Author: محمد اشفاق

  • بلوچستان، غیروں کی سازشیں یا اپنوں کی کرم فرمائیاں – محمد اشفاق

    بلوچستان، غیروں کی سازشیں یا اپنوں کی کرم فرمائیاں – محمد اشفاق

    محمد اشفاق بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کا آغاز قیامِ پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی ہو گیا تھا مگر اسے توانائی بھٹو مرحوم کے دور میں کیے جانے والے متنازعہ آپریشن کے بعد ملی. ضیاء الحق دور میں یہ آپریشن ختم کر دیا گیا اور چونکہ ان کے دورِ حکومت میں بالعموم علیحدگی پسند خواہ وہ سندھی ہوں یا بلوچی، سکون سے رہے اس لیے ضیاء دور میں بلوچوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی بڑی محاذ آرائی نہیں ہوئی. تاہم یہ حقیقت ہے کہ بلوچوں نے فوجی حکومت کو کبھی بھی پسند نہیں کیا. جب ملک میں جمہوریت آئی، سیاسی سرگرمیاں بحال ہوئیں تو بلوچ سرداروں کی جانب سے بھی مختلف مطالبات دوبارہ دہرائے جانے لگے، جن میں ایک مطالبہ علیحدگی کا بھی تھا تاہم اس کے حق میں بلند ہوتی آوازیں اتنی توانا نہ تھیں. نوے کی دہائی میں جب بلوچستان کے ساحلوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے گوادر پورٹ کو ترقی دینے کی بات چلی اور بینظیر بھٹو صاحبہ کے دور میں ایک امریکی کمپنی کو گوادر میں کچھ زمین دیے جانے کا معاملہ آیا تو بلوچ راہنماؤں میں ایک بے چینی کی لہر اٹھی. انھی دنوں ناراض بلوچ راہنماؤں نے ایک بار پھر شدومد سے بلوچ قوم اور صوبے کے استحصال کا راگ الاپنا شروع کیا، تاہم جمہوری حکومتوں کو ان سے نبٹنا آتا تھا. بےنظیر بھٹو اور نوازشریف دونوں نے گاجر اور چھڑی کے مناسب استعمال سے صورتحال قابو میں رکھی. یہاں تک کہ بینظیر بھٹو شہید کے دوسرے دورِ حکومت میں جب نواب اکبر بگٹی شہید کی قیادت میں بگٹی قبیلے نے سوئی گیس فیلڈ پر قبضہ کر لیا تو ایک طرف ایف سی کی بھاری نفری بھیج کر بگٹی قبیلے کو محصور کر دیا گیا تو دوسری طرف مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا اور یوں یہ معاملہ بالآخر خوش اسلوبی سے حل کر لیا گیا. نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں ہی فوج نے بلوچستان میں نئی چھاؤنیوں کے قیام کا فیصلہ کیا جس کی بلوچستان میں سخت مخالفت کی گئی، مگر حالات صحیح معنوں میں اس وقت سنگین شکل اختیار کر گئے جب فوج نے نواز شریف کا تختہ الٹ کر اقتدار پہ قبضہ کر لیا.

