Author: جمیل اصغر جامی

  • دو مہذب اور سیکولر ملکوں کی بربریت – جمیل اصغر جامی

    دو مہذب اور سیکولر ملکوں کی بربریت – جمیل اصغر جامی

    دو ’’مہذب‘‘ اور سیکولر ملکوں کی بربریت کو آشکار کرتی ایک انکوائری رپورٹ۔

    محترم دوستو! ایک ’’بیانیہ‘‘ یہ بھی ہے۔

    عراق کی جنگ کے متعلق سرکاری انکوائری کے چیئرمین سر جان چلکوٹ نے سات سال کے طویل عرصے میں مرتب کی گئی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ عراق کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے حملے سے قبل پرامن طریقے اختیار نہیں کیے گئے۔ اس رپورٹ کے مزید اہم نکات کچھ یوں ہیں:
    ۱۔ اس وقت عراق پر فوج کشی کرنا آخری راستہ نہیں تھا۔ نہ ہی یہ جنگ ناگزیر تھی۔
    ۲۔ وسیع پیمانے پر تباھی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خطرے کو بلاوجہ یقینی بنا کر پیش کیا گیا۔ ایسے ہتھیار عراق میں بالکل بھی نہیں تھے۔
    ۳۔ صدام کے بعد عراق کی صورتحال سےنمٹنے کے لیے منصوبہ بندی ناکافی تھی۔
    جنگ کے قانونی جواز پر بحث نہیں کی گئی۔
    ۴۔ برطانیہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اختیارات کی اہمیت کو کم کیا۔
    ۵۔ ناقص خفیہ اطلاعات پر پالیسی مرتب کی گئی۔
    ۵۔ ٹونی بیلئر نے صدر بش کو لکھا کہ: ’جو کچھ بھی ہو میں آپ کے ساتھ ہیں۔‘
    ۶۔ جنگ نے ایک خوفناک انسانی المیے کو جنم دیا جس کی ذمہ داری امریکہ اور برطانیہ پر عائد ہوتی ہے۔
    پس نوشت: عنوان میں ’’سیکولر‘‘ کا لفظ پڑھ، سیکولرازم کے حامی دانشور شدید احتجاج کریں گے اور کہیں گے: ’’بھیا عراق میں جو کچھ ہوا وہ ظلم تھا اس کا سیکولرازم سے کیا تعلق؟‘‘ تو جواباً عرض ہے کہ یہی اُصول اور اس وقت بھی مدنظر رکھا کریں جب آپ تحریک طالبان جیسے جنونی گروہوں اور داعش جیسے پیشہ ور قاتلوں کے کرتوتوں کو لیکر اسلام پر بحثیت مذہب صبح شام چڑھائی کرتے ہیں۔

  • بیکن ہاؤس کی ’’تہذیب دوستی‘‘ – جمیل اصغر جامی

    بیکن ہاؤس کی ’’تہذیب دوستی‘‘ – جمیل اصغر جامی

    جمیل اصغر جامی بیکن ہاؤس سکول سسٹم نے پنجابی میں گفتگو پر پابندی عائد کر دی ہے۔ دلیل یہ ہے کہ پنجابی Foul Speech کے زمرے میں آتی ہے۔ Foul Speech جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایک غیر شائستہ اور غیر مہذب رویہ ہے، اور ظاہر ہے کہ بیکن ہاؤس جیسا سسٹم اس غیر شائستگی اور تہذیب دشمنی کو کیسے برادشت کر سکتا ہے؟ اس لیے اس سسٹم کے کرتا دھرتا لوگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ پنجابی پر سرے سے پابندی ہی لگا دینی چاہیے۔

    یہ رویہ تاہم کچھ ناقابل فہم ہے۔ واضح رہے کہ اگر یہ پابندی کسی لسانی نکتہ نظر سے لگائی جاتی تو میں کبھی اس کی مخالفت نہ کرتا۔ مثلاً اگر دلیل یہ ہوتی کہ کیونکہ ہم بچوں کو انگریزی زبان میں مہارت پیدا کرنے کے لیے ایک سازگار لسانی ماحول فراہم کرنا چاہتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ ایسی صورت میں صرف پنجابی نہیں بلکہ انگریزی کےعلاوہ ہر زبان پر پابندی لگتی۔ جو دلیل دی جاری ہے وہ لسانی نہیں بلکہ اقداری اور تہذیبی ہے۔ دوسری طرف یہ وہی بیکن ہاؤس سسٹم ہے جس کی انتظامیہ نے طالبات کو اپنی یونیورسٹی کی دیوار مہربانی پر خواتین کے خون آلود پیڈز آویزاں کرنے کی اجازت دی۔ بیکن ہاؤس کی تہذیب دوستی کی مثالیں اس سے بھی کئی بڑھ کر ہیں جن کا یہاظ ذکر نہیں کیا جاسکتا، اور یہ سب کچھ ’’انتظامی اجازت‘‘ سے ہوتا ہے۔ اسی سسٹم کی تہذیب دوستی کی ایک جھلک یہ بھی دیکھ لیں:

  • سیدنا ابراہیم کا خواب: آئیے قرآن سے رجوع کرتے ہیں – جمیل اصغر جامی

    سیدنا ابراہیم کا خواب: آئیے قرآن سے رجوع کرتے ہیں – جمیل اصغر جامی

    جمیل اصغر جامی مولانا حمید الدین فراہی ایک عظیم المرتبت شخصیت تھے۔ اسی طرح مولانا امین احسن اصلاحی بھی اپنے عہد کی ایک نامور علمی شخصیت تھے۔ ان دونوں شخصیات نے کامل ایمانداری اور نہایت علمیت کے ساتھ دین اسلام کی خدمت کی۔ کوئی بھی ذی شعور انسان ایک لمحہ کے لیے بھی ان دو بزرگوں کے اخلاص اور علمی مرتبے پر شک نہیں کر سکتا۔ ان اصحاب نے جناب ابراہیم علیہ السلام کے خواب پر جو کچھ بھی لکھا اس پر حالیہ دنوں میں بحث جاری ہے۔ لیکن آئیے ہم ایک لمجے کے لیے اپنی طالب علمانہ دانست میں قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس معاملے کو براہ راست قرآن سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمارے دلوں کو کجی سے پاک رکھے۔

    ہم سورۃ الصافات کی ان آیات (101تا110) پر چلے جاتے ہیں جہاں یہ بات مذکور ہے:
    (اس دعا کے جواب میں ) ہم نے اس کو ایک حلیم (بردبار) لڑکے کی بشارت دی۔ وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو (ایک روز) ابراہیم نے اس سے کہا،’’بیٹا، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے؟‘‘ اس نے کہا، ’’ ابا جان، جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے، آپ اِنْ شاءَ اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘، آخر کو جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا اور ہم نے ندا دی کہ ’’اے ابراہیم، تو نے خواب سچ کر دکھایا۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی‘‘۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا۔ اور اس کی تعریف و توصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی۔ سلام ہے ابراہیم پر۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں ۔ یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔

    ان آیات سے چند چیزیں نہایت واضح انداز میں سامنے آتی ہیں۔ اول یہ کہ ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام، دونوں نے خواب کو اسی پیرائے میں لیا جس میں وہ واقع ہوا تھا اور اسی پیرائے میں اس کی تعبیر کی۔ دوسرے لفظوں میں ابراہیم اور اسماعیل کے فہم کے مطابق اس خواب کا مقصود کوئی استعاراتی حکم نہیں تھا۔ اس ضمن میں حضرت اسماعیل کا جواب بھی قابل غور ہے۔ ان کے الفاظ ’’آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے‘‘ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ انھوں نے بھی اپنے باپ کی اخذ کردہ تعبیر کو درست جانا۔ یہاں عین ممکن تھا کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے پیغمبرانہ فہم میں’’درست‘‘ تعبیر کو پا لیتے اور اسماعیل علیہ السلام سے کہتے کہ خدا نے اپنے گھر کے لیے تمھاری نذر مانگی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ دونوں کی اخذ کردہ تعبیر وہی تھی جس پر وہ عمل پیرا ہوئے۔ اور اگر خدا کی مراد کوئی قطعی استعاراتی تعبیر ہوتی تو پھر ہر حال میں اس کو ابراہیم علیہ السلام سمجھ جاتے کیونکہ پیغمبر کے فہم پر لازم ہے کہ وہ الہامی ہدایت کو بمطابق حرف و روح سمجھے۔ پھر اگلی آیت میں حضرت اسماعیل کو پیشانی کے بل لٹائے جانے کا ذکر ہے۔ گویا یہ سارے کا سارا فعل اس خواب کی تعبیر میں ایک رسول سرانجام دے رہا ہے۔ اس کے بعد اللہ کا ابراہیم سے مخاطب ہونا بہت اہم ہے۔ ذرا قرآن کے ان الفاظ پر غور کریں: ’’تو نے خواب سچا کر دکھایا‘‘۔ گویا اللہ اس تعبیر پر مہر تصدیق ثبت کر رہا ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے اخذ کی۔ اس میں اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خواب کا مقصود سیدنا اسماعیل کو خدا کے گھر کی خدمت کے لیے اللہ کی نذر کرنا تھا، تو ایسا تو کچھ ابراہیم علیہ السلام نے ابھی نہیں کیا تھا۔ ابھی تو خدا کے گھر کی تعمیر باقی تھی۔ تو پھر اللہ نے کیسے کہہ دیا کہ تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ہے؟ کیا اسمعیل علیہ السلام کو ابراہیم علیہ السلام اللہ کے معبد کی خدمت کے لیے اللہ کی نذر کرچکے تھے؟ نہیں ابھی ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا اور یہ سب ابھی مستقبل میں ہونا باقی تھا۔ اس وقت تو ابراہیم علیہ السلام نے ایسی کوئی نیت یا ارادہ بھی ظاہر نہیں کیا تھا۔ اب ان الفاظ پر غور کریں: ’’البتہ یہ صریح آزمائش تھی‘‘۔ اللہ اس سارے واقعہ کو صریح آزمائش قرار دے رہا ہے۔ گویا خدا کے نزدیک بھی تعبیر وہی ہے جس پر جناب ابراہیم علیہ السلام عمل پیرا ہوئے ہیں۔ اسی لیے اس کو صریح آزمائش سے تعبیر کیا۔

    اس لحاظ سے یہی بات قرین عقل معلوم ہوتی ہے کہ سیدنا ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام کا عمل ہی اس خواب کی تعبیر تھا اور وہی خدا کا منشا تھا۔ یہ سر تا سر ایک ’’صریح آزمائش‘‘ تھی جس میں دو اولولعزم پیغمبروں کو ڈالا گیا۔ اور یہ عین خدا کی سنت کے مطابق ہے۔ خدا ہمیشہ اپنے انبیا اور رسل کو کڑی سے کڑی آزمائشوں سے دو چار کرتا رہا ہے۔ واللہ عالم۔

    (ڈاکٹر جمیل اصغر جامی، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)

  • ملیے ایک ’’اُصول پرست‘‘ اُچکزئی سے – جمیل اصغر جامی

    ملیے ایک ’’اُصول پرست‘‘ اُچکزئی سے – جمیل اصغر جامی

    محمود خان اچکزئی صاحب کو زیادہ سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی میں نے کبھی ان کی بڑبڑاہٹ پر زیادہ توجہ دی ہے۔ ہانڈی کا اُبال ہوتا ہے، کمپنی کی مشہوری کے لیے’’اُصول پرستی‘‘ کا ایک آدھ بھاشن ہوتا ہے۔ اور بس۔ یہ ایک رومن سینیٹر کے لبادے میں ملبوس، سیاستدان پاکستان کے خلاف، وفاق کے خلاف، مسلح افواج کے خلاف بولنے کا ایسا ہی شوق رکھتا ہے جیسا فلمسٹار میرا انگریزی پر طبع آزمائی کرنے کا۔ بندہ ایک لمحے کے لیے سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یار یہ تو کوئی بہت ہی کھرا، ایماندار، دوٹوک اور اپنی چادر کی طرح شفاف کردار ہے۔ لیکن کہا نا کہ زیادہ سنجیدہ نہ ہوں۔ ایک طرف ملک کے خلاف بڑبڑانا، دوسری سیاسی جماعتوں کو مفاد پرستی کا طعنہ دینا، اُن پر ابن الوقتی اور ’’نظریات‘‘ پر مصلحت کی پھبتی کسنا، لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے پورے خاندان کو اس ملک کی تنخواہ خوری پر لگانا اور چن چن کر اس کی سیاسی اسامیوں پر بھرتی کروانا۔ ہر ماہ اسی ملک کے خزانے سے، جس کے خلاف ان کی زبان ایک سیلنگ فین کی طرح چلتی ہے، کروڑوں کی مراعات وصول کرنا۔ ملاحظہ فرمائیں اس رومن سینٹر کی اُصول پرستی:
    ـــ خود، وزیر اعظم کا مشیر، وفاقی وزیر کے برابر تنخواہ، مراعات، پروٹوکول
    ـــ بھائی محمد خان اچکزئی، بلوچستان میں گورنر، یعنی وفاق کا نمائندہ، اُسی وفاق کا جس کے خلاف اُچکزئی بڑبڑاہٹ کے مرض میں مبتلا ہیں۔
    ـــ دوسرا بھائی، حمید خان اچکزئی، بلوچستان اسمبلی کا رکن، اور پاکستان کی تنخواہ پر پلنے والا۔
    ـــ تیسرا بھائی، مجید خان اچکزئی، بلوچستان اسمبلی کا رکن، عوام کے ٹیکس پر راج کرنے والا
    ـــ سالا، سپوژ مئی اچکزئی، بلوچستان اسمبلی کا رکن، بھاری بھر کم تنخواہ اور مراعات
    ـــ سالی، نسیمہ اچکزئی ایم این اے، اسمبلی میں پشتون خواتین کو حقوق دلانے کے لیے گذشتہ تین سال سے ہونٹ سی کر لاکھوں کی ماہوار تنخواہ سے رہی ہیں۔
    ـــ ایک عدد مزید سالا، قاضی مقبول، نکما کہیں فٹ نہ سکا۔ بالآخر کوئٹہ ائیرپورٹ پر مینیجر لگوا دیا۔ سنا ہے وہ سب سے’’سوکھا‘‘ ہے۔
    ـــ ایک عدد اور سالا، حسن منطور، ڈی آئی جے موٹروے کے عہدے پر تعینات، کیسے؟ ’’میرٹ‘‘ پر۔
    ـــ بیوی کا کزن، سالار خان، بی یو آئی ٹی ایم ایس میں رجسٹرار بھرتی کروا دیا۔

    یہ نوازشات صرف قریبی رشتہ داروں پر، باقی جو ان گنت لوگ ’’آوٹر آربٹ‘‘ سے مستفید ہو رہے ہیں، وہ ان گنت ہیں۔ تو یہ تھے ’’اُچکزئی‘‘ صاحب، اُچکنے کے ماہر۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ اتنے ’’اُچکو‘‘ کیوں ہیں۔ بھئی پشتونوں کے حقوق کی جنگ بھی تو لڑنی ہے نا۔

  • حافظ سعید، بیرونی ہاتھ اور ایک دانشور – جمیل اصغر جامی

    حافظ سعید، بیرونی ہاتھ اور ایک دانشور – جمیل اصغر جامی

    جمیل اصغر جامی دانشور: پاکستان میں جو کچھ ہو رہا سب کا سب یہیں سے ہو رہا ہے، اس میں کوئی بیرونی ہاتھ نہیں ہے۔
    ناچیز: جی درست ہے، ادھر سے بہت کچھ ہو رہا ہے۔ لیکن بیرونی ہاتھ کا کردار بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی اس کا کلی انکار بھی قرین عقل نہیں ہے۔
    دانشور: ہرگز نہیں۔ سب کچھ گھر کے اندر سے ہو رہا ہے۔ ہم نے گھر کے اندر ہی حافظ سعید جیسے لوگ رکھے ہوے ہیں۔ اب یہ سب تو ہوگا نا۔
    ناچیز: حافظ سعید کا یہاں کیا ذکر؟
    دانشور: وہ انڈیا میں دہشت گردی کرواتا ہے۔
    ناچیز: گویا انڈیا میں دہشت گردی کے پیچھے’’بیرونی ہاتھ‘‘ ہے؟ لیکن پاکستان میں جاری دہشت گردی سب کی سب ’’اندرونی‘‘ ہے؟
    دانشور: کیا مطلب؟
    ناچیز: مطلب یہ کہ پاکستان خطے میں دہشت گردی کر رہا ہے اور انڈیا جنوبی ایشیا میں انسانیت کی خدمت پر مامور ہے۔
    دانشور: جناب آپ خوامخواہ میرا وقت ضائع کر رہے ہیں۔
    ناچیز: حضور صرف یہ پوچھنا مقصود ہے کہ دو ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی ہوتی ہے۔ ایک کے بارے میں آپ کوہ ہمالیہ پر چڑھ کر ’’بیرونی ہاتھ‘‘ کے کردار کو مسترد کرتے ہیں اور جب دوسرے کی باری آتی ہے تو پھر ایک ’’بیرونی ہاتھ‘‘ کی دہائی شروع کر دیتے ہیں۔ کیا یہ تضاد نہیں ہے؟ اگر وہاں بیرونی ہاتھ سرگرم ہو سکتا ہے تو یہاں بھی تو اس کا کوئی نہ کوئی کردار ہو سکتا ہے نا؟
    دانشور: پتا نہیں آپ کیا چاہتے ہیں۔ اللہ حافظ۔

  • مظلوم کا حقِ مزاحمت اور اسلام – جمیل اصغر جامی

    مظلوم کا حقِ مزاحمت اور اسلام – جمیل اصغر جامی

    جمیل اصغر جامیجبر اور ظلم کے خلاف جدوجہد انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ انسان کیا یہ ہر ذی روح کی فطرت کا حصہ ہے۔ زمین پر رینگنے والا ایک کیڑا بھی جب اپنی بقا کو خطرے میں پاتا ہے، تو پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر، پوری سرعت اور قوت سے مقابلے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ظلم کے خلاف جدوجہد، بقا کی جدوجہد ہے۔ دنیا کا ہر ضابطہ، دستور، اور اخلاقی اُصول اس جہدوجہد کی نہ صرف اجازت دیتا ہے، بلکہ اس کی تائید بھی کرتا ہے۔ کوئی ضابطہ، قانون یا مذہب اس بنیادی جبلی اُصول کی نفی کرکے، کائنات کی کسی ادنٰی درجے کی مخلوق کی تائید بھی حاصل نہیں کرسکتا، چہ جائیکہ کہ وہ انسانوں میں قبول عام حاصل کرلے۔

    اسلام کا تو سب سے بڑا دعوی انفرادیت ہی یہ ہے کہ یہ ”دینِ فطرت” ہے۔ اگر آپ اول و آخر اسلام کا مطالعہ کریں، تو یہ حقیقت بالکل واضح ہوجائے گی کہ یہ وہ مذہب ہے جو انسانی فطرت کے تمام جائز داعیات کا اثبات کرتا ہے اور ان کی تکمیل کے لیے بنیادی اخلاقی حدود و قیود کا ایک ضابطہ رکھتا ہے۔ ظلم اور جبر کے حوالے سے بھی اسلام مظلوم کی مزاحمت کے بنیادی فطری حق کا اثبات کرتاہے، ظالم اور مظلوم کے درمیان طاقت کے عدم توازن کو بھی بخوبی سمجھتا ہے لیکن اس عدم توازن کے باوجود مظلوم کا حقِ مزاحمت تسلیم کرتا ہے۔ اسی لیے تو ارشاد ہوا: ”کتنی ہی چھوٹی جماعتیں رہی ہیں، جو اللہ کے قانونِ صبر و استقامت سے بڑی جماعتوں پر غالب آگئیں، اور اللہ کی مدد تو ثابت قدم لوگوں کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔” پھر ظلم کے سامنے، لامتناہی صبرِ مطلق تو سر تا سر ظالم کی مدد ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ حکمت عملی کا تعین کیا جائے، سارے عوامل کو مدنظر رکھا جائے اور وہ راستہ اپنایا جائے جو سب سے زیادہ سود مند ہو۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی کوئی قوم کسی جارح کے جبر کا شکار ہوئی، تو اس نے ایک گونہ مزاحمت کو روا رکھا اور بالآخر یہی مزاحمت اس کی نجات کا باعث بنی۔ قرآن ان الفاظ میں مظلوم کو اپنے دفاع کا حق دیتا ہے: ”ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جا رہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بےشک اﷲ ان کی مدد پر بڑا قادر ہے۔ (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے۔”

    دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی قوم نے ظلم اور سفاکیت کے چلن کے سامنے صبر اور خود سپردگی کا رویہ اپنایا ہو، اور بالآخر، جارح طاقت نے یا تو رحم کھا کر، یا اپنی ساری کی ساری قاہرانہ طاقت صرف کر کے اس کی جان بخشی کردی ہو۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب بھی کوئی قوم مزاحمت کی راہِ پرخار کا انتخاب کرتی ہے، تو یہ فیصلہ اس کے لیے ہر چند کوئی آسان فیصلہ نہیں ہوتا۔ بھلا ایک ایسی قوم سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے کہ ہر راہ جو ادھر کو جاتی ہے، مقتل سے گزر کر جاتی ہے؟ وہ بخوبی جان چکی ہوتی ہے کہ سروں کی فصلیں کٹیں گی، خون مانند آب بہے گا اور مقتل سجیں گے۔ ظاہر ہے یہ سب جانتے ہوئے اگر ایک قوم کسی راہِ مغیلاں پر نکلتی ہے تو وہ اس سے پہلے بہت کچھ آزما چکی ہوتی ہے۔ بھلا کسے پڑی ہے کہ جو منزل کچھ سال جلسے اور جلوسوں کے اہتمام سے حاصل ہوسکے یا تحریر و تقریر اور سیاسی نشست و برخاست سے مل سکے، اس کے لیے سینے چھلنی کروائے، گردنیں کٹوائے اور لاشے اُٹھائے؟ اسی موضوع پر نوابزادہ نصراللہ خان علیہ الرحمہ کی دو لافانی سطریں:
    کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
    کب کوئی بلا صرف دعائوں سے ٹلی ہے

  • 19 جولائی، یوم الحاق پاکستان – جمیل اصغر جامی

    19 جولائی، یوم الحاق پاکستان – جمیل اصغر جامی

    12923288_10206370299922790_7302688591427071872_nموجودہ نسل کشمیر کے بارے میں کچھ خاص نہیں جانتی۔ اس کو بس اتنا معلوم ہے جو میڈیا نے اس کو ٹکڑوں میں بتایا ہے۔ یعنی یہ کوئی خطۂ ارضی ہے جہاں بھارتی فوج مظالم ڈھاتی ہے۔ جہاں لوگ شہید ہوتے ہیں اور جنازوں میں ایک جم غفیر شرکت کرتا ہے۔ ان کا مطالبہ آزادی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن کا علم اس سے بھی محدود ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ کشمیر کا تو کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں، بلکہ یہ تو پاکستان کی دراندازی ہے اور بس۔ کشمیریوں کو چاہیے کہ وہ فساد چھوڑ کر ’’پرامن‘‘ طور پر رہیں۔ جہالت انسان کو اعتماد تو بخشتی ہے لیکن حقیقت سے روشناس نہیں کرواتی۔ کشمیرکا مسئلہ جب تک ایک مکمل تاریخی تناظر میں نہ دیکھا جائے، اس کی سمجھ نہیں آسکتی۔ پھر ایسی ہی جہالت کو لے کر کچھ لوگ کشمیر کو کبھی بلوچستان سے تشبیہ دیتے ہیں اور کبھی انڈیا کا داخلی معاملہ قرار دیتے ہیں۔
    یہ بات سمجھنی بہت ضروری ہے کہ پاکستان نے اپنے تئیں کسی توسیع پسندانہ (Expansionist) ایجنڈے کے تحت کشمیر کے الحاق کا مطالبہ نہیں کیا۔ بلکہ یہ کشمیری تھے، جنھوں نے پاکستان کے وجود میں آنے سے بھی پہلے، خود اپنے آپ کو اور اپنی تقدیر کو پاکستان سے وابستہ کیا۔ اس لحاظ سے کشمیری باقی پاکستانیوں سے بھی پہلے کے ’’پاکستانی‘‘ ہیں۔ اگرچہ کشمیریوں کی تحریک حریت بہت پرانی ہے لیکن اس میں ایک فیصلہ کن موڑ 19 جولائی 1947 کو اس وقت آیا جب انھوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش کا دستاویزی اظہار کیا۔ معروف تجزیہ نگار اے آر قیصر صاحب کے مطابق، اس دن کشمیری مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم کانفرنس نے کنونشن منعقد کر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرار داد پاس کی، جس میں کہا گیا کہ مسلم کانفرنس کا یہ کنونشن اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ جغرافیائی حالات، مجموعی آبادی کی 80 فیصد مسلم اکثریت، پنجاب کے اہم دریائوں کی ریاست میں گزرگاہیں، زبان، ثقافتی، نسلی اور معاشی تعلقات اور ریاست کی سرحدوں کا پاکستان سے ملحق ہونا ایسے حقائق ہیں جو اس بات کو ضروری قرار دیتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر پاکستان کے ساتھ الحاق کرے۔ اس قرارداد کا اعلان ہوتے ہی کانگریس متحرک ہو گئی. پولیس اور فوج میں تبدیلیوں کے علاوہ آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا کے جتھوں کو ریاست میں بلوا لیا گیا۔
    ان تمام انتظامات کے باوجود 14 اگست کو جب پاکستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا تو پوری ریاست پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔ جب کشمیریوں کی مدد کے لیے رضاکار کشمیر میں داخل ہوئے تو یہ بھارت کی حکومت ہی تھی جس نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر اٹھایا اور سلامتی کونسل نے اس تنازع کے حل کےلیے قراردادیں پاس کیں۔ سلامتی کونسل میں کشمیری عوام کو یہ حق تفویض کیا گیا کہ وہ استصواب رائے کے ذریعے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کر لیں۔ بہرکیف یہ مسئلہ آج بھی متنازعہ ہے اور بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کو کشمیری عوام کی تائید حاصل نہیں۔
    یہ وہ بنیادی بات ہے جس کو سمجھے بغیر ہم کشمیریوں کے پاکستان سے رشتے کی گہرائی کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم وہی کچھ جانتے ہیں، جو کچھ ہمیں ہمارا ’’آزاد‘‘ میڈیا (وصول کی گئی ان پٹ کے مطابق) بتاتا ہے۔

  • کشمیر اور فیس بکی دانشوروں کا فکری افلاس – جمیل اصغر جامی

    کشمیر اور فیس بکی دانشوروں کا فکری افلاس – جمیل اصغر جامی

    12923288_10206370299922790_7302688591427071872_nظالم کے ظلم کی مذمت اور مظلوم سے یکجہتی اللہ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک ہے جس سے فی زمانہ بہت سے لوگ محروم ہیں۔ استدلالی اور عقلی درماندگیاں ہمارے فکری افلاس اور تاریخ سے عدم واقفیت کی مختلف صورتیں ہی تو ہیں۔ جن معاملات میں سر ظفراللہ خان اور اے کے بروہی جیسے لوگ بھی رات رات بھر تیاری کرکے راۓ دیتے تھے، آج دانشوران فیس بک اس کے بارے میں حتمی فیصلے سنا رہے ہیں۔ جن کو یہ بھی معلوم نہیں کہ انت ناگ کو اسلام آباد کیوں کہتے ہیں وہ بھی ’’ماہرین امور کشمیر‘‘ بنے بیٹھے ہیں۔ ان کے منہ سے برہان وانی کے لیے تو ایک بھی حرف ہمدردی نہ نکلا، لیکن اتنا ضرور یاد رہا کہ ’’بھئی اگر طاقت نہیں ہے، تو لڑتے کیوں ہو؟ مار تو پڑے گی نا‘‘ گویا پہلے جارح کے برابر طاقت حاصل کی جاۓ اور جب طاقت اور عسکری صلاحیت میں جارح کے برابر ہو جائو تو پھر، اس سے لڑو۔ یعنی الجزائر کے لوگ انتظار کرتے اور جب طاقت میں فرانس کے برابر ہو جاتے تو، علم جہاد بلند کرتے۔ یا یہ کہ ویت نام کے لوگ پہلے سپر پاور بنتے، پھر امریکی بربریت کے خلاف صف آرا ہوتے۔ بھلا کبھی ظالم اور مظلوم بھی طاقت میں ہم پلہ ہوۓ ہیں؟ اگر مظلوم طاقت میں ظالم کی ہم سری کرنے لگ جاۓ تو پھر تو ظلم کا وجود ہی کیسا؟ بھلا کبھی جارح اور محکوم بھی طاقت کے ترازو میں برابر ہوۓ ہیں؟ اور کیا کبھی ظالم اپنے زیر تسلط ایسے مواقع پیدا ہونے دے گا، کہ مظلوم طاقت میں اس کے برابر ہو جاے؟ اگر ایسا ہوتا تو پھر اللہ، مظلوم سے نصرت کا وعدہ ہی کیوں کرتا؟ اللہ کی کتاب واضح حکم دیتی ہے:
    [pullquote]أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ۔
    [/pullquote]

    ’’ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جا رہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک اﷲ ان کی مدد پر بڑا قادر ہے‘‘۔
    دوسری بات یہ کہ ان دانشوران فیس بک سے کس نے کہا کہ یہ جنگ کشمیریوں نے شروع کی ہے؟ جنگ شروع کرنا ایک شے ہے لیکن جنگ کا مسلط کیا جانا ایک بالکل دوسری۔ کیا یہی بات حضور نبی اکرمﷺ کے فرمودات سے ثابت نہیں؟ کس کی تعلیم ہے کہ جنگ کی تمنا مت کرو، نہ ہی اس کا آغاز کرو، لیکن اگر جنگ مسلط کر دی جاۓ تو پھر بہادری سے لڑو؟ یاد رکھیں، محض کسی آزاد ملک میں پیدا ہونا، اس بات کی گارنٹی نہیں ہے کہ ہماری فکر بھی آزاد ہوگی۔ غلامانہ ذہنیت غلامانہ ہی رہتی ہے۔ اور مردان حر، محکوم ملکوں میں پیدا ہو کر بھی، آزاد فطرت ہی ہوتے ہیں۔ اقبال نے ایسے ہی فطری محکوموں کے بارے میں کہا تھا:
    محکوم ہے بیگانۂ اخلاص و مروت
    ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک

  • مہذب سیکولر ملکوں کی بربریت. جمیل اصغرجامی

    مہذب سیکولر ملکوں کی بربریت. جمیل اصغرجامی

    12923288_10206370299922790_7302688591427071872_n دو ’’مہذب‘‘ اور سیکولر ملکوں کی بربریت کو آشکار کرتی ایک انکوائری رپورٹ۔
    ::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
    متحرم دوستو! ایک ’’بیانیہ‘‘ یہ بھی ہے۔
    :::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
    عراق کی جنگ کے متعلق سرکاری انکوائری کے چیئرمین سر جان چلکوٹ نے سات سال کے طویل عرصے میں مرتب کی گئی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ عراق کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے حملے سے قبل پرامن طریقے اختیار نہیں کیے گئے۔ اس رپورٹ کے مزید اہم نکات کچھ یوں ہیں: chilcotinquiryreport
    ۱۔ اس وقت عراق پر فوج کشی کرنا آخری راستہ نہیں تھا۔ نہ ہی یہ جنگ ناگزیر تھی۔
    ۲۔ وسیع پیمانے پر تباھی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خطرے کو بلاوجہ یقینی بنا کر پیش کیا گیا۔ ایسے ہتھیار عراق میں بالکل بھی نہیں تھے۔
    ۳۔ صدام کے بعد عراق کی صورتحال سےنمٹنے کے لیے منصوبہ بندی ناکافی تھی۔
    جنگ کے قانونی جواز پر بحث نہیں کی گئی۔
    ۴۔ برطانیہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اختیارات کی اہمیت کو کم کیا۔
    ۵۔ ناقص خفیہ اطلاعات پر پالیسی مرتب کی گئی۔
    ۵۔ ٹونی بیلئر نے صدر بش کو لکھا کہ: ’جو کچھ بھی ہو میں آپ کے ساتھ ہیں۔‘
    ۶۔ جنگ نے ایک خوفناک انسانی المیے کو جنم دیا جس کی ذمہ داری امریکہ اور برطانیہ پر عائد ہوتی ہے۔
    پس نوشت: عنوان میں ’’سیکولر‘‘ کا لفظ پڑھ، سیکولرازم کے حامی دانشور شدید احتجاج کریں گے اور کہیں گے: ’’بھیا عراق میں جو کچھ ہوا وہ ظلم تھا اس کا سیکولرازم سے کیا تعلق؟‘‘ تو جواباً عرض ہے کہ یہی اُصول اور اس وقت بھی مدنظر رکھا کریں جب آپ تحریک طالبان جیسے جنونی گروہوں اور داعش جیسے پیشہ ور قاتلوں کے کرتوتوں کو لیکر اسلام پر بحثیت مذہب صبح شام چڑھائی کرتے ہیں۔