میرا سلسلۂ نسب ہر دور میں بنی آدم کے بہترین قبیلے اور خاندان میں رہا، یہاں تک کہ میں اپنے دور تک پہنچا، (بخاری:566)‘‘۔
    (2): ’’میں قیامت کے دن تمام اولادِ آدم کا سردار ہوں گا، (مسلم:1782)‘‘۔
    (3):’’اللہ نے اولادِ ابراہیم میں سے اسماعیل کو، اولادِ اسماعیل میں کِنانہ کو، کِنَانہ میں سے قریش کو، قریش میں سے بنو ہاشم کو اور بنو ہاشم میں سے مجھے چُنا، (مسلم:1782)‘‘۔یعنی رسول اللہ ﷺ نے اپنے آپ کو افضل البشر اور اپنے نسب کو افضل الانساب بتایا اور آپ تو ہیں ہی افضلُ الخَلق۔

    رسول اللہ ﷺ کی نسبی شرافت ہی تھی کہ آپ کوگزند پہنچانے سے پہلے شدید عداوت کے باوجود کفارِ مکہ کو ہزار بار سوچنا پڑتا تھا۔ اِسی لیے جب کفارِ مکہ کی پارلیمنٹ ’’دارُ النَّدوۃ‘‘میں العیاذ باللہ! آپ کو شہید کرنے کے ابلیسی مشورے پر اتفاقِ رائے ہوا، تو ابوجہل نے کہا: تمام قبائلِ قریش کے نمائندہ بہادر جوان مسلّح ہوکر کاشانۂ نبوت کا محاصرہ کریں اور صبح سویرے جب آپ گھر سے نکلیں، تو یک بارگی سب آپ پر پِل پڑیں۔ اس طرح بنو ہاشم سب قبائل سے قصاص کے لیے جنگ نہیں کر پائیں گے اور دِیَت پر راضی ہوجائیں گے، یہ الگ بات ہے کہ :’’تدبیر کُنَد بندہ ، تقدیر زِنَد خَندہ‘ ، بندوں کی کوئی بھی ناپاک تدبیر اللہ کی تقدیر پر غالب نہیں آسکتی۔ الغرض نسبی تفاخُر اگر دوسروں کو حقیر و کم تر جاننے کے لیے ہو، تو یہ شریعت کی نظر میں معیوب بات ہے، لیکن اگر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے ہو تو شکرِ نعمت اچھی بات ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص اپنے حسن و جمال پر اظہارِ مسرّت کرے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں جو اسرائیلی روایات ہیں کہ العیاذ باللہ ! اُن کو ایسی بیماری لاحق ہوگئی تھی کہ بدن پہ بدبودار پھُنسیاں نکل آئی تھیں اور لوگوں کو اُن سے گھِن آتی تھی اور کوئی اُن کے قریب نہیں جاتا تھا، یہ سب باطل ہے، مقامِ نبوت کے شایانِ شان نہیں ہے، ایسی روایات کو یَکسر رَد کردینا چاہیے۔ البتہ بیماری کا لاحق ہونا بشری عوارض میں سے ہے اور یہ کسی بھی دور اور کسی بھی معاشرے میں معیوب بات نہیں رہی۔
    علامہ غلام رسول سعیدی نے علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی کے احوال میں لکھا ہے:
    1953ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران مختلف مکاتب فکر کے علماء کراچی میں اکٹھے ہوئے۔ ایک مجلس میں مولانا ظفر احمد انصاری، مفتی محمد شفیع، مولانا سید محمد یوسف بنوری، مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی جمع تھے۔ گفتگو کے دوران علامہ کاظمی صاحب نے مولانا محمد ادریس کاندھلوی سے کہا: آپ نے اپنی کتاب’’ الکلام‘‘ میں مرزا غلام احمد قادیانی کا رد کرتے ہوئے لکھا ہے: نبی کے لیے ضروری ہے کہ اس کا حسب نسب اپنے زمانے کے تمام اَحساب و اَنساب سے افضل ہو، حالانکہ یہ بات بےدلیل ہے۔ اس پر مولانا محمد ادریس کاندھلوی نے صحیح بخاری کی اس حدیث کا حوالہ دیا: ’’ انبیاء علیہم السلام اپنی قوم کے بہترین نسب میں مبعوث کیے جاتے ہیں‘‘۔ علامہ کاظمی نے حدیث کا ترجمہ بیان کیا: ’’ نبی جس قوم کی طرف مبعوث ہو، اُس کا نسب اُس قوم میں افضل ہوتا ہے‘‘۔ آپ نے لکھا ہے: ’’نبی کا نسب اپنے زمانے میں سب سے افضل ہوتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا: ’’ اگر میں نے یہ لکھ دیا ہے تواس میں خرابی کیا لازم آئی؟‘‘۔ علامہ کاظمی نے ترمذی شریف کی مذکورہ بالا حدیث کا حوالہ دیا اور کہا کہ انبیائے بنی اسرائیل اپنی قوم میں اعلیٰ نسب کے حامل تھے لیکن علی الاطلاق اپنے زمانے میں افضل النسب نہیں تھے، کیونکہ اُسی زمانے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سید المرسلین ﷺ کے اجداد موجود تھے اور آپ ﷺ نے اپنے نسب کو علی الاطلاق پورے عالَم انسانیت میں ’’افضل الانساب‘‘ قرار دیا ہے۔ پس ہر نبی اپنی قوم میں بہترین نسب کا حامل رہا ہے، لیکن پوری اولادِ آدم میں ہر دور میں افضل و اعلیٰ نسب صرف امام الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کا رہا ہے۔ اب اگر نبی کے لیے ضروری ہو کہ اُس کا نسب اپنے زمانہ کے تمام اَنساب سے افضل ہو، تو لازم آئے گا کہ بنی اسرائیل کے انبیاء، انبیاء نہ رہیں، کیونکہ اُن کا نسب اپنے زمانے میں نسب اسماعیل سے افضل نہ تھا اور انبیاء بنی اسرائیل کی نبوت کے انکار سے بڑھ کر اور کون سی خرابی ہوگی۔ جب علامہ کاظمی نے یہ نَقض وارد کیا تو مولانا محمد ادریس کاندھلوی اس وقت تو خاموش رہے لیکن اگلے ایڈیشن میں انہوں نے اس کو تبدیل کر لیا۔

    آپ کا یہ کہنا صحیح ہے کہ اولاد کو آباء و اجداد کے کسی برے فعل کی سزا نہیں ملے گی، البتہ قرآن و حدیث میں ایسے شواہد ہیں کہ ماں باپ کی برکات اولاد پر بعض اوقات جاری ہوتی ہیں۔ نوبیل پرائز کوئی شرعی اعزاز نہیں ہے کہ اُس پر آخرت میں جزا و سزا کا مدار ہو۔ نسل پرستی کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کو رنگ ونسل کی بنیاد پر غلام بنایا جائے یا حقیر سمجھا جائے یا امتیاز برتا جائے، اسلام اس کی نفی کرتا ہے۔ اس دور میں بھی کوئی شخص کارنامہ انجام دے تو دنیاوی اعتبار سے یہ ماں باپ کے لیے یقینا باعثِ افتخار ہوتا ہے۔

  • اعمال کا مدار انجام پر ہے – پروفیسر مفتی منیب الرحمن

    اعمال کا مدار انجام پر ہے – پروفیسر مفتی منیب الرحمن

    مفتی منیب الرحمن اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    (1) ’’اور ظلم کرنے والے عنقریب جان لیں گے کہ اُن کا (آخری) ٹھکانا کیا ہے؟ (الشعراء: 227)‘‘۔
    (2) ’’جس دن اُن کے چہرے آگ میں پلٹ دیے جائیں گے، وہ کہیں گے: کاش! ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہوتی اور وہ کہیں گے: اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا کہا مانا، تو انہوں نے ہمیں گمراہ کردیا، اے ہمارے پروردگار! انہیں (ہم سے) دگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت فرما (الاحزاب:66-68)‘‘۔
    (3) ’’اور متکبرین نے (اپنے عہد کے) بےبس لوگوں سے کہا: تمہارے پاس ہدایت آنے کے بعد کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا تھا، بلکہ تم (خود ہی) مجرم تھے (سبا:32)‘‘۔
    (4) ’’اور جب اہلِ جہنم آپس میں جھگڑا کریں گے، تو کمزور لوگ (اپنے عہد کے) متکبرین سے کہیں گے، ہم تو تمہارے پیچھے چلنے والے تھے، کیا (آج) تم جہنم کے عذاب سے نجات کے لیے ہمارے کسی کام آؤگے؟، (المؤمن: 47)‘‘۔

    حدیثِ پاک میں ہے:
    ’’سہل بن سعد ساعدی بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ نے ( میدانِ جنگ میں) ایک شخص کو دیکھا کہ وہ مشرکوں سے قتال کر رہا ہے اور وہ (بظاہر) مسلمانوں کی طرف سے بہت بڑا دفاع کرنے والا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: جو کسی جہنمی شخص کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اس شخص کو دیکھے۔ پھر ایک شخص (اس کی حقیقت جاننے کے لیے) مسلسل اُس شخص کا پیچھا کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ زخمی ہوگیا، سو اُس نے (تکلیف سے بے قرارہوکر) جلد موت سے ہمکنار ہونے کی کوشش کی، وہ اپنی تلوار کی دھار کی طرف جھکا اور اُسے اپنے سینے کے درمیان رکھ کر اپنے پورے بدن کا بوجھ اس پر ڈال دیا، یہاں تک کہ تلوار (اُس کے سینے کو چیر کر) دوشانوں کے درمیان سے نکل گئی، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ بندہ لوگوں کے سامنے اہلِ جنت کے سے عمل کرتا چلا جاتا ہے، حالانکہ درحقیقت وہ اہل جہنم میں سے ہوتا ہے، اسی طرح ایک بندہ لوگوں کے سامنے بظاہر اہل جہنم کے سے کام کرتا چلا جاتا ہے، حالانکہ درحقیقت وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے اور اعمال کے نتائج کا مدار اُن کے انجام پر ہوگا (بخاری:6493)‘‘۔

    اس کی شرح میں علامہ بدرالدین عینی لکھتے ہیں:
    اس سے پہلی حدیث میں مذکورہے: اُس شخص نے اپنے تَرکش سے تیر نکال کر ُاس سے اپناگلا کاٹ ڈالا اور اس حدیث میں مذکور ہے: اُس نے تلوار کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر اپنے آپ کو اُس پر گرادیا حتیٰ کہ وہ اُس کے بدن کے آر پار ہوگئی۔ سو ان دونوں حدیثوں میں بظاہر تعارض ہے، دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے: ہو سکتا ہے کہ اُس نے پہلے تیر سے اپناگلا کاٹنے کی کوشش کی ہو اور پھر تکلیف سے جلد نجات پانے کے لیے تلوار کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر اپنے آپ کو اس پر گرا دیا ہو۔ یہ تاویل اُس صورت میں ہے کہ دونوں حدیثیں ایک ہی واقعے سے متعلق ہوں اور اگر یہ دو الگ الگ واقعات ہیں، تو پھر کوئی تعارض نہیں ہے (عمدۃ القاری ج 23 ،ص:236)‘‘۔

    اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اُس وقت کو یاد کرو جب آ پ کے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا اور اُن کو خود اپنے آپ پر گواہ بناتے ہوئے فرمایا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟، اُن سب نے (یک زبان ہوکر) کہا: کیوں نہیں! (یقینا تو ہمارا رب ہے)، (اللہ تعالیٰ نے فرمایا:) ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں، مبادا تم (کل) قیامت کے دن یہ کہہ دو کہ ہم اس سے بے خبر تھے، (الاعراف:172)‘‘۔

    ایک حدیث میں ہے: حضرت عمر بن خطاب سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس حدیث کی بابت فرماتے ہوئے سنا: ’’بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، پھر اپنے دائیں ہاتھ سے اُن کی پشت کو چھوا، اُس سے اُن کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: ان کو میں نے جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ اہلِ جنت کے سے عمل ہی کرتے چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے پھر اُن کی پشت کو چھوا، اُس سے اُن کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: میں نے ان کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ جہنمیوں کے سے عمل ہی کرتے چلے جائیں گے ‘‘۔ اس پر ایک شخص نے عرض کی: (اگر سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے) تو عمل کی کیا حیثیت ہے؟، (حضرت عمر بیان کرتے ہیں:) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ جب بندے کو جنت کے لیے پیدا فرماتا ہے تو اُس سے اہلِ جنت کے سے کام کراتا ہے یہاں تک کہ اُس کی موت اہلِ جنت ہی کے کسی عمل پر ہوتی ہے اور اُس کے سبب اُسے جنت میں داخل فرما دیتا ہے اور جب اللہ بندے کو جہنم کے لیے پیدا کرتا ہے، تو اُس سے جہنمیوں کے سے کام کراتا ہے یہاں تک کہ اُس کی موت اہلِ جہنم ہی کے کسی عمل پر ہوتی ہے، سو اُسے جہنم میں داخل فرما دیتا ہے ،(موطا امام مالک:3337)‘‘۔

    اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’پس جس نے (اللہ کی راہ میں مال) دیا اور تقوے پر کاربند رہا اور نیک باتوں کی تصدیق کرتا رہا، تو بہت ہم اُسے آسانی مہیا کردیں گے ،(اللیل:5-7)‘‘۔ یعنی بندے کی مخلصانہ مساعی بار آور ہوں گی۔ اسی مفہوم کو ایک اور حدیث میں ان کلمات میں بیان فرمایا: ’’ہر ایک کا انجام اللہ تعالیٰ کے ہاں مقدر ہے، صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! تو کیا ہم صحیفۂ تقدیر پر توکّل کرتے ہوئے عمل سے دست بردار نہ ہوجائیں؟، آپ ﷺ نے فرمایا: تم (اللہ تعالیٰ کی توفیق سے) نیک کام کیے چلے جاؤ، جسے جس جبلّت پر پیدا کیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس منزل کے حصول کی خاطر اُس کے لیے آسانیاں مقدر فرمادیتا ہے (بخاری :4949)‘‘۔

    امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تقدیر کی بابت سوال ہوا، تو آپ نے فرمایا: ’’یہ تاریک راستہ ہے، اس پر نہ چلو( بھٹک جاؤ گے)، یہ گہرا سمندر ہے، اس میں غوطہ نہ لگاؤ( غرق ہوجاؤگے)، یہ اللہ کے پوشیدہ رازوں میں سے ایک راز ہے، اپنے آپ کو اس کے جاننے کا پابند نہ بناؤ(گمراہ ہوجاؤگے)‘‘۔ یعنی انسان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم ﷺ اور شریعتِ مطہرہ کے احکام پر کاربند رہنا چاہیے، کیونکہ اُنہیں اسی کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ تقدیر ایسا امر ہے جس کی حقیقت جاننے کا مسلمانوں کو پابند نہیں بنایا گیا۔

    حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معمول تھا کہ اسلامی ریاست میں اَسفار کے دوران راستے میں آنے والی بستیوں کا مشاہدہ کرتے، لوگوں کے احوال معلوم کرتے اور اُن کی ضرورتوں کو پورا کرتے۔ فتحِ بیت المقدس کے لیے شام کے سفر پر تھے کہ سَرغ کے مقام پر پہنچے۔ وہاں انہیں معلوم ہوا کہ اس بستی میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ آپ نے اکابر صحابۂ کرام سے مشورے کے بعد اس بستی میں داخل نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: اِس موقع پر حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے کہا: (عمر!) اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہو؟، حضرت عمر نے فرمایا: ’’ اے ابوعبیدہ! کاش کہ یہ بات تمہارے علاوہ کسی اور نے کہی ہوتی (یعنی یہ بات آپ کے شایانِ شان نہیں ہے) ، کیونکہ حضرت عمر اُن سے اختلاف کو پسند نہیں فرماتے تھے، پس انہوں نے جواب دیا: ہاں! اللہ کی تقدیر سے بھاگ کر اُسی کی تقدیر کی پناہ میں جا رہا ہوں۔ اس بحث کے دوران حضرت عبدالرحمن بن عوف وہاں تشریف لائے اور کہا: ایسی صورتِ حال کے بارے میں میرے پاس رسول اللہ ﷺ کی ہدایت موجود ہے، آپ ﷺنے فرمایا: جب تم سنو کہ کسی بستی میں طاعون ہے، تو وہاں نہ جاؤ اور جس بستی میں یہ وبا آجائے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو، تو وہاں سے نکل کر باہر نہ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: یہ حدیث سُن کر حضرت عمر نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور چلے گئے‘‘۔ نوٹ: یہ صحیح مسلم کی حدیث:2219 میں بیان کردہ طویل روایت کاخلاصہ ہے۔

    واضح رہے کہ طاعون (Plague) ایک متعدّی (Infectious) بیماری ہے، جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ یہاں یہ تعلیم فرمایا گیا کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا تقدیر کے منافی نہیں ہے، بلکہ یہ تقدیر کا حصہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ’’لا عَدْویٰ‘‘ (کوئی بیماری متعدی نہیں ہے )، اس پر محمول ہے کہ بیماری کا متعدی ہونا اسباب میں سے ہے، مگر اسباب کی تاثیر مُسَبِّبُ الاَسباب یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے۔ اگر بیماری کی تاثیر ذاتی ہو تو جس جگہ وبا پھیل جائے، کوئی انسان نہ بچ پائے اور اگر دوا میں ذاتی شفا ہو، تو اُس دوا کے استعمال سے ہر بیمار شفا یاب ہوجائے، حالانکہ ہمارا مشاہدہ اس کے برعکس ہے۔ پس ہر چیز کی تاثیر اللہ تعالیٰ کے حکم اور مشیت پر موقوف ہے۔ صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: یارسول اللہ! ہمارے اونٹ ریگستان میں ہرنیوں کی طرح اچھل کود کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی خارش زدہ اونٹ اُن میں اچانک داخل ہوتا ہے اور اُس کی وجہ سے سب کو خارش کی بیماری لگ جاتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پہلے اونٹ کو بیماری کہاں سے لگی؟ (بخاری:5770)‘‘۔ یعنی اسباب کی تاثیر اللہ کی مشیت پر موقوف ہے ۔

    رہا یہ سوال کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ طاعون زدہ بستی سے کوئی باہر نہ جائے، اگر سبھی صحت مند لوگ اپنی جان بچانے کے لیے بستی سے نکل کر باہر چلے جائیں تو وبا میں مبتلا لوگوں کا علاج کون کرے گا؟ اور قضائے الٰہی سے جن کی موت واقع ہوجائے، اُن کی نمازِ جنازہ، تکفین اور تدفین کا انتظام کون کرے گا؟، کیونکہ یہ امور بھی شریعت کی رُو سے لازم ہیں اور اسلامی معاشرے پر بحیثیتِ مجموعی فرضِ کفایہ ہیں۔

  • اَخلاقی اقدار کا زوال – پروفیسر مفتی منیب الرحمن

    اَخلاقی اقدار کا زوال – پروفیسر مفتی منیب الرحمن

    مفتی منیب الرحمنآج کل ماشاء اللہ ہمارے میڈیا اسٹارز کے لیے موضوعات کی بہتات ہے، پاناما لیکس، بہاماس لیکس، قرض معافی مافیا، میڈیا کو سیکرٹ میٹنگ کی لیکنگ یا فیڈنگ، سپریم کورٹ آف پاکستان اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اعلیٰ شخصیات کی نااہلی کے بارے میں متعدد ریفرنس اور 2 نومبر کو اسلام آباد کے محاصرے اور حکومت کومفلوج کرنے جیسے امور تو چل ہی رہے تھے، اِس اثنا میں جنابِ مصطفی کمال اور گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان نے تودھماکا ہی کر دیا۔ سو اب ہمارے اینکر پرسنز اور کالم نگاروں کے وارے نیارے ہیں۔ بیچ میں چٹنی اور چٹخارے کے طور پر امریکہ کے صدارتی انتخابات کو بھی بروئے کار لایا جاسکتا ہے اور انڈیا میں ہمارے اداکاروں کی بےتوقیری الگ سے ایک عالَمی اور آفاقی مسئلہ ہے۔ بعض پاکیزہ ذہنوں پر نازل ہونے والے عالَمِ غیب کے الہامات، بشارتیں اور وعیدیں اِس سے سِوا ہیں۔ الغرض ٹیلی ویژن اسکرین اور اخبارات کے صفحات پر ہر سو رونق ہی رونق ہے۔ بدھ کو موضوعات کے دباؤ کے باعث جناب ڈاکٹر فاروق عبدالستار کے لیے بھی گنجائش نہیں نکل پائی اور وہ رات انہوں نے شاید سکون سے گزاری ہوگی یااُن کے لوگ اسکرین آؤٹ ہونے پر مضطرب ہوں گے۔

    ایران میں ایک اصطلاح ’’اصلاح طلبان‘‘(Reformist)کی رائج ہے اور موجودہ ایرانی صدر جنابِ حسن روحانی کا تعلق اِسی طبقے سے ہے، اِن کے مقابل’’محافظانِ انقلاب‘‘ یا ’’قدامت پرست‘‘ کہلاتے ہیں۔ اس وقت ہمارے ہاں سیاسی محاذ آرائی انتہا پر ہے، اس لیے توازن و اعتدال، میانہ روی، اصلاحِ احوال اور ہوش مندی کی بات کرنا یا لکھنا غیر مقبول (Unpopular) موضوع ہے، کیونکہ اس طرح آپ پر مصلحت پسندی، مطلب براری، ضمیر فروشی یا منافقت، الغرض کوئی بھی فتویٰ لگ سکتا ہے۔ آپ اگر لشکرِ حسین میں نہیں تو یزیدی ہیں، اس سے قطع نظر کہ آپ فریقِ مخالف کے حامی ہوں یا نہ ہوں۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ’’مقامِ حسین رضی اللہ عنہ ‘‘ کواتنا گرادیا جائے گا کہ ہر شخص کے پاس اپنے آپ کو ’’ظِلِّ حسین‘‘اور اپنے مخالفین کو ’’یزیدی‘‘ قرار دینے کا لائسنس ہوگا اور وہ ہوائے نفس کے تحت یا بربنائے اخلاص ہی سہی جو بھی معرکہ بپا کرے گا، وہ اکسٹھ ہجری کے بعد معرکۂ کربلا کا ہم پلّہ قرار پائے گا، کسی نے کہا تھا:
    ہر بوالہوس نے حُسن پرستی شعار کی
    اب آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی

    جواب ندارد:
    ہم اور ہم جیسے چند دیگر کوتاہ فہم مسلسل لکھ رہے ہیں کہ جب بظاہر تمام سیاسی جماعتیں ہمارے ریاستی نظام کی کرپشن سے تطہیر کو اپنا مقدس مشن بنا چکے ہیں، تو یہ سب لوگ یکسوئی کے ساتھ کم از کم وقت میں اس مقصدکے لیے جامع قانون سازی کرنے کے لیے کیوں تیار نہیں ہیں؟۔ اگر ہمارا نظامِ ریاست کسی نظامِ آئین وقانون کے تحت چل رہا ہے تو ہر چیز قانون، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور نظامِ عدل کے تحت ہونی چاہیے اور جہاں پہلے سے قانون موجود نہیں ہے یا قانون میں خلا (Lacuna) ہے یا قانون کسی خاص فرد یا طبقے کو تحفظ دے رہا ہے یا وہ جامع نہیں ہے، تو اِس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سب مل کر اتفاقِ رائے سے جامع قانون سازی کیوں نہیں کر پا رہے؟۔ لیکن اس کا جواب میدانِ سیاست میں متحارب فریقوں اور حکومتی اداروں سمیت کہیں سے نہیں آرہا اور یہی قرائن نیتوں کو مشتبہ قرار دینے کے لیے کافی ہیں۔

    اَخلاقی زوال:
    ایک وقت تھا کہ اِختلافِ رائے کے باوجود لوگوں میں کسی نہ کسی درجے میں باہمی احترام کی روایت موجود تھی اور کچھ اَخلاقی اقدار تھیں، جن کی پاس داری کی جاتی تھی۔ اگر فریقِ مخالف کا احترام ملحوظ نہ بھی ہوتا، تب بھی اپنے شخصی وقار و اعتبار اور اپنی وضع داری اور بھرم کو قائم رکھنے کے لیے باوقار لوگ اَخلاقی اقدار کی ایک اوسَط سطح سے نیچے نہیں گرتے تھے۔ قریشِ مکہ، جو سیدالمرسلین رحمۃ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے جانی دشمن تھے، وہ بھی اِس حد تک نہیں گرے کہ آپ کو العیاذ باللہ! کاذب اور خائن کہا ہو یا آپ کے کردار پر کوئی طعن کیا ہو۔ جب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی:
    ’’اور (اے رسول!) آپ اپنے قرابت داروں کو( للہ کے عذاب سے) ڈرائیے، (الشعراء:214)‘‘۔ اِس حکمِ ربانی کی تعمیل میں آپ ﷺ کوہِ صفا کی بلند چوٹی پر چڑھے اور ندا دی: یَا صَباحَاہ! (واضح رہے کہ اُس زمانے میں عالَمِ عرب میں یہ صدا کسی ہنگامی صورتِ حال میں لگائی جاتی تھی)۔ سب متوجہ ہوئے اور کہا: یہ کون ہیں؟، اُس زمانے میں جو شخص خود موقع پر نہ جا پاتا تو وہ خبر لینے کے لیے اپنا کوئی نمائندہ بھیجتا۔ چنانچہ ابولہب اور قریش کے سردار آ کر جمع ہوگئے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے عقب سے شہسواروں کا ایک لشکر تم پر اچانک حملہ کرنے والا ہے، تو کیا تم میری خبر کی تصدیق کرو گے؟، سب نے یک زباں ہو کر جواب دیا: یقینا کریں گے، کیونکہ ہم نے پوری زندگی آپ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا، [pullquote](سُبل الھُدیٰ والرَّشاد فی سِیْرَۃِ خیرِ العباد ،ج:2،ص:323)[/pullquote]‘‘۔

    سو زمانۂ کفر میں بھی رواداری کا ایک معیار قائم تھا ۔

    اِسی طرح جب ابوسفیان شام کے تجارتی سفر پر تھے، تو ھِرَقْل (قیصرِ روم) نے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنے رؤساء اورترجمان کو بلایا اور قریشِ مکہ کے تجارتی قافلے کو دربار میں طلب کر کے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں پوچھا: تم میں سے نسبی اعتبار سے اِس مُدّعیِ نبوت کا سب سے قریب کون ہے؟، ابوسفیان نے کہا: میں ہوں، اُس نے کہا: آپ میرے قریب آجاؤ، میں اس شخص کے بارے میں چند سوالات کرنا چاہتا ہوں۔ ابوسفیان کہتے ہیں: اللہ کی قسم! اگر مجھے یہ حیا نہ ہوتی کہ مجھے جھٹلا دیا جائےگا، تو میں ضرور اُن کے بارے میں جھوٹ بولتا (یعنی اُسے انتہائی عداوت کے باوجود اپنے وقار و اعتبار کا اتنا پاس تھا)، اُن میں سے چند سوال جواب یہ تھے:
    ہرقل: اُس کا نسب کیسا ہے؟
    ابوسفیان: وہ ہم سب میں عالی نسب ہیں۔
    ہرقل: تمہارے خاندان میں پہلے بھی کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟
    ابوسفیان: نہیں۔
    ہرقل: تم میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟
    ابوسفیان: نہیں۔
    ہرقل: اُس کے پیروکار اشرافیہ کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں یا سماجی اعتبار سے کمزور لوگ ہیں؟
    ابوسفیان: نچلے طبقات کے لوگ ہیں۔
    ہرقل: اُن کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے یا گھٹ رہی ہے؟
    ابوسفیان: بڑھتی جارہی ہے۔
    ہرقل: اُس کا دین قبول کرنے کے بعد کسی نے اُس کے دین کو چھوڑا بھی ہے؟
    ابوسفیان: نہیں۔
    ہرقل: کیا نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے تم لوگوں نے اُس پرکبھی جھوٹ کا الزام لگایا ہے؟
    ابوسفیان: نہیں۔
    ہرقل: کیا اُس نے کبھی عہد شکنی بھی کی ہے؟
    ابوسفیان: نہیں۔
    یہاں ابوسفیان کہتے ہیں: میں اتنی ہی گنجائش نکال پایا کہ میں نے کہا: ہمیں اپنے وطن سے آئے ہوئے کافی دن ہوگئے ہیں، اگر ہمارے بعد کوئی ایسی چیز صادر ہوگئی ہو تو اُس کا ہمیں علم نہیں۔
    ہرقل: تمہاری اُس سے جنگ بھی ہوئی ہے؟
    ابوسفیان: ہاں!۔
    ہرقل: اس جنگ کا کیا نتیجہ نکلا؟
    ابوسفیان: جنگ میں کبھی ہمارا پلڑا بھاری ہوجاتا اور کبھی اُن کا۔
    ہرقل: اُس کی تعلیمات کیا ہیں؟
    ابوسفیان: وہ کہتے ہیں: اللہ وحدہٗ کی عبادت کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اپنے آباؤاجداد کی (ناحق باتوں )کو چھوڑو اور وہ ہمیں نماز، سچ بولنے، پاکبازی اور صلۂ رحمی کی تعلیم دیتے ہیں۔

    قیصرِ روم نے اپنے ترجمان کے ذریعے کہا کہ میرے سوالات کے جواب میں؛
    تم نے بتایا: وہ عالی نسب ہیں اور اللہ تعالیٰ عالی نسب لوگوں ہی کو اپنی قوم میں رسول بنا کر بھیجتا ہے۔
    تم نے بتایا: ہمارے خاندان میں اِن سے پہلے نبوت کا دعویٰ کسی نے نہیں کیا، اگر ایسا ہوا ہوتا تو میں کہتا کہ یہ شخص ماضی کی روایت کی پیروی کر رہا ہے۔
    تم نے بتایا: اِس سے پہلے تمہارے خاندان میں کوئی بادشاہ نہیں گزرا، اگر تمہارا جواب اِثبات میں ہوتا تو میں سوچتا: یہ شخص اپنی گم گشتہ بادشاہت کا طلب گار ہے۔
    تم نے بتایا: دعوی ٔ نبوت سے پہلے اِس شخص پر جھوٹ کی کوئی تہمت بھی نہیں لگی (واضح رہے کہ تہمت اُس الزام کو کہتے ہیں جو ثابت نہ ہوا ہو)، اگر تمہارا جواب اثبات میں ہوتا تو میں سوچتا: جو شخص لوگوں پر جھوٹ بول سکتا ہے وہ اللہ پر بھی بول سکتا ہے۔
    تم نے یہ بھی بتایا کہ اُس کے پیروکار اَشرافیہ طبقے کے لوگ نہیں ہیں بلکہ زیریں طبقات کے لوگ ہیں اور ابتدا میں رسولوں کے پیروکار ہمیشہ پِسے ہوئے طبقات کے لوگ رہے ہیں۔
    تم نے یہ بھی بتایا کہ اُس کے پیروکار بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور دعوتِ نبوت کا سفر اِسی طرح آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔
    تم نے یہ بھی بتایا کہ جو اُس کا ہوجائے، پھر وہ اُس کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا، ایمان کی حقیقت بھی یہی ہے کہ جب دل میں گھر کر جائے تو وہ مٹائے نہیں مٹتا۔
    تم نے اُن کی تعلیمات بھی بتائیں، اگر تمہارا بیان سچ ہے تو ایک وقت آئے گا کہ وہ میرے قدموں کی جگہ کے بھی مالک ہوجائیں گے، (صحیح البخاری: 7،تلخیص کے ساتھ)‘‘۔

    ابوسفیان مکے کا سردار اور غزوۂ اُحد میں کفارِ مکہ کے لشکر کا سپہ سالار تھا، لیکن دشمنی کے باوجود اُس نے قیصرِ روم کے سوالات کے جوابات میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں غلط بیانی نہیں کی، کیونکہ اُسے اپنے منصب کا پاس تھا۔

    اس موضوع کی طرف میرا ذہن اس لیے متوجہ ہوا کہ جنابِ مصطفی کمال اور گورنر عشرت العباد کے تنازعے پر ایک معروف دانش ور نے کہا: شرافت، وضع داری اور اَقدار کے اعتبار سے ہمارا معاشرہ زوال پذیر ہے، حالانکہ انہوں نے کہا: میں اپنے مخالف سے ٹکرا جانے والا آدمی ہوں، گالیوں کے بارے میں خود کفیل ہوں اور گالیوں کی نئی لغت بھی ایجاد کرسکتا ہوں، لیکن کبھی کسی سے تعلق رہا ہو تو حیا آتی ہے۔ پس ہم مجموعی حیثیت سے حیا باختہ قوم بنتے جارہے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔

    نوٹ: روزنامہ دنیا میں چھپنے والے میرے کالموں کی پہلی جلد کا دوسرا ایڈیشن، دوسری اور تیسری جلد کا پہلا ایڈیشن چھپ چکا ہے اور ’’ضیاء القرآن پبلی کیشنز، اردو بازار لاہوراور کراچی‘‘سے دستیاب ہے ۔

  • اخلاص نیت، راستیِ فکر وعمل –  مفتی منیب الرحمن

    اخلاص نیت، راستیِ فکر وعمل – مفتی منیب الرحمن

    مفتی منیب الرحمن انسان کی کامیابی کا مدار تین چیزوں پر ہے: اخلاصِ نیت، جُہد و عمل اور مقاصد و اہداف کا خیر پر مبنی ہونا، یعنی راستیِ فکر و عمل۔ اگر نیت میں فتور ہے تو ساری کاوش عبث ہے۔

    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اعمال پر جزاء کا مدار (حُسنِ) نیت پر ہے اور آدمی کو اپنی نیت ہی کا پھل ملے گا، سو جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کے لیے ہے، تو اس کی ہجرت (یا ترکِ وطن) عند اللہ اسی کے لیے محسوب ہوگی، (صحیح البخاری:1)‘‘۔
    آپ ﷺ نے فرمایا: ’’حقیقی مہاجر وہ ہے جس نے اللہ کے ممنوعات کو ترک کر دیا ہو، (مسند احمد:6814)‘‘۔
    پس اصل انقلاب ذہنی اور فکری انقلاب ہے، ورنہ اخلاصِ نیت، مقصد کی درستی اور فکر کی راستی کے بغیر کوئی تبدیلی انقلاب نہیں ہے، بلکہ فساد ہے اور فساد کے بطن سے فساد ہی جنم لیتا ہے۔
    رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تمہارے دلوں یعنی نیتوں اور تمہارے اعمال (کی راستی)کو دیکھتا ہے، (صحیح مسلم:2564)‘‘۔
    قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فکر کی کجی کو زیغ سے تعبیر فرمایا ہے اور اہلِ ایمان کو یہ دعا مانگنے کی تعلیم دی:
    ’’اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں میں کجی نہ ڈال اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بے شک تو بہت عطا فرمانے والا ہے، (آل عمران:8)‘‘۔
    قومِ موسیٰ کی اذیت رسانی پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    ’’جب انہوں نے کَج روی اختیار کی ،تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے دل ٹیڑھے کردیے اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا، (الصف:5)‘‘۔
    اس سے معلوم ہوا کہ کبھی انسان کی بدنیتی اُس کے اعمال پر اثر انداز ہوتی ہے اور کبھی انسان کے برے اعمال اُس کے دل کو داغ دار کر دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    ’’سو جن کے دلوں میں کجی ہے، وہ فتنہ جوئی کے لیے آیاتِ متشابہات اور اُن کی (باطل )تاویلات کے درپے رہتے ہیں، (آل عمران:7)‘‘۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ہرگز نہیں!بلکہ اُن کے (برے) کرتوتوں نے اُن کے دلوں کو زنگ آلود کردیا ہے، (المطففین:14)‘‘۔

    ہمارے ہاں ایک ہنگامہ ہاؤہو جاری ہے، ہر سو شور بپا ہے، سفر جاری ہے مگر سَمت اور منزل کا پتا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
    (1): ’’کیا وہ شخص جو منہ کے بل اوندھا چلا جا رہا ہے، وہ زیادہ راست رو ہے یا وہ شخص جو راہِ راست پر درست (سمت میں) جا رہا ہے، (الملک:22)‘‘۔
    (2):’’بے شک تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے اُسے جو راہِ (راست) سے بھٹکا ہوا ہے اور وہی ان کو بھی بہتر جانتا ہے جو ہدایت یافتہ ہیں، (النحل:87)‘‘۔
    اسلام کی تعلیمات یہ ہیں کہ راست رو لوگوں کو اپنا مُقتدیٰ اور رہنما بنانا چاہیے، جو بھٹکے ہوؤں کو رہنما بنائے گا، وہ بھٹکتا ہی رہے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    ’’جو کوئی راہِ حق پر چلائے ،کیاوہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جسے خود (راہِ)راست سجھائی ہی نہیں دیتا، سوائے اس کے کہ اسے راہِ (راست) بتادیا جائے، سو تمہاری عقل کو کیا ہوگیا ہے، تم کیسے (ناروا) فیصلے کرتے ہو، (یونس:35)‘‘۔

    بعض اوقات پِندارِنفس اور عُجب و اِستِکبار ہدایت کے لیے حجاب بن جاتا ہے۔ یہ برخود راستی ( Self Righteousness) کی نفسانی بیماری ہوتی ہے، جو بعض اوقات مُزمِن (Chronic) مرض کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور لا علاج ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    ’’اور جب اسے کہاجاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو ،تو پندارِ نفس اسے گناہ پر اکساتا ہے ،(بقرہ:206)‘‘۔
    اور فرمایا:
    ’’پس اپنی پارسائی نہ جتائو، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، (النجم:32)‘‘۔
    برخود راستی کی اس نفسانی بیماری کا نقصان یہ ہے کہ انسان اصلاح اور خیر کی کسی آواز پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور کسی مخلصانہ مشورے کو سننے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، بلکہ اُسے اپنی انا کی توہین سمجھتا ہے اور اُس کے اَڑیَل پَن (Stubbornness) میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، اِسی کو عربی میں ’’عِنَاد‘‘ کہتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں اِسے ان کلمات میں بیان فرمایا:
    ’’اُن کے دلوں میں بیماری ہے ،سو اللہ نے (اس کے وبال کے طور پر )ان کے مرض میں اضافہ فرمادیا، (البقرہ: 10)‘‘۔

    بعض اوقات ایک عمل ظاہری صورت میں بہت اچھا ہے، لیکن اس کے لیے پس پردہ جو نیت کارفرما ہے، وہ بری ہے تو سارا عمل برباد ہوجاتا ہے۔ مسجد بنانے سے زیادہ نیک کام اور کیا ہوسکتا ہے، لیکن منافقینِ مدینہ نے سازشوں کا گڑھ بنانے کے لیے یعنی باطل مقصد کے لیے مسجد بنائی اور رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ آپ اس کا افتتاح فرما دیں تاکہ برکت ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول مکرم ﷺ کو اُن کے باطل عزائم سے مطلع فرمایا اور اس مسجد کو جلانے کا حکم دیا، فرمایا:
    ’’اور وہ لوگ جنہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے، اہل ایمان میں تَفْرِقَہ پیدا کرنے اور جو پہلے ہی اللہ اور اس کے رسول سے مصروفِ جنگ ہیں، اُن کے لیے (سازشوں کا) گڑھ بنانے کی خاطر مسجد بنائی، وہ (یقین دلانے کے لیے) ضرور بالضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہمارا ارادہ نیکی کا تھا اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقینا جھوٹے ہیں، آپ اُس (مسجد) میں بالکل قیام نہ فرمائیں، البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن ہی سے تقوے پر رکھی گئی ہے، اِس بات کی سب سے زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس میں قیام فرمائیں، (کیونکہ) اُس میں ایسے مردانِ (باوفا) ہیں جو نہایت پاکیزگی کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ طہارت شِعار لوگوں کو پسند فرماتا ہے، جس شخص نے اپنی عمارت (مسجد) کی بنیاد اللہ کے تقوے اور (اُس کی) رِضا پر رکھی ہے، آیا وہ بہتر ہے یا وہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایسے گڑھے کے کنارے پر رکھی ہے جو گرا چاہتا ہے، سو وہ اُس سمیت جہنم کی آگ میں گر پڑا اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا، (التوبہ:107-110)‘‘۔

    وطن عزیز کو بھی کئی مسائل کا سامنا ہے، قیادت کے منصب پر فائز سب عناصر کو برخود راستی کا نفسانی مرض لاحق ہے، اسی کو عُجبِ نفس اور انا پرستی کہتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا بصیرت اور سَمت سے عاری نوآموز اور ناپختہ عناصر کے تجربات اور نمود کی آماجگاہ بن چکا ہے، اس کے نتیجے میں معاشرے میں مناصب کا احترام باقی رہا نہ شخصیات کا، خواہ وہ کتنے ہی صاحبِ کردار اور صاحبِ علم و فضل کیوں نہ ہوں۔

    ہمارے ہاں آئین و قانون کی پاس داری کا حلف تو اٹھایا جاتا ہے، لیکن اس حلف کی پاس داری نہیں کی جاتی۔ کرپشن کی مذمت تو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کی جاتی ہے، لیکن اس کے سدِّباب کے لیے جامع قانون سازی نہیں کی جاتی، جو سب پر یکساں طور پر (Accross the Board) نافذ ہو اور قانون میں جو چور دروازے رکھے جاتے ہیں، انہیں بند کیا جاسکے۔ قانون پارلیمنٹ کی توثیق سے پاس ہوتا ہے، لیکن سارے معاملات پارلیمنٹ سے ماورا طے پاتے ہیں۔ آئین میں ہیئتِ حاکمہ (Establishment) کے ہر ستون کی حدود متعین ہیں، لیکن یہ محض ’’صحیفۂ دستور‘‘ کے صفحات کی زینت کے لیے ہیں، نظام میں برتنے کے لیے نہیں ہیں۔ لہٰذا ان تضادات نے ہمیں اپنوں اور غیروں کی نظر میں بےتوقیر کر دیا ہے۔ سرکاری اراضی میں تجاوُز (Encroachment) تو ہمیشہ سے ہماراطرۂ امتیاز رہا ہے، مگر اداروں کے دائرہ اختیار میں تجاوز کی روایت بھی اتنی ہی قدیم ہے۔

    نیتوں کا فیصلہ تو آخرت میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہوگا، لیکن ناقابل تردید قرائن و شواہد نیت کی چغلی ضرور کھاتے ہیں۔ ہم اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو ملک و قوم کے مفاد پر ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے ماسوا سب کا احتساب چاہتے ہیں، جیسے ہم ہی پاک باز وپاک دامن ہیں، باقی سب چور اُچَکّے، لٹیرے اور اُٹھائی گیر ہیں، یہی ہماری سیاست اور یہی ہمارا قومی شعار ہے۔

    ابن شماسہ بیان کرتے ہیں: حضرت عمرو بن عاص اپنے مرضِ وفات میں تھے کہ ہم اُن کے پاس حاضر ہوئے، وہ دیر تک روتے رہے اور کہا: جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی رغبت پیدا کی، تو میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا: میں نے عرض کی: اپنا دستِ مبارک بڑھائیے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں، آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھایا، تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔آپ ﷺ نے فرمایا: عمرو! کیا ہوا؟، وہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کی: میں قبولِ اسلام کے لیے شرط رکھنا چاہتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: بولو! کیا شرط ہے؟، انہوں نے عرض کی: مجھے (اپنے ماضی پر) بخشش کی ضمانت دی جائے، آپ ﷺ نے فرمایا: عمرو! تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام ماضی کے تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت پچھلے گناہوں کو مٹادیتی ہے اور حجِ (مقبول) پچھلے گناہوں کو مٹا دیتا ہے، (صحیح ابن خزیمہ: 2515)‘۔

    صحابۂ کرام اخلاصِ نیت اور راستیِ فکر و عمل کے آئینہ دار تھے، اس لیے وہ رسول اللہ ﷺ کی زبانِ مبارک سے جو بات سنتے، وہ عین الیقین کے درجے میں اُن کے دل میں جگہ پالیتی اور اُن کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوجاتا، وہ ہماری طرح تشکیک واوہام میں مبتلا نہیں ہوتے تھے۔حضرت حنظلہ تمیمی اُسیدی بیان کرتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر تھے، پس آپ نے ہمارے سامنے جنت اور جہنم کا ذکر فرمایا تو ہمیں ایسا لگا کہ جنت اور جہنم ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔ میں وہاں سے اٹھ کر اپنے بیوی بچوں کے پاس گیا اور اُن کے ساتھ ہنسی خوشی میں مشغول ہوگیا ۔پھر اچانک مجھے حضورﷺ کی مجلس کا منظر یاد آیا، میں فوراً نکلا اور حضرت ابوبکر سے ملا۔ میں نے (اپنی کیفیت بیان کر کے) اُن سے عرض کی: میں تو منافق ہوگیا، حضرت ابوبکر نے فرمایا: یہ کیفیت تو ہم پر بھی طاری ہوجاتی ہے۔ وہاں سے حضرت حنظلہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور صورتِ حال بیان کی (یعنی انہیں اس پر اضطراب تھا کہ بارگاہِ نبوت کی کیفیات مستقل کیوں طاری نہیں رہتیں ؟)، رسول اللہ ﷺ نے (انہیں تسلی دیتے ہوئے) فرمایا:حنظلہ ! جو کیفیت تم پر میری مجلس میں طاری ہوتی ہے، اگر یہ مسلسل رہے تو (تمہارا مقام یہ ہوجائے کہ) فرشتے تمہارے بچھونوں پر اور تمہاری راہوں میں تم سے مصافحہ کرنے کے لیے حاضر رہیں، اے حنظلہ!وقت وقت کی بات ہوتی ہے، (سنن ابن ماجہ:4239)‘‘۔

    پس اخلاصِ نیت اور صفائے قلب اِسے کہتے ہیں کہ مؤمن کے دل میں صدق و صَفا اور نمود و ریاجمع نہیں ہوتے اور اِسی سے فکر و عمل کی راستی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔

  • اہل السنۃ والجماعۃ کون؟ – مفتی منیب الرحمن

    اہل السنۃ والجماعۃ کون؟ – مفتی منیب الرحمن

    مفتی منیب الرحمن ’’اَھلُ السُّنَّـۃ والجماعۃ کون؟‘‘ کے عنوان سے روزنامہ دنیا کے ادارتی صفحات پر یکم اکتوبر 2016ء کو میرا کالم چھپا۔ یہ کالم بعد ازاں دلیل پر بھی شائع ہوا. اس پر دلیل پر حافظ یوسف سراج صاحب کا بہ اندازِ استہزاء ردِعمل پڑھ کر حیرت ہوئی، یہ کسی صاحب علم کا انداز نہیں ہوتا، بہرحال یہ شِعار اُن کومبارک ہو، علامہ اقبال نے کہا ہے:
    اے اہلِ نظر! ذوقِ نظر خوب ہے، لیکن
    جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا

    میں نے گروزنی کانفرنس کے بارے میں سنا تو اُس وقت تک اس پر کچھ نہیں لکھا، جب تک کہ مجھے ثقہ ذرائع سے اس کا متن دستیاب نہیں ہوا، میرا مزاج اندھیرے میں تیر چلانا نہیں ہے۔ یہ آرٹیکل میں نے کسی مسلکی جریدے میں نہیں لکھا، بلکہ ایک مؤقّر قومی روزنامے میں لکھا ہے اور اس کا مقصد اہلِ علم اور خاص طور پر اپنے ملک کے دینی طبقات کو حالاتِ حاضرہ کے بارے میں آگہی دینا تھا۔ میں نے نہایت دیانت داری سے یہ بھی لکھا کہ یقینا شام کے حالات کے تناظر میں اِسے روس اور ایران کی آشیرباد بھی حاصل ہوگی اور اہلِ تشیُّع کی ویب سائٹس نے اس کی خوب تشہیر بھی کی، لیکن چیچنیا کی اِس پیش رفت کا اصل مُحَرِّک اُن کے اپنے داخلی مسائل ہیں، کیونکہ وہاں عسکریت پسند یا خارجی تکفیری تحریکیں زیرِ زمین موجود ہیں۔ اس کانفرنس میں پاکستان کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا کہ اسے یہاں کے مسلکی خلافیات کا شاخسانہ قرار دیا جائے، بلکہ اس میں شیخ الازہر سمیت عالَمِ عرب کے نمائندے شامل تھے۔ حافظ صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ چند سال پہلے الجامعۃ الازہر میں
    [pullquote]’’التوَسُّط بینَ الْغُلُوِّ وَالتَّطَرُّفْ، تحتَ فِکرِ امام ابی الحسن الاشعری‘‘[/pullquote]

    کے عنوان سے ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوچکی ہے، سو فسادی عناصر نے عالمی سطح پر امتِ مسلمہ کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ سعودی علماء نے اس کانفرنس کا نوٹس لیا اور انہیں اپنی پوزیشن کی وضاحت کرنی پڑی، اگر یہ مسئلہ ایک مزاحیہ کالم کی مار ہوتا تو یقینا وہ آپ کی مدد لیتے اور مورچہ فتح کر لیتے، لیکن ناگواری کے باوجود بعض حقائق کا سامنا کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ میں نے اُن کا مؤقف بھی بیان کیا اور اُس پر ڈاکٹر عبداللطیف سعید فُودہ نے جو وضاحتی بیان جاری کیا، اُسے بھی بیان کر دیا ہے۔ عام قارئین کی آگہی کے لیے میں نے چند اصطلاحات کی وضاحت کی اور اُس میں، میں نے اپنی سوچ شامل نہیں کی۔ حافظ صاحب نے یہ تاثر دیا کہ جیسے کسی کو’’اہلُ السنّہ والجماعہ‘‘ میں داخل یا خارج کرنے کے لیے میرے ایما پر یہ کانفرنس منعقد ہوئی ہو۔

    المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سوچنے کا انداز محدود ہے اور ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ پتھر ہماری طرف ہی پھینکا گیا ہے۔ حضورِ والا! یہ مسئلہ عالَمی فورم پر اٹھایا گیا ہے اور اس کا تناظر بھی عالَمی ہے اور خاص طور پر شام اور خود چیچنیا کے حالات کے زیرِ اثر ہے۔ داعش تو بہت پہلے ابوبکر البغدادی کی قیادت میں قائم ہوچکی تھی، لیکن کافی عرصے سے یہ زیرِ زمین چلی آ رہی تھی۔ جب اُس نے ایک خطے پر قبضہ کر کے اپنا اقتدار قائم کیا اور اُن کا فساد کھل کر دنیا کے سامنے آیا، تو ناگزیر طور پر سعودی عرب کے علماء کو انہیں خارجی اور تکفیری قرار دے کر ان سے برات کا اعلان کرنا پڑا، کیونکہ اب یہ بلا اُن کی سرحدوں کے قریب پہنچ چکی ہے اور اس کی تپش انہیں قریب تر محسوس ہو رہی ہے۔ یہاں کے اہل حدیث علماء کی بھی خروج اور بغاوت پر کتابیں سامنے آچکی ہیں اور توحید کی اقسام (توحیدِ ربوبیت ،توحیدِ الوہیت اور توحید ِاسماء و صفات) پر توحیدِ حاکمیت کا اضافہ بھی سلفی مکتبِ فکر کے لیے ایک چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔

    میرا کالم پڑھ کر وفاق المدارس السلفیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا یاسین ظفر نے بہ حیثیت مجموعی اس کی تحسین کی اور کہا کہ ہمارے حوالے سے یہ جملہ ڈال دیا ہوتا: ’’آج کل کے سلفی، تکفیری اور خارجی نظریات سے برملا برات کا اعلان کرتے ہیں‘‘۔ مسلکی خلافیات اور کلامی مسائل میں نے اختراع نہیں کیے، یہ پہلے سے چلے آرہے ہیں اور نہ ہی میں نے مذکورہ کالم میں براہِ راست انہیں اپنا موضوع بنایا ہے۔ میرا مقصد تو یہ تھا کہ ہمارے اہلِ علم کو عالَمی سطح پر ان حرکیات کے بارے میں آگہی حاصل ہو۔ البتہ مجھ سے یہ ریمارکس دینے کا’’جرم‘‘ ضرور سرزد ہوا ہے کہ سعودی عرب کے علماء کو امت کی مشکلات کے عالمی تناظر کا ادراک کرتے ہوئے توسُّع اختیار کرنا چاہیے اور امتِ مسلمہ کے تمام مکاتبِ فکر کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر مُثبت رابطے کے لیے کوئی حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ یہ دورِ حاضر کی ناگزیر ضرورت ہے۔

    (مفتی منیب الرحمن، چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان، صدر تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان، سیکرٹری جنرل اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان، مہتمم دارالعلوم نعیمیہ اہلسنت پاکستان)

  • ’’اَہْلُ السُّنَّۃ وَالْجَمَاعَۃ‘‘ کون؟مفتی منیب الرحمن

    ’’اَہْلُ السُّنَّۃ وَالْجَمَاعَۃ‘‘ کون؟مفتی منیب الرحمن

    mufti-munib-ur-rahman

    25تا27اگست 2016ء کو ریاستِ چیچنیا کے دارالحکومت ”گروزنی‘‘میں علمائے اسلام کی ایک عالمی کانفرنس”اَلْمُؤْتَمَرُ الْعَالَمِی لِعُلَمَائِ الْمُسْلِمِیْن‘‘ منعقد ہوئی۔اس کانفرنس کاموضوع تھا:”مَنْ ھُمْ اَھْلُ السُّنَّۃ وَالْجَمَاعَۃ ؟‘‘،یعنی ”اَہلُ السُّنَّۃ والجماعۃکون ہیں؟‘‘،بالفاظِ دیگر اہلُ السُّنَّۃ والجماعۃ کی متفقہ تعریف مقصود تھی۔اس کانفرنس میں شیخ الازہر ڈاکٹر محمد احمد الطیب ، جامعہ الازہر کے ریکٹر شیخ ابراہیم،مفتی اعظم چیچنیا شوکی الیَم،ڈاکٹر شیخ سعید عبداللطیف فُودہ (اردن)، شیخ الحبیب علی الجُفری (یمن)، شیخ ابوبکر (کیرالہ،انڈیا) اور دیگر علمائے کِبار شریک تھے۔چیچنیا کے صدر رمضان قدیروف نے اس کانفرنس کی صدارت کی ۔ کانفرنس کی قرارداد اور اعلامیہ حسبِ ذیل ہے :

    اہل السنۃ والجماعۃ اعتقادی یعنی کلامی مسائل میں اَشاعِرہ (جو امام ابوالحسن الاشعری کی طرف منسوب ہیں)،ماتُریدیہ (جو امام ابومنصور ماتریدی کی طرف منسوب ہیں)اور ”اَھْلُ الْحَدِیْثِ الْمُفَوِّضَہ‘‘شامل ہیں (یعنی وہ اہلِ حدیث جو اعتقادی مسائل میں صفاتِ الٰہی سے متعلق آیاتِ متشابہات پر ایمان لاتے ہیں اور اُن کے مرادی یا حقیقی معنی کو اللہ تعالیٰ کے علم کی طرف تفویض کردیتے ہیں،یعنی وہ ان الفاظ کے ظاہری معنی مراد نہیں لیتے ۔ان آیاتِ متشابہات میں اللہ تعالیٰ کے لیے ”یَدْ،وَجْہ،ساق، نفس، عَین اور جہت وغیرہا‘‘ کلمات آئے ہیں ۔پس جن اہلِ حدیث نے اِن کلمات کو اعضاء وجوارح (Organs)کے معنی میں لیا ہے، اس کانفرنس کی قرارداد کی رُو سے انہیں ”اہلُ السُّنَّۃ والجماعۃ‘‘ سے خارج قرار دیا گیا ہے، اس فکر کے حاملین کو علمائے علم الکلام نے ”مُجَسِّمین‘‘ سے تعبیر کیا ہے)۔

    ان میں چار فقہی مذاہب کے ماننے والے حنفیہ ،مالکیہ، شافعیہ اور حنابلَہ شامل ہیںاور ان کے علاوہ سید الطائفہ امام جُنید اورعلم ،اَخلاق اور تزکیہ میں اُن کے طریقِ اصلاح کے حامل ائمّہ ھُدیٰ شامل ہیں۔یہ علمی مَنہَج اُن علوم کا احترام کرتا ہے جو، وحیِ ربّانی کو سمجھنے کے لیے خادم کا درجہ رکھتے ہیں اور نفس وفکر کی اصلاح ،دین کو تحریف اور بے مقصد باتوں سے محفوظ رکھنے اور اموال اور آبرو کی حفاظت اور نظامِ اخلاق کی حفاظت کرنے میں ،اس دین کی اَقدار اور مقاصد کو واضح کرتے ہیں۔

    قرآنِ کریم کی حدود ہیںاور یہ تمام دینی علوم اس معنی میں بطورِ خادم اُس کا احاطہ کیے ہوئے ہیںکہ جو اُس کے معنی ومراد کو سمجھنے میں مددگار ہوتے ہیں اورحیات ،تمدُّن ،آداب واخلاق ،رحمت وراحت ،ایمان وعرفان اور دنیا میں امن وسلامتی کے فروغ سے متعلق قرآن میں ودیعت کیے ہوئے اِن علوم کا استخراج (Deduction) کرتے ہیں اور اِس کے سبب اقوامِ عالَم ،مختلف طرزِ بودوباش رکھنے والوں اورمختلف تہذیب وتمدُّن کے حاملین پر یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ دین تمام جہانوں کے لیے رحمت ہے اور دنیا اور آخرت کی سعادت کا باعث ہے ۔

    اَھْلُ السنّۃ والجماعۃ کامَنْہَج تمام مَناہِجِ اسلام میں سے زیادہ جامع ،زیادہ ثِقہ ،زیادہ مضبوط ، علمی کُتب اور تدریس کے اعتبار سے شرعِ شریف کے مقاصدکے ادراک اور عقلِ سلیم کے لیے صحیح تعبیر کا حامل ہے اور تمام علوم اورحیاتِ انسانی کے تمام شعبوں میں بہترین ربط اور حسنِ تعلق کا آئینہ دار ہے۔اَہل السّنّہ والجماعہ کی علمی درس گاہوں نے صدیوں سے ہزاروں عُلَماء اورفُضَلاء پیدا کیے ہیں جو سائبیریا سے نائجیریا تک اور طنجہ(جبرالٹر کے بالمقابل مراکش کاساحلی شہر) سے جکارتا تک پھیلے ہوئے ہیں اور اِفتاء، قَضاء، تدریس اورخطابت کے شعبوں میں اعلیٰ ترین مناصب پر فائز رہے ہیں ۔اِن کی برکت سے انسانی معاشرت کو امان ملی ،فتنوں اور جنگوں کی آگ بجھی ،ممالک میں قرار وسکون آیا اور علم وعلوم کی اشاعت ہوئی۔

    اَھل السنّۃ والجماعۃ اپنی پوری تاریخ میں اسلام کی صحیح تعبیر کر کے انحرافی فکر سے اِس کی حفاظت کرتے رہے ہیں ،وہ مختلف فرقوں کے نظریات اور مفاہیم کا جائزہ لیتے ہیں اور اُن کے لیے علم، نقد وجرح اورثبوت کے معیارات مقرر کرتے ہیں ،اِلحاد وانحراف کی کوششوں کا سدِّ باب کرتے ہیں ،تحقیق وتنقیح کے شِعار کے ذریعے خطا وصواب میں امتیاز کرنے کے لیے علوم کی ترویج کرتے ہیں ۔انہی کے منہَجِ علمی کے فروغ کے باعث انتہا پسندی کا سدِّ باب ہوااور امتِ محمدیہ کے تمدُّن کو فروغ ملا ۔اسی طبقے میں اسلام کے وہ عَبقری علماء پیدا ہوئے، جنہوںنے الجبرا،ریاضی، جیومیٹری، لوگارتھم، انجینئرنگ ،طب و جراحت، فارمیسی، حیاتیات، ارضیات، کیمیا، طبیعیات، فلکیات ،صوتیات وبصریات اور دیگر علوم میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ۔
    انحرافی فکر کا فتنہ ہر دور میں سر اٹھاتا رہا ہے ،یہ لوگ ہردور میں اپنی فکر کو قرآن وسنت کی طرف منسوب کرکے صحیح مَنہَجِ علمی کو مٹانے کی کوشش کرتے رہے ہیں،ان کی وجہ سے عام لوگوں کا امن وسکون غارت ہوجاتا ہے ،ایسی ہی گمراہ فکر کے حاملین قدیم دور کے خوارج تھے جن کاتسلسل ہمارے عہد کے وہ خوارج ہیں جو اپنے آپ کو سَلَفیت کی طرف منسوب کرتے ہیں اور مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ۔ داعش اور اُن کی انتہا پسندانہ فکر کی حامل ساری تنظیموں میں یہ چیز بھی مشترک ہے کہ وہ دین کی مُسَلَّمہ اور مُتفقہ تعلیمات میں تحریف کرتے ہیں ، انتہا پسند ہیں ،جہالت پر مبنی باطل تاویلات کو دین سے منسوب کرتے ہیں ،اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں فکری انتشار پیدا ہوتا ہے۔ اِن باطل تاویلات کے بَطن سے تکفیری اور تباہ کُن فکر،خوں ریزی اور تخریب وفساد جنم لیتا ہے اور اسلام کا نام بدنام ہوتا ہے۔اِن کی برپاکردہ جنگوںاور حق سے تجاوز کا تقاضا ہے کہ دینِ حنیف کے حاملین برملا اِن سے برائت کا اعلان کریں اور یہ رسول اللہﷺ کی اس حدیث کا مصداق ہوگا:”بعد میں آنے والوں میں سے اس دین کے حامل وہ انتہائی منصف مزاج علماء ہوں گے، جواِس دین کو انتہا پسندوں کی تحریف ، باطل پرستوں کی بے اصل باتوں اور جاہلوں کی تاویلوں سے پاک کریں گے،(شرح مشکل الآثار:3884) ‘‘۔

    اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ کانفرنس ایسا سنگِ میل ثابت ہوگی جو اِلحادی فکر کی اصلاح کرے گی اور انتہا پسندوں کے باطل اجتہاد ات وتاویلات کے ذریعے اھل السّنّۃ والجماعۃ کے لیے جو خطرات پیدا ہوچکے ہیں ،اُن سے نجات کا باعث ہوگی۔اس کا احسن طریقہ یہ ہے کہ ہماری بڑی درس گاہوں میں اس اِنحرافی فکر کو رد کرنے کے لیے مضبوط علمی استدلال کا طریقہ اختیار کیا جائے اورتکفیر اور انتہاپسندی سے نجات پانے کے لیے امن وسلامتی کے اسلامی پیغام کو پورے عالَمِ انسانیت کے لیے عام کیا جائے تاکہ ہمارے ممالک سب کے سب ہدایت کے سرچشمے اور مَنارۂ نور بنیں ۔

    یہ تفصیلات میں نے سہل انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ امتِ مسلمہ میں عالَمی سطح پر جو اضطراب ہے ، تمام مذہبی طبقات کو اس کا صحیح ادراک ہوجائے ۔میری دانست میں اِس کی ضرورت، دورِ حاضر میں بعض لوگوں کے خود وضع کیے ہوئے جہادی اور تکفیری کلچر کے نتیجے میں، محسوس کی گئی ہے ،کیونکہ اس تخریب وفساد کا نشانہ سب سے زیادہ خود مسلم ممالک بن رہے ہیں ۔اس کانفرنس کے اعلامیے سے روس اور ایران کی دلچسپی شام کے حالات کے تناظر میں واضح ہے اور چیچنیا میں بھی کسی نہ کسی سطح پر جہادی فکر موجود ہے،اگرچہ جوہر دودائیف کے زوال کے بعد اسے دبادیا گیا ہے۔حال ہی میں ایک امریکی پروفیسر عمر نے بتایا کہ خلیفہ کے لیے قرشی ہونے کی شرط کے سبب داعش کے لوگ افغان طالبان کے امیر کی بیعت سے کنارہ کش ہوگئے ہیں۔

    سعودی عرب کے علماء جو ایک وقت میں اس تصورِ جہاد کے حامی تھے اور وہاں سے اِن گروہوں کو اعانت بھی مل رہی تھی ،اب وہ برملا اِس سے برائت کا اعلان کر رہے ہیں اوراس طبقے کوتکفیری اور خارجی قرار دے رہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ گروزنی کی اس عالمی کانفرنس کو اختلاف کی خلیج کو وسیع کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے بلکہ سعودی عرب سمیت تمام علمائے امت کو اِس سے استفادہ کرتے ہوئے دین کے مُسلَّمہ اور مُشتَرکہ اصولوں پر اجماع کے قیام کے لیے استعمال کیا جائے۔سعودی عرب جو اپنے دینی نظریات کے فروغ کے لیے بے پناہ سرمایہ خرچ کرتا تھا،اب وہ خود اِن فسادیوں کے نشانے پر ہے ۔لہٰذا انہیں اب یہ مصارف دین اور امت کی وحدت کے لیے استعمال کرنے چاہییں اور امت میں تفریق کے اسباب کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ حقیقی معنی میں اتحادِ امت کا خواب اپنی تعبیر کو پاسکے ۔

  • جناب شاہ زیب خانزادہ کے نام – مفتی منیب الرحمن

    جناب شاہ زیب خانزادہ کے نام – مفتی منیب الرحمن

    %d9%85%d9%81%d8%aa%db%8c-%d9%85%d9%86%db%8c%d8%a8-%d8%a7%d9%84%d8%b1%d8%ad%d9%85%d9%86 میں بارہا لکھتا رہا ہوں کہ پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز میں جو اینکر پرسن رونق افروز ہیں، وہ بزعم خویش دانائے کل ہوتے ہیں اور جس کی چاہیں پگڑی اتاریں اور جسے چاہیں جوتے کی نوک پر رکھ لیں۔ بعض شعبے حساس ہوتے ہیں، جیسے مذہب، مگر وہ اپنے آپ کو مذہب کا مصلح اعظم سمجھتے ہیں اور اس شعبے میں بھی ٹانگ اڑانا اپنی دانش کی معراج سمجھتے ہیں۔ جناب شاہ زیب خانزادہ جیو نیوز پر پروگرام کرتے ہیں، جیو والے ان کے پروگرام کو اپنے اشتہار میں سپرہٹ قرار دیتے ہیں، لہذا وہ مذہب اور اہل مذہب کو بھی ہٹ (Hit) کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ دنیا میں ستاون مسلم ممالک ہیں، ان میں قمری مہینوں رمضان المبارک، عید الفطر اور عید الاضحی کےلیے جو بھی رئویت کا سرکاری نظام ہے، اس کے مطابق حکومتی اعلان آ جاتا ہے اور لوگ اس پر عمل کرتے ہیں۔ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے کہ جہاں ٹیلی ویژن چینلز آئے دن رئویت ہلال پر بحثیں شروع کر دیتے ہیں اور اسٹوڈیوز میں رونقین لگاتے ہیں، کیونکہ ہم ساری دنیا میں منفرد خصوصیات کی حامل قوم ہیں۔

    %d8%b4%d8%a7%db%81-%d8%b2%db%8c%d8%a8-%d8%ae%d8%a7%d9%86%d8%b2%d8%a7%d8%af%db%81-%d8%ac%db%8c%d9%88-%d9%86%db%8c%d9%88%d8%b2 2 ستمبر کی شب جناب شاہ زیب خانزادہ نے بڑی شد و مد کے ساتھ اپنا قیمتی وقت صرف کیا کہ مفتی منیب الرحمن نے محکمہ موسمیات کو چاند کے بارے میں اپنی پیش گوئی پبلک کرنے سے روک دیا ہے اور یہ سماں باندھا کہ گویا اس کے سبب سائنس اور علم کا راستہ روک دیا گیا ہے اور جَہل کی تاریکی کو مُسلّط کیا جارہا ہے۔ خانزادہ صاحب سے گزارش ہے کہ موجودہ دور میں چاند کی پیدائش یا امکانِ رؤیت ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جسے کوئی شخص دنیا والوں سے چھپا سکے یا پردہ ڈال دے۔ ہمارے ملک کی یونیورسٹیوں میں فلکیات (Astronomy) کے شعبے موجود ہیں، خلائی تحقیقاتی ادارہ سپارکو موجود ہے، پرائیویٹ ماہرین موجود ہیں، نیٹ پر Moonsighting.com پرکوئی بھی جائے تو اُسے ساری معلومات مل جاتی ہیں۔ مجھے ہر ماہ درجنوں ماہرین امکانِ رؤیت کے حوالے سے اپنی رپورٹیں بھیجتے ہیں۔ کراچی کے ایک دینی ادارے ’’جامعۃ الرشید‘‘ میں باقاعدہ شعبۂ فلکیات موجود ہے اور ہر قمری مہینے کے آغاز سے پہلے اور بعد اُن کی تفصیلی رپورٹ ایک روزنامہ اسلام میں چھپتی ہے، دعوتِ اسلامی العالمی کے مرکز فیضانِ مدینہ میں بھی شعبۂ توقیت اور فلکیات کام کر رہا ہے، اُن کی رپورٹیں بھی ہمیں دستیاب ہوتی ہیں، خلائی تحقیقاتی ادارہ سپارکو، یونیورسٹیوں کے فلکیات کے ماہرین اور آزاد ماہرین بھی ہمیں باقاعدگی سے رپورٹیں بھیجتے ہیں۔

    ہماری دینی جامعات میں تخصُّص فی الفقہ و الافتاء کے نصاب میں بھی علمِ توقیت و فلکیات کے بارے میں کورس کرائے جاتے ہیں۔ الغرض جناب شاہ زیب خانزادہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ صیغۂ راز میں ہو اور اُس پر کوئی پردہ ڈال کر لوگوں کی نظروں سے چھپا دے اور آپ اسٹوڈیوز میں اُس پر طوفان مچا دیں۔ الحمد للہ! ہم بھی اس دنیا میں رہتے ہیں اور جتنا جدید علم جناب شاہ زیب خانزادہ نے حاصل کر رکھا ہے، اتنا یا اُس سے کچھ کم اس ناچیز طالبِ علم نے بھی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم شیشے کے گھر یعنی اسٹوڈیو میں نہیں بیٹھتے، جہاں سے ہم جس پر چاہیں چاند ماری کریں، جس کی چاہیں عزت سے کھیلیں، سب کی خبر لیں لیکن خود کسی کو جواب دہ نہ ہوں۔ ہمارے ملک و قوم کی بدقسمتی ہے کہ آزاد میڈیا کے آنے کے بعد اب وطن عزیز میں کوئی بھی منصب یا کوئی بھی صاحب علم لائق توقیر نہیں رہا، حالانکہ مہذب و متمدن معاشروں میں اہل علم و دانش اور اہل تقوی و کردار پوری ملت کا مشترکہ اثاثہ سمجھے جاتے ہیں۔

    محکمۂ موسمیات کا مسئلہ یہ ہے کہ اُس کی اصل مہارت موسم کی پیش گوئی کے حوالے سے ہے، فلکیات سے اُن کا تعلق ضمنی ہے۔ وہ ایک سرکاری ادارہ ہے اور وہ جب حساس مواقع پر ٹیلی وژن چینل پر آ کر مسلسل پیش گوئی کرتے ہیں، تو لوگوں کا ایک ذہن بنتا ہے اور بعد میں فیصلہ اُس کے برعکس آئے تو لوگ کنفیوژن کا شکار ہوتے ہیں اور ایک سرکاری ادارہ ہونے کی وجہ سے بعض اوقات اُن کے پیچھے سرکار کے ایما کی بدگمانی بھی کی جا سکتی ہے۔ بعض اوقات موسم کے بارے میں اُن کی پیش گوئیوں کا آپ لوگ خود مذاق اڑاتے ہیں، اخبارات میں کارٹون چھاپتے ہیں، لہٰذا اُن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی پیش گوئی سے ہمیں مطلع کریں اور ایسا کرتے بھی ہیں۔ امکانِ رؤیت کے حوالے سے بعض چاند انتہائی حساس ہوتے ہیں اور اس کے بارے میں بعض صورتوں میں ماہرین بھی سو فیصد متفق نہیں ہوتے، جہاں امکان ففٹی ففٹی ہو، وہاں احتیاط بہتر ہے، اس سال عیدالفطر اور عیدالاضحی کے چاند کی پوزیشن یہی تھی۔

    ہمارا اجلاس تو اکثر محکمۂ موسمیات کے ہیڈ کوارٹر میٹ کمپلیکس کراچی ہی میں ہوتا ہے، آپ کو پریشانی اس وقت ہوتی کہ ہمارے فیصلے اور محکمۂ موسمیات کی رپورٹوں میں تضاد ہوتا۔ ہر چاند کے اعلان کے موقع پر میں محکمۂ موسمیات کی آفیشل رپورٹوں کا حوالہ دیتا ہوں اور اس سال بھی عیدالاضحی کے موقع پر حوالہ دیا کہ پاکستان بھر میں محکمۂ موسمیات کے مراکز سے بھی باقاعدہ (Officially) عدمِ رویت کی رپورٹ دی گئی، اس کے باوجود آپ کی پریشانی اور اضطراب ناقابلِ فہم ہے۔ بس صرف شور و غوغا برپا کرنا اور قوم کو انشار میں مبتلا کرنا، کیا یہی میڈیا کی معراج ہے اور یہی ریٹنگ حاصل کرنے کا حربہ ہے۔ خدارا رحم فرمائیں، جب آپ بار بار مذہب میں دخل دیتے ہیں اور لوگ احتجاج کرتے ہیں، تو پھر آپ ہی لوگ اہلِ مذہب پر عدمِ برداشت (Non Tolerant) کا فتویٰ لگاتے ہیں۔ بنیادی طور پر میٹرالوجسٹ فلکیات کے متخَصِّص (Specialised) نہیں ہوتے اور یہ کہنا کہ سو سال یا ہزار سال کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے، یہ بھی سب کو معلوم ہے۔

    جہاں تک علامہ جاوید احمد غامدی کے نظریات کا تعلق ہے، اُن سے ہم واقف ہیں اور وہ بھی ہمارے نظریات سے واقف ہیں اور دونوں فریق ایک دوسرے کے دلائل سے بھی واقف ہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ اِس ملک میں جو مسلمان پائے جاتے ہیں، ان کا ایک یا دو فیصد بھی علامہ غامدی کے مذہبی نظریات سے متفق نہیں ہے، اگرچہ ان کا لبرلزم اور آزاد خیالی آپ لوگوں کو بہت پسند ہے، مگر کیا اِس ملک کے اٹھانوے فیصد مسلمان خَس وخاشاک ہیں کہ آئے روز آپ اُن کا تمسخُر اڑائیں اور غامدی صاحب کو لے کر بیٹھ جائیں تاکہ وہ علماء کی تضحیک اور تجہیل (To consider ignorant) کریں۔ جیو ٹیلی ویژن میں چونکہ ان کے صاحبزادے جناب معاذ غامدی اعلی منصب پر فائز ہیں، اس لیے ان کا یکطرفہ طور پر پورا نقطہ نظر دیا جاتا ہے۔ تاہم میں اس حد تک علامہ جاوید احمد غامدی کا شکر گزار ہوں کہ وہ اپنے نظریاتی تفرد کے باوجود یہ بات ضرور کہتے ہیں کہ رئویتِ ہلال کے حوالے سے سرکاری اعلان ہی کو تسلیم کیا جائے۔

    ہم نے اس لیے میڈیا پر مختلف موضوعات پر اپنا مئوقف دینا چھوڑ دیا کہ ہمارے چند جملے صرف مطلع کے طور پر لے لیے جاتے ہیں اور اُس کے بعد بحرِ طویل میں پوری نظم علامہ جاوید غامدی کی نشر کی جاتی ہے۔ سلمان تاثیر صاحب کے قتل کے بعد جناب میر شکیل الرحمن نے جیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے ڈائریکٹر صاحبان سے میری میٹنگ کرائی، میں نے انہیں یہی مشورہ دیا کہ لِلّٰہ ! حساس مذہبی مسئلوں کو موضوع نہ بنائیں اور نہ ہی آپ مذہب کے مُحقّقین اور متخصِّصین ہیں۔ ایک کانفرنس کے موقع پر میں نے مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق، علامہ ساجد نقوی، علامہ قاضی نیاز حسین نقوی، پروفیسر ساجد میر اور مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور تمام مکاتبِ فکر کے دیگر سرکردہ علماء کی موجودگی میں اِن حضرات سے گزارش کی کہ اپنے نوجوان علماء کو میڈیا پرامامت، خلافت، طلاقِ ثلاثہ، حلالہ، مُتعہ اور اِن جیسے موضوعات پر مناظروں سے روکیں، یہ کلاس روم کے اور اکیڈمک موضوعات ہیں، اِن کا پبلک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میڈیا والے رونق لگانے کےلیے اور محض یہ ثابت کرنے کےلیے کہ مذہب توڑنے کے لیے ہے، جوڑنے کےلیے نہیں ہے، اس طرح کے موضوعات کو وقتا فوقتا زیربحث لاتے ہیں۔ ہمارے میڈیا پرسن تو مذہب اور اہلِ مذہب کو کوس کر اپنے نفس کی تسکین کا سامان کر لیتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ آیا باقی شعبہ ہائے حیات میں پوری قوم کے درمیان مکمل یک جہتی، وحدتِ فکر اور نظریاتی ہم آہنگی ہے؟۔ ایک دوسرے پر اہلِ سیاست کی دشنام اور اتّہام و الزام تو پوری قوم ہر روز سرِشام سے نصف شب تک کسی توقُّف کے بغیر سنتی رہتی ہے۔ سو اہلِ مذہب بھی اِسی معاشرے اور اِسی زمین کے خمیر سے اٹھ کر آتے ہیں، یہ کوئی آسمانی مخلوق نہیں جو پیراشوٹ سے اتر کر زمین پر آئی ہو۔

    رؤیت ہلال کے حوالے سے علامہ جاوید احمد غامدی کے نظریے پر بارہا لکھ چکا ہوں۔ اُن کے نزدیک ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو‘‘ والی حدیث میں ’’رؤیت‘‘ علم کے معنی میں ہے، لہٰذا اُن کے نزدیک جب سائنسی علم سے قطعی طور پر معلوم ہو جائے کہ چاند پیدا ہوگیا ہے، اگرچہ عملی رؤیت کا دور دور تک کوئی امکان نہ ہو، تو قمری مہینہ شروع ہوجائے گا۔ لیکن ہماری فقہ کا اُصول یہ ہے کہ جب تک کسی لفظ کو اُس کے حقیقی معنی پر محمول کرنا ممکن ہو، مَجاز کی طرف نہیں جائیں گے اور رؤیت کا حقیقی معنی ’’آنکھ سے دیکھنا‘‘ ہے اور علم اُس کا مجازی معنی ہے۔ پس رؤیت کو حقیقی معنی پر محمول کرنا ممکن ہے اور پاکستان میں پائے جانے والے تمام مکاتب فکر کی فقہ میں یہی معتبر ہے اور اہلِ پاکستان کے تمام مذہبی مکاتبِ فکر کی غالب ترین اکثریت اسی نظریے کی حامی ہے۔ سو آپ آزاد ہیں، اپنے نفس کی تسکین کے لیے انہیں جاہل کہہ دیں، دقیانوسی کہہ دیں، گزرے ہوئے وقتوں کے لوگ کہہ دیں، جس گالی سے آپ کے دل کو تسکین ملے نواز دیں، لیکن آج کی تاریخ تک اِس خطے میں رہنے والے مسلمانوں کے فقہی نظریات یہی ہیں۔