Author: سجاد حیدر

  • موت کے ہرکارے – سجاد حیدر

    موت کے ہرکارے – سجاد حیدر

    سجاد حیدر باپ دل کا مریض تھا، بغرض علاج فیصل آباد کارڈیالوجی میں داخل تھا. عید نزدیک آئی تو ماں نے کہا کہ بڑی بہن کو جا کر عید دے آؤ، چھوٹی بہن نے ضد کر دی کہ مجھے بھی لے جاؤ بہن سے ملوانے … بہنیں سہیلیاں بھی تو ہوتی ہیں ناں، اس نے چھوٹی بہن کو موٹر سائیکل پر بٹھایا اور اپنےگاؤں جو مین روڈ پر واقع تھا، سے بیس کلومیٹر دور دوسرے گاؤں، جہاں بہن بیاہی تھی، روانہ ہوگیا. عید دے کر دونوں بہن بھائی واپس آ رہے تھے کہ تیز رفتار بس کی ٹکر لگی، بھائی موقع پر دم توڑ گیا، اور بہن ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لا کر گزر گئی. ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی، ماموں اور نانی ان بچوں کے قلوں میں شرکت کے لیے موٹر سائیکل پر آ رہے تھے کہ تقدیر نے پھر ہاتھ دکھایا، اب کی بار بہانہ آئل ٹینکر بنا، ماموں موقع پر ختم ہوگیا اور نانی معذور ہو گئی. یہ صرف ایک واقعہ ہے مگر پنجاب بلکہ پورے پاکستان کے طول و عرض میں ہر جگہ ہر روز یہی کہانی دہرائی جاتی ہے. قصور کس کا ہے. مرنے والوں کا جو موٹر سائیکل کو ہر جگہ آنے جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، بس ڈرائیوروں کا جو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ فاصلہ طے کرنے کے چکر میں بے تحاشا رفتار سے گاڑیاں چلاتے ہیں، ٹرانسپورٹ مالکان کا جنہوں نے لمبے روٹ کی سواری کو ہی اپنا ٹارگٹ بنایا ہوا ہے، اور مضافات اور کم فاصلے کی سواری کے لیے کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ موٹر سائیکل یا چنگ چی رکشہ کو استعمال کریں. حکام بالا جو اپنے ٹھنڈے گرم کمروں میں بیٹھ کر صرف مراعات حاصل کرتے ہیں، انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے.

    اگر دیکھا جائے تو یہ تمام عوامل اپنی اپنی جگہ کارفرما ہیں. ایک وقت تھا کہ ٹرانسپورٹ کمپنی کی بسیں چلتی تھیں، اور ایک مناسب وقفہ کے بعد ایک ایسی بس نکلتی تھی جو مضافات اور چھوٹے دورانیے کے سفر کرنے والے مسافروں کے لیے ہوتی تھی. زیادہ لمبے عرصے کی بات نہیں، جب جھنگ سے ملتان کے روٹ پر اپنے گاؤں کے لیے بس، کا ملنا مشکل ہوتاتھا لیکن ناممکن نہیں، کیونکہ ہرگھنٹے دو گھنٹے کے بعد ایک بس نکلتی تھی جو شٹل کہلاتی تھی، اب پتہ نہیں اس کا خلائی شٹل سے کوئی تعلق تھا یا نہیں لیکن ہمیں آخری سیٹ جو ستاں آلی سیٹ کہلاتی تھی کہ اس پر سات سواریاں بیٹھنے کی گنجائش بنا دی گئی تھی. اور اگر وہ بھر جاتی تو پھر کھڑے ہو کر سفر کرنا ہمارا مقدر تھا. ہمارے ایک انکل کے بقول آپ پیچھے بےشک جہاز پر بیٹھ کر آئیں لیکن آخر میں شٹل کی ستاں والی سیٹ پر ہی بیٹھنا پڑتا تھا. جب کبھی ملتان جانا ہوتا تو سب سے بڑی عیاشی اور لگژری آگے والی سیٹوں پر بیٹھنا تھا کہ عام حالات میں وہ ہمارے لیے شجر ممنوعہ تھیں. اور اگر کبھی شومی قسمت یا گاڑی خالی ہونے کی صورت میں اگلی سیٹیں مل بھی جاتیں تو راستے میں توڑ کی سواری ملنے کی صورت میں جس عزت افزائی سے ہم وہ سیٹ خالی کرتے تھے، وہ کچھ ہم جانتے ہیں یا جس نے اسے بھگتا ہے. یعنی پروٹوکول میں ہمارا نمبر سب سے آخری تھا.

    پھر یوں ہوا کہ ہائی ایس ویگنوں کا رواج آ گیا، اب وہ گاڑی جو ڈرائیور سمیت صرف 15 افراد کے لیے بنائی گئی تھی، اسے کانٹ چھانٹ کر 24 افراد کے لیے تیار کر دیا گیا. عورت مرد کی تخصیص کیے بغیر بھیڑ بکریوں کی طرح سواریاں ٹھونسنے کا عمل شروع ہو گیا، پردہ دار خواتین مجبور تھیں کہ مردوں کی ٹانگوں میں ٹانگیں گھسا کر بیٹھیں، مرد اپنی جگہ سکڑے سمٹے شرمندہ ہو رہے ہیں اور خواتین الگ خوار ہو رہی ہیں. اگرچہ ان کی رفتار بہتر تھی لیکن یہی رفتار ہی ان کی سب سے بڑی خامی بھی تھی کہ حادثے کی صورت میں کسی فرد کا بچنا معجزہ سمجھا جاتا تھا. پھر دور بدلا اور نئی نحوست چنگ چی رکشہ آ گیا. یہ ایسی بے ہودہ سواری ہے جو بریک سے بےنیاز ہے کیونکہ یہ موٹر سائیکل کو کانٹ چھانٹ کر بنایا گیا ہے. موٹر سائیکل میں جو بریک ہوتی ہے وہ زیادہ سے زیادہ دو افراد اور موٹر سائیکل کے مومینٹم کو روکنے کے لیے بنائی گئی ہے. اب اس گاڑی پر جب آٹھ افراد سوار ہوں گے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اتنے زیادہ مومینٹم کو روکنے کے لیے بچاری بریک کتنی لاچار و لاغر ہے. آئے دن سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی اور بہت سی وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ ہر جگہ اور ہر وقت ان رکشوں کی رسائی اور استعمال ہے. آپ شہر کے اند یا باہر، دیہاتوں میں کہیں بھی چلے جائیں، آپ کو دس بارہ سال کی عمر کے بچے یہ رکشے چلاتے نظر آئیں گے. یہ بچے ہر جگہ اپنی اور لوگوں کی جان سے کھیلتے نظر آتے ہیں، نہ کسی قانون کی پرواہ، نہ کسی ظابطے کا خیال، نہ کوئی لائسنس چاہیے اور نہ تربیت کی ضرورت.. بس سواری ملے نہ ملے، سپیڈ 190. ایک طوفان بدتمیزی ہے جو ہر جگہ برپا ہے. آپ اس میں بیٹھ جائیں، مجال ہے کہ ایک لمحہ بھی سکون میسر آجائے. ہر وقت یہی دھڑکا کہ اب ٹکر ہوئی کہ اب. ایک دماغ کو دہی بنانے والا شور ہے اور بے تحاشا رفتار. لیکن کیا کیا جائے، عوام کے پاس اور کوئی چارہ ہی نہیں، سستی اور ہر جگہ میسر آنے والا یہی ذریعہ آمد و رفت ہے، جو ملک کی 80 فی صد عوام کا مقدر ہے. ان رکشاؤں کے کم عمر ڈرائیوروں کو دیکھ کر چائلڈ لیبر کی جگہ چائلڈ کلر کا لفظ مناسب لگتا ہے، چائلڈ لیبر کا یہ پہلو کتنا خوفناک ہےکہ ایک غیر تربیت یافتہ اور انتہائی کم عمر بچے کے ہاتھ میں کئی انسانوں کی جان دے دی گئی ہے. جو موت کے ہرکارے بن کر نہ صرف اپنے رکشاً میں بیٹھنے والی سواریوں بلکہ سڑک پر چلنے والی ٹریفک کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہیں. حکومتوں کے اقدامات بھی نمائشی سے زیادہ نہیں کہ جب یہ برائی پنپ رہی تھی، اس وقت سب ادارے بےحسی کی نیند سو رہے تھے اور اب ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ کوئی بھی اقدام جو ان رکشاؤں کے خلاف اٹھایا جائے گا، وہ ایجی ٹیشن اور بدامنی پر ختم ہوگا. کراچی میں کریک ڈاؤن ناکام ہو چکا ہے کیونکہ اس طرح کا کوئی بھی کام بہت جلد مافیاز کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے. دوسری طرف متبادل میسر نہ ہونے کی وجہ سے عام آدمی مجبور ہے کہ انہی چلتے پھرتے عفریتوں پر سواری کریں.

    دیہات اور چھوٹے شہروں میں رہنے والے مجبور ہیں کہ انھی رکشوں اور موٹر بائیکس کو استعمال کریں کیونکہ لمبے سفر پر چلنے والی آرام دہ اور ایئر کنڈیشن بسوں میں ان کی کوئی جگہ نہیں. چھوٹے روٹ پر چلنے والی بسوں کی شدید قلت اور تیز رفتار زندگی سب مل کر اسے مجبور کرتے ہیں کہ وہ انھی غیر میعاری اور خطرناک ذرائع کو استعمال کریں. مجھے خود الیکشن کے دن کوئی اور ذریعہ میسر نہ آنے کی صورت میں چنگ چی پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا. کیا آپ یقین کریں گے کہ رکشہ پر ڈرائیور سمیت 9 افراد سوار تھے اور ساتھ بونس میں ایک بکرا بھی سواریوں میں شامل تھا .. وہ آدھا گھنٹہ صدیوں پر محیط ہو گیا.

    ہمارے حکمرانوں نے شاید اسے بالواسطہ طور پر خاندانی منصوبہ بندی کا ایک طریقہ سمجھ لیا ہے کہ نہ مولویوں کی مخالفت کا سامنا کرے پڑے گا اور نہ کوئی الزام آئے گا. لیکن ایسا ہمیشہ چلنے والا نہیں. عوام میں بھی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ تھوڑا سا وقت بچانے کی خاطر اس طرح اپنی اور دوسروں کی زندگی داؤ پر لگانا کوئی عقل مندی کا کام نہیں، اپنے بچوں کو یتیم بنانے اور خواتین کو بے سہارا کرنے کے بجائے اگر انتظار کر لیا جائے تو بھی گزارا ہو سکتا ہے. حکمرانوں سے بھی گزارش ہے کہ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کو بیدار کر کے اور حکام کو گرم کمروں سے نکال کر چھوٹے روٹ پر چلنے والے مسافروں کی فلاح و بہبود کے لیے ٹرانسپوٹرز حضرات کے ساتھ مل کر کوئی لائحہ عمل طے کا جائے. لائسنس یافتہ شخص ہی سڑک پرگاڑی یا موٹر سائیکل لے کر آ سکے، ایک کریک ڈاؤن کیا جائے کہ بغیر لائسنس کوئی شخص گاڑی، رکشہ یا موٹر سائیکل ڈرائیو نہ کر سکے. لائسنس کے حصول کے طیقہ کار کو آسان بنایا جائے. اس وقت حالت یہ ہے کہ جو شخص پچھلے تیس سال سےگاڑی چلا رہا ہے، وہ بھی ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ٹیسٹ صرف ٹریفک پولیس کے لیے اضافی آمدنی کا ایک ذریعہ ہے نہ کہ مہارت چیک کرنے کا ٹیسٹ. والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کو اپنے اور دوسروں کے لیے باعث آزار نہ بنائیں اور ان کی تربیت کی طرف توجہ دیں. اس ضمن میں ڈرائیونگ سکولوں کی فیسوں کو مانیٹر کرنے اور انسٹرکٹرز کی تربیت کا اہتمان بھی حکومت اور سماجی اداروں کی ذمہ داری ہے.

    خدارا اس طرف توجہ کیجیے کہ دنیا بھر میں ٹریفک کے بہاؤ کو کم کرنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ، قابل رسائی اور سستا کیا جاتا ہے تاکہ لوگ پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کا استعمال کم سے کم کریں. اس سے نہ صرف سڑکیں محفوظ ہوتی ہیں بلکہ ایندھن کے استعمال کو کم سے کم کر کے قیمتی زرمبادلہ بھی بچایا جاتا ہے، لیکن اپنے وطن عزیز میں الٹی گنگا بہ رہی ہے، اور کوئی پرسان حال نہیں ہے.

  • قبلائی خان – سجاد حیدر

    قبلائی خان – سجاد حیدر

    سجاد حیدر بوڑھا خان بستر مرگ پر تھا. اردگرد بیٹوں, پوتوں، حکومتی زعماء اور مذہبی رہنماؤں کا گھیرا تھا. بوڑھا شامان خان کے سرہانے کھڑا منہ ہی منہ میں بدبدا رہا تھا اور آسمانی روحوں سے خان کی سلامتی مانگ رہا تھا. سب لوگ اس فکر میں غلطاں تھے کہ بوڑھے خاقان کے مرنے کے بعد اس عظیم سلطنت کا کیا بنے گا جس کی بنیاد خاقان اعظم نے صحرائے گوبی کے وحشی اور خونخوار قبائل کو متحد کر کے رکھی تھی. یہ سلطنت اب ایک طرف چین تو دوسری طرف یورپ تک پھیل چکی تھی. کیا ایران اور کیا ہندوستان سب جگہیں منگولوں کے گھوڑوں کے سموں تلے پامال ہو چکی تھیں. معلوم دنیا کا غالب حصہ اس عظیم فاتح کے زیر نگیں آ چکا تھا، اور اگر چند سال مزید مہلت مل جاتی تو باقی دنیا بھی تاتاری سلطنت کا حصہ ہوتی. کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ خاقان مر بھی سکتا ہے، یقین تو خود خاقان کو بھی نہیں آ رہا تھا، ساری زندگی دوسروں کی زندگیوں کا فیصلہ کرنے والے نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن موت اس کے خیمے میں بھی داخل ہو سکے گی. خان کی نظریں خیمے میں موجود تمام افراد کا فردا فردا جائزہ لے رہی تھی. خاقان اعظم کے چاروں بیٹے، گیارہ پوتے، داماد، سرداران سلطنت، شاہان سب خیمے میں دم بخود کھڑے تھے. اچانک خاقان کی نظریں ایک گیارہ سالہ لڑکے پر جم گئیں، شامان خاقان کی نظروں کا اشارہ سمجھ گیا اور لڑکے کو قریب بلایا. خاقان نے انگلی کے اشارے سے بچے کی طرف اشارہ کر کے کہا، میرا یہ پوتا مجھ سے بڑی سلطنت کا مالک ہوگا اور میرے سے زیادہ لمبی عمر پائے گا.

    پیش گوئی کرنے والا خاقان اعظم چنگیز خان تھا اور جس بچے کے بارے میں یہ الفاظ کہے گئے اسے تاریخ قبلائی خان کے نام سے جانتی ہے. چنگیز خان جب پیدا ہونے کے بعد اپنے باپ یوساکائی کی گود میں آیا تو باپ نے دیکھا کہ بچے کی ایک مٹھی بند ہے اور دوسری کھلی، بند مٹھی کو جب کھولا گیا تو اس میں گوشت کا ایک ٹکڑا سرخ پتھر کی مانند موجود تھا، بچہ اپنے ساتھ ماں کے جسم کا ایک ٹکڑا بھی نوچ لایا تھا. یوساکائی جھیل بیکال کے کنارے بسنے والے ایک چھوٹے سے منگول قبیلہ کا سردار تھا اور صحرائےگوبی میں آوارہ گردی کرتے وحشی اور خونخوار قبائل کے ساتھ جھڑپیں روزانہ کا معمول تھا. باپ نے بیٹے کی فطرت کا اندازہ لگاتے ہوئے اس کا نام تموچن رکھا. یہی تموچن باپ کے مرنے بعد صحرائے گوبی کے منگولین قبائل کو جمع کر کے ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوا اور 1206 عیسوی میں اپنی سلطنت کے تمام قابل ذکر سرداروں کو جمع کر ان کے سامنے چنگیز خان کا لقب اختیار کیا. چنگیز خان کے چار بیٹے جوجی خان، چغتائی خان، تولی خان، اوگدائی خان اور پانچ بیٹیاں اس کی سب سے پیاری اور پہلی بیوی بورتے خاتون کے بطن سے تھیں. شادی کے کچھ ہی عرصے بعد بورتے خاتون کو ایک مخالف قبیلے کے سردار نے اغوا کر لیا تب تک تموچن ابھی چنگیز خان نہیں بنا تھا. تموچن ایک لمبے عرصے اور کئی خونخوار معرکوں کے بعد بورتے خاتون کو واپس لانے میں کامیاب ہو گیا لیکن تب تک بورتے خاتون حاملہ ہو چکی تھی. اس حادثے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کو بورتے خاتون کی محبت میں چنگیز خان نے تو قبول کر لیا لیکن دوسرے منگولوں نے اسے قبول نہیں کیا اور جوجی یعنی باہر والا کے نام سے پکارتے رہے. اور یہی اس کا نام پڑ گیا. جوجی خان یعنی باہر والا.

    چنگیز خان خان کی فطرت کا یہ ایک عجیب پہلو ہے، ایسا وحشی کہ جب ہرات کو فتح کیا تو اپنے گورنر کی موت کا بدلہ لینے کے لیے 1600000 افراد کا ایک ہفتہ میں قتل کروا دیا اور دوسری طرف اپنی بیوی کی محبت میں اپنے دشمن کے خون کو بھی گلے سے لگا کر رکھا اور اپنا نام اور مرتبہ بھی عطا کیا. چنگیز خان کے مرنے کے بعد چغتائی خان نے حکومت سنبھالی، کچھ ہی عرصے بعد چغتائی خان کے مرنے کے بعد تولی خان کا بڑا بیٹا منگو خان اس سلطنت کا وارث بنا. منگولوں نے لڑ کر اتنی فتح حاصل نہیں کی، جتنا خوف پھیلا کر حاصل کی. بہت سے شہر منگولوں کا نام سنتے ہی ہتھیار ڈال دیا کرتے تھے. یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ منگول میدان جنگ میں جتنے خونخوار اور وحشی تھے، معاملات حکومت میں اتنے ہی عقل مند اور وسیع الظرف تھے. بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو لوگ چنگیز خان اور اس کے لشکریوں کی تلوار سے بچ گئے. وہ کئی جہتوں سے خوش نصیب کہلائے. منگول سلطنت میں جو امن اور خوشحالی تھی. وہ اس سے پہلے عوام کو کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی. منگول سلطنت میں مکمل مذہبی آزادی تھی. منگولوں نے نہ تو کسی کو اپنا قدیم مذہب اختیار کرنے کے لیے کہا بلکہ ہر شخص کو مکمل آزادی تھی کہ اپنے مذہب کی عبادت گاہ تعمیر کرے اور مکمل آزادی سے اپنے مذہب پر عمل پیرا ہو. یہ بات اس دور کے لحاظ سے ایک عجیب بات تھی. ایشیا کے تمام راستے مکمل طور پر محفوظ اور خطرات سے پاک تھے. جن پر تجارتی قافلے بلا خوف و خطر سفر کر سکتے تھے. چنگیز خان کی سلطنت بحر اسود سے لے کر بحرالکاہل تک پھیلی ہوئی تھی اور جنوب میں ہمالیہ تک کا علاقہ اس کے زیر نگیں تھا.

    قبلائی خانچنگیز خان کی وفات کے تیس سال بعد اس کی پیش گوئی پوری ہوئی اور منگو خان کے بعد قبلائی خان اس وسیع سلطنت کا حکمران بنا. اس سے پہلے منگو خان کے دور میں سقوط بغداد کا سانحہ ہوا، آخری عباسی خلیفہ قتل ہوا اور ایک اندازے کے مطابق 800000 افراد لقمہ اجل بنے. پورا چین فتح ہو، کچھ تواریخ کے مطابق تقریبا پونے دو کروڑ چینی مارے گئے. 1259 عیسوی میں ہو چو کے مقام پر ایک جنگ میں منگو خان مارا گیا اور قبلائی خان خاقان اعظم مقرر ہوا. مختلف تہذیبوں کے اختلاط اور علوم و فنون کے نابغہ روزگار افراد کے منگول سلطنت میں جمع ہونے کی وجہ سے منگول بھی اپنی فطرت بدلنے پر مجبور ہوگئے تھے. یہ اثر قبلائی خان نے بھی قبول کیا تھا. حکومت کرنے بارے اس کے نظریات اپنے دادا اور چچا سے مختلف تھے وہ منگولوں کی اس شہرت کو ناپسند کرتا تھا جس کا مطلب صرف خون بہانا اور بستیوں کو اجاڑنا تھا.

    اپنے بھائی کے دور حکومت میں معاملات کو حل کرنے کے لیے وہ خون بہانے کے بجائے سفارتی ذرائع اختیار کرنا پسند کرتا تھا. یہی وجہ تھی کہ وہ کبھی بھی منگو خان کے پسندیدہ افراد کی فہرست میں جگہ نہ پا سکا. اکثر اوقات اسے منگو خان کی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن جب وہ خود خاقان بنا تو اسے اپنے طریقے سے حکومت کرنے کا پورا موقع ملا اور اپنی امن پسند طبیعت کی بنا پر جلد ہی وہ وسیع منگول سلطنت میں مقبولیت حاصل کر گیا. اس کی شہرت اپنے دادا چچا اور بھائی سے بالکل مختلف تھی. قبلائی خان کے طویل دور حکومت نے منگولوں کی وسیع سلطنت کو ایک پرامن اور مضبوط معیشت والے ایسے ملک میں بدل دیا، جس کے ساتھ کاروبار کرنے کے لیے ہزاروں میل کا دشوار گزار سفر کر کے تجار اور کاروباری حضرات چین میں آتے اور چین کے اشیاء سے بھرے بازار، مال تجارت کو ذخیرہ کرنے کے لیے تعمیر وسیع و عریض گوداموں اور دنیا کی مختلف اقوام کے لوگوں کو گلیوں میں چلتے پھرتے دیکھ کر ورطہ حیرت میں پڑ جاتے. قبلائی خان کے دور میں منگول سلطنت, جسکا مرکز منگولیا سے چین میں منتقل ہو چکا تھا, کو جو عظمت, امن اور استحکام نصیب ہوا. چین نے اس کا تجربہ پہلے نہیں کیا تھا. اس دور میں چین کے اندر یہ ایک معجزے سے کم نہیں تھا.

    مغرب سے آنے والے تاجروں کے لیے بھی یہ ایک انوکھا تجربہ تھا. یہاں سے سونا، چاندی اور ریشمی کپڑا خریدنے کے لیے ایشیا کے دوردراز.علاقوں سے تجارتی قافلے چین کا رخ کرتے. مال تجارت سے بھرے گودام نہروں اور دریاؤں کے کنارے واقع تھے تاکہ سامان کی ترسیل میں آسانی ہو. نہروں اور دریاؤں کو مضبوط پلوں کے ذریعے ملایا گیا تھا. سونے اور چاندی کی تاروں سے آراستہ لباس تیار کرنے والے کارخانے تھے. مال تجارت میں ایک بڑا حصہ ریشمی کپڑے کا تھا جو چین کا خاصا سمجھا جاتا تھا. تاجر دوردراز سے یہی کپڑا خریدنے چین کا رخ کرتے. 1340 عیسوی میں تاجروں کی رہنمائی کے لیے اٹلی سے شائع شدہ ایک کتاب کے مطابق چین جانے والے راستے انتہائی محفوظ اور پرامن ہیں جہاں دن رات کے کسی بھی حصہ میں بلا خوف و خطر سفر کیا جا سکتا ہے. اس بات کا یورپ میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا. جس وقت یورپ لٹیروں اور ڈاکوؤں کی آماجگاہ تھی، اس وقت ایشیا تجارت کے لیے ایک پر امن جگہ سمجھی جاتی تھی. پیرس میں آج بھی قبلائی خان کی مہر کےساتھ وہ خطوط محفوظ ہیں جو تبریز سے فرانس بھیجے گئے تھے. قبلائی خان یورپی اقوام کے فہم و تدبر کا بہت قائل تھا. وہ چاہتا تھا کہ یورپین آ کر ملکی انتظام و انصرام کا حصہ بنیں. وجہ یہ تھی کہ منگول ان صلاحیتوں سے بہرہ مند نہیں تھے جو ایک وسیع و عریض اور جدید سلطنت کے انتظامات کے لیے ضروری تھیں. چینی لوگوں پر اعتماد کرنے کے لیے وہ تیار نہیں تھا کہ کہیں وہ اس کی سلطنت کو عدم استحکام سے دوچار نہ کر دیں. یہی وجہ تھی کہ وہ ساری دنیا سے جوہر قابل کو اپنے دربار میں دیکھنا چاہتا تھا. اور اس مقصد کے لیے ہر قسم کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا تھا. پیکنگ میں قبلائی خان کے دربار میں دنیا کے ہر ملک کا سفیر حاضر ہوتا تھا. وہ علم اور عالموں کا قدردان تھا. قبلائی خان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ وہ منگولوں کو جدید علوم سیکھنے کی طرف مائل کر سکے. صحرائی علاقوں کے رہنے والوں کی فطرت کے مطابق منگول خود بھی جفاکش اور بہت جلد سیکھنے والے لوگ تھے.

    قبلائی خان کا محل بیک وقت ایک ہزار سواروں کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتا تھا. اس محل کے گردا گرد ایک دیوار تھی جس کا محیط 16 میل یا 25 کلومیٹر تھا. اس محل کے مین ہال میں سولہ ہزار کرسیوں کی گنجائش تھی. یہ ہال سونے چاندی اور قیمتی کپڑے سے مزین کرسیوں سے سجا تھا. قبلائی خان کی ذاتی رہائش گاہ کے گرداگرد دنیا کے نایاب اور خوبصورت پیڑ، پودوں سے سجے باغات تھے جن کے پھولوں کے منفرد رنگوں اور خوشبوؤں پر جنت کا گماں ہوتا تھا. جب قبلائی خان کھانا کھاتا تھا تو اس کی خدمت پر معمور خادمائیں اپنے منہ کو ریشمی رومال سے ڈھانپ کر رکھتی تھیں کہ کہیں ان کی سانسیں خاقان کے کھانوں کو متاثر نہ کر دیں. خاقان کی موجودگی میں کسی کو بھی بولنے کی اجازت نہ تھی، خواہ وہ کتنے بڑے عہدے کا مالک ہی کیوں نہ ہو. دربار شاہی سے آدھے میل تک کسی بھی قسم کے شور و غل کی اجازت نہ تھی. اس کے دربار میں حاضر ہونے والے ہر شخص کو سفید چمڑے سے بنے جوتے پہننے پڑتے تھے تاکہ سونے اور چاندی کی تاروں سے مزین قیمتی قالین خراب نہ ہوں. ہر شخص اہنے ہاتھ میں ایک اگالدان رکھتا تھا کہ کہیں غلطی سے بھی تھوک قالینوں کو گندہ نہ کر دے. مارکو پولو کے مطابق خاقان اعظم کی چار بیویاں تھیں لیکن یہ قانونی تھیں. ان کے علاوہ وسیع تعداد میں باندیاں اور لونڈیاں بھی موجود تھیں، جن کے دم قدم سے حرم شاہی آباد تھا. ان باندیوں کا انتخاب ایک قدیم منگول روایت کے تحت کیا جاتا تھا. ہر دو سال بعد خاقان کے آدمی تاتاری صوبے انگوت جاتے تھے جہاں کی عورتیں اپنی رنگت اور خوبصورتی میں یکتا تھیں. وہاں سے بڑی چھان پھٹک کے بعد سیکڑوں خواتین کا چناؤ کیا جاتا تھا. ان کی خوبصورتی کو قیمتی پتھروں کی طرح قیراط میں ماپا جاتا تھا. ہر پہلو سے دیکھ بھال کر انکو رنگت، چہرے کے نقوش، خدوخال، چال ڈھال اور جسمانی نشیب و فراز کے حساب سے نمبر دیے جاتے تھے. جو لڑکی بیس یا اکیس قیراط کی حد کو چھو لیتی تو اسے دارالحکومت میں لایا جاتا. اگلے مرحلے میں ان لڑکیوں کو کسی امیر یا درباری کی بیوی کے حوالے کیا جاتا جو اس لڑکی کی مزید چھان پھٹک کرتی کہ کہیں وہ کسی اندرونی خرابی کا شکار تو نہیں، یہ عورت اس لڑکی کو اپنے ساتھ سلاتی کہ کہیں لڑکی خراٹے تو نہیں لیتی، رات کے مختلف اوقات میں اس کی سانس کی بو کا معائنہ کیا جاتا، دیکھا جاتا کہ کہیں وہ زیادہ کروٹیں تو نہیں بدلتی، یا اس کے جسم سے ناگوار بو تو نہیں آتی. ان تمام مراحل کے بعد کامیاب لڑکیوں کو اس قابل سمجھا جاتا تھا کہ وہ بادشاہ کی خدمت میں حاضری دینے کے قابل ہیں اور ہر طرح سے بادشاہ کی خدمت کر سکتی ہیں. پانچ لڑکیوں کی ایک ٹولی تین دن اور تین راتیں خاقان کی خدمت میں گزارتیں، اس کے بعد نئی ٹولی اس خدمت پر معمور ہو جاتی. قبلائی خان کے پورے دور حکومت میں منتخب دوشیزاؤں کی فوج ظفر موج اس انتظار میں رہتی کہ کب ان کی باری آئے اور انہیں خاقان کی خدمت کا موقع مل سکے. خاقان کے بیٹے بیٹیوں کی تعداد 47 بتائی جاتی ہے. اکثر جنگوں میں افواج کی قیادت اس کے اپنے بیٹے کرتے.

    1265ء میں جب اطالوی تاجر نکولو پولو اور میفیو پولو قبلائی خان کے دربار میں حاضر ہوئے تو وہ اس دربار میں پہنچنے والے پہلے یورپین تھے. چونکہ وہ تاتاری زبان سیکھ چکے تھے لہذا فورا ہی قبلائی خان کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے. ان کے پاس خان کو بیچنے کے لیے کچھ نہیں تھا سوائے مذہب کے. تو دونوں بھائیوں کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح خان کو عیسائیت کی طرف مائل کر سکیں. قبلائی خان کو یسوع مسیح کی کہانی میں بڑی دلچسپی تھی لیکن وہ آخر تک یہ نہ سمجھ سکا کہ آخر یسوع انتہائی کسمپرسی کی حالت میں صلیب پر کیوں لٹک گیا. ہاں پوپ کی مجرد زندگی کے ذکر نے اسے بہت متاثر کیا کہ اتنی طاقت اور دولت کا مالک ہونے کے باوجود تجرد کی زندگی گزارتا ہے جس کا خان تصور بھی نہیں کر سکتا تھا. قبلائی خان نے دونوں بھائیوں کو واپس بھیجا کہ کہ پوپ سے درخواست کی جائے اور کم از کم سو آدمی بھیجے جائیں جو منگولوں کو مختلف علوم سکھا سکیں. جب پولوز واپس آئے تو ان کے ساتھ نکولو پولو کے چھوٹے بیٹے مارکو پولو کے علاوہ کوئی نہیں تھا. پوپ کے بھیجے باقی آدمی ابتدائے سفر میں ہی راستے کی صعوبتوں سے گھبرا کر واپس چلے گئے تھے. پولوز اگرچہ قبلائی خان کو عیسائی تو نہ بنا سکے لیکن عیسائی تاجروں کے لیے بہت سی مراعات حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوئے. عیسائی دنیا کی بزدلی سے مایوس ہو کر قبلائی خان تبت کے مذہب بدھ مت کی طرف مائل ہو گیا اور تبت کا قدیم مذہب کو اختیار کر لیا. قبلائی خان نے اپنی سلطنت کو وسیع کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کچھ خاص کامیابی حاصل نہ کر سکا. جاپان کو فتح کرنے کی دو کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں، اسی طرح کوچین چین یعنی ویت نام کو فتح کرنے کی کوشش بھی ناکام ہوئی. البتہ برما میں منگولوں کا یاک کی نو دموں والا جھنڈا لہرانے میں ضرور کامیاب ہوا اور برما اس کی سلطنت کا حصہ بن گیا. 1294ء میں بیاسی سال کی عمر میں یہ عظیم خاقان اپنی زندگی کی جنگ ہار گیا. اس کی تمام بیویوں کو زندہ اس کے ساتھ دفن کر دیا گیا. اور کئی خدمتگاروں کو بھی ساتھ ہی دفنا دیا گیا کہ جاؤ اور دوسری دنیا میں اپنے ولی نعمت کی خدمت کرو. قبلائی خان نے مشرق اور مغرب کو اس وقت اکٹھا کرنے کی کوشش کی جب وہ ایک دوسرے کے وجود سے بھی بے خبر تھے. قبلائی خان کے بعد اس کی عظیم سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور جہالت کے اندھیروں نے ایک بار پھر ایشیاء کو اپنی لپیٹ میں لے لیا.

  • شہنشاہ ہند – سجاد حیدر

    شہنشاہ ہند – سجاد حیدر

    سجاد حیدر بچہ سخت بیمار تھا. ماں باپ سے بچے کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی. باپ اپنی استطاعت کے مطابق تمام طبیبوں اور حکیموں کا دروازہ کھٹکھٹا چکا تھا مگر بچے کو کہیں سے افاقہ نہیں ہو رہا تھا. ایسے میں کسی عزیز نے والد کو ایک بزرگ کا پتہ بتایا، والد جھجھکا کہ جہاں سارے طبیب اور حکیم ناکام ہو چکے، وہاں ایک گڈری پوش کیا کر سکتا ہے. مگر بیٹے کی تکلیف سے بے چین ہوا تو بلاارادہ اس بزرگ کی خانقاہ کی طرف جا نکلا، جب اپنے آپ کو خانقاہ کے دروازے پر پایا تو چونکا، پلٹنا چاہا مگر بیٹے کی تکلیف یاد آئی تو قدم خود بخود بزرگ کی خدمت میں لے گئے. حجرہ میں بزرگ اپنے معمول کی عبادت میں مصروف تھے. خادم خاص کے توسط سے اذن باریابی پایا تو عرض مدعا کیا. بزرگ نے مراقبہ سے سر اٹھایا اور کہا جاؤ میاں اپنے گھر جاؤ اور اللہ تعالی کے حضور سجدہ کرو، وہی شفا دینے والا ہے. بچے کے والد کو کچھ خاص تعداد میں نوافل ادا کرنے کی تلقین کر کے رخصت کر دیا. ادھر وہ شخص گھر کی طرف روانہ ہوا ادھر روشن ضمیر بزرگ نے نیت باندھی اور گڑگڑا کر دعا مانگنی شروع کی، خداوند قادر مطلق نے اپنے ولی اور عاجز بندے کی التجا نہ ٹھکرائی اور بچے کو شفا مل گئی. بچے کا والد خوش اور نہال واپس آیا. جب شکریہ ادا کرنا چاہا تو فرمایا ہم نے کچھ نہیں کیا بلکہ اللہ تعالی نے تمہاری دعا قبول کر لی، خادم خاص جو واقف حال اور واقعہ کا عینی شاہد تھا، نے عرض کی، یاحضرت! اگر اس شخص کے سامنے دعا فرما دیتے تو کیا حرج تھا؟ صاحب ثروت شخص تھا کچھ لنگر کے لیے ہی دے جاتا. یہ سننا تھا کہ بزرگ کا چہرہ غصے سے متغیر ہو گیا، کہا سن اے نادان! اگر اس شخص کے سامنے گریہ و زاری کرتا اور بچے کو شفا مل جاتی تو اس شخص کا یقین اللہ تعالی کے بجائے مجھ پر پختہ ہو جاتا جبکہ ہمارا مقصد و منشا لوگوں کا رخ اللہ تعالی کی طرف موڑنا ہے نہ کہ اپنی طرف.. اللہ اللہ.

    یہ بزرگ کوئی اور نہیں بلکہ شہنشاہ ہند، امام ارباب طریقت، پیشوائے اصحاب حقیقت اور ہندوستان میں چشتیہ سلسلے کے بانی حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی حسن سنجری تھے. آپ کہ ہندوستان کے تمام ولیوں کے امام قرار پائے، قصبہ سنجر میں پیدا ہوئے، اور خراسان میں پرورش پائی. سلسلہ نسب حسینی تھا. خواجہ معین الدین بن غیاث الدین بن احمدحسن بن طاہر حسن بن عبدالعزیز بن سید ابراہیم بن امام علی رضا بن امام موسی کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین بن امیرالمومنین علی ابن ابی طالب. روحانی سلسلہ بھی سولہ واسطوں سے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب تک پہنچتا ہے. جب والد بزرگوار خواجہ غیاث الدین نے وفات پائی توآپ کی عمر پندرہ سال تھی. کل سرمایہ ایک باغ تھاجو آپ کی گزر بسر کا واحد ذریعہ تھا. ایک مجذوب فقیر، نام کہ جس کا ابراہیم تھا، نے فقر کی راہ دکھائی تو اپنی کل متاع راہ خدا میں تقسیم کر کے طلب حق میں عازم سفر ہوئے. مدت تک سمرقند اور بخارا میں رہ کر قرآن پاک حفظ کیا اور دیگر علوم ظاہری کی تعلیم حاصل کی مگر گوہر مقصود ہاتھ نہ آیا. بغداد میں مسجد جنید بغدادی میں خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت میں پہنچے تو گوہر مقصود ہاتھ آیا. چنانچہ انیس الرواح میں خود لکھتے ہیں.
    ”بغداد میں خواجہ عثمان ہارونی کی قدم بوسی کی سعادت حاصل ہوئی، عرض مدعا کیا تو پہلے نماز دوگانہ پڑھنے کا حکم ہوا، تعمیل کی تو سورۃ بقرہ اور پھر 21 مرتبہ کلمہ سبحان اللہ پڑھنے کا حکم دیا. بعد میں خود کھڑے ہو کر منہ آسمان کی طرف کیا اور فرمایا میں نے تجھے خدا تک پہنچا دیا. بعد از رسومات بیعت سلسلہ آٹھ پہر کا مجاہدہ کروایا، پھر کہا اوپر دیکھو، دیکھا تو پوچھا کیا دیکھا، عرض کیا عرش عظیم تک سب دکھائی دیا. پھر زمین کی طرف اشارہ کیا اور کہا دیکھو، پھر پوچھا، کیا دیکھا تو عرض کیا حجاب عظمت تک سب دیکھا، پھر اپنی دو انگلیوں کے بیچ میں دیکھنے کا حکم دیا اور پوچھا کیا دیکھا، عرض کیا اٹھارہ ہزار قسم کی مخلوقات کا نظارہ کیا تو شیخ نے فرمایا جا تیرا کام سنور گیا. پھر صدقہ کرنے کا حکم دیا اور اپنے پاس رہنے کی اجازت دی.“
    صاحب مراتہ اسرار کے مطابق ڈھائی سال اور انیس الرواح کے مطابق بیس سال تک مرشد کی خدمت میں رہ کر تربیت حاصل کی اور خرقہ خلافت سے سرفراز ہوئے.

    مرشد سے خرقہ خلافت حاصل کرنے کے بعد مرشد کی اجازت سے آپ حسب دستور صوفیاء سیر جہاں کو نکل پڑے اور جگہ جگہ رشد و ہدایت کے چراغ روشن کرتے آخرکار وارد ہندوستان ہوئے. تبریز، منہہ، خرقان، استر آباد، ہرات، سبزوار میں آپ کے روشن کیے ہوئے، روحانیت کے چراغ آج بھی بھٹکے ہوؤں کے لیے مشعل راہ ہیں. سبزوار میں محمد یادگار نامی حاکم اپنی سخت مزاجی، کجی طبع اور بد عقیدگی کے لیے مشہور تھا، انتہائی فاسق و فاجر شخص تھا. آپ نے لوگوں کے منع کرنے کے باوجود اسی کے باغ میں اقامت اختیار کی اور اس کو راہ راست پر لائے. نتیجتا وہی محمد یادگار جو خلق خدا کے لیے باعث آزار تھا، اپنی تمام عادات بد سے تائب ہوا اور بیعت ہو کر اپنا تمام مال و متاع راہ خدا میں تقسیم کر کے عارف باللہ اور صاحب ارشاد ہو گیا. آج بھی محمد یادگار کا مزار مرجع خلائق ہے. سبزوار سے آپ بلخ تشریف لے گئے، بلخ سے غزنی اور وہاں سے لاہور تشریف لائے. لاہور پہنچ کر حضرت علی ہجویری کے مزار مبارک سے فیض یاب ہوئے. اس وقت حضرت شیخ حسین زنجانی حیات تھے. ان سے آپ کے گہرے تعلقات کے کافی شواہد موجود ہیں. لاہور سے عازم دلی ہوئے. دلی اس وقت رائے پتھورا چوہان کا پایہ تخت تھا. یہاں کے لوگ مسلمانوں کی شکل دیکھنا بھی گناہ سمجھتے تھے. صاحب مراتہ اسرار نے سیر العارفین کے حوالے سے لکھا ہے کہ خواجہ بزرگ نے دلی میں جہاں قیام فرمایا، وہاں اب شیخ رشید مکی کی قبر ہے. دلی میں آپ کے مرید پانچ وقت اذان دیتے اور نماز باجماعت ادا کرتے. کفار آخر یہ سب کیسے برداشت کرتے لہذا آپ کو نقصان پہنچانا چاہا لیکن جب بھی کوئی عملی قدم اٹھانا چاہتے تو خود کو بے بس پاتے. جب بھی کسی نے ضرر پہنچانا چاہا تو قدرت خداوندی سے جسم میں لرزہ طاری ہو جاتا. دلی میں آپ کے قیام کے دوران ایک ہندو نے خنجر کے ذریعے آپ کی جان لینا چاہی مگر جیسے ہی سامنے آیا تو آپ کے جلال کے سامنے بےبس ہو گیا، آخر تائب ہوا اور مشرب بہ اسلام ہوا.

    آپ مجمع سے گھبراتے تھے اور جہاں بھی آپ کی شہرت ہونے لگتی وہاں سے اذن خداوندی سے کوچ کر جاتے. اسی لیے دلی سے کوچ کر کے اجمیر تشریف لے گئے. رائے پتھورا چوہان اکثر اجمیر آیا کرتا تھا. ایک ہندو جوگی اجپال سنگھ نے رائے پتھورا چوہان کی شہ پر خواجہ بزرگ کی راہ میں مزاحم ہونا چاہا مگر کمالات و جمالات ولی اللہ دیکھ کر تائب ہوا اور ایمان لایا. یہ دیکھ کر رائے چوہان نے آپ کو براہ راست نقصان پہنچانا چاہا. سیر اولیا میں لکھا ہے کہ رائے پتھورا خواجہ کے ایک مرید کے درپے آزار تھا، اس نے آپ سے مدد کی التجا کی، آپ نے رائے پتھورا کو پیغام بھیجاکہ اسے مت ستاؤ مگر رائے پتھورا باز نہ آیا اور خواجہ کی شان میں نازیبا کلمات ادا کیے. جب آپ کو علم ہوا تو فرمایا.
    ”پتھورا را زندہ گرفتہ بدست لشکر اسلام دادم“.
    ہم نے رائے پتھورا کو زندہ گرفتار کر کے لشکر اسلام کے حوالے کیا.
    ایسا ہی ہوا، رائے پتھورا اللہ کے حکم سے سلطان فخرالدین سام عرف شہاب الدین غوری کے لشکر کے ہاتھوں زندہ گرفتار ہوا اور بعد میں قتل ہوا. اس دن سے اسلام نے ہندوستان میں قدم جمانے شروع کیے، اس کے بعد دلی کے تخت پر کوئی ہندو قدم نہ جما سکا. دلی کے نواح سے قبائل جوق در جوق آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرتے گئے اور اسلام ہندوستان میں جڑ پکڑتا گیا.

    حضرت خواجہ معین الدین چشتی قران پاک میں اس فرمان الہی کہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے، پر کامل یقین رکھتے تھے اور کسی کو براہ راست اسلام کی دعوت نہیں دیتے تھے، جو شخص صدق دل اور خلوص نیت سے اسلام کی سچائی سے متاثر ہوتا اسے قبول کر لیتے. مسلم غیر مسلم، اپنے پرائے، سب آپ کی صحبت میں حاضر رہتے اور حسب توفیق خداوندی فیض یاب ہوتے. آج بھی آپ کے عرس مبارک کے موقع پر ہر مذہب و ملت کے لوگ حاضری دیتے ہیں اور جھولیاں بھرتے ہیں. مراتہ اسرار کے مطابق خواجہ بزرگ کے بعد طبقا بعد طبقا آپ کے خلفا ہر دور میں آپ کی مسند ارشاد پر متمکن ہو کر ہندوستان بھر میں معنوی طور پر تصرف کرتے ہیں اور ولایت صوری و معنوی کا عزل و نصب آپ کے تصرف میں دیا جاتا ہے. آپ کے خلفا کی تعداد بہت زیادہ تھی مگر خواجہ قطب اسلام حضرت بختیار کاکی اور حمیدالدین ناگوری نے پورے ہندوستان میں آپ کے پیغام کو عام کیا. خواجہ قطب اسلام حضرت بختیار کاکی نے آپ کے ملفوظات کو دلیل العارفین میں قلمبند کیا ہے. ان میں سے چند فرمودات کو نقل کیا جاتا ہے.
    1. جس نے کچھ پایا، خدمت سے پایا.
    2. نماز ایک راز ہے جو بندہ اپنے پروردگار سے کرتا ہے.
    3. جب آدمی رات کو باطہارت سوتا ہے تو حکم ہوتا ہے کہ فرشتے اس کے ہمراہ رہیں، وہ صبح تک اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ تعالی اس بندے کو بخش دے کیونکہ یہ باطہارت سوتا ہے.
    4. انسان کے ہر بال کے نیچے جنابت ہے، پس لازم ہے کہ جس جس بال کے نیچے جنابت ہے وہاں پانی پہنچایا جائے، اگر ایک بال بھی خشک رہ گیا تو روز قیامت وہی بال اس انسان سے جھگڑے گا.
    5. جس کی نماز نہیں اس کا ایمان نہیں.
    6. قبرستان میں عمدا کھانا پینا گناہ کبیرہ ہے، جو عمدا کھائے گا وہ ملعون اور منافق ہے کیونکہ گورستان جائے عبرت ہے نہ کہ حرص و ہوا کی جگہ.
    7. جو شخص آخرت اور دوزخ کے عذاب سے بچنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ فرمانبردار رہے، کیونکہ اللہ تعالی کے نزدیک اطاعت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں، جب پوچھا گیا کہ کون سی اطاعت تو ارشاد ہوا، عاجزوں کی فریاد رسی، حاجت مندوں کی حاجت روائی اور بھوکوں کو کھانا کھلانا، اس سے بڑھ کر کوئی کام نہیں.
    8. جو شخص قران پاک کو دیکھتا ہے اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اس کی بینائی زیادہ ہو جاتی ہے اور اس کی آنکھ کبھی نہیں دکھتی اور نہ خشک ہوتی ہے.
    9. جو بیماری کسی علاج سے ٹھیک نہ ہو وہ صبح کی نماز کی سنتوں اور فرضوں کے درمیان اکتالیس دفعہ سورۃ فاتحہ بسم اللہ کے ساتھ پڑھ کر دم کرنے سے دور ہو جاتی ہے. مزید فرمایا سورۃ فاتحہ ہر مرض کی دوا ہے.

    خواجہ معین الدین کی اولاد کے بارے میں دو روایات ہیں. اکبر نامہ اور تاریخ قتال نامہ جہانگیری کے مطابق آپ کی کوئی اولاد نہیں تھی مگر دوسری روایت جو مختلف حوالوں سے تصدیق شدہ ہے، کے مطابق آپ کی دو ازواج تھیں بی بی امتہ اللہ جن سے ایک لڑکی حافظہ جمال پیدا ہوئیں. دوسری بی بی عصمت جن سے شیخ فخرالدین اور شیخ حسام الدین پیدا ہوئے. آپ کی نسل شیخ حسام الدین سے چلی. آپ کا وصال چھ رجب 627 ہجری کو سلطان شمس الدین التمش کے دور میں ہوا. وصال کے وقت آپ کی عمر مبارک ستانوے برس تھی. آپ کا مزار اجمیر شریف ہندوستان میں آج بھی مرجع خاص و عام ہے.

  • لبرلزم کا مطلب کیا ہے؟ مغالطہ کہاں ہے؟ سجاد حیدر

    لبرلزم کا مطلب کیا ہے؟ مغالطہ کہاں ہے؟ سجاد حیدر

    سجاد حیدر فیس بک پر محترم رعایت اللہ فاروقی صاحب ان معدودے چند اصحاب میں سے ہیں جنہیں میں اپنے اساتذہ میں شمار کرتا ہوں، اور مجھے یہ فخر ہے کہ میری تلخ نوائیوں اور احمقانہ سوالات کے باوجود فاروقی صاحب نے ہمیشہ شفقت فرمائی. جو لوگ فاروقی صاحب کو باقاعدگی سے پڑھتے ہیں وہ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ فاروقی صاحب کی ہر تحریر کے پیچھے ایک ہی جذبہ کارفرما ہوتا ہے اور وہ ہے نوجوان نسل کی بالعموم اور مدارس کے طلبہ کی بالخصوص تربیت. میرے اپنے طلبہ اور عزیز جب مجھ سے کچھ پڑھنے کے بارے مشورہ طلب کرتے ہیں تو دیگر باتوں کے علاوہ میں انہیں فیس بک پر فاروقی صاحب، ڈاکٹر عاصم اللہ بخش، عامر خاکوانی، قاری حنیف ڈار، فرنود عالم اور محمد اشفاق کو پڑھنے اور فالوو کرنے کا مشورہ دیتا ہوں.

    ہم اپنے اپنے مسالک اور گروہوں کے قید خانوں میں اس طرح مقید ہو چکے ہیں کہ تازہ ہوا کا ہر جھونکا ہمیں باد سموم لگتا ہے. کوئی بھی تنقید جو کوئی باہر والا کرتا ہے، ہمارے لیے تازیانہ بن جاتی ہے اور ہم فورا جوابی وار کے لیے کمر کس لیتے ہیں. لیکن اگر کوئی اپنا ہماری کسی خامی کی نشاندہی کرتا ہے تو بھلے تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی لیکن یہ تنقید ہمیں سوچنے پر مجبور ضرور کرتی ہے. فاروقی صاحب کو یہ کریڈیٹ جاتا ہے کہ اصلاح احوال کے لیے ان کی تنقید کا سب سے زیادہ نشانہ ان کے اپنے بنتے ہیں. صاحبو یہ کام اتنا آسان نہیں، اگر اندازہ لگانا ہے تو آپ کو وہ سارا سب و دشنام پڑھنا پڑے گا جسے فاروقی صاحب نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا. اس سب کے باوجود اگر انہوں نے اپنا مشن نہیں
    چھوڑا تو داد دینا پڑے گی ان کی ہمت اور اور استقامت کی.

    اساتذہ سے اختلاف کی روایت چونکہ ہمیشہ سے رہی ہے تو اسی رعایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فاروقی صاحب کی ایک حالیہ پوسٹ کے ایک پیراگراف کی ایک لائن سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا موقف پیش کرنا چاہتا ہوں. فاروقی صاحب نے اپنے ایک حالیہ مضمون…. عورت اور مرد کی عزت کا فرق……میں عورت کو کھلونا سمجھنے اور اس کو شکار کرنے کا سارا الزام… لبرل مرد… پر ڈالا ہے. چونکہ بیشتر اصحاب فاروقی صاحب کی وال پر اور پھر دلیل کے فورم پر اس مضمون کو پڑھ چکے ہیں لہذا پورا پیرا گراف نقل کرنے کے بجائے صرف مذکورہ فقرہ نقل کر رہا ہوں.
    ”یہ فریب انہیں وہی دے رہا ہے جو روز ان کے شکار کے لیے گھر سے نکلتا ہے. لبرل مرد!“

    مزید بحث سے پہلے اگر ہم لبرل ازم کی تعریف پر متفق ہو جائیں تو بات کو آگے بڑھانا آسان ہو گا.
    According to Oxford Dictionary: – Willing to respect or accept, behaviour or opinion different from one’s own; open a new idea.
    ترجمہ: اپنے مروجہ نظریے کے خلاف کسی دوسرے نظریے یا رویے کو قبول کرنے یا اس کے احترام کرنے یا کسی بھی نئے خیال کو قبول کرنے کا نام لبرل ازم ہے.
    According to Cambridge Dictionary:- Respecting and allowing many different types of beliefs or behaviour.
    مختلف رویوں اور اعتقادات کے احترام کا نام لبرل ازم ہے.
    According to another source :- A movement in modern Protestants that emphasized freedom from traditions and authority, the adjustment of religious believes to scientific conceptions, and development of spiritual capacities.

    مذکورہ بالا تمام تعریفات (جو میری نظر میں کافی مستند ہیں) سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ لبرل ہونے کا مطلب عورتوں کا شکاری ہونا بھی ہے. اب اگر لبرل تحریک کا جائزہ
    لیا جائے تو ابتدائی دور میں یہ اس وقت کے جاگیردارانہ معاشرہ، بادشاہت اور مورثیت کے خلاف تھی. آغاز سے ہی مذہب کو چونکہ مذکورہ بالا اداروں کے تحفظ کے لیے ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور چرچ نے ہمیشہ ان اداروں کا تحفظ کیا جب تک کہ خود چرچ کا مناقشہ شہنشاہیت سے نہیں ہوا. تو لازمی تھا کہ اس تحریک کو بھی چرچ کے ساتھ دوبدو ہونا پڑا. اس تحریک کے آغاز کی وجوہات کو ڈھونڈنے کے لیے ہمیں اس وقت کی تاریخ کے صفحات کو کھنگالنا پڑے گا جو ہمارا موضوع نہیں. جب کلاسیکل لبرل ازم نے ماڈرن لبرل ازم کی شکل اختیار کی تو اس میں معاشرتی اصلاحات بھی شامل ہوتی گئیں، معاشرتی انصاف، مساوات، اور سماجی جکڑبندیوں کے خلاف جدوجہد بھی اس کا حصہ بنتی گئیں. تمام نقاد متفق ہیں کہ جان لاک جو کہ اٹھاروی صدی کا ایک برطانوی مفکر، فزیشن اور سیاسیات کا طالبعلم تھا، کو بجا طور پر ماڈرن لبرل ازم کا بانی کہا جا سکتا ہے. جان لاک کے نظریاتی ساتھیوں نے امریکی آزادی کی تحریک کو آگے بڑھایا. والٹیئر اور روسو کے خیالات پر لاک کے نظریات کی چھاپ واضح طور پر نظر آتی ہے.

    لبرل ازم کا اگر سادہ الفاظ میں ترجمہ کیا جائے تو ہر میدان خواہ وہ سیاست کا ہو، سماجیات کا، یا مذہب کا، روایتی بیانیہ سے ہٹ کر سوچنے اور کسی بھی نئے خیال کو قبول یا مسترد کرنے کی آزادی کا نام لبرل ازم ہے. اگر اس کو مزید آسان بنانے کے لیے کیٹیگرائز کیا جائے تو فرد کی اہمیت، خدا کے ہر جگہ موجود ہونے کا یقین، انسانی اقدار اور ذہانت پر اعتماد، اخلاقیات کا احترام اور فطرت انسانی میں ارتقا پذیری کا یقین ہی وہ ستون ہیں جن پر لبرل ازم کی عمارت کھڑی ہے. جان لاک کبھی بھی مذہب اور خدا کا باغی نہیں رہا، بلکہ آج بھی اس کا جسد خاکی ایک چرچ میں دفن ہے.

    اوپر دیے گئے تمام مواد میں مجھے کہیں بھی مذہب سے روگردانی نظر نہیں آئی، ہاں! مذہب سے مراد اگر ایک جامد اور غیر ترقی پذیر نظریہ لیا جائے اور اصرار کیا جائے کہ ایک خاص دور میں مذہبی تعلیمات کی جو تعبیرکی گئی ہے، وہی حتمی اور ناقابل ترمیم ہیں تو اس صورت میں لبرل ازم اور مذہب ایک دوسرے کے مقابل نظر آتے ہیں. ایک طرف ہمارا یقین ہے کہ ہمارا دین ہر دور کی ضروریات کے مطابق اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہے اور دوسری طرف ہم ابھی تک آقا اور غلام کی بحث سے باہر نکلنےکو تیار ہی نہیں.

    مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم لبرل ازم کو فیمینینزم کے ساتھ خلط ملط کرنے کی کوشش کرتے ہیں. ہر معاشرے کی اپنی اقدار اور روایات ہوتی ہیں. مغرب میں ہمیں جو جنسیت نظر آتی ہے وہ لبرل ازم کی پیداوار نہیں بلکہ انڈسٹریلائزیشن کا شاخسانہ ہے. یہ درست ہے کہ مغرب میں ایک وقت پر لبرل ازم کو فرد کی آزادی کے تحفظ کی خاطر اس کی حمایت کرنا پڑی، لیکن یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ نہ تو لبرل ازم کوئی آسمانی مذہب ہے اور نہ کوئی مسلک کہ اس کے تمام اصولوں کو ماننا ہم پر فرض ہے. لیکن اس کی جو چیزیں ہماری معاشرتی اقدار اور مذہبی روایات کے ساتھ متصادم نہیں، ان کو ماننے میں آخر کیا امر مانع ہے. چلیں اگر اس لفظ سے چڑ ہے تو اسے کوئی اور نام دے دیں. ہمارے ہاں ایک رویہ عام ہے کہ ہم اصطلاحات کو افراد کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کے عادی ہیں جیسے روشن خیالی کو مشرف صاحب کے ساتھ جوڑ کر اس کا تمسخر اڑایا جاتا ہے. اب اگر کہیں کوئی قسمت کا مارا اس لفظ کا استعمال کر بیٹھتا ہے تو فورا ایک تمسخر آمیز مسکراہٹ سارے حاضرین و قارئین کے ہونٹوں پر پھیل جاتی ہے. اب اگر ہمیں عاصمہ جہانگیر کے ساتھ اختلاف ہے جو کہ مجھے بھی کئی ایشوز پر ہوتا ہے تو اس کی ضد اور چڑمیں پورے کے پورے تھیسیس کو رد کرنا بنتا نہیں ہے.

    یہ کہنا کہ سارا کا سارا لبرل ازم صرف اور صرف جنسی آزادی اور بے راہروی کا نام ہے، میرے خیال میں مبالغہ ہوگا. قصور میں سالہا سال بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والے کیا لبرل تھے؟ اگر کسی کی طبیعت پر گراں نہ گزرے تو عرض کروں کہ ہمارے ملک کا اصل مسئلہ دہشت گردی اور قتل و غارت نہیں بلکہ یہ تو نتائج ہیں اس عدم برداشت، عدم رواداری، اور مخالف بیانیہ کو سننے سے انکار کرنے کے، جو ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں. ہر وہ شخص جو میرے دھڑے کا اور میرا ہم مسلک ہے فرشتہ ہے اور ہر وہ شخص جو میرے بتائے گئے اصولوں کا باغی ہے وہ شیطان کا بھی استاد ہے.

    مذہبی ایمانیات ہمارے معاشرے کا حسن اور ہمارے لیے ناگزیر ہیں لیکن انسان کو سماجی آسودگی فراہم کرنا بھی معاشرہ کے فرائض میں شامل ہے. اگر اس میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو روایتی فکر سے ہٹ کر سوچنے اور کرنے میں کوئی حرج نہیں.

  • پانامہ لیکس اور ہم – سجاد حیدر

    پانامہ لیکس اور ہم – سجاد حیدر

    سجاد حیدر جدید دنیا کو درپیش چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنج مالی کرپشن ہے. پسماندہ اور غریب ممالک اس لعنت کے زیادہ شکار ہیں. ہونا تو یہ چاہیے کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک میں، جہاں وسائل کی کمی ہوتی ہے اور اخراجات کی زیادتی، وہاں ایک ایک پینی کو دانتوں سے پکڑ کر خرچ کیا جائے لیکن ہوتا اس کے بالکل برعکس ہے. ایک گروہ اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر تمام وسائل پر قبضہ کر لیتا ہے اور عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہونے کے بجائے طاقتور لوگوں کی جیب میں منتقل ہونا شروع ہو جاتا ہے، طبقات کے درمیان تفاوت بڑھتا چلا جاتا ہے. غریب غریب تر ہوتا جاتا ہے اور امیر امیر تر. درمیانے طبقے کی تمام جدوجہد کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی طرح اپنے سے اوپر والے طبقے میں شامل ہوا جائے. لہذا ان کا استحصال کرنا سب سے آسان ہوتا ہے. ہر شخص بکاؤ مال بن جاتا ہے جسے خریدا اور بیچا جا سکتا ہے. مذہب، سیاست اور کاروبار تعلیم غرضیکہ سماج کا سارے کا سارا ڈھانچہ شکست و ریخت کا شکار ہو جاتا ہے. لوٹ مار کرنے والے گروہ کا ایک مسئلہ لوٹی ہوئی دولت کو چھپانا بھی ہوتا ہے جس کے لیے کسی دور میں سوئٹزرلینڈ کی گلیوں میں قائم بنک آئیڈیل سمجھے جاتے تھے. لیکن اب مختلف ممالک میں فرضی کمپنیاں بنا کر اس دولت کو باہر منتقل کیا جاتا ہے اور پھر واپس لا کر اس دولت کو مصرف میں لایا جاتا ہے. دوسری طرف ٹیکنالوجی کی ترقی نے اس سارے عمل کو چھپانا مشکل بلکہ ناممکن بنا دیا ہے. اب اگر ایک روپیہ بھی لاہور سے لندن منتقل ہوتا ہے تو دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھا کوئی بھی شخص صرف چند بٹن دبا کر نہ صرف اس ساری ٹرانزیکشن کی تفصیلات معلوم کر سکتا ہے بلکہ اسے افشا کرنے کی بھی پوری صلاحیت رکھتا ہے.

    اس کا حالیہ مظاہرہ ہمیں پانامہ لیکس کی شکل میں نظر آتا ہے. چند سال پہلے ایک شخص اخبار سے رابطہ کرتا ہے اور دعوی کرتا ہے کہ وہ پانامہ کی کچھ فرموں کی ان تمام خدمات، جو اس نے مختلف ممالک کے امراء اور صاحب اختیار لوگوں کی دولت کو کھپانے کے لیے فراہم کیں، کے ثبوت فراہم کر سکتا ہے. اخبار کی انتظامیہ کئی سال تک ان تمام دستاویزات کو کھنگالتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے کہ یہ دستاویزات شائع کی جا سکتیں کیونکہ ان کی صداقت شک وشبہے سے بالاترہے. ان معلومات کا سامنے آنا تھا کہ ہاہا کار مچ گئی. کون تھا جو اس حمام میں ننگا نہیں تھا، سیاستدان تو خیر سب سے پہلے ان کاموں کے لیے مشہور ہیں کہ ان کا تو دھندا ہی یہی ہے. لیکن ججز، جرنیل، بزنس ٹائیکون غرضیکہ ہر شعبہ زندگی کے بے شمار لوگ ان میں شامل تھے. جنہوں نے اپنے ملک سے کمائی گئی ناجائز کمائی دولت کو چھپانے کے لیے آف شور کمپنیاں بنائیں. اور اس طرح سرمایہ بیرون ملک ڈمپ کیا. اس سرمایہ کا کوئی ریکارڈ ان کے بہی کھاتوں میں نظر نہیں آتا. دنیا بھر میں عوام سڑکوں پر آ گئی لاکھوں لوگ نے مظاہرے کیے، کئی ممالک کے اعلی عہدیداران کو مستعفی ہونا پڑا اور کئی مقدمات اور تفشیش کا سامنا کر رہے ہیں.

    ہماری بدقسمتی کہ دنیا میں ہونے والے اچھے کاموں میں بھلے ہمارا کوئی حصہ نہ ہو لیکن ہر گندے دھندے میں شامل ہونا ہمارا فرض عین ہے. پاکستان کے درجنوں افراد کے نام بھی ان بدنام زمانہ فہرستوں کی زینت بنے لیکن سب سے زیادہ افسوس کا مقام یہ تھا کہ ہمارے محترم وزیراعظم بنفس نفیس اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سمیت اس کالے دھندے میں ملوث پائے گئے. اگرچہ میڈیا نے بہت شور مچایا، اپوزیشن نے بھی مقدور بھر کوشش کر لی کہ وزیر اعظم صاحب مستعفی ہوں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عوامی سطح پر ملک گیر احتجاج کی کوئی لہر نہیں اٹھی. عوام اطمینان سے اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہے. یہ بات دانشور حضرات کے سوچنے کی ہے کہ جن ایشوز پر دوسرے ملکوں میں انقلابات آجاتے ہیں، ان معاملات پر ہمارے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی. اگر سیاسی جماعتیں احتجاج کر رہی ہیں تو ان کا مقصد کرپشن کے خلاف جدوجہد نہیں بلکہ اس تحریک کی آڑ میں اپنا اپنا لچ تلنا ہے. کوئی اس کی آڑ میں اپنی کرپشن چھپانے کے لیے بارگیننگ کرنا چاہتا ہے تو کوئی اسے حکومت گرانے کا سنہری موقع گردان رہا ہے کچھ جماعتیں صرف اپنی موجودگی کا ثبوت دینے کے لیے اس مہم کا حصہ بنی ہوئی ہیں. اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہر کوئی صرف وزیر اعظم اور ان کے خاندان کا احتساب کرنا چاہتا ہے لیکن اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو بچانا چاہتا ہے.

    رہے عوام تو کوئی مانے یانہ مانے لیکن عوام نے کرپشن کو ایک ناگزیر برائی سمجھ کر قبول کر لیا ہے. ہم لوگ کرپشن کے ساتھ اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر چکے ہیں. یہ نظام ہمارے معاشرتی ڈھانچے کے ساتھ اس طرح گھل مل گیا ہے کہ اس کے بغیر ہمارا وہ حال ہوتا ہے جو بن پانی کے مچھلی کا. ہمیں کسی بھی دفتر میں کام ہو تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کوئی واقفیت نکل آئے یعنی ہمیں اپنی باری کاانتظار نہ کرناپڑے اور گھنٹوں انتظار کرنے والوں سے پہلے ہمارا کام ہو جائے. عوام کی اکثریت اس کرپشن کے ساتھ اپنے آپ کو کمفرٹیبل محسوس کرتی ہے. آپ عوامی جگہوں پر عام آدمی کی گفتگو سن لیں، کہیں پر بھی کرپشن کے خلاف کھڑے ہونے کی بات نہیں ہو گی، ہاں ہمیں یہ نظام اس وقت بہت برا لگتا ہے جب کوئی ہم سے زیادہ طاقتور ہمارا حق چھین لیتا ہے. لیکن جب ہم کسی کا حق چھین رہے ہوتے ہیں، اس وقت ہمیں نہ سسٹم سے گلہ ہوتا ہے اور سسٹم چلانے والے سے. ہم تو ووٹ بھی اسی کو دیتے ہیں جو تھانے سے ہمارے بندے چھڑوا سکے، سکول میں ہمارے بچے کو داخلہ دلوا سکے اور ہمارے کسی عزیز کو منافع بخش جگہ پر سرکاری ملازم رکھوا سکے. آپ ہمارے ہی چنے ہوئے جمہوری نمائندگان کی فہرست نکلوا کر دیکھ لیں ہم چنتے ہی اس کو ہیں جو علاقے کا سب سے طاقتور آدمی ہو. بھلے یہ طاقت اس نے بیواؤوں اور یتیموں کی جائیدادوں پر قبضہ کر کے حاصل کی ہو، یا اس کی دولت ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کا ثمر ہو. عوام الناس کو اس سے کوئی غرض نہیں. اگر غرض ہے تو اپنے دھڑے سے اور اپنے لیے فائدہ مند امیدوار سے. وہ لوگ جن کا کام ملک کے لیے قانون سازی کرنا ہے اور ایسے قوانین کی تشکیل ہے جو ملک سے بدامنی، لاقانونیت، کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ ہے، اگر ان کے چناؤ کے وقت ہماری ترجیح ہمارے ذاتی اور گروہی مفادات ہیں تو ایک مٹھی بھر گروہ کے شور مچانے سے کیا فرق پڑتا ہے. ہم نہ تو اپنے ذاتی مسائل کے حوالے سے محتاط ہی اور نہ ہی اجتماعی مسائل میں ہماری سوچ میعاری ہے. جن قوموں کو ہم نے ہر وقت اپنی تلواروں کی زد میں رکھا ہو ہے ان کے میعارات کا جائزہ لے لیں اور پھر اپنی ترجیہات پر توجہ فرمائیں.

    پانامہ لیکس پر ان ممالک کے عوام کا ردعمل کیا تھا اور ہمارا کیا ہے؟ کتنے ممالک کے اعلی ترین عہدیداروں نے اپنے عہدے چھوڑ دیے اور خود کو عدالتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا. ان عوام کے شدید ردعمل نے حکمرانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ قانون کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر اپنی بدعنوانیوں کا جواب دیں جبکہ ہمارے لاڈلے حکمران فرماتے ہیں کہ ہم ناگزیر ہیں، ہمارے بغیر یہ ملک تباہ ہو جائے گا لہذا پہلے دنیا کے طویل ترین عدالتی پروسیس کے ذریعے ہمیں بدعنوان ثابت کرو کہ ہم گناہگار ہیں، تب تک کئی نسلیں ختم ہو چکی ہوں گی خواہ اس میں صدی بدل جائے لیکن تب تک ہم آپ کے سرووں پر مسلط رہیں گے. رہے عوام تو ان کو اس سے کوئی غرض ہی نہیں، ہر شخص اپنے روزمرہ کے معمولات میں مشغول ہے، نہ کوئی ردعمل نہ احتجاج. جو مٹھی بھر افراد کچھ شور مچا بھی رہے ہیں تو ان کا سارا زور وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے احتساب پر ہے. اپنی صفوں میں موجود بدعنوان افراد ان کی نظر میں حضرت عیسی کی بھیڑوں سے زیادہ پوتر ہیں. کچھ لوگ بدلہ اتارنے کے چکر میں ہیں کہ ہمیں جو آپ نے یزید و شمر سے زیادہ بدنام کر رکھا تھا اب آئے ہو ہمارے جبڑوں کے نیچے، نہ تو کسی کا مقصد کرپشن کو ختم کرنا ہے اور نہ شفاف نظام کو قائم کرنا. ہر شخص وقتی مفادات کے حصول کی خاطر قوم کو پستی کی طرف دھکیلنے میں مصروف ہے. مہینوں گزر گئے ہمارے قابل ترین زعماء احتساب کی شرائط طے کرنے میں مصروف ہیں. عدلیہ جس کا نظام انصاف کبھی شراب کی ایک بوتل برآمد ہونے پر حرکت میں آ جاتا تھا آج اتنے بڑے گھپلے اور بدعنوانی کے ثبوتوں کے باوجود خاموش ہے. اور بال مکمل طور پر سیاستدانوں کے کورٹ میں پھینک کر تماشا دیکھ رہی ہے کہ لو اب پنگ پانگ کھیلو. الزام در الزام، جھوٹ در جھوٹ، نہ کوئی سر ہے اور نہ پیر، روزانہ شام کو چند کاسہ لیس اپنی ہوس کی پٹاریاں کھول کر ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر کف اڑاتے ہیں، اپنے اپنے ممدوح کی شان میں قصیدے پڑھ کر گھر چلے جاتے ہیں. نہ کسی میں شرم ہے اور نہ حیاء. ان میں اور جسم بیچنے والی طوائف میں کیا فرق ہے، وہ جسم بیچتی ہے اور یہ ضمیر. رہے عوام تو وہ ان کی مثال بندر کا تماشہ دیکھنے والے تماشائی سے زیادہ نہیں.