    جنرل مشرف کے دور میں جب گوادر پورٹ سنگاپور کی کمپنی کے حوالے کی گئی تو بلوچ علیحدگی پسندوں کا اس پر ردعمل بہت شدید تھا. پرویزمشرف نے بلوچوں کو کچھ ملازمتیں اور فنی تعلیم کے وظیفے دے کر بہلانے کی کوشش کی، مگر جس طرح گوادر کی زمین کی کراچی اور پنجاب کے حریص پراپرٹی ڈیلرز اور بلڈرز نے بندر بانٹ شروع کر رکھی تھی، مقامی آبادی کو اسی طرح سائیڈ لائن کیا جا رہا تھا جیسے شمالی امریکا اور آسٹریلیا میں وہاں کے مقامی باشندوں کو کیا گیا. حکومت باہر سے آنے والوں کے لیے تو سیون سٹار ہوٹل، ائیرپورٹ اور جانے کیا کچھ بنانے کے منصوبے بنا رہی تھی جبکہ مقامی لوگوں کو بیماری کی صورت میں یا کوئٹہ جانا پڑتا تھا یا پھر عمان، اور کوئٹہ کی نسبت ان کا عمان میں زیادہ بہتر خیال رکھا جاتا تھا. ایسے میں بلوچ راہنماؤں کا یہ خدشہ کچھ بےبنیاد بھی نہیں تھا کہ بلوچی اپنی ہی سرزمین پر اقلیت بن جائیں گے. بجائے ان کے تحفظات دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرنے کے، مشرف نے انہیں طاقت کے بل بوتے پر دبانے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں پہلے کوئٹہ کینٹ میں فوج پر حملے شروع ہوئے، پھر ان کا دائرہ پھیلتا چلا گیا. سوئی فیلڈ میں ڈاکٹر شازیہ خالد سے آرمی کیپٹن کی مبینہ زیادتی کا واقعہ جلتی پر تیل ثابت ہوا. بلوچ قبائل میں خواتین کے احترام کی اتنی مضبوط روایات پائی جاتی ہیں کہ سرکاری سکولوں میں تعینات اکثر خواتین ٹیچرز جو کہ پنجابی ہوا کرتی تھیں، انہیں ان کے گھر سے زیادہ احترام بلوچیوں سے ملتا تھا. ڈاکٹر شازیہ کی بے حرمتی کو بگٹیوں نے اپنی توہین گردانا جبکہ دوسری طرف اس آفیسر کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجائے معاملے کو دبانے کی کوشش کی گئی اور ڈاکٹر شازیہ کو بیرون ملک بھجوا دیا گیا. اس معاملے پر نواب اکبر بگٹی شہید نے جس شدومد سے فوج پر تنقید کی تھی، اس نے مشرف کو ان کا دشمن بنا دیا. کمانڈو نے کیمرے کے سامنے اپنے ہی لوگوں کو دھمکی دی کہ انہیں وہاں سے ہٹ کیا جائے گا کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا. اس کے بعد بلوچستان کے لیے گاجر ختم ہو گئی اور صرف چھڑی باقی رہ گئی. بلوچ نوجوان ہتھیار اٹھا کر پہاڑوں پر چڑھ گئے، فوج نے آپریشن شروع کر دیا اور بالآخر نواب اکبر بگٹی کو شہید کر دیا گیا. جو سلوک بعد میں ان کی لاش سے کیا گیا اور جس طریقے سے ان کی میت لائی گئی، اس نے ان کے دشمن قبائلیوں کے دلوں میں بھی فوج کے خلاف نفرت پھیلا دی. دوسری جانب مشرف اور ہمنواؤں کا خیال یہ تھا کہ معاملہ محض چند باغی سرداروں کا ہے جنہیں مار کر وہ بلوچستان میں جاری بے چینی اور بدامنی کا خاتمہ کر لیں گے. یہ پالیسی سازوں کی بدترین غلط فہمی تھی.

    فوج نے پسماندہ علاقوں میں عارضی ڈسپنسریاں بنائیں، سکول قائم کیے، بلوچ نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کے مطلوبہ معیار میں رعایت بھی دی گئی اور یہ سمجھا گیا کہ بلوچی اتنے ہی پر ٹل جائیں گے، مگر ایسا نہ ہوا، بلوچ مزاحمت پھیلتی چلی گئی. بلوچوں کے دلوں میں جو بےاعتباری اور مرکز بیزاری پیدا ہو گئی تھی، اس کی اصل وجوہات کو پہچانے اور ان کا تدارک کیے بغیر یہ اقدامات بےثمر ہی ثابت ہوئے. بدقسمتی سے مشرف کے چلے جانے کے بعد بھی بلوچستان کے متعلق پالیسی وہی رہی جو مشرف بنا کر گئے تھے.

    2005ء کے بعد پنجابی آبادکاروں اور بعض اقلیتی افراد کو ٹارگٹ کرنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا، اس سے جہاں پنجاب میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف نفرت پھیلی، وہیں فوج کو ان کے خلاف زیادہ جارحانہ کاروائیاں کرنے کا جواز بھی مل گیا. اسی وقت سے بلوچ سیاسی ورکروں اور مبینہ علیحدگی پسندوں کی پراسرار گمشدگیوں کا سلسلہ شروع ہوا. اس کے ساتھ ساتھ بلوچوں کو انہی کے سکوں میں ادائیگی کرنے کے لیے ایک اور تدبیر سوجھی گئی.

    بلوچستان میں افغان طالبان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے علاوہ بھی چند مسلح تنظیمیں اپنا وجود رکھتی تھیں. ان میں کالعدم سپاہِ صحابہ یا اس کا بازوئے شمشیر زن لشکرِ جھنگوی اور ایران میں علیحدگی کی تحریک چلانے والی جنداللہ شامل تھیں. جنداللہ ایرانی بلوچستان میں سنی اکثریت کے ساتھ ہونے والے مظالم کا ردعمل تھی، اس لیے اسے مقامی علیحدگی پسندوں سے کوئی ہمدردی نہیں تھی. دوسری جانب لشکرِ جھنگوی ایک مخصوص فرقے کا دشمن تھا اس کی ریاست کے ساتھ کوئی جنگ نہیں تھی. یہاں سے تین چار نئے کردار اس کہانی میں شامل ہوئے. یہ تھے جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی، کالعدم جماعت اہلسنت بلوچستان کے رمضان مینگل، لشکرجھنگوی کے ایک رمضان مینگل مخالف دھڑے کے سربراہ عثمان (سیف اللہ) کرد اور مشرف دور کے وفاقی وزیر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل، جنداللہ کے لیے بلوچستان اسی طرح محفوظ پناہ گاہ تھی جس طرح افغان طالبان کے لیے.

    لشکرِ جھنگوی کے عثمان کرد اور کالعدم جماعت اہلسنت کے رمضان مینگل دونوں کوئٹہ کینٹ میں واقع اینٹی ٹیررازم سیل کی مضبوط جیل میں سخت نگرانی میں رکھے گئے تھے. دونوں الگ الگ سیلز میں تھے مگر 2008ء کی ایک رات دونوں اس جیل سے فرار ہوگئے. کرد تو ایرانی سرحد کے ساتھ واقع ایک قصبے جا پہنچا مگر رمضان مینگل نے تو کوئٹہ چھوڑنے کی زحمت بھی نہیں کی، ان کی سلیمانی ٹوپی نے انہیں سکیورٹی فورسز کی آنکھ سے اوجھل رکھا. یاد رہے کہ یہ وہی رمضان مینگل ہیں، جنہوں نے دہشتگردی کے ایک واقعے میں پچاس کے لگ بھگ ہزارہ شہید ہونے کے بعد اعلانیہ یہ فرمایا تھا کہ وہ سینچری پوری کر کے رہیں گے اور یہ کہ جو ہمارے معیار پر پورا نہ اترا، اسے ہم کچل ڈالیں گے. ان کے ساتھ فرار ہونے والے عثمان کرد بھی کچھ کم نہیں تھے. ایک ٹرک ڈرائیور کے طور پر عملی زندگی کا آغاز کرنے والے عثمان جلد ہی داؤد بدینی کے ساتھی بن گئے. داؤد القاعدہ کے اس وقت کے نمبر تین خالد شیخ محمد کا بھانجا بھی لگتا تھا اور رمزی یوسف کا سالا بھی. اس کے والد امیر حمزہ کالعدم اہل سنت والجماعت کے سرگرم راہنما تھے، گویا پورا خاندان ہی بخشا ہوا تھا. ان کی صحبت میں تربیت حاصل کر کے عثمان کرد افغانستان چلا گیا تھا جہاں اس نے حربی تربیت کالعدم حرکتہ المجاہدین کے کیمپ میں حاصل کی. واپس آ کر اس نے شیعہ کی ٹارگٹ کلنگ کا آغاز کیا. اسے 2003ء میں سزائے موت سنائی گئی تھی.

    مگر یہاں ایک اور ہستی کا تذکرہ بھی لازم ہے اور وہ ہیں شفیق مینگل. نصیر مینگل کے چھوٹے بیٹے کو ایچی سن کالج میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بھیجا گیا مگر وہ وہاں سے بھاگ کر ایک دیوبندی مدرسے جا پہنچے. وہاں سے نکلنے کے بعد شفیق مینگل نے بھی کالعدم اہلسنت والجماعت جوائن کر لی اور واپس بلوچستان چلے آئے. بلوچستان پہنچ کر وہ کافی کچھ کرتے رہے جس میں اپنے کزن اور مخالف اختر مینگل کے گھر پر حملہ، چند بم دھماکے وغیرہ قابلِ ذکر ہیں, مگر 2008ء میں ان دونوں مذکورہ بالا پراسرار بندوں کی پراسرار گمشدگی کے چند دن بعد جناب نے بلوچستان مسلح دفاعی محاذ تشکیل دیا، جس کے بنیادی اغراض و مقاصد میں معصوم بلوچ عوام کا بلوچ علیحدگی پسندوں سے دفاع سرفہرست تھا. چنانچہ مسلح دفاعی محاذ نے بلوچ علیحدگی پسندوں کے اغوا، تشدد اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کی خدمات انجام دینا شروع کر دیں. اس کام میں کہیں کہیں انہیں جنداللہ کا تعاون بھی میسر رہا. ان کے اس کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وقتا فوقتا وہ اپنے پسندیدہ ٹارگٹ یعنی شیعہ برادری پر بھی ہاتھ ڈال دیا کرتے تھے. ایسی ہی ایک سفاکانہ واردات کے بعد جسے بی ایل اے کے کھاتے ڈالا گیا تھا، ہزارہ برادری کو علیحدگی پسندوں کی جانب سے پیغام پہنچایا گیا کہ اپنے قاتل کہیں اور تلاش کریں جس کی وفاداری کا آپ دم بھرتے ہیں، ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں. توتک میں ملنے والی اجتماعی قبر سے نکلنے والی چودہ لاشوں کے ورثا نے بھی بار بار ان کا نام لیا، مستونگ میں بسوں سے اتار کر زائرین کو قتل کرنے کی واردات بھی انہی کے سر ڈالی جاتی ہے. علیحدگی پسندوں کو اپنی جانب کھینچ کر لانے کے لیے انہوں نے بعد میں اپنی تنظیم کا نام بدل کر براہوی میں “حق کی آواز“ رکھ لیا تھا اور خود بھی علیحدگی پسند ہونے کا دعوٰی کرتے رہے، ایسا علیحدگی پسند جو نہ مفرور ہوا نہ اشتہاری، بلکہ جو علیحدگی پسند ”حق کی آواز“ میں شامل ہوا پھر اس کی نہ تو کبھی آواز سنائی دی نہ تصویر دیکھی گئی. عبدالمالک ریگی ایرانی ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ گیا، اس کے کئی کمانڈرز کو گرفتار یا قتل کرنے کے لیے ایرانی کمانڈوز نے بلوچستان کے اندر گھس کر آپریشن کیے، مگر جنداللہ بلوچستان میں فعال رہی.

    پشاور اے پی ایس کے سانحے کے بعد یوں لگا کہ پالیسی پر نظرثانی کی گئی ہے لیکن ایسا ہوا بھی تو کے پی کے کی حد تک. ضربِ عضب شروع ہونے کے بعد بلوچستان میں بس اتنا ہوا کہ عثمان سیف اللہ کرد کوئٹہ میں سکیورٹی اداروں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا. رمضان مینگل ابھی بھی کوئٹہ میں موجود ہے،گزشتہ سال انہوں نے شہر میں ایک ریلی نکالی جو کہ کینٹ کے ریڈ زون تک گئی. ایک کالعدم تنظیم کی جانب سے ایسی دیدہ دلیری کا مظاہرہ بلوچستان کے حالات سے ناواقف لوگوں کے لیے شاید باعثِ حیرت ہو مگر واقفانِ حال جانتے ہیں کہ بلوچستان میں انہیں کس قدر آزادی حاصل ہے. انہیں اس سال فروری میں گرفتار کیا گیا اور شاید جولائی یا اگست میں موصوف ایک بار پھر رہا کر دیے گئے. جناب شفیق مینگل بھی بدستور ”حق کی آواز“ بلند کر رہے ہیں. ایک اطلاع کے مطابق 2014ء میں موصوف شام چلے گئے تھے، وہاں سے پچھلے برس لوٹے تو داعش کی فرنچائز کھولنے کا پروانہ ان کی جیب میں تھا. مستونگ، دالبندین، چاغی وغیرہ میں داعش کے لیے افرادی قوت کی بھرتی کا کام بھی شروع کر دیا گیا.

    یہ تو خیر ہمارا ماضی تھا. آئیے حال پر ایک نظر ڈالیں…..

    کوئٹہ پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملہ پاکستان میں داعش کی پہلی بڑی کاروائی ہے. ہم مگر اس کے پاکستان میں وجود سے ہی انکار کرتے ہیں. حالیہ کاروائی کی ذمہ داری لشکرِ جھنگوی العالمی اور داعش نے مشترکہ طور پر قبول کی ہے. لشکر نے داعش کے ساتھ تعاون کا بھی اعتراف کیا ہے اور داعش نے اپنے ان کارکنوں کی تصاویر بھی جاری کی ہیں جنہوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا. ہمیں ریاست یہ کہہ کر بہلا رہی ہے کہ اس سانحے میں را ملوث ہے یا یہ کہ دہشت گرد ہدایات افغانستان سے لے رہے تھے. یہ واقعی حقیقت ہے کہ دہشت گرد افغانستان سے آئے تھے اور یہ بھی کہ وہ ہدایات بھی وہیں سے لے رہے تھے. لشکر جھنگوی افغانستان میں بلخ اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ایک مضبوط نمائندگی رکھتی ہے، اور داعش کا بھی افغانستان میں ایک مضبوط نیٹ ورک قائم ہے، یہ دونوں تنظیمیں وہاں بھی آپس میں تعاون کر رہی ہیں. اب ان کے جوائنٹ وینچرز پاکستان میں بھی شروع ہو گئے.

    ماضی اور حال کو تو جانے دیجیے، ہمارے لیے سب سے خوفناک وہ امکانات ہیں جو مستقبل کے حوالے سے ہمیں دکھائی دے رہے ہیں. آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کیا ہیں؟

    داعش شام اور عراق میں تیزی سے پسپا ہو رہی ہے. ساتھ ہی ساتھ وہ افغانستان اور بلوچستان میں تیزی سے اپنا نیٹ ورک پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہے. داعش کسی سرحدی یا جغرافیائی حدبندی کو نہیں مانتی اس لیے اسے وفاقِ پاکستان سے کوئی ہمدردی یا لگاؤ قطعی نہیں ہے.

    لشکرِ جھنگوی العالمی اپنی ساتھی تنظیموں ٹی ٹی پی وغیرہ کے خلاف کاروائیوں، پنجاب میں اپنے اہم راہنماؤں کے مارے جانے یا گرفتار کیے جانے، کالعدم اہلسنت و الجماعت کے فنڈز منجمند کیے جانے جیسے اقدامات کے نتیجے میں اب وفاقِ پاکستان کی وحدانیت یا سلامتی میں اپنی دلچسپی کھو چکی ہے. ان کے لڑاکے بڑی تعداد میں شام گئے تھے اور وہاں سے وہ ایک عالمی ایجنڈا لے کر واپس آئے ہیں اس عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے داعش ان کی فطری اتحادی ہے، لیکن اس سے بھی بڑھ کر خوفناک معاملہ یہ ہے کہ بلوچستان میں لشکر کو جن علیحدگی پسندوں کے مدمقابل کھڑی ہوئی تھی، اب ان میں اور لشکر میں بھی فاصلے کم ہو رہے ہیں-

    پورا ایک عشرہ فرقہ پرست کالعدم جماعتوں کو کھلی چھوٹ دینے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بلوچ جو روایتی طور پر فرقہ پرستی سے ہمیشہ دور رہے ان کے نوجوان بھی ان کے زہریلے پراپیگنڈے کا تیزی سے شکار ہو رہے ہیں. اب علیحدگی پسند تنظیموں کو بھی وفاق سے وفاداری کا دم بھرنے والے شیعوں سے کوئی ہمدردی نہیں رہی. بی ایل اے کے لشکر کے ساتھ تعاون کی خبریں بھی مسلسل آ رہی ہیں کیونکہ مرکز دشمنی میں اب لشکر بھی ان کے ساتھ ہی ہے.

    اللہ نہ کرے، میرے منہ میں خاک، کل کلاں کو اگر داعش، لشکر جھنگوی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کا آپس میں اتحاد ہو جاتا ہے، تو ہم پھر کیا کریں گے؟ سابقہ ریکارڈ سے تو یہی لگتا ہے کہ ان کے مقابلے میں ایک اور مسلح تنظیم کھڑی کر دی جائے گی مگر کیا مسئلہ کا یہی واحد حل ہے؟ را یا افغان انٹیلی جنس تو موقع سے فائدہ اٹھاتی رہے گی مگر ہم کب تک اپنی منجی تلے ڈانگ نہیں پھیریں گے.

    اللہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو توفیق دے کہ وہ ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے سے اور ہمیں ڈسوانے سے باز آ جائے.
    اللہ ہمارے سیاستدانوں کو توفیق دے کہ وہ جرات کے ساتھ سیاسی معاملات کا سیاسی حل نکال سکیں اور ملکی سلامتی پہ اپنے اقتدار کو فوقیت نہ دیں.
    اللہ ہمارے دانشوروں کو توفیق دے کہ اپنے تجزیے آئی ایس پی آر کی پریس ریلیزز کے بجائے زمینی حقائق کی بنیاد پہ کرنا سیکھیں.
    اللہ ہمارے میڈیا کو یہ توفیق دے کہ اپنے انویسٹیگیٹو جرنلسٹس کو وہ دودھ پتی میں ملاوٹ ایکسپوز کرنے کے بجائے بلوچستان کے اصل حقائق عوام تک پہنچانے کے لی استعمال کرے.
    حالات بہت نازک صورت اختیار کر رہے ہیں, اور جو کچھ ہو رہا ہے سب سی پیک کی وجہ سے نہیں ہو رہا، اس کی اپنی بہت اہمیت ہے مگر مشرقِ وسطیٰ کے حالات سے ہم براہ راست متاثر ہو رہے ہیں. ہمارے پالیسی سازوں اور سلامتی کے ذمہ داروں کو بلوچستان کے حالات کا تیزی سے بدلتے ہوئے خطے کے حالات کی روشنی میں ادراک کرنا ہوگا اور اس کے مطابق پالیسیاں بنانی ہوں گی.
    خدارا ہوش کے ناخن لیجیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے

  • ناموسِ صحابہ کا احترام و اہتمام کیسے؟ محمد اشفاق

    ناموسِ صحابہ کا احترام و اہتمام کیسے؟ محمد اشفاق

    محمد اشفاق مندرجہ ذیل مضمون اس نیت اور جذبے کے تحت لکھا گیا ہے کہ میرے جیسے عام مسلمان جن کا دینی علم درسی کتابوں یا مولوی صاحب سے سیکھے چند اسباق تک محدود ہے، وہ یہ جان اور سمجھ سکیں کہ ناموسِ صحابہ رض کا حقیقی تصور کیا ہے؟ اس کی ضرورت کیا ہے؟ اہمیت کیا ہے؟ اور اسے سرے سے رد کرنے کے یا اس میں غلو کرنے کے ہمارے ایمان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

    یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ ایک فرد کی ذاتی رائے ہے، جسے اس نے اپنے محدود مطالعے کی روشنی میں اپنی ناقص عقل کی مدد سے اخذ کیا ہے. اس میں خطا یا غلطی کا امکان یقینا ہے، اور اس کی نشاندہی اور درستی کرنے والا میرا محسن ہوگا، مگر یہ کہ جو کچھ بھی کہا گیا ہے یہ میری دیانتدارانہ رائے ہے. اس سے اتفاق یا اختلاف آپ کا حق ہے مگر میری نیک نیتی یا ایمان پر شبہ کا آپ کو حق ہے نہ ہی آپ کی تنقید یا مخالفت کو آپ کی بدنیتی سمجھنے کا حق مجھے حاصل ہے.

    جو احباب اس مضمون کو پڑھ کر اس سے متفق ہوں، ان سے خصوصی گزارش یہ بھی ہے کہ اسے اپنے حلقہ احباب میں پھیلانے کی کوشش کریں، اس کے لیے خواہ لنک شیئر کیا جائے، خواہ مضمون کاپی پیسٹ کیا جائے، خواہ میرے نام کا حوالہ دیا جائے، خواہ کسی اور کے نام سے پھیلایا جائے، میرا اور آپ کا مقصد محض اللہ پاک کے برگزیدہ بندوں کی تکریم کے ذریعے اس کی خوشنودی حاصل کرنا ہے، اللہ پاک ہماری اس سعی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے. آمین

    ”صحابی“
    آپ سب جانتے ہیں کہ اس اصطلاح کے لغوی معنی ساتھی یا دوست کے ہیں. شرعی معنوں میں صحابی اس مقدس ہستی کو کہا جاتا ہے جس نے بحالتِ ایمان کم از کم ایک بار سرورِ کونین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا دیدارِ مبارک کر رکھا ہو، اور اس کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو. اصحابِ رسول ﷺ کے elite club میں شمولیت کا یہ کم سے کم معیار ہے. صحابی ہونا استحقاق نہیں سعادت ہے اور ایں سعادت بزورِ بازو نیست. یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے. بحالتِ ایمان دیدارِ مصطفیٰ ﷺ اس کلب کی بنیادی رکنیت کی وہ شرط ہے جسے ہم اپنی تمام تر ریاضتوں، عبادتوں اور کوششوں سے حاصل نہیں کر سکتے. بڑے سے بڑا بزرگ، ولی اللہ، عالمِ دین، مجتہد، فقیہ یا صوفی مرتبے میں کسی ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا، اور کوئی بدبخت ایسا دعویٰ کرے بھی تو وہ قابلِ اعتنا ہرگز نہیں.

    فقہ میں اس اصطلاح کی اہمیت یہ ہے کہ اس ایلیٹ کلب کے معزز ممبران کو چند ایسے حقوق حاصل ہیں جو عام مسلمانوں کے پاس نہیں ہیں. ان میں سب سے امتیازی حق حدیثِ رسول ﷺ کو بیان کرنا ہے. درحقیقت صحابی کی اصطلاح کی اوپر بیان کردہ تعریف اسی لیے کی گئی تھی کہ یہ معیار طے پا جائے کہ جو شخص کوئی بات نبی پاک ﷺ سے منسوب کر رہا ہے، اس کے اس دعوے میں کتنی سچائی ہے. چنانچہ ہر روایت کسی نہ کسی واسطے سے کسی نہ کسی صحابی تک پہنچنا ضروری ہے، اسی صورت میں وہ حدیث سمجھی جائے گی، اور اس بنیادی شرط پہ پورا اترنے کے بعد ہی اس پہ حدیث کو جانچنے اور پرکھنے کی دیگر شرائط کا اطلاق ہوگا.

    دوسرا امتیازی حق جو فقہ ایک صحابی کو دیتی ہے وہ اجتہاد ہے. یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اجتہاد بجائے خود محض صحابہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ پوری امت کا حق ہے. جہاں کہیں کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو جس کی نظیر ہمیں کتاب و سنت یا فقہ میں نہ ملتی ہو، وہاں علمائے دین کا یہ فرض ہے کہ وہ اجتہاد سے کام لے کر اس مسئلے کا کوئی قابل عمل حل پیش کریں، چنانچہ چودہ صدیوں سے اجتہاد جاری ہے اور ان شاءاللہ جاری رہے گا. صحابہءکرام کا معاملہ امتیازی یوں ہو جاتا ہے کہ اپنی انفرادی و اجتماعی حیثیت میں انہوں نے جو بھی فیصلے کیے، خواہ ان کے وہ فیصلے باہم متضاد ہی کیوں نہ رہے ہوں، ہم اسے ان کا انفرادی اجتہاد ہی کہیں گے اور سمجھیں گے، چونکہ ان تمام حضرات کی تربیت براہ راست رسول اللہ ﷺ کی نگرانی میں ہوئی, اس لیے یہ سمجھا جائے گا کہ ان کے اس انفرادی فیصلے کے پس پشت یقینا نبوی تعلیمات یا ان سے اخذ کردہ فہم رہی ہوگی، اور یقینا تھا بھی ایسا ہی. یہ امتیازی حق صحابہ کرام کو ایک طرح کی indemnity دیتا ہے، یعنی ان کے کسی انفرادی فیصلے کے مثبت یا منفی اثرات پہ تو گفتگو ہو سکتی ہے اور ہمیشہ ہوتی رہی ہے، لیکن ان کے اس فیصلے کے نتیجے میں ان کی ذات کو زیربحث کبھی نہیں لایا جاسکتا.

    صحابہء کرام کا تیسرا حق ہم پر یہ ہے کہ ہم انہیں اللہ کے آخری نبی ﷺ کے بعد اپنا سب سے بڑا محسن اور مربی سمجھیں کیونکہ کتاب اللہ اور رسول اللہ کی تعلیمات، ان کا مفہوم اور ان پہ عمل کا طریقہ ہم تک اصحابِ رسول ﷺ کے وسیلے ہی سے پہنچا ہے. یہ ان کا اس امت پر اتنا بڑا احسان ہے کہ ہم اپنی تمام عبادات کا اجر انہیں پہنچا کر بھی اس کا بدلہ نہیں چکا سکتے. نیز انہوں نے اپنی اپنی بساط، حیثیت اور طاقت کے مطابق اس بات کا بھی پورا اہتمام فرمایا کہ تعلیماتِ نبوی, اسوہءحسنہ اور کتابِ الہیٰ کی ہر ممکن حد تک حفاظت ہو، اور کوئی ان میں ترمیم یا اضافہ کرنے یا ان کو مسخ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے. آج الحمدللہ اگر اللہ کی کتاب اپنی اصل صورت میں امت کے سینوں میں محفوظ ہے، ہمارے پیارے نبی ﷺ کی ایک ایک بات، ایک ایک ادا اپنی درست شکل میں ہماری راہنمائی کو موجود ہے تو اس کا سہرا بلاشبہ صحابہ کرام کے سر جاتا ہے. اللہ پاک ان کے درجات کو مزید بلند فرمائے، اور ہم میں سے ہر ایک کو ان سے سچی محبت کی توفیق عطا فرمائے. آمین

    شریعتِ مطہرہ میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمانوں پہ جتنے حقوق بیان ہوئے ہیں، صحابہ کرام ان کے بھی بدرجہ اولیٰ مستحق ہیں. چنانچہ ہمارا فرض ہے کہ ان کا نام عزت و احترام سے لیں، جہاں ان پہ تنقید کی جاتی ہو، وہاں ان کا دفاع کریں، ان کے معاملے میں ہمیشہ حسنِ ظن سے کام لیں، بدگمانی سے بچیں اور ان کے باہمی معاملات میں بلاوجہ تجسس سے باز رہیں. ان کے معاملات اب اللہ کے سپرد ہیں، ہمارے لیے وہ سب قابلِ احترام ہیں.

    کیا تمام صحابہ برابر ہیں؟
    جہاں شانِ صحابہ کا معاملہ آتا ہے، یہ سوال بھی وہاں ضرور سر اٹھاتا ہے. ہم عام مسلمانوں کے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ درجہ صحابیت میں وہ سب کے سب برابر ہیں، یعنی جس نے ایک بار بھی رسولِ اکرم ﷺ کا دیدار فرمایا، وہ بھی اتنا ہی صحابی ہے جتنا وہ خوش نصیب ہستیاں جنہیں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ رسولِ پاک ﷺ کی معیت میں گزارنے کا شرف حاصل ہوا. اسے بھی بطور اس ایلیٹ کلب کے ممبر کے وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو ایک جلیل القدر صحابی کے ہیں، لیکن یہ سمجھنا کہ درجے میں وہ سب کے سب برابر ہیں، یقیناً غلط ہے. ان سب مبارک ہستیوں کو رسولِ پاک ﷺ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا اعزاز حاصل ہے، مگر ظاہری بات ہے جسے زیادہ موقع ملا اس نے زیادہ فیض اٹھایا. اسی طرح بطور ایک معلم کے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات ان کے لیے اور پوری انسانیت کے لیے یکساں ہیں مگر ہر ایک بقدرِ ظرف، توفیق، علم و فہم ان سے مستفید ہوا، چنانچہ کچھ علمِ نبوی ﷺ کے تمام پہلوؤں کو سمجھنے میں کامیاب رہے، بعض نے کسی ایک شعبے یا پہلو میں تخصص حاصل کیا اور کئی محض خوشہ چینی کی حد تک مستفید ہو پائے. بالکل اسی طرح قربت کا معیار یا دورانیہ بھی یکساں نہیں تھا اور یہ بھی ان کے مدارج پر براہ راست اثرانداز ہوا، چنانچہ یہ تو طے شدہ بات ہے کہ بعض کو بعض پر فضیلت حاصل تھی اور ہے. یہ بات بھی قابلِ فہم ہے کہ کوئی بھی مسلمان جب ان مقدس ہستیوں کی حیاتِ مبارکہ کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ اپنے ذوق، مزاج اور افتادِ طبع کے مطابق کسی ایک سے زیادہ متاثر ہو سکتا ہے اور کسی دوسرے سے کم. اس لیے اس میں بھی قطعی کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ہم میں سے بعض کسی ایک صحابی کے لیے اپنے دل میں زیادہ محبت اور عقیدت رکھتے ہوں بہ نسبت دیگر صحابہ کے. لیکن جس طرح آپ اپنے سکول، کالج، مدرسے یا یونیورسٹی کے تمام اساتذہ کا یکساں احترام کرتے ہیں، خواہ ان میں سے آپ کا فیورٹ کوئی ایک ہی کیوں نہ ہو، بالکل ویسے ہی تمام صحابہ کرام کی تکریم اور احترام ہم پر واