Author: مولانا محمد جہان یعقوب

  • یوم اقبال اور شاعر مشرق کا پیغام – مولانامحمدجہان یعقوب

    یوم اقبال اور شاعر مشرق کا پیغام – مولانامحمدجہان یعقوب

    جہان یعقوب ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے تھے۔علامہ اقبال نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور مشن ہائی سکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیے۔ زمانہ طالبعلمی میں انھیں میر حسن جیسے استاد ملے جنہوں نے آپ کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا۔ اور ان کے اوصاف خیالات کے مطابق آپ کی صحیح رہنمائی کی۔ شعر و شاعری کا شوق بھی آپ کو یہیں پیدا ہوا۔ اور اس شوق کو فروغ دینے میں مولوی میر حسن کا بڑا دخل تھا۔ایف اے کرنے کے بعد آپ اعلی تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کیے یہاں آپ کو پروفیسرآرنلڈ جیسے فاضل شفیق استاد مل گئے جنہوں نے اپنے شاگرد کی رہنمائی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ 1905 میں علامہ اقبال اعلی تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور پروفیسر بران جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ابتدامیں آپ نے ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے لیکن آپ نے بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا۔ وکالت کے ساتھ ساتھ آپ شعروشاعری بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکیوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ 1922 میں حکومت کی طرف سے سر کا خطاب ملا۔

    ان کی شخصیت کے کئی عنوان ہیں۔ علامہ اقبال کی شخصیت کاسب سے معتبر حوالہ یہ ہے کہ وہ سچے عاشق رسول ۖ تھے۔ان کااس بنیاد پر کشمیر کمیٹی سے استعفادیناکہ ایک قادیانی کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا،آپ کے عشق رسالت ۖ کا بین ثبوت ہے۔ ان کے رونگٹے رونگٹے میں رسول ۖ کا عشق پیوست تھا اور اس آفتاب عالم تابۖ کے ذکروتذکرے کے ا نوا ر ت سے اقبال کی شاعری منور ہے۔ مولانا عبد السلام ندوی لکھتے ہیں: ڈاکٹر صاحب کی شاعری محبت وطن اور محبت قوم سے شروع ہو تی ہے محبت الہٰی اور محبت رسول ۖپر اس کا خاتمہ ہو تا ہے،وہ اول و آخر سچے مسلمان اور عاشق رسول ۖتھے۔ وہ شاعر مشرق اورپاکستان کے قومی شاعر ہیں۔

    علامہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے۔ آپ کی شاعری زند ہ شاعری ہے،جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے مشعل ِ راہ بنی رہے گی ،یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جا تا ہے اور مسلمانان عالم اسے بڑی عقیدت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے ہیں۔اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔وہ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے، شاعری میں ان کابنیادی رجحان تصوف اور احیائے امتِ اسلام کی طرف تھا،اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال کے ابتدائی دور کی شاعری حب وطن کے جذبہ سے سرشار ہے، اپنے وطن ہندوستان سے ان کی والہانہ محبت اور پھر فرنگیوں کے تحت ان کی غلامی نے انھیں بہت متاثر کیا ،پھر قیام یورپ کے دورنے اقبال کے ذہنی اور فکری ارتقا میں ایک انقلاب پیداکردیا ،یہاں سے ان کی فکر میں وسعت اور دل میں ایک عالمگیر اخوت کا جذبہ پیدا ہوگیا، جس کے نتیجے میں وہ ایک ایسی عالمگیر جمعیت کا تصور ڈھونڈنے لگے، جس میں سب کے لیے اخوت و ہمدردی اور عدل و انصاف ہو اور یہ تصورانھیں اسلامی تعلیمات میں نظر آیا۔

    اصنافِ شاعری کے لحاظ سے اقبال کا کلام غزل، مرثیہ،مثنوی ، مناظر فطرت ، رباعیات ، ظریفانہ و طنزیہ، قومی اور وطنی نظموں سبھی اصناف سخن پر محیط ہے۔بجاطور پراقبال ہماری زبان کا پہلا شاعر ہے جس نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ شاعر کا کوئی پیام بھی ہوا کرتا ہے،جس کا تعلق ہماری اجتماعی زندگی سے بھی ہوسکتا ہے۔

    ڈاکٹر مسلم عزیز درانی نے درست کہاہے :حکیم الامت علامہ محمد اقبال ایک عظیم شاعر تھے،ان کی ولولہ انگیز شاعری نے ہندوستان کے محو خواب مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر بیدار کر دیا۔ ان کا فکر انگیز کلام پاک و ہند کے مسلمانوں کا ہی نہیں ، پوری ملت اسلامیہ کا درخشاں سرمایہ ہے۔

    وہ ایک سیاست دان بھی تھے۔ 1926میں پنجاب اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے عملی سیاست کاآغاز کیا، پھرآل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ انھیں مصور پاکستان کہا جاتا ہے، کیوں کہ سب سے پہلے ایک علیحدہ ملک کاتصور انھوں نے ہی پیش کیا تھا،یہی بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ ہے،یہ تصور انھوں نے1930 ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا،1931ء میں انھوں نے گول میز کانفر نس میں شرکت کر کے مسلمانوں کی نمائندگی کی تھی۔ تاریخی خطبہ الہ آباد میں ان کا پیش کیاہوانظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا،گوکہ وہ خود اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکے اور قیام پاکستان سے تقریباً 9 برس قبل وہ انتقال کرگئے۔

    علامہ اقبال کے متعلق حضرت مولانا سیدعطااللہ شاہ بخاری نے کہا : اقبال کو نہ قوم سمجھی نہ انگریز سمجھا، قوم سممجھتی تو کبھی غلام نہ رہتی اور انگریز سمجھ لیتا تو اقبال بستر مرگ پر نہ مرتا بلکہ پھانسی کے پھندے پر مرتا۔

    اقبال کا نام تو سب لیتے ہیں، عقیدت کا دم تو سب بھرتے ہیں، لیکن ان کے پیغام کاپاس ولحاظ کسی کونہیں۔آج جب قوم فرقہ واریت، قومیت وصوبائیت، تعصب و عصبیت اور افتراق و انتشار کاشکار ہے، یوم اقبال ہمیں یہ پیغام دیتاہے کہ آپس کی نفرتوں کو محبت میں بدل دو اور متحد ہو جاؤ۔ وقتی فائدے سے بالا تر ہوکر ملک وقوم کے لیے سوچو۔ کہیں فرقہ واریت ہے اور کہیں ذاتیں، یہ زمانے میں پنپنے کی باتیں نہیں ہیں۔ رنگ و خوں کے بتوں کو پاش پاش کرکے ملت میں گم ہوجاؤ۔ اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجدیں اور دکانیں سجا کر نہ بیٹھو، یاد رکھو! فرد ربط ملت سے قائم ہے، تنہا اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ کیا ہے کوئی، جو شاعر مشرق کے اس پیغام پر کان دھرے؟

  • اجنبی مرد وعورت کے تعلق کے نقصانات اور دنیوی و اخروی سزائیں – مولانا محمد جہان یعقوب

    اجنبی مرد وعورت کے تعلق کے نقصانات اور دنیوی و اخروی سزائیں – مولانا محمد جہان یعقوب

    نکاح کے بعد دو مرد و عورت آپس میں میاںبیوی بن جاتے ہیں اور یہی دونوں ایک دوسرے کے حقوق زوجیت کی ادائیگی کے واحد ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس طرح ان دونوں کے آپس کے حقوق زوجیت کے ادا کرنے سے شہوانی ہیجان ختم ہوتا رہتا ہے اور عفت و عصمت کی راہیں مضبوط ہوتی رہتی ہیں۔جب سے دنیا قائم ہوئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک دنیا کے تمام انسانوں میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ نکاح اعلانیہ طور پر کرتے ہیں اس کی نہ صرف اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دوسروں کو اطلاع دی جاتی ہے بلکہ اس تقریب میں شرکت کی دعوت بھی دی جاتی ہے۔ ناراض رشتہ داروں ہر ممکن طریقے سے راضی بھی کیاجاتا ہے۔

    کسی مرد و عورت کا بغیر عقد نکاح کے جوکہ ایجاب و قبول پر مشتمل ہوتا ہے آپس میں ہم بستری کرنا زنا کہلاتا ہے۔زنا ایک ایسا مکروہ، قبیح اور بُرا فعل ہے کہ جس کی خود زانی اور زانیہ فخریہ طور پر اعلان نہیں کرتے بلکہ چھپ چھپا کر خفیہ طور پر اس عمل کو کیا جاتا ہے گویا کہ انسانی فطرت بھی اسی سے نفرت کرتی ہے اور اس کے غلط اور بُرا ہونے کا احساس رکھتی ہے۔ اگر ان کے نزدیک یہ اچھا کام ہوتا تو وہ ضرور شادی کی طرح اس کا اعلان کرتے اور اس سے پہلے تقریب کا اہتمام کرتے۔

    شریعت میں زنا کی ممانعت:

    قرآن مقدس میں جگہ جگہ زنا کی مذمت بیان کی گئی ہے، کہیں فرمایا
    زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، یقیناً وہ بڑی بےحیائی اور بُری راہ ہے۔ (بنی اسرائیل 32)
    کہیں فرمایا:
    بے شک یہ بری بے حیائی اور نفرت کی بات تھی اور بہت بُرا طریقہ تھا۔ (نساء 22)
    کہیں فرمایا:
    اور (ایمان والے)زنا نہیں کرتے۔ (فرقان 68)

    احادیث میں زنا کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : شرک کے بعد کوئی گناہ اس نطفہ سے بڑھ کر گناہ نہیں ہے جس کو کوئی شخص کسی ایسے رحم میں رکھے جو شرعاً اس کے لیے حلال نہ تھا۔ (بحوالہ تفسیرابن کثیر جلد3صفحہ38)
    نبی ۖ کا ایک اور ارشاد ہے: زناکار جس وقت زنا کرتا ہے اس وقت مومن نہیں ہوتا۔ (مشکوٰة، باب الکبائر)
    اس کی وضاحت نبی اکرم ۖ نے اپنے ایک اور فرمان میں اس طرح فرمائی: (مشکوٰة باب الکبائر)
    ‘بندہ جب زنا کرتا ہے اس وقت ایمان اس سے نکل جاتا ہے اور اس کے سر پر سایہ بن کر ہوتا ہے اور زانی جب فعل زنا سے فارغ ہوتا ہے تو ایمان اس کی طرف پلٹ آتا ہے۔نبی جب کسی عورت سے بیعت لیتے تھے تو انہیں چند باتوں سے منع کیا جاتا تھا، جن میں زنا بھی شامل ہے:
    اور (وہ عورتیں) بدکاری نہیں کریں گی اور اپنے بچوں کو قتل (بھی) نہیں کریں گی۔ (الممتحنہ 12)
    نبی اکرم کا ارشاد ہے: زنا کسی قوم میں عام نہیں ہوتا مگر ان میں بکثرت موت ہوتی ہے۔(مشکوٰة ،صفحہ 459)
    اسی طرح نبی کا ایک اور ارشاد ہے : جس قوم میں جب زنا پھیل پڑتا ہے تو اُسے قحط سالی کی مصیبت میں مبتلا کیا جاتا ہے اور رشوت کی گرم بازاری ہوتی ہے تو اس پر خوف طاری کردیا جاتا ہے۔ (مشکوٰۃصفحہ 313)
    حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا : جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے اﷲ تعالیٰ اس قوم میں مصیبت کو پھیلا دیتا ہے۔ (تاریخ ملت، جلد2صفحہ40)
    حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ
    کسی بستی میں سود اور زنا جب پھیل پڑتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس بستی کی ہلاکت کی اجازت مرحمت فرما دیتا ہے۔ (الجواب الکافی، صفحہ 220)

    واقعہ معراج میں نبی ۖ کا گزر ایک ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت رکھا ہوا تھا اور دوسری ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا بدبودار گوشت پڑا تھا اور ان لوگوں کی حالت یہ تھی کہ کچا اور سڑا ہوا گوشت کھا رہے تھے اور پکا ہوا نہیں کھا رہے تھے، حضورۖ نے پوچھا کہ یہ لوگ ہیں؟ جبرئیل امین نے جواب دیا کہ یہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں کہ جو حلال بیوی یا شوہر کو چھوڑ کر حرام کاری اور زنا میں مبتلا رہتے ہیں یعنی زناکار مردوں اور زناکار عورتوں کی مثال ہے۔ (تفسیرروح البیان جلد5صفحہ 111)

    زنا کے نقصانات:
    زنا کے ذریعے سے پیدا ہونے والی اولاد کا نسب مشتبہ ہوجاتا ہے ۔جب بچے کا نسب مشتبہ ہوگیا تو اس کی پرورش کا ذمہ دار کوئی مرد نہیں بنتا اس طرح ایک بچے کا ضائع ہوجانے کا یقینی خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور وہ بچہ سرپرست نہ ہونے کی وجہ سے تباہ و برباد اور طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہوکر ردنیا کے امن و چین کی تباہی کا ذمہ دار بنتا ہے۔اگر زنا کے ذریعے سے حمل ٹھہرجائے اور زانیہ اسقاط کرادے اور وہ حمل چار ماہ سے زائد کا ہو تو زنا کے ساتھ ساتھ زانیہ قتل کی مجرم بھی ہوگی اور یہ نسل انسانی کے انقطاع کا ذریعہ بھی بنے گی۔زانیہ ایک سے زائد افراد کے ساتھ اپنے ازدواجی تعلقات قائم کرتی ہے لہٰذا نتیجہ کے طور پر اس عورت پر کسی کو بھی دسترس حاصل نہیں ہوسکتی۔ تمام مرد اس پر قبضہ کرنے کی طرف کوشش کریں گے اور وجہ ترجیح کسی کو بھی حاصل نہ ہوگی۔ اس سے نہ صرف معاشرے میں کشیدگی پھیلے گی بلکہ قتل وغارت گری کا بازار بھی گرم ہوگا۔جس عورت کو زنا کی لَت پڑ جاتی ہے کوئی بھی شریف النفس آدمی اُسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا۔ معاشرے میں ایسی عورت سے نفرت کا اظہار دیکھا جاتا ہے۔ اور وہ ذلت آمیز نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔زنا کے اس عمل کے نتیجے میں کسی خاص مرد کو کسی خاص عورت سے کوئی خاص محبت باقی نہیں رہے گی جس کو جہاں موقعہ مل گیا جس کو چاہا بلا لیا، اپنی مستی نکال لی، نتیجے میں انسان اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔زنا کے ذریعے سے صرف جنسی تقاضے پورے کیے جاسکتے ہیں ایک انسان باکردار شخصیت کا رُوپ نہیں دھار سکتا۔ جبکہ معاشرے میں باکردار انسان ہی تعمیر انسانیت اور تعمیر معاشرہ کے کام آتا ہے۔

    دنیامیں زنا کی سزا:
    اسلام کو سزائیں دینے سے ایسا شغف نہیں ہے جتنا جرائم کے سدباب سے ہے۔ لہٰذا زنا کے ثبوت کے لیے اسلام نے شرائط بہت سخت رکھی ہیں جو درج ذیل ہیں:
    1…زانی اور زانیہ کو زنا کرنے کی حالت میں چار مرد دیکھیں۔ سوچنے کی بات ہے! اسلام نے نکاح جس کے ہزاروں گواہ بن سکتے ہیں وہاں دو ہی گواہ رکھے ہیں اور زنا جس کا ایک گواہ بھی ملنا مشکل ہے اس کے ثبوت کے لیے بیک وقت چار گواہ مانگے ہیں۔
    2…یہ چار گواہ اپنی گواہی میں معتبر بھی ہونے چاہییں۔ اگر ان میں سے کوئی گواہ جھوٹا ثابت ہوا تو اُسے قاضی اَسّی(80) کوڑوں کی سزا دے گا اسے اصطلاح میں حدقذف کہتے ہیں اور اس ڈر سے کوئی آدمی بغض، حسد عداوت، کینہ کو بنیاد بناکر جھوٹا الزام لگا ہی نہیں سکتا۔
    3…ان گواہوں کی گواہی کے بعد زنا ثابت ہوجانے پر جو شرعی سزا دی جائے گی اس کی تکمیل سے پہلے اگر کوئی گواہ اپنی گواہی سے دستبردار ہوجائے تو زانی اور زانیہ کی سزا بھی موقوف ہوجائے گی۔ مندرجہ بالا ثبوت کی شرائط کی روشنی میں زنا کی سزا جو رکھی گئی ہے وہ(١)غیرشادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے سو سو (100) کوڑوں کی سزا ہے(٢) اگر زانی اور زانیہ شادی شدہ ہیں تو انہیں سنگسار کرنا کیاجائے گا،یعنی لوگ پتھرمار مار کران کاخاتمہ کردیں گے۔

    دورِحاضر میں یہ غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے کہ زنا کے ثبوت پر دی جانے والی اسلامی سزا ایک وحشیانہ فعل ہے (نعوذباﷲ) جبکہ اگر قتل کر دینا ہی مقصود ہے تو آج دیگر کئی آسان ذرائع یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ عرض ہے کہ جب اسلام نے اس سزا کو نافذ فرمایا اس وقت بھی قتل کردینے کا دوسرا آسان ذریعہ موجود تھا یعنی تلوار سے اس کا سر قلم کردیا جاتا ،لیکن اس ذریعے کے موجود ہونے کے باوجود سنگسار کی سزا کا نافذ ہونا اس مصلحت کی بناپر ہے کہ اگر کوئی گواہ منحرف ہوجائے تو سزا موقوف ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں حکمتیں ہوتی ہیں،جنہیں اس علیم وخبیر کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا۔بندہ کہتے ہی غلام کو ہیں، غلام اگر آقاکی باتوں میں حکمتیں ڈھونڈنااور اعتراض کرنا شروع کردے تووہ فرماں بردارغلام نہیں کہلاتا،ہم بھی اس ذات احد وصمدکے بندے ہیں ،ہمیں بھی اس کے ہر حکم کو بلاچون وچراتسلیم کرلینا چاہیے، زنا کی مذکورہ سزا بھی اﷲ تعالیٰ کی نافذ کردہ حد ہے اور اس کے بارے میں شک و شبہ یا انکار کرنا اپنے ایمان کو خطرے میں ڈال دینے کے مترادف ہے۔

  • اہل اسلام کو سال نومبارک – مولانا محمد جہان یعقوب

    اہل اسلام کو سال نومبارک – مولانا محمد جہان یعقوب

    محمد جہان یعقب ہجری سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔ یہاں یہ امر جاننا ضروری ہے کہ عربوں کی اصل تقویم قمری تقویم تھی، مگر وہ مدینہ منورہ کے پڑوس میں آباد یہودی قبائل کی عبرانی (یہودی) تقویم کے طرز پر اپنے تجارتی اور ثقافتی فائدے کی خاطر خالص قمری کے بجائے قمری شمسی تقویم استعمال کرتے تھے۔ رسول اکرمﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس قمری شمسی تقویم کو ہمیشہ کے لیے منسوخ فرما کر خالص قمری تقویم کو بحال رکھا، جس کا آغاز ہجرت مدینہ کے اہم واقعے سے کیاگیا تھا، لہٰذا یہ تقویم ہجری تقویم کے نام سے موسوم ہوئی۔ اس کی ابتدا خود حضوراکرم ﷺ کے حکم سے ہوئی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں سرکاری مراسلات میں ’’اسلامی قمری ہجری‘‘ تاریخ کا اندراج لازمی قرار دیا، یہ ان کا ایک ایسا کارنامہ ہے، جو ان کی یاد دلاتا رہےگا۔

    انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ آج کے مسلمان اور بالخصوص نئی پود کو، جو مستقبل کی معمار و صورت گر ہے، اسلامی ہجری تقویم کے مہینوں کے نام تک معلوم نہیں، اگرچہ دفتری ضروریات کے تحت گریگورین (عیسوی) کیلنڈر کا استعمال درست ہے، تاہم اسلامی مہینوں کے ناموں کا جاننا اور ان کی عظمت و فضیلت کا قائل ہونا بھی فرض کفایہ ہے۔شریعت محمدیہ ﷺ میں احکام شرعیہ مثلاً: حج و غیرہ کا دارومدار قمری تقویم پر ہے۔ روزے قمری مہینے رمضان کے ہیں۔ نزول قرآن بھی رمضان میں ہوا، عورتوں کی عدت، زکوٰۃ کے لیے سال گزرنے کی شرط وغیرہ سب قمری تقویم کے اعتبار سے ہیں۔ عیدین یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی کا تعلق بھی قمری تقویم سے ہے۔ ناس ہو لارڈمیکالے کے وضع کردہ نظام تعلیم کا، جس نے ہمیں اسلاف کی دوسری زریں روایات کے ساتھ ساتھ اپنی اصل ہجری قمری تقویم بھی بھلا دی۔ ہمیں اپنے بچوں کواہتمام و خصوصیت سے اسلامی سال کے مہینوں کے نام یادکرانے چاہییں۔

    قمری تقویم کی بنیاد زمین کے گرد چاند کی ماہانہ گردش پر ہے اور ہر مہینے کا آغاز نئے چاند سے ہوتا ہے۔ قمری تقویم میں تاریخ کا آغاز غروب شمس سے ہوتا ہے اور قمری مہینہ کبھی 29 دن کا اور کبھی 30 دن کا ہوتا ہے۔ یوں قمری سال عموما 354 دن اور بعض سالوں میں 355 دن کا ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف موجودہ رائج عیسوی تقویم میں آج کل دن کا آغاز رات بارہ بجے سے ہوتا ہے اور اس میں یہ بھی طے ہے کہ ہر سال کون سا مہینہ کتنے دنوں کا ہوگا، جبکہ فروری کا مہینہ عام سالوں میں 28 دن کا لیا جاتا ہے اور لیپ (چار پر تقسیم ہونے ولا ہر چوتھاسال ) کے سالوں میں 29 دن کا ہوتا ہے۔ مہینوں کی یہ تعداد خود ساختہ ہے، کسی قاعدہ یا ضابطہ کے تحت نہیں البتہ سب مہینوں کے دنوں میں مجموعی تعداد 365 اور لیپ کے سالوں میں 366 دن ہوتی ہے۔

    اس کے مقابل قمری تقویم میں ابہام ہے، جس میں کئی مصلحتیں پوشیدہ ہیں، مثلا: بعض اہم مواقع پر اس ابہام سے پیداہونے والی انتظاری کیفیت (سسپنس) نہایت مسرت افزا ہوتی ہے، اہل اسلام عید الفطر کے ہلال کی امکانی رؤیت و عدم رؤیت سے پیدا ہونے والی انتظاری کیفیت میں چاند دیکھنے کی والہانہ کوشش کرتے ہیں۔ بچوں، جوانوں، بوڑھوں، مردوں اور عورتوں کی چاند دیکھنے کی یہ مسرت آمیز مساعی ایک عجیب سماں پیدا کرتی ہیں۔ اگر عید وغیرہ کا دن پہلے سے ہی سو فیصد یقین کے ساتھ متعین اور مقرر ہوتا تو یقینا ہلال عید کی یہ خوشی نصیبی نہ ہوتی۔ قمری مہینوں کی موسموں سے عدم مطابقت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بعض نہایت اہم احکام شرعیہ مثلا: صیام رمضان کی تعمیل زندگی بھر میں تمام موسموں میں ممکن ہوجاتی ہے، مثلا: ایک شخص اٹھارہ بیس سال کی عمر میں رمضان کے روزے رکھنا شروع کرتا ہے اور پچاس ساٹھ برس کی عمر تک جسمانی صحت کے لحاظ سے روزے رکھنے کے قابل رہتا ہے، تو وہ موسم گرما، موسم سرما، موسم بہار اور موسم خزاں یعنی سال کے تمام موسموں میں روزے رکھنے کی سعادت حاصل کر پائےگا۔ اگر اس طرح کے احکام کے لیے شمسی مہینے متعین کیے جاتے تو ساری عمر ایسے احکام کی تعمیل ایک ہی موسم میں ہوتی، بلکہ شمالی نصف کرہ اور جنوبی نصف کرہ کے موسمی تضاد کی وجہ سے بعض علاقوں اور ملکوں کے لوگ موسم گرما میں اور دوسرے علاقوں کے لوگ موسم سرما میں ان احکام کی تعمیل کے لیے ہمیشہ پابند ہو کر رہ جاتے اور ان احکام کی بجا آوری کے سلسلے میں موسمی تغیرات کا فائدہ نہ اٹھا سکتے. اسلامی تقویم نے ہی یہ بات ممکن بنا دی ہے۔ اس کے علاوہ ماہرین نے قمری ہجری تقویم کی بعض دیگر خصوصیات بھی بیان کی ہیں، من جملہ ان میں یہ بھی ہے کہ جب سے سن ہجری کا آغاز ہوا ہے، اس وقت سے لے کر آج تک اس میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی، یہ خصوصیت غالباً صرف قمری تقویم ہی کو حاصل ہے۔

    سن ہجری میں ہفتے کا آغاز جمعۃ المبارک کے دن سے ہوتا ہے، جو سیدالایام یعنی تمام دنوں کا سردار ہے۔ ہجری تقویم میں شرک، نجوم پرستی یا بت پرستی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ مہینوں اور دنوں کے ناموں کو، دوسری تقاویم کی طرح کسی بادشاہ، سیارے یا دیوی، دیوتا سے کوئی نسبت نہیں۔ شرائع سابقہ میں بھی دینی مقاصد کے لیے یہی تقویم مستعمل تھی، بعد میں لوگوں نے اس خالص قمری تقویم میں تحریف کرتے ہوئے اسے شمسی یا قمری شمسی تقویم میں بدل ڈالا۔ اس سال کا آغاز یکم محرم الحرام سے ہوتاہے، اور محرم الحرام کا یہ دن ہمیں ایک عظیم اور لازوال قربانی کی یاد دلاتا ہے کہ اس دن مراد رسول حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ایک بین الاقوامی سازش کے نتیجے میں شہید کر دیا گیا تھا. اسی طرح اس مہینے کے ابتدائی دس دن ہمیں اہل بیت رسول ﷺ کی فقید المثال قربانی کی یاد دلاتے ہیں کہ دین کی خاطر کیسی کیسی نابغہ روزگار شخصیات کو خاک وخون میں تڑپایا گیا، لہٰذا یہ دین جب بھی قربانی کا تقاضا کرے، ان عظیم نفوس قدسیہ کی قربانیوں کو یاد کرکے قربانی کے لیے بصد دل و جان تیار ہو جانا، کہ دانہ خاک میں مل کر گل وگل زار ہوتا ہے۔

    اہل اسلام کو نئے سال کی مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ ہم یہ پیغام بھی دیناچاہتے ہیں کہ ہمیں اپنی اصل پہچان یعنی اسلامی ہجری سال کو بالکل نہیں بھلا دینا چاہیے، بلکہ اس کے نام بھی یاد رکھنے چاہییں اور اسے استعمال بھی کرناچاہیے، کہیں ایسانہ ہو کہ آئندہ چندسالوں میں ہماری نئی پود کے ذہنوں سے یہ تصور ہی محوہوجائے کہ ہم بھی ایک زندہ جاوید تہذیب و تاریخ کے امین ہیں، ہمارا بھی ایک شاندار ماضی ہے، ہمارا بھی ایک تشخص ہے۔

    (مولانا محمد جہان یعقوب، سینئر ریسرچ اسکالر جامعہ بنوریہ عالمیہ، انچارج تخصص فی التفسیر و ڈپٹی ایڈیٹر ہفت روزہ اخبار المدارس،کراچی)

  • شہید مدینہ سیدناعثمان غنی رضی اﷲ عنہ – مولانا محمد جہان یعقوب

    شہید مدینہ سیدناعثمان غنی رضی اﷲ عنہ – مولانا محمد جہان یعقوب

    محمد جہان یعقب حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ سرکارِدوعالم ﷺ کے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی تعریف اور ان کے مقام کے حوالے سے کچھ عرض کریں۔

    صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی تعریف:
    صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ان مقدس ہستیوں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے حالتِ ایمان میں حضور اکرم ﷺ کی صحبت (اگرچہ ایک لمحہ کے لیے ہو) پائی اور ان کی وفات بھی حالتِ ایمان پر ہوئی ہو۔ (مقدمہ ابن الصلاح، نخبۃ الفکر، اسد الغابہ)

    صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا مقام:
    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جس مقدس گروہ کا نام ہے وہ امت کے عام افراد کی طرح نہیں، بلکہ وہ رسول ا اور امت کے درمیان ایک مقدس واسطہ ہونے کی وجہ سے ایک خاص مقام اور عام امت سے امتیاز رکھتے ہیں۔ یہ مقام اور امتیاز ان کو قرآن و سنت کی نصوص و تصریحات کا عطا کیا ہوا ہے اور اسی لیے اس پر امت کا اجماع ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سچے، عادل اور نمونہ ہدایت ہیں۔ اس اجماعی عقیدے کو تاریخ کی راویات کے انبار میں گم نہیں کیا جاسکتا۔ محققین کا قول ہے کہ اگر کوئی روایت ذخیرہ حدیث میں بھی ان کے اس مقام اور شان کے خلاف نظر آتی ہو تو اسے بھی قرآن و سنت کی نصوص واضحہ اور اجماع کے مقابلہ میں متروک تصور کیا جائےگا۔ ویسے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقام کو تاریخ کی روشنی میں جانچنا ایسا ہے جیسے ہیرے کا وزن لکڑی کے ٹال والے سے کروایا جائے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تاریخی نہیں قرآنی شخصیات ہیں۔ اہل سنت والجماعت کا ہمیشہ سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ بنی آدم میں انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد فضیلت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کا درجہ ہے۔

    حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اگرچہ معصوم نہیں ہیں مگر ان سے جو بھی کام ان کے اپنے شایان شان نہیں تھے اور ان سے صادر ہوگئے تھے، وہ اللہ تعالیٰ نے معاف فرما کر انہیں اپنی رضا کا پروانہ عطا فرما دیا ہے۔ قرآن و سنت میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل کا تقاضا یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ بلکہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکر صرف خیر ہی کے ساتھ کیا جائے۔ اس لیے کہ ان پر تنقید نبی علیہ السلام کے تزکیہ نفوس پر اعتراض ہے جس کا کوئی مسلمان بقائمی ہوش و حواس تصور بھی نہیں کرسکتا۔

    اب آئیے! تیسرے خلیفہ راشد شہید مدینہ جامع القرآن حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کی سیرتِ طیبہ کے اوراق پلٹتے ہیں کہ ان نفوسِ قدسیہ کا تذکرہ اہلِ ایمان کے ایمانی جذبات میں مزید تازگی پیدا کرتا ہے۔

    ولادت:
    حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی پیدائش عرب کے مشہور شہر مکہ معظمہ میں ہوئی۔ آپ رسول ﷺ کی ولادت (عام الفیل) کے چھ سال بعد 76ء میں پیدا ہوئے۔
    نام و نسب:
    عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان بن ابی العاص بن امیہّ بن عبد شمس اموی قریشی۔ (ابن عساکر بحوالہ حضرت عثمان ذی النورین صفحہ ۲۵)

    القاب:
    (۱) آپ کا ایک لقب ذو النور ین ہے۔ ذو النور ین کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے نکاح میں نبی علیہ السلام کی یکے بعد دیگرے دو شہزادیاں آئیں۔ پہلے آپ کے نکاح میں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا تھیں، جب ان کا انتقال ہوگیا تو آپ ﷺ نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہ کا نکاح آپ کے ساتھ کردیا۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا بھی چھ سال بعد وفات پاگئیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میری چالیس (اور ایک روایت کے مطابق سو) بیٹیاں بھی ہوتیں اور وہ یکے بعد دیگرے انتقال کرتی رہتیں تو بھی میں اپنی بیٹیوں کو یکے بعد دیگر عثمان کے نکاح میں دیتا رہتا۔ آپ رضی اللہ عنہ اس شرف کی وجہ سے ذو النورین کہلاتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی شادی رسول ﷺ کی دو بیٹیوں سے یکے بعد دیگرے ہوئی اور اولاد آدم میں کسی شخص کو بھی یہ اعزاز میسر نہیں کہ دو بیٹیاں کسی نبی کی اس کے عقد میں آئی ہوں۔
    حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ملائے اعلیٰ (یعنی فرشتوں کے مجمع) میں ذوالنورین کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی کہی جاتی ہے کہ آپ نے دو دفعہ ہجرت کی ایک حبشہ کی طرف دوسری مدینہ کی طرف اس لیے آپ ذی النورین کہلائے۔
    (۲) ایک لقب آپ کا غنی بھی ہے. وجہ یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ عرب میں سب سے زیادہ دولت مند تھے، اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے فیاض طبع بھی بنایا تھا چنانچہ آپ نے اپنی فیاضی اور اپنے مال و دولت سے اس وقت اسلام کو فائدہ پہنچایا جب اس امت میں کوئی دوسرا ان کا ہمسر موجود نہ تھا۔ (حضرت عثمان ذو النورین)

    حلیہ مبارک:
    آپ کا قد درمیانہ تھا۔ رنگ گندمی ہونے کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ حسن و جمال کا پیکر تھے۔ داڑھی گھنی اور لمبی تھی۔ اس کو زرد خضاب سے رنگین رکھتے تھے، جوڑ بڑے بڑے اور مضبوط تھے، ہڈی چوڑی تھی۔ سر پر بال گھنے اور گھنگریالے تھے۔ دونوں شانوں میں زیادہ فاصلہ تھا۔ جلد مبارک نرم تھی، دانت بہت خوبصورت تھے۔ (ابن عساکر)

    حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے فضائل:
    (۱) اللہ تعالیٰ نے آپ کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے۔
    [pullquote]لَقَدْ رَضِی اَللّٰہُ عن المُؤ مِنین اِذْیُباَ یِعُونکَ تَحْتَ الثَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَافِیْ قُلُوْ بِہُم فَاَنْزَل السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَاثَا بَہُمْ فَتْحاً قَریباً (سورۃ فتح آیت ۱۸)[/pullquote]

    ترجمہ: ’’بالحقیق اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے راضی ہوا جبکہ وہ آپ ا سے درخت کے نیچے (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے تک جہاد کرنے کی) بیعت کررہے تھے سو اُن کے دلوں میں جو کچھ تھا اللہ کو معلوم تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان پر اطمینان نازل فرمادیا اور ان کو لگے ہاتھ ایک فتح دے دی‘‘۔
    مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیت صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی، جب یہ افواہ اڑی کہ قاصد رسول ﷺ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو کفار مکہ نے شہید کردیا ہے۔ اس پر حضور ﷺ نے 1400 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بیعت لی کہ جب تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ نہیں لیں گے واپس نہیں جائیں گے اور آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کو عثمان کا ہاتھ قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بیعت پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رضا کا پروانہ عطا فرمایا۔ اس کے علاوہ خلفائے راشدین، سابقون الاوّلون، کاتبین وحی، مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، مجاہدین صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، اہل بدر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے حوالے سے جتنی آیات ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان سب کا بھی مصداق ہیں کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ خلیفہ راشد ثالث اور سابقون الاولون صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے تھے۔ دوبار دین کی خاطر ہجرت فرمائی اور ہر جہاد میں بھی پیش پیش رہے۔
    (۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عثمان ( رضی اللہ عنہ) میری امت میں سب سے زیادہ حیا دار اور سخی ہے‘‘۔(ابو نعیم)
    اس کے علاوہ بھی متعدد احادیث میں حضور اکرم ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیا اور سخاوت کی تعریف فرمائی ہے۔
    (۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عثمان بن عفان دنیا و آخرت میں میرے دوست ہیں۔ (ابویعلیٰ)
    (۴) ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے درمیان میں تشریف رکھتے تھے. آپ نے فرمایا کہ ہر شخص اپنے برابر اور دوست و ساتھی کی طرف اٹھ کر چلے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف تشریف لے گئے، ان سے بغل گیر ہوئے اور فرمایا تم دنیا و آخرت میں میرے دوست ہو۔ (ابن ماجہ)
    (۵) حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور میرا رفیق جنت میں عثمان ہے۔ (ترمذی شریف)
    (۶) حضرت ابو سعیدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ اول شب سے طلوع فجر تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعا کرتے رہے اور فرماتے تھے:
    اے اللہ! میں عثمان سے راضی ہوں تو بھی عثمان سے راضی رہ۔(البدیہ والنہایہ جلد7 صفحہ 212)
    اس کے علاوہ بھی آپ رضی اللہ عنہ کی شان میں احادیث وارد ہوئی ہیں۔
    (۷) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں: امت میں سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اور اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔
    (۸) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس امت میں ابو بکررضی اللہ عنہ کے بعد عمر فارو ق رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں، پھر عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ پھر میں۔
    (۹) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہم سب سے افضل تھے۔

    حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سخاوت:
    اللہ تعالیٰ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خوب مال عطا فرمایا تھا اور وہ اس مال میں سے بہت زیادہ سخاوت فرماتے تھے، اس لیے اللہ کے رسول ا نے آپ کو غنی کا لقب عطا فرمایا۔ ان کی سخاوت کے بے شمار واقعات ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
    (۱) جب مسلمان ہجرت کرکے مدینہ آئے تو وہاں کا پانی انھیں موافق نہیں آیا اور لوگوں کو پیٹ کی تکلیف رہنے لگی۔ شہر کے باہر میٹھے پانی کا صرف ایک کنواں تھا جس کو ’’بیر رومہ‘‘ کہتے تھے، اس کا مالک ایک یہودی تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ کنواں خرید لیا جائے تاکہ سب مسلمان اس کا پانی استعمال کریں لیکن سوال یہ تھا کہ اس کی قیمت کہاں سے آئے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ارشاد فرمایا کہ جو شخص بیر رومہ کو خریدے گا اس کے لیے جنت ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ہمت کی اور کنواں خریدنے کے لیے یہودی سے بات چیت کرنے گئے۔ یہودی نے کہا کہ میں کنواں الگ نہیں کرسکتا کیوں کہ میری کھیتی باڑی اور کھانے پینے کا سب دار و مدار اس پر ہے۔ تمھاری خاطر اس کا آدھا پانی قیمت سے دے سکتا ہوں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بارہ ہزار درہم میں آدھا پانی خرید کر وقف عام کردیا۔ ایک دن یہودی پانی لیتا اور ایک دن مسلمان لیتے۔ مسلمانوں کی باری آتی تو وہ دو دن کا پانی نکال لے جاتے۔ اگلے روز یہودی کے پاس کوئی نہ جاتا اور وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہتا، اس سے یہودی مجبور ہوگیا اور ان نے آٹھ ہزار درہم مزید لے کر سارا کنواں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ فروخت کر دیا۔
    (۲) مسجد نبوی ﷺ کی توسیع کے لیے نبی اکرم ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا: وہ کون ہے جو فلاں مویشی خانہ کو خرید لے اور ہماری مسجد کے لیے وقف کردے تاکہ اللہ اس کو بخش دے، تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بیس یا پچیس ہزار درہم میں یہ زمین کا ٹکڑا خرید کر مسجد نبوی ﷺ کے لیے وقف کر دیا۔
    (۳) شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ازالۃ الخفاء میں سالم بن عبداللہ بن عمر کی ایک روایت نقل کی ہے کہ تبوک کے سفر میں جتنی بھوک پیاس اور سواری کی تکلیف درپیش آئی، اتنی کسی دوسرے غزوے میں نہیں آئی۔ دوران سفر ایک مرتبہ کھانے پینے کا سامان ختم ہوگیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مناسب سامان اونٹوں پر حضور ﷺ کی خدمت میں روانہ کیا۔ اونٹوں کی تعداد اتنی کثیر تھی کہ ان کی وجہ سے دور سے تاریکی نظر آ رہی تھی، جس کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لوگو! تمھارے واسطے بہتری آگئی ہے، اونٹ بٹھائے گئے اور جو کچھ ان پر لدا تھا اتارا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا ’’میں عثمان سے را ضی ہوں، اے اللہ! تو بھی عثمان سے راضی ہوجا‘‘ یہ فقرہ حضور نے تین مرتبہ فرمایا، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے کہا کہ تم بھی عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں دعا کرو۔ (ازالۃ الخفاء)
    (۴) حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں دو بار مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مزید توسیع کی، اپنی خلافت کے دوسرے سال 26ھ میں اور پھر 29ھ میں، دوسری مرتبہ تراشیدہ پتھروں سے اس کی تعمیر کی، ستون پتھر کے بنوا لیے اور چھت میں ساگوان لگوایا۔ اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ نے مسجد الحرام کی بھی توسیع و مرمت کروائی۔
    (۵) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہر جمعہ کو ایک اونٹ ذبح کرا کر اس کا گوشت راہ خدا میں غربا کو تقسیم کرتے تھے۔
    (۶) آپ حج کے موقع پر ۸ ذیقعد کو منیٰ میں اپنی طرف سے تمام حجاج کے کھانے کی دعوت فرماتے تھے۔
    (۷) آپ رمضان شریف میں اپنی طرف سے متعدد مقامات مثلاً حرم کعبہ، مدینہ منورہ، کوفہ، بغداد وغیرہ میں کھانے کا انتظام فرماتے تھے۔
    یہ تو چند ایک واقعات تھے۔ تفصیلات کے لیے بڑی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں۔

    خلافت:
    جب حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنھم حملے میں شدیدزخمی ہوگئے اور ان کے انتقال کا وقت قریب آنے لگا تولوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت سے پہلے آپ سے درخواست کی کہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ مقرر کر دیں۔ پہلے تو آپ تیار نہ ہوئے مگر لوگوں کے زور دینے پر آپ نے چھ آدمیوں کی ایک کمیٹی بنادی، جس کے ارکان میں حضرت عبدالرحمن بن عو ف رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ (نبی کریم ﷺ نے ان تمام حضرات کے جنتی ہونے کی بشارت دی ہے) شامل تھے، اور فرمایا کہ ان میں کسی ایک شخص کو منتخب کرکے امیر بنا لو۔اس کے بعد حضرت مقداد رضی اللہ عنہ بن اسود کو حکم دیا کہ جب مجھے دفن کرکے فارغ ہو جائیں تو ان چھ آدمیوں کو ایک مکان میں جمع کرنا تاکہ یہ اپنے آپ میں سے کسی کو امیر منتخب کرلیں۔اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہما) کے بارے میں بطور خاص وصیت فرمائی کہ دوسروں کی طرح انھیں بھی رائے دینے کے لیے بلا لینا لیکن امارت سے ان کو کوئی سروکار نہ ہوگا، فیصلہ کثرت رائے سے ہوگا۔ چنانچہ ان حضرات نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو یہ اختیار دیا کہ وہ جسے چاہیں خلیفہ مقرر کردیں، انھوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کی ابتدا یکم محرم 24ھ مطابق 7 نومبر 644ء سے ہوئی۔ آپ کو عوام نے کھلے طور پر بھی منتخب کیا، اور نامزد کمیٹی کے فیصلہ کی تائید کی۔ بیعت خلافت سے کسی شخص نے بھی انکار نہیں کیا بلکہ بیعت کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ہم نے اپنے میں سے افضل ترین شخص کی بیعت کی اور ہم نے (افضل کے انتخاب میں) کوتاہی نہیں کی‘‘۔
    دور عثمانی ؓ کے نمایاں کارنامے
    (۱) اسلام میں اول وقف عام مسلمانوں کے لیے بیر رومہ خرید کرکیا۔
    (۲) بیت المال سے مؤذنین کے لیے وظائف کا تقرر فرمایا۔
    (۳) پولیس کا محکمہ قائم فرمایا۔
    (۴) تمام مسلمانوں کو ایک قرأت پر متفق کیا، اسی وجہ سے آپرضی اللہ عنہ ’’جامع القران‘‘ بھی کہلاتے ہیں۔
    (۵) جگہ جگہ ضرورت کے تحت سڑکیں اور پل تعمیر کرائے۔
    (۶) مفتوحہ علاقوں اور ملکوں میں مساجد اور دینی مدارس قائم کیے۔
    (۷) ملک شام میں سمندری جہازوں کے بنانے کا کارخانہ قائم کیا۔ جہاں لبنان کے جنگلات سے لکڑی لائی جاتی تھی۔
    (۸) مدینہ کو سیلاب سے بچانے کے لیے ایک بند تعمیر کرایا۔
    (۹) جگہ جگہ پانی کی نہریں نکلوائیں۔ مدینہ اور دوسرے شہروں میں نئے کنویں کھدوائے۔ غرض تعمیرات عامہ کے پیش نظر دوسرے شہروں میں بھی سرکاری عمارتیں، سڑکیں وغیرہ تعمیر کرائیں۔ آپرضی اللہ عنہ نے رفاہ عامہ کے بہت کام کرائے۔
    (۱۰) عرب میں اسلام سے پہلے سونے اور چاندی کے ایرانی اور رومی سکے رائج تھے۔ آنحضرت ﷺ اور خلیفۂ اول حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے وقت میں یہی سکے چلتے تھے۔ جب ایران فتح ہوگیا تو 18ھ میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کے حکم سے ایرانی سکوں کے نمونوں پر مختلف وزن کے درہم ڈھالے گئے اور نقش میں تبدیلی کردی گئی کسی پر لاالہ الا اللّٰہ اور کسی پر محمدرسول اللہ اور کسی پر صرف عمر تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں جو درہم و دینار ڈھالے گئے ان کا نقش ’’اللہ اکبر‘‘ تھا۔

    خلیفۂ راشد کے خلاف زیرزمین سازش
    کوفہ کی ایک جماعت جس میں اشتر نخعی، ابن ذی الحبکہ، جندب، صعصعہ بن الکوار، کمیل اور عمیر بن ضابی وغیرہ خاص طور پر شامل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ملک کی امارت اور سیاست پر صرف قریش کا حق نہیں۔ دوسرے مسلمانوں نے بھی ملک فتح کیے ہیں، اس لیے وہ بھی اس کے مستحق ہیں۔ اسی طرح بصرہ میں بھی ایک سازشی جماعت تھی۔ مفسدین کا سب سے بڑا مرکز مصر تھا جہاں ایک یہودی النسل عبد اللہ بن سبا نے الگ فرقہ بنایا ہوا تھا۔ یہ سب گروہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو معزول کرنے اور بنوامیہ کے خاتمے پر متفق تھے۔ عبداللہ بن سبا نے ان سب جماعتوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مخالفت پر متحد کردیا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ اقدام کیا کہ انھوں نے تمام گورنروں کو مدینہ منورہ میں طلب کیا اور مجلس شوریٰ بلائی گئی جس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مختصر تقریر کے بعد سب کی رائے طلب کی۔ ملک کے مختلف حصوں میں حالات کی تحقیق کے لیے وفود روانہ کیے۔ تمام ملک میں ہنگامی اعلان جاری کیا کہ جس کسی کو گورنر سے شکایت ہو وہ حج کے موقع پر خلیفہ سے بیان کرے۔ حج سے چند دن پہلے بصرہ، کوفہ اور مصر کے فتنہ پر دازوں نے آپس میں طے کرکے اپنے اپنے شہر سے حاجیوں کے روپ میں مدینہ منورہ کا رخ کیا۔ شہر سے باہر قیام کرکے اپنے چند سرکردہ افراد کو باری باری حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت زیبر رضی اللہ عنہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ (تاریخ طبری۔ البدایہ والنہایہ)
    حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مفسدین کے اجتماع کی خبر سنی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کو راضی کرکے واپس بھیج دیں۔ میں ان کے جائز مطالبات تسلیم کرلوں گا۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سمجھانے پر وہ واپس چلے گئے، لیکن پھر بعد میں مسلّح ہوکر مدینہ میں داخل ہوگئے، ان کی تعداد 500 کے قریب تھی۔ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہ حج پر گئے ہوئے تھے۔ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم موجود تھے انہیں بھی خلیفۂ وقت کی طرف سے مقابلے کی اجازت نہیں تھی، بلکہ سخت ممانعت تھی۔ باغی انتقام انتقام کے نعرے لگا رہے تھے۔ انھوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے خلافت سے دست برداری کا بھی مطالبہ کر دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مفسدین سے فرمایا:
    ’’جب تک مجھ میں جان باقی ہے، میں اس خلعت (خلافت) کو جو اللہ تعالیٰ نے مجھے پہنائی ہے، خود اپنے ہاتھوں سے نہیں اتاروں گا اور حضور ﷺ کی وصیت کے مطابق میں اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک صبر کروں گا‘‘۔
    حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خلافت سے کنارہ کشی کا مطالبہ مسترد کردیا تاکہ دستور اسلامی کی حفاظت ہوسکے، تو مفسدین نے ان کے گھر کا محاصرہ کرلیا جو چالیس روز سے زائد تک جاری رہا، اس عرصہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل خانہ کا کھانا پینا بند کر دیا گیا اور ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا، حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ کو بھی یہ چیزیں نہ لے جانے دیں۔ باغیوں نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی بھی ایک نہ سنی اور جب خلیفہ راشد کے ان ساتھیوں نے جو اس وقت قصر خلافت میں ایک بڑی تعداد میں موجود تھے، مفسدین سے جنگ کرنے کی اجازت طلب کی تو فرمایا:
    ’’میں باہر نکل کر ان سے جنگ کروں تو میں وہ پہلا خلیفہ نہیں بننا چاہتا جو امت محمدی کی خونریزی کرے‘‘۔
    پھر فرمایا ’’اگر ایک شخص کا بھی ارادہ ہو تو میں اس کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں کہ وہ میرے لیے اپنا خون نہ بہائے‘‘۔
    گورنر شام حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شام چلے آنے کی درخواست بھی مسترد کردی کہ میں دیارِ رسول کو نہیں چھوڑنا چاہتا۔
    جمعرات کو آپ رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ و حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف فرما ہیں اور ان سے فرما رہے ہیں: عثمان! جلدی کرو ہم تمھارے منتظر ہیں۔ (البدایہ والنہایہ)

    خلیفۂ راشد کی شہادت کا جاں سوزواقعہ:
    باغیوں کو خطرہ تھا کہ حج کے ایام ختم ہونے والے ہیں، حجاج کی واپسی کے بعد ان کے لیے اپنے مقصد کی تکمیل ممکن نہ رہے گی، چنانچہ بالآخر انھوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے گھر پر حملہ کر دیا۔ حضرت زیاد، حضرت مغیرہ اور حضرت نیار اسلمی رضی اللہ عنھم شہید ہوگئے، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ مروان اور حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ جو دروازے پر متعین تھے، مدافعت میں شدید زخمی ہوئے۔ چار باغی دیوار سے اندر کود گئے۔ اور آپ رضی اللہ عنہ پر پے درپے وار شروع کر دیے۔ آپ کی بیوی نائلہ نے آگے ہاتھ کیا جس سے ان کی بھی تین انگلیاں کٹ گئیں، بالآخر بروز جمعہ بوقتِ عصر روزے کی حالت میں تلاوت قرآن کے دوران ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ھ کو انتہائی مظلومانہ طریقے سے خلیفہ ثالث، جامع القرآن، کامل الحیاء والعرفان حضرت سیدنا عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوگئی۔ شہادت کے وقت قرآن مجید کھلا ہوا تھا اور آپ رضی اللہ عنہ سورۃ بقرہ کی تلاوت فرما رہے تھے، آپ رضی اللہ عنہ کے جسم اطہر سے فواروں کی طرح نکلنے والے خون کے پہلے قطرے کو قرآن مجید نے اپنے اندر جذب کیا اور اس آیت پر آپ کا لہو مبارک گرا: ’’فسیکفیکہم اللہ‘‘ (اور اللہ تعالیٰ تم لوگوں کے لیے کافی ہوجائے گا) شہادت سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کی زبان سے یہ آخری کلمہ نکلا:’’بسم اللّٰہ توکلت علی اللّٰہ‘‘(اللہ کے نام کی برکت سے، میں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسا کیا)۔
    حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر سن کر بڑے افسوس سے فرمایا:’’ اے لوگو! اب تم پر ہمیشہ تباہی رہے گی‘‘۔
    ان کی یہ بات محض ان کے ظن و تخمین کی پیداوار نہ تھی بلکہ مخبرصادق صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس بات کی نشان دہی فرمائی تھی کہ ۳۵ھ میں اسلام کی چکی گھومے گی اور یہ بھی فرمایا تھا کہ جب ایک بار مسلمانوں کے درمیان تلوار چل پڑے گی تو وہ پھر کبھی نیام میں نہ جاسکے گی۔
    حضرت زبیر رضی اللہ عنہ یا حضرت جبیر رضی اللہ عنہ بن مطعم نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع کے باغ میں دفن کردیے گئے۔ (رضی اللہ عنہ وارضاہ)

  • عیدقرباں اور کانگو وائرس کا چرچا – مولانامحمد جہان یعقوب

    عیدقرباں اور کانگو وائرس کا چرچا – مولانامحمد جہان یعقوب

    %d9%85%d9%88%d9%84%d8%a7%d9%86-%d8%ac%db%81%d8%a7%d9%86-%db%8c%d8%b9%d9%82%d9%88%d8%a8 عید قرباں قریب ہے۔ مسلمان ہوش ربا مہنگائی کے باوجوداللہ تعالیٰ کی توفیق سے جانوروں کی خریداری کر رہے ہیں۔ بعض لوگ ہر معاشرے میں ایسے پائے جاتے ہیں جو اپنے مخصوص مفادات کے اسیر ہوتے ہیں۔ انھیں کسی کی جان، ایمان، عقیدہ، نظریہ، دین، دھرم غرض کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی۔ انھیں صرف اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اکثر کسی قوت کے تنخواہ دار ملازم ہوتے ہیں، سو انھیں اپنی تنخواہ ’’حلال‘‘ کرنے سے غرض ہوتی ہے۔ یہ کسی کے غلام ہوتے ہیں اور ان کا مطمح نظر صرف اپنے مائی باپ اور آقا ولی نعمت کی خوشنودی ہوتا ہے۔ یہ مجبور ہوتے ہیں سو ان مجبوروں کو معذور ہی جاننا چاہیے۔

    عید قرباں کے نام سے ہی مترشح ہے کہ مسلمان اس عید میں ایک عظیم فریضہ ادا کرتے ہیں،جسے قربانی کہا جاتا ہے۔ یہ قربانی کیا ہے؟ یہ ہمیں کسی لبرل اور سیکولر سے پوچھنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ آج سے سوا چودہ سو سال قبل صحابہ کرام رضی اللہ عنھم یہ سوال حبیب کبریا ﷺ سے کرچکے اور جواب آچکا: یہ تمھارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔گویا، اس کوسمجھنے کے لیے کسی طویل عقلی فلسفے کی ضرورت نہیں۔ کسی حیل وحجت کی مجال بھی نہیں کہ یہ سنت ابراہیمی ہے اور تمھارے دین کا ایک نام ملت ابراہیمی بھی ہے، سوتم اس پر عمل کرو۔ اس کے بدلے کیاملے گا؟ اس کا جواب بھی آگیا: جانور کے ہر بال اور اون والے جانور کی اون کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ یہ جانور پل صراط پر تمھاری سواری کا کام دیں گے۔ جانور کا خون زمین پر گرتے ہی تمھارے صغیرہ گناہ معاف ہوجائیں گے۔ اب ایک سوال رہ جاتاتھا، کہ کیا ہم اس خطیر رقم سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا کوئی اور کام ان دنوں میں، قربانی کے بجائے کرسکتے ہیں، مثلاً: خدمت خلق، غریب بچیوں کی شادیاں، رفاہ عامہ کے کام، کہ یہ سب بھی ثواب کے کام ہیں اور اللہ کی رضا و خوشنودی کا حصول ان کے بدلے بھی ہو سکتا ہے۔ اس کا بھی آقائے نامدارﷺ نے دوٹوک جواب ارشاد فرما دیا: ان دنوں میں قربانی کے جانور کا خون بہانے سے بڑھ کر کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب ہی نہیں۔ لیجیے! اب معاملہ صاف ہوگیا کہ قربانی ہی کرنی ہوگی، اس کا کوئی نعم البدل نہیں، اس کے برابر یا اس سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو امت مسلمہ، اپنی تمام تر دینی پستی کے باوجود اچھی طرح سمجھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر سال قربانی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی نوٹ کیا گیا ہے۔ حالانکہ قربانی کے خلاف دلائل کے نئے نئے رخ سے ہر سال سامنے لائے جاتے ہیں۔ نئے نئے حربے، نت نئے حیلے، شیطان اپنے دوستوں کو نئی سے نئی باتیں سجھاتا رہتا ہے، سو دھول اڑائی جا رہی ہے، اڑائی جاتی رہے گی اور سو باتوں کی ایک بات مسلمان ایک ہی جواب دیں گے، اپنے عمل سے بھی اور زبان حال سے بھی
    تجھے خودی پسند مجھے خدا پسند
    تیری جدا پسند میری جدا پسند

    آج کل قربانی کے جانوروں سے لگنے والی ایک بیماری کا کافی چرچاہے، جسے کانگو وائرس کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ایک بخار ہے جس کے بارے میں ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ: کانگو بخار یعنی ’کریمین کانگو ہیمرجک فیور‘ جان لیوا بخار ہے جو مویشیوں کی جلد میں موجود ٹکس (پسو)کی وجہ سے ہوتا ہے، اگر یہ ٹکس کسی انسان کو کاٹ لیں تو وہ انسان فوری طور پر کانگو بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے، اس کے جراثیم ایک متاثرہ شخص سے دوسرے صحت مند شخص کو فوری طور پر لگ جاتے ہیں، یہ ایک متعدی بیماری ہے، جس میں شرح اموات بہت زیادہ ہے۔ فوری علاج پر توجہ نہ دی جائے تو جگر اور تلی بڑھ جاتی ہے، ناک، کان، آنکھوں اور مسوڑھوں سے خون رسنا شروع ہوجاتا ہے اور انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ مریض اس بیماری کے دوسرے ہفتے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اب تک اس سے بچاؤ کی کوئی ویکسین موجود نہیں۔

    یہ بیماری وطن عزیز میں کب آئی، اس کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ: اس وائرس کی پہلی شکار آزاد کشمیر کے علاقے باغ کی ایک خاتون تھی، ڈاکٹروں کے مطابق یہ مریضہ کانگو وائرس کا شکار ہو کر زرد بخار میں مبتلا ہوئی جس کی وجہ سے وہ جانبر نہ ہو سکی۔ اب تک اس بخار سے ہونے والی اموات کی تعداد دس بتائی جاتی ہے۔

    اطلاعات کے مطابق چیک پوسٹیں قائم کی جا رہی ہیں، جو باہر سے شہر میں آنے والے ہر جانور کا طبی معائنہ کرکے اس میں گانگو وائرس کی موجودگی یا عدم موجودگی کی تصدیق کرے گا۔ لیکن پنجاب اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر سید وسیم اختر کا یہ سوال وزن رکھتاہے کہ قربانی کے جانوروں میں کانگو وائرس ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق کون کرے گا؟ یہ ضمانت کون دے گا کہ ہسپتالوں یا لیبارٹریوں میں کانگو وائرس کی تشخیص کے لیے کٹ دستیاب ہے؟ عید الاضحی پرجانوروں کی چیکنگ کا کیا طریقہ ہوگا؟ یقینا ان سوالات کا جواب ضروری ہے اور اس سلسلے میں جو اقدمات اب تک بروئے کار لائے گئے ہیں وہ ناکافی ہیں۔

    طبی ماہرین کا یہ کہنا بھی وزن رکھتا ہے کہ اس وائرس کے ٹیسٹ انتہائی اہم ہیں اور ہر لیباریٹری میں ان کی سہولت بھی دستیاب نہیں۔ پاکستان، جہاں کی نصف آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جہاں شرح خواندگی بھی حوصلہ افزا نہیں، وہاں اس وائرس کی تشخیص جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ غریب جسے دو وقت نان جویں میسر نہیں، وہ ان مہنگے ٹیسٹوں کا تحمل کیسے کرے گا؟ حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ ان مسائل کوحل کرے، صرف ڈر اور خوف کی فضا پیدا کرنا یا قراردادیں منظور کرنا کافی نہیں۔مویشی منڈیوں میں صرف ویٹرنری ڈاکٹرز اور اسٹاف کی ہی ضرورت نہیں، وہاں آنے والوں کو فوری طبی امداد دینے کا بھی خاطرخواہ انتظام ہونا چاہیے۔ اب تک مویشی منڈیوں کی صورت حال تواسی بات کی غمازی کر رہی ہے کہ سارا زور جانوروں پر ہے۔

    اگر یہ قربانی سے روکنے ہی کی کوئی سازش ہے تو مسلمان ایسی سازشوں کا شکار نہ کبھی پہلے ہوئے ہیں اور نہ ہی آئندہ ہوں گے۔ ان شاء اللہ!
    اللہ ہم سب کو سنت ابراہیمی پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!

    (مولانامحمد جہان یعقوب، انچارج شعبہ تخصص فی التفسیر، جامعہ بنوریہ عالمیہ، سائٹ، کراچی)

  • امجد صابری کے قاتل کی گرفتاری، پیغام کیا ہے – مولانا محمد جہان یعقوب

    امجد صابری کے قاتل کی گرفتاری، پیغام کیا ہے – مولانا محمد جہان یعقوب

    محمد جہان یعقب ایم کیوایم لیاقت آباد کے سیکٹر انچارج شہزاد ملا نے اعتراف کر لیا ہے کہ قوال امجد صابری کو 25 لاکھ روپے بھتا نہ دینے کے ’’جرم‘‘میں قتل کیا۔ یہ خبرکراچی کے مکینوں کے لیے کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے۔ اب تک امجد صابری کے قتل کے الزامات جو مخالف فرقوں پر لگائے جا رہے تھے، وہ یکسر غلط ثابت ہوئے۔ مثلاً: امجدصابری کے قتل کے بعد ایک داستان کی بنیاد پر اہل تشیع سے جوڑا گیا، اسی طرح امجد صابری کا تعلق بریلوی فرقے سے ہونے کی وجہ سے اس کے قتل کا الزام دیوبند مکتبہ فکر پر بھی لگایاگیا اور دونوں طرح کے الزام لگانے والوں نے بزعم خود جن کو قاتل ڈکلیئر کیا تھا، ان کے خلاف کارروائی کے مطالبے کیے، اہل تشیع اور دیوبند مکتبہ فکر کے خلاف بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کو اکسایا اور فتوے بازیاں کی گئیں۔

    ماضی میں بھی ٹارگٹ کلرز کے اعترافی بیانات میڈیا کی زینت بنتے رہے ہیں کہ ہمیں انارکی اور مسلکی و مذہبی نفرت پھیلانے کے لیے پہلے ایک مسلک کے کسی فرد کو قتل کرنے اور اس کے بعد مخالف مسلک کے آدمی مارنے کے آرڈر دیے جاتے تھے۔ اصل قاتلوں کے اعترافی بیان سے بھی اس کی تصدیق ہوگئی کہ نہ کوئی سنی کسی شیعہ کو مارتا ہے اور نہ ہی کوئی شیعہ کسی سنی کو قتل کرتا ہے، نہ بریلوی دیوبندی ایک دوسرے کا خون حلال سمجھتے ہیں، بلکہ ایک تیسری قوت ہے جو اس قسم کا مکروہ کھیل کھیلتی ہے اور الزام مخالف مسلک پر لگاکر، دونوں مسلک کے ماننے والوں کو باہم دست وگریباں کرکے اگلے قتل کی تیاری میں لگ جاتی ہے۔

    ہم یہاں تمام مسالک و فرقوں اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما، خطبا، مفتیان کرام اور عوام سب کی توجہ ایک اہم بات کی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں، وہ یہ کہ رائے کا اختلاف قرون اولیٰ میں بھی موجود تھا، لیکن اس رائے کے اختلاف کو بحیثیت مجموعی ہر مسلک، فرقے اور مکتبہ فکر نے عملی حدود میں رکھا۔ اپنے مسلک و فرقے کے مطابق عمل ضرور کرتے رہے، لیکن کسی کو صرف اس بنیاد پر کافر یا قابل گردن زنی قرارنہیں دیا کہ اس کا مسلک یا فرقہ دوسرا ہے۔ اگر کسی مسلک و فرقے سے تعلق رکھنے والے کچھ جذباتی اور عاقبت نااندیش لوگوں نے ایسی کوئی جسارت کی بھی توان کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ ایسی درجنوں مثالیں ہمیں اپنے اکابر و اسلاف کی سیرت و سوانح میں ملتی ہیں۔ انھی کے نام لیواؤں کا آج تکفیر کی دکانیں سجانا افسوس ناک ہے۔

    دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی نے ایک عالم دین مولانا محمداحسن امروہوی کے ایک خط میں مذکور سوال کا جواب مکتوب الیہ کی علمی شان کے مطابق تحریر کیا، جو منطق وفلسفہ کی باریکیوں پر مشتمل تھا، یہ کوئی عیب بھی نہیں تھا، کیوں کہ جن کے نام تھا وہ بھی منطق و فلسفہ کے امام سمجھے جاتے تھے۔ اس علمی جواب سے مولانا امروہوی اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے مولاناقاسم کے علم میں لائے بغیر اسے شائع کرا دیا۔ جب یہ تحریر منظرعام پر آئی تو اسے بنیاد بنا کر بدایوں سے تعلق رکھنے والے کچھ ابن الوقت قسم کے علما نے ان کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کر دیا اور انھیں ختم نبوت کا منکر تک کہہ دیا۔ جب یہ بات مولانا قاسم کے علم میں آئی تو انھوں نے مولانا امروہوی کو سرزنش کی کہ انھوں نے اسے شائع کیوں کیا۔ ایک سفر میں کسی نے انھیں اہل بدایوں کارسالہ دکھایا تو ایک لمحے کا تامل کیے بغیر اسی نشست میں اس کا جواب لکھ ڈالا، جس میں اپنی عبارتوں کی وضاحت کی، اعتراضات کے جواب دیے، اس جواب کی تمھید میں انھوں نے ایک شعر لکھا ہے، جواس دور میں تکفیر کی دکانیں چلانے والوں کے لیے حرزجاں بنائے جانے کے لائق ہے، آپ بھی ترجمہ ملاحظہ فرمائیے اور حظ اٹھائیے!
    کنی تکفیر اہل حق بباطل، چراغ دوغ رانبودفروغے
    مسلمانت بگویم درجوابش،دہم شہرت چراغ ترش دوغے
    اگر خود مومنے فبھاوگرنہ،دروغے راجزاباشد دروغے
    ترجمہ: توا ہل حق کو جھوٹے الزامات کی بنیاد پر کافر کہتا ہے، حالانکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، تیرے جواب میں میں تجھے مسلمان کہتاہوں، کھٹی لسی کے بدلے تجھے میٹھا دودھ پیش کرتا ہوں، اگر تو مؤمن ہے توبہت اچھی بات، ورنہ جھوٹ کے بدلے جھوٹ ہی ہے۔

    یہ تھا ان حضرات کا جگر، کہ کافرکہنے والے کو بھی باصرار مسلمان کہ رہے ہیں۔ دوسری طرف اس دور کے وہ علما جن کی طرف یہ اعتراض کرنے والے خود کو منسوب کرتے تھے، ان کے برعکس مولانا قاسم کے ایمان و اسلام کے فتوے ہی نہیں دیے بلکہ یہاں تک کہا کہ اگر وہ مسلمان نہیں تو پھر کوئی بھی مسلمان نہیں۔ انھی مولانا قاسم سے سرسید احمد خاں کو بھی شدید اختلاف تھا، بلکہ اس دور میں دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی دوعلیحدہ کشتیوں کے سوار سمجھے جاتے تھے، اس کے باوجود وہ مولاناقاسم کی تعریف میں رطب اللساں رہا کرتے تھے اور مولانا ان کی تعریف میں، چنانچہ سرسید مرحوم نے مولانا کی وفات پر لکھا: ان کی تمام خصلتیں فرشتوں کی سی تھیں، ہم اپنے دل سے ان کے ساتھ محبت رکھتے تھے۔ ایسے شخص سے زمانے کا خالی ہو جانا ان لوگوں کے لیے جو ان کے بعد زندہ ہیں نہایت رنج و افسوس کاباعث ہے۔

    ان مثالوں کو ذکر کرکے ہم تمام مسالک اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے مقتداؤں اور پیشواؤں سے عرض کرناچاہتے ہیں کہ ایسی فضا پیدا کیجیے، ایک دوسرے کو برداشت کیجیے، اختلاف کو مخالفت اور دشنام طرازی کا بہانہ نہ بنائیے، یہ وقت محبتیں بانٹنے کا ہے، اس قوم کو مزید تقسیم ہونے سے بچائیے۔ ورنہ آپ کی شدت پسندی کا فائدہ اسی قسم کے طالع آزما اٹھاتے اور ناحق خون مسلم بہاتے رہیں گے۔ آپ باہم شیر وشکر ہوں گے تو یہ عناصرمذہبی بنیاد پر قتل وغارت کا کارڈ مزید نہ کھیل سکیں گے۔

    اس سلسلے میں ہماری سول و فوجی قیادت کو بھی اپنی ذمے داریوں کی ادائی میں مزید تن دہی کا ثبوت دینا ہوگا۔ مذہبی شدت پسندی کا اصل منبع تلاش کرنا ہوگا۔ نفرتوں کا پرچار مدارس و مساجد سے نہیں کہیں اور سے ہوتا ہے۔ اس کا کھوج لگائیے اور اس کے اسباب کا قلع قمع کیجیے، اس دھانے کو ہمیشہ کے لیے بند کیجیے۔ محرم الحرام میں مذہبی قتل و غارت کا مکروہ کھیل شروع ہونے کی حوصلہ شکنی کے لیے ماضی کے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ابھی سے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ نقصان ہوجانے کے بعد منصوبہ بندی اور پلاننگ سے بہتر ہے کہ مستقبل کی پیش بندی ابھی سے کرلی جائے۔ اللہ پاک وطن میں بسنے والے تمام مسلمانوں اور اقلیتوں کو باہم شیر و شکر فرما کر نفرتوں کے اندرونی و بیرونی سوداگروں کو ان کے مذموم و مکروہ مقاصد و عزائم میں ناکام و نامراد فرمائے۔آمین!

    (مولانا محمد جہان یعقوب جامعہ بنوریہ عالمیہ،سائٹ،کراچی میں شعبہ تخصص فی التفسیر کے انچارج ہیں)

  • سائبر کرائم بل ،ایک درست قدم – مولانامحمد جہان یعقوب

    سائبر کرائم بل ،ایک درست قدم – مولانامحمد جہان یعقوب

    محمد جہان یعقب سوشل میڈیا دورحاضر میں ایک ایسا ذریعہ ابلاغ ہے جس پر ہر شخص کو اختیار حاصل ہے۔اس کا استعمال بلاامتیاز ہر پاکستانی کرسکتا ہے، جس کا عملی اظہار سوشل میڈیا میں ہونے والی ایکٹیوٹیز سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا نے اسی طرح الیکٹرانک میڈیا، بالخصوص چینلز کی اہمیت گھٹا دی ہے، جس طرح ماضی قریب میں الیکٹرانک میڈیا نے پرنٹ میڈیا کی اہمیت کم کردی تھی۔ پرنٹ میڈیاکی اہمیت کم ہونے کے باوجود وہ زندہ ہے، بلکہ اس میں نئی نئی جہتیں متعارف ہور ہی ہیں، اسی طرح سوشل میڈیا کے باوجود چینلز کا وجود برقرار رہے گا۔ یہ بات بہرحال تسلیم کی جانی چاہیے کہ چینلز میں مافیائی راج کے بعد سنجیدہ طبقے نے سوشل میڈیا ہی کو اپنے لیے ذریعہ ابلاغ کے طور پر منتخب کیا، چاہے اس کا تعلق کسی بھی شعبہ زندگی سے ہو۔ یوں سوشل میڈیا ایک تیز ترین ذریعہ اظہار کی شکل اختیار کرگیا۔ ارزاں اور ہرشخص کی پہنچ میں ہونے کی وجہ سے اس کو شر پھیلانے کا ذریعہ بھی شریر ذہن لوگوں نے بنایا۔ معاشرے کے بعض مسترد شدہ طبقات نے بھی اپنی پبلسٹی کے لیے استعمال کیا، جس سے قندیل بلوچ جیسے سانحے رونماہوئے۔ اسے تخریبی ذہن کے حامل لوگوں نے بھی خوب استعمال کیا۔ یہ تمام باتیں تسلیم شدہ حقائق ہیں، جن کا انکار چڑھتے سورج کے انکار کے مترادف ہے۔

    سیاست ہو یا مذہب، معاشرت ہو یا سماجی زندگی، سب میں قوت برداشت اور تحمل سے مخالف کی بات سننے کا فقدان ہمارا من حیث القوم بہت بڑا المیہ ہے، جس کے مظاہر مختلف ٹاک شوز میں بھی دیکھے جاتے رہے ہیں، اراکین پارلیمنٹ بھی اس اجتماعی اخلاقیات کا عملی مظاہرہ کرتے رہتے ہیں، اب تو ایوان کو مچھلی بازار بنانے کی اصطلاح سے بڑھ کر اراکین پارلیمنٹ کے مجموعی رویوں کی ترجمانی کسی اور لفظ سے کی بھی نہیں جاسکتی۔ یہی المیہ منبر و محراب کا بھی ہے، وہاں بھی مخالفین پر الفاظ کے بم برسائے جاتے ہیں، جوکسی سے مخفی نہیں۔ اسی رویے کا پرتو ہماری معاشرتی و سماجی زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔ یہ ایک اجتماعی اخلاقیات کی تصویرکشی ہے، جب اس کے حامل لوگ سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں تو وہ شتر بےمہار بن جاتے ہیں۔ انھیں کسی قسم کا ڈر اور خوف نہیں ہوتا۔ اکثر تخریبی و جذباتی ذہن کے لوگ اپنی پہچان بھی مخفی رکھتے ہیں۔سوشل میڈیا میں اس قسم کے مظاہر تلاش کرنے کے لیے کسی محنت کی ضرورت نہیں، ہر طرف ایسے مظاہر بکھرے پڑے ہیں۔ ان کا اظہار پوسٹوں کی شکل میں بھی ہوتا ہے، کارٹونز اور لطیفوں کی شکل میں بھی، مخالف کے خلاف لفظوں کے تیر و نشتر بھی بڑی فیاضی سے برسائے جاتے ہیں اور اپنی سوچ دوسروں پر مسلط کرنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہمیشہ محسوس کی گئی کہ اس طوفان بدتمیزی کو روکنے کی کوئی سبیل تلاش کی جائے، کوئی مداوا اس اخلاقی تعفن کی تطہیر کا بھی ہونا چاہیے، کوئی روک اس رجحان پر بھی لگائی جانی چاہیے۔

    اس صورت حال میں یہ خبر تازہ ہوا کے ایک جھونکے کی حیثیت سے سنی گئی کہ حکومت سائبر کرائم بل لے کر آئی ہے، جس کی قائمہ کیٹی کے ساتھ ساتھ سینیٹ سے بھی منظوری لے لی گئی ہے، سینیٹ میں سائبر کرائم بل 2015ء وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمن نے پیش کیا، جس پر اپوزیشن کو کافی اعتراضات تھے، تاہم بحث وتمحیص کے بعد ان اعتراضات کو دور کرلیا گیا اور اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئی 50 ترامیم کو بھی بل کا حصہ بنا لیاگیا۔اب یہ بل قومی اسمبلی سے منظوری اور صد ر کے دستخطوں کے بعد نافذالعمل ہوجائے گا، جس میں بظاہر کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ آئیے! بل اور اس میں کی جانے والی ترامیم کاجائزہ لیتے ہیں:
    اس بل میں سب سے خوش آئند امر یہ ہے کہ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ عدالت کی اجازت کے بغیر سائبرکرائم کی تحقیقات نہیں ہوسکیں گی۔ اس شق پر عملدرآمد از حد ضروری ہے، ورنہ اس بات کا یقینی خطرہ ہے کہ پولیس اس کا ناجائز فائدہ اٹھائے گی، جیسا کہ پولیس کی ریت رہی ہے، پولیس اہلکار ہر نئے قانون کو داداگیری کے لیے استعمال کرتے ہیں، کراچی کے شہریوں کو ڈبل سواری پر پابندی کے دنوں میں اس کا تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ پولیس کی اس سوچ کا تمام تر نزلہ ان لوگوں پر گرتا ہے جو کسی مضبوط لابی، کسی بڑی شخصیت کی پشت پناہی، کسی جماعت کی رکنیت، کسی مافیا سے وابستگی اور کسی مادی و مالی سہارے سے محروم ہوتے ہیں۔ ان بے چاروں پر ہی ہمیشہ برق گرتی ہے۔ قوی امکان تھا کہ سائبر کرائم بل کو بھی ان مقاصد کےلیے ہتھیار بنالیا جائے گا، مذکورہ شق سے اس خطرے کے سدباب کی سبیل نکلتی معلوم ہوتی ہے۔ اس حوالے سے مزید واضح اور غیر مبہم اقدامات ضروری ہیں۔ سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ کی مشاورت سے عدالت قائم کرنے کی شق میں اب اپوزیشن نے یہ ترمیم کرادی ہے کہ سائبر کرائمز کی روک تھام کے حوالے سے قائم کی جانے والی ان خصوصی عدالتوں کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے کے خلاف 30 دن میں ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرنے کی اجازت ہو گی۔ یہ ترمیم بھی خوش آئند ہے، اس سے بےگناہوں کوملوث کیے جانے کے امکانات بھی کم سے کم ہوجائیں گے اور عدلیہ کو بھی مزید موقع ملے گا، جس سے انصاف کا حصول ہر شخص کے لیے آسان ہوجائے گا۔ ایک اہم ترمیم یہ بھی کی گئی کہ سیکیورٹی ایجنسیز کی مداخلت کی روک تھام کے حوالے سے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سیکورٹی ایجنسیز کا اس ملک کے امن واستحکام میں کلیدی کردار ہے، تاہم ان کی جانب سے ناانصافیوں کے واقعات بھی اب کوئی سربستہ راز نہیں رہے، جس کے مختلف عوامل ہوسکتے ہیں۔ اس تناظر میں ان کی مداخلت کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جانے ضروری تھے، جس کی امید پیدا ہو چلی ہے۔ اللہ کرے یہ بیل منڈھے چڑھ جائے۔

    یہ بات زبان زد عام ہے کہ اس ملک میں جن مسائل کو حکمرانوں نے ارادتاً لاینحل بنائے رکھا، فرقہ واریت کا سدباب بھی ان میں سے ایک ہے۔ یہاں امن عامہ کے لیے جو بھی قانون بنتا ہے، جو بھی آرڈیننس آتا ہے، جو بھی لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے یا جو بھی اجلاس ہوتا ہے، اس میں یہ بات زور و شور سے کی جاتی ہے کہ ملک سے فرقہ واریت کاخاتمہ ہماری اولین ترجیح ہے۔ ہر اقدام اور قانون کی تان اسی پر آ کر ٹوٹتی ہے، لیکن فرقہ واریت ہے کہ آکاس بیل کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے، اس عفریت میں اضافہ ہی دیکھنے میں آتاہے، یہ ناسور پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ کہنے والے یہاں تک کہتے ہیں کہ فرقہ واریت کے سدباب کےلیے بروئےکار لایا جانے والا ہر قدم اس کوتازہ پانی دیتاہے۔ ہم حقائق کی کھوج لگائیں تو نظر آتا ہے کہ ملک میں 1978ء تک فرقہ واریت کانام و نشان تک نہیں تھا۔ یہاں شیعہ بھی بستے تھے اور سنی بھی، لیکن وہ باہم دست وگریبان ہوتے کبھی نہ دیکھے گئے۔ 1979ء میں پڑوسی ملک میں آنے والے انقلاب اور اس کے نتیجے میں وطن عزیز میں ہونے والی کارروائیوں نے یہاں فرقہ واریت کو ہوا دی، یہ بحث جو، اب تک منبر ومحراب تک محدود تھی عوام میں آگئی، پھر تکفیر ی فتاویٰ کا دور آیا، جانبین کے افراد قتل کیے جانے لگے، یوں دلائل کی بحث نے تصادم کی شکل اختیارکرلی، اس آگ کوب ھڑکانے میں تحریری لٹریچر کا بھی کلیدی کردار رہا، اس کے ذریعے تعفن پھیلایاگیا، پھر عمل اور ردعمل کا سلسلہ جو شروع ہوا ہے تو اب تک جاری ہے۔ اس کا سبب اگر اس سوچ کی حامل جماعتیں ہوتیں تو پرویزمشرف کی جانب سے ان جماعتوں پر پابندی لگنے کے بعد یہ سلسلہ تھم جاناچاہیے تھا، لیکن ایسانہیں ہوا۔ حالیہ بل میں یہ شق بھی موجود ہے کہ نفرت انگیز تقریر، فرقہ واریت پھیلانے اور مذہبی منافرت پر 7سال سزا ہوگی۔ یہ سزا بھی کم ہے۔ اس میں مزید اضافہ کیا جانا چاہیے۔ لیکن اگر ہماری سیاسی و ملٹری قیادت فرقہ واریت کے خاتمے میں مخلص ہے تو اسے اسباب پر بھی غور کرنا چاہیے۔ جب تک غیر جانبدارانہ و منصفانہ اقدامات بروئے کار نہیں لائے جاتے، ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں اس بل میں موجود اس شق کی وجہ سے بھی کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ جس معاشرے میں بےرحم و غیر جانبدارانہ انصاف نہ ہو، جہاں سب کو ایک آنکھ سے دیکھنے کی روایت موجود نہ ہو، جہاں فیصلے دباؤ کے تحت کیے جانے کی روش عام ہو، جہاں کتوں کو آزاد رکھنے اور پتھروں کے باندھنے کو مسئلے کا حل سمجھاجاتا ہو، وہاں مسائل بڑھتے ہیں ختم نہیں ہوتے۔کاش! جنرل راحیل شریف قیام امن کے لیے ایک قدم اور بڑھاتے اور فریقین کو بٹھا کر معاملے کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔ بنابریں، یہ شق مناسب ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں، وطن عزیز میں بیٹھ کر دوسرے ممالک کی دلالی و نمک حلالی میں وطن عزیز کی اساس کو زک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کا ناطقہ بند کرنے کے لیے اس شق پر مکمل دیانت داری کے ساتھ عمل کرایا جانا چاہیے۔

    انٹرنیٹ کے ذریعے دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے پر 7 سال قیدکی سزا بجا، لیکن دہشت گردی کی تعریف اور دہشت گردوں کی پہچان کرائی جانی چاہیے، کہ رہبر کے روپ میں رہزنوں کی بھی کمی نہیں۔ دھوکہ دہی پر 3 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ، بچوں کی غیراخلاقی تصاویر شائع کرنے یا اپ لوڈ کرنے پر 7 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ، انٹرنیٹ ڈیٹا کے غلط استعمال پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ، موبائل فون کی ٹیمپرنگ پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ، موبائل فون سموں کی غیر قانونی فروخت پر 5 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ، بالکل بجا ہے اور یہ شق بھی انتہائی اہم ہے کہ سائبر کرائم قانون کا اطلاق پاکستان سے باہر کسی بھی دوسرے ملک میں بیٹھ کر خلاف ورزی کے مرتکب افراد پر بھی ہوگا، عالمی سطح پر معلومات کے تبادلے کے لیے عدالت سے اجازت لی جائی گی اور دوسرے ممالک سے تعاون بھی طلب کیا جاسکے گا۔

    مذکورہ قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بےجا اختیارات دینے کے مترادف قرار دینے والوں کی نیت تو اللہ جانے، لیکن انسانی حقوق کا مطلب اسے مادر پدر آزادی فراہم کرنا بھی نہیں، آئین ہمیں کس قسم کی آزادی دیتاہے، یہ شق پڑھ لیجیے:’’اسلام کی عظمت، یا پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت، سلامتی یا دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیشِ نظر یا توہینِ عدالت، کسی جرم (کے ارتکاب) یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع، ہر شہری کو تقریر اور اظہارِ خیال کی آزادی کا حق ہوگا، اور پریس کی آزادی ہوگی‘‘۔ اس بل میں اگر مذہب، ملک، عدالت، افواج اور حکومت پر تنقید کو جرم قرار دے دیاگیا ہے، تواسے موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ سوشل میڈیا سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنے والا کوئی دانش مند شخص اس شق کی مخالفت نہیں کرسکتا۔

    اسی طرح آئی ٹی انڈسٹری کے نمائندوں کا یہ کہنا کہ مذکورہ بل ان کی تجارت کے لیے نقصان کا باعث بنےگا، محل نظر ہے۔ اس بل میں جرائم پر قدغن لگائی گئی ہے، درست طریقے سے کی جانے والی کوئی تجارتی سرگرمی اس کے دائرے میں ویسے بھی نہیں آتی، پھر واویلا چہ معنیٰ دارد! باین ہمہ، اس بل کی کوئی شق آئین پاکستان میں دی جانے والی تقریر کی آزادی، اظہار کی آزادی، میڈیا کی آزادی، بلاوجہ تلاش اور گرفتاری سے تحفظ، اور کاروبار کی آزادی چھیننے کا موجب بن سکتی ہے تو اس کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔

    اس بل میں مزید بہتری کی گنجائش اب بھی موجود ہے، خاص طور پر اس میں پائے جانے والے ابہام کودور کرنا ہوگا، ورنہ اس سے من مانے معانی و مطالب کشید کرکے مخالفین کو ہراساں کیا جا سکتا ہے، مثلاً: اس بل کی ایک شق یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز بات پھیلانے پر ایک کروڑ روپے جرمانہ اور پانچ سال کی قید کی سزا ہوسکتی ہے، تاہم نفرت انگیز بات کی وضاحت نہیں گئی، اگر سوشل میڈیا پر کسی بھی بات کو کسی مخالف نے نفرت انگیز قرار دے کر مقدمہ دائر کر دیا تو ٹرائل بھگتنا ہوگا۔ اسی طرح ایک شق یہ ہے کہ منفی مقاصد کے لیے اگر کسی ویب سائٹ کو بنایا جائے تو ایسے شخص کو 50لاکھ روپے جرمانہ اور تین سال کی قید ہوسکتی ہے، یہاں بھی ابہام ہے اور منفی مقاصد کی وضاحت نہیں کی گئی، اس ابہام کی وجہ سے کسی بھی ویب سائٹ کو منفی مقاصد کی قرار دے کر مقدمہ دائر کرنے کی راہ کھلتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک بات اور بھی ضروری ہے وہ یہ کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو آگہی فراہم کی جائے، جس سے وہ اچھے برے، صحیح غلط ، جہاد وفساد اور تعمیر وتخریب کا فرق اچھی طرح جان سکیں، ورنہ جس طرح ملکی آبادی کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا کو صرف تفریح اور وقت گزاری کا ذریعہ سمجھ کر استعمال کرتی ہے، اس کے لیے مسائل پیدا ہونے کا خطرہ ہے، بل کے نفاذ سے پہلے اس حوالے سے آگہی کا انتظام کیا جانا چاہیے، ملک میں خواندگی کی شرح کو دیکھ کر اس کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔
    سائبر کرائم قانون کا اطلاق پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا پر نہیں ہوگا۔ لیکن انھیں بھی بے مہار نہیں چھوڑناچاہیے، ان کے لیے بھی طے شدہ ضابطہ اخلاق کی پابندی لازمی کی جانی چاہیے۔
    (مولانامحمد جہان یعقوب جامعہ بنوریہ عالمیہ، سائٹ، کراچی میں ریسرچ اسکالر اور ڈین فیکلٹی آف قرآن )

  • بچوں کواغوا ہونے سے کیسے بچائیں – مولانامحمد جہان یعقوب

    بچوں کواغوا ہونے سے کیسے بچائیں – مولانامحمد جہان یعقوب

    پہلے معاصر روزنامہ نوائے وقت کی ایک خبر ملاحظہ فرمائیے:
    ’’بچوں کے اغوا کی وارداتوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہوگیا۔ لاہور کی ماتحت عدالتوں میں 6 ماہ کے دوران بچوں کے اغوا کے 219 مقدمات پیش کیے گئے۔ 6 ماہ میں اغوا اور لاپتہ بچوں کی تعداد 200 سے تجاوز کر گئی جو گذشتہ شرح سے تین گنا زیادہ ہے۔ تھانوں میں بچوں کے اغوا کی 181 ایف آئی آرز درج کی گئیں، جو کیس عدالتوں میں بھیجے گئے جبکہ باقی کیس شہریوں نے پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج نہ کرنے پر اندراج مقدمہ کے لیے عدالتوں میں درج کرائے‘‘۔

    صورتحال خاصی سنگین ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے والدین، اساتذہ اور رشتے داروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، تمام ذمہ داری پولیس اور اداروں پر ڈالنا اور اپنے حصے کی ذمے داری ادا نہ کرنا کسی طرح بھی مستحسن نہیں۔ آج ہم ماہرین کی بتائی ہوئی چند احتیاطی تدابیرآپ سے شیئر کرتے ہیں، جن پر عمل کر کے اس صورت حال پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔

    بچوں کو دن کے اوقات میں مندرجہ ذیل مقامات پر کئی وجوہ کی بنا پر آنا جانا پڑتا ہے۔ اسکول، مسجد یا مدرسہ، اکیڈمی، بازار، دوست یا رشتے داروں کی طرف، پارک یا گرائونڈ میں کھیلنے کے لیے! بچہ ان جگہوں میں سے کسی بھی جگہ جائے، اگر احتیاطی تدابیر کی جائیں تو کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ جب بچے خود اسکول جاتے آتے ہوں تودرج ذیل احتیاطی تدابیر پر عمل کریں:
    بچے کے کسی ایسے ہم جماعت کو ساتھی بنا دیں جو آپ کے پڑوس میں رہتا ہو، بچے کے کلاس انچارج کے ساتھ خصوصی رابطہ رکھیں۔ اگر بچے کو اسکول سے چھٹی کرنی ہے تو اس کی باقاعدہ فون پر یا بذریعہ درخواست کلاس انچارج کو ضرور اطلاع کریں۔ یہ بات بھی خصوصی طور پر اور باقاعدہ ایک انتہائی سنجیدہ معاہدہ کے تحت طے کر لیں کہ اگر بچہ اسکول گیٹ بند ہونے تک اسکول نہ پہنچے تو کلاس انچارج آپ کو گھر پر بغیر کسی تاخیر کے اطلاع دے، تاکہ کسی غیرمتوقع واقعے کی صورت میں آپ فورا کچھ کر سکیں۔ گھر اور اسکول آنے جانے کے کئی راستے ہوتے ہیں۔ آپ بچوں کو پابند کر دیں کہ وہ اپنا روٹ طے کر لیں جس کا سب کو علم ہو۔ کسی ایمرجنسی میں سب سے پہلے وہی روٹ چیک کریں، اسکول سے واپسی کے وقت سے بچہ اگر 1منٹ بھی لیٹ ہوتا ہے تو سب کام چھوڑ کر فورا مقررہ روٹ سے ہوتے ہوئے اس کی تلاش میں لگ جائیں. بچے کے خاص دوستوں کے بارے میں مختصر لیکن ضروری معلومات آپ کے پاس ہر صورت موجود بلکہ کسی ڈائری میں درج ہوں: مثلا دوست کا نام، گھر کا مکمل ایڈریس، فون، والد کا نام، دفتر یا کاروبار کا پتہ، عہدہ، فون، موبائل وغیرہ، کسی ناگہانی صورت میں آپ کے متوقع مددگار اور قریبی رشتے داروں کی لسٹ بھی آپ کے پاس تحریری صورت میں گھر میں کسی عام جگہ پر دستیاب ہونی چاہیے۔ بچے کو صرف اسی دوست کے گھر جانے کی اجازت ہو جس گھر کے ہر فردکے بارے میں آپ مطمئن ہوں۔ بچے سے واپسی کا وقت طے کر کے اسے بھیجیں۔ وہاں پہنچنے پر بچہ یا دوست کے گھر والے آپ کو اطلاع کریں اور واپسی کا جو وقت طے ہے اس پر سختی سے عمل کروائیں۔ دیر کی صورت میں بچے کے دوست کے گھر فورا رابطہ کریں۔ بچے کی اپنی عمر سے بڑے کسی بھی شخص سے یا کسی لڑکے سے دوستی ہرگز نہ ہونے دیں۔ یہی ہدایات مسجد، اکیڈمی جانے والے بچوں کے سلسلے میں بھی اختیار کی جائیں۔

    عموما دیکھا گیا ہے کہ گھر والے ضرورت کی چیزیں قسطوں میں منگوانے کے عادی ہوتے ہیں. یاد رکھیں، جتنی مرتبہ آپ چھوٹے کو باہر بھیجیں گے غیر متوقع صورتحال کا خطرہ بھی اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔ اس لیے بچے کو بار بار بازار بھیجنے سے گریز کریں۔ اگر بازار گھر سے دور ہے یا راستے میں کوئی بڑی سڑک پڑتی ہے یا چوک آتا ہے تو ایسی صورت میں کوشش کریں کہ بچہ بازار نہ جائے۔ لازم نہیں کہ بچے کے اغوا کا ہی خطرہ ہوتا ہے، مصروف یا چلتے بازار میں بچے کا خدانخواستہ ایکسیڈنٹ وغیرہ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر بچے کو بامر مجبوری بازار بھیج ہی دیا ہے تو قرآنی آیات اور دعائیں پڑھتے رہیں اور بچے کی واپسی کے وقت کا اندازہ لگا کر رکھیں۔ دوسری صورت میں فورا بچے کے پیچھے جائیں۔ بچے کو بھی ہدایت کریں کہ وہ خود بھی دعائیں وغیرہ پڑھتا رہے اور ادھر ادھر مصروف نہ ہو۔ یہ بات بچے کے ذہن نشین کرا دیں کہ دکاندار خواہ کتنا ہی جاننے والا یا تعلق والا ہو، اگر یہ کہے کہ آپ کو گودام، گھر یا فلاں جگہ سے اچھا سودا دے دوں یا فلاں چیز ختم ہے، آئو وہاں سے دے دوں، تو ہرگز ہرگز اس کی بات نہیں ماننی، نہ اس کے ساتھ کہیں جانا ہے۔ بلکہ ایسی صورت میں باقی چیزیں بھی چھوڑ کر فورا گھر آجانا ہے۔ مشکوک صورت حال میں اگر نقصان ہو رہا ہے تو ہونے دیں لیکن ایسی صورتحال سے فورا نکلنے کی کوشش کریں۔

    پارک میں چونکہ ہر طرح کے لوگ آتے ہیں اس لیے کوشش کریں کہ وہاں آپ کا بچہ آپ کی یا کسی دوسرے بڑے کی ہمراہی میں جائے، اور مغرب ہونے سے پہلے پہلے ہر صورت واپس آ جائے۔ بچے کو پارک میں خواہ مخواہ دوستیاں نہ بنانے دیں۔

    اگر آپ کا بچہ بار بار ضد کر کے اپنے ایک ہی دوست کی طرف جانے کا زیادہ رجحان رکھتا ہے تو یہ الارمنگ صورت حال ہے۔ دیکھیں کہ:۔ اس دوست کے گھر میں آپ کے گھر کی نسبت کون سی چیز ،سہولت یا کھلونے زیادہ ہیں جو آپ کے بچے کے لیے باعث کشش ہیں. وہاں کھیلنے کو میدان یا کھلی جگہ ہے؟ دوست کے پاس کھلونے زیادہ ہیں؟ وہاں DVD یا کیبل سے لطف اندوز ہونے کی آزادی ہے؟ وہاں کھانا پینا کھلا ہے؟ دوست کے والدین آپ کی نسبت آپ کے بچے سے زیادہ پیار کرتے ہیں؟ اگر ان میں سے کوئی ایک چیز زیادہ وہاں موجود ہے یا نہیں ہے تو بچے کا باربار وہاں جانے کی ضد کرنا خالی ازعلت نہیں ہے! اس صورت میں یا تو بچہ گھر سے باغی ہو گا اور اپنے گھر کو نفرت کی نگاہ سے دیکھے گا کہ وہاں تو اتنا کچھ ہے اور یہاں کچھ بھی نہیں۔ یااس کا پڑھنے کا قیمتی وقت کھیل میں ضائع ہوگا۔ وہ احساس کمتری میں مبتلا اور کسی اخلاقی برائی کا شکار بھی ہو سکتا ہے، لیکن منع کرنے کے لیے بچے کے ذہن میں یہ بات ہرگز نہ بٹھائیں کہ وہ امیر لوگ ہیں یا خراب اس لیے ادھر نہ جائیں بلکہ گھر میں ہی اس کو کوئی معقول مصروفیت دیں کہ وہ گھر ہی میں رہنے کو ترجیح دے۔ اپنا وقت دیں، وقت نکال کر اس کے ساتھ کھیلیں۔ یہ چیز برائیوں سے بچنے کے ساتھ ساتھ بچے کے اعتماد میں بھی اضافہ کرے گی۔

    ہماری ایک خامی یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو بتایا ہی نہیں ہوتا کہ لوگ بچوں کو کس طریقے سے اغوا کرتے ہیں اور اغوا ہونے سے کس طرح بچا جا سکتا ہے؟ والدین کی اکثریت اپنے بچوں کی تعلیمی، جسمانی، روحانی اور کھیل کی بنیادی ضرورتیں بھی پورانہیں کر پا رہی۔ اس لیے بچے زیادہ تر گھر سے باہر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اس طرح کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجاتا ہے۔ والدین اپنے بچے کی تعلیمی مصروفیات کے علاوہ بچے کی بیرونی مصروفیات، ان کے دوستوں اور ان کی ہر طرح کی سرگرمیوں سے بہت کم آگاہ ہوتے ہیں۔ اپنے بچوں کو ضروری وقت بھی نہیں دے پا رہے ہوتے اور اگر بچہ اپنی کوئی مشکل یا ضرورت بیان بھی کرنا چاہے تو والدین اس کے کچھ کہنے یا اس کی بات پورا کرنے یا سننے سے پہلے ہی اسے جھڑک دیتے ہیں۔ والدین کا یہ رویہ بچوں کی کئی ذہنی اور جسمانی عوارض کی وجہ بنتا ہے۔ اس لیے اپنے بچوں کو کم از کم یہ اعتماد ضرور دیں کہ وہ اپنی ہر بات آپ سے بغیر کسی ڈر خوف کے کہہ سکیں اور اس کام کے لیے اسے کسی خاص دن یا وقت کا انتظار نہ کرنا پڑے۔

    ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ آج کل اپنے گرد و پیش پر نظر رکھنے اور آج کل کے حالات بچوں کے ساتھ ڈسکس کرنے سے بھی بچوں کے اغوا کو بڑی حد تک روکا جا سکتا ہے بلکہ حالات اور اردگرد سے لاعلمی ہی بچوں کے اغوا کی بڑی وجہ بنتی ہے۔ مندرجہ ذیل امور جو کسی خاص عنوان کے تحت تو نہیں آتے لیکن ان پر غور کرنے اور بیان کردہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے بچوں کے اغوا کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ جب بھی بچوں کے ساتھ گھر سے نکلیں تو بچوں کی جیب میں کم از کم اتنے پیسے ضرور ڈالیں کہ وہ رکشہ، ٹیکسی یا بس سے گھر واپس پہنچ سکیں۔ بچوں کو یہ بھی بتا دیں کہ اگر خدانخواستہ پیسے نہ بھی ہوں تو رکشہ ٹیکسی لے کر گھر آ جائیں، پیسے گھر پہنچ کر ادا ہو جائیں گے۔ جب بھی آپ بچوں کے ساتھ واپس گھر آجائیں تو پھر ہر بچے سے پوچھیں کہ ہم کہاں گئے تھے؟ کس طرح گئے تھے؟ راستے میں کون کون سی معروف جگہیں اور سٹاپ آئے ہیں؟جو بچہ یہ باتیں اچھی طرح بتائے اسے انعام دیں۔ لیکن باقیوں سے پھر پوچھ کر تمام روٹ ان کے ذہن میں پختہ کر دیں۔ اس طرح کرنے سے بچے کو اپنے اردگرد کا پتہ بھی چلے گا اور مزید ہوشیار بھی ہو جائے گا۔ وقتا فوقتا بچوں کے سامنے ایک غیر متوقع صورتحال یا کوئی ایمرجنسی رکھیں، مثلا وہ آپ سے بچھڑ گیا ہے! کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے! وہ گھر میں اکیلا ہے! اسے چوٹ لگ گئی ہے! یا اس کا ہاتھ جل گیا ہے! کمرہ لاک ہو گیا ہے! چھوٹے بھائی کو چوٹ لگ گئی ہے یا اسے کسی چیز نے کاٹ لیا ہے! راستے میں اس کے پیسے گم ہو گئے ہیں یا اس کی جیب کٹ گئی ہے وغیرہ وغیرہ! ان تمام صورتوں میں وہ کیا کرے گا؟ جو کچھ بچہ بتائے اس میں خود ہی اضافہ کر کے بچے کو ہر مشکل صورت سے اچھے طریقے سے نکلنے کا گر بتائیں۔ بچے کو پراعتماد اور نڈر بنائیں۔ ساتھ ہی اس کو صورتحال کو سمجھنے اور پھر اس سے نکلنے اور بچنے کے لیے فوری طور پر ردعمل دینے والا بنائیں، اور اس چیز کی بچے کو بار بار تربیت دیں۔ ہمسائے میں بچوں کو بار بار اور بے وقت بھیجنے سے پرہیز کریں۔ اور صرف اسی صورت بھیجیں جب آپ کو پورا یقین ہو کہ گھر میں کم از کم دو خواتین موجود ہیں۔ جب بھی سفر وغیرہ پر نکلیں تو بچوں کے ساتھ اچھی طرح شیئرکر لیں کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ کن کے گھر جا رہے ہیں؟ ان کا پورا ایڈریس کیا ہے اور یہ کہ ان کے گھر تک کس طرح پہنچیں گے؟ بچے کو اچھی طرح سے سمجھا دیں کہ راستے میں اس نے چوکنا ہو کر آنا جانا ہے، کسی کھیل تماشے میں کھب نہیں جانا۔ اس کے ساتھ ساتھ بچے کی قوت مشاہدہ اور قوت فیصلہ کو ردعمل کی صلاحیت کو چیک بھی کرتے رہیں۔

    ان ہدایات پر اگر تمام والدین عمل کرنا شروع کر دیں تو ان شاءاللہ بچوں کے اغوا اور تشدد وغیرہ جیسی صورت حال سے بچا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے پھول کلیوں جیسے بچوں کی ہر قسم کے اشرار سے حفاظت فرمائے اور انھیں اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کاچین اورقلب کا سرور بنائے رکھے۔ آمین