Author: رضوان الرحمن رضی

  • رجوع کا وقت – رضوان الرحمن رضی

    رجوع کا وقت – رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی اگر بارِ خاطر گراں نہ گذرے اور جان کی امان عطا ہو تو عرض بس اتنا ساکرنا تھا کہ جن لوگوں نے بہت بڑے بڑے منہ کھول کر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ، ان کے بچوں ، رشتے داروں اور دیگر ساتھیوں کے مالی معاملات کے عدلیہ کے پاس جانے پر بغلیں بجائی تھیں اور اسے اپنی فتح پر محمول کیا تھا ،ان کا اپنی پہلی رائے سے رجوع کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ اہلِ نظر کو تو بات سمٹتی نظر آ رہی ہے اور اگر کسی کس و ناکس کو اب تک بھی نظر نہیں آ رہی تو وہ اپنی آنکھوں کا علاج کروائے۔

    خواہشات کے انبوہ اور نفرتوں کے انبار اپنی جگہ لیکن عام محاورہ یہی ہے کہ ’’قانون اندھا ہوتا ہے ‘‘ اور یوں قانون کے ایوانوں میں بیٹھے اس کے نمائندے وہی کچھ دیکھتے ہیں جو انہیں ثبوتوں کے ساتھ ان کی میز پر لا کر دکھایا جاتاہے۔ ہمارے ملک میں نافذ برطانوی قانون کے مطابق اگر جج اپنی آنکھوں کے سامنے کسی بے گناہ کا قتل ہوتے ہوئے بھی دیکھ لے تو وہ اس کا فیصلہ اس وقت تک کرنے کا مجاز نہیں ہوتا جب تک کہ ریاست کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کے سامنے اس واقعے کے تمام ثبوت اور گواہیاں لا کر پیش نہ کر دیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ ’سووموٹو‘ (خود اختیار کردہ ) نوٹس کے تحت ان اداروں کو ثبوت جلدی اور ایمانداری سے پیش کرنے کاتو کہہ سکتا ہے لیکن اپنے آنکھوں دیکھے واقعے پر بھی کوئی فیصلہ سنانے سے عاری ہوتا ہے۔ جج تو خود کسی واقعے کی تحقیقات بھی نہیں کرسکتا اس کے لئے پھر اسے ریاست کے دیگر اداروں پر ہی انحصار کرنا ہوتا ہے۔

    دراصل ہماری عمومی عدالتوں میں جج ایڈووکیٹ جنرل (جیگ) برانچ سے معاملات ذرا مختلف طریقے سے فیصل ہوتے ہیں ، اگرعدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کئے جانے معاملات اور ان کے ثبوت جیگ برانچ کے سامنے پیش ہوتے اور ملزم کوئی سویلئن ہوتا تو وہ یقینناً سزا سے نہ بچ پاتا، وردی پوش جرنیلوں کا معاملہ تا ہم دیگرہے کہ ان کے منہ سے نکلا ہر لفظ ہی دراصل قانون ہوتا ہے۔ اس لئے کشمیر پر بھارتی فوج کے خلاف دفاع سے لے کر مشرقی پاکستان اور چار مارشل لاوں تک کے معاملے پر کسی ذمہ دار جرنیل کے خلاف یہ قانون کبھی حرکت میں نہیں آیا، لیکن تخریب کاری کے ’شک‘ میں پکڑے جانے والوں کی پھانسیاں نان سٹاپ جاری ہیں۔ کہیں تو کس سے کہیں؟

    گورے نے اپنی نوآبادیات میں جیگ برانچ متعارف ہی اس لئے کروائی تھی کی غلاموں کی فوج میں نظم و ضبط کے نام پر اپنے حکم اور حکمرانی کا شکنجہ اچھی طرح کس کے رکھا جائے کہ کسی کو ملکہ کے نام پر جان دینے کے علاوہ کچھ اور سوچنے کی ہمت ہی نہ ہو۔ سوچوں پر پہرے بٹھانا اسے ہی کہتے ہیں۔

    سارے معاملات کی فائل اسی حوالے سے تیار کی گئی تھی لیکن وہ کیا ہے کہ مقدمہ ایک سویلئن عدالت میں پیش ہو گیا ہے اور چوں کہ ملک کی عدالتیں برطانوی ترکے میں چھوڑے رومن قانون کے تحت رو بہ عمل ہیں تو یہ انہی حقائق پر اسی معیار کی بناء پر فیصلہ کریں گی۔ اب معاملہ یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف صاحب نے بیرونِ ملک اثاثے کیسے بنائے؟ اور اگر یہ اثاثے بنائے تو ان کے لئے ذرائع آمدن کہاں ہیں؟ اور اگر یہ ذرائع آمدن موجود ہیں تو ان کا اظہار ان کاغذات میں کیوں نہیں جو انہوں نے اپنی نامزدگی کے وقت الیکشن کمیشن کو پیش کئے تھے؟ اور چوں کہ انہوں نے ایسا کرکے جھوٹ بولا ہے ، اس لئے ان کو نا اہل قرار دیا جائے۔
    آج کل ویسے بھی بہت سے لوگوں کو چچا یاد آ رہے ہیں لیکن ہمیں ایسے وقت میں چچا غالب یاد آئے اور کیا خوب یاد آئے
    مگس کو جنگل میں جانے نہ دیجیو
    کہ نا حق خون پروانے کا ہوگا

    کیسی کیسی کہانیاں گھڑی ہیں ہمارے محترمین نے۔ جب حالات غیر معمولی ہوں تواقدامات بھی غیر معمولی ہی ہوا کرتے ہیں۔ اگر میاں شریف اور ان کے خاندان کے اثاثوں کے بارے میں شکوک ہیں تو دونوں مواقع پر جب ان سے تمام کاروبار اور جائیداد چھین کر ان کو جلاوطن کیا گیا ، توکیا وہ حالات شکوک کے ہالے میں گھرے ہوئے نہیں ہیں؟ جس قانون کے تحت ان کی اتفاق فاونڈری کو قومیایا گیا اور بعد ازاں صرف ان کو واپس تھمایا گیا جب کہ باقیوں کے اثاثوں کو سرکاری تحویل میں ہی رکھا گیا ، یا جس قانون کے تحت ان کو قتل کے مقدمے میں سزا یافتہ ہونے کے باوجود سعودی شاہی جہاز پر جلاوطن کیا گیا تھا بس اسی قانون کے تحت یہ رقوم بھی ملک سے باہر گئی ہیں۔ چوں کہ ہم میں بحثیت قوم یہ یارا نہیں کہ ہم کسی وردی پوش جرنیل سے اس قانون کی کسی شق کے بارے میں استفسار کر سکیں تو پھر میاں صاحب اور ان کے خاندان سے بھی یہ سوال کرنے کا حق نہیں رکھتے، یہاں پر یقینناً ہمارے معاشرے اور قانون کے پر جلتے ہیں۔

    یہ تمام باتیں کسی مظاہرے یا دھرنے کے کنٹینر پر بنے سٹیج سے اوئے توئے کے ساتھ کرنے کے لئے تو اچھا مصالحہ ہیں لیکن ’اندھے قانون‘ کے سامنے ان کی حیثیت پرِ کاہ کے برابر بھی نہیں۔

    تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ کوئی تین ماہ قبل میاں صاحب کے بڑے صاحبزادے کچھ ہفتے سعودی عرب میں مقیم رہے۔ بظاہر تو مقصد اپنی دوسری اہلیہ کے ساتھ کچھ وقت گذار نا تھا لیکن دراصل اپنے ان اثاثوں کو قانونی غلاف پہنانا تھا۔ ایک شخص جو بیس کروڑ والی آبادی اور 270 ارب ڈالر سے زائد جی ڈی پی والے ملک کا تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکا ہو، کیا اس کو پوری دنیا میں کوئی ایک شخص بھی دستیاب نہیں ہوگا جو یہ کہہ سکے کہ میاں صاحب کی تمام ناجائز دولت اس کے تحفے کا شاخسانہ ہے؟ اور ظاہر ہے کسی نے کہہ دیا ہے اور ہمارے ملک میں نافذ ’اندھے قانون‘ نے تو پیش کیے گئے ثبوتوں پر جانا ہے۔

    مقدمہ بنانے والوں کو پتہ نہ چل سکا کہ سال 2011 میں سالانہ ٹیکس ریٹرن کے فارم میں (Dependent)کا خانہ ہی نہیں تھا ۔ اس بات کا باقاعدہ سرٹیفیکیٹ ملک کی سب سے بڑی چارٹرڈ اکاونٹنٹ فرم سے حاصل بھی کر لیا گیا ہے۔ رہی بات بیرونِ ملک اثاثوں کی تو اس کی ٹریل بھی مکمل کیا جا چکی ہے۔ اب تو ان ملزموں کو سزا دینے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کو آرمی ایکٹ مجریہ 1942 کے تحت گرفتار کرلیا جائے ، جس خواہش کا اظہار جناب شیخ رشید روزانہ ٹی وی کے مختلف حالاتِ حاضرہ (Entertainment ) کے پروگراموں میں بیٹھ کر کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں تو پھر ہی ان کو ان کردہ گناہوں کے الزام میں لٹکایا جا سکتا ہے۔

    خاکسار نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں ان تمام امور کی رپورٹنگ کر رکھی ہے اور یہ تمام حقائق میری انگلیوں کے رستے ہی قرطاس پر منتقل ہوئے تھے اس لیے میری بہت واضح یادداشت کا حصہ ہیں۔ جن معاملات پر ہمارے ’دوست ‘ ہاتھ ڈال رہے ہیں، ان پر میاں صاحب کو پکڑا تو کیا انگلی بھی نہیں لگائی جا سکتی۔ لیکن جن معاملات پر پکڑ اجا سکتا ہے، اس طرف کسی کا دھیان ہی نہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حدیبیہ پیپر اینڈ بورڈ ملز کے لیے استعمال شدہ مشینری جب اتفاق فاؤنڈری کے سکریپ کے پردے میں بغیر کوئی ٹیکس یا ڈیوٹی دیے درآمد کر کے نصب کی گئی تھی تو پھر اس کے بدلے نیشنل بینک سے قرض جاری کرتے وقت اسے نئی مشینری کیسے ظاہر کیا گیا؟ اور بعد میں یہ قرض جان بوجھ کر ڈیفالٹ کیوں کر دیا گیا؟ اور دیگر اداروں کے ساتھ یہ ادارہ بینک کے حوالے کردیا گیا کہ بیچ کر اپنے پیسے پورے کر لو؟ شاید اس لیے کہ سکریپ کے بدلے نئی مشینری کی قیمت وصول کر کے اب اس مل کو کون بےوقوف چلاتا۔

    یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ میاں صاحبان کی اس طرح کی بے شمار مالیاتی داستانیں اور ان کے کاغذات آج بھی خاکسار کی ذاتی لائبریری میں محفوظ ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میاں صاحب کے مخالفین کی نظر اس تک کیوں نہیں جاتی؟ تو کیا پھر معاملہ وہی ہے ناں کہ ہمارا سیاسی طبقہ اشرافیہ آپس میں ملا ہواہے، یہ کبھی بھی ایک دوسرے کے خلاف ’درست الزام‘ نہیں لگائیں گے تاکہ ان میں سے ہر فریق کا کام چلتا رہے اور ان کے ووٹرز ایک دوسرے سے لڑتے رہیں؟

  • میاں صاحب! رکیے، حوصلہ کیجیے، کھیل ابھی باقی ہے – رضوان الرحمن رضی

    میاں صاحب! رکیے، حوصلہ کیجیے، کھیل ابھی باقی ہے – رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی ٹھہریے صاحب ٹھہریے! ایسا نہ کیجیے، سیاسی برداشت بھی کوئی چیز ہوتی ہے، آپ نے اسلام آباد کا ’’لاک اپ‘‘ اپنی انتظامی حکمت عملی سے ناکام بنا کر شاید وقتی طور پر اس مرحلے میں کامیابی حاصل کر لی ہے لیکن سیاست سے ہٹ کر بہت سی اخلاقی اور معاشرتی باتیں تو ابھی طے ہونا باقی ہیں، تو کیا ضروری ہے کہ اس وقتی فتح کے بعد ہارنے والے مخالف کو اس قدر کچلا جائے کہ مرتا دشمن آخری لڑائی کے لیے پوری قوت کے ساتھ پھر اٹھ کھڑا ہو اور حملہ آور ہو جائے؟ لیکن یاد رکھیے یہ تو ایک مرحلہ تھا، سنگِ میل تھا، منزل نہیں تھی، ابھی بہت سا کھیل باقی ہے۔ آپ نے جس طرح ریاست کی اندھی طاقت کو اپنی سیاسی بقاء کے لیے استعمال کیا، وہ آپ کا حق بھی تھا لیکن یہ سیاسی تاریخ کا حصہ رہے گی، لیکن صاحب! کامیاب لوگوں کے بھی کچھ تو لچھن ہوتے ہیں آپ کچھ ہاتھ ہلکا رکھیے، ایسا نہ کریں، اس قدر مذاق نہ اڑائیں، بگڑے بچوں پر طنز کے تیر نہ چلائیں، سماجی میڈیا پر نہ ہی سہی، دوسروں کو بھی جینے کا حق دیں۔ ورنہ وہ کیا وجہ ہے کہ آپ کے بنی گالہ والے گھر میں چل کر جانے کے باوجود بھی وہ ٹھیک دو ہفتے بعد آپ کے خلاف میدان میں نکل کھڑا ہوتا ہے؟

    آپ کے چماٹ تو دن رات آپ کے بارے میں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ’’شیر نے سرور پیلس کے مراقبوں میں گذشتہ دور ہائے اقتدار کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے‘‘ لیکن ایسی کوئی بات بھی آپ کی ’بدن بولی‘ یا فیصلوں سے تو مترشح نہیں ہوتی۔ ویسے ہی بے ڈھنگے فیصلے اور وہی واہیات بیانیے؟ آپ کی پہلے والی حرکتوں اور شدید میڈیا ٹرائل نے ہی کپتان کو اس سطح پر گرنے پر مجبور کیا تھا کہ وہ تنگ آمد بجنگ آمد کہتے ہوئے لڑنے مرنے پر اتر آیا اور اسلام آباد کو لاک اپ کرنے کا اعلان کردیا۔ اب اگر اسے سیاسی طور پر سیاسی مخالفین کو اگر سانس لینے کی جگہ یا پھر بھاگنے کے لیے راستہ نہیں دیں گے تو وہ پھر چینی بلی کی طرح گلے کو آئیں گے۔

    خاکسار اس بات کا داعی رہا ہے کہ مریم بی بی کی ذاتی زندگی کے حوالے سے کسی بھی قسم کی ناواجب بات نہ کی جائے جو کہ آج کل بگڑے انصافی بچوں کا شیوہ ہے کیوں کہ ان کی تربیت ہی خراب ہو گئی ہے۔ آپ کی اعلیٰ تعلیمی خدمات کے بدولت نجی تعلیمی اداروں میں لاکھوں روپے فیس کے نام پر دے کر ڈگریاں خریدنے والی اس مخلوق کو جب عملی زندگی میں اپنا کوئی مرئی یا غیر مرئی کردار نظر نہیں آتا تو ان کا آپ کے خلاف آپے سے باہر ہونا بنتا ہے۔ آپ کی صورت میں تعلیم اور تعلیمی نظام پر اترنے والے عذاب کے نتیجے میں معاشرے پر یہی تباہی ہونا تھی۔ جبکہ آپ کی ذہنی سطح یہ ہے کہ پنجاب کے کروڑوں بچوں کے لیے درجن بھر دانش سکول (دراصل ڈنمارک حکومت سے ان کے لیے رقم ملنے کے باعث یہ ’ڈینش سکول ‘ ہیں) بنا کر آپ کے بھائی مائیک گرانے کے فن کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔

    اس بنا پر خاکسار کو ہر روز بگڑے انصافی بچوں کے ہاتھوں گالم گلوچ اور طعنوں کا سامنا بھی رہتا ہے کیوں کہ نوے کی دہائی کی سیاست میں بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو (مرحومین) کی نجی زندگیوں کے بارے میں جو بےبنیاد بکواسیات کی گئیں اس کے نتیجے میں ہماری قومی زندگی میں جو تلخیاں در آئیں، ہم ووٹرز کی سطح پر آج تک ان کو ختم کرنے میں ناکامی کا شکار ہیں، اور نتیجہ یہ ہے ملک کی مختلف سیاسی اور معاشرتی اکائیوں کے درمیان شکر رنجیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔

    آپ کے اذکارِ رفتہ میڈیا مینیجرز تو اخلاقیات کی تمام حدود ہی پار کر گئے ہیں۔ دراصل آپ تو اکیسویں صدی میں تشریف لے آئے ہیں لیکن آپ کا ذہن ابھی تک شاید پچھلی صدی میں ہی اٹکا ہوا ہے اور آپ ذہنی طور پر اسّی اور نوے کی دہائی والے سیاسی ماحول میں ہی سانس لے رہے ہیں۔ اب بھلا عین دھرنے کے آغاز کے ساتھ ہی عمران خان کی سابق اہلیہ کو قومی ادارے پاکستان ٹیلی ویژن پر لے کر بیٹھ جانے کی کیا منطق تھی؟ اس کا مطلب یہی تھا کہ آپ کے میڈیا مینیجرز گھٹیا پن کی اتھاہ گھاٹیوں میں اتر چکے ہیں۔ ماشاءاللہ آپ کی طرف سے تقرر کردہ چیئرمین پی ٹی وی اس پروگرام کے یکے از میزبان تھے، اس لیے اس بات کا دھیان کیے بغیر کہ موصوف کا پروگرام ہفتے کے آخری دنوں میں ہوتا ہے، اس پروگرام کی منصوبہ بندی خصوصی طور پر ہفتے کے درمیان عین منگل کے روز کے لیے کی گئی۔ اور پھر اس خاتون کے منہ سے ایسی ذومعنی باتیں نکلوائی گئیں کہ ہمارا پی ٹی وی کے بارے میں ایک فیملی ٹی وی ہونے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی خاتون اپنے سابق خاوند کی شان میں تعریف و توصیف کے ڈونگرے تو نہیں برسا سکتی ناں؟ پھر اس پر بھی دل نہیں بھرا تو اس کو اگلے دن کے مارننگ شو میں بلا لیا گیا اور وہی ’رات والی‘ باتیں دہرائی گئیں اور تادمِ تحریر اس پروگرام کو بار بار نشر کیا جا رہا ہے۔ حالاں کہ اگر یہی کام اگر آپ اپنے برادرِ خورد کے حوالے کر دیتے تو یہ کباڑ کب کا اس باب کو اپنے ہاں بند کر چکا ہوتا۔

    جنابِ والا! پی ٹی وی ان آٹھ ارب روپے ماہانہ سے چلایا جاتا ہے جو میرے اور میرے جیسے ان شرفاء کے بجلی کے بل کے ساتھ اکٹھے کیے گئے پنتیس روپے ماہانہ کے ذریعے اکٹھا ہوتے ہیں، جوآپ کی رٹ کے خوف سے (بدقسمتی سے) بل ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ آپ نے برسراقتدار آتے ہی 132 پسندیدہ لوگوں کو ایسے تقرر نامے جاری کیے جن کی تنخواہیں تین سے دس لاکھ روپے ماہانہ ہیں اور جن کے چہرے ان کے اپنے نجی ٹی وی چینلز پر تو نظر آتے ہیں لیکن یہ خواتین و حضرات ہمارے پی ٹی وی پر نظر نہیں آتے۔ ہم یہ برداشت کرتے رہے ہیں، محض اس لیے کہ اگر زرداری صاحب تین سو کے لگ بھگ جیالوں کی ایسی تقرریاں کر سکتے ہیں تو اتنی بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کی تقرری تو آپ کا جبری حق ٹھہرا۔ لیکن اب ہو یہ رہا ہے کہ اس سرکاری ٹی وی سے اسلام کے بنیادی شعائر (یعنی عید الاضحی پر جانوروں کی قربانی) کے خلاف بھی مہم چلائی گئی اور ایسے ایسے دہریے بیٹھ کر نظریہ پاکستان پر درس دیتے رہے کہ جنہوں نے اپنی دہریت ثابت کرنے کے لیے اپنے والدین کی نماز ہائے جنازہ بھی ادا نہیں کی تھی۔

    آپ کو حکومت کرنے کا مینڈیٹ یقیناً ملا ہے (اگرچہ یہ اقتدار بھی سال 2001ء کے آپ کی جلاوطنی کے معاہدے کا تتمہ ہے) لیکن ہم اس معاشرے کی مبادیات آپ کو تبدیل نہیں کرنے دیں گے۔ فیصلہ سازی کے عمل سے آپ بالکل عاری ہو چکے ہیں ورنہ عمران خان نے دھرنا تو آپ کے اقتدار میں آنے کے سوا سال بعد دیا تھا، ان پندرہ ماہ میں کوئی اہم ملکی فیصلہ جو آپ نے اقتصادی، سیاسی یا سفارتی محاذ پر کیا ہو اور اس پر قائم بھی رہے ہوں تو ہمیں ضرور بتائیے گا۔ کیوں کہ اس عرصے میں آپ کا گڈانی پاور پارک کا فیصلہ اور آپ کے برادرِ خورد کا نندی پور کا منصوبہ ایک مجرد ناکامی کے طور پر آپ کی حکومت کے منہ پر لکھے جا چکے ہیں۔

    ایسے میں کیا ضروری ہے کہ عمران خان کی ناکام ازدواجی زندگی کا دھنڈورا ہمارے پیسوں سے چلنے والے قومی ادارے پر نشر کیا جائے؟ اگر کل کو کوئی دوسرا برسرِ اقتدار آ کر آپ کے دونوں بڑے بچوں کی ناکام ازدواجی زندگیوں کے بارے میں کچھ کہے گا تو کیا وہ مناسب ہوگا؟ عمران خان صاحب کے طریقِ سیاست سے اختلاف ہو سکتا ہے اور ہمیں بھی ہے۔ ہم اس کی قیمت بھی ادا کر رہے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ہماری آئندہ نسلوں کو ذہنی بانجھ پن میں مبتلا کردیں۔ ان کو تو ستر سال بعد پتہ چلا ہے کہ ان کے والد نے دراصل نمازِ جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے کیا کہا تھا؟

    جس طرح ستر سال کی اوسط عمر والے ان ازکارِ رفتہ بڈھے میڈیا مینیجرز نے جو آپ کا انجام کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے، تو ان سے یہ بھی پوچھ لیں کہ اس سال بےنظیر کی برسی میں لاڑکانہ کے سٹیج پر بلاول بھٹو کے پہلو میں بیٹھ کر کس کی طرف بوسے اچھال رہے ہوں گے اور منہ میں دبئی سے بھیجی گئی زرداری کی الائچیاں ڈال رہے ہوں گے؟

  • عمران خان تم جیت گئے ہو – رضوان الرحمن رضی

    عمران خان تم جیت گئے ہو – رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی عمران خان تم جیت گئے ہو، جنگ کے آغاز سے قبل ہی ’ن لیگی‘ حکومت کی تزویراتی شکست کا بگل بج رہا ہے۔ جس طرح ان کے لشکر میں افراتفری کے آثار نمایاں ہیں اور جس طرح لیگی تنخواہ یافتہ میراثی سرکاری اور بعض غیر سرکاری ٹی وی پر بیٹھے ٹامک ٹوئیاں مار کر اپنی راتب خوری کا حق ادا کر رہے ہیں تو اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ضرب بہت کاری ہے اور بس شکست کا اعتراف ہوا ہی چاہتا ہے۔ جب دلیل کم پڑتی ہے تو پھر تشدد کو راہ دیتی ہے اور تشدد کا آغاز ہوا ہی چاہتا ہے۔

    اس شکست کے آثار اس وقت سامنے آنا شروع ہو گئے تھے جب دھرنے کی تاریخ سے دس دن قبل ہی حکومتی ٹیم کے سب سے اہم اور مؤثر ممبر جناب اسحاق ڈار نے کراچی میں ’منہ سے آگ نکالنے‘ کا مظاہرہ کر ڈالا اور شاہدرہ (لاہور ) میں لڑنے والی مشہور ہمسائیوں کی طرح حزبِ اختلاف کو بے نقط طعنے دے ڈالے اور اس لڑائی میں پشاور سے کراچی تک چلنے والے ٹرکوں کے پیچھے لکھے فقرے پڑھنا شروع کر دیے ’جلنے والے کا منہ کالا‘ اور ’ محنت کر حسد نہ کر‘۔ حافظ محمد اسحاق ڈار جن کو حکومتی ٹیم میں سے سب سے نرم خو کہا جاتا ہے اور وہ حکومت کی جانب سے صلح صفائی کے پیغام لاتے رہے ہیں، انہوں نے جب منہ سے آگ نکالی تو پتہ چل گیا کہ حکومتی صفوں میں ہل چل مچ گئی ہے جس نے عمران خان کو مزید شیر کر دیا ہے۔ اب حکومت کی طرف سے رابطوں کا کام خواجہ سعد رفیق کو سونپا گیا ہے جن کی اسمبلی رکنیت اور وزارت ریلوے عدالتِ عظمیٰ کے ایک حکمِ امتناعی کی مرہونِ منت ہے۔ ظاہر ہے پی ٹی آئی ان سے مذاکرات کرنے سے تو رہی تو یوں حکومت نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کے تمام امکانات معدوم کر دیے ہیں۔ دلائل سے بھاگنے کا عمل شکست کا اعلان ہی تو ہوا کرتا ہے۔

    یہ اعلان شکست ہر اس ٹی وی کے پراپیگنڈہ اشتہار کے ساتھ گونج رہا ہے اور بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے جو ہر پندرہ سیکنڈ کے بعد ہماری آنکھوں کے سامنے ٹی وی پر ظاہر ہو رہا ہے اور ہمیں باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ میاں نواز شریف نے گزشتہ ساڑھے تین سال میں ملک کے طول و عرض میں جو دودھ اور شہر کی جو نہریں بہائی ہیں، ان کے سوتے ہم تک پہنچا ہی چاہتے ہیں۔ اب تک کیوں نہیں پہنچے، یہی ہمارا سوال ہے اور اس کا ہی ان اشتہارات میں کوئی جواب نہیں۔ ہزاروں میگاواٹ کا گڈانی پاور پراجیکٹ کروڑوں روپے کے اخراجات کے بعد بغیر کوئی وجہ بتائے بند کیوں کیا گیا؟ نندی پور جس کی اس قدر ڈھول بتاشے کے ساتھ تکمیل ہوئی تھی، وہ گرمیوں میں کیوں چل نہیں پاتا جب قوم کو بجلی کی ضرورت ہوتی ہے اور صرف سردیوں میں ہی کیوں چلتا ہے؟ اس کا ریکارڈ جلانا کیوں ضروری خیال کیا گیا؟

    جس طرح لیگی راتب خوروں کی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے، لگتا یہی ہے کہ ہر سیاسی ضرب کاری اور بھاری پڑ رہی ہے۔ ن لیگ کے موجودہ طریق کار کے بانی مبانی جناب زبیر عمر صاحب جنہوں نے جب میاں نواز شریف کے کان میں کچھ پھونکا تو میاں صاحب نے باقی سب کو خود سے دور کر دیا اور خود کو زبیر عمر صاحب کے طریق کار تک محدود کر لیا، زبیر عمر کا طریق کار یہ تھا کہ وقت گزارا جائے تا آنکہ مارچ 2017ء آ جائے اور نون لیگی میاں صاحب کے آگے پیچھے دھمالیں ڈالتے مختلف منصوبوں کے پہلے مراحل کے افتتاحی فیتے کاٹنے میں مصروف ہو جائیں۔ میاں نواز شریف کے دل کا آپریشن اور پانامہ لیکس پر تحقیقاتی کمیشن کے ضابطہ کار کو طے کرنے کے لیے طویل ملاقاتیں دراصل اسی پالیسی کا حصہ تھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت گزارا جائے۔

    مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں اطراف سے مشرقی پاکستان والے جنرل غلام عمر کے صاحبزادگان، زبیر عمر اور اسد عمر، جن کو ناکام منصوبہ بندیوں کا آبائی تجربہ ہے، انہوں نے دونوں اطراف سے خاصا زور لگایا ہوا ہے۔ اس لیے عمران خان وقت کا دھارا روکنے میں مصروف ہوگئے ہیں اور لگ یہی رہا ہے کہ اس کام میں ن لیگ کے راتب خور کچھ عمران خان کے زیادہ ہی مددگار ثابت ہورہے ہیں۔

    حالات کی اس خرابی میں ملک کی معروف صحافتی طوائفوں کا بہت دخل ہے۔ جیسے ہی سیاسی ماحول میں تیزی آئی، ان صحافتی طوائفوں کے اداروں کے لیے قومی خزانے کے منہ کھول دیے گئے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ یہ تو سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا پر اس آگ کو آکٹین پٹرول سے بجھائیں گے تا کہ ماحول زیادہ گرم ہو اور ان کے لیے راتب کا زیادہ سامان ہو۔ لاہور کے ایک عظیم صحافی جو اپنے ٹی وی پروگرام میں بڑی شد و مد کے ساتھ ن لیگی حمایت میں رطب اللسان نظر آتے ہیں، انہوں نے پی ٹی آئی کے بینرز کی چھپوائی کا کام بھی پکڑ لیا ہے۔ اس لیے ان صحافیوں کا پورا زور اس بات پر ہے کسی نہ کسی طور یہ لڑائی طول پکڑے اور ان کے جیبیں قومی خزانے سے لٹائے گئے اشتہارات کی رقوم سے بھر تے جائیں۔

    حکومت کی موجودہ ابلاغی پالیسی کے خالقین پر قربان جانے کو دل کرتا ہے۔ جس طرح بہادر کمانڈو پرویز مشرف صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں‘‘ اسی طرح لاہور کے ایک صاحب ، جو آج کل سرکاری ٹی وی کے مدارالمہام ہوتے ہیں، یہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’میرے والدِ گرامی مولانا ۔۔۔۔ ماڈل ٹاؤن کی مسجد میں جمعہ پڑھایا کرتے تھے‘‘۔ سنا ہے آج کل وہ بھی ایک شدید قسم کے ڈپریشن میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ پی ٹی وی پر قبضہ کرنے کے بعد موصوف نے کافی مشکل سے اپنے ہونہار بروا کے لیے افرادی قوت کی برآمد کے لائسنس جاری کرنے والے سرکاری ادارے میں بہت ہی زیادہ ’پیداواری‘ پوسٹ کا اہتمام کیا تھا کہ کچھ حاسدین عدالت جا پہنچے اور وزیر اعظم کے اس خصوصی حکم پر عمل درآمد رکوا دیا ہے۔ اب طبیعت میں شدید بے چینی اور ذہن دباؤ کا شکار ہے۔ تو یہ دباؤ کہیں تو نکلے گا ناں؟

    لگتا یہی ہے کہ اُدھر وفاق میں بھی’خالو بھانجا‘ میڈیا پالیسی شکست فاش سے دوچار ہونے کو ہے۔ اس وقت میاں نواز شریف کے ارد گرد اکٹھے میڈیا مینجرز نامی ذہنی بونوں کی اوسط عمر ستر سال سے زائد ہے۔ ان میں سے سب کی مشترکہ قابلیت یہ ہے کہ اس دور میں بھی یہ سمارٹ فون سے بھی صرف کال ہی سننے کا کام لیتے ہیں جب دنیا کا سارا میڈیا اس موبائل فون میں سمٹ گیا ہے۔ اگر اس قدر پست ذہنی سطح کے ساتھ یہ بونے حکومتی ابلاغی پالیسی کے خالق اور چلانے والے ہیں تو حکومت کو سرکاری خزانے سے اربوں روپے لٹانے کے باوجود بھی اتنے جوتے پڑنے کا کام عین میرٹ پر ہو رہا ہے۔

    جب غنیم کے لشکر اس قدر ہل چل ہو تو یہ اعلانِ شکست ہوا کرتا ہے۔ اس لیے عمران خان تم میدان میں اترنے سے پہلے ہی آدھی سے زیادہ جنگ جیت چکے ہو۔ اب تم دھرنا نہ بھی دو، اسلام آباد کا گھیراؤ نہ بھی کر سکو تو یاد رکھنا کہ تم نے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوچکے ہو۔

  • صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے – رضوان الرحمن رضی

    صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے – رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی اس وقت پاکستان کا صحافتی منظرنامہ دو واقعات سے گونج رہا ہے۔ ابھی سیرل المیڈا کی خبر پر اٹھنے والا شور وغوغا مدھم نہیں ہوا تھا کہ عروس البلاد کراچی میں ایک خاتون اینکر کو رینجرز کے ایک اہل کار نے ’کارِ سرکار میں مداخلت پر‘ چٹاخ سے ایک تھپڑ جڑ دیا۔ دونوں واقعات کا بظاہر ایک دوسرے سے دور کا بھی تعلق بھی نہیں نظر نہیں آتا لیکن اگر احتیاط سے دیکھا جائے تو دونوں واقعات کے ڈانڈے ایک ہی جگہ سے جا کر ملتے ہیں۔

    کوئی دور تھا کہ صحافت میں صرف اہل الرائے اور نظریاتی لوگ ہی آیا کرتے تھے، کیوں کہ صحافت میں تنخواہیں بہت کم ہوا کرتی تھیں اور وہ بھی کبھی کبھار ہی ملتی تھیں۔ جب ہم جیسے جونیئرز اپنے سینیئرز سے اس حوالے سے شکوہ کناں ہوتے تو جواب ملتا کہ ’جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں‘؟ صحافیوں کو معاشرے میں بیک وقت رحم اور خوف کی نگاہوں سے دیکھا جاتا۔ ہمیں بتایا جاتا کہ صحافت واحد شعبہ ہے جس میں پچاسی فی صد سے زائد لوگوں کو تنخواہ تو ملتی ہی نہیں تھی۔ اس حوالے سے ضلعی اور علاقائی نامہ نگاروں کا حوالہ دیا جاتا جو ہر گلی محلے میں اعزازی طور پر کام کرتے اور کسی عوضانے یا تنخواہ کے طلب گار نہ ہوتے۔ بڑے بڑے اخبارات بھی ان کو فی سطر کے لحاظ سے ادائیگی کرتے جو ان کے قلم کی سیاہی کا خرچ بھی پورا نہ کرپاتی۔

    پھر گذشتہ صدی کی اسی کی دہائی میں لاہور میں ایک رحجان ساز تبدیلی آئی جب کچھ صحافیوں نے ایڑیاں اٹھا کر میڈیامیں شامل ہونے کی کوشش کی اور علاقائی نامہ نگاروں کو کہہ دیا گیا کہ ’’اپنا کھا آنا، اور ہمارے لیے لیتے آنا‘‘یعنی ان اخبارات نے پورے ملک کے ہر گلی محلے میں پھیلے اپنے نمائندگان اور نامہ نگاروں کے ذمے لگایا کہ وہ ہر محلے سے انہیں اس قدر رقم بھیجیں ، بھلے وہ اخبار اس قابل ہے یا نہیں کہ اس کو اشتہار دیا جا سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے پورے معاشرے میں بلیک میلروں کے سیلاب کا ایک ریلا کھول دیا۔ کبھی تھانے بکتے ہوں گے یا پھر ائیرپورٹس پر امیگریشن کے کاؤنٹر بکتے ہوں گے اب شہروں کے بیورو بھی بکنے لگے۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اخبارات نے پولیس کے متوازی ایک حکومت قائم کر لی جو ہر سرکاری ادارے کی بدعنوانی کے یا تو حصہ دار تھے یا پھر پشتی بان۔ اور جہاں پر وہ یہ نہ ہوتے تو اس کی خبر چھپ جاتی۔

    ہمیں یاد ہے کہ جب ہمارا رشتہ گیا تو ہماری ہونے والی زوجہ محترمہ کی نانی (مرحومہ) نے دریافت کیا کہ ’لڑکا کرتا کیا ہے‘‘ تو انہیں بتایا گیا کہ وہ اخبار نویس ہے۔ اس پر انہوں نے بڑے تحمل سے کہا کہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن کام کیا کرتا ہے؟ ہماری بیٹی کو کہاں سے کھلائے گا؟ ہم انہیں شادی کے دس سال بعد تک نہ سمجھا پائے کہ اس شعبے میں بھی تنخواہ دینے کا رواج ہو گیا ہوا ہے۔ اس صدی کی ابتدا تک اگرچہ حالات بہت خراب ہو چکے تھے لیکن بلیک میلنگ کے لیے آنے والے صحافی کا قلم جیب میں ہی چھپا ہوا تھا اور خال ہی باہر آتا، جب اسے اپنا تعارف کروانے کی ضرورت ہوتی۔

    لیکن نجی ٹی وی کی آمد نے تو بیچ چوراہے بھانڈہ پھوڑ دیا۔ اب تو صحافی (خصوصاً علاقائی) ہاتھ میں مائیک ایسے لہراتا ہے جیسے مولا جٹ گنڈاسہ لہرایا کرتا تھا۔ لاہور کے ایک ٹی وی نے اپنے ایک نامہ نگار کو ایک جعلی ڈی ایس این جی محض اس لیے بنوا کر دی ہے کہ وہ اپنے علاقے کو کنٹرول کر سکے۔ یار دوستوں کو معلوم ہے کہ اس وین کے اوپر جڑی ڈش کا مصنوعی سیارے سے دور کا بھی واسطہ نہیں لیکن اس سے کسی کو کیا لینا دینا، ساہی وال کی نواحی اوکاڑہ چھاؤنی کے علاقے کا یہ شاہکار رپورٹر مختلف صنعت کاروں اور تاجروں کے گھروں کے باہر اپنی یہ ڈی ایس این جی کار کھڑی کرتا ہے اور انہیں دھمکی دیتا ہے کہ وہ ان کے کاروبار کی بد اعمالیوں اور سیاہ کاریوں پر ’براہِ راست‘ نشریات شروع کرنے لگا ہے۔ اور من کی مراد پا کر واپس آتا ہے۔ ایک دفعہ جب ایک کثیر القومی ادارے کے مقامی دفتر نے ان کے مطالبات پورے کرنے سے انکار کیا تو انہوں نے خبر چلوا دی کہ اس ادارے کے پاس لاکھوں ایسی سمیں موجود ہیں جو طالبان کو فراہم کی جاتی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سب سے پہلے کی دوڑ میں شامل میڈیا نے بغیر تحقیق کے اس پر پروگرامات بھی کر ڈالے۔ وہ تو بعد میں جب اصل حقیقت آشکار ہوئی تو مقامی پولیس اور ملک کے سب سے بڑے ’خفیہ ادارے ‘ نے مل ملا کر معاملہ دبا دیا۔ کیوں کہ اس میں کچھ ’پردہ نشینوں‘ کے بھی نام آتے تھے۔

    لیکن اب ہوا یہ ہے کہ اس معاشرے نے دو دہائیوں میں میڈیا متاثرین کی جو ایک نسل تیار کی ہے وہ اب پیسے کے زور پر میڈیا مالکان کی صف میں شامل ہو رہی ہے۔ چوں کہ ان کو بلیک میل کر کے ان کی راتوں کی نیند حرام کرنے والا صحافی دراصل ایک رپورٹر ہی ہوا کرتا تھا، اس لیے صحافت اور صحافی (رپورٹر) سے نفرت ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اس لیے نئے میڈیا مالکان کا بس نہیں چلتا کہ وہ صحافیوں کو ذلیل کر کے اپنی عزتِ نفس مجروح کرنے کا انتقام ان سے لیں۔

    اب مسئلہ یہ ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس کے ایک اجلاس کی اندرونی کہانی کی خبر ایک ایسے صاحب نے دی جن کا رپورٹنگ کا ایک دن کا بھی تجربہ نہیں۔ ایک پیدائشی رپورٹر کے طور پر ہمیں معلوم ہے کہ جس طرح کی سمری موصوف کے ہاتھ لگی ہے، اس طرح کی بہت سی دستاویزات روزانہ کی بنیاد پر ایک رپورٹر کے ہاتھ لگتی ہیں، لیکن اس کے اندر کا سنسر بورڈ فوراً اس طرح کی خبروں کو مسترد کر دیتا ہے۔ چوں کہ موصوف کے فرشتوں نے تمام عمر ایسا کام نہیں کیا تھا بلکہ انہیں تو سکھایا ہی چھپی ہوئی خبر پر تبصرہ کرنا تھا، اس لیے موصوف نے اپنی خبر میں وہ اعلیٰ قسم کی بونگیاں ماری ہیں کہ صحافت سر پیٹتے ننگے سر بازار میں نکل آئی ہے۔

    میڈیا مالکان نے دوسرا انتقام صحافت سے یہ لیا ہے کہ صحافی کون ہے؟ اور اس کی اوقات کیا ہے؟ صحافی کو اس کی اوقات یاد دلوانے کے لیے اسے کیمرے کے سامنے سے اٹھا کر کیمرے کے پیچھے بٹھا دیا گیا اور کیمرے کے سامنے ایک حشرسامان بیگم جان براجمان ہو گئی ہیں۔ محرومی اور ڈپریشن کا شکار خبر سننے کے لیے رکے یا نہ رکے، اس بیگم جان کو دیکھنے کے لیے ضرور رکتی ہے۔ جس خاتون کو ’مدعہ ای اے بھائی‘ کہہ کر پورے رپورٹنگ روم میں منہ نہیں لگایا کرتا تھا، اب وہ ملک کی ٹاپ رینکنگ اینکر ہوتی ہے۔ یہ وہ انتقام ہے جو ہر میڈیا مالک نے ہم جیسے صحافیوں سے لیا ہے۔ دوسری طرف ہر تعلیم فروش، سوتر فروش، سگریٹ فروش، کیبل فروش اور ضمیر فروش اب میڈیا مالکان کی صف میں گھس آیا ہے۔

    اب کراچی میں تھپڑ کھانے والی خاتون کو اگر میڈیا پروڈکشن یا صحافت کے معیار کے طور پر دیکھیں تو کسی طور بھی پرائم ٹائم کیا انہیں سرے سے ہی سکرین پر نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن سہاگن وہ جو پیا من بھائے۔ چوں کہ وہ اس چینل کے مالک صاحب کو پسند ہیں ، اس لیے ’ضروری ہیں‘۔ اس کے بعد انہوں نے جو حرکت فرمائی وہ سبحان اللہ۔ ہمیں پہلے دن بتایا گیا تھا کہ ادارے کا نکتہ نظر اس کے سربراہ سے معلوم کیا جاتا ہے۔ اگر پولیس کا آئی جی نہ ملے تو کم ازکم ڈی آئی جی سے کم بات نہ کرنا۔ لیکن موصوفہ نے تو ایک سپاہی کو ہی بتانے کی کوشش کی کہ اس کے گھر میں ماں بہن ہوتی ہے کہ نہیں۔

    بہادر کمانڈو جنرل پرویز مشرف صاحب کی اعلیٰ پالیسیوں کے باعث ان کے ادارے کے بارے میں لوگوں کی پسندیدگی اس انتہا کو پہنچی تھی کہ ادارے کو یہ بات نوٹی فائی کرنا پڑی تھی کہ ادارے کا کوئی افسر یا ملازم یونیفارم میں عوامی جگہوں پر نہ جائے۔ یہ دور صحافت میں آیا ہی چاہتا ہے کہ کسی بھی جگہ صحافی کا تعارف کروانے پر لوگ باقی کام چھوڑ کر آپ کی ’آؤ بھگت‘ میں مصروف ہو جائیں۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ پیشے کے خانے میں استاد، لکھنا شروع کردیں کہ اب صحافی کا تعارف کروانا بھی ایک جرم سا لگنے لگا ہے۔
    ان دونوں واقعات کے پس منظرمیں صحافتی پیشہ وراریت کی نہیں اخلاقی تربیت کی شدید کمی کارفرما نظر آتی ہے اور اس عمر میں ان کو یہ باتیں تو سکھائی نہیں جاسکتیں کیوں کہ یہ بنیادی باتیں انہیں ماں کی گود سے سیکھنا تھیں جہاں سے نکلے انہیں عرصہ بیت چکا ہے۔

  • پاکستانی ریاست کے سٹیک ہولڈر – رضوان الرحمن رضی

    پاکستانی ریاست کے سٹیک ہولڈر – رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی پاکستان میں متعین چین کے سفیر نے گذشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان سے ان کی رہائش گاہ پر جا کر ملاقات کی اور انہیں ’پاک چین اقتصادی راہداری‘ کے ثمرات کے حوالے سے اعتماد میں لیا جس پر خان صاحب کو کہنا پڑا کہ وہ اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی رکاوٹ ڈالیں گے بلکہ وہ تو ملک میں موجودہ حکمران طبقے (پنجاب اور وفاق اور سندھ) کی طرف سے ہونے والی عمومی بدعنوانی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ چلیں اچھا ہوا، کم از کم یہ بات تو یقینی ہو گئی کہ اس مرتبہ کنٹینر پر سے اقتصادی راہداری کے جعلی یا جھوٹ ہونے یا پھر بھاری سود کے عوض لیے گئے قرضوں پر شروع ہونے والے منصوبے کہہ کر ان کی ایسی تیسی نہیں کی جائے گی۔

    اس ملاقات کی ایک تصویر تو یہ تھی جو اخبارات کی زینت بنی اور جس سے بظاہر وہ پیغام مل رہا تھا جو ہم نے یہاں بیان کیا اور یہ ہر کسی کو سمجھ میں آگیا۔ لیکن اس تصویر کا ایک پوشیدہ پیغام بھی تھا اور وہ یہ کہ اب پاکستان کی حکومتی فیصلہ سازی کے عمل میں بہت سے دیگر ممالک کے علاوہ چین بھی دخیل ہو گیا ہے۔ گذشتہ کم از کم ساڑھے تین دہائیوں سے ہم یہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں صرف امریکہ بہادر یا پھر اس کی منظوری یا اشارہ ابرو کے بعد برطانیہ بہادر کے سفارت کار دخل اندازی کیا کرتے تھے۔ لیکن اب چین بھی ایک نیا ’سٹیک ہولڈر‘ بن گیا ہے اور روس بس دروازے کے ساتھ لگا کھڑا ہے کہ امریکہ میں تربیت یافتہ سول اور وردی والی بیوروکریسی اس کو اجازت دے اور وہ بھی ہمارے ملکی معاملات میں داخل ہوجائے؟

    یادش بخیر جب ضیاء الحق صاحب نے افغانستان میں روس کے خلاف یورپ اور امریکہ کی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا تو کم از کم اتنا بھرم تو رکھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو براہِ راست مقامی افغانوں (اور پاکستانیوں) سے لین دین نہ کرنے دیا اور یہ پالیسی طے کروائی کہ اس حوالے سے ان کے ادارے کی خدمات کو استعمال کیا جائے گا۔ یوں روس کے خلاف افغان جہاد کے نتیجے میں ہم نے درجنوں جرنیلوں کو ارب پتی ہوتے دیکھا۔ محلے میں ہماری چوہدراہٹ بھی قائم ہو گئی۔ لیکن اپنا جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگا کر اقتدار پر قبضہ کرنے والا بہادر کمانڈو جناب پرویز مشرف صاحب جب اپنے اقتدار کے جواز میں دنیا میں منمناتا پھرتا تھا تو نیو ورلڈ آرڈر کے تحت اس سے ایک معاہدے پر اس صدی کی ابتدا میں دستخط کروا لیے گئے، اس کے بعد تو ساری شرم ہی اتار دی گئی۔ اب امریکیوں کو براہِ راست افغانیوں (اور پاکستانیوں) سے لین دین کرنے کی اجازت دے دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان ممالک نے افغانستان اور اسے ملحقہ پاکستانی آزاد قبائلی علاقوں میں میں ڈالر کے بھوکے وار لارڈز کا ایک بہت طبقہ پیدا ہو گیا بلکہ ہمارے ملک کے شہری علاقوں میں بھی (این جی اوز کی صورت میں) راتب خوروں کا ایک ’فرقہ‘ پیدا ہوگیااور یوں اب ہمارے ملک کے ہر کونے سے ایسی ایسی مخلوق برآمد ہو رہی ہے کہ اللہ کی پناہ! اب امریکی خال خال ہی ہمارے ملک کے دورے پر تشریف لاتے ہیں اور جو کچھ کہنا ہو وہ یہ این جی اوز کرتی کراتی ہیں یا پھر امریکہ اپنے پالتو کتورے (پوڈل) برطانیہ کو حکم دیتا ہے اور اس کی فوجی یا سول قیادت ہمیں آ کر بتا دیتی ہے کہ امریکہ بہادر کی کیا مرضی ہے؟ حال ہی میں برطانوی چیف آف جنرل سٹاف کا دورہ پاکستان بھی انہی پیغامات کے سلسلے کی ایک کڑی تھی، جس کے نتیجے میں ہمارے اداروں نے اپنے اچھا بچہ ہونے کا سرٹیفیکیٹ لینے کے لیے ان کو وزیرستان میں ’موقع واردات‘ پر لے جا کر مشاہدہ اور یقین دہانی کروانا ضروری خیال کیا کہ ہم حکم کے عین مطابق عمل پیرا ہیں۔

    لیکن اس معاہدے کو دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ عدالت سے سزایافتہ ایک مجرم کو جیل کی کوٹھڑی میں سے نکال کر عدالتی احکامات کا منہ چڑاتے ہوئے خاندان کے بچوں سمیت جہاز پر سوار کروا دیا گیا۔ اس پورے معاہدے کا ایک اہم’’ عملی جزو‘‘ (سٹیک ہولڈر) میاں صاحب بھی تھے۔ لہٰذا میاں نواز شریف صاحب نے ملک میں واپسی کے باوجود سال 2012ء تک عملی سیاست میں حصہ نہیں لیا اور معاہدے کے تحت سیاست سے دس سال دور رہنے کے معاہدے پر اس کی ’روح‘ کے مطابق عمل کیا۔ اس دوران بےنظیر بھٹو صاحبہ بھی اس معاہدے کا عملی جزو بننے کے لیے امریکیوں سے ملیں اور نوازشریف کو اعتماد میں لے کر اس میں کود پڑیں۔ لیکن ان کا پاؤں سرخ لکیر پر آ گیا جس کے بعد ان کو اس کھیل سے ہی نہیں بلکہ دنیا سے ہی ’فارغ‘ کر دیا گیا۔ ان کے سیاسی ورثاء نے ناک رگڑ کر پورا کھیل نہ بگاڑنے کی یقین دہانیاں کروائیں تو ان کو اس کھیل کا حصہ بنا لیا گیا۔ اس کھیل کا قدرتی انجام تو یہ ہونا چاہیے تھاکہ جب جمہوریت بحال ہوئی تھی تو پاکستان کی حاکمیت بحال ہو جاتی اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخیل عناصر کو نکال باہر کیا جاتا لیکن اس سارے معاہدے کی یقین دہانی اس ادارے نے کروا رکھی ہے جس نے قوم کو یہ بیانیہ دن رات رٹا دیا ہے کہ ’’ادارہ توبس ایک ہی بچا ہے‘‘۔

    اہم قصہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ہم آج کل امریکیوں اور افغان طالبان کے درمیان قطر میں ہونے والے مذاکرات سے باہر ہیں جبکہ کچھ ہفتے پہلے امریکی اور ان کے کابل میں مسلط ایجنٹ ہم سے مطالبہ کرتے پائے جاتے تھے کہ ہم افغان طالبان کو گھیر گھار کر مذاکرات کی میز پر ان کے حوالے کریں اور دوسری طرف بھارت کو ہلہ شیری دے کر راجھستان کی سرحد پر بھی بجلی والی خاردار تاریں لگوا کر اسے بند کروانے کی دھمکی دے دی گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس پر بھی عمل درآمد کروا دیا جاتا جس طرح بھارتی پنجاب اور حتیٰ کہ کشمیر میں خطِ متارکہ جنگ پر یہ کام مکمل کروایا گیا تھا لیکن ادھر دفترِ خارجہ نے اس معاملے میں بھی چین کو ملوث کر کے رنگ میں بھنگ ڈال دی اور معاملات وہیں پر روکنا پڑ گئے۔

    میاں نواز شریف کی جمہوریت ایک اور کھیل کھیلنے میں بھی مصروف ہے۔ میاں صاحب کا خیال ہے کہ اگر عامل جزو کی تعداد و مقدار بڑھا لی جائے تو اس میں پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کی کچھ بچت ہوجائے گی، یہی وجہ ہے کہ وہ چین کو اپنے گھر کے اندر نہیں بلکہ پچھلے سٹور تک لانے میں کوئی تامل محسوس نہیں کر رہے۔ جبکہ دوسری طرف گارنٹر ادارہ یہ یقین دہانی کروانے میں مصروف ہے کہ طے شدہ معاہدے پر پوری روح کے ساتھ عملدرآمد جاری ہے اور جاری رہے گا اور معاملات ویسے ہی طے ہوں گے جیسے آپ چاہیں گے۔

    یہ جو آپ کوبہت سے ملکی معاملات میں سول اور فوجی کشمکش نظر آتی ہے ناں؟ یہ اسی معاہدے پر عملدرآمد کرنے میں ہونے والی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ اور ہاں یہ جو مشرف کے وزرا اور مشرا جو پہلے مشرف صاحب، پھر زرداری حکومت اور آج کل میاں نواز شریف کی حکومت کا حصہ ہیں ناں تو یہ وہ ’مقدم‘ ہیں جو امریکیوں نے سارے معاملات پر نظر رکھنے کے لیے متعین کر رکھے ہیں۔ آپ کو مصدق ملک، زاہد حامد اور نجم سیٹھی کی ہر حکومت میں بمعہ اہل و عیال موجودگی کا جواز تو سمجھ میں آ گیا ہوگا؟

    چینی سفیر اور عمران خان کی اس ملاقات کا ایک اور پیغام یہ بھی ہے کہ اس معاہدے میں، سیاسی قوتوں میں سے پی ٹی آئی، جو اس پورے عمل سے باہر تھی یا رکھی گئی تھی، کو بھی شریک کیا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں آئندہ کچھ دنوں میں آپ کو اس کے سیاسی نکتہ نظرمیں کچھ نرمی محسوس ہوگی۔ آپ بس معاملات پر نظر رکھیے گا۔

  • شکریہ ابصار عالم – رضوان الرحمن رضی

    شکریہ ابصار عالم – رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی آج کل کوئی بھی پاکستانی ایف ایم ریڈیو آن کریں تو اس کی آواز کانوں میں پڑتے ہی ایک خوشگوارسی حیرت ہوتی ہے، کیوں کہ وہاں پر گھٹیا قسم کے (جنسی اور ذو معنی) ساؤتھ انڈیا گانے نہیں بلکہ پاکستانی گانے اور میوزک چل رہا ہوتا ہے۔ چوں کہ ہم بھارت کی نقل (یا مقابلہ) کی رو میں بہتے ہوئے اب مقامی طور پر اسی طرح کے گانے ہی پروڈیوس کر رہے ہیں، اس لیے آج کل ریڈیو پر ہمیں گذشتہ صدی کی اسی اور نوے کے دہائی کے گانے ہی سننے کو ملتے ہیں جبکہ موجودہ صدی کے گانے توخال ہی ملتے ہیں۔ ہم یہ قطعاً نہیں کہہ رہے کہ پاکستانی گانے سے مراد یہ ہے کہ آپ استاد امانت علی خان، فتح علی خان کی ٹھمریاں یا غزلیں لگائیں یا پھر اقبال بانو یا آئرین پروین یا نسیم بیگم کے نغمات چلائیں، لیکن کیا اس صدی کے ان پہلے سولہ سالوں میں پاکستانی میوزک انڈسٹری میں کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ہوا؟ کیا شازیہ منظور، فریحہ پرویز، صنم ماروی، حمیرا ارشد، سارہ رضا اور سب سے بڑھ کر نصیبو لال نے کوئی کام نہیں کیا؟ کیا راحت فتح علی خان، سجاد علی، شہزاد رائے اور عاطف اسلم، علی ظفر نے کوئی کام نہیں کیا ہوگا؟ لگتا ہے کہ گذشتہ صدی کے پرانے پاکستانی گانے نئی نسل کے لیے چلاکر ہمارے ریڈیو پروڈیوسر پیمرا کے خلاف ایک خاموش احتجاج کر رہے ہیں۔

    لیکن اس سب کام کے لیے ہمیں بھارتی وزیر اعظم جناب نریندر مودی صاحب کا شکر گذار ہونا چاہیے جن کی سربراہی میں سیکولر اور لبرل بھارت میں حکمران ہندو ’’جہادی‘‘ گروہ ’جن سنگھ ‘ کے سنگھ پریوار کی سیاسی شاخ ’بھارتیہ جتنا پارٹی‘ نے پورے بھارت میں پاکستانی فنکاروں کی بھارتی فلموں کی نمائش پر عوام کی پرزور فرمائش پر پابندی لگوائی، اور یوں ہماری سرکار کو موقع ملا کہ وہ پاکستانی میڈیا پر اندھا دھند چلنے والے بھارتی گانوں، ڈراموں اور فلموں کے بارے میں کچھ سوچ سکے۔ یاد رہے کہ پاکستانی میڈیا پر بھارتی فلموں، گانوں اور ڈراموں کی یہ مادر پدر آزادی بہادر کمانڈو جناب جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں دی گئی تھی۔ کچھ ستم ظریفوں کی اطلاع کے مطابق آئی ایس پی آر کے زیر انتظام پیمرا کے لائسنس کے بغیر چلنے والا سب سے بڑا ریڈیو نیٹ ورک ابھی تک بھارتی نغمے چلا رہا ہے۔ لیکن جب ہم نے چیک کیا تو پتہ چلا کہ وہاں پر ایسے پروگرام تو ضرور چل رہے ہیں جو یورپ میں بھی رات بارہ بجے کے بعد چلائے جاتے ہیں لیکن بھارتی نغمات نہیں تھے۔

    چلیں اسی بہانے ہماری نئی نسل کو یہ پتہ چلنے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں کہ وہ جان سکیں کہ اہلِ پاکستان کے پاس بھی ساز و آواز کی دنیا کی کچھ نامور اور تابندہ آوازیں ہوا کرتی تھیں۔گذشتہ چھ سال کے عرصے کے دوران دو عدد ریڈیو سٹیشن لگوانے اور چلوانے کے تجرنے سےگزرنے کے دوران سب سے زیادہ نازک اور قابلِ رحم مرحلہ وہ ہوا کرتا تھا جب کوئی بھی نو آموز گلوکار آ کر منت سماجت کرتا کہ اُس کا نیا گانا ہم کسی پروگرام میں چلا دیں اور کوئی بھی ریڈیو میزبان اس امر کے لیے تیار نہ ہوا کرتا کہ اس نو آموز پاکستانی گلوکار کو چلانے سے اس کے پروگرام کی مقبولیت کم ہو جائے گی۔

    ویسے ریڈیو میزبان (جوکیز) کی شکل میں ہم نے ایک عجیب و غریب نسل بھی دیکھی جن کی ’’انگریزی کمزور تھی اور اردو نہیں آتی تھی‘‘ اور وہ پھر بھی پاکستان کے ایف ایم ریڈیوز پر پروگرام کرنے پر مُصر ہوتے تھے۔ اور نہ صرف پروگرام کرتے بلکہ بڑے ہٹ ہوتے اور یہاں سے وہ کسی ٹی وی پروگرام کی میزبانی بھی پکڑ لیتے۔ سٹوڈیو میں بیٹھتے ہی گوگل کر کے دنیا بھر کی معلومات کو چبانے پر آمادہ۔ چونکہ پاکستانی معاشرے کی بنیادی اور مثبت معلومات آن لائن ہیں نہیں اور ہمارے ملک کے بارے میں جو کچھ آن لائن دستیاب ہے، وہ گل مکئی (ملالہ)، مختاراں مائی اور متیرا کی داستانیں ہی ہیں، تو ان کو چبا چبا کر ان ریڈیو جوکیز نے ایک پوری نسل تیار کر دی ہے جنہیں پاکستانی ہونے پر بہت پچھتاوا ہے۔ ان جاہل ریڈیو میزبانوں کا بہت بڑا حصہ تھا جو بھارتی سازوں، سازندوں اور گلوکاروں کی پرستش کرتے ہیں اور ایسا نہ کرنے والے کو ’پینڈو‘ خیال کرتے ہیں۔
    خاکسار کو اس محاذ پر اپنی شکست تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ میں ان دو درجن سے زائد مخلوق کے اذہان سے شکست خوردی اور احساسِ کمتری کو ختم نہ کر سکا جنہیں کوک سٹوڈیو والی ’مومنہ مستحسن ‘ بھی اس لیے اچھی لگتی ہے کہ بھارت سے اس بچی کے بارے میں ’شبھ شبھ‘ کمنٹس آتے ہیں۔ یہ کیسے اذہان ہم نے بنا ڈالے ہیں۔ لیکن اپنی کیبلز پر دن رات بھارتی فلمیں اور گانے سن کر جوان ہونے والے نسل کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ چلتے چلتے بات اب یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ پنجاب حکومت کے زیراہتمام چلنے والے ریڈیو پر بھارتی پنجاب کے گلوکاروں کے گانوں کے پروگرام نشر ہونے لگ گئے جبکہ قومی ادارہ ریڈیو پاکستان بھی اس سے اپنا دامن نہ بچا سکا۔

    ان سب ’ٹرولز‘ کے سامنے ہم نے ایک دوسری انتہا کا تجربہ کیا کہ ایک ایسا ریڈیو پروگرام کیا جائے کہ جس میں اس معاشرے، اس کی معاشرت، معیشت اور اقدار کی باتیں ہوں۔ یقین کریں کہ ناقابلِ یقین مقبولیت ملی۔ ہمارا پروگرام ’دادا پوتا شو‘ سنے بغیر اب بھی ہزاروں لوگوں کا دن نہیں گزرتا، لیکن اس کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ منہ اٹھا کر گھر سے آئے، سٹوڈیو میں بیٹھ کر کسی ’بھٹکے‘ ہوئے بزرگ کو فون کیا کہ ’سر آج کا موضوع کیا رکھیں؟‘ اور اس نے جو بتایا تو انتہائی لجاجت سے کہا کہ ’’سر اس پر کچھ فرما دیں‘‘۔ بس اس کے بعد اللہ دے اور بندہ لے، ہر کال کرنے والا اپنی طرف سے ’حسن نثار‘ ہی بنا ہوتا ہے اور حتمی نکتہ یہ کہ ’یہ جو کچھ ہورہا ہے اس کا ذمہ دار سیاستدان ہیں‘۔

    اس شکست خوردہ ذہنیت کا کوئی علاج نہیں، اس کا علاج یہی ہے کہ اس کو نظر انداز کیا جائے اور ان سے اگلی نسل میں کوئی مثبت سوچ ڈالنے کی کوشش کی جائے جو پچھلے بیس سالوں میں اس کے دماغوں میں انڈیل دی گئی ہے۔ اندازہ کریں کہ ریڈیو قائم کرنے کے بیس سال بعد ہمیں خیال آیا ہے کہ اس پر جو کچھ نشر ہوتا ہے اس کو کچھ ریگولیٹ کیا جائے۔ ان بیس سالوں میں، قانون کی صریحاً خلاف ورزی میں، ہمارے ملک میں چلنے والے ریڈیو چین، امریکہ ، بھارت اور دیگر ممالک سے چلائے جانے لگے ہیں۔

    بیس سال قبل 1996ء میں جب پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے اس وقت کے مردِ اول جناب آصف علی زرداری کو ایک سادہ خط کے ذریعے اس ملک میں پہلا ایف ایم ریڈیو چلانے کا اجازت نامہ دیا اور ایف ایم 100 ہواؤں کے دوش پر گیا تو اس کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کوئی بھارتی گانا چلا سکے تا آن کہ لاہور سے ایک ٹیکسٹائل مل مالک نے ایف ایم 103 جاری کیا جو بھارتی میوزک کے حوالے سے تمام حدود و قیود پار کر گیا۔ ان صاحب نے ٹیکسٹائل مل بند کر دی اور سارا زور اس ریڈیو کو پھیلانے پر لگا دیا کیوں کہ کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری والے ریڈیو میں ان کی اربوں روپے والی مل سے زیادہ منافع تھا۔ پھر اس سارے منظر نامے کی انتہا سونے کے تاجروں کا وہ ایف ایم 106.2 تھا جس کا مکمل کنٹرول دبئی میں ہے اور جو صرف میوزک ہی چلاتا تھا اور اس کی گانوں کی فہرستیں تک وہیں سے بن کر آن لائن ٹرانسفر ہوتی رہی ہیں۔

    ہم نے پاکستانی ریڈیو کا یہ رونا ہر پلیٹ فارم پر رویا اور جب جناب ابصار عالم چئیرمین پیمرا بنے تو ان کے سامنے بھی یہی دکھڑا رویا۔ انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو اس عہدے پر لات مار دیں گے۔ لات تو انہوں نے اب بھی ماری ہے لیکن بالکل صحیح جگہوں پر اور اس کے نتیجے میں ان پر جو تبریٰ ہو رہا ہے، وہ ناقابل بیان ہے۔
    حکومتی اداروں سے ویسے تو کوئی اچھا کام ہوتا نہیں لیکن اگر ہو جائے تو ہم جیسے دانشور اپنی نام نہاد ’غیر جانبداری‘ کو برقرار رکھنے کے لیے ایسے کسی اقدام کی تعریف یا حمایت کرنے سے احتراز کرتے ہیں کہ کوئی اعلیٰ عہدہ، مفاد یا لفافہ لیے بغیر حکومت کے کسی اچھے کام کی تعریف بھی گھاٹے کا سودا ہوتا ہے۔ لیکن اس ابتدائی کامیابی پر ’’شکریہ ابصارعالم‘‘ تو کہنا بنتا ہے۔ اللہ کرے اب وہ مؤقف پر قائم رہیں ۔

  • ڈوبتے کوایوارڈ کا سہارا؟ رضوان الرحمن رضی

    ڈوبتے کوایوارڈ کا سہارا؟ رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ اتنی بھلی چنگی چلتی ہوئی حکومت کو آخر تنکوں کے سہارے کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟ وہ کون سا دباؤ ہے جس کے تحت، وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے کاروباری طبقے کو لاہور کے گورنر ہاؤس میں بیٹھ کر بتانا ضروری خیال کیا کہ ان کے سمدھی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ’’ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے بڑے بڑے اداروں کی طرف سے بہترین وزیرخزانہ کا ایوارڈ مل گیا ہے‘‘۔ اگر یہ ایوارڈ اتنا ہی اہم تھا تو یہی ایوارڈ اسحاق ڈار صاحب کے دستِ راست، جن کی پاکستانی شہریت کے بارے میں بہت سی افواہیں زیرگردش ہیں، یعنی ہمارے گورنر سٹیٹ بینک صاحب کو بھی ملا ہے تو ان کا ذکر کرنا کیوں ضروری خیال نہیں کیا گیا۔یہ تو ایسے ہی ہے کہ اباجان نے بازار سے اپنے لیے ایک عدد ٹوپی خریدی، کندھے پر سوار بچے نے ضد کی ’’میں نے بھی لینی ہے‘‘ تو ایک اسے بھی دلوا دی۔

    یہ اور اس طرح کے کسی بھی ایوارڈ کی حیثیت شاید اب پرِکاہ کے برابر بھی نہیں رہ گئی۔ سب کام پیسے کا ہے۔ دنیا میں معروف لوگوں کی ایک سالانہ ڈائریکٹری چھپتی ہے، ہو از ہو؟ کوئی بھی شخص ڈیڑھ دو سو ڈالر دے کر اس میں نام چھپوا سکتا ہے۔ ’’ہو از ہو‘‘ نامی اس فراڈ کی مارکیٹنگ کرنے والے اپنے کلائنٹ (یعنی معزز چغد) کو یہ باور کروا دیتے ہیں کہ اس کتاب میں ان کے نام (اور پروفائل) کی اشاعت سے بس ان کی شخصیت اور صدرِ امریکہ کی شخصیت میں اہمیت کے حوالے سے دو چار انچ کا فاصلہ رہ جائے گا۔ شروع شروع میں تو اپنا نام اور پتہ چھپوانے کے لیے پاکستانی چغدوں نے ہزاروں ڈالر ادا کرنے میں بھی عار محسوس نہ کیا لیکن پھر امریکیوں کی بدقسمتی کہ ان کو ہمارا ایک چنیوٹی شیخ بزنس مین دوست ’ٹکر‘ گیا جس نے صرف سو ڈالر میں نام بھی درج کروایا بلکہ الٹا کافی بھی اس مارکیٹنگ مینیجر کے پلے سے پی۔

    ہمیں اپنے پیشہ ورانہ کیرئیر کے دوران سب سے زیادہ مشکل اس وقت ہوتی جب کوئی کاروباری شخصیت اس ادارے سے دوسو ڈالر کا ’تھوک‘ لگوا کر آ جاتی اور فرمائش ہوتی کہ چوں کہ ہمارا نام ’ہو از ہو‘ نامی اس فراڈ میں چھپ گیا ہے تو اب تم ایک خبر اپنے اخبار میں چھاپو تاکہ اہلِ پاکستان پر بھی ہماری عظمت کا سورج طلوع ہو جائے۔ گھنٹوں مغز ماری کر کے اسے یہ باور کروانا پڑتا کہ حضور آپ بیوقوف بن چکے ہیں اور اب اس کی خبر چھپنے پر جن لوگوں کو نہیں پتہ، ان کو بھی پتہ چل جائے گا کہ آپ کتنے بڑے چغد ہیں۔

    اسی طرح دنیا بھر میں مختلف ادرے ہیں جو پیسے لے کر ایوارڈ دیتے ہیں۔ پاکستان کا ہر تھکا ہوا اور اپنی سروس کے اعتبار سے گھٹیا ترین بینک ہر سال ’’یورو منی ایوارڈ‘‘ لے آتا ہے۔ اس کا اخبار میں اشتہار بھی دیا جاتا ہے اور ساتھ میں یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ ہم یہ ایوارڈ گذشتہ دس سال سے جیت رہے ہیں۔ یادش بخیر اس طرح کی جعل سازیوں کا راستہ ہماری بینکنگ انڈسٹری کو اللہ بخشے جناب شوکت عزیز صاحب نے دکھایا تھا جواس شعبے کے بہت پرانے اور نامور کھلاڑی تھے۔

    ملکی سطح پر اس طرح کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’ایف پی سی سی آئی ایکسپورٹ ٹرافی‘‘ ہے جس کا وہ بیس سے پچاس لاکھ کا خرچہ وصول کرتے ہیں یعنی جہاں پر جو گر جائے، اس سے وہ رقم وصول کر کے اسے یہ ٹرافی یا ایوارڈ دے دیا جاتا ہے۔ اس کو فیڈریشن کے لوگ ’ڈونیشن‘ یعنی عطیے کا نام دیتے ہیں۔ اگر ایک شعبے میں زیادہ دعویدار آ جائیں تو پھر ’’بزرگ‘‘ صلح صفائی سے معاملہ یوں حل کرواتے ہیں کہ اس سال ایک کو دے دیں، اگلے سال دوسرے فریق کو اور یوں گلشن کا یہ کاروبار چلتا رہتا ہے۔ یہی کام ایوانِ صنعت و تجارت لاہور اور دیگر مقامی ایوانوں نے بھی شروع کیا بقول شخصے بات یہاں تک جا پہنچی کہ ’’پرانی جوتیوں اور کپڑوں کے بدلے ایوارڈ بھی ملنے لگ گئے‘‘۔ حاصل وصول یہ ہوتا ہے کہ حکومت جس کو اپنی کارکردگی کے جھنڈت گاڑنے ہوتے ہیں، اس کا نمائندہ (صدر یا وزیراعظم) یہ ایوارڈ دینے کے لیے تشریف لاتا ہے اور اس کے ساتھ ایوارڈ وصول کرنے والی کی ایک تصویر بن جاتی ہے جسے وہ صاحب اپنے ڈرائنگ روم میں لگا کر آنے جانے والوں پر اپنی کاروباری عظمت کی دھاک بٹھاتے رہتے ہیں۔ ورنہ دبئی میں اپنی ہیرے جیسے پراڈکٹس کوڑیوں کے مول بھارتیوں کو بیچ آنے والوں کو تو جوتے پڑنے چاہییں۔

    ملک کے اندر واقفانِ حال کو معلوم ہے کہ ان ایوارڈوں کی اہمیت اور ’’ذلت‘‘ کیا ہوتی ہے اس لیے اسے کوئی قابلِ فخر بات نہیں سمجھا جاتا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر صدا کے کاروباری وزیراعظم کو کاروباری افراد میں بیٹھ کر ایسی بات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ واقفانِ حال کا یہ کہنا ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے ایک باغ و بہار شخصیت پائی ہے۔ وہ ’بندہ جاتا ہے تو جائے فقرہ نہ جائے‘ کے اصول کے بانی مبانی ہیں، اس لیے انہوں نے اپنے سمدھی کو ’جگت‘ فرمائی تھی لیکن میڈیا مینیجر کوڑھ مغز ہونے کے باعث اس کو سمجھ ہی نہ سکا اور اس کی خبر بنوا کر چلوا دی۔ میڈیا مینیجر کے کوڑھ مغز ہونے کی تصدیق کچھ یوں بھی ہوجاتی ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاس کی سمری کے لیک ہونے کا الزام بھی جناب کی ذا ت پر آ رہا ہے۔

    یادش بخیر وزیر اعظم نواز شریف کے دوسرے دور کی بات ہے کہ انہوں نے الحمرا میں تقریر کرتے ہوئے ایک لطیفہ سنا دیا۔ شام کو ان کے اُس وقت کے میڈیا مینیجر سارے اخبارات کے دفاتر میں اس ’لطیفے‘ کو رکوانے کے لیے منتیں ترلے کرتے پائے جا رہے تھے۔ جی ہاں اس پر حیران نہ ہوں، اس وقت میڈیا کی عزت ہوا کرتی تھی۔ تو نتیجہ یہ ہے کہ میاں صاحب آئی ہوئی بات روکنے کے قائل نہیں اس لیے یہ بات بھی اسی اصول کے تحت ان کے منہ سے نکل گئی ہوگی۔

    تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں صاحب اور ان کی مالیاتی ٹیم کو ایسے تنکوں کے سہاروں کی کیوں ضرورت پڑ رہی ہے؟ ابھی کل ہی تو اسحاق ڈار صاحب نے پوری قوم کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر ساڑھے چوبیس ارب ڈالر کی سطح سے پار جا پڑے ہیں۔ اب جب کہ زرمبادلہ کے ذخائر بیس ارب ڈالر سے اس قدر بڑھ گئے ہیں، کیسے بڑھے یہ ایک الگ داستان ہے، تو ایسے میں امریکی ڈالر کی پاک روپے سے شرح تبادلہ کو 104 روپے کے آس پاس رکھنے کا کیا جواز ہے؟ پھر تو روپے کی قیمت ایک سو روپے سے کم ہونا چاہیے۔ لیکن واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اگلے سال جب پاکستان کے ذمے ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کے قرض کی واپسی کا وقت آئے گا تو ڈالر مزید گرایا جائے گا، اور یوں ڈالر کی اس کمی بیشی سے یار لوگوں کی دیہاڑیاں لگیں گی۔

    ملکی معیشت کی درماندگی کی جو اہم وجوہات ہیں اور جن کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا جارہا، وہ یہ ہے کہ ملک کی برآمدات موجودہ مالی سال کے پہلے تین ماہ میں دس فی صد سے زائد کے حساب سے تنزلی کا شکار ہیں اور برآمدات کے اس زوال میں کمی کے کوئی امکانات مستقبل قریب میں نظر نہیں آ رہے۔ وزیرتجارت اور ان کے خاندان کے مالیاتی مفادات گوجرانوالہ شہر کی حدود کی طرح مسلسل پھیلتے جا رہے ہیں لیکن ملک کی برآمدات مسلسل سکڑ رہی ہیں۔ گرتی برآمدات کو سہارا دینے کے لیے حکومت کی طرف سے ٹیکسٹائل سیکٹر کو ایک پیکیج دینے کی باتیں سننے میں آ رہی ہیں لیکن حکومت بظاہر ایسا کرنے سے بھی گھبرا رہی ہے کہ اس مجوزہ پیکیج کو اقرباء پروری کے کھاتے میں ڈال کر کنٹینر پر کھڑے حضرات ان کے خلاف چارج شیٹ میں ایک اور الزام کا اضافہ نہ کرلیں۔

    حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے پنجاب میں صنعتوں کے لیے بجلی کی بندش کی شرح اکتوبر 2015ء سے صفر کر دی ہے تواس کا مطلب تو یہ ہے کہ پنجاب میں بھی تمام بند صنعت چل پڑی ہے جو بجلی کی عدم یا کم دستیابی کے باعث کلی یا جزوی طور پر بند پڑی تھی؟ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ بند صنعتیں چل پڑی ہیں تو ان کا نتیجہ برآمدی اعداد و شمار میں ظاہر کیوں نہیں ہو پا رہا؟

    اُدھر مالی سال کے پہلے انہی تین ماہ کے دوران حکومتی محاصل کی وصولی کی شرح میں بھی مسلسل کمی کا رحجان ہے لیکن حکومت کی خواہش ہے کہ اس طرف نہ دیکھا جائے اور صرف اقتصادی راہداری کا وہ خرگوش دیکھا جائے جو اس کے چیف جادوگر، جناب چوہدری احسن اقبال صاحب ہر چوک میں اپنے ہیٹ میں سے نکال کر دکھاتے پائے جا رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف عمران خان کا کرپشن اور احتساب کا نعرہ اس قدر دلفریب ہے کہ اب عوام اقتصادی راہداری کے خرگوش کی طرف دیکھنا نہیں چاہ رہے۔

    مجموعی طور پر آج کی تاریخ میں حکومت کے کھاتوں میں منفی اقتصادی اشاریوں کی شرح مثبت کی اقتصادی اشاریوں کی نسبت زیادہ ہے تو ایسے میں وزیراعظم صاحب کا ایسی باتیں کرنا ہی بنتا ہے۔

  • لفافے کا الزام لگانے والے کون ہوتے ہیں، کیسے ہوتے ہیں؟ رضوان الرحمن رضی

    لفافے کا الزام لگانے والے کون ہوتے ہیں، کیسے ہوتے ہیں؟ رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی اختلافِ رائے ہو سکتاہے، لیکن اختلافِ رائے کے بھی کوئی بنیاد ی اصول ہوتے ہیں، کوئی دلائل ہوتے ہیں اور بہترین انسان کی پہچان یہ ہے کہ وہ اختلافِ رائے کے باوجود بھی دوسرے کے کردار پر حملہ آور نہیں ہوتے۔ ایسا صرف جنگجو اقوام یا اداروں میں ہوتا ہے کہ ’’یا تم میرے ساتھ ہو یا میرے خلاف‘‘ اور اگر تم مجھ سے متفق نہیں ہو تو تم برے ، تمہاری ماں بری، تمہارا پورا خاندان بُرا۔

    سماجی ابلاغ پر اب یہ ایک عام سی چیز ہے۔ دوسرے فقرے پر ہی مخالف فریق کو پٹواری، لفافہ یا یوتھیا کہہ کر مسترد کر دینا؟ پہلے پہل ہمیں جب کوئی یہ کہتا تو تن بدن میں آگ سی لگ جاتی، اب نہیں لگتی۔ جس طرح پنجابی سٹیج ڈراموں کے تمام صداکاروں کی پوری گفتگو کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طور دوسرے فریق کی گھریلو خواتین کو اخلاق باختہ ثابت کیا جا سکے، بالکل اسی طرح سوشل میڈیا پر روبہ عمل ایک پوری نسل کا مطمع نظر یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ’’تمہاری اپنی کوئی رائے نہیں، تم ایک بکے ہوئے لفافہ باز شخص ہو‘‘۔ ساری عمر اسی تگ و دو میں گزار دی ’’یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے، بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے‘‘ لیکن اب اس اصول سے رجوع کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ خاکسار کی ناقص رائے میں سماجی ابلاغ کے اس انقلابی دور میں یہ دیکھنا بہت ضروری ہے ’’کون کیا کہہ رہا ہے‘‘؟

    ایسی رائے کون اور کس طرح کے لوگ دیتے ہیں، اس کا ایک اتفاق گزشتہ دنوں ہوا اور دل کو تسلی ہو گئی کہ اگر ایسے بےکردار ے اور اخلاق باختہ لوگ یہ کہتے ہیں تو ان کی بات کا برا ماننے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ گزشتہ صدی میں نوے کی دہائی کے ابتدائی دنوں کی بات ہے کہ میرے اس وقت کے ادارے پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) نیوز ایجنسی کی طرف سے ہمیں بتایا گیا کہ مریدکے مرکزِطیبہ میں جا کر ایک بہت بڑے اجتماع میں شرکت کرنا اور اس کو رپورٹ کرنا ہے۔ بتانے والے زاہد امیر بیگ صاحب نے سارا زور اس پر صرف کیا کہ طیبہ کی ’ی‘ پر شد نہیں بلکہ زبر ہے۔

    ہمارے گھر والدِ محترم نے ایسی صلح کل قسم کی تربیت کی کہ دین سے جڑے کسی بھی شخص یا گروہ کا احترام ہم پر واجب ٹھہرا، یہی وجہ ہے کہ ہمیں بابا فرید گنج شکر کے عرس میں شرکت کرنے، پروفیسر ساجد میر کی تقریر سننے اور تبلیغی جماعت کے مرکزی اجتماع میں جانے کے ہر تین کاموں میں کبھی کوئی عار محسوس نہیں ہوا اور ہر جگہ پر احترام اور عقیدت کا جذبہ فراواں رہا۔ ہم تو اب بھی امام بارگاہ سے ملحقہ مسجد میں نماز بھی پڑھ آتے ہیں، اگرچہ اس پر بہت سے دوستوں کو اعتراض ہوتا ہے اور فوراً فتویٰ جاری کرتے ہیں کہ ہماری وہ والی نماز نہیں ہوئی مگر ہماری تربیت کا جواب ہوتا ہے ’’میری نماز تو ہو گئی ہے، آپ اپنی فکر کریں کیوں کہ قیامت کے روز آپ سے میری نہیں، آپ کی اپنی نماز کے بارے میں سوال ہو گا‘‘۔

    خیر ہم مرکزِ طیبہ کی اجتماع گا ہ پہنچے، ان کے اجتماع کو ایک صحافی کے طور پر دیکھا، اس کی روداد پوری پیشہ ورانہ دیانت سے نوٹ کی اور اس کے بعد دوپہر کے کھانے میں پروفیسر حافظ سعید صاحب نے مجھ سمیت سب صحافیوں کو شرف ملاقات بخشا۔ بڑے بڑے برتنوں میں سے ہاتھوں سے کھانا کھانے کے ’تلخ‘ تجربے سے گذرے۔ وہاں پر کچھ ایسے لوگوں سے بھی تعارف کروایا گیا جو محض عربی بول سکتے تھے اور افغان جہاد میں جاتے جاتے ادھر رکے تھے۔ خیر جب واپسی پر روانہ ہونے لگے اور سب لوگ واپس لانے والی گاڑی میں آ کر بیٹھ گئے تو ڈرائیور نے گاڑی ایک طرف کر کے کھڑی کر دی۔ جب کافی دیر ہو گئی تو ڈرائیور نے استفسار پر زیر لب ہنسی میں بتایا کہ کچھ لوگوں سے ’مذاکرات‘ ہو رہے ہیں۔ اکتا کر اس گاڑی میں سے اترا اور مذاکرات کرنے والوں کی سمت سمت چل پڑا۔ روزنامہ مساوات کے رپورٹر ’آغا‘ صاحب مرحوم کا آخری فقرہ جو ان کے پاس پہنچتے ہوئے میرے کان میں پڑا تھا، وہ خاکسار کے بارے میں تھا ’’رضی بڑا ڈاہڈا رپورٹر ہے، وہ ایک پر نہیں مانے گا، اس کے دو دیں‘‘۔ کچھ آگے بڑھنے پر پتہ چلا کہ ’مذاکرات‘ لفافوں کی تقسیم پر ہو رہے تھے، اور آغا صاحب ہمارے دو لفافے وصول کرنے پر مصر تھے۔

    ہم نے وہاں پہنچ کر ساری صحافت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان دونوں فریقین کی اس قدر بلند آواز میں ایسی شدید ’’عزت افزائی‘‘ کی کہ گاڑی کے سارے مسافر اتر کر ہمیں پکڑنے پہنچ گئے۔ ہمارا نقطہ نظر تھا کہ آپ اپنا لفافہ پکڑیے، ہمارا لفافہ پکڑنے کا حق آپ کو کس نے دیا؟ ہمارے بعض ساتھیوں نے ہمارے اس ’خودکش‘ حملے کی مذمت کر دی اور کچھ نے آغا صاحب کی حرکت کی۔ ہمارا آخری فقرہ یہ تھا کہ ’’اگر کسی دن ہمیں لفافے کی ضرورت محسوس ہوئی تو مودے کنجر کے پاس جا کر انٹرن شپ کر لیں گے لیکن جب تک صحافت میں ہیں، یہ کام نہیں کریں گے‘‘۔ ویسے بھی بی اے قریشی، چاچا میر رفیق اور ثقلین امام اور جناب ایم اے نیازی جیسوں نے ہماری ایسی صحافتی تربیت کی تھی کہ لفافہ پکڑنا ہمارے نزدیک ماں بہن سے پیشہ کروانے سے گھناؤنا کام ہو گیا ہوا تھا۔

    اس بدمزگی کے بعد مرید کے سے لاہور تک کا سفر کیسے گزرا، یہ ایک تاریخ ہے لیکن اس شام خبر فائل کرنے کے بعد ابھی گھر جانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ بتایا گیا کہ مرکزِ طیبہ والوں کے دو لوگ ملنے آئے ہیں۔ ان دونوں میں ایک ’’صاحب‘‘ نے بتایا کہ وہ روزنامہ جنگ لاہور میں کام کرتے ہیں اور مرکز طیبہ والوں کی سوچ سے متاثر ہیں اور صبح والے واقعے پر معذرت کرنے آئے ہیں۔ انہوں نے ہماری سوچ اور کردار کی بہت تعریف کی اور آپس کی بات ہے کہ ہمیں ان کی باتیں سن کر بہت اچھا لگا، اپنی تعریف کسے اچھی نہیں لگتی۔ اس کے بعد ’صاحب‘ سے ایک واقفیت سی ہو گئی، جب بھی پریس کلب میں یا سرِ راہ ملاقات ہوئی، سلام دعا، حال احوال اور مسکراہٹوں کا تبادلہ معمول رہا۔ ’صاحب‘ کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ ملٹری اکیڈمی سے اخلاقی معاملات کی بنا پر نکالے گئے تھے اور صحافت ان کو پناہ گاہ نظر آئی، اس لیے یہاں چھپ گئے۔ ہمیں چوں کہ اسلام پسند لوگوں کے احترام کی تربیت تھی اس لیے ہم نے اس طرح کی کسی بات پر کان نہ دھرا اور اطلاع دینے والے کی سرزنش کی کہ ضرور وہ نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی بنا پر نکالے گئے ہوں گے۔
    پھر جب ملک میں ٹی وی کی صنعت میں پھیلاؤ آیا تو روزنامہ جنگ میں ہونے کے باعث ’صاحب‘ میرٹ پر جیو کو پیارے ہو گئے۔ ہمیں اس وقت شدید صدمہ پہنچا جب اگلی ملاقات میں ’صاحب‘ کا چہرہ ڈیڑھ فٹ لمبی داڑھی سے صاف ہو چکا تھا۔ دریافت کرنے کی ہمت نہ ہوئی کہ صاحب یہ کیا ماجرہ ہے؟ اتنی چھوٹے سے مالی معاملے پر اپنے نظریات پر اس قدر شرمندگی اور رجوع؟ ایسے بندے کو تو انسان کہنا انسان کی توہین ہے۔

    یادش بخیر جب تیسری یا چوتھی دفعہ شیو کے بعد ہم نے سنت رسول رکھنے کا ارداہ ظاہر کیا تو والد صاحب نے اپنی شیو بناتے ہوئے آئینے میں دیکھتے ہوئے با آوازِ بلند فرمایا تھا کہ ’’دیکھ لو! سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا، میں پھر اس کو صاف نہیں کرنے دوں گا‘‘۔ الحمد للہ لڑکپن کے اس فیصلے پرآج تک بدستور قائم ہیں اور فیصلے پر کبھی پشیمانی نہیں ہوئی۔

    اس کے بعد ’صاحب‘ سے ایک اور ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ جیو چھوڑ کر ایک اور چینل کو پیارے ہو چکے ہیں۔ استفسار کی ضرورت نہیں تھی لیکن پاس کھڑے انھی کے ایک ادارے کے بندے نے بتایا کہ ایک دن تہجد کے وقت ’صاحب‘ اپنے ٹی وی کی ایک نہایت خوبصورت نیوزکاسٹر کو دفتر کی ایک میز کے پیچھے چھپ کر ’خبریں‘ پڑھنے کے ’’اسرار و رموز‘‘ سمجھا رہے تھے کہ انتظامیہ کے کلوز سرکٹ کیمروں میں آنے کے باعث رنگے ہاتھوں پکڑے گئے، لہٰذا انتظامیہ نے دونوں کو فارغ کر دیا۔ تاہم ’صاحب‘ کی ادارے کے ساتھ دیرینہ تعلق کی بنیاد پر ان کو استعفیٰ دینے کی رعایت دی گئی تھی جو انہوں نے دے دیا۔ نئے چینل میں جہاں انہوں نے نوکری کی تھی، وہاں کے مالک بھی انھی کے ’ہم مسلک‘ تھے اور فجر کی تکبیر اولیٰ اور اپنی کوئی خاتون اینکر انہوں نے نہیں چھوڑی۔ اب تو بعض ٹی وی مالکان دین اور دنیا میں اس قدر توازن رکھتے ہیں کہ خانہ کعبہ سے براہِ راست اذان پر نماز بھی ادا کرتے ہیں اور اپنی خاتون اینکرز کے حقوق بھی حقوق زوجیت سمجھ کر ہی ادا کرتے ہیں۔

    ’صاحب‘ وہاں کافی بے عزتی کے ساتھ فارغ ہوئے اور صحافتی منظرِعام سے غائب ہو گئے اور پتہ چلا کہ صاحب تعمیرات کے کام سے منسلک ہو گئے ہیں۔ پھر ایک دن ’صاحب‘ اسی ٹی وی پر آ براجمان ہوئے جس ادارے کے اخبار کے ساتھ ہم بھی منسلک تھے لیکن باریک اور زنانہ آواز کے باعث یہاں پر بھی ان کا کام چندماہ کے بعد بند ہو گیا۔ اس دوران جب صاحب کو ادارے میں جب کوئی کمرہ بیٹھنے کو نہ ملتا تو وہ ہمارے کمرے میں براجمان ہو جاتے اور ہماری ’ایڈیٹری‘ کا براہ راست نظارہ کرتے۔ یہ تھا صاحب کے ساتھ ہمارے تعارف کا پورا پس منظر، اس میں ان کی کردار کشی مقصود نہیں بلکہ پس منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

    کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ موٹروے پولیس اور ایک جرنیل کے کپتان صاحبزادے کے درمیان ایک جھگڑا ہوگیا جسے سماجی میڈیا پر خوب اچھالا گیا اور ظاہر ہے کہ ہمارا وزن موٹروے پولیس کے پلڑے میں جانا تھا۔ ایسے میں صاحب سے ایک پوسٹ پر منہ ماری ہوئی اور انہوں نے تیسرے فقرے پر ہمیں ’لفافے‘ لے کر رائے دینے والا ’کافر‘ قرار دے ڈالا۔ پہلے تو شدید دکھ ہوا، اتنا شدید کہ بس سے باہر۔ ایک شخص ہمیں اس قدر قریب اور اس قدر مدت سے جانتے ہوئے بھی اس اس قدر ڈھٹائی سے بات کر سکتا ہے؟ ہم نے ان کو بلاک اور ’ان فرینڈ‘ کرنے سے پہلے ایک دفعہ پھر تصدیق چاہی کہ کیا وہ واقعی ایسا ہی سمجھتے ہیں؟ انہوں نے ہمیں نظرانداز کرتے ہوئے اپنے ایک دوسرے دوست سے جو ان کی مدد کو آ پہنچا تھا، کیوں کہ سوشل میڈیا پر ایسے چماٹوں کی ایک فوج ظفر موج ہمہ وقت موجود ہوتی ہے، کو مخاطب کرتے ہوئے ’صاحب‘ نے فرمایا ’پتہ نہیں یہ صاحب کون ہیں؟ کوئی سوشل میڈیائی انٹیلکچول ہیں ان کو فوج کے خلاف ہیضہ ہوا رہتا ہے‘۔

    ہم نے بلاک والے بٹن پر انٹر مارتے ہوئے سوچا کہ واقعی لفافے کا الزام ایسا اخلاق باختہ اور بدکردار شخص ہی لگا سکتا ہے۔ اس طرح کا بےہودہ الزام لگانے کے لیے انسان کو مذہبی، معاشرتی اور پیشہ ورانہ حوالے سے اسی قدر ہی بےغیرت ہونا چاہیے۔ ان کے بارے میں مذہب پسند اور پانچ وقت کا نمازی ہونے کے حوالے سے جو نرم گوشہ دل میں تھا، اسی لیے دکھ بہت زیادہ ہوا تھا۔ کافی دن طبیعت مکدر رہی اور اس موضوع پر قلم اٹھانے سے احتراز کیا کہ جذبات کی رو میں سے نکل کر کچھ تحریر کریں گے۔ لیکن اس دن کے بعد ایسے لوگوں کے بارے میں معیار مل گیا اور خود کو اکیلے میں بیٹھ کر سمجھایا کہ یہ جو چھوٹتے ہی ہم جیسوں کو لفافے کو طعنہ دیتے ہیں ناں، وہ بس ایسے ہی ’صاحب‘ لوگ ہوتے ہیں، اس لیے دل کھٹا کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے معاملات ہمارا اللہ بہتر جانتا ہے اور وہی دنیا اور آخرت میں ہماری لاج رکھے گا، ان شاء اللہ ! لیکن وہ جس طرح کچھ لوگوں کو بے نقاب کرتا رہتا ہے تو بےاختیار اس کے حضور سر سجدے میں جھک جاتا ہے۔ سبحان اللہ

  • علاقائی خاموش سفارتی سرگرمیاں – رضوان الرحمن رضی

    علاقائی خاموش سفارتی سرگرمیاں – رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی بیلاروس کے صدر الیگزینڈریا لوکاشنکو جب گذشتہ ہفتے اسلام آباد کے غیر معمولی دورے پر تشریف لائے تو میڈیا کی بہت کم نظر اس کے مقاصد تک جا سکی۔ اور یہ بات تو کافی دن بعد میں پتہ چلی کہ بیلاروس کے صدر کے دورہ پاکستان کے وقت پیوٹن والے روس کے نائب وزیر خارجہ بھی پاکستان میں موجود تھے اور اس کے بعد وہ اپنے دورے کے اگلے مرحلے میں نئی دہلی سدھار گئے۔

    اب تو روس اور چین کا یہ دستور سا ہوگیا ہے کہ اس کے اعلیٰ عہدیدار جب بھی اس خطے کے کسی بھی قسم کے دورے پرتشریف لاتے ہیں تو (حوصلہ افزائی کے لیے ہی سہی) ہمارے ہاں کے بھی چکر لگا کر جاتے ہیں۔ یادش بخیر کسی زمانے میں یہ دستور امریکہ اور اس کی قیادت کا بھی رہا ہے، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بہت سے پاکستان کا دوست سمجھے جانے والے دیگر ممالک کی قیادت نے بھی اس عمل کو اپنا طریق بنایا ہوا تھا۔ لیکن امریکی صدر بل کلنٹن وہ آخری صدر تھا جس نے مشرف صاحب کے دور میں چند گھنٹوں کے لیے آخری مرتبہ یہ تکلف کیا اس کے بعد تو جب پاکستان نے مادر زاد امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں چھلانگ لگائی تو سفارتی محاذ پر ہمیں راندہ درگاہ کر دیا گیا۔

    ظاہر ہے کہ ہمیں یہ بات سننے کو ملتی تھی کہ پیسے لے کر اپنے ملک پر حملہ کر دینے اور اپنے بندے مارنے والے کو ہم اپنا دوست کیسے کہہ دیں کہ دنیا میں ہم نے بھی کسی کو منہ دکھانا ہے۔ ایسے میں بھارت نے اس موقع سے خوب خوب فائدہ اٹھایا اور یوں خطے میں اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ امریکیوں کو لبھانے کی آخری کوشش کے طور پر ہم نے مشاہد حسین سید کو امریکہ روانہ کیا ہے کہ وہ اپنے ایرانی رابطوں کو عمل میں لا کر امریکیوں کو یہ باور کروائیں کہ ہم اب بھی بندے مارنے اور مروانے کے علاوہ بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔ تمام تر کوششوں کے باوجود بھی ق لیگ کے سینیٹر کو امریکہ میں ایک بہت ہی نچلے درجے کے عہدیدار سے ملاقات کا وقت مل پایا ہے۔

    تاہم دوسری طرف نیٹو کی طرف سے جنرل پیٹر پاول کو ہی بھیجنا کافی خیال کیا گیا اور پیغام صرف ایک سطری تھا کہ ’’ آپ جو مرضی کریں لیکن مغربی (افغان ڈیورنڈ لائن) سے فوجیں ہٹانے کی کوشش نہ کیجیے گا‘‘۔ اس کا تو سیدھا مطلب یہی تھا کہ تم اور تمہارا ملک جائے بھاڑ میں، تم افغانوں کو گھیر کر ہمارے ہاں پیش کرو تاکہ ہم ان کا شکار کر سکیں جس طرح پرانے دور میں مغل بادشاہ شیر کا شکار کیا کرتے تھے۔ یعنی جو کام اربوں ڈالر لگا کر ہماری ایک لاکھ فوج نہیں کر سکی، تم صرف اس قیمت پر کرو جو ہم نے روک بھی لی ہے۔ ہم تمہیں یہ ’بول بچن‘ دیں گے کہ تم پر دہشت گردی کے مددگار ہونے کا الزام نہیں لگائیں۔ ظاہر ہے سامنے کوئی ایک فون کال پر ڈھیر ہوجانے والا جرنیل تو تھا نہیں، اس لیے صاف اور ستھرا جواب یہ دیا گیا کہ ہم کشمیر کی صورتِ حال سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔

    اب کی بار دورہ کرنے والے نیٹو جرنیل سے میاں نواز شریف نے ملاقات کی۔ اور اس ملاقات کی جو سرکاری پریس ریلیز جاری کی گئی، اس میں صرف اور صرف کشمیر میں جاری بھارتی سفاکی اور جارحیت کا ذکر تھا اور کچھ نہیں تھا۔ اس کا مطلب صاف تھا کہ پاکستان نے نہ صرف اپنی سرحدوں کو اپنی مرضی سے حفاظت کرنے کی کوششوں کا دفاع کیا ہے۔ پاکستان کے سر پر ہر وقت سفارتی تنہائی کے جوتے برسانے والے نام نہاد ماہرین کو شاید اب روسی نائب وزیر خارجہ کے خطے کے دورے کا احساس ہو ہی جائے لیکن جب وہ پاکستان کے دورہ پر تشریف لائے توتب تک انہیں کسی نے درخورِ اعتنا نہیں جانا۔

    ریاستی پروٹوکول کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ اصولی طور پر بیلا روس کے صدر الیگزینڈریا کاشنکو کا میزبان ان کے پاکستانی ہم منصب ممنون حسین کو ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا اور ہمارے وزیر اعظم میاں نوازشریف نے اپنے صدر کو ساتھ کھڑا کرنے کا تکلف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس کا مطلب کچھ اور بھی ہے۔ لیکن اندر کی بات یہ ہے کہ الیگزینڈر کو روسی صدر پیوٹن کا قریب ترین ہم راز سمجھا جاتا ہے۔ وہ پیوٹن کی خفیہ پیغام رسانی کے حوالے سے بھی معروف ہیں۔

    ایسے میں بظاہر محسوس تو یہی ہوتا ہے کہ بڑھتی علاقائی کشیدگی میں کوئی کردار ادا کرنے سے مسلسل انکار کرنے اور اپنا وزن بدستور بھارتی پلڑے میں ڈالے رکھنے سے علاقے میں قوت کا جو عدم توازن اور خلا پیدا ہوا تھا اس کو پورا کرنے کے لیے خطے میں موجود دیگر علاقائی طاقتیں تو بہ عمل ہو رہی ہیں اور اس دفعہ اسلام آباد ان کو علاقے میں زیادہ ’’معتبر‘‘ بننے کے مواقع فراہم کر رہا ہے۔

    ایسے میں جبکہ بھارت کے میڈیاء نے جنگی ماحول پیدا کر دیا ہے اور وہ سفارتی حوالے سے پاکستان کو تنہا کرنے کا دعویدار ہے، ایسے میں اس قدر اعلیٰ سطح کی سفارت کاری شاید سفارتی تنہائی نہیں کسی اور طرف اشارہ کر رہی ہے۔ ایسے میں ایک آدھ مزید دھرنا دے لینے اور اسلام آباد کو سیل کر لینے میں حرج ہے؟

  • سکوک کا باندر کلہ اور میڈیا کے استرےباز – رضوان الرحمن رضی

    سکوک کا باندر کلہ اور میڈیا کے استرےباز – رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی گذشتہ دنوں پاکستان کے ایک ٹی وی پر نظر پڑی جس میں ایک صاحب اس امر کا رونا روتے پائے جا رہے تھے کہ حکومت پاکستان نے اب ریڈیو پاکستان کی عمارت، موٹروے اور دوسری اہم ملکی قیمتی اثاثوں کے عوض قرض لینا شروع کر دیا ہے اور اس طرح یہ حکومت پورا ملک بیچ دے گی اور آخرکار جس طرح ایسٹ انڈیا نے برصغیر پر قبضہ کیا تھا اسی طرح عین ممکن ہے کہ قرض دینے والے ممالک اور ادارے جن سے یہ قرض لیا جا رہا ہے وہ بھی پاکستان کے ان اثاثوں پر قبضہ کر لیں۔ بس پھر کیا تھا سوشل میڈیا پر ہمیشہ کی طرح ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہو گیا اور ریاست پر تبریٰ بازی اور چاند ماری کا آغاز ہو گیا۔

    خاکسار گزشتہ ایک دہائی سے یونیورسٹی کی سطح پر ’کاروباری صحافت‘ کا مضمون پڑھا رہا ہے۔ یہ مضمون ہماری تجویز پر ہی ہماری آبائی مادرِ علمی (جامعہ پنجاب) میں متعارف ہوا اور اب تک کئی صحافی یہ مضمون اپنی صحافت کی ڈگری کے لازمی حصے کے طور پر پڑھ کر عملی زندگی میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ لیکن اس وقت ہمارے میڈیا کی موجودہ صورتِ حال دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید ہم نے ان دس سالوں میں جھک ہی ماری ہے۔

    ہمارے ابلاغی منظرنامے میں ٹیلی ویژن کی آمد نے جہاں دوسرے رحجانات کو جنم دیا ہے، وہاں یہ قباحت بھی درآئی ہے جس کے تحت صحافیوں کے شعبہ ہائے تخصیص ختم کر دیے گئے ہیں۔ تین شفٹوں میں کام کرنے والے اس شعبے میں جب بھی کوئی قابلِ رپورٹ واقعہ یا خبر آتی ہے تو جو بھی صحافی ڈیوٹی پر دستیاب ہوتا ہے، وہ اس کو کرنے چل پڑتا ہے۔ اب ظاہر ہے جب اس کو اس شعبے کے الف ب کا بھی نہیں پتہ تو پھر وہی کچھ ہوگا جو اب ہورہا ہے۔ ہرصحافی کو ہر شعبے کا ماہر بنانے کا نتیجہ نکلا ہے کہ کوئی صحافی کسی شعبے کی بنیادی شدبد حاصل نہیں کر پاتا ہے اور ملکی اور قومی مفادات کے ساتھ وہی کچھ ہوتا رہتا ہے جو اب ہورہا ہے یعنی ’’کھلواڑ‘‘۔ اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستانی صحافت اپنی اعتباریت کے نچلے ترین درجے تک پہنچ چکی ہے۔

    اقتصادی صحافت ہمیشہ سے ہی ایک تخصیصی شعبہ رہی ہے اور کبھی بھی کسی سیاسی عامی صحافی کو اس میں منہ مارنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس شعبے کو ہمیشہ ہی طبقہ اشرافیہ کی صحافت کہا جاتا ہے اور اس شعبے میں تخصیص کا حامل رپورٹر اپنی پوری ٹیم میں امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔

    پاکستان کا ایک پورا مالیاتی نظام ہے جو بین الاقوامی مالِ زر سے منسلک ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان اس کا مرکزی نکتہ ہے۔ وفاق میں سٹیٹ بینک کو وہی حیثیت ہے جو گھر میں حساب کتاب رکھنے والی امی یا دادی کو ہوتی ہے۔ سٹیٹ بینک ریاست کے تمام مالی، معاشی اور اقتصادی معاملات پر نظر رکھتا ہے اور اباجی (یعنی حکومت) کو بتاتا رہتا ہے کہ گھر میں کتنے پیسے بچ گئے ہیں اور ادھار کس سے پکڑنا ہے اور کس نے نہیں اور اگر ’’منے‘‘ کی سمیسٹر فیس آن پڑی ہے تو وہ کہاں سے ادا ہو گی؟

    جہاں تک ریاست کے روزمرہ مالی معاملات چلانے کی بات ہے تو مرکزی بینک ہر دوسرے یا تیسرے ہفتے سرمایہ کاری بینکوں سے قلیل مدتی سے لے کر طویل مدتی تک، ہر سطح کے قرض لیتا ہے۔ یہ قرض اربوں روپے میں ہوتے ہیں جو سرکاری اور غیر سرکاری بینک سٹیٹ بینک کے ذریعے ریاست کو دیتے ہیں، اور یہ کام کوئی یونہی ایک معمول میں چلتا رہتا ہے خواہ وفاق میں جیسی بھی فوجی، سیاسی، نیم سیاسی یا نیم فوجی حکومت برسرِ اقتدار ہو۔ جب ٹیکسوں کی مد میں وصولیاں ہوتی ہیں تو سرکار ان رقوم کو ادا کر کے اس قرض کو واپس کر دیتی ہیں اور یوں گلشن کا کاروبار بغیر کسی تعطل کے چلتا رہتا ہے۔

    سٹیٹ بینک جو قرض ان ملکی اور غیر ملکی بینکوں سے لیتا ہے، اس کے عوض ان کو جو دستاویز دیتا ہے اس کو ’بانڈ‘ کہا جاتا ہے اور اس بانڈ پر ادا کی جانے والی شرح منافع ہی پوری بینکنگ کی صنعت کا شرحِ منافع طے کرنے کا بنیادی معیار قرار پاتی ہے۔ اس وقت امریکہ کی بانڈ مارکیٹ میں سعودی عرب نے سوا سو ارب ڈالر کے لگ بھگ جبکہ چین نے تین ہزار ارب ڈالر کے لگ بھگ سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ بانڈز اور ان پر ادا ہونے والا شرحِ منافع کسی بھی ریاست کی مالیاتی اعتباریت کا مظہر ہوتا ہے۔ اس کے مزید تیکنیکی محاسن اور تفصیلات پر روشنی اس لیے نہیں ڈالیں گے کہ ایک عام قاری کے لیے اس کی اہمیت و افادیت نہ ہونے کے برابر ہے۔

    اس وقت دنیا میں جہاں جہاں بھی زری نظام رو بہ عمل ہے (اور ہر جگہ یہی نظام ہے) وہاں پر یہی طریق کار تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ روبہ عمل ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران مشرقِ بعید کے کرنسی بحران سے لے کر امریکہ کے رئیل اسٹیٹ بحران تک مالیاتی نظام کے لال بجھکڑوں کو یہ بات سوجھی کہ محض کاغذ پر چھاپی گئی کرنسی کے لین دین سے یہ معاملات اسی طرح پھر تباہی سے دوچار ہو سکتے ہیں لہٰذا کوئی اور سلسلہ کیا جائے۔ تحقیق کے بعد انہیں پتہ چلا کہ اسلامی نظام مالیات میں’’سکوک‘‘ ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے اگر یہ کام کیا جائے تو معاملات کافی حد تک محفوظ ہوں گے کیوں کہ اس ذریعے سے قرض حاصل کرنے والے ادارے ، تنظیم یا ملک کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ قرض کی رقم کے برابر اپنے اثاثوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اور یوں اس وقت ’سکوک‘ امریکہ میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ذریعہ ہو گیا ہے۔

    چوں کہ اس طرح کا کوئی بھی بانڈ کسی بھی ریاست کی مالیاتی اعتباریت کا مظہر ہوتا ہے اس لیے ہر ریاست وقتاً فوقتاً ایسے بانڈز عالمی مالیاتی منڈیوں میں فروخت کرتی رہتی ہے، بالکل ایسے ہی جیسے شوقین حضرات نے بھلے گھر نہ بھی بیچنا ہو لیکن ہر دو تین سال بعد اپنے پراپرٹی ڈیلر سے گھر کی قیمت ضرور لگواتے رہتے ہیں۔

    پاکستان نے کافی سالوں کے بعد عالمی منڈی میں ایک ارب ڈالر مالیت کا ایک سکوک بانڈ بیچا ہے۔ یہ بانڈ ساڑھے چھ فی صد کی شرحِ منافع کے بجائے ملکی تاریخ کے سب سے کم ترین سطح یعنی ساڑھے پانچ فیصد پر بیچا گیا ہے۔ اصل میں اولاً پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ وہ ساڑھے چھ فیصد پر پچاس کروڑ ڈالر عالمی منڈی سے قرض لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ خاکسار جیسے ناقدین سمیت بہت سے لوگوں کاخیال تھا کہ بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی کے باعث شاید یہ وقت ایسے بانڈ کی فروخت کے لیے مناسب نہیں۔ لیکن اسحاق ڈار صاحب بضد رہے۔ اور جب صرف پچاس کروڑ روپے کے مقابلے میں دو ارب چالیس کروڑ ڈالر کی پیش کشیں موصول ہوئیں تو اسحاق ڈار صاحب کی ’’نیت‘‘ بدل گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پچاس کروڑ کے بجائے ایک ارب ڈالر کاقرض لیں گے اور وہ بھی ایک فی صد کم شرحِ منافع یعنی ساڑھے پانچ فی صد پر، جس نے قرض دینا ہے دو جس نے نہیں دینا نہ دو۔ دنیا کے 124 سرمایہ کاروں نے اس بانڈ میں حصہ ڈالنے کے لیے اپنے ارادے کا اظہار کیا جن میں سے نوے ایسے مالیاتی ادارے تھے جن کی کسی سودے میں شرکت میں عالمی خبر ہوجایا کرتی ہے۔ یہ ایک کھلا پیغام ہے کہ دنیا بھر کے نجی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ شرح سود کو ایک فی صد کم کرنے کے باوجود صرف بیس کروڑ ڈالر کے سرمایہ کاروں نے ہی اپنی پیش کشوں سے مراجعت اختیار کی، جبکہ باقی وہیں پر رہے کہ ہمیں پاکستان کو قرض دینا ’قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے‘۔

    ایسے میں کچھ میڈیائی باندر جن کے ہاتھ میں استرا آ گیا ہوا ہے، وہ بازار میں نکل آئے کہ ’نواز حکومت ہمارے اثاثے رہن رکھ رہی ہے‘ اور اب فلاں فلاں اور فلاں چیزیں بھی رہن رکھی جائیں گی حالاں کہ ان کو ’’رہن‘‘ اور ’’گارنٹی‘‘ کے فرق کا پتہ ہی نہیں۔ اور ان کی باندر بازیوں کو کچھ اور حضرات سوشل میڈیا پر لے دوڑے۔ ارے بابا کسی شعبے کو تو اپنی استرابازی سے بخش دو، یہ آپ کی عقل و فہم میں آنے والی چیز ہی نہیں ہے۔ لیکن ان کا کیا ہے کل کو یہ بھی کہہ دیں گے کہ ہمیں بتایا جائے کہ ایٹم بم کیسے چلتا ہے اور کیا یہ محفوظ ہاتھوں میں ہے بھی کہ نہیں؟

    ان حضرات سے ایک ہی گذارش ہے کہ اللہ کا خوف کریں، اور ملک کے اہم اور نازک معاملات کے ساتھ ’’باندر کلا‘‘ نہ کھیلیں۔ سٹیٹ بینک کی مالیت کے خاتمے کا مطلب ہے کہ خاکم بدہن ملک کی مالی اعتباریت کا خاتمہ، اور ملک کی مالی اعتباریت کا خاتمہ ہو گیا تو پھر کسی بھارت کو یا امریکہ پر ہم پر ایک گولی چلانے کی ضرورت نہیں ہو گی، ہمارے ملک کے نام کا کوئی ملک دنیا کے نقشے پر موجود ہی نہیں ہوگا۔ اللہ کرے یہ دن کبھی نہ آئے اور ان شاء اللہ کبھی نہیں آئے گا۔