Author: بشارت حمید

  • نرینہ اولاد کی خواہش اور مظلوم عورت – بشارت حمید

    نرینہ اولاد کی خواہش اور مظلوم عورت – بشارت حمید

    بشارت حمید اس کرہ ارضی پر نسل انسانی کی ابتدا سے لے کر آج تک ارب ہا ارب انسان گزر چکے ہیں اور تاقیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ کوئی اللہ تعالٰی کے وجود کو ماننے والا ہو یا اس کا انکار کرنے والا، آخرت کی جواب دہی اور مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کو مانے یا نہ مانے لیکن اس بات کو ضرور مانتا ہے کہ ہماری یہ زندگی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے اور ایک دن یہ دنیا چھوڑ جانی پڑے گی۔

    جب ہر انسان اس بات کو جانتا اور مانتا ہے کہ وہ یہاں ہمیشہ کے لیے نہیں ہے تو اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میرے بعد میری ہستی کا تسلسل جاری رہے۔ اللہ تعالٰی نے ہر جاندار جسم کے اندر ری پروڈکشن کا پورا پراسیس ابتداء ہی سے رکھ دیا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی نسل کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اس ری پروڈکشن کے عمل سے ہر نوع میں نر اور مادہ کی پیدائش ہوتی ہے۔ لیکن نر یا مادہ کا انتخاب کسی بھی نوع کے اختیار میں نہیں ہے۔

    بیٹے کے حصول کی خواہش ہر انسان کے دل میں ہے لیکن انسان بائی چوائس بیٹا حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ اس روئے زمین پر اللہ تعالٰی کا نظام ہے کہ مرد اور عورت کی تعداد کے لحاظ سے ایک تناسب قائم رہے۔ کسی کو صرف بیٹے ہی دیتا ہے تو کسی کو صرف بیٹیاں۔ اور کسی کو دونوں نعمتوں سے نوازتا ہے اور کسی کو کچھ بھی نہیں دیتا۔

    زمانہ جاہلیت میں لوگ بیٹا پیدا ہونے پر خوشیاں مناتے اور بیٹی کی پیدائش پر سوگ۔ کئی تو ایسے بدبخت تھے کہ گڑھا کھود کر اس میں بیٹی کو دبا کر اوپر سے مٹی ڈال کر زندہ ہی دفن کر دیتے تھے کہ گھر میں بیٹی پیدا ہونا انکے نزدیک بے عزتی اور بے غیرتی کا مقام تھا۔

    سرزمین حجاز میں حضور اکرم صل اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد قرآن مجید کا نزول شروع ہوا اور اسلام نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور اسلام قبول کرنے والوں پر یہ واضح کیا گیا کہ اولاد اللہ تعالٰی کی عنایت ہے، وہ جسے چاہے اور جو چاہے عطا کر دے۔ بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے والوں پر اللہ کا غصہ اتنا شدید ہے کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: قیامت کے دن اس قتل ہونے والی بچی سے پوچھا جائے گا کہ تم بتاؤ تمہارا کیا جرم تھا جس کی پاداش میں تمہیں جان سے مار دیا گیا؟ یعنی اللہ تعالٰی فرمائے گا کہ تمہاری پیدائش تو میرے حکم سے ہوئی پھر کس نے تمہیں قصور وار ٹھہرایا؟

    موجودہ سو کالڈ مہذب دور میں بھی انسانی رویے دور جاہلیت سے زیادہ مختلف نظر نہیں آتے۔ ہمارے برصغیر پاک و ہند میں ہندوانہ پس منظر کے حامل مسلمان اب بھی بیٹی کی پیدائش کو عورت کا جرم عظیم سمجھتے ہیں اور طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے حالانکہ میڈیکل سائنس بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ بیٹے یا بیٹی کے چوائس میں عورت کا سرے سے کوئی کردار ہے ہی نہیں ہے۔ کئی بدبخت تو بیچاری عورت کو جان سے مارنے کا اقدام بھی کر گزرتے ہیں کہ اس کے ہاں بیٹی کیوں پیدا ہوئی۔

    بیٹی کی پیدائش پر طعنے دینے والی بھی اکثر ساس یا نند کے روپ میں عورت ہی ہوتی ہے جو اتنا نہیں سوچتی کہ وہ خود بھی تو اپنے والدین کی ایک بیٹی ہی ہے۔ یہ سب کچھ دین سے دوری اور اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت رکھنے کا نتیجہ ہے کہ ہم نام کے مسلمان تو ہیں مگر اعمال اور عقائد ہندوؤں والے ہی ہیں۔

    قرآن مجید زندگی کے ہر شعبے میں ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ سورہ الشوریٰ میں ارشاد فرمایا گیا
    ”زمین و آسمان کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے۔ یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے۔ بے شک وہ جاننے والا اور قدرت رکھنے والا ہے“
    یعنی اولاد دینا یا نہ دینا اللہ تعالٰی کی عنایت سے ہے۔ اور اس کی عطا سراسر حکمت پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ کس کو کیا دینا ہے اور کیا نہیں۔

    ہم اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کو اللہ تعالٰی بیٹا عطا کرتا ہے لیکن وہی بیٹا جس کی پیدائش پر والدین نے خوشیاں منائیں اور بچپن میں لاڈ اٹھائے، بڑا ہو کر اپنے والدین کے لئے سوہان روح بن گیا یہاں تک کہ بڑھاپے میں والدین کو گھر سے نکال باہر کیا یا زیادہ رحم دلی دکھائی تو اولڈ ہاؤس چھوڑ آیا اور پھر ہم کئی والدین کو یہ کہتے ہوئے بھی سنتے ہیں کہ اس سے بہتر تھا کہ ہمارے ہاں اولاد پیدا ہی نہ ہوتی۔ اور اسی طرح یہ بھی مشاہدے میں آتا ہے کہ جس بیٹی کی پیدائش پر والدین مغموم ہوئے اسی نے انکی خدمت کا حق ادا کر دیا اور بڑھاپے کا سہارا بنی۔

    اسی طرح سورہ کہف میں حضرت موسٰی اور خضر علیہما السلام کے واقعے میں اللہ تعالٰی کے تکوینی امور کو ہماری راہنمائی کے لئے بیان کیا گیا ہے۔ اس میں ذکر ہے کہ جب دونوں سفر پر چلے تو راستے میں ایک جگہ ایک لڑکا ملا۔ حضرت خضر نے اسے قتل کر دیا تو حضرت موسٰی نے حضرت خضر سے کہا کہ یہ آپ نے کیا حرکت کر دی، ایک جان کو ناحق قتل کر دیا۔ حضرت خضر نے جواب دیا کہ اس لڑکے کے والدین بہت نیک ہیں اور یہ لڑکا بڑا ہو کر ان کے ساتھ بغاوت اور سرکشی کا ارتکاب کرنے والا تھا اس لیے آپ کے رب نے چاہا کہ اس کے بدلے ان کو نیک اور صالح اولاد عطا فرمائے اور مستقبل میں پیش آنے والی پریشانی سے بچائے لہذا اس لڑکے کو اللہ کی مشیت کے تحت والدین سے چھین لیا گیا۔
    اب بظاہر تو والدین کے لیے بچے کی جدائی ایک بہت بڑا صدمہ ہے لیکن اس میں بھی ان کے لیے خیر ہی تھی جس کو ہم انسان نہیں سمجھ سکتے مگر اللہ کے علم میں ہوتا ہے کہ ہمارے لئے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔ اللہ تعالٰی کے ہر کام میں حکمت ہے وہ جو بھی کرتا ہے بہتر ہی کرتا ہے۔ اگر کسی کو بیٹا یا بیٹی عطا کرتا ہے تو اس میں بھی اس کی حکمت کارفرما ہے اگر کسی کو بے اولاد رکھتا ہے تو یہ بھی حکمت سے خالی نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کی ذات پر یقین رکھتے ہوئے اس کی عطا پر راضی رہنا چاہیے اور یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمیں جو کچھ بھی دے اس میں ہمارے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی ہی ہو نہ کہ ہمارے لیے وبال جان بن جائے۔

  • جنت کا ویزہ – بشارت حمید

    جنت کا ویزہ – بشارت حمید

    بشارت حمید زندگی کے تیزی سےگزرتے شب و روز میں کسی رات سونے کے لیے نرم و ملائم بستر پر لیٹ کر کبھی ہمیں یہ غور کرنے کا وقت ملا کہ میرا اس دنیا میں آنے کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا میں اپنی مرضی سے یہاں تک پہنچا ہوں اور کیا اپنی مرضی سے یہ دنیا چھوڑ کر جاؤں گا؟

    کبھی وہ وقت تھا جب میں ایک چھوٹا بچہ تھا میری ہر ادا پر میرے والدین خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ گزرنے والے ایک ایک لمحے اور آنے والی ایک ایک سانس نے مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے اور کیا میں ہمیشہ یہیں رہوں گا؟ ہرگز نہیں۔ مجھے ایک مقررہ وقت پر اپنے رب کے حضور پیش ہونا پڑے گا اور اپنے اعمال کی جوابدہی کرنا ہوگی۔

    بحیثیت مسلمان ہم موت کے بعد اخروی زندگی اور اللہ کے حضور پیش ہونے کو مانتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اس پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم اس زندگی میں جو کچھ اچھا یا برا کر رہے ہیں اسکا جواب اس علیم و خبیر ہستی کے سامنے پیش ہو کر دینا پڑے گا جو ہر شے کو جاننے والی ہے۔

    اگر یہ کہا جائے کہ تو غلط نہیں ہوگا کہ ہم زبان سے تو مانتے ہیں مگر قلبی یقین ہمیں حاصل نہیں ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم چونکہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے اور والدین سے اسلام کے بارے سنا انکو نماز پڑھتے اور قرآن مجید کی تلاوت کرتے دیکھا تو کسی حد تک دین کی بنیادی معلومات حاصل ہو گئیں لیکن جب شعور کی عمر تک پہنچے تو سب کچھ فراموش کر دیا اور دنیاوی زندگی میں مست ہو کر شب و روز گزارنے لگے۔ دین کا علم حاصل کرنے کی نہ ضرورت محسوس کی اور نہ ہی اس کی طرف توجہ کی۔

    برا مت منائیے گا اس بات کا کہ ہمارا ایمان اور یقین صرف کھوکھلے دعوے کی حد تک ہے ہمارے اندر وہ ایمان داخل ہی نہیں ہوا۔ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں جو ایمان سے خالی ہیں۔ ہم نے زبان سے کلمہ تو پڑھ لیا اور مسلمانوں کی صف میں شامل ہو گئے دنیا میں مسلمان کے حقوق کے دعویدار تو بن گئے لیکن قلبی ایمان کی کیفیت نہ حاصل کر سکے۔
    دنیا کے معاملات میں زبان سے کلمہ طیبہ ادا کرنے والا مسلمان مانا جائے گا اور اسے تمام وہ حقوق حاصل ہوں گے جو باقی مسلمانوں کے ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔! قیامت کے دن کامیابی اسلام کی وجہ سے نہیں بلکہ ایمان قلبی کی وجہ سے ملے گی۔ اس لئے کہ آخرت میں کامیابی کے لئے ایمان شرط ہے۔

    اگر ہم یورپ کے کسی ملک کا ویزہ حاصل کرنا چاہیں تو اس کے لیے کتنے پاپڑ بیلتے ہیں۔ کہیں انگلش سیکھ رہے ہوتے ہیں تو کہیں بنک سٹیٹمنٹ بنوانے میں لگے ہوتے ہیں۔ دعائیں بھی بہت کرتے ہیں اور ویزہ انٹرویو کی تیاری بھی بہت اچھی طرح کرتے ہیں کہ کہیں کسی بھی وجہ سے ویزہ مسترد نہ ہو جائے۔ پھر ایمبیسی جا کر علی الصبح لمبی لائن میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ پھر ہم غور کریں کہ جس کو ویزہ مل جاتا ہے اس کا رویہ کیسا ہوتا ہے؟ وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا ہوتا۔ وہ ہر جاننے والے کو بھی اور انجان کو بھی دکھاتا پھرتا ہے کہ دیکھو یہ مجھے ویزہ مل گیا سب رشتے داروں اور دوست احباب کو فون کرکے بتاتا ہے کہ میں کامیاب ہو گیا۔ سب اسے کامیابی کی مبارکباد دیتے ہیں۔

    اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں یوم الحساب کا کچھ ایسا ہی نقشہ کھینچا ہے کہ جس کا نامہ اعمال اسکے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ خوشی خوشی اپنے گھر والوں کی طرف لوٹے گا اور کہے گا کہ یہ دیکھو میرا رزلٹ۔ میں کامیاب ہو گیا اور مجھے اسی کامیابی کی امید تھی۔

    اب آئیں دوسری طرف۔ جس کا ویزہ مسترد ہو جاتا ہے وہ کسی سے نظریں بھی نہیں ملاتا اور نہ ہی کسی کو بتانا پسند کرتا ہے بعینہ ایسا ہی کچھ منظر اس روز ہو گا کہ جس کا رزلٹ کارڈ اسکے بائیں ہاتھ میں پکڑایا جائے گا تو وہ پچھتائے گا کہ اے کاش میں نے اس زندگی کے لئے بھی کچھ تیاری کی ہوتی۔ اے کاش میری موت میرا قصہ ہی تمام کر دیتی اور آج مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ مگر اس روز اس کا یہ پچھتاوا کسی کام نہیں آئے گا۔

    آئیے ہم اپنا اپنا محاسبہ کریں اور اپنی زندگی کا قیمتی وقت فضول سرگرمیوں میں ضائع کرنے کی بجائے اس وقت کو دین کا علم سیکھنے میں صرف کریں اور اپنی ذات کی اصلاح کریں اس یقین کے ساتھ کہ ہم جنت کا ویزہ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے اللہ تعالٰی ہمیں کامیابی عطا فرمائے اور قیامت کی رسوائی سے محفوظ فرمائے۔ آمین

  • اعتدال کی سیاست اور ہماری ذمہ داری – بشارت حمید

    اعتدال کی سیاست اور ہماری ذمہ داری – بشارت حمید

    پچھلے چند ہفتوں سے وطن عزیز میں جاری سیاسی گرما گرمی نے اس ملک میں عام آدمی کی زندگی میں کوئی بہتری لانے کی بجائے اسے مزید اجیرن ہی کیا ہے۔ ویسے تو سیاسی جلسے جلوسوں سے اس مخصوص علاقے کے لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں جہاں وہ عملی طور پر وقوع پذیر ہو رہے ہوں لیکن مجموعی طور سارے ملک کے عوام پریشانی کا سامنا کرتے ہیں۔
    10 سے 12 فیصد ووٹ حاصل کر کے بننے والی عوام کی نام نہاد نمائندہ حکومت ہو یا اس بہتی گنگا کے فائدے سے محروم رہ جانے والی اپوزیشن جماعتیں، کسی کو بھی عوام الناس کے دکھ درد اور تکالیف کا ذرا سا بھی احساس نہیں ہوتا۔
    اسی طرح عوام میں سے جو لوگ ان سیاسی لیڈروں کے سپورٹر ہوتے ہیں، ان کے لیے تو یہ لیڈر دیوتا کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ انکی کہی گئی ہر بات کو پورے یقین کے ساتھ من و عن قبول کر کے پھر اس کا ہر فورم پر دفاع کرنا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں چاہے وہ سیاسی راہنما ذاتی کردار میں انتہائی برے کردار کا حامل ہی کیوں نہ ہو۔
    نہ جانے کیوں ہم ان تعصبات کا آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں کہ اپنی پسند کی سیاسی جماعت کے لئے اپنے قریبی رفقاء اور دوست احباب سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ جتنے دیوانہ پن کا مظاہرہ ہم سیاسی جماعتوں کے لیے کرتے ہیں اگر اتنا ہی ہم اللہ اور اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم کے لیے کریں تو ولایت کا رتبہ پا جائیں۔
    ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سیاسی وابستگی جس مرضی جماعت کے ساتھ رکھیں لیکن اعتدال کا رویہ اپنائیں۔ کسی کی مخالفت میں اتنا متشدد نہ ہو جائیں کہ اسکی چھوٹی سی غلطی ہمیں پہاڑ جیسی لگے اور اپنے ممدوح لیڈر کے بلنڈرز بھی ہماری نظر سے اوجھل رہیں۔ پھر اس مخالفت کو اس حد تک نہ لے جایا جائے کہ اپنے قریبی حلقے بھی اس وجہ سے دور ہو جائیں۔
    نظریات کی سیاست پرانے وقتوں میں ہوا کرتی تھی اب تو پیسہ بنانے کی سیاست رہ گئی ہے اللہ کرے کہ کوئی ایسا لیڈر اس ملک کو ملے جو اسکی ڈائریکشن سیدھی کر دے لیکن اس سے پہلے ہمیں اپنے دائرہ کار میں خود اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا رویہ اور کردار ایک اچھے مسلمان اور ذمہ دار شہری کا ہونا چاہیئے۔
    ایک چھوٹی سی مثال دوں گا جب ہم باتھ روم استعمال کرتے ہیں تو بعد میں پانی بہانے کی ذمہ داری اگلے آنے والے پر چھوڑ آتے ہیں اسی طرح کسی پارک میں فیملی یا دوستوں کے ساتھ کھانا کھا کر کچرا بجائے کسی قریبی کوڑادان میں ڈالنے کے اسی جگہ پھینک آتے ہیں اور ذرہ برابر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ اللہ کے بندو یہ شہر، یہ ملک بھی ہمارا ہی ہے اور ہم نے ہی اسے ٹھیک کرنا ہے اگر ہم اپنے ذمے اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کام نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا۔ہر کام حکومت کے کرنے کا نہیں ہوتا۔ شہریوں کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنا فرض ادا کریں۔
    ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ تم پیسے کا حساب سیدھا رکھو گے تو روپوں کا حساب خود بخود سیدھا ہو جائے گا یعنی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو درست سمت میں رکھو گے تو بڑے معاملات خود بخود ٹھیک ہوتے چلےجائیں گے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اپنے حصے کا کام کرنا شروع کر دے تو ان شاءاللہ ہم اس ملک کو پرامن اور پرسکون بنا سکتے ہیں۔
    قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالٰی اس قوم کی حالت اس وقت تک تبدیل نہیں کرتا جب تک وہ قوم خود اپنے آپ کو تبدیل نہ کر لے۔ علامہ اقبال نے اسی بارے کہا تھا۔
    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

  • عبادت کا اصل مقصد اور طبی فوائد – بشارت حمید

    عبادت کا اصل مقصد اور طبی فوائد – بشارت حمید

    بشارت حمید کچھ عرصہ قبل ایک دوست سے گفتگو ہو رہی تھی، اس نے فجر کی نماز کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہا کہ بزرگوں سے سنا ہے کہ فجر کی نماز ادا کرنے والے کا رزق کشادہ کر دیا جاتا ہے، اس لیے فجر کی نماز ضرور پڑھنی چاہیے۔ میں نے سوال کیا کہ فرض کریں، اگر یہ فائدہ حاصل نہ ہو تو پھر کیا نماز چھوڑ دینی چاہیے؟ اس کا اس کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا۔

    ہم روز مرہ زندگی میں اسلام کے فرائض کے بارے میں مختلف طبی اور دنیاوی فوائد کی باتیں کرتے اور سنتے ہیں جیسے کہ روزے سے معدے پر اچھا اثر پڑتا ہے، معدے کو سکون میسر آتا ہے، صحت بہتر ہوتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ

    اسی طرح نماز کے دوران بلڈ سرکولیشن کے حوالے سے مختلف طبی فوائد کے بارے تفصیلات ملتی ہیں۔ اچھی بات ہے کہ ہم اس حوالے سے بھی علم رکھتے ہوں کہ سجدے میں دل کا لیول دماغ سے اونچا ہو جاتا ہے اور دماغ کو خون کی سپلائی بہتر ہو جاتی جو کہ دماغ کی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ وغیرہ وغیرہ

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے عبادت کا جو بھی طریقہ بیان فرمایا ہے کیا اس کا مقصد انسان کا روحانی پہلو سے تزکیہ ہے یا پھر اسکی جسمانی صحت کی بہتری ہے؟ اگر دنیاوی فائدہ ہی پیش نظر رکھا جائے تو پھر زکوۃ اور حج کے بارے کیا خیال ہے؟ ان دونوں عبادات میں بظاہر تو دنیاوی طور پر مالی نقصان ہو رہا ہوتا ہے کہ انسان اپنی محنت سے کمائے ہوئے مال میں سے بنا کسی دنیاوی فائدے کے اچھی خاصی رقم خرچ کرتا ہے اور میرا سوال یہ ہے کہ ان سے صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

    ہمارے پاس ہدایت کا اصل منبع و سر چشمہ قرآن مجید اور حضور اکرم صل اللہ علیہ و سلم کی سنت مبارکہ ہے۔ اگر ہم ان کی طرف رجوع کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ صرف ایک عبادت “نماز” کے بارے ہمیں کیا جواب ملتا ہے تو قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا، پھر ارشاد فرمایا کہ میری یاد کے لیے نماز قائم کر، پھر ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ جب آخرت میں جہنمیوں سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس چیز نے جہنم میں داخل کروایا تو وہ کہیں گے کہ ہم نماز پڑھنے والوں میں شامل نہیں تھے۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا کہ صبر اور نماز کے ساتھ (اللہ سے) مدد چاہو اور یقیناً یہ(نماز پڑھنے کا) کام بہت بھاری ہے (ان لوگوں پر) سوائے اللہ سے ڈرنے والوں کے۔

    مندرجہ بالا چند مقامات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نماز کی ادائیگی کا اصل مقصود اللہ کی یاد اور اس کا قرب اور خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہے اور ہماری نیت صرف اور صرف یہی ہونی چاہیے۔

    اسی طرح کتب احادیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے مکان کا کمرہ تعمیر کیا اور اس میں ایک سوراخ بھی رکھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا تو پوچھا کہ یہ سوراخ کس لیے ہے تو ان صحابی نے جواب دیا کہ روشنی اور ہوا کے لیے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اس نیت سے رکھتے کہ یہاں سے آذان کی آواز سنائی دیتی رہے تو تمہیں اس کا اجر بھی ملتا اور اس سے ہوا اور روشنی بھی مل جاتی۔

    اس تمام بحث سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم عبادت کو خالص اللہ کی رضا کے لیے بجا لائیں اور دل میں کوئی دنیاوی فائدے کے حصول کی نیت نہ ہو تو اس سے ہمیں دونوں فوائد حاصل ہوتے رہیں گے۔ اور یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ چاہے کوئی دنیاوی فائدہ حاصل ہو یا نہ ہو ہم اللہ کی عبادت کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالٰی ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین۔

  • انسان کی مہلت عمر اور آخرت – بشارت حمید

    انسان کی مہلت عمر اور آخرت – بشارت حمید

    بشارت حمیدچند دن پہلے اپنے دفتر کے کولیگز کے ساتھ بنی ہوئی 10 سال پرانی تصاویر نظر سے گزریں تو عجیب احساس ہوا کہ ان دس برسوں میں زندگی کیا سے کیا ہو گئی۔کئی کولیگز مختلف کمپنیوں میں اور کئی بیرون ملک جاب پر چلے گئے۔ ان سے رابطے بھی تقریباً ختم ہی ہو گئے۔
    انہی دس سالوں میں والد محترم کی وفات ہوئی, بچے چھوٹے تھے اب ماشاءاللہ بڑے ہو گئے ہیں۔ مشترکہ آبائی گھر میں رہائش تھی اب دوسرے شہر اپنے ذاتی گھر میں رہ رہے ہیں الحمدللہ، اللہ تعالٰی نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔

    اس عرصے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو اپنی زندگی کے دس برس کم ہو گئے۔ کتنی باقی ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ یہی دعا ہے کہ اللہ تعالٰی انجام بخیر فرمائے۔

    اگر انسان کی زندگی کے بارے سوچا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ابتدائی 7-8 سال بچپن میں گزر جاتے ہیں پھر تقریباً 20 سال کی عمر تک سکول اور کالج لائف۔ اسکے بعد نوکری یا کاروباری مصروفیات اور شادی۔ پھر بچے اور دیگر پریشانیاں۔ پھر ادھیڑ عمر اور بڑھاپا۔

    اپنی کل زندگی کا تقریباً نصف تو انسان سو کر گزار دیتا ہے باقی میں سے بچپن لڑکپن اور بڑھاپا نکال دیں تو شاید ہی 10 سال بچتے ہیں جن میں انسان دنیا اور آخرت کے لیے کچھ محنت کرتا ہے۔

    قیامت کے دن لوگ آپس میں سوال کریں گے کہ دنیا میں کتنا عرصہ رہے ہیں تو کوئی کہے گا ایک گھڑی کوئی دو گھڑیاں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ان میں سے جو بہت درست اندازہ لگانے والا ہو گا وہ کہے گا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم رہے ہیں۔

    غور کیا جائے تو یہ ہے اس دنیا کی حقیقت جہاں رہ کر ہم اپنی بہت ہی مختصر زندگی کو فضول مصروفیات میں برباد کر لیتے ہیں۔ کیا پچھلے ایک سو سال پہلے تک جو لوگ اس روئے زمین پر موجود تھے ان میں سے کوئی آج موجود ہے؟

    اسی طرح جو آج اس زمین پر موجود ہیں اگلے سو سال تک ان میں سے کوئی بھی نہیں رہے گا چاہے ہم اس حقیقت کا ادراک کریں یا نا کریں۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے اپنے والد کے دادا کا نام معلوم ہو۔نسلوں کی نسلیں گزر گئیں لیکن کتنے لوگ ہیں جن کا نام ہم تک پہنچ سکا ہے اسی طرح ہماری زندگی کے بعد کسی کو ہمارا اس دنیا میں آنا یاد بھی نہیں رہے گا کہ اس نام کا کوئی فرد ہوا کرتا تھا ۔

    انسان اپنی جوانی کے نشے میں اپنا انجام بھول جاتا ہے اسے یہ یاد نہیں رہتا کہ جس طرح صدیوں سے نسل انسانی کی زندگی اور موت کا سلسلہ جاری ہے میں بھی عنقریب اس کا شکار ہونے والا ہوں۔ موت کا ذکر کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ ذکر نہ کرنے سے وہ ٹلنے والی نہیں ہے۔

    ایک ایک گزرتے لمحے اور سانس کے ساتھ ہم اپنی محدود زندگی کا محدود سٹاک استعمال کرتے جا رہے ہیں اور پھر اچانک وہ دن آن پہنچتا ہے کہ جس کے بارے میں ارشاد ربانی ہے “اور پھر وہ موت کی بےہوشی حق کے ساتھ آ پہنچی یہ وہ چیز ہے جس سے تو دور بھاگتا تھا”۔

    پھر نہ کوئی جائے پناہ میسر ہو گی اور نہ ہی دنیا میں واپسی کا کوئی راستہ۔ ابھی ہمارے پاس وقت اور عمر کی مہلت ہے کہ ہم اپنا اپنا جائزہ لیں کہ ہمارا نصب العین دنیا کا مال و متاع ہے یا کہ آخرت کی کامیابی۔

    میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا کا کام چھوڑ دیں لیکن یہ ہمارا اصل مقصد حیات نہ بنے۔ دنیا کے کام دھندوں میں بھی ہم اللہ کو یاد رکھیں۔ رزق حلال کمائیں اپنی اولاد کی صحیح دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں تاکہ اللہ تعالٰی ہمارا انجام صالحین کے ساتھ فرمائے۔

  • تیزی سے گزرتی زندگی اور کرنے کا اصل کام – بشارت حمید

    تیزی سے گزرتی زندگی اور کرنے کا اصل کام – بشارت حمید

    پچھلے دنوں ایک تعلق والے ڈاکٹر صاحب کی بیوی کا انتقال ہوگیا وہ خود بھی عمر رسیدہ ہیں اور نماز روزے کے پابند ہیں۔ افسوس کے لیے ان کے پاس جانا ہوا تو کہنے لگے کہ ایسا کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن بیوی میرا ساتھ چھوڑ جائے گی۔ یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہم اس کے بارے سوچیں یا نہ سوچیں ہر گزرتے لمحے اور ہر آنے والے سانس کے ساتھ ہم اپنے آخری انجام کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

    انسان کی لاعلمی اور جہالت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ اہمیت پیسے کے حصول کو دیتا ہے۔ اور ہوش سنبھالنے کے بعد مرتے دم تک اسی پیسے کو اکٹھا کرنے کے چکروں میں زندگی کا ایک بڑا حصہ صرف کر دیتا ہے۔ پیسہ کمانا کوئی برا کام نہیں لیکن ہر وقت اسکی دھن ذہن پر سوار کیے رہنا اور ہر وقت اسی کو حاصل کرنے میں لگے رہنا زندگی کا مقصد نہیں ہے۔

    انسان اگر کبھی تنہائی میں بیٹھ کر اپنے آپ پر غور کرے کہ میری پیدائش سے پہلے دنیا میں میری کیا حیثیت اور مقام تھا۔ کتنے لوگ مجھے جانتے تھے۔ پھر میری پیدائش کے تمام مراحل سے خالق کائنات نے مجھے بخیر و خوبی گزارا اور میری ہر ضرورت کا بھرپور خیال رکھتے ہوئے سب کچھ جو میرے جسم کے وجود میں آنے کے لئے ضروری تھا عطا فرمایا۔ میں نہ اپنی مرضی سے اس دنیا میں اس ملک میں اس صوبے میں اس شہر میں اور اس گھر میں پیدا ہوا نہ اپنی مرضی سے یہ سب کچھ چھوڑ کرجاؤں گا۔

    پھر جب پیدا ہوا تو اللہ تعالٰی نے میری ضرورت کی خوراک اور والدین کی توجہ اور محبت کا انتظام کیا۔ میں خود سے ہل نہیں سکتا تھا خود سے کچھ کھا پی نہیں سکتا تھا اپنے جسم سے نکلنے والے فضلے پر کنٹرول نہیں رکھ سکتا تھا تو اس نے ماں کی صورت میں میری تمام ضروریات کا بندوبست کیا۔

    پھر بچپن آیا اور کچھ کچھ ہوش سنبھالنے لگا چیزوں اور افراد کی پہچان کرنے لگا کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ بولنے لگا گھر میں سب کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ پھر لڑکپن میں داخل ہوا سکول لائف شروع ہوئی کچھ کچھ شعور کی سطح بلند ہونے لگی۔ اچھے برے کی تمیز کرنے لگا۔ پھر منہ زور جوانی کا دور آیا تو اپنے آپ کو بہت بڑی چیز سمجھنے لگا۔ ہر دوسرا شخص ہیچ نظر آنے لگا۔ کسی کی کہی بات برداشت سے باہر ہونے لگی ہر نصیحت بری لگنے لگی۔ اپنی تعلیم پر اپنی عقل و دانش پر غرور کا شکار ہونے لگا۔

    پھر عملی زندگی کا مرحلہ آیا تو اپنی کمائی کو اپنی قابلیت، قوت فیصلہ اور ذہانت کا نتیجہ سمجھنے لگا۔ خود کو ہر لحاظ سے دوسروں سے اعلیٰ و ارفع سمجھنے لگا۔ اسی زعم میں دوسروں کی حق تلفی کرنا بھی اپنا پیدائشی حق سمجھنے لگا۔ خود صاحب اولاد ہوا تو زندگی کے طور طریقے ہی بدل گئے۔ بچوں کے مستقبل کی فکر میں ہلکان رہنے لگا۔ ان کا مستقبل بنانے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت اکٹھی کرنے لگا۔

    زندگی کی رنگینیوں اور دیگر مصروفیات میں اس قدر مشغول ہوا کہ اپنی ذات کو بھول گیا۔ اپنے اس دنیا میں آنے کے مقصد کو اور پھر آخرت کی زندگی کے لئے کچھ محنت کرنے کا خیال تک نہ آیا یہاں تک کہ بڑھاپے کی عمر میں جا پہنچا۔ جس اولاد کے لیے دولت کے انبار جمع کئے اسی اولاد کو اب اسکا وجود بھی بوجھ لگنے لگا حتیٰ کہ موت کا وقت آن پہنچا۔ لیکن افسوس کہ آخرت کے لیے کچھ جمع کرنے کا وقت ہی نہیں ملا کہ دنیا سے فرصت ہی نہیں تھی۔ ساری زندگی اپنا مقصد حیات پیسے کو بنائے رکھا اور اصل مقصد بندگی رب کبھی ذہن میں ہی نہیں آیا۔

    دین سے بس نماز روزے کی حد تک واجبی سا تعلق رکھا۔ دنیاوی علوم میں اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کی ڈگریاں حاصل کیں لیکن آخرت میں کامیابی کے مینوئل قرآن مجید کو بس برکت حاصل کرنے کے لیے گھر کے کسی کونے کھدرے میں ڈالے رکھا۔ کبھی اس کو سمجھ کر پڑھنے کا خیال تک نہیں آیا۔ کیا اس کلام کا یہ حق بھی نہیں تھا کہ اسکی زبان سیکھ کر اسکو بھی سمجھا جاتا۔

    یہ ہم میں سے تقریباً سب کا احوال زندگی ہے ہم دنیا میں اپنی زندگی میں قرآن مجید کو سمجھنا اپنی ترجیحات میں شامل ہی نہیں رکھتے یہاں تک کہ موت سے جا ملتے ہیں۔
    اگر گہرائی میں غور و فکر کریں تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ انسان دراصل اکیلا ہے۔ اکیلے ہی اس دنیا میں آتا ہے اور اکیلا ہی چلا جاتا ہے۔ زندگی میں جتنی بھی تکالیف آتی ہیں جو خود اس کی ذات کو دکھ درد محسوس ہوتا ہے وہ کسی دوسرے کو محسوس ہو ہی نہیں سکتا خواہ وہ کتنا ہی قریبی اور مخلص ساتھی ہو۔ ساری زندگی انسان دوسروں کے لیے کماتا کماتا اپنے آپ کو بھلائے رکھتا ہے۔ لیکن پھر سب کچھ یہیں چھوڑ کر راہی ملک عدم ہو جاتا ہے۔

    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بہت پیاری حدیث ہے آپ نے فرمایا کہ انسان کا وہی کچھ ہے جو اس نے کھا پی لیا یا پہن کر پرانا کر دیا اور یا اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا۔ باقی سب کچھ تو وارثوں کا ہے۔ ادھر اس کی آنکھ بند ہوئی ادھر انہوں نے سب بانٹ لیا۔
    دنیاکا مال و دولت اور سب رشتے ناطے جو انسان کو مشغول رکھتے ہیں حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ بقول علامہ اقبال :
    یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند
    بتان وہم و گماں لا الہ الا اللہ

    یہ سب ہماری سوچ کے بت ہیں انکی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ سب کچھ انسان کے دل لبھانے کی چیزیں ہیں اور انسان سب کچھ انہی کو سمجھ بیٹھتا ہے۔
    ابھی ہمارے پاس وقت کی مہلت باقی ہے لیکن یہ تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے اس لئے اپنی آخرت کے لئے بھی انہی 24 گھنٹوں میں سے ہی وقت نکالنا پڑے گا ہمیں مالک کائنات کے آخری پیغام کو سمجھ کر اس کے مطابق اپنے معاملات چلانے کو اپنی اولین ترجیح بنانا ہو گا تب ہی آخرت میں کامیابی کا حصول ممکن ہو سکے گا۔ اللہ تعالٰی ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

  • کامیابی حاصل کرنے کا شارٹ کٹ نہیں ہوتا – بشارت حمید

    کامیابی حاصل کرنے کا شارٹ کٹ نہیں ہوتا – بشارت حمید

    بشارت حمید ہماری کالونی نہر کے کنارے واقع ہے اور نہر کے دونوں جانب تین لین کی ایکسپریس وے گزرتی ہے۔ عید کے دوسرے دن ایک شخص اپنی فیملی کے ساتھ گاڑی میں جا رہا تھا بجائے ون وے فالو کرنے کے اور تھوڑی دور سےیو ٹرن لے کر درست سمت میں جانے کے اس نے ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گاڑی غلط رخ پر ڈال دی کہ چلو خیر ہے شارٹ کٹ مار لیتے ہیں۔

    ہوا یہ کہ مخالف سمت سے ایک دوسری تیز رفتار گاڑی جو کہ اپنی درست سمت میں آرہی تھی، اس گاڑی کے ساتھ ٹکرا گئی نتیجتاً دونوں گاڑیاں تباہ ہوگئیں اور دو لوگوں کی جان بھی گئی۔ اک ذرا سی لاپرواہی ایک لمحے میں کتنے لوگوں کی زندگی کا رخ ہی بدل گئی۔ کوئی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور کوئی زخمی ہو کر ہسپتال جا پہنچا اور عمر بھر کے لیے معذور ہو گیا۔

    اگر ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب ہر وقت شارٹ کٹ کے چکر میں پڑے رہتے ہیں۔ صبر نام کی کوئی چیز ہماری زندگی میں نہیں پائی جاتی اور نہ ہی اس کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے۔ یہ صرف سڑک پر چلنے والی ٹریفک کا ہی مسئلہ نہیں زندگی کے ہر شعبے میں دیکھیں تو یہی بے صبری نظر آتی ہے۔ نا ہم اشارےکی پابندی مانتے ہیں نا ون وے کی،نا ہی قطار میں کھڑے ہونا پسند کرتے ہیں اور ہر جگہ کوشش یہ کرتے ہیں کہ دوسروں کو پھلانگ کر ہم آگے نکل جائیں۔ اپنے اس غیرمناسب طرز عمل پر کسی قسم کی شرمندگی کی بجائے سمجھانے والے سے الجھنے لگتے ہیں۔

    آخر ہم کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے دین میں صبر اور برداشت کی کتنی اہمیت اور تاکید کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں حضور اکرم صل اللہ علیہ و سلم کو بار بار ارشاد فرمایا گیا کہ اے نبی آپ لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاتے رہیے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیے۔ اہل ایمان کو مخاطب کر کے فرمایا گیا کہ اللہ تعالٰی سے مدد مانگو صبر اور نماز کے ساتھ۔ بے صبری اور جلد بازی کو دین میں پسند نہیں کیا گیا۔

    دنیاوی لحاظ سے جن لوگوں کو ہم کامیاب سمجھتے ہیں ان کی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی اس مقام پر ایک دن میں نہیں پہنچ گئے ان کے ساتھ بھی صبر اور مسلسل جدوجہد کی ایک داستان ہوتی ہے جو عام لوگوں کو نظر نہیں آتی۔ آخرت میں اللہ تعالٰی نے مومنوں کےساتھ جنت کا وعدہ کیا ہے لیکن وہ بھی صبر کرنے والوں کو ملے گی۔

    یاد رکھیے کامیابی حاصل کرنے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ اس لئے دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہونے کے لئے صبر کے ساتھ سیدھے راستے پر چلنا ہو گا کہ شارٹ کٹ کا انجام بالآخر تباہی و بربادی ہے کامیابی نہیں۔

  • منہ اور دانتوں کی صفائی کی اہمیت – بشارت حمید

    منہ اور دانتوں کی صفائی کی اہمیت – بشارت حمید

    بشارت حمید یہ قول ہم نے بچپن سے سن رکھا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا واقعی ہم اس نصف ایمان کے حامل ہیں۔ گھر اور ماحول کی صفائی کو تو فی الحال چھوڑیں ہم اپنے جسم کی صفائی کا ہی جائزہ لیں کہ ہم خود کو کتنا صاف رکھتے ہیں۔

    آداب مجلس میں ایک یہ بھی ہے کہ انسان سے کسی بھی قسم کی کوئی بدبو نہ آ رہی ہو۔ اور اگر وہ دینی مجلس ہو یا نماز باجماعت تو پھر صفائی کی اہمیت اور دوچند ہو جاتی ہے۔ ہر نماز سے پہلے وضو کرنا صفائی کی اہمیت واضح کرتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ مسواک کرنے کی تاکید جس شدت سے احادیث میں آئی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر میں اپنی امت پر مشقت محسوس نہ کرتا تو ہر نماز سے پہلے مسواک کو فرض قرار دے دیتا۔

    انسان خواہ چند منٹ کے لیے سو جائے یا زیادہ دیر کے لیے، اس کے منہ سے نیند کے دوران ایسے مادے خارج ہوتے ہیں جن کی بو ناخوشگوار ہوتی ہے، اگر نیند سے اٹھ کر مسواک یا برش نہ کیا جائے تو وہ خود تو شاید محسوس نہ کرے لیکن دوسرے انسانوں کے لیے یہ بو ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ اسی طرح کھانے پینے کے بعد اگر دانت صاف نہ کیے جائیں تو بھی بہت بری مہک دوسروں کے لیے تکلیف کا سبب بنی رہتی ہے۔

    ہمارا دین پاک اور صاف رہنے کی بہت تلقین کرتا ہے اور خاص طور پر منہ کی صفائی بہت اہم ہے یہاں تک کہ حدیث میں ارشاد ہے کہ اگر لہسن یا پیاز کھایا ہو تو مسجد میں مت جاؤ کہ ان کی بو ناخوشگوار ہوتی ہے اور دوسرے نمازیوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔

    اب تو میڈیکل سائنس نے بھی منہ کی صفائی کی اہمیت اور زیادہ واضح کر دی ہے۔ اور ڈاکٹر حضرات ہر کھانے کے بعد مسواک یا برش کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اگر ہم یہ کام سنت رسول سمجھ کر کریں تو دہرا فائدہ ہے کہ ثواب بھی ملے گا اور صفائی بھی ہو جائے گی۔

    ہم ویسے تو مہنگے پرفیوم اور دیگر کاسمیٹکس استعمال کرتے ہیں لیکن دانتوں کی صفائی اور ان سے آنے والی بو کو نظر انداز کیے رکھتے ہیں حالانکہ جب بھی انسان بات کرنے کے لیے منہ کھولے گا تو دوسروں کو فوری طور پر ناخوشگوار بو کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور یہ ایسی بات ہے کہ مروت میں بندہ کہہ بھی نہیں سکتا کہ تمہارے منہ سے بدبو آ رہی ہے۔
    مسکراہٹ ہر انسان کی شخصیت کا ایک مثبت پہلو ہے لیکن اگر دانت صاف نہ ہوں اور منہ سے کوئی بھی بری مہک آ رہی ہو تومسکراہٹ بھی اچھی نہیں لگتی۔

    آئیے ہم سب اپنا اپنا جائزہ لیں کہ دین کے احکام کے مطابق صفائی کے معاملے میں ہم کس مقام پر کھڑے ہیں اور اگر اس تحریر کو پڑھنے سے پہلے کبھی یہ احساس نہیں ہوا تھا تو آج ہی سےاس کا خیال رکھنا شروع کریں تاکہ ہمیں کسی بھی وقت شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

  • گھر کے ادارے میں شوہر کی ذمہ داری – بشارت حمید

    گھر کے ادارے میں شوہر کی ذمہ داری – بشارت حمید

    بشارت حمید مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں، دونوں اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے رہیں تو زندگی محبت اور سکون کا گہوارہ بن جاتی ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں اکثر گھروں میں لڑائی جھگڑے اور پریشانی کا ماحول بنا رہتا ہے۔ اگر گھر میں جوائنٹ فیملی سسٹم ہو تو عموماً مرد اور خواتین اپنے قریبی عزیزوں کو اس بگاڑ کا ذمہ دار سمجھتے ہیں جبکہ میرے خیال میں اس کے ذمہ دار وہ خود ہوتے ہیں۔

    سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہم الحمدللہ مسلمان ہیں اور ہمارے دین میں زندگی کے ہر شعبے کے لیے ہدایت موجود ہے۔ جہاں والدین کے حقوق کا ذکر ہے وہیں قریبی رشتہ داروں، بیوی بچوں، دوستوں اور ہمسائیوں کے حقوق کے بارے بھی ہدایت موجود ہے۔

    اللہ تعالٰی نے ہمیں مسلمانوں کے گھر میں پیدا کیا اور ہماری ہدایت اور رہنمائی کے لیے قرآن مجید جیسی عظیم الشان ہدایت حضور سرور کائنات صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذریعے نازل فرمائی۔ اس احسان کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ اس کلام پاک اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ نے ہمارے لیے زندگی گزارنے کا ایک اسٹینڈرڈ مقرر فرما دیا ہے۔

    انسان اگر اس ہدایت کو سامنے رکھتے ہوئے سارے معاملات کو ہینڈل کرتا رہے تو بہت کم امکان ہے کہ اسے کوئی پریشانی لاحق ہو۔ ہم پریشان اس وقت ہوتے ہیں جب ہم اپنے خاندان کے رسوم و رواج اور اپنی ذاتی خواہشات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود ساختہ حقوق دوسروں سے مانگتے ہیں اور اپنا فریضہ ادا کرنا بھول جاتے ہیں۔

    دو مختلف ماحول کے گھروں اور خاندانوں میں زندگی کے ابتدائی بیس بائیس سال گزار کر ایک ہی گھر بلکہ ایک ہی کمرے میں ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کرنے والے میاں اور بیوی کے درمیان مزاج کا، عادات کا اور پسند نا پسند کا اختلاف ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔

    ایک مسلمان شوہر کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور یاد رکھو کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اگر تم اسے زبردستی سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو یہ ٹوٹ جائے گی۔ یعنی کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عورت کی کمی اور کوتاہیوں کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرو نا کہ ان پر کوئی زبردستی اور زیادتی کا ارتکاب کرو۔ جو لڑکی شوہر کے لیے اپنے سارے خاندان، بہن بھائی اور ماں باپ کو چھوڑ کر آتی ہے اسے جیتا جاگتا انسان سمجھنا چاہیے، وہ کوئی کمپیوٹرائزڈ روبوٹ نہیں ہے کہ کسی سوفٹ ویئر کی طرح بلا چون و چرا عمل کرتا رہے۔ اس کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا شوہر کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالٰی نے مرد کو عورت پر ایک درجہ عطا فرمایا ہے اور وہ اس وجہ سے کہ عورت کی کفالت اور نان نفقہ مرد کی ذمہ داری ہے۔ تو مرد حضرات کو اپنے اس درجے کے شایان شان کھلے دل کے ساتھ گھر والوں سے اچھا سلوک کرنا چاہیے۔

    ایک عام غلط فہمی جو مردوں کے ذہن میں ہوتی ہے کہ میں بیوی کے سارے اخراجات اٹھا تو رہا ہوں اور کیا کروں۔ اس بارے میں عرض یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں پیسہ ایک ضرورت تو ہے لیکن پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ جس نے آپ کے لیے اپنا گھر اور خاندان چھوڑا اور آپ کے بچوں کو جنم دیا اور اب ان بچوں کے سارے معاملات بخوشی سنبھال رہی ہے، اسے آپ کی توجہ اور محبت کی بےانتہا ضرورت ہے۔ ایسے پیسے کو کیا کرنا جس کے ساتھ عزت نہ ہو۔ شوہر کو سوچنا چاہیے کہ یہ عورت اللہ تعالٰی نے زندگی کے ایک محدود وقت تک اس کی ذمہ داری میں دی ہے اور قیامت کے روز اس کے بارے میں جواب دینا ہوگا، اب وہ اس کے سہارے پر ہے اور مرد کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس کا ہر طرح خیال رکھے اور اس کے حقوق بخوشی پورے کرے۔

    گھروں میں کچھ نہ کچھ اختلاف رائے ہوتا رہتا ہے اور ہمارے ہاں اکثر مرد حضرات چھوٹی چھوٹی باتوں پر طلاق کی دھمکیاں دے دے کر بےچاری عورت کو ساری زندگی سولی پر ٹانگے رکھتے ہیں اور کئی عقل و شعور سے عاری لوگ طلاق جیسا انتہائی ناپسندیدہ کام کر بھی گزرتے ہیں، پھر جب دماغ آسمان سے نیچے اترتا ہے تو علماء سے راستہ نکالنے کی درخواست کرتے ہیں۔ یہ ہماری دین سے دوری کا نتیجہ ہے کہ ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند نہیں، پھر بھی ہمارا اسلام اتنا مضبوط ہے کہ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

    ایک حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ شیطان اپنے چیلوں کی مجلس بلاتا ہے اور سب سے ان کی کارگزاری کی رپورٹ لیتا ہے۔ ایک چیلا کہتا ہے کہ میں نے ایک بندے کو اکسا کر دوسرے کو قتل کروا دیا تو شیطان کہتا ہے کہ تم نے کوئی بڑا کام نہیں کیا۔ اسی طرح دوسرے چیلے اپنی اپنی رپورٹ پیش کرتے ہیں لیکن شیطان مطمئن نہیں ہوتا۔ پھر ایک کہتا ہے کہ میں نے آج میاں بیوی میں لڑائی کروا دی۔ اس پر شیطان اتنا خوش ہوتا ہے کہ اٹھ کر اسے گلے لگا کر شاباش دیتا ہے کہ تم نے بہت اچھا کام کیا۔

    ہمارا دین خاندان کے ادارے کو مستحکم بنانا چاہتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ گھر میں لڑائی جھگڑے سے بچوں کی زندگی پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارے افعال اللہ اور رسول صل اللہ علیہ و سلم کی پسند کے مطابق ہیں یا پھر شیطان کی پسند کے۔ جو لوگ کسی میاں بیوی کی لڑائی پر خوش ہوتے ہیں وہ بھی سوچیں کہ کہیں ہم شیطان کے چیلے کا کردار تو ادا نہیں کر رہے۔

    اللہ تعالٰی ہمیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرمائے. آمین۔

  • اولاد اور والدین کا مقام – بشارت حمید

    اولاد اور والدین کا مقام – بشارت حمید

    %d8%a8%d8%b4%d8%a7%d8%b1%d8%aa-%d8%ad%d9%85%db%8c%d8%af میرے والد مرحوم سخت طبیعت کے مالک تھے۔ بچپن میں جتنی مار مجھے پڑی، چھوٹے بہن بھائیوں کو اس کا عشر عشیر بھی نہیں ملا۔ سکول دور میں جیب خرچ کے لیے ایک روپیہ ملتا تھا، جب کبھی دوسرا روپیہ مانگنے کی ضرورت پڑتی تو پہلے والے کا حساب پوچھتے کہ اس کا کیا کیا۔ بہت عجیب محسوس ہوتا کہ اتنی سختی مجھ پر ہی کیوں ہوتی ہے۔

    دوران تعلیم میری شادی ہوگئی، پھر بچے بھی ہو گئے، ایک اچھی جاب پر بھی لگ گیا۔ 2009ء میں والد محترم کا انتقال ہوگیا۔ ان کی شخصیت کا رعب میرے دل و دماغ پر ایسا تھا کہ میرے بچوں کے بڑے ہو جانے کے باوجود میری اتنی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ ان کے سامنے کوئی اپنا مطالبہ خود پیش کر سکوں۔ وہ میرے بچوں سے بہت پیار کرتے تھے، اس لیے بچوں کے ذریعے ہی والد صاحب تک مطالبہ پہنچایا جاتا تھا یا پھر ان کے دوستوں سے سفارش کرانی پڑتی تھی۔ پھر بھی ڈر رہتا تھا کہ کہیں وہ غصے نہ ہو جائیں۔

    ساری زندگی کبھی ان کے سامنے اونچا بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ جب وہ غصے میں ہوتے تو خاموشی سے ان کی ڈانٹ ڈپٹ سن لیتا تھا۔ کچھ دیر بعد معاملہ ٹھنڈا ہو جاتا تھا۔ البتہ یہ بات دل پر بہت بھاری ہوتی تھی کہ وہ ہر وقت مجھ سے غصے میں ہی کیوں پیش آتے ہیں۔ سوائے اپنی زندگی کے آخری ایام کے، کبھی انہوں نے مجھ سے اپنی محبت کا زبانی اظہار نہیں کیا تھا حالانکہ وہ مجھ سے محبت بھی بہت کرتے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان کے آخری ایام میں ان کی خدمت کرنے اور دعائیں سمیٹنے کا موقع میسر رہا۔

    اب جب ان کو ہم سے جدا ہوئے سات سال ہو گئے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سر سے چھت اترے ہوئے ایک عرصہ بیت گیا ہے۔ اب نہ کوئی جھڑکنے والا ہے اور نہ کوئی ان کی طرح ہمارے لیے دعائیں کرنے والا۔ اب احساس ہوتا ہے کہ وہ جو بھی سختی کرتے تھے میری بہتری کے لیے ہی کرتے تھے۔

    آج کل ہمارے معاشرے میں والدین کی ڈانٹ ڈپٹ کو اولاد اپنی توہین سمجھتی ہے حالانکہ وہ اولاد کی تربیت کے لیے ہی ہوتی ہے۔ والدین ان سارے مراحل سے گزر کر ایک تجربہ حاصل کر چکے ہوتے ہیں جس مرحلے سے اولاد گزر رہی ہوتی ہے۔ اپنی اولاد کا بے لوث خیر خواہ والدین سے بڑھ کر دنیا میں کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ والدین ہی دنیا میں ایسی ہستی ہیں جو اپنی اولاد کی ترقی پر خوش ہوتے ہیں۔ ماں باپ نے اپنی زندگی میں تکلیفیں اٹھا کر اور اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر بچوں کو پالا ہوتا ہے لیکن اس کا احساس بچے کوتب ہوتا ہے جب وہ خود اس سٹیج پر جا پہنچتا ہے اور وہ خود بچوں والا بن جاتا ہے مگر تب تک اکثر دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ پھر نہ کوئی ڈانٹنے والا ہوتا ہے اور نہ کوئی بلا وجہ دعائیں دینے والا۔

    میری سب سے درخواست ہے کہ جن کے والدین حیات ہیں وہ اس نعمت کی قدر پہچانیں ورنہ بعد میں سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ جن کے والدین وفات پا چکے ہیں اللہ تعالٰی انکی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے۔ آمین