Author: حافظ یوسف سراج

  • نیلی آنکھ والوں پر کیا گزری – حافظ یوسف سراج

    نیلی آنکھ والوں پر کیا گزری – حافظ یوسف سراج

    حافظ یوسف سراج چائے والے کی نیلی آنکھوں کی بات ہو رہی تھی اور یہ بات کہ کیا کوئی جانتا بھی ہے کہ ان جھیل جیسی نیلی آنکھوں کے پیچھے کیا درد چھپے ہیں؟ دراصل ان کے پیچھے ایک پوری قوم کی بےبسی کی داستان سو رہی ہے اور ان سمندر آنکھوں کے پیچھے ایک پوری قوم کی بےحسی جاگ رہی ہے۔ ان دل فریب نیلی آنکھوں کے پیچھے کرب بھرے کچھ نوحے ہیں اور دل چیر دیتے لہو میں ڈوبے کچھ دوہے ہیں۔ لوگ مگر چہرہ دیکھتے ہیں اور بیبیوں نے ان آنکھوں کی بس خیرہ کن چمک دیکھی ہے۔ اس چہرے کے پیچھے اجڑی بستی دل کی خستگی اور ان آنکھوں کی جھیل میں ڈوبی حسرت بھری کہانیاں کب دیکھتے ہیں ؎
    جو تار سے نکلی وہ دھن سب نے سنی ہے
    جو ساز پہ گزری وہ کس دل کو پتا ہے

    آئیے اِک نظر ان دل فریب نظاروں اور من موہ لیتی بہاروں کے پیچھے انسانیت کو شرما اور صاحبان دل کو لرزا دینے والی کچھ تلخ حقیقتیں بھی جھانک کے دیکھ لیں۔ میر اخیال ہے اس سے آشنائی کے لیے ہمیں جمال عبداللہ عثمان سے ملاقات کر نی چاہیے۔ جمال عبداللہ عثمان ایک نوجوان قلم کار ہے۔ سوات سے آئے اس نوجوان کا لہجہ کشمیری سیبوں کی طرح رسیلا اور اس کا قلم اہل زبان کی طرح البیلا ہے۔

    جمال عبداللہ عثمان
    جمال عبداللہ عثمان

    جمال عبداللہ عثمان نے اپنا کیریئر کراچی کے مختلف اخبارات میں لکھنے سے شروع کیا۔ پھر جسارت نے اس کا کالم چھاپا اور پھر یہ کراچی کے جرات مند اخبار ”امت“ کا حصہ بن گئے۔ امت میں انہوں نے کالم نگاری اور فیچر رائٹنگ میں اپنا لوہا منوایا۔ انہی دِنوں سوات میں ہمیں اپنی بقا کی جنگ لڑنا پڑی اور لاتعداد صحافیوں کے استاذ جناب اطہر ہاشمی کو اس نوجوان کے سواتی ہونے کا پتا چلا تو انہوں نے اسے فیلڈ میں بھیج دیا۔ ایک تو اپنے علاقے کی خانہ ویرانی اور پھر سوات کا جنت نظیر خطہ بندوق کی آگ سے جھلسا اور بارود کی بو سے متعفن ہوا اس سے دیکھا نہ گیا۔ خیر ایک صحافی کے لیے آنکھوں کی بندش کے کیا معنی؟ وہی مثل کہ گھوڑا گھاس سے محبت کرے گا تو کھائے گا کیا؟

    نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے وہ نوحے لائیو دیکھے، اور وہ سب جبر دل پہ سہے۔ انسانوں کو چند بے دردوں کے کیے کی پاداش میں اپنے پیارے گھر گلیارے اور باغ و بازار چھوڑ کے مفلسانہ و مہاجرانہ نکلتے دیکھا۔ اس نے ہنستے بستے گھروں سے انجانی مسافتوں کو نکلتے مسافروں کے اشک بھی گنے اور ان کے پاؤں میں چبھے کانٹے بھی شمار کیے۔ اس نے بعض کم اندیشوں کی اٹھائی گرد کی اس دھول میں کئی نیلی آنکھوں اور کئی شہابی گالوں کی سندرتا اور مستقبل کو گم ہوتے بھی دیکھا۔ اس نے خیموں جیسے برقعوں میں جینے کو سعادت اور عادت سمجھنے والی کئی مہ رخوں کو تپتے سورجوں تلے بے پردہ جھلستے، نانِ جویں کو بلکتے اور اپنوں کی بے بسی کی تڑپ سے تڑپتے اور مچلتے دیکھا۔ یہ دیکھتا رہا، خود سے الجھتا رہا، گاہ روتا اور گاہ دور دیس والوں کے لیے آنکھوں دیکھے احوال لکھتا رہا۔ ستم کی سنگلاخ چکی کے پاٹوں میں آئے انسانوں کی سیاہ بختی پر یہاں کبھی یہ خود رو دیا اور کبھی اس کے قلم نے کچھ آنسو جذب کرکے دور بستے انسانوں کو رلایا۔

    1400509_556025357803123_1169724193_o پھر ایک رات جب یہ نوجوان سو کے اٹھا تو اس کے چشم دید وہ سارے درد، وہ سارے کرب، وہ سارے نوحے اور وہ سارے جگر خراش کردار ایک کتاب ہوگئے تھے اور یہ کتاب ”لہورنگ داستان“ کے نام سے آج تک میری دراز میں پڑی ہے اور میں اسے کبھی کامل پڑھنے کی جرات نہیں کرسکا۔ کاش! کبھی مجھے اتنا حوصلہ ارزاں ہو کہ میں ایک قوم کے اشک سہ سکنے کا ارادہ باندھ سکوں تاکہ اس نوجوان کو اس کتاب کی رسید دے سکوں۔ بہرحال یہ تاریخ کے ایک حساس عہد کی امانت تھی جو اس شخص نے عہد آیندہ مورخ کے لیے عین چوراہے پر رکھ دی ہے۔

    مجھے نہیں معلوم کہ اسلام آبادی چائے والا سواتی ہے، قبائلی ہے یا وزیرستانی یا کسی اور علاقے کا۔ مجھے نہیں معلوم وہ کسی درسگاہ کے اجڑنے سے چائے والا بنا ہے یا اپنے گھرکے لٹنے سے اتوار بازار میں آبسا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس جیسے اور کتنے اپنے لٹے مستقبلوں کے سہانے سپنے، اپنے چکنا چور ہوگئے خوابوں کے ریزے اور اپنے گم ہوگئے سکولوں میں بکھرے بستے تلاش کرتے کرتے کہاں کہاں کاغذ چننے والے، بوٹ پالش والے، چائے والے، ورکشاپ والے چھوٹے بنے ہماری بے حسی کا گلہ ثبوت ہوا کرتے ہیں۔ میں کچھ بھی نہیں جانتا، لیکن شعر و اد ب سے کچھ نہ کچھ تعلق رکھنے کے حوالے سے اپنوں سے اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کہ صاحبو! ناصحو! پند گرو! مقتدرو! حکمرانو! اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے؟

    اے میری تقدیر کے بننے اور بگڑنے کے قلمدان تھامنے والو! یہ ایک چائے والا کہ جس کی گالوں اور جس کی آنکھوں نے مصرکے بازار تمہارے فٹ پاتھوں پر سجادیئے ہیں۔ سچ کہوں تو تم نے ان نیلی آنکھوں سے کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ یہ نہیں کہ انہیں گھروں سے نکال دیا، بلکہ یہ کہ پھر گھروں کو جانے نہیں دیا۔ یعنی جانے دیا؟ مگرریزہ ہوگئی زمیں پر گھر مگر کہاں؟ وہ سڑکیں اور وہ باغ کہاں تھے؟ وہ سکول اور وہ مدرسے کہاں تھے؟ وہ تتلیاں، وہ پھول اور وہ جگنو وہاں کہاں تھے؟ وہ تو اک ایسی اجڑی دلی ہے کہ جسے نوحہ کہنے کو کوئی غالب اور جسے المیہ کہنے کو کوئی شیکسپیئر تک نہیں ملا۔ آئیے اسی نوجوان کے چند روز پہلے کے ایک فیس بک سٹیٹس سے نیلی آنکھوں کا تازہ نوحہ دیکھتے ہیں کہ شاید کسی بنجردل میں ان کے لیے امید کا کوئی گلاب کھل اُٹھے۔

    ابھی ایک وزیرستانی دوست آئے۔ چہرے سے شدید تھکاوٹ عیاں تھی۔ میں نے حال احوال پوچھا تو کہنے لگے: ”چار سال بعد اس نیت سے گئے تھے کہ حالات بہتر ہوگئے ہوں گے، لیکن خواب اور سراب کے سوا کچھ نہیں۔ سب ختم ہوچکاہے۔ آبا و اجداد نے جو مکان بنائے تھے، نئی نسل دہائیاں محنت مزدوری کرکے بھی انہیں دوبارہ تعمیر نہیں کرسکتی۔ مٹی کے یہ گھر تو جیسے تیسے بن جائیں گے۔ نہ بھی بنیں گزر ہی جائے گی، مگر سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہماری پوری کی پوری نسل اَن پڑھ پل رہی ہے۔ جہاں پندرہ سالوں سے گولہ بارود اور شیلنگ کے سوا کچھ نہ برساہو، وہاں تعلیم کیسی؟ علم کیسا؟“

  • دوسری شادی کی ہاں ناں اور زمینی حقائق – حافظ یوسف سراج

    دوسری شادی کی ہاں ناں اور زمینی حقائق – حافظ یوسف سراج

    حافظ یوسف سراج دوسری شادی موضوع بحث ہے۔ اس کے حق میں شرعی دلائل اور کچھ زمینی حقائق پیش ہو رہے ہیں۔ میرا خیال ہے خاکوانی صاحب اور زاہد مغل صاحب کی گفتگو کے بعد بھی اس بحث میں کچھ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مردوں کو اور خاص طور پر مذہب سے تعلق رکھنے والے مردوں کو اس موضوع سے اک گونہ دلچسپی ہوتی ہے۔ بعض فارغ الاوقات پروفیسروں کو بھی میں نے اسی جنت ِ پر فریب کے تذکرہ سے اپنی تشنہ آروزؤں کی چنگاری کو ہوا دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ پھر جن دوستوں کو مال و دولت کی آسودگی حاصل ہو جاتی ہے، وہ بھی اس حوالے سے جستجو کرتے پائے جاتے ہیں۔ دلچسپ ترین بات یہ کہ اس سلسلے میں آپ نوے فی صداُن لوگوں کو آہیں بھرتے، گفتگو کرتے اور حتمی منصوبے بناتے دیکھیں گے کہ جن کی تین نسلوں میں سے کسی نے دوسری شادی نہیں کی ہوتی اور نہ آئندہ سوا تین نسلوں کو یہ جرات ہوسکنی ہوتی ہے مگر اس کے باجود دوسری شادی کا تذکرہ ان کے لیے ایک وظیفے کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔ یہ ہر فرصت میں مخولیہ انداز میں خیالی منکوحہ کے فیس فیچرز تک کھلے عام تقریری انداز میں بیان کرتے ہیں۔ اگر پروفیسر ہوں تو ہر آئندہ بیچ کی منتخب شاگردات کو اپنی دوسری بیوی کے روپ میں دیکھنے لگتے ہیں، بلکہ وہ پسِ تعلیم عزائم سے قطعی بےخبر ان خوبروؤں کو متوقع نظروں سے منکوحہ، منسوبہ اور مخطوبہ و مطلوبہ سمجھ بیٹھتے ہیں، اور نت نئے نک نیم ایجاد کر کے انھیں مزعومہ حیثیت سے پچکارنے بھی لگتے ہیں۔

    ادھر یہ موضوع خواتین کی انا کے غبارے سے ہوا اور ان کے نازک جسم سے جان نکال دینے کی دوا ثابت ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو جسمانی و معاشی ہر دو اعتبار سے نکو سے نکو اور نکمے سے نکمے مرد بھی دوسری شادی کی دھمکی کو بیویوں پر بطور نفسیاتی ٹارچر استعمال کرنے لگتے ہیں۔ مشرف کے دور عجائب میں یہ بات بھی سامنے آئے تھی کہ شادی سے پہلے دونوں پارٹیوں کے جسمانی ٹیسٹ کیے جائیں اور ان ٹیسٹوں کے حمایت پر ہی شادی کی اجازت دی جائے۔ یہ ایک اچھا اقدام تھا، اگرچہ اس میں مینٹلی ٹیسٹ کی بات بھی ہونی چاہیے تھی، کیونکہ گھر چلانے کے لیے جسمانی استعداد جتنی ہی ذہنی صلاحیت بھی ضروری ہوتی ہے۔ لیکن اگر ایسا کوئی ٹیسٹ واقعی رکھ دیا جائے تو خدشہ ہے کہ دوسری شادی کے لیے جملہ لسانی طاقت صرف کر دینے والے آدھے سے زیادہ وکیل تو پہلی ہی شادی کے منکر ہو اٹھیں گے۔ سیکس ایجوکیشن سے تو ہم نے اسلام کے نام پر انکار کر دیا حالانکہ خود مدارس کی پہلی جماعت سے بچوں کو سیکس ایجوکیشن دی جاتی ہے۔ ہم ڈرتے شاید اس لیے ہیں کہ ہمارے تمام حساس معاملات کے پیچھے مغرب پوری تیاری سے اپنا ایجنڈا لیے کھڑا ہوتا ہے، اس کا نقصان لیکن یہ ہوتا ہے کہ ہمارے جوان اپنے ضروری ترین سفر پر بھی کچی پکی معلومات لے کر روانہ ہو جاتے ہیں۔ شادی کے بعد وہ ایک دوسرے کے اہم ترین حقوق اور مستقبل سےگہرا تعلق رکھنے والے معاملات سے یا تو قطعی بےخبر ہوتے ہیں یا شرم، شرع یا غفلت کی بنا پر ایک دوسرے کی زندگی اذیت و عذاب کر دینے کا باعث بننے لگتے ہیں۔ ان میں سے بعض مسائل کا تعلق تو براہِ راست خواتین کی صحت اور جان تک سے جڑا ہوتا ہے۔ وہی صحت اور جان کہ جس کی خاطر شریعت کبھی حرام تک کی بھی اجازت دے دیتی ہے۔ میرے علم میں کچھ وہ لوگ بھی آئے کہ جنھوں نے زیادہ بچے پیدا کرنے جیسے مقاصدِ شریعت کو بیمار اور کمزور بیویوں پر بھی نافذ کرکے انھیں ہمیشہ کی مریضہ بنا دیا، بعد میں اپنی روش پر نادم ہوتے دیکھا گیا۔ یقینا دوسری شادی کی اجازت ہے مگر یہ حکم ہرگز نہیں۔ شادی تو مطلق پہلی بھی ہر ایک پر فرض نہیں۔ حدیث ہے کہ اے گروہِ نوجواناں! تم میں سے جو استطاعت رکھے، اسے شادی کر لینی چاہیے۔ یعنی شادی مشروط ہے استطاعت سے۔ توکیا شادی کے لیے ہمارے دماغوں پر چھائی ایک ہی استطاعت ہے؟

    ایک اہم چیز جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے، وہ ہے بچوں کی پرورش و پرداخت اور ان کی تعلیم و تربیت۔ یہ بھی شادی کے پیکج سے جڑی ایک ناگزیر چیز ہے۔ یوں نہیں کہ شادیاں توآپ متعدد فرما لیں لیکن بچوں کو خودکش فیکٹریوں کے حوالے کر دیں۔ اولاد کے حقوق کی ادائیگی کا بھی آپ کو شادی کے وقت ہی سوچنا ہے۔ ایک اور چیز جسے شریعت نے ملحوظ رکھاہے، وہ عرف ہے۔ ہمارے کچھ دوست خلوص کی جھونک میں آ کر عرب کلچر کو برصغیر پر نافذ کرنے ہی کو منشائے اسلام یا نفاذِ اسلام سمجھنے لگتے ہیں۔ حالانکہ اسلام انسانوں کے جینز میں رچی بسی مثبت علاقائی چیزوں کو بدل کے اذیت پہنچانے نہیں آیا۔ خوشی اور غم کے سارے طریقے آپ کے دیسی ہو سکتے ہیں بشرطیکہ شریعت کے عمومی اصولوں سے وہ نہ ٹکرائیں۔ مثلاً حدیث میں آیا ہے کہ اگر دن کو کسی کا جانور کسی کی فصل اجاڑ دے تو قصور فصل والے کا ہے اور اگر رات کو یہی کام ہو تو جانور والے کو ہرجانہ بھرنا پڑے گا۔ کیونکہ عموماً دن کو جانور کھلے اور رات کو بندھے ہوتے ہیں۔ عرب علماء نے مگر صراحت کی کہ اگر کسی علاقے میں معمول اس کے برعکس ہو تو اسی کے مطابق کرنے کو حدیث پر عمل گردانا جائے گا۔ سو عمومی اعتبار سے دوسری شادی میں آپ فوائد اور نقصانات کا جائزہ مقامی تناظر میں بھی لیں گے۔ پھر یہ واحد دلیل قطعی مؤثر ہتھیار نہیں کہ چونکہ جائز ہے سو اب کر کے اور مر کے رہا جائے گا۔ جائز تو بینگن کی سبزی کھانا بھی ہے، لیکن جب بےچاری خاتونِ خانہ پکا بیٹھے تو آپ کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں۔ تو بات یہ ہے کہ بہت سی جائز چیزیں بھی، حلال چیزیں بھی، ممکن ہے آپ کو یا آپ کے معاشرے کو موافق نہ بیٹھیں۔ میٹھا حلال ہے اور گوشت بھی مگر پہلے کو شوگر پیشنٹ اور دوسرے کو بلڈ پریشر پیشنٹ نہیں کھاتا۔ کھاتا ہے تو یہ خودکشی سمجھی جانی چاہیے۔ جائز اور حلال میں سے اپنے لیے Suitable تلاش کرنے کو اللہ نے ہمیں الگ الگ عقل دی ہے۔ اب یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ جب آپ کی شوگر کی وجہ سے آپ کی پہلی بیوی پریشان ہو کے دن رات آپ کی صحت کے لیے دعائیں کرتی ہو تو آپ اسے دوسری شادی سے دھمکانے اور خود کو بہلانے لگیں۔ پھر عدل کی بات ہوئی۔ قرآن نے تو خود اسے ناممکن کہا ہے لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ عدمِ عدل کی خوبی کے ساتھ دوسری شادی کرنے والا قیامت کے دن یوں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو مفلوج ہوگا۔

    ہمارے معاشرے میں دوسری شادی کی کامیابی کی مثالیں کم از کم میں دیکھنے سے قاصر رہا ہوں۔ الا ماشاءاللہ ! ٹینشن بھری سبک رفتار زندگی میں آپ اولاد اور بیگمات کے مستقل ایکسرے میں رہیں گے۔ خرابی بہرحال آئے گی، بیوی نہیں تو اولاد شاکی رہے گی۔ دیکھیے نبی کریم ﷺ کی نجی زندگی میں بھی سوتن کے جذبات دیکھے گئے ہیں۔ نبی کریم ﷺ سا رحمدل اور عادل کون ہو سکتا ہے لیکن اس کے باجود یہ چیزیں وہاں طلوع ہوئی ہیں۔ سو گزارش یہ ہے کہ شادی پہلی ہو یا دوسری، محض اس کے شریعت میں جائز ہونے سے آپ کے لیے جواز ہرگز نہیں نکل سکتا۔ آپ کو اپنے لیے خالص مقامی اور نجی سطح پر اس کا جائزہ لینا ہوگا۔ اور پھر اس کی ایک قیمت ہے جو بہر صورت ادا کرنی ہوگی۔ ہاں اگر یہ سارے سود و زیاں ذہن میں ہوں اور صرف اپنی ہی عارضی رنگینی کے بجائے معاملے کی دوسری طرف پڑی سنگینی بھی ذہن میں ہو تو پھر بسم اللہ!

  • مفتی منیب صاحب اور جوابی کالم پر رد عمل – حافظ یوسف سراج

    مفتی منیب صاحب اور جوابی کالم پر رد عمل – حافظ یوسف سراج

    یوسف سراج گزشتہ کالم پر ملک و بیرون ِ ملک سے کئی طرح کا ردِ عمل یا کہہ لیجیے فیڈ بیک موصول ہوا۔ جن لوگوں نے دعائیں دیں اور جو خوش ہوئے ان کا حساب درِ دل درج ہوا، تاہم جن کا نقطۂ نظر اس کے سوا تھا، ان میں سے ایک امارات کے مستند کالم نگار منیر احمد خلیلی صاحب کا کہنا تھا کہ آپ کے موقف سےگو اتفاق کرتا ہوں مگر علمی مؤقف صرف دلائل اور سنجیدگی سے پیش ہونا چاہیے، عرض کیا، چلیے اگلی نشست یوں سہی، ویسے کاش وہ چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی میں ہونے والی اہلِ سنت کانفرنس کون؟ کی ویڈیو دیکھ لیتے۔ یقین کیجیے میں نے اس قدر سنجیدہ موضوع کو اس قدر منظم رقص کے تحت کبھی بروئے کار آتے نہیں دیکھا۔ یادش بخیر، مولانائے محترم مفتی منیب صاحب نے اردو اخبارات کی تاریخ میں اپنے پہلے بااعراب نیم عربی کالم میں لکھا تھا کہ یہ کانفرنس صرف اہل سنت کی تعریف کا حدود اربعہ مقرر کرنے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ یقینا ایسا ہی ہے اور یہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی رہی۔ اتنی کہ جب تعریف کا اصلی حدود اربعہ مقرر ہوچکا تو الحمدللہ آدھے اہلِ سنت اپناحقیقی حدود اربعہ کھو چکے تھے۔ ویسے میرے ساتھی الل ٹپ کا کہنا ہے کہ بات اگر صرف تعریف ہی مقرر و متعین کرنے کی تھی تو اس کے لیے تو محض کسی پروفیسر کی نیم پخت پی ایچ ڈی کو تکلیف پہنچا کے بھی کام چلایا جا سکتا تھا، آخر اس کی خاطر گروزنی میں کروڑوں کے اخراجات اٹھا کے پیوٹن کو منظم رقص پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ مفتی صاحب نے مزید لکھا تھا کہ تعریف متعین کرنے کے لیے آنے والے مہمان عالمی سطح کے جید سکالر تھے۔ اس بات کی تحقیق اس لیے مشکل ہے کہ وہاں سکالرانہ عالم ِرقص میں معلوم و نامعلوم، شاہد و مشہود اور من و تو میں فرق کرنا بےحد مشکل بلکہ ناممکن ہو گیا تھا۔ اگر آپ وہ مبارک ویڈیو دیکھنے کی سعادت سے واقعی محروم رہ گئے ہیں تواس عاجز پر یقین کرلیجیے کہ اس روح پرور باوردی رقص میں ہر عالِم کا وہ عالَم تھا کہ سبحان اللہ ثم سبحا ن اللہ !یعنی
    ایک ہی صفِ (رقص) میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
    نہ کوئی ’عالِم ‘رہا نہ عالم لوہار

    ایک قاری کا خیال یہ تھا کہ مجھے محض مفتی صاحب کی عینک کو دیکھ کے کالم سے نہیں بدکنا چاہیے تھا۔ ان کا خیال تھا کہ عینک سے نہیں مجھے صاحبِ عینک سے کوئی معاملہ ہے، میں نے عرض کی کہ ہرگز نہیں۔ مفتی صاحب کے لیے میں نے کل بھی سنجیدہ و متین کے الفاظ استعمال کیے اور آج پھران کی شخصیت کے لیے اپنے انھی الفاظ پر اصرار کرتا ہوں۔ پیر نصیرالدین مرحوم کے بعداپنے مشرب میں آنجناب کا شمار ان چیدہ و چنیدہ شخصیات میں ہوتا ہے کہ جن کا احترام بین المسالک طور پر مسلم ہے۔ پھر مفتی صاحب کی نستعلیق نثر اور شستہ فکر کا میں باقاعدہ مداح ہوں۔ سچ کہوں تو مفتی صاحب جیسا بےباک آدمی پورے مسلک میں شاید دوسرا کوئی نہ ہو۔ کوئی ہے جو نعت جیسی مقدس و مطہر صنف کو سٹیج پر جھومتے نعت خوانوں پر وارے جاتے نوٹوں تلے دبی دیکھ کر بلبلا اٹھے اور اپنے اخباری کالم میں اسے سٹیج کی اُس ذوق مند صنف سے تشبیہ دے ڈالے کہ جسے پہلے شرفا چھپ چھپا کے کوٹھوں پر دیکھتے تھے اور آج کوٹھی میں مع فیملی اکتائے اکتائے دیکھتے ہیں۔ اور یہ بھی مفتی صاحب ہی تھے کہ جنھوں نے انٹرنیٹ پر وائرل ہو جانے والی اپنی ایک ویڈیو میں اپنے ہی ناموروں کو لتاڑ ڈالا کہ یہ جو ان کی غفلت یا تساہل کی بناپر خانقاہوں پر سجدہ ہائے جہالتِ ہو رہے ہیں اور یہ جو اس دنیا کی دیگر خرافات انھوں نے ڈھونڈ نکالی ہیں تو کیا اللہ کے ہاں دینے کے لیے اس کا کوئی جواب ہے ان کے پاس؟

    دیکھیے دماغ اللہ نے سبھی کو الگ دیا ہے اور سوچ و فکر کی انفرادیت پر پابندی تو بےدماغوں کا دماغ ہو سکتی ہے اور کچھ نہیں، چنانچہ کسی کی فکر و فقہ سے اختلاف کرنا آپ کا محفوظ حق ہے۔ مگر شخصیات کا احترام بھی میرے ہاں واجب ترین ہے۔ اس کالم کے قارئین گواہ ہیں کہ اس خاکسار نے ممتازقادری کے حق میں اس وقت کالم لکھ ڈالا تھا کہ جب قلم اور کیمرے اور نوا اور وفا سبھی پر سلطانی پابندی عائد تھی۔ ’’سب اچھوں میں کیا اکیلا طاہرالقادری برا ہے؟‘‘ اس عاجز نے طاہرالقادری صاحب کے لیے یہ سوال اس وقت اٹھایا تھا کہ جب مذہبی و مسلکی اور سیاسی لوگ ہی نہیں، قاسمی و صدیقی صاحبان جیسے سرخیلِ صحافت بھی اپنے قلم کی جملہ جولانیاں اور اپنے فکر کی جمیع طغیانیاں بحق نوازشریف اور بخلاف ِ قادری صرفِ درِ میکدہ ٔ محبت کر چکے تھے۔ اور ہاں ٹھیک اس کالم سے پچھلا کالم اِس آدمی نے الزامات کی زد میں آئے اُس مولانا الیاس گھمن کو دستیاب شرعی حقوق کا واویلا کرتے لکھا تھا کہ جس الیاس گھمن صاحب کی تیزی زبان اور نامطلوب شعلے برساتی تقریر اس عاجز کو کبھی خوش نہیں آئی تھی۔ انسان ہوں اور غلطی کا پتلا مگر واقعہ یہ ہے کہ جب سے اخبار کے لیے قلم سنبھالا ہے۔ اسے قومی مفاد کی خاطر گروہی اور ادنیٰ مفادات سے جدا کر لیا ہے اور کم از کم اس کالم پر خدا کے بعد انسانوں میں سے سب سے پہلا حق مظلوم کا خود پر عائد کر رکھا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ اس کا رنگ، نسل یا قومیت کیا ہے۔ ویسے توا س سے بڑا جھوٹ بھی کوئی نہیں کہ کوئی اپنے آپ کو غیر جانبدار قرار دینے لگے ؎
    ہوس چھپ چھپ کے سینے میں بنا لیتی ہے تصویریں

    (ہاں آدمی کی ہمت یہ ہے کہ سینے میں پلتے تعصبات کو امکانی حد تک کم ترین سطح پر لے آئے۔) اور اس سے بڑا جرم اور افسوس بھی کوئی نہیں کہ گھٹیا مفادات کی خاطر آدم کی اولاد اور رسولِ رحمت کی امت کو رنگوں، مسلکوں اور فرقوں میں بانٹ دیا جائے۔ لیجیے احباب آج انھی غیر ضروری اور فضول گزارشات پر اکتفا کیجیے۔ فضول اور غیر ضروری اس لیے کہ اگر ہم انھیں مان ہی لیتے یا ان چیزوں کا اثر ہی لیا کرتے تو بھلا ایسی وضاحتوں کی نوبت ہی کیوں آتی۔ ان شااللہ ا س نوعیت کی چند سنجیدہ اور آخری باتیں اگلی نشست میں پڑھیے گا۔ اللہ حافظ !

  • مفتی منیب صاحب، نئے اہل سنت اور تازہ مظلوم – حافظ یوسف سراج

    مفتی منیب صاحب، نئے اہل سنت اور تازہ مظلوم – حافظ یوسف سراج

    یوسف سراج قائدِ اعظم سے صحافی نے پوچھا ’’ آپ سیاستدان نہ ہوتے تو کیا ہوتے‘‘ فرمایا۔ ’’صحافی‘‘۔ پھر اس کی وضاحت یوں فرمائی’’ہم جہاز میں سوار ہوکے کسی جگہ اترتے ہیں تو عین دروازے پر ایک صحافی کسی ایسے واقعہ پر ہم سے رائے جاننے کو آ موجود ہوتا ہے کہ جو واقعہ ابھی ابھی کہیں رونما ہوا ہوتا ہے اور جسے ہم نے ابھی قطعا جانا نہیں ہوتا۔ سو میں سیاستدان نہ ہوتا تویقینا ایک صحافی ہونا پسند کرتا۔‘‘

    یہ قائدِ اعظم تھے، اور ظاہر ہے، ہماری طرح صحافی نہ تھے، سو ان کی مجبوری تھی کہ واقعہ جانے بغیراس پر رائے نہیں دیتے تھے، ایک صحافی الحمدللہ چونکہ نہ قائدِاعظم ہوتا ہے اور نہ سیاستدان، سو ثم الحمدللہ وہ ایسے ہر واقعہ پر ڈٹ کے رائے بھی دے سکتا ہے اور متعدد کالم بھی رقم فرما سکتاہے۔ تفنن برطرف صحافت واقعی ایک مستعد بیداری، ہمہ وقتی ہوشیاری اور خرد مندانہ خبرداری کا نام ہے، جس سے ہم جیسے کبھی تو دور ہوتے ہیں اور کبھی کوسوں دور۔

    صاحبو! ہم بھی عجب ہی صحافی ہیں کہ جب کبھی کسی مصروفیت و غفلت کے جہاز سے اترتے ہیں تو سامنے کوئی مفتی عبدالقوی مد ظلہ العالی یا پھر مولانا الیاس گھمن صاحب اپنی گھمن گھیریوں سمیت ہماری بےخبری کا منہ چڑا رہے ہوتے ہیں۔ اب کے پتا چلا کہ کسی اور نے نہیں، یہ پھول شبلی ہی نے تاک مارا ہے، میرا مطلب چاند چڑھانے والے (مفتی عبدالقوی صاحب) نے نہیں، بلکہ چاند دیکھنے والے سنجیدہ و متین مفتی صاحب کے کالم نے بہت سے مسلمانوں کو خوفزدہ کر رکھا ہے۔ خطِ نستعلیق میں بااعراب عربی (جس میں کہیں کہیں اردو بھی تھی) میں لکھا اور دنیا و دلیل پر چھپا یہ کالم دیکھا تو میں نے بھی تھا مگر پھر اسے مفتی صاحب کو عینک لگنے کی وجہ سمجھ کے چھوڑ ہی دیا تھا۔ پھر مگر گھبرائی گھبرائی سی آتی تفصیلات کے مجبور کرنے پر یہ کالم پڑھنا ہی پڑا۔
    جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
    اے کاش نہ جانتا تیری رہ گزر کو میں

    واقعی یہ ایک حیران کن بلکہ پاکستان و عالم اسلام کے موجودہ حالات میں خاصا پریشان کن کالم تھا، جسے شاید مدیر صاحب نے بھی محض عربی سے متاثر ہو کے اور مضمرات کا اندازہ لگائے بغیر چھاپ دیا۔ قصہ یہ تھا کہ چیچنیا کے دارالحکومت میں جمع ہو کر چند بھاری بھر کم غیر ملکی ناموں والے پروفیسروں نے، جو ظاہر ہے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی یونیورسٹی وغیرہ میں زیرِ جاب بھی تھے، ’’اہلِ سنت کون ؟‘‘ کے عنوان کے تحت یہ نیک کام کیا کہ امت کے کچھ لوگوں کو تو ازراہِ مہربانی اہلِ سنت ہی رہنے دیا جبکہ باقی کئی اہم ترین لوگوں کو اس دائرہ سنت و الجماعت سے فی الفور نکال باہر کیا کہ چلو باہرنکلو، کیا رش لگا رکھا ہے۔

    اب تک تو ہم نے اسلافِ امت سے یہی سنا تھا کہ فی الاصل اس امت کے دو ہی فرقے یا گروہ ہیں، یعنی اہل تشیع اور اہلِ سنت۔ اگرچہ اس سے آگے یہ دونوں از خود بھی کافی خود کفیل ہیں۔ یہ مگر پہلی دفعہ ہوا کہ صدیوں سے چلی آتی اس تقسیم کو پیوٹن کے زیرِسایہ تقسیم مزید کے عملِ زہ سے بھی گزارا گیا۔ یکلخت میں نےسوچا کہ جب سعودیہ ان دنوں ایران کے مقابل وہابیوں کے علاوہ بھی سبھی اہلِ سنت کو قریب بلکہ قریب تر کر رہا ہے تو پھر اس کانفرنس کومہبطِ وحی مکہ و مدینہ سے اتنی دور لے جانے کی آخر کیا ضرورت تھی؟ یادش بخیر، اقبال کے پاس غالباً مولانا ظفر علی خان پریشان آئے کہ انگریز حجاز میں ہسپتال کھولنے کے بہانے اپنا کوئی اڈا کھولنا اور مسلمانوں سے چندہ بٹورنا چاہتا ہے۔ اقبال نے کاغذ پکڑا اور یہ نسخہ لکھ کے تھما دیا کہ جاؤ اب یہ ہسپتال نہ بنے گا؎
    اک پیشوائے قوم نے اقبال سے کہا
    کھلنے کو جدہ میں ہے شفاخانہ حجاز
    اوروں کو دیں حضور! یہ پیغام زندگی
    میں موت ڈھونڈتا ہوں زمین حجاز میں
    یاحیرت! اقبال موت بھی حجاز میں ڈھونڈے، اور اقبال کا شاہین اپنا دین بھی پیوٹن کے گروزنی میں جا ڈھونڈے؟ ویسے ظاہر ہے کہ جو چیر پھاڑ پنجۂ عیسیٰ میں آئے ہسپتال میں ممکن ہے وہ مطبِ نبوی کی حکیمانہ حکمت میں کہاں ممکن ہے۔ خیر، لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے فارمولۂ تقسیم کی طرح گروزنی کی تقسیم اہلِ سنت کا فارمولہ بھی بڑا سادہ سا تھا۔ یعنی جو مسلمان فلسفہ یونان کی عقلی موشگافیوں کے وضع کردہ نظامِ علم الکلام کے بجائے محدثین کے بتائے سادہ طریقے سے رب کی صفات کو مانے، نکلے یہاں سے، اس کا کوچۂ اہلِ سنت میں بھلا کیا کام؟ لارڈ ماؤنٹ بیٹنی یہ فارمولہ ہے کیا؟ آپ سادہ انداز میں یوں سمجھیے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر قرآنِ مجید، سورہ فتح میں ایک آیت نازل ہوئی۔ ’’وہ جو تمھاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔‘‘
    ( ترجمہ احمد رضا خاں بریلوی)
    اب یہاں اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے لفظ ’ہاتھ‘ (ید)کو سمجھنے میں کچھ مسلمانوں کو مشکل پیش آئی۔ صحابہ کو نہیں، فلسفہ یونان کے علم الکلام کے زیر اثر آنے والے بعد کے کچھ لوگوں کو۔ انھوں نے کہا، ہیں ہیں؟ تو گویا اللہ کا بھی ہاتھ ہے؟ ہرگز نہیں، ہاتھ تومخلوق کا ہوتا ہے، اللہ کا ہاتھ مان لیا توگویا اللہ کو تونعوذ باللہ مخلوق جیسا مان لیا، نہیں جی، ہرگز نہیں، یوں تو ہم نہ مانیں گے، چلیے جلدی کیجیے، اس ید کا معنیٰ کچھ اور کیجیے، جو بھی کرو بس اللہ کا ہاتھ نہیں ہونا چاہیے۔ حالانکہ علاوہ اور علمی دلائل کے علماء نے علم بلاغت (زبان و بیان کے علم) سے بھی انھیں سمجھایا کہ لفظی مشارکت اور تشبیہ سے یہ قطعا ًلازم نہیں آتا کہ جس سے تشبیہ دی گئی ہو، تشبیہ دیا جانے والا بھی سو فی صد ویسا ہی مانا جائے۔ مثلاً ن لیگ والے نواز شریف کو اگر شیر کہتے ہیں تومعاف کیجیے گا کیا اس سے یہ بھی لازم آئے گاکہ اب میاں صاحب بےچارے کی شیر کی طرح دم بھی مانی جائے؟ مثلاً منہ انسانوں کا بھی ہے اور جانوروں کا بھی۔ تو اگر انسان یہ کہیں کہ ہمارے منہ کو آج سے ٹانگ کا پٹ کہا جائے وگرنہ ہماری جانوروں سے مشابہت لازم آئے گی؟ تو کیا ایسا سمجھنا درست ہو گا؟ یقینا نہیں۔ چنانچہ محدثین نے یہ رائے مسترد کردی، انھوں نے کہا کہ بھئی معنیٰ تو ہم وہی کریں گے جو بنتا ہے، البتہ ہم یہ کہیں گے کہ ہے تو ہاتھ ہی مگر یہ ہاتھ مخلوق جیسا نہیں ہے۔ پھر کیسا ہے؟ بھئی جیسا اللہ کی شان کے شایاں ہے۔ ہم نے دیکھا تھوڑی ہے؟ جنت میں دیکھیں گے تو تفصیل بھی بتا دیں گے.

    لیجیے صاحب! محدثین کے سچے اور سچے موقف والوں کو آج چند پروفیسروں کے زورِ بیاں نے گروزنی میں قابلِ گردن زدنی ٹھہرا دیا ہے۔ کہیے نعرہ ٔ تکبیر!اللہ اکبر! دیکھا کیسی شاندار کانفرنس تھی!

    قارئین! بات لیکن اتنی سادہ بھی نہیں کہ کسی کے پرجوش نعرہ تکبیر میں لپیٹ دی جائے۔ کیونکہ اگر یہی اصرار ہے تو پھر امام بخاری، امام مسلم سمیت سارے محدثین یعنی امام احمدابنِ حنبل، امامِ مالک، امام شافعی کے علاوہ فقہا و علماء امام ابوحنیفہ، امام ابنِ تیمیہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، ابو الکلام آزاد، ثنااللہ امرتسری، مولانا داؤد غزنوی، علامہ احسان الٰہی ظہیر، پروفیسر ساجد میر، حافظ سعید، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر اور نہ جانے کتنے اور لوگ اسی ایک گروزنی کانفرنس سے اور مفتی صاحب کے ایک کالم سے تا حکمِ ثانی کالعدم اہلِ سنت قرار پائیں گے۔ کیا یہ واقعی اتنا ہی آسان ہے؟ پھر یہ بھی تو سوچیے کہ جو صحابہ و تابعین دور عباسی میں فلسفہ یونان آنے سے پہلے پہلے رب کے پاس جا پہنچے، آیا انھیں گروزنی کانفرنس سے بچا لیا جائے گا یا گئی ان کی بھی اہلِ سنیت؟ شورش یاد آگیا۔ عجیب شخص تھا، ’شب جائے کہ من بودم‘ کے نام سے اپنے سفرِ عمرہ کی روداد لکھی توشاہوں پر اپنے کاٹ دار انداز میں تنقید کی، لکھا کہ وہ بدعت سے خائف ہو کے یا عدم توجہی کی بنا پر سنت کی یادگاریں گم کر رہے ہیں۔ جی اسی شورش نے جب سنا کہ کسی نے قائدِ اعظم کے ساتھی اور مسلک ِاہلِ حدیث کے رہنما داؤد غزنوی کے بارے میں کہا ہے کہ وہ جنت میں نہیں جائیں گے۔ پھر کیا تھا موچی دروازے میں شورش بپھر گیا۔ اپنے خاص طنطنے، دبدبے، دغدغے اور ہمہمے سے کہا، اگر داؤد غزنوی جنت میں نہیں جائے گا تو میں اس کے ساتھ جہنم میں بھی جانے کو تیار ہوں، لیکن تمھارے ساتھ تو میں جنت جانے کو بھی تیار نہیں۔ اللہ اللہ ! کیاخاص ڈکشن، خاص سانچے کےاور خاص طرح کے بڑے اور باصفا لوگ تھے وہ۔ جناب مفتی صاحب! خدارا اتنا تو سوچیے کہ اگر اسلام کے صفِ اول کے یہ سارے متذکرہ لوگ اہلِ سنت نہیں تو پھر اہلِ سنت ہے کون؟

  • ملزم مولانا الیاس گھمن اور اسلام – حافظ یوسف سراج

    ملزم مولانا الیاس گھمن اور اسلام – حافظ یوسف سراج

    یوسف سراج کچھ دن ہوئے سوشل میڈیا اور کالم لکھنے پڑھنے سے دور ہی رہا ہوں، اور مت پوچھیے کہ کیونکر جیا ہوں؎
    کچھ وقت تیری یاد سے غافل رہا ہوں میں
    کچھ وقت میری عمر میں شامل نہیں رہا

    دراصل میرا ڈیپارٹمنٹ ’رینوویٹ‘ ہو رہا تھا اور میری اس میں کچھ ذمے داریاں تھیں۔ جسم کو تھکا اور ذہن کو الجھا دینے والے کچھ کام۔ دراصل عمارت کی تزئین و آرائش ہی نہیں ہونا تھی، کوئی تین لاکھ کی کتب بھی خریدی جانا تھیں۔ کتاب دوستوں سے مشاورت بھی ہوئی۔ جناب عامر ہاشم خاکوانی صاحب نے مفت میں طویل دورانیے کی فونی کلفت اٹھا کر طویل فہرستِ کتب لکھوائی اور سریلی سرائیکی پٹی کے رسیلے یار ِ طرحدار شمس الدین امجد نے کچھ کتب کی مفت فراہمی کا سندیسہ لکھ بھیجا۔ کام توخیر ایک ہی دن میں کسی مکتبے پر کھڑے کھڑے بھی نمٹایا جا سکتا تھا اور بلکہ دفتر سے ایک فون پر بھی کہ الحمدللہ اب اردو بازار میں اتنی تو واقفیت ہو ہی گئی ہے۔ یہاں مگر جبلی بےآرامی اور کتاب سے محبت نے خوار کیا اور الحمدللہ یوں کہ؎
    روح تک اتر گئی تاثیر مسیحائی کی

    بہت بار ثابت ہو چکا کہ خود ساختہ ذوق کی خواری کے آگے سبھی خواریاں ہیچ ہیں۔ دفتر پہنچا تو دوستوں نے پوچھا، گھمن صاحب والی پوسٹ دیکھی، سبوخ سید نے اسے چھاپ ڈالاہے۔ عرض کی دیکھی تو ضرور مگر پڑھ کے نہیں دیکھی۔ بغیر کسی خاص ضرورت کے اس نوع کی چیزوں پر طبیعت ٹھکتی ہی نہیں۔ خیر میری درخواست پر احباب نے خلاصہ بتا دیا۔ فی الفور عرض کیا کہ سچائی تو خیر ابھی کیا معلوم مگر یہ بات پھیلانے کی تو ہرگز نہ تھی۔ بالفرض یہ سچ بھی ہے تو اسلامی صحافت توخیر چیزے دیگر است مگر عام صحافتی اصول بھی اس کی کہاں اجازت دیتے ہیں؟ ہم لیکن عرصہ ہوا صحافت میں اسلامی کیا انسانی قدروں کو بھی بصد عالم فراموشی چھوڑ چکے ہیں۔ ایک شخص کے بارے کوئی بھی بات کرتاہے اور ہم مجروح و ملزم کا موقف لیے بغیر الزام اچھالتے اور چھاپتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے میں بھلا ایک عالمِ دین کی عزت کی کیا قیمت ہو سکتی تھی؟ رعایت اللہ فاروقی صاحب نے مگر اللہ کے اس بندے کے دفاع کا مورچہ لگایا لیا اور میں انھیں اس جراتِ رندانہ پر سلام پیش کرتا ہوں۔ اس کے باوجود پیش کرتا ہوں کہ رعایت اللہ فاروقی صاحب کا بھی ایک مسلک ہے اور گھمن صاحب تو سنا ہے دوسرے اہل مسلک کے لیے زبان بھی خار اشگاف رکھتے ہیں۔ رعایت اللہ صاحب کی مگر میں اکثر علماء کو مثال دیا کرتا ہوں۔ ایک شخص نے کس طرح فیس بک پر بیٹھ کر دینی مدارس سے نکلے سینکڑوں لوگوں کو متحمل، معتدل ، مدلل اور مہذب کر دیا۔ یہ اس عہد کے کسی پٹھان کی ایسی کرامت ہے کہ جس پر فریفتہ ہونے کے علاوہ پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی رقم ہونا چاہیے کہ آخر جن پٹھانوں کی کبھی مذکر مونث تک درست نہیں بیٹھتی، انھی میں سے ایک شخص نے ٹھیک اُن لوگوں کی عقل کیسے ٹھکانے بٹھا دی کہ جنھیں آٹھ دس سال لگا کے ایک ہی عقل دی جاتی ہے کہ سوائے تمھاری اپنی عقل شریف کے جہاں میں کسی دوسرے کی عقل کبھی درست نہیں ہو سکتی۔

    رعایت اللہ صاحب نے الزام تراشی کی اس فیکٹری کا محرک معاصرت کی مخاصمت اور چندے پر سے کھسکتی اجارہ داری تجویز فرمایا۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کے علاوہ اندھے تعصبات بھی اس کھلی نارِ شیطنت کو یوں ہوا دیتے ہیں کہ پیش قدمی میں شیطان تک کو شرما دیتے ہیں۔ اچھا فرض کریں، یہ سب سچ ہے، حالانکہ یہ فرض کرنا انسانیت کے آخری مسیحا نے ہرگز ہماری من مانی کے مطابق اتنا آسان نہیں رہنے دیا۔ مثلاًایک شخص نے دربارِ رسالت میں حاضری بھر کے اپنی غلط کاری کا اعتراف کر لیا۔ جلد از جلد اس کی جان پر حد کا نفاذ کر دیا جائے۔ یہی اس کی چھلکتی خواہش تھی۔ رسول ِ اطہرﷺ نے لیکن جزئیات پر مشتمل اتنے سوالات کیے کہ کاش صحافت سے وابستہ لوگوں نے بھی کبھی وہ جاننے کی کوشش کر لی ہوتی۔ کر لی ہوتی تو انسانیت کتنی شادماں ہو گئی ہوتی۔ دراصل نوے فیصد لوگ حقیقت سے آشنا نہیں ہوتے مگر مصیبت یہ کہ وہ اپنی اس نارسائی سے بھی آشنا نہیں ہوتے۔ دینی مدرسے کے ایک استاد کے مطابق، عصر کے بعد مدرسے سے چھٹی ملی تو طالب علم مدرسہ سے شہر گیا اور کوئی ایک گھنٹے میں لوٹ آیا۔ اب وہ اساتذہ کے سامنے بیٹھا روتا تھا کہ کس قیامت کی غلطی کا وہ ارتکاب کر بیٹھا ہے۔ پوچھا ، کیا کیا؟ کہنے لگا میں فلم دیکھ بیٹھا ہوں۔ اہلِ صحافت کہاں جانتے ہوں گے کہ مدرسہ کی چار دیواری کے اندر فلم اور ڈائجسٹ سے بڑا کوئی کبیرہ گناہ ابھی تک دریافت نہیں کیا جا سکا۔ اس سے پہلے کہ یہ پٹ جاتا۔ ایک معاملہ فہم استاد نے کہا فلم تو خیر تم نے ہرگز نہیں دیکھی۔ یہ مگر بااصرار بضد کہ فلم ہی دیکھی ہے۔ استاد کہیں اللہ کے بندے ایک گھنٹے شہر جا اور آ کر پوری فلم بھی دیکھ لی۔ ٹائم اینڈ سپیس کے تھم جانے کا یہ واقعہ ہوا تو کیوں کر؟ خیر کہا، چلو مانا فلم ہی دیکھی ہے مگر یہ بتاؤ وہ فلم کیسی تھی۔ کہنے لگا کہ ایک تانگہ تھا اور وہ گلی گلی گھومتا تھا اور اس پر بیٹھے تانگہ بان اعلان کرتے تھے اور اس تانگے پر بڑی سی فلم رکھی تھی اور میں نے ٹھیک وہی فلم دیکھ لی ہے۔ کچھ سمجھے آپ؟ یعنی اس دور کے مطابق تانگے پر تشہیر کے لیے رکھے فلمی پوسٹر کے دیکھنے کو اس ناواقفِ حال نے فلم دیکھنا تصور کر لیا اور چاہتا اب یہ تھاکہ اس جرم کی سزا پا کے پاک ہو جائے۔

    قرآنِ مجید نے علم کو تین درجوں میں بانٹ دیا تھا۔ علم الیقین ، عین الیقین اور حق الیقین۔ کسی کے بتانے پر مان لیا تو یہ علم الیقین ہوا، بتانے والے نے بتایا وہاں آگ لگی ہے، بتانے والا جھوٹ بھی بول سکتاہے اور غلطی پر بھی ہو سکتا ہے، سو قرآن نے بتایا، کوئی خبرلائے، تحقیق کر لیا کرو، مبادا پھر مارے شرمندگی سے سر جھکائے پھرو۔ عین الیقین، یعنی آنکھوں دیکھی بات۔ سکرین پر ہم دیکھتے ہیں کہ آگ لگی ہے اور ہیرو اس میں جل کے مر گیا ہے۔ کئی سادہ دل اسی پر رو دیتے ہیں مگر واقفانِ حال ہی جانتے ہیں کہ بظاہر آنکھوں دیکھی فلمی آگ بھی فی الاصل آگ نہیں ہوتی اور یہی جل مرا ہیرو اب کسی اگلی فلم میں پھر سے جل مرنے کی مستعدی فرما رہا ہوتا ہے۔ یعنی آنکھوں کا دھوکہ۔ سراب اس کے لیے کیا مناسب لفظ ہے۔ حق الیقین، یعنی کسی نے آگ کا بتایا، آپ وہاں پہنچے، آنکھوں سے دیکھا مگر پھر اس آگ میں انگلی بھی ڈال دی۔ انگلی جلی تو گویا حق الیقین حاصل ہو گیا۔ افسوس ہم نے اک آوارہ چسکے کی خاطر یہ سب اور دوسرا سب کچھ طاق ِ نسیاں میں رکھ دیا۔ یہ ہمیں یاد تو آتے ہیں مگر جب ہم خود زد پر ہوں۔

    ایسے ہی چلنوں میں پسا، مغرب کا ہر شہرت یافتہ آدمی آج اپنی آزادی اور پرائیویسی صحافت کے ہاتھوں گروی رکھ چکا۔ کیا یہ نہ کہا گیا کہ لیڈی ڈیانا کے اصل قاتل موت کی طرح پیچھے لگے تصویروں اور سکینڈلز کے رسیا کیمرہ تھامے وہ صحافی بھی تھے کہ جن سے بھاگتی ڈیانا جان سے ہاتھ دھو بیٹھی؟ مغرب نے نہیں، انسانی پرائیویسی کا تحفظ اسلام نے کیا تھا۔ یعنی عین اس رویے کو مذموم ٹھہرایا اور اس کی طرف کھلتے سب دروازے بھی سختی سے بند کر دیے۔ مثلاً جاسوسی سے روک دیا، مثلاً غیبت سے روک دیا، مثلاً یہ کہا کہ جو مسلمان کا کوئی دنیا کا عیب چھپائےگا، اللہ اس کے عیب کی قیامت کے دن پردہ پوشی فرمائے گا، مثلاً فرمایا کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کیا کم ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے کر دینے کی عادتِ بد میں مبتلا ہو۔ واقعہ افک میں ایک سبق آسمان سے ہمارے لیے یہ اترا تھا کہ ایسی بات کوسن کے تم نے اگنور کیوں نہ کر دیتے یا پھر اسے سوشلی پھیلا دینے کے بجائے محض اربابِ حل و عقد تک محدود رکھنے کی روش کیوں نہیں برتتے؟ ایک ویب سائٹ یا پیج کو ریٹنگ سے بڑھ کر بھلا کیا عزیز ہو سکتا ہے مگر کیا انسانیت اور اسلامیت سے بھی زیادہ؟ ایک مومن کی عزت سے بھی زیادہ؟ بغیر غلطی کے الزام تو خیر بہتان عظیم ہے، مگر رنگے ہاتھوں پکڑ لینے پر بھی ایسی روش تو اسلام ہمیں ہرگز نہیں سکھاتا۔ سلطانِ مدینہ کی ایک اور وعید ہم بھول بیٹھے ہیں کہ جو بھی کسی کو عار دلاتاہے، تب تک زمیں کے تختے سے وہ زمیں کی آغوش میں سما نہ سکے گا کہ جب تک اسی عیب میں مبتلا ہو کر اس کی رسوائی جھیل نہ لے۔ کیا ہم اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتے کہ فحش خبر کی اشاعت بھی اسلام میں اشاعت فحاشی ہی ہے۔ ہمیں مکافات عمل سے بھی ڈرنا چاہیے ؎
    جو آج ہم زد پہ ہیں تو خوش گماں نہ ہو
    چراغ سبھی کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

  • کتنا ہے مہربان رب اور بھلا کتنا زیادہ؟ حافظ یوسف سراج

    کتنا ہے مہربان رب اور بھلا کتنا زیادہ؟ حافظ یوسف سراج

    یوسف سراج کسی نے کہیں لکھا: ”سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اللہ اتنا مہربان کیوں ہے؟“

    اس پر میں نے جو کچھ وہاں لکھا، جی چاہا وہی کچھ آپ سے بھی شئیر کر لوں. کیا عجب کہ کائنات کے اس سب سے اہم تر معاملے کی کچھ نہ کچھ ہمیں وسعت و حقیقت سمجھ آ سکے اور کیا عجب کہ کسی ایک لمحے کوئی ایک لفظ کسی ایک بھی دل کی دنیا بدل دے اور یوں اس کی وسیع رحمت کی وسعت کا کوئی ایک قطرہ اس خاکسار کا بھی نصیبہ سنوار دے.

    تو بھلا یہ ہماری سمجھ میں کیوں نہیں آتا کہ وہ رب ہم پر اتنا مہربان کیوں ہے؟

    جب ایک خاردار بیری کا درخت پتھر کھاتا اور ہر پتھر کے جواب میں اپنی کوکھ کا بہترین پھل پتھر مارنے والے کو لوٹاتا ہے. جب ایک باپ اپنی گستاخ اور بےمہر اولاد کی ساری غلطیاں اپنی جان پر جھیل کر بھی اولاد کے لیے دعا و دوا اور جہد و جستجو کے طوفان اٹھائے رکھتا ہے. جب ایک بادل برسنے پر آئے تو سبزہ و گل پر ہی نہیں پتھر وصحراور کچرے و کوڑے پر بھی بے دریغ بارش برساتا چلا جاتا ہے. جب ایک سورج اپنے ہر دفعہ طلوع ہونے پر کائنات کی اک اک چیز کو اپنی تابناک کندن میں بھگو کے سونا بناتا جاتا ہے. جب چودھویں کا کوئی ایک چاند محض اپنی فطرت پر کاربند رہتے ہوئے رات میں چھپے ذرے ذرے کو سیال چاندی کے گھونٹ پلاتا جاتا ہے. جب ایک محب اپنی کسی بھی خاکی و خستہ محبوب ہستی پر اپنی جان تک دان اور قربان کرتا چلا جاتا ہے. جب کسی نامعلوم اجنبی راہ گیر و مسافر آدمی کے لیے، کسی ناواقف مظلوم و مجبور کے لیے، کسی اجنبی بھوکے اور بے بس کے لیے ہم ایسے سخت دلوں کا بھی دل پسیج پسیج جاتا ہے.

    تو وہ جو ان سب سے ماورا ہے، اعلیٰ و بالا ہے، بہتر و برتر ہے، جو ان سب کا خدا ہے اور سچا الہ ہے. وہ جس کی دی محبت کے ایک قطرے سے سیراب ہوئے لوگوں کے ایثار و اعجاز کا یہ عالم، یہ منظر اور یہ محبت نامہ ہے اور،،، اور اسی قطرہ کا ماخذ و منبع جس کے پاس قلزم بیکراں ہے.
    وہ جس نے اپنے عرش پر، اپنی رحمت کو اپنے غصے پر چھا جانے کو اپنی سنت و عادت کا سرنامہ لکھوا رکھا ہے.
    اسی خالق کے اپنی مخلوق پر اس قدر مہربان ہونے پر گر ہمیں حیرت ہو تو پھر حیرت کو کیوں نہ ہماری فہم کی اس نارسائی پہ صد بار بلکہ بہزار حیرت ہو.

    اے سوچنے اور پوچھنے والے دوست! جانیے کہ اگر وہ مہربان اور اتنا ہی مہربان ہے تو اور وجوہات کے علاوہ بس اور محض اس لیے بھی ہے کہ وہ خدا ہے اور ایک خدا کو اپنی مخلوق پر بس مہربانی ہی روا ہے. ہزار باپ سے بھی زیادہ، اور صد ہزار ممتائوں کے ممتا نامی طلسم سے بھی زیادہ. اور زیادہ!
    سچ ہی کہا قرآن مجید نے آہ! ہم اسے کبھی نہ سمجھ سکنے والوں کے بارے میں، قرآن نے کہا بھی تو یہ کہا،
    [pullquote]وماقدرواللہ حق قدرہ[/pullquote]

    انسانوں نے اپنے رب کی حقیقی قدر ہرگز نہ جانی، کبھی نہ جانی اور کہیں نہ جانی.
    قدر بھلا ہم جانتے بھی کیسے؟ کہ یہاں تو جو حال ہے، وہ کچھ یوں بےحال ہےکہ ہم
    [pullquote]وما عرفو اللہ حق عرفہ [/pullquote]

    نمونے ہیں. یعنی ہم تو اسے محض اچھی طرح جان بھی نہ سکے. اتنا بھی نہیں، جتنا اپنے پہلو میں سوئی بیوی کو، اپنے سامنے پلتی اولاد کو یا پھر اپنے کسی محبوب کو جانتے ہیں.
    آہ ! جب عالم یہ ہو تو پھر بھلا ہم اس کی قدر پہچانیں بھی تو آخر کس طرح کہ جاننا تو ماننے اور قدر پہچاننے کی پہلی ہی سیڑھی ہے اور ہم ابھی یہیں پہلی سیڑھی پر مارے حیرت کے دم سادھے کھڑے ہیں.

    تو اے لوگو!
    سنو ، ایک بنجارے کی بات سنو!
    سنو! تمھارا رب اتنا مہربان، اتنا مہربان اور اسی کے أنواع و اقسام کے لامتناہی رحم و کرم کی قسم! وہ اتنا مہربان ہے کہ تم نے اس کے رحم کو کبھی ہرگز جانا ہی نہیں ہے.
    وہ اتنا مہربان ہے، اتنا مہربان ہے کہ خود عالمین کے لیے سراپا رحمت ہو جاتے نبی نے اس کی مہربانی کو بتایا تو ایک بار یوں کہ اس کی مہربانی کو دیکھتے کبھی تو یوں بھی لگتا ہے کہ اس کی موسلا دھار اور گرج چمک کے سنگ برسات کی طرح برستی رحمت سے کوئی کافر بھی بن بخشے بچ کے نہ جا سکے گا.
    سو تم جو مومن ہو، اس کے نام سے اور اس کے کام سے کہیں اور کچھ نہ کچھ جڑے ہو. برا یا بھلا، کمزور و ناتوں یا بے نام و نشان سا ہی سہی، اس سے جو کوئی ایک تعلق سا رکھتے ہو تو خدارا اس کی مہربانی کو زندگی کے کسی ایک لمحے رک کر، کبھی نہ کبھی کچھ نہ کچھ تو جان ہی لو نا!
    سنو! وہ اتنا ہی مہربان ہے جتنا کہ ایک لہریں لیتا لامتناہی سمندر، بلکہ اور زیادہ،
    اور وہ اتنا ہی مہربان ہے جتنا کہ کوئی ان گنت ذروں میں بکھرا بےانت پیاسا صحرا مگر اور زیادہ،
    وہ اتنا ہی مہربان ہے جتنی رحمۃ اللعالمین سمیت ساری انسانیت کی کل مہربانی بلکہ کہیں زیادہ، اور زیادہ .
    وہ اتنا ہی مہربان ہے جتنا کل مخلوقات کا اثاثہ تصور و خیال ہے بلکہ مخلوقات کی تعداد سے، سو گنا سے بھی زیادہ، اور زیادہ.

    سنو! ایک آدمی اپنے زندگی بھر کے سرکش گناہوں کے باوجود اس کی رحمت کی لپیٹ میں محض اس لیے آ گیا کہ کسی ایک دن کسی ایک راہ سے اس نے بس کوئی ایک خاردار ٹہنی ہٹا دی تھی اور اس کے سوا اور کچھ نہ کیا تھا.
    اور ایک شخص اپنی وصیت کے مطابق، ایک ایسی وصیت کے مطابق کہ جو اس نے دم آخر اپنی زندگی کے گناہوں سے ڈر کے اپنے رب کی گرفت میں آنے سے بچنے کی تدبیر کے طور پر اپنی اولاد کو کی تھی، اسی وصیت کے بموجب جلا دیا گیا، اور پھر راکھ ہو کر ہوا میں اڑا اور دریا میں بہا دیا گیا. سنو! یہی شخص محض ایک جملے میں بخش دیا گیا. وقت ملاقات رب نے پوچھا، یہ سب ”جلاؤ گھیراؤ“ کیوں کیا؟ کہنے لگا مولا جی! اپنے کرتوتوں کے باعث آپ کی گرفت سے ڈرتا جو تھا، اس لیے جو اوٹ پٹانگ سوجھا سو کیا . اسی ایک بات پر مولا نے کہا بس اسےجنت بھیج دو. حساب کو اور بہت!
    یاد آیا کہ ایک ایسی عورت بھی بخشی گئی کہ جیسی کسی بھی بدنام محلے کی کوئی بھی بدنام ترین حوا کی کوئی ایک بیٹی ہو سکتی ہے. وہ محض اس لیے تپشاں جہنم سے بچا لی گئی کہ کسی ایک تپتی جون کی دوپہر میں اس نے بس کسی ایک پلید کتے کو چند بوندیں پانی پلا دیا تھا.

    ہاں سنیے تو! اس رب کے بارے میں، ایک دن مدینہ کے سلطان نے یہ بھی بتایا تھا کہ ایک شخص نے رب سے یوں ملاقات کی کہ پلے کچھ نہ تھا. بار بار مولا نے کہا، پیش کر غافل عمل اگر کوئی دفتر میں ہے. اس نے کہا کوئی نہیں. پھر جب مولا بہت پوچھ چکا تو جھجھکتے شرماتے اس نے کہا، ہاں اتنا سا البتہ ضرور ہے کہ مجھ تاجر کے کارندے اور ہرکارے جب کبھی وصولیوں کو جاتے تو میں کہتا کوئی مہلت مانگے تو اسے بےدریغ مہلت دے دینا اور جو کوئی تنگدست دیکھو تو بن سوچے فی الفور اسے معاف کر دینا. عمر بھر کی رپورٹ کی جگہ اتنی سی اس نے بات کی اور یہ بھی بخش دیا گیا.

    سو اے لوگو! اے اس کی مخلوق ہوتے انسانو!
    اپنے اس مہربان رب کو پہچانو!
    سنو! تم بس اپنے سادہ سے گمان کو حسن گمان کرلو اور رب کے بارے اپنے الٹے سیدھے ظن کو حسن ظن بنا لو اور یہ بھی جان لو حسن الظن باللہ ہوالعبادہ، اس کے بارے حسن رکھنا بھی ایک عبادت ہے بلکہ کہیں زیادہ.

    ہاں جہاں اتنا جانا، جاتے جاتے یہ بھی جان لو کہ اس نے اپنے بارے خود ہی ایک پتے کی اور بڑے راز کی بات بھی بتا رکھی ہے. اس کا کہنا ہے کہ [pullquote]انا عند ظن عبد بی ![/pullquote]

    میں اپنے بندے کے، میرے بارے میں روا رکھے گئے اس کے حسن ظن جتنا ہی مہربان ہو جاتا ہوں.
    سو اے لوگو! اے انسانو!
    بڑھا دو اپنے حسن ظن کو اور اسے کردو اسے پہلے سے اور زیادہ!

  • قوموں کے لیے موٹر وے ٹو ایکسی لینس  –  حافظ یوسف سراج

    قوموں کے لیے موٹر وے ٹو ایکسی لینس – حافظ یوسف سراج

    بخاراور درد بذات خود کوئی بیماری نہیں ہوتے۔ یہ کسی نہ کسی بیماری کے انڈیکیٹر (اشارے) ضرور ہوتے ہیں۔ یہ بتاتے ہیںکہ جسم میں کوئی قابلِ علاج خرابی جنم لے چکی ہے۔ یوں یہ درد دینے کے باوجود انسانی جسم کے خیرخواہ اور محسن ہوتے ہیں۔ اپنی کم اندیشی کے باعث کچھ لوگ اس کے باوجود درد یابخار کو برا کہنے لگتے ہیں۔ یہ بھی مگر طے ہے کہ ایسے لوگ زیادہ عرصہ یہ زبردستی نبھانہیں پاتے۔ یہ اپنی عاقبت نا اندیشی کے ہاتھوں جلد ہی ناقابلِ علاج ہوکر اعزہ و اقربا کو داغِ مفارقت دے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ باشعور اور سیانے ہوتے ہیں وہ ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں۔ جس سے مرض کی تشخیص بھی ہوجاتی اوراس کا واجب علاج بھی ہوجاتا ہے۔

    ہمارے جسم کی طرح ہی ہماری زندگی بھی ہے۔ موٹر وے پر کسی تیز رفتار گاڑی کی طرح دوڑتی ہماری زندگی میںبھی نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ سطحی سوچ والا آدمی اس پر سر پکڑکے بیٹھ جاتاہے، تاہم اگر وہ سیدنا علی ؓجیسی سوچ رکھتا ہو تو پکار اٹھتاہے ”عرفت ربی بفسخ العزائم۔“ اپنے ارادے ٹوٹنے ہی سے تو میں نے اللہ کی قوت کا عرفان پایا ہے۔ بخار ہی کی طرح زندگی میں آ نے والی ایسی چھوٹی موٹی رکاوٹیں بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت بھی ثابت ہوتی ہیں۔ ان کی وجہ سے ہم اپنی سرپٹ اور بگٹٹ دوڑتی زندگی کو چند لمحے روک کراپنا ، اپنی مصروفیات کا او راپنے اعمال و کردار کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ اپنی اصلاح کرلیتے اور یوں کسی بہت بڑے اور ناقابلِ تلافی نقصان سے بچ جاتے ہیں۔

    قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے: ’’ہم تمھیں چھوٹی چھوٹی آزمائشوں میں ڈالتے ہیں تاکہ تم اپنی روش کی اصلاح کرکے بڑے بحرانوں سے بچ جاؤ۔ عہد رسول میں مسلمانوں کو پہنچنے والے کم ازکم دو ایسے بڑے دردناک واقعات پر قرآن مجید نے یہی تبصرہ فرمایا ہے کہ یہ اپنے اثرات میں تلخ ہونے کے باوجود اپنے نتائج میں برے نہ تھے۔ ایک غزوہ احد اور دوسرا واقعۂ افک۔

    اگر ہم خود کو غور پر آمادہ کر سکیں توموٹر وے پر پیش آنے والے حالیہ واقعہ میں بھی ہمارے لیے کئی اسباق ہیں۔ موٹر وے پولیس نے سادہ کپڑوں میں ملبوس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے ایک آرمی نوجوان کو روکا۔ اس نے گاڑی بھگا دی۔ پولیس آفیسر نے پکڑلیا۔ اب یہاں بات بڑھ کے بگڑ گئی۔ ممکن ہے موٹر وے پولیس کی طرف سے ہی زیادتی ہوئی ہو، بہرحال آرمی آفیسر نے کمک منگوالی۔ جو ہونا تھا ہوا اور اس موٹر وے آفیسر کو وہ لوگ ساتھ لے گئے او ر مناسب ”تواضع“ کے بعد لوٹادیا۔

    ممکن ہے اگر یہ کوئی اور دور ہوتا تویہ واقعہ اخبارات یا میڈیا میں رپورٹ ہونے تک قابو کرکے گم کیا جاسکتا۔ یہ مگر میڈیا ہی نہیں، سوشل میڈیا کا بھی دور ہے۔ سوشل میڈیا نے بڑے کرشمے کر دکھائے ہیں۔ عرب بہار میں مشرق وسطیٰ میں بدلتی حکومتیں ہوں۔ کشمیر و فلسطین اور مصر میں سوشل میڈیا کی کارکردگی یا کامیابی ہو یا پھر اپنے آئی فون کی ایک ایپ سے بغاوت کو بھگادیتے طیب اردوان کے حالات و واقعات ہوں۔ یہ بتاتے ہیں کہ ہم بہرحال ایک اور طرح کے دور میں جی رہے ہیں۔ چنانچہ سوشل میڈیا پریہ واقعہ سیکنڈوں میں وائرل ہوگیا۔ یہاں تک کہ آئی ایس پی آر کے ترجمان جنرل عاصم باجوہ صاحب کو اس پر ٹویٹ کرنا پڑا کہ ہم تحقیقات کر رہے ہیں۔یہی ا س واقعے کا پہلا سبق ہے۔ ہمیں سمجھنا ہو گاکہ زندگی پہلے جتنی ہمارے کنٹرول میں تھی اب اس سے مزید کچھ کم ہو گئی ہے۔

    اس و۱قعہ پر عوامی ردِ عمل حیران کن تھا۔ لوگ پہلی بارایسے کسی واقعہ میں اپنی پیاری فوج کے آفیسر کے بجائے اپنی پولیس کے ساتھ کھڑے تھے۔ یہ وہ لوگ نہ تھے جو سائیبریا سے آئی ٹھنڈ سے ہوئے اپنے نزلے کوبھی فوج کے خلاف استعمال کرنے کا بہانہ بنالیتے ہیں۔ یہ موٹر وے پولیس کا شعبہ تعلقاتِ عامہ بھی نہ تھاکہ جو اپنی تنخواہ حلال کرنے کی تگ و دو کر رہا ہو۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا اپنے ملک کے اس ادارے سے کسی نہ کسی طرح سابقہ پڑچکاتھا اور وہ موٹر وے پولیس کے اخلاق، خدمت اور فرض شناسی کا تجربہ کرچکے تھے۔ حیران کن طور پر مختلف جید لوگوں کی طرف فیس بک وال پر ایسی پوسٹیں نمودار ہونے لگیں، جو معاملے کی ”حساسیت“‘سے قطع نظرموٹر وے پولیس کے دفاع میں بولتی تھیں۔ بڑے بڑے ممتاز، محب وطن اور حالات و واقعات کو سمجھنے والے لوگ اپنے ذاتی واقعات شیئر کرکے موٹر وے پولیس کا کیس لڑ رہے تھے۔

    یہ اس واقعہ کا دوسرا سبق ہے۔ یعنی اگر آپ دیانت داری اور فرض شناسی سے اپنا کام کرتے ہیں تو پھر بھلے اپنا تعلقاتِ عامہ کا شعبہ بنائیں یا سرے سے نہ بنائیں وقت پڑنے پر قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہوجائے گی۔ یہ سبق فوج، پولیس سیاستدانوں اور حکمرانوں، سبھی کے لیے ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ جب تک فلاں قوت ان کے ساتھ ہے اقتدار کا ہما ان کے سر پر رہے گا اور جونہی وہ قوت ان سے ناراض ہوئی اقتدار ان سے چھن جائے۔ ایسا ہو تا بھی ہے، لیکن یہ واقعہ ہمیں چیخ چیخ کے بتاتا ہے کہ دوامِ اقتدار کا ایک طریقہ خدمتِ عوام سے ہوکر بھی گزرتا ہے اور یہ ایسا فول پروف طریقہ ہے کہ جس کے بعد کسی عارضی اور ضمیر کی قیمت پر ادھار لیے گئے طریقے کی محتاجی نہیں رہتی۔

    اس واقعہ پر ہونے والے تبصروں میں کچھ دیر کے بعد ایک اور طبقہ بھی شریک ہوگیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو فوج کے ساتھ اپنی بے لوث محبت میں مشہور تھے۔ انہوں نے قرار دیا کہ اس موقع کو فوج کے خلاف برتا جارہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ان لوگوں کی بد ترین غلطی تھی، کسی سادہ سے واقعہ میں قوم کے اجتماعی دھارے سے الگ ہوکر فوج سے محبت کا اظہار فوج کو متنازع بنانے کی کامیاب کوشش ہوسکتی ہے۔ جب آپ ایسے موقع پر کسی فریق کی حمایت پر تل جاتے ہیں کہ جب ایک فریق طاقت ور بھی ہو، وہ سول کپڑوں میں بھی ہو، اس کے مقابل ایک ستھرا ادارہ بھی ہو اور وہ وردی میں بھی اور پھر اپنی ڈومین میں بھی ہو تو ناصرف آپ اپنی طرف انگلیاں اٹھوانے کا خاطر خواہ سامان کرلیتے ہیں، بلکہ بیچارے اپنے ممدوح کو بھی خاصا قابلِ غور بنادیتے ہیں۔ یہی وہ تعصبات ہیں جو معاشروں سے امن، اصلاح اور ترقی کی سپرٹ چھین لیتے ہیں۔

    بطورِ مسلمان اور بطور اکیسویں صدی کے باشعور شہری ہونے کے ہمیں صرف انصاف کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ ہمیں کہنا چاہیے کہ جرم ہر گز کسی کا استحقاق نہیں۔ کسی کی اہمیت یا عزت اس کے لیے ظلم کا جواز نہیں ہونا چاہیے۔ اس امت میں صحابہ سے بڑھ کر کوئی قابلِ عزت و دفاع نہیں، اس کے باوجود بطور انسان ان سے ہونے والی کوتاہیوں پر انہیں ملنے والی سزائیں ہمارے نظامِ عدل کی اولیں نظیریں ہیں۔ امہات المومنین کو نبیؐ سے قربت کی بدولت جو مقام ومرتبہ حاصل تھا، اس پر انہیں رعایت یا استثنا دینے کے بجائے کسی بھی ارتکابِ جرم پر قرآن مجید نے دہری سزا کی وعید سنائی ہے۔ خالد بن ولیدؓ جیسابے مثل سپہ سالاراسلامی تو کیا عام تاریخ میں بھی نہیں گزرا۔ معمولی کوتاہی پر اور اصلاً نظم قائم کرنے کی خاطر ان کی معزولی مجمع عام میں کر دکھائی گئی۔ آفریں ہے کہ انھوں نے کسی وقار کی بات نہیں کی۔ گورنرِ مصرعمرو بن عاص ؓکے بیٹے نے کسی معاملے میںایک شخص پرکچھ ظلم کر ڈالا تو خلیفہ عمر ِ فاروقؓ نے ان کے بیٹے کو کوڑے لگانے کے بعد گورنر باپ کو بھی میدان میں طلب کرلیا کہ وہ باپ بھی کوڑوں کا مستحق ہے کہ جس کی گورنری کی شہ پاکر بیٹے کو زیادتی کی جرات ہوئی۔

    یہی قوموں کی زندگی میں ترقی اور ایکسی لینس کا موٹر وے ہے اور سنا ہے مغربی قوموں نے بھی اسی سے ترقی کی ہے، واللہ اعلم!

  • پیاری لائبہ! بھتیجی کے نام اک انکل کا خط  – حافظ یوسف سراج

    پیاری لائبہ! بھتیجی کے نام اک انکل کا خط – حافظ یوسف سراج

    یوسف سراج پیاری لائبہ!
    ذرا سا ٹھہرنا بیٹا! میں پہلے تمہیں یہ بتادوں کہ آخر میں آپ کویہ خط کیوں لکھ رہا ہوں۔ دراصل آپ بچہ لوگ اتنے ذہین ہوتے ہو اور اتنے اچھے ہوتے ہو کہ ہم جیسے بڑوں سے زیادہ نئی نئی چیزوں کے بارے میں جانتے ہو اور ہر چیز کے بارے میں کئی طرح سے اچھا اچھا اور پیارا پیارا سا سوچتے بھی بہت رہتے ہو۔ اور پھرسوچ سوچ کے سوال بھی ایسے کرتے ہو کہ سچ بتاؤں تو جن کے ہم بڑوں کو بھی جواب نہیں آتے۔ اس پر ہم بڑے شرمندہ ہو جاتے ہیں۔

    پیاری بیٹی! اس کا حل ہم بڑوں نے یہ نکالا ہے کہ آپ بچہ لوگوں کے کسی مشکل سوال سے پہلے ہی ہم اپنی طرف سے کوئی نہ کوئی وضاحت دے دیتے ہیں۔ وضاحت کا تو پتا ہے نا آپ کو؟ یعنی Explanation نہیں بیٹا Excuse نہیں Explanation . لگتا ہے کہ آپ کچھ کچھ شرارتی بھی ہو، یعنی بہت ذہین ہو۔ شرارتی بچے بڑے ذہین ہوتے ہیں۔ اور ہاں ویسے سچ کہو تو ہماری یہ Explanationبھی ایک Excuse ہی ہوتی ہے۔

    لہٰذا اس سے پہلے کہ آپ دل ہی دل میں یہ سوچ کر اپنے چچا پر پیاری سی ہنسی ہنسنے لگو کہ آپ کے اس والے انکل کے پاس شاید فون کرنے کے لیے موبائل ہی نہیں ہے۔ یعنی شاید 3310والا نوکیا بھی نہیں ہے۔ تو دیکھو، بیٹا ایسا نہیں ہے۔ موبائل تو میرے پاس بھی ہے اور بیٹا! سچ کہہ رہا ہوں، آج تو بیلنس بھی ہے ۔ لیکن پیاری لائبہ! ایک بات بتاؤں؟ بیٹا اصل میں کچھ باتیں کہی تو کئی طرح سے جاسکتی ہیں مگر وہ کسی ایک طرح سے زیادہ اچھی طرح بھی کہی جاسکتی ہیں۔ یہ بات سمجھنا آپ کے لیے بالکل مشکل نہیں ہوگا۔ کیونکہ آپ کو وہ والا طریقہ تو ضرور آتا ہو گا نا کہ جب آپ کو اپنی کوئی اچھی سی فرمائش اپنے پاپا یا مما سے منوانا ہوتی ہوگی تو آپ ضرور کسی خاص طریقے سے ہی بات کرکے، اپنی وہ بات منوالیتی ہوں گی۔ ایسے طریقے آپ بچوں کو اور بچوں کی مما جانوں کو بھی بہت آتے ہیں۔

    تو خیر، اب مجھے امید ہے کہ آپ ضرور میری بات غور سے سن لیں گی۔ کیا کہا؟ سن نہیں لیں گی، پڑھ لیں گی؟ اوہ! اچھا اچھا! آپ نے ٹھیک ہی کہا ہے بیٹا۔ سننے کے بجائے آپ تو پڑھیں گی۔ دیکھا! میں نے کہا تھا نا کہ آپ لوگ بہت ذہین بچے ہو اور ہرطرح سے سوچتے بھی بہت ہو۔ تو ٹھیک ہے مجھے یہی کہنا چاہیے تھا کہ آپ میری بات پڑھ لو گی۔ ظاہر ہے خط پڑھا ہی جاتاہے ،سنا نہیں جاتا۔

    اچھا تو بیٹاسنو! آپ ایک بہت ہی پیاری سی بیٹی ہو، بہت ہی پیاری۔ اتنی پیاری کہ جس کا بابا اتنا مصروف ہونے کے باوجود بھی اپنی بیٹی کو خط لکھتا ہے۔ اور پھر اتنے پیار سے لکھتا ہے کہ بہت سے بچے اب سوچا کریں گے کہ ان کے بابا بھلا انہیں ایسا اچھا خط کیوں نہیں لکھتے؟ اے بیٹی! ذرا کان پاس لانا، تاکہ میں ایک راز کی بات بتاؤں آپ کو۔ دیکھنا! کہیں آپ کی آنٹی نہ سن لیں ورنہ وہ پھر ایک اور خط لکھ دیں گی۔

    بات یہ ہے بیٹا جانی کہ آپ تو اس سے بھی کہیں زیادہ خوش قسمت ہو۔ اس لیے کہ آپ کو ایک بہت پڑھے لکھے اور پیار کرنے والے بابا ملے ہیں۔ دیکھیں وہ آپ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر فلم بھی دیکھ لیتے ہیں۔ آپ کو پتا ہے؟ ایسے بابا سب کے نہیں ہوتے۔ پھر بیٹا !آپ کی سب سے بڑی خوش قسمتی تو یہ ہے کہ آپ کے بابا اتنے پیارے ہونے کے ساتھ ساتھ آپ سے ایسی اچھی اچھی باتیں بھی کرتے ہیں کہ جن کا فائدہ آپ کو بہت بعد تک بھی ہوتا رہے گا۔ اور وہاں کی نئی دنیامیں بھی ہوتا رہے گا کہ جہاںہم سب نے چلے جانا ہے۔

    آپ یوں سمجھیں کہ یہ ایک پریوں کا دیس ہے اور بڑا ہی خوبصورت دیس ہے۔ وہاں بہت سے رنگ برنگے کھلونے ہیں اور ڈھیر ساری تتلیاں، چاکلیٹیں اور اتنے پیارے پیارے کپڑے، جوتے اور اتنا کچھ ہے کہ بس کیا ہی بتاؤں۔ یہ نا بیٹا! بس آپ ہی جیسے اچھے اچھے بچوں کے لیے دنیا بنی ہے۔ وہ بچے جو اپنے ایسے اچھے اچھے بابا جانوں کی اچھی اچھی باتیں سنتے اور پھر مانتے بھی ہیں۔ ان کے لیے۔

    بیٹا! میں دراصل آپ کو یہ خط اس لیے نہیں لکھ رہا کہ آپ کے بابا جان نے آپ کو ایک خط کیوں لکھ دیا۔ وہ آپ کے بابا ہیں اور روز آپ کو خط لکھ سکتے ہیں۔ دراصل میں اس لیے خط لکھ رہا ہوں بیٹا کہ اس کے بعد آپ کی ایک آنٹی نے بھی آپ کے نام ایک خط لکھ دیا ہے۔ جس میں اس پیاری سی آنٹی نے آپ کے پیارے سے بابا کو تھوڑا تھوڑا wrong بھی کہا ہے۔ بھلا آپ ہی بتائیے کبھی اتنے پیارے بابا بھی رونگ ہوتے ہیں؟ ہوتے بھی ہوں تو بیٹا سب کے سامنے اگر انہیں رونگ کہیں گے تو ہماری پیاری سی بیٹی لائبہ ناراض اور پریشان بھی ہوجائے گی نا۔ یہ تو بری بات ہوئی نا بیٹا! کسی آنٹی کو بچوں کو یہ تو نہیں سکھانا چاہیے نا؟

    سنو بیٹی جی! آپ ایک بات زندگی میں کبھی بھولنا نہیں، یہی ایک آنٹی ہی نہیں، آپ کو زندگی میں بہت سے دوسرے بھی ایسے کئی لوگ ملیں گے۔ وہ آپ سے بہت پیار کرتے نظر آئیں گے۔ لیکن بیٹا وہ اگر یہ کہیں کہ آپ کے بابا اور ماما سے بھی زیادہ وہ آپ سے پیار کرتے ہیں تو بیٹا یہ جھوٹ ہوگا۔ سنو، بیٹا! ایسی باتوں کی اچھی طرح سمجھ تب آتی ہے، جب اللہ ہمیں بڑے کرتا ہے اور پھر پیارے پیارے سے بچے بھی ہمیں دے دیتا ہے اور ہمیں کہتا ہے کہ اب ان بچوں سے پیار بھی کرو اور انہیں اچھی اچھی چیزیں بھی لا کردو۔

    بیٹی جی! اس طرح آپ بھی یہ سب ایک دن جان جائیں گی۔ مگر کافی بعد میں۔ اس لیے ایک تو یہ بات ابھی سے یاد کرلینا۔ پھر بیٹا یہ جو لفظ ہے نا آنٹی۔۔۔! اصل میں یہ پہلے نہیں ہوتا تھا۔ تب نا بیٹا چچیاں، پھپھیاں اور تائیاں، خالائیں وغیرہ ہوتی تھیں۔ اب بیٹا! ان آنٹیوں کے پاس نا، نالج تو بہت ہے مگر بیٹا! نالج کبھی پیار کا بدل نہیں ہوتا اور نہ ماں باپ کی محبت ہی کا۔ ورنہ پڑھے لکھے لوگ اپنے ماں باپ کو کبھی نہ روتے۔

    پیاری بیٹی !
    آپ کی آنٹی کا خیال ہے کہ آپ کو اپنے بابا کا خط پڑھ کے دکھ ہوا ہوگا۔ لگتا ہے کہ آپ کی آنٹی کو ان کے بابا نے کبھی خط نہیں لکھا۔ ورنہ انہیں پتا چل جاتاکہ بیٹیاں بابا کا پیارا سا خط پڑھ کے خوش ہوتی ہیں، پریشان نہیں ہوتیں۔ انہوں نے لکھا کہ آپ کے بابانے خط میں بیٹوں کو کچھ نہیں لکھا۔ دیکھا آپ نے؟ آنٹی جی کو یہ بھی نہیں پتا کہ جب یہ خط بیٹوں کو لکھا ہی نہیں گیا اور بس آپ ہی کو لکھا گیا تھا تو پھر اس میں کسی اور سے کیسے بات کی جاتی؟ اور بیٹا یہ بھی غور سے سننا کہ جو راز کی باتیں اپنوں سے ہوتی ہیں، وہ سبھی سے نہیں ہوتی ہیں۔ آنٹی نے کہا کہ آپ کے بابا نے خط میں بیٹوں کو حیا نہیں سکھائی۔ مجھے لگتا ہے یہ آنٹی مذاق کررہی ہیں۔ وگرنہ اگر یہاں نہیں لکھا تو بھلا یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ انھوں نے بیٹوں کو کلین چٹ دے دی ہے۔ پھر بیٹا اس آنٹی سے پوچھیے گا کہ آپ اپنے پیسے تالے میں رکھنے کی بجائے، چوروں کو کیوں نہیں سمجھاتیں کہ وہ چوری ہی نہ کریں۔ ظاہر ہے اس سے معاشرہ کتنا اچھا ہوجائے گا۔ ویسے پوچھیے گا تو سہی بیٹا کیا پتا آنٹی صاحبہ پیسے واقعی گلے کے بجائے گلی ہی میں رکھتی ہوں۔

    بیٹا! آپ تو سکول جاتی ہو، آپ کو تو پتا ہے کہ اپنی چیز کی خود ہی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔ خود لاپروائی کریں تو ٹیچر ہمیں بھی ڈانٹ دیتی ہے کہ آپ نے اپنی چیز کا خود کیوں خیال نہیں رکھا۔ ہاں اگر ہم نے خیال رکھا ہو اور چیز گم ہوجائے توٹیچر ہمیں نہیں ڈانتی ۔اور بیٹا! آپ کو پتا ہے ناکہ جوچیز جتنی زیادہ قیمتی ہو، اتنا ہی اس کا زیادہ خیال بھی رکھا جاتاہے۔ بیٹا یقین ماننا کہ آپ کے بابا اور ماما کے پاس آپ سے زیادہ قیمتی چیز اور کوئی نہیں۔ ان کی دولت تو کیا ان کی جان بھی نہیں۔ بیٹا آپ کے اس انکل کی ابھی کوئی بیٹی نہیں۔ مگر اس انکل کے بچوں اسید، حمید اور عزیر کی مما جان بھی ایک بیٹی ہیں۔ آپ کے انکل کی مما بھی ایک بیٹی ہیں۔ میرے بابا کی بھی ایک بیٹی ہے، یعنی میری بہنا۔ بیٹا کیا بتاؤں کہ یہ سب اتنی اچھی ہیں کہ اگر یہ نہ ہوتیں تو آپ کے انکل بالکل بھی نہ ہوتے اور اچھے تو بالکل بھی نہ ہوتے۔ تو دیکھا آپ نے کہ جو بیٹیاں اتنی قیمتی ہوں کہ ان کے ہونے سے ہم زندہ ہوں تو کیا اب ہم ان کی قدر اور ان کا خیال بھی نہ کریں۔

    ایک بات اور سننا بیٹا!
    آپ کی آنٹی کہتی ہیں ’’دینی تعلیمات اور معاشرتی روایات کا بھی خیال رکھنا۔‘‘ آپ پوچھیے گا تو سہی کہ اچھی آنٹی جی! یہی تو میر ے پیارے بابا جانی نے لکھاہے۔ پھر میرے بابا آپ کے نزدیک غلط کیسے ہیں؟ آنٹی نے کہا کہ آپ کے بابا کی محبت میں ڈر چھپا ہے۔ بیٹا! تو اس میں بھلا برا ہی کیا ہے؟ ڈر نہ ہو توبھلا محبت ہوتی بھی ہے۔ بیٹا! جس کے پاس قیمتی چیز ہو وہ اس کی حفاظت کے لیے چوروں سے ڈرے تو اس میں کیا غلط ہے۔ بیٹا! یہ توبس محبت ہے، ہمارا تو ایمان بھی ڈر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ بے ڈر تو بس وہی ہوتا ہے جس میں عقل نہ ہو۔

    آپ نے دیکھا ہوگا کہ کئی پاگل لوگ آگ میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں۔ اگر آگ سے نہ ڈرنا ہی اچھی بات ہوتی تو ضرور آپ کی آنٹی بھی آگ میں ہاتھ ڈال دیتیں؟ لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ کبھی آگ میں ہاتھ نہیں ڈالتیں، وہ بھی آگ سے ڈرتی ہیں۔ وہ چھپکلی سے بھی ڈرتی ہوں گی۔ مگر آپ کے بابا کو ایسے ہی ڈرنے والا کہہ رہی ہیں۔ آنٹی جی نے یہ بھی کہا، آپ آرٹ مووی دیکھیں گی تو آپ کے بابا کے ڈر کا کیا عالم ہوگا؟ انہیں کہیے گا آنٹی جی ہر چیز کا ایک وقت اور ایک عمر ہوتی ہے۔ آپ کے بابا جیسے اچھے لوگوں کی یہ پیاری لائبہ پہلی بیٹی نہیں ہے۔ پوچھیے گا آنٹی جی! کیا آپ بچوں کو پالنے میں ہی آرٹ مووی دکھانے لے جاتی ہیں؟ بیٹا! اپنی اچھی آنٹی کو یہ بھی بتائیے گا کہ اگر کوئی پیاری بیٹی سے اچھی بات کرلے تو ا س کایہ مطلب نہیں ہوتاکہ اب لازماً ہی باپ نے ابو بکر کا راستہ چھوڑ کرکوئی اور راہ اپنالی ہے۔ برے لوگ ہی نہیں اچھے لوگ بھی اچھی بات کرلیتے ہیں۔ یہ ضرور آنٹی کو بتادیجیےگا۔

    آنٹی جی سے یہ بھی کہیے گا کہ ضروری نہیں ہوتا کہ ایک ہی گھر میں رہ کے مکتوب اور مکتوب الیہ (مشکل سے لفظ ہیں نا؟ اللہ آنٹی سے سمجھے!) کی تفصیل نہ ہی لکھی جائے۔ بیٹا! یاد ہے نا جب آپ نے کوئی بات منوانی ہو اور پاپا مان نہ رہے ہوں تو آپ کیا کہتی ہیں؟ پاپا! کیا میں آپ کی بیٹی نہیں ہوں؟ تو کیا اس وقت پاپاکو پتا نہیں ہوتا کہ آپ ان کی بیٹی ہی ہیں؟ پتا ہی ہوتا ہے، مگر یہ محبت اور لاڈ کا اظہار ہوتا ہے۔ کچھ چیزوں کا ذکرعلم میں اضافہ کرنے کے لیے نہیں، احسا س دلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

    مثلاً: آپ کو پتا ہے ناکہ یہ حج کے دن ہیں۔ انہی دنوں ہمارے پیارے نبی نے مکہ شہر میں اپنے ساتھیوں سے پوچھا تھاکہ یہ کون سا شہر ہے؟ کون سا مہینہ ہے؟ اور کون سا دن ہے؟ اب آپ ہی بتائیے کہ کیا آپ نہیں جانتے تھے یا آپ کے ساتھی یہ سب نہیں جانتے تھے؟ جانتے تھے۔ توبیٹا! یہ جو آپ کے بابا نے آپ کو خط میں بتایا ہے کہ وہ خط کہاں سے لکھ رہے ہیں تو اس پر آپ کے بابا کو ایسی کسی بھی آنٹی سے ٹیوشن لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہاں آنٹی جی کو یہ ضرور سیکھنا چاہیے کہ بچے کس سطح کی زبان میں لکھا گیاخط پڑھ سکتے ہیں۔ اور یہ کہ بڑوں کی لڑائی بچوں کے ذریعے لڑنا کم ازکم مہذب گھروں اور پڑھے لکھے لوگوں کا طریقہ نہیں ہوتا۔

    آنٹی جی کو یہ بھی بتائیے گاکہ یہ جو انہوں نے آپ کو فرشتوں کی حفاظت کی دعا دی ہے، اس پر ان کا بہت شکریہ، یہ بھی لیکن بتا دیجئے گا کہ فرشتے ان کی حفاظت کبھی نہیں کرتے جو خود اپنی حفاظت کی ضرورت ہی نہ محسوس کرتے ہوں۔

    پیاری بیٹی !
    خط طویل ہوگیا۔ آپ بور ہوگئی ہوں گی۔ مجھے معاف کردینا بیٹا! اب اس وقت عید شروع ہونے میں چند ہی گھنٹے رہ گئے ہیں، اس لیے مجھے جلدی جلدی لکھنا پڑا۔ جلدی جلدی لکھی بات لمبی ہوجاتی ہے۔ دعاہے کہ اللہ آپ جیسی ساری پھول سی بچیوں اور ان کے پیارے بابا جانوں کو ایسی دوری پیدا کرنے والی آنٹیوں سے بچائے۔ لیجیے اب آپ مزے سے عید کیجیے۔ ہاں یہ بھی بتائیے گا کہ بہاولپور میں گرمی لاہور سے زیادہ تو نہیں ہے؟ اور ہاں وہاں اب اچھے آم تو نہ ملتے ہوں گے۔ سیزن جوختم ہوگیا ہے، اس لیے آموں کی ضد نہ کرنا۔ پتا نہیں اب آپ کے بابا وہاں کیا کھائیں گے۔ خیر، جو بھی کھائیں، انہیں سلام کہنا۔
    آپ کا پیارا
    ایک انکل (غور سے پڑھنا، دیکھنا کہیں، مجھے اینکل نہ پڑھ جانا!)
    اللہ حافظ !

  • مظلوم بھی میرا ہے اور ظالم بھی میرا – حافظ یوسف سراج

    مظلوم بھی میرا ہے اور ظالم بھی میرا – حافظ یوسف سراج

    یوسف سراج قصور کس کا تھا اور غصہ پرور انا کس کی تھی ، مجھے معلوم نہیں، مگر جب کسی طاقتور کا گھونسہ کسی کمزور پر پڑتا ہے تو میرا ہاتھ بےاختیار اپنے گال کی طرف اٹھ جاتا ہے. ایسے سمے مجھے دل میں درد اور گالوں پر طمانچے کے نشاں محسوس ہوتے ہیں اور میرے کانوں میں سناٹے چیخنے لگتے ہیں.

    مجھے یاد آتا ہے کہ نبوت سے پہلے ایک دن میرے رسول اکیلے ہی ایک کمزور کے ساتھ مکہ کے سبھی ناخدائوں سے ٹکرانے نکلے تھے، اور پھر ایک دن آپ نے ارشاد کیا تھا، قومیں اس لیے تباہ ہوگئیں کہ انھوں نے کمزور پر طاقت کا قانون لاگو کیا، اور اشرافیہ کو مگر قانون سے بالاتر کر دکھایا. مجھے یاد آتا ہے کہ کسی دن مدینہ میں، سب سے پیارے ہوتے سفارشی اسامہ سے میرے اس حبیب رسول نے کہا تھا، یہ تو قریش کی ایک فاطمہ ہے، اگر یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی لخت جگر فاطمہ بھی ہوتی، اور چوری کر بیٹھتی تو میں سو جان سے اپنی لاڈلی پر قربان رحمہ العالمین باپ، اس پھول سی فاطمہ کی نازک کلائی سے اس کا ہاتھ الگ کر دیتا! ضرور کر دیتا اور کوئی محبت مجھے روک نہ سکتی. اس لیے نہ روک سکتی کہ سب محبتوں بالا میری اک محبت اس ذات سے بھی ہے کہ جس کے حضور اک دن سبھی محبتوں اور طاقتوں کو جوابدہ ہونا ہے.

    درد ہے اور اس سے کہیں زیادہ جتنا کسی پھول سے کشمیری پر کسی ظالم بھارتی سینا کے پڑے گھونسے سے ہوتا ہے. اور زیادہ، کہیں زیادہ. اور یہ دو طرفہ بھی ہے. یعنی کچھ اور اذیت ناک!
    مظلوم ہی ہمارا ہونا تھا اے کاش! کم از کم ظالم ہی کسی اور کے حصے میں آیا ہوتا! آہ! میری قسمت مظلوم بھی میرا ہے اور ظالم بھی میرا! اور اب جو خسارہ ہونا ہے وہ بھی میرا، جو ہو چکا وہ بھی میرا. کوئی شاعر ،کوئی ادیب مجھے وہ نوحہ بتائے، جسے وہ باپ گا سکے ،جس کا ایک بیٹا قاتل ہو اور ایک مقتول! کیا وہ باپ یہی کہے گا :دو ینگ آفیسرز نے. …. دو ینگ اور اب یعنی انصاف بھی ہوگا! ٹویٹ میں کہا یہ گیا ہے کہ جتنا انصاف دو ینگ آفیسر کر گئے، اس کے علاوہ ابھی کچھ اور بھی”انصاف“ کیا جائے گا. مارے دہشت کے میرے دونوں ہاتھ میرے دونوں رخساروں سے چمٹ گئے ہیں.

    اور ہاں آپ سب کو عید مبارک ! کل عید بھی تو ہے نا! سوچتا ہوں کاش موٹر وے کے کمزور کی اس زندگی میں یہ آخری قربانی ہو!

  • خطبۂ حج 2016 کا مکمل اردو ترجمہ

    خطبۂ حج 2016 کا مکمل اردو ترجمہ

    تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔ ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں،اسی سے معافی مانگتے ہیں، اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اپنے نفس کے شر سے اور اپنی بد اعمالیوں سے اللہ ہی کی پناہ میں آتے ہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے اللہ رب العزت گمراہ کر ڈالے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ ہم اللہ تعالیٰ کی تعریف اسی انداز میں کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند اور اللہ تعالیٰ کے شایان شان ہو۔ ہم اللہ تعالیٰ کی خوب تعریف بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ یقینًا ہم تیری تعریف کما حقہ ادا نہیں کر سکتے اور اے اللہ ہم کبھی کما حقہ تیرا شکر ادا نہیں کر سکتے۔ بہرحال ہم اللہ کی اتنی تعریف کرتے ہیں کہ جس سے آسمان کا ہر گوشہ زمین کا ہر کونہ اور سمندر و خشکی کی ہر ذرہ بھر جائے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ کی بے شمار رحمتیں ، بے بہا برکتیں اور ان گنت سلامتی نازل ہو آپ ﷺ پر، آپ ﷺ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر۔

    بعد ازاں!
    لوگو! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی تلقین کرتا ہوں۔’’اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘ (آل عمران:102)
    ’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔‘‘ (النساء:1)
    ’’اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔‘‘ (احزاب:81-80)

    اے ابن آدم! تو ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ یاد رکھ! قیامت کے بے حد طویل دن میں تجھے اس کا ثمرہ ملے گا اور آج کی اس محنت سے تو اس سخت دن میں خوش ہو جائے گا۔
    یاد رکھئے ! اگر انسان کو زندگی اور جہان کی تمام آسائشیں یکجا ہو کر بھی میسر آ جائیں لیکن اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت آدمی تقویٰ سے خالی ہو تو اسے زندگی کی تمام آسائشوں کا ذرہ بھر فائدہ نہیں ہو سکے گا۔

    اے امت اسلامیہ!
    اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں ایک دوسرے کاجانشین اور خلیفہ بنا کر بے پناہ عزت اور شرف عطا فرمایا ہے۔ اللہ کا فرمانِ ذیشان ہے۔ ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘‘ (البقرۃ:30)
    اللہ تعالیٰ کا انسان کو زمین میں خلیفہ اور جانشین بنانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ زمین میں تعمیر و اصلاح کا کام کرے۔ نیکی اور بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ لوگوں کے درمیان عدل قائم کرے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سے رسول مبعوث فرمائے ہیں تاکہ وہ عظیم پیغام لوگوں تک پہنچائے اور یوں لوگوں کے پاس اپنی غلط روش اور گمراہی کی کوئی حجت اور دلیل باقی نہ رہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ اُن کو مبعوث کردینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت نہ رہے۔‘‘ (النساء:165)
    اللہ تعالیٰ نے اپنے ان مبعوث کردہ رسولوں کی تائید بڑی عظیم نشانیوں اور معجزات سے فرمائی ہے جو ان انبیاء کی نبوت کی سچائی پر بڑی واضح دلالت کرتی ہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا۔‘‘(الحدید:25)
    پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کی طرف ہمارے پیارے نبی،محترم ، رسول مکرم، ساری اولادِ آدم کے سردار، تمام نبیوں کے امام اور خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ ہم نے تمہیں گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔‘‘ (الاحزاب:45)

    آپ ﷺ سچے اور کھرے دین اسلام کے ساتھ مبعوث فرمائے گئے جس نے لوگوں کے لیے زندگی کا ہر راستہ روشن کر دیا اور خالص توحید کی طرف رہنمائی فرمائی۔ اسی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو شرک کی آلودگی اور اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے سے بچا لیا۔ دین اسلام کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اپنے جیسی مخلوق کی غلامی سے آزاد فرما کر خالق حقیقی کی غلامی سکھائی ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے واضح ہدایت کا دروازہ کھولا اور کامیابی کی راہ کی طرف بہترین رہنمائی فرمائی ہے، تاکہ لوگ ادھر ادھر رائیگاں بھٹکنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف یکسو ہو کر متوجہ ہو جائیں،اور یوں اپنی پیدائش کا حقیقی مقصد اور تخلیق انسانی سے وابستہ اللہ کی مقدس حکمت پوری کریں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’میں نے جن اور انسانوں کو اِس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘ (الذاریات:56)
    اسی طرح فرمایا: ’’ہم نے تُم سے پہلے جو رسُول بھی بھیجا ہے اُس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔‘‘ (انبیاء:25)
    دیکھئے، اس آیت مبارکہ سے کس قدر توحید کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ دراصل توحید ہی لوگوں کے ذمے اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اسی کے لیے رسولوں کو مبعوث کیا گیا اور اسی کی خاطر کتابیں نازل کی گئیں۔

    سو اے اللہ کے بندے! اپنے یکتا خالق کے منفرد و ممتاز راستے پر یکسوئی سے گامزن ہو جا۔ میرا مطلب ہے کہ حق اور ایمان کی راہ پر یکسو ہو جا۔
    اسلام دین حق لے کر آیا ہے، چنانچہ اب کسی مسلمان کو قطعاً زیب نہیں دیتا کہ وہ اس دین میں شک کرے ۔ یاد رہے ، اب اللہ تعالیٰ دین اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین قبول نہیں فرمائے گا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
    ’’یہ دین اس لیے آیا ہے تاکہ لوگوں کو خیر اور بھلائی کی ترغیب دلائےاور نجات اور کامیابی کی طرف انسانیت کی رہنمائی کرے۔ ‘‘

    اے بیت اللہ کے حاجیو!
    وہ وقت یاد کیجے کہ جب میرے اور آپ کے عظیم نبی محمد ﷺ ٹھیک اسی عظیم جگہ پر قیام پذیر ہوئے تھے، اسی مقدس جگہ پر کھڑے ہو کر
    آپؐ نے حقوق انسانی کا واضح منشور یعنی حجۃ الوداع کا عظیم خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ جس میں آپ ﷺ نے دین اسلام کے بنیادی ارکان واضح فرمائے تھے اور جاہلیت کی خرافات ختم کرنے کا واضح اعلان فرما دیا تھا۔ اس خطبے میں رسول مکرم ﷺ نے لوگوں کی جانیں انتہائی محترم قرار دی تھیں۔ آپ ﷺ نے خطبہ ارشاد کرتے ہو ئے فرمایا تھا، آج دین کامل اور ،مکمل ہو گیا، دین کے تمام احکام بالکل واضح ہوگئے، اللہ تعالیٰ کی نعمت پوری ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس دین کو لوگوں کے لیے پسند فرما لیا۔ اور پھر آپ ﷺ نے لوگوں کو الوداعی کلمات سے ایسے اشارے دئیے کہ جس سے لگتا تھا ،یہ اس طرح کی آخری ملاقات ہے ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے ۔‘‘ (المائدہ:3)

    نبی کریم ﷺ نے اس مبارک دن میں کیسا عظیم خطبہ ارشاد فرمایا اور کیا ہی عمدہ نصیحتیں فرمائیں۔ گو یہ ایک مختصر خطبہ تھا تاہم دین کے تمام اصول اس میں سمٹ آئے تھے۔ آپ ﷺ نے لوگوں کے ذہنوں میں دین اسلام کے أصول راسخ فرما دئیے تھے۔ اور بڑے اور بنیادی اصولوں کا ذکر کرتے ہوئے جزئیات اور تفصیلات کی طرف بھی اشارہ فرما دیا تھا۔

    یقینا آپ ﷺ نے لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانے کیے بڑی محنت اور کوشش فرمائی تھی تاکہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت سے ایک نئی اور توانا امت جنم لے جو واضح اہداف کی حامل ہو اور جو عظیم اصولوں پر عمل پیرا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو انسانوں کی گمراہی کے بعد ہدایت عطا فرمائی، انتشار اور تفرقے کے بعد اجتماعیت اور اتحاد نصیب فرمایا اور جہالت کے بعد علم و دانش عطا فرمائی۔ آپ ﷺ نے خطبۂ حجۃ الوداع میں حقوق انسان واضح فرمائے اور آزادی کا مفہوم بھی متعین فرما دیا۔ انسانی عزت و کرام کے اصول واضح فرمائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سنو! تمھارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے کے لیے اسی طرح قابلِ احترام ہیں جس طرح اس ملک اور اس شہر میں یہ دن حرمت والا ہے۔‘‘

    اسلام نے ان پانچ ضروری چیزوں کی حفاظت یقینی بنائی ہے جس کے بغیر انسان کی زندگی ٹھیک طرح چل ہی نہیں سکتی۔ اسلام نے دین، جان، مال، عقل اور عزت پر حملہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ یہ اسی لیے ہے تاکہ لوگ امن وامان اور اطمینان کے ساتھ زندگی جی سکیں۔ دنیا وآخرت کے لیے اطمینان سے کام کر سکیں اور سارا معاشرہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح اتحاد واتفاق کے ساتھ قائم اور استوار رہ سکے۔ تاکہ لوگوں کے احوال سنور جائیں اور ان کے معاملات درست ہو جائیں۔ آپ ﷺ نے اپنے عظیم خطبے میں مسلمان عورت کے بارے میں بھی نصیحت فرمائی۔ اس کے حقوق اور فرائض واضح فرماتے ہوئے یہ بھی واضح فرما دیا کہ ایک مسلمان عورت کو کیا ادا کرنا ہے اور بدلے میں کیا وصول کرنا ہے۔

    اے مسلمانو!
    اسلام نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اولادِ آدم ہونے کے لحاظ سے سب لوگ ایک جیسے ہیں۔ سب کے حقوق اور واجبات بھی ایک ہی جیسے ہیں۔ کسی عربی اور عجمی میں تقویٰ کے سوا کوئی فرق نہیں۔ کسی کو کسی پر کوئی نسبی یا نسلی برتری نہیں۔ کسی کو بر بنائے رنگ بھی کسی دوسرے پر کوئی برتری نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگو! تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمھارا باپ بھی ایک ہی ہے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’حقیقت میں اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘ (الحجرات:13) کسی عربی کو کسی عجمی پر تقویٰ کے علاوہ کوئی فضیلت نہیں۔

    اسی طرح اسلام کا اقتصادی نظام بھی بڑا منفرد اور شاندار ہے۔ اس میں لوگوں کی انسانی اور فطری ضروریات کا خیال بڑے توازن کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ جس کی مثال کسی دوسرے نظام میں نہیں ملتی۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر۔‘‘ (القصص:77)

    اسلام نے مالی لین دین کے عظیم اور مفید اصول وضع کیے ہیں جو سچائیاور عدل واحسان پر مبنی ہیں۔ ظلم، جہالت، دھوکے بازی، مکاری اور فریب کاری جیسی خرافات اور انسانوں کو گھاٹے میں ڈالنے والے معاملات سے روکتے ہیں۔ رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے: ’’دو تجارت کرنے والے اپنے معاملے میں اس وقت تک آزاد ہیں جب تک وہ سودہ کر کے الگ نہ ہو جائیں۔ اگر وہ سچائی کی بنا پر تجارت کریں گے اور زیر تجارت چیز کے عیب و اوصاف بیان کردیں گے تو ان کے سودے میں برکت شامل کر دی جائے گی۔‘‘ اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو دھوکہ دہی کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘
    اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور لوگوں کے مال نا جائز طریقوں سے ہتھیانے سے بھی روکا ہے۔

    اسلام میں باہمی معاشرتی ذمے داریوں کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلامی نظام صرف مادی چیزوں تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ معاشرے کی تمام تر انفرادی اور اجتماعی، مادی اور روحانی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو‘‘ (المائدہ: 2)۔ اسی طرح فرمایا: ’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔‘‘ (التوبہ:71)
    تکافل یعنی باہمی ذمے داریوں کا دائرہ انتہائی وسیع ہے اور اس میں تمام لوگ اپنی ذمے داریوں سمیت سما جاتے ہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘ (حجرات:13)
    پھر اس میں نیکی اور بھلائی کی تمام شکلیں بھی شامل ہیں۔ اسلام نے والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ احسان والا معاملہ کرنے کی بھی بڑی تلقین فرمائی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو ۔‘‘(الاسراء:23)
    اسلام نے رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے سے بھی منع کیا ہے اور رشتہ داری توڑنے والے کو بد ترین وعید سنائی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’اب کیا تم لوگوں سے اِس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے؟‘‘(محمد:22)
    اسلام میں ہمسائے کے حقوق کا بھی خوب خیال رکھا گیا ہے۔ خاص طور قرابت دار ہمسائے کے حقوق کی طرف اور زیادہ توجہ دلائی گئی ہے۔ عام طور پر تمام ہمسائیوں کے حقوق کی تلقین کی گئی ہے۔ فرمان نبوی ہے: ’’جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے۔‘‘

    اسلام نے انسانی جان کی حفاظت کو بھی پوری طرح یقینی بنایا ہے چنانچہ اس نے انسانی خون کو بہت زیادہ محترم قرار دیا ہے۔ دین میں جان کی حفاظت کو ایک عظیم مقصد بنایا گیا ہے۔ چنانچہ اسلام نے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ اسلام نے افراد کی تمام انفرادی اور اجتماعی مشکلات کا حل پیش کیا ہے اور ہر معاملے میں شرعی حدود وقیود واضح کر دی ہیں جو قطعی ، حتمی اور ناقابل تبدیل ہیں اور جن کو درست اور مفید ماننے پر آج کی جدید دنیا کا ہر شخص بھی مجبور ہیں، یہی حدود قیود ہیں جو اسلامی معاشرے میں مجرموں کو جرم سے روکے رکھتی ہیں اور مفسدوں کو مقررہ حدود سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دیتیں اور یوں اس طرح سے یہ اصول وضوابط زمین پر عدل قائم کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ چنانچہ اسلام نے ان اصولوں پر عمل کرنا لازم قرار دیا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’سی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ “جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔‘‘ (المائدۃ:32)

    اسلام ہی وہ معتدل اور متوازن طریقہ لے کر آیا ہے کہ جس کے ذریعے سے بھلائیاں حاصل ہو جاتی ہیں اور برائیاں کافور ہو جاتی ہیں۔ اسلام نے تعمیر وترقی اور فلاح و بہود کا حکم دیا ہے اور تعمیر وترقی کے تمام ااسباب و وسائل اپنانے کی نصیحت فرمائی ہے تاکہ مسلمان اپنے دینی اصول اسلام پر قائم رہتے ہوئے ہر جدید دور کے ساتھ چل سکیں اور جدید چیزوں کو سمجھ سکیں۔ اسی طرح اسلام نے فساد پھیلانے والے تمام ذرائع سے رکنے کا حکم دیا ہے اور اسلام کے عظیم مفادات کا خیال کرتے ہوئے ادنی مفادات کو نظر انداز کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح دین اسلام کے مفادات، امت کی اجتماعی کمائی ، اس کے مستقبل اور اس کی ناموس کا خیال نہ کرنے والے کو دنیا وآخرت کی بد ترین وعید سنائی ہے اور ان مفادات پر اثر انداز ہونے سے روکا ہے۔

    اے مسلمان حکمرانو، اے امت اسلامیہ کے لوگو!
    کیا شک ہے کہ آج ہماری امت اسلام اپنی تاریخ کے انتہائی مشکل مرحلہ سے گزر رہی ہے۔ ان حالات میں ہم پر لازم ہے کہ ہم تمام اختلافات چھوڑ کے اکٹھے ہو جائیں اور دل و جذبات میں ایک دوسرے کا خیال رکھیں، کسی بھی معاملے میں کوئی سا بھی موقف اختیار کرنے سے پہلے باہم مشورہ کر لیں، معاملات کو دیکھنے کا انداز ایک سا کر لیں اور اپنی کوششوں کو ہم آہنگ کر لیں تاکہ یہ امت مسائل اور مشکلات حل کرنے میں کامیاب حقیقی اعتبار سے کامیاب ہو سکے۔ ہمارے مسائل میں سب سے نمایاں مسئلہ مسئلۂ فلسطین اور مسجد اقصیٰ کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح شام، عراق، یمن اور دیگر ممالک میں ہمارے بھائیوں کی خستہ حالت زار بھی سب کے سامنے ہے۔ اس وقت ہم سب سے کو سب سے بڑھ کی باہم مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ اکٹھے بیٹھ کر اپنے معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو بھلائی کی نصیحت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اخوت اسلامیہ کا اخوت و اتحاد اور یک جہتی و وحدت کا رنگ نظر آ سکے۔ یقینا ہم سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

    ہمیں اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ معاشرے کی اصلاح، امت کی فلاح ، امن وامان کی بقا اور وحدت کی ضیا حکمرانوں کے ساتھ عوام کے تعاون پر موقوف ہے، حکمرانوں کے گرد جمع ہونے پر اور حکمرانوں کا ہاتھ بٹانے پر منحصر ہے۔ مسلمان حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے کندھے پر پڑنے والی بھاری امانت کا احساس کریں اور بھر پور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ وہ ذہن نشین کر لیں کہ اختلافات اور نزاع کا باعث بننے والے تمام جدید مسائل کو حل کرنا ان کی ذمہ داری ہے اور انہیں حل کرنے کا بہترین طریقہ باہممذاکرات اور باہمی تعاون، مشورہ، عدل اور ظلم کا خاتمہ ہے۔

    اے امت اسلامیہ!
    عدل اسلام کی عظیم بنیاد اور اساس ہے۔ یہ بہترین ترازو ہے۔ یہ رسولوں کا پیغام ہے۔ یہ رب العالمین کا حکم ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے‘‘(النحل:90) اسی طرح فرمایا: ’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو‘‘.(النساء:35) فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔‘‘(الحدید:25)
    اسلام نے تمام تر اصول اور ضابطوں میں عدل کو بڑی اہمیت دی ہے۔ یہ اس لیے کہ عدل بذات خود بڑی اہم چیز ہے اور اس کے نتائج بڑے عمدہ ہیں۔ عدل کے ذریعے ہی انسانوں کی زندگی بھلی بن سکتی ہے اور اسی کے ذریعے نیکی پھل پھول اور پھیل سکتی ہے۔ اسی کے ذریعے خوشبختی حاصل ہو سکتی ہے اور عین اسی پر امت کی خیر وہدایت، بقا اور فلاح منحصر ہے۔ عدل سے بھلائی پھیلتی ہے اور نیکی بڑھتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں سکون اور سرور آ جاتا ہے اور لوگوں کو چین نصیب ہوتا ہے۔
    اسلام نے نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کو بھی عظیم عبادت قرار دیا ہے اور اس کی بھی خوب ترغیب دلائی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران:110)

    مسلمانو!
    تمہارا دین باہمی لین دین اور باہمی برتاو کا دین ہے، انصاف اور رحمت کا دین ہے۔ یہ بہترین رویے سکھانے والا دین ہے، عمدہ فیصلے کرنے اور درست عمل اپنانے کا دین ہے۔ اسلام بھلے برتاؤ کے ذریعے ہی تو پھیلا ہے۔ اس طرح کے برتاؤ کے ذریعے کہ جس کے اصول اسلام نے وضع کیے ہیں اور جنہیں اسلام کے باشندوں نے اپنایا ہے۔ جیسے عدل، احسان، سچائی، امانت اور بھلے اخلاق۔
    اسلام نے اخلاقی تربیت اور کردار سازی کے حوالے سےبھی بہترین اور عمدہ ترین نمونہ فراہم کرنے کو بھی بڑی اہمیت دی ہے۔ اے لوگو! لوگوں نےتمھارے نبی محمد ﷺ کو دیکھا تھا کہ وہ ایسے ہی اوصاف حمیدہ ، خصائلِ پاکیزہ اور محاسنِ عظیمہ سے متصف انسان تھے اور ان کی ذاتِ والا صفات میں یہ ساری صفات موجود ہیں۔ چنانچہ وہ ان زندہ نظر آتی مثالوں پر ایمان لائے، ان کے دل ودماغ نے ان اعلیٰ صفات کو بے ساختہ قبول کیا اور ان کے جذبات و احساسات نے انہیں بھلا سمجھا۔ پھر لوگوں نے ان صفات کو اپنانا شروع کیا اور اپنی زندگی میں نافذ کر دکھایا۔ آپ ﷺ لوگوں کے لیے بہترین استاد، بہترین نمونہ اور تربیت دینے والے تھے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا‘‘(الاحزاب:21) اسی طرح فرمایا: ’’اے محمدؐ، ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔‘‘ (الانبیاء:107)

    اے مسلمان نوجوانو!
    آج کے دور میں جن مصیبتوں کا ہمیں سامنا ہے ان میں ایک نمایاں مصیبت زمین فساد برپا کرنے کی کئی شکلیں ظاہر ہونا ہے جنہیں ہم مجمل طور پر دہشتگردی کا نام دے سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ وہ دہشتگردی کہ جس کی برائی بڑی بڑی قوموں، نسلوں اور مذاہب میں سرایت کر چکی ہے۔ اس برائی کو کسی قوم ، کسی دین، کسی ثقافت یا کسی ملک کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ دہشتگردی کی تہمت اسلام کے نام بھی قطعا نہیں لگائی جا سکتی۔
    امت کی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ اس کے کچھ باشندوں کو شیطان نے حق سے پھیر لیا ہے اور راہ راست سے بھٹکا دیا ہے۔ اس طرح وہ دین اسلام کے اعتدال پسند طریقے سے ہٹ گئے ہیں اور لوگوں پر کفر کے فتوے لگانے میں جلد بازی کرنے لگے۔ ہیں یقینًا یہ رویہ بڑے ہولناک نتائج سامنے لانے والا ہے۔ تکفیر سے مؤمنوں کے دل لرز اٹھتے ہیں اور مسلمانوں کی جانیں کانپ اٹھتی ہیں۔ کس قدر بے خوف لوگ ہیں کہ جنھوں نے مسلمانوں کا کافر قرار دیا ہے اور ان کی محترم اور محفوظ جانوں پر حملہ کرنا جائز سمجھا، انھوں نے اسلام کے عطا کردہ حرمت والے معاہدے توڑ ڈالے ہیں، زمین میں فساد برپا کیا ہے ۔ دھماکے کیے ہیںاور توڑ پھوڑ کی ہے۔
    معصوم جانوں کو قتل کیا ہے، مسلمان اور غیر مسلم امن پسند شہریوں کو ڈرایا دھمکایا ہے، اللہ کی کتاب، سنت رسول ﷺ اور امت کے علما کے اجماع کو پس پشت ڈال دیا ہے کہ جو سب ان ناپاک اور بد ترین اعمال کو نا جائز قرار دینے پر متفق ہیں۔

    مسلمان نوجوانو!
    آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ آپ ہی امت کا سرمایہ اور آپ ہی اس کا مستقبل ہو۔ سو لازم ہے کہ ہر اس راستے سے بچو جو امت اسلامیہ کی صفیں بکھیرنے، تفرقہ بازی پھیلانے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے والا ہو۔ جان رکھو کہ امت میں گمراہی اور انحراف پھیلانے کے اسباب میں سے قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کرنے والے مسلمانوں کو کافر قرار دینے میں جلدی کرنا بھی ہے۔ یہ بہت بڑی مصیبت اور بڑا ہلاکت خیز رویہ ہے۔
    یاد رکھو! نبی اکرم ﷺ نے بڑے زور دار انداز میں اور بہت ہولناک الفاظ میں اس بڑے گناہ سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! اپنے آپ کو تقویٰ، علم اور سمجھ کے ذریعے ہر وقت ان چیزوں سے محفوظ رکھو۔ امت کے علما کی طرف رجوع کرو اور ان کی باتیں دلائل اور واضح نشانیوں کے ساتھ مانو۔
    امت کو تم سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں تو تم ساری دنیا کو اپنے دین کی بھلائیاں، اس کی نرمی، اس کی رحمت اور اس کے اخلاق حسنہ دکھاؤ۔ دوسروں کے لیے بہترین نمونہ بنو۔ اپنے فارغ اوقات کا بھر پور فائدہ اٹھاؤ، اپنی صلاحیتیں ان اعمال میں صرف کرو جن میں امت اسلامیہ کی فلاح وبہبود ہو، اسی میں تمھاری اور اسلام کی عزت ہے اور اسی میں دنیا وآخرت میں آپ کا فائدہ ہے ۔

    اے تربیت دینے والو!
    بھلے اخلاق تمام آسمانی شریعتوں کا مرکز ومحور اور جوہر ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کی بعثت کا مقصد بھی اخلاق درست کرنا ہی تھا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود اُنہی میں سے اٹھایا، جو اُنہیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کی زندگی سنوارتا ہے،‘‘۔ (الجمعہ:2)
    اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نبی اکرم ﷺ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ : ’’اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو‘‘ (القلم:4)
    اسلام نے لوگوں کی اخلاقی تربیت، کردار سازی اور نیکی پر نفوس کی تربیت کرنے کو اپنی ترجیحات میں اولیت دی ہے۔ چنانچہ عظیم دینی اخلاق پر نفس کی تربیت اسلام کا طریقہ ہے اور یقینا اسی طرح سے لوگوں کو سکون اور چین اور کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’اور نفس انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا۔‘‘ (الشمس:10-7)
    اسی تربیت کی وجہ سے ہی لوگ افضلیت میں ایک دوسرے سے بڑھ سکتے ہیں۔ فرمان نبوی ہے: تم میں بہترین وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق کا حامل ہے‘‘
    مسلمانوں کے بعض معاشروں کو عملی اعتبار سے ان حسین اصولوں سے دوری کا سامنا ہے۔ یہ بڑی خطرناک چیز ہے اور ہمارے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ چنانچہ اے والدین، اے تربیت دینے والو! آپ کے سر پر بچوں کی بھلی اور اخلاق پر مبنی تربیت کی عظیم ذمہ داری ہے۔ خاص طور پر اس زمانے میں کہ جس میں برائی اور فتنے کے اسباب عام ہو چکے ہیں۔ آج جنگ نے ایک نیا روپ اختیار کر لیا ہے اور وہ اصول ومبادئ اور اخلاق کی جنگ بن چکی ہے۔

    اے اسلام کے علما!
    آپ انبیا کے وارث ہو، انبیا کے پیغام کے حامل ہو، آپ پر ساری امت کی فلاح وبہبود منحصر ہے۔ سو سنو! امت میں اختلافات پھیلانے کا سبب مت بنو۔ بھلائی کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرو، حق بیان کرو، باطل کی حمایت مت کرو، لوگوں کو راہ دکھاؤ، لوگوں کو شریعت اسلامیہ کے مطابق فتوے دو، نہ تشدد کرو اور نہ حد سے زیادہ نرمی برتو۔ اللہ کا دین تشدد اور نرمی کے مابین رہتا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ور اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک “امت وسط” بنایا ہے۔‘‘ (البقرۃ:143)
    لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرو اور ان کی مشکلات دور کرو۔ فرمان الٰہی ہے: ’’دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں‘‘(الحج:78) رسول مکرم ﷺ کو جب بھی دو چیزوں میں سے ایک اپنانے کا کہا گیا تو آپ ﷺ نے آسان چیز اختیار فرمائی۔ الا یہ کہ آسان چیز گناہ پر مشتمل ہو۔
    اے اللہ کی طرف بلانے والو!
    اللہ کی طرف بلانا انبیا اور رسولوں کا کام ہے۔ تو آپ دعوت کے معاملے صحیح طریقہ اپناؤ۔ علم، سمجھ داری اور اخلاص کے ساتھ دعوت دو۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ادع إلے سبیل ربک … أحسن‘‘
    اسی طرح فرمایا: ’’(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے ۔‘‘ (آل عمران:159) دوسروں کے لیے اچھا نمونہ بنو۔ جنہیں دعوت دے رہے ہو، ان پر رحم کرو، بھلے انداز سے گفتگو اور بحث کرنا آپ کی دعوت کا اسلوب ہونا چاہیے۔ علم کو اپنا اسلحہ بنائیے۔ لوگوں کی حق کے ذریعے رہنمائی کرنا اپنا ہدف بنائیے۔ فرقہ وارانہ رویے سے بچئے! نئے فرقے اور گروہ ایجاد کرنے سے باز رہئے۔ الگ ہونے اور نئی شناخیں بنانے سے گریز کیجے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو ۔‘‘ (آل عمران:103) اسی طرح فرمایا: ’’آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی۔‘‘ (الانفال:46)

    اے میڈیا کے لوگو! اے سوشل میڈیا کے حاملو!
    میڈیا، میڈیا کے ذرائع اور میڈیا کی سائیٹس کو دین کے فائدے کے لیے، اس کا دفاع کرنے کے لیے برتو ۔ اس کی خیر اور بھلائیاں بیان کرنے میں میڈیا استعمال کرنے کا اہتمام کرو۔ الفاظ کے استعمال میں ذمہ داری مظاہرہ کرو، اپنی بات پر قائم رہنا سیکھو اور سچائی سے کام لو۔ قلم کی ذمہ داری کو سمجھو۔ حقیقت پسندی سے کام لو۔ با مقصد طریقۂ تحریر اپناؤ۔ ہلچل مچانے والی تحریروں سے، افواہوں سے اور تنقید برائے تنقید سے دور رہو۔ ان ذرائع کو بنانے والا بناؤ بگاڑنے والا نہ بناؤ۔ جمع کرنے والا بناؤ، تفرقہ پھیلانے والا نہ بناؤ۔ قوت پھیلانے والا بناؤ، کمزور کرنے والا نہ بناؤ۔

    اے بیت اللہ کے حاجیو!
    آپ حرمت والے شہر میں ہیں۔ اس کی عظمت کو جانو اور اس کی تقدس ذہن نشین کر لو۔ اللہ تعالیٰ نے اس محترم شہر کو ایسی خصوصیات سے مختص فرمایا ہے کہ جو کسی دوسرے شہر کو نہیں ملیں۔ یہ امن والا ہے، محترم ہے اور قیامت تک یوں ہی رہے گا۔ فرمان الٰہی ہے: ’’ جو اِس (مکہ) میں داخل ہوا مامون ہو گیا۔‘‘
    یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا تھی، فرمان الٰہی ہے: ’’”پروردگار، اِس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔‘‘ (ابراہیم:35) اللہ تعالیٰ اس شہر کو اپنے نبی ابراہیم علیہ السلام کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ فرمان الٰہی ہے: ’’اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں۔‘‘ (الحج:27) حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر لبیک کہا۔ میں حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوـ میں حاضر ہوں۔ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ میں حاضر ہوں۔ تعریف بھی تیری ہی ہے اور ساری نعمتیں بھی تیری اور ساری بادشاہت بھی تیری ہی ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد اللہ کے انبیا، رسول اور اللہ کے بندے اسی طرح لبیک کہتے رہے۔
    اللہ نے انہیں بلایا تو انہوں نے راضی ہوتے ہوئے اور محبت کرتے ہوئے اس پاکر پر لبیک کہا۔ پھر جب انہوں اللہ کو پکارا تو اللہ ان کے نفس کی نسبت ان سے زیادہ قریب تھا۔
    اللہ کے گھر کے حاجیو!
    دیکھو! تم اللہ کے امن والے شہر میں آئے ہو، تمھارے کے لیے راستے آسان کر دیے گئے ہیں۔ آپ کی مشکلات آسان کر دی گئی ہیں۔ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرو! مزید فضل وکرم کا سوال کرو! یہ اللہ کا مقدس گھر ہے۔ اللہ کے نازل کردہ امن کی وجہ سے امن والا ہے۔ فرمان الٰہی ہے: ’’اور قسم ہے اِس پرامن شہر (مکہ) کی۔‘‘(التین:3) اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق حرمت والا اور محترم ہے۔ اس کے امن کو تباہ کرنے سے بچو۔ اس کے مقامات کا احترام کرو۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’یہ ہے اصل معاملہ (اسے سمجھ لو)، اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔‘‘ (الحج:32) اسی طرح فرمایا: ’’یہ تھا (تعمیر کعبہ کا مقصد) اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے رب کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے‘‘ (الحج:30)
    عبادت گاہوں کا صاف ستھرا ماحول آلودہ کرنے سے اجتناب کرو۔ فرمان الٰہی ہے: ’’اِس (مسجدِ حرام) میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا اسے ہم درد ناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔‘‘ (الحج:25)
    حرمین کا امن اور حجاج کی سلامتی ایسی سرخ لائنیں ہیں جن سے آگے بڑھنا، سیاسی بینرز اٹھانا یا فرقہ وارانہ نعرے لگانا کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
    اس ملک پر اللہ کا فضل وکرم ہے کہ اس ملک کو اس نے حکمت والی قیادت مہیا فرمائی ہے۔ جو حرمین کی خدمت اور نگہبانی کے ذریعے شرف حاصل کرتی ہے۔
    حکومت نے خدمات کا طویل سلسلہ تیار کر رکھا ہے اور ہر قسم کی ممکنہ کوشش کی ہے تاکہ حرمین میں آنے والے امن وامان اور اطمینان کے ساتھ اپنی عبادت سر انجام دے سکیں۔

    اللہ تعالیٰ ہمارے حاکم سلمان بن عبدالعزیز کو اسلام اور مسلمانوں کی خدمت پر جزائے خیر عطا فرمائے اور اس کی کاوشوں کو بابرکت بنائے۔ اس کی تمام کاوشوں کو اس کے لیے باعث اجر و ثواب بنائے اور اسے صحت و عافیت سے نوازے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حاکم اس کے دونوں نائبین اور تمام ساتھیوں کو اپنی رضا اور خوشنودی والے کام سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس طرح ہم ہر اس شخص کے لیے دعا گو ہیں جس نے حج کی ادائیگی کو آسان بنانے میں اپنی خدمات پیش کیں اور حجاج کرام کو ادائیگی حج میں اطمینان و سکون فراہم کیا۔ ان سب کے سرخیل امیر حج اور امیر مکہ کو اللہ حاجیوں کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔

    اسی طرح بہادر سیکورٹی فورسز کے اراکین کو بھی اللہ جزائے خیر سے نوازے، جنہوں نے حجاج کرام کی خدمت اور ہماری ملکی حدود کی حفاظت کیلئے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیاں قبول فرمائے اور ان کی کوششوں کو بابرکت بنائے۔

    ہم اللہ تعالیٰ سے ان کے قول و عمل کی درستی کی دعا کرتے ہیں۔ اللہ ان کی کاوشوں کو خیر و برکت کا باعث اور اجر عظیم کا سبب بنائے۔
    یہ اور ان کے دیگر بھائی جو حجاج کرام اور حرمین شریفین کی خدمت پر مامور ہیں۔ کوئی حجاج کرام کی راہنمائی کیلئے فتویٰ دے رہا ہے، کوئی دعوت و ارشاد کے لیے مقرر ہے، کوئی صحت و سلامتی کے لیے خدمات دے رہا ہے اور اس جیسی دیگر کئی ذمہ داریاں نبھانے والے کئی اور کتنے ہی لوگ ہیں، اللہ تعالیٰ ان سب کو اجر عظیم عطا فرمائے۔

    اے حجاج کرام!
    تمہارا آج کا دن بڑا عظیم اور مبارک دن ہے۔ نبی کریم eفرماتے ہیں: جتنے لوگوں کو اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن جہنم سے آزادی عطا فرماتے ہیں، کسی اور دن عطا نہیں کرتے۔ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے پھر فرشتوں کے سامنے بندوں پر فخر کا اظہار فرماتا ہے اور ان سے پوچھتا ہے: ’’میرے یہ بندے کیا چاہتے ہیں؟‘‘
    اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: میرے ان بندوں کو دیکھو کہ کس طرح میلے کپڑوں اور غبار آلود بالوں کے ساتھ حاضر ہیں، اے فرشتو! تم گواہ ہو جائو کہ میں نے انہیں معاف کر دیا ہے۔‘‘
    لہٰذا آج خوب دعائیں مانگو۔ نبی کریم e فرماتے ہیں: ’’بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور وہ بہترین دعا جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیائے کرام نے اللہ سے کی ہے، وہ یہ ہے:
    لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد و ھو علی کل شی ءٍ قدیر
    ’’اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ ساری بادشاہی اسی کی ہے۔ سب تعریفیں اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
    لوگو! اپنے نبی کی سنت کا اہتمام کرو۔ عرفہ میں وقوف کرو۔ ابھی ظہر و عصر کی نمازیں جمع اور قصر کر کے ادا کرو۔ جیسا کہ تمہارے نبی eنے کیا تھا اور فرمایا تھا: ’’مجھ سے اپنے حج کے احکام سیکھ لو۔‘‘
    پھر مغرب کے بعد مزدلفہ چلے جائو، وہاں پہنچ کر مغرب و عشاء کی نمازیں جمع اور قصر کر کے ادا کرو۔ آدھی رات کے بعد منیٰ جا کر جمرہ عقبہ کو کنکریاںمارو۔ پھر ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارو۔ جو منیٰ میں دو دن رہ کر واپس جانا چاہے وہ 11اور 12 تاریخ کو تمام جمرات کو کنکریاں مارے اور جو 13تاریخ کو بھی منیٰ رہنا چاہے وہ 13کو بھی کنکریاں مارے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
    ’’جو دو دنوں میں جلدی کرے، اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو تاخیر کرے (13 واں دن بھی منیٰ میں گزارے) اس پر بھی کوئی حرج نہیں۔ جو متقی ہو۔‘‘
    جان لو کہ تمام راتوں میں بھی کنکریاں ماری جا سکتی ہیں۔ اللہ تمہاری حفاظت فرمائے۔ مقامات مقدسہ کے درمیان نقل و حرکت کے دوران خصوصی ہدایات و قوانین پر عمل کرو۔ تمام مناسک حج کی ادائیگی میں متعلقہ اداروں کی راہنمائی پر عمل کرو۔ دھکم پیل اور دوسروں کو تکلیف دینے سے بچو۔ آرام و سکون سے چلو اور نیکی و بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔ گناہ اور برائی میں ایک دوسرے کا ساتھ مت دو۔ اللہ سے ڈرو۔ اپنی زبان اور دیگر اعضاء کو کنٹرول میں رکھو۔ صبر، حوصلے ،خوشخبری اور حسن ظن سے کام لو۔ شکست خوردگی ، مایوسی اور نا امیدی سے بچو۔ کیونکہ اللہ کا دین ہی کامیاب ہے اور اللہ اپنے دین کا ، شہروں کا اور بندوں کا محافظ ہے۔ عزت اللہ ،اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے اور اللہ اپنے امر پر غالب ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

    اللہ کے بندو!
    تمہارا بہترین عمل، اللہ کے ہاں نہایت پاکیزہ اور درجات کو بلندی دینے والاعمل، اللہ کے رسول مصطفیٰ پر کثرت سے درود و سلام بھیجنا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:’’اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجو۔‘‘
    اے اللہ! اپنے نبی اور بندے ہمارے پیارے رسول محمد eپر درود و سلام بھیج۔ اے محمد ﷺ کی سفارش چاہنے والو، نبی پر درود و سلام بھیجو۔ اس وقت تک درود و سلام بھیجتے رہو کہ جب تک حج کرنے والے لبیک پکارتے رہیں۔ اللہ ذوالجلال نبی علیہ السلام پر اپنی بے شمار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔
    اے اللہ! اپنے نبی کے خلفائے راشدین ابوبکر، عمر، عثمان اور علی ] اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا۔ تابعین کرام اور تاقیامت نیکی میں ان کے نقش قدم پر چلنے والوں سے راضی ہوجا۔ اے ارحم الراحمین! اپنے فضل و کرم سے هہمیں بھی معاف کر دے اور ہم سے راضی ہو جا۔

    اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت و غلبہ عطا فرما۔ اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ دے دے۔ اسلام کی حفاظت فرما۔ کلمہ حق اور دین اسلام کو سر بلند کر دے۔ حجاج کرام اور عمرہ کرنے والوں کو سلامتی عنایت فرما۔ اے اللہ! ملت اسلامیہ کو ہر بھلائی کی توفیق عطا فرما۔ اے اللہ! مومن مردوں اور عورتوں، مسلمان مرد و خواتین کو معاف فرما دے۔ ان کے دلوں کو جوڑ دے۔ ان کے باہمی جھگڑے ختم فرما دے۔ انہیں ہدایت کی راہوں پر گامزن فرما۔ انہیں ان کے دشمن اور اپنے دشمن پر غلبہ عطا فرما۔ انہیں ظاہری اور باطنی فتنوں اور برائیوں سے محفوظ فرما۔ اے اللہ! دکھیوں کےد کھ دور فرما۔ پریشان حال لوگوں کی پریشانیاں دو رکر دے۔ مقروضوں کے قرض ادا کر دے۔ ہمارے اور مسلمانوں کے مریضوں کو شفا عطا فرما دے۔ اے اللہ! مسلمانوں کے دلوں کو اپنی اطاعت پر ثابت رکھ۔ انہیں شریر لوگوں کے شر سے بچا۔ اے اللہ! ہمیں ہمارے وطنوں میں امن و امان عطا فرما۔ اے اللہ! ہمارے ائمہ کرام اور حکمرانوں کی اصلاح فرما۔ یامنان یا دیان! ہمارے حاکم سلمان اور اس کے دونوں نائبین کو ہر خیر و بھلائی کی توفیق عطا فرما۔ اے ذوالجلال والاکرام۔ انہوں نے حرمین شریفین، مقامات مقدسہ اور حجاج کرام کے لیے جو خدمات سر انجام دیں، انہیں قبول فرما۔ انہیں ان کے میزانِ حسنات میں شمار فرما۔ اے اللہ! اے ذوالجلال والاکرام اس ملک کے امن و سکون، خوشحالی، عقیدے اور حاکموں کی حفاظت فرما۔ اے اللہ! ہمارے حفاظتی دستوں کی حفاظت فرما۔ حرمین شریفین اور حجاج کرام کی حفاظت کی خدمات کی جزائے خیر عطا فرمائے۔

    ہماری سرحدوں کی حفاظت پر انہیں بہترین ثواب عطا فرما۔ اے اللہ! جو ہمارے ملک، ہمارے مقامات مقدسہ اور امن و امان کو برباد کرنے کے منصوبے بنائے، اے اللہ! اس کے برے منصوبوں کو اس کے گلے کا ہار بنا دے اور اسے اس کی جان کی فکر میں ڈال دے۔ اس کی چالوں کو اس کی بربادی کا ذریعہ بنا دے۔ اے اللہ! مسلمان حکمرانوں کو کتاب و سنت کے مطابق فیصلے کرنے کی توفیق دے۔ اے اللہ! امت اسلامیہ کی حالت زار بدل دے اور انہیں کتاب و سنت پر جمع کر دے۔ اے فضل و کرم اور عطا کرنے والے! اے اللہ! ہمارے حج کو حج مبرور اور ہماری سعی کو مقبول سعی بنا دے۔ ہمارے گناہ معاف فرما دے۔ اے ارحم الراحمین! اے اللہ! ہمارے حاکم کو تمام اقوال و اعمال میں توفیق اور درستی عطا فرما۔ اے پروردگار اس کی عمر و عمل میں برکت فرما۔ ا س کے اعمال کو اپنی خوشنودی کا باعث بنا دے۔ اسے خیر خواہ ساتھی عطا فرما۔ اے اللہ! پوری دنیا کے مسلمانوں کے حالات درست فرمادے۔ ان کی جانیں محفوظ فرما دے۔ ان کے دکھ دور کر دے۔ ان کے نوجوانوں کو ہدایت عطا فرما۔ بیماروں کو تندرستی دے دے۔ آزمائش میں گھرے ہووں کو عافیت سے نواز دے۔

    بندگانِ الٰہی!
    ہمارے عظیم مفتی اور جلیل القدر عالم کا شکریہ ادا کرنا اور ان کے لیے دعا کرنا واجب ہے۔ جنہوں نے 35سال تک اس منبر سے خطبہ حج ارشاد فرمایا۔ انہوں نے 35سال امت کی راہنمائی کی اور ان سے خیر خواہی کا فریضہ ادا کیا۔ اللہ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ انہیں ڈھیروں ثواب دے ۔ان کی عمر، علم اور عمل میں برکت دے۔ اے اللہ !تو نے آج کے اس عظیم دن میں جتنی خیر و برکت، صحت و سلامتی، وسیع رزق اور جہنم سے آزادی رکھی ہے، ہمیں اس سے خوب سرفراز فرما اور ہمیں ان خوش نصیبوں میں شامل فرما جن کی بدولت تو اپنے فرشتوں کے سامنے فخر کا اظہار فرماتا ہے اور کہتا ہے: ’’جائو! میں نے تمہیں معاف کیا۔‘‘

    اے اللہ! مسلمانوں کی جانیں محفوظ فرما۔ اے اللہ! پوری دنیا میں ہمارے مظلوم دینی بھائیوں کی مدد فرما۔ اے اللہ! ہمارےفلسطینی بھائیوں کی مدد فرما۔ یہودی استعمار سے مسجد اقصیٰ کو آزادی عطا فرما اور اسے تاقیامت عظمت و شان عطا فرما۔ اے اللہ! ہمارے شامی بھائیوں کا مددگار ہو جا۔ اے اللہ! وہ بڑے مظلوم ہیں ان کی مدد فرما۔ اے مظلوموں کی مدد فرمانے والے۔ اے اللہ! عراق، یمن ، اراکان اور تمام علاقوں میں ہمارے بھائیوں کے حالات سنوار دے۔ اے اللہ! ہمارے حفاظتی دستوں اور دینی محافظوں کی مدد فرما۔ اے اللہ! ہمارے ملک کی مدد فرما اور ہمارے ملک کو امن و امان کا گہوارہ بنا۔ تمام اسلامی ممالک کو امن و سکون عطا فرما۔
    ’’اے ہمارے رب، ہمیں اور ہمارے اُن سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں۔‘‘(الحشر:10)
    ’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔‘‘(البقرۃ:201)
    ’’اے ہمارے رب، ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘(البقرۃ:127)
    اے اللہ! ہماری ، ہمارے والدین، ہمارے اجداد اور تمام مسلمان مرد و خواتین کی بخشش فرما۔ بلاشبہ تو بڑا سننے والا، قریب اور دعائوں کو قبول کرنے والا ہے۔
    سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون و سلام علی المرسلین والحمدللہ رب العالمین

    خطیب: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس حفظہ اللہ
    ترجمہ: محمد عاطف الیاس، مولانا اجمل بھٹی، ریسرچرز پیغام ٹی وی
    نظرثانی: حافظ یوسف سراج، ہیڈ ریسرچ ڈیپارٹمنٹ، پیغام ٹی وی

    (واضح رہے کہ امام حج الشیخ عبدالرحمٰن السدیس پاکستانی چینل پیغام ٹی وی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چئیرمین ہیں۔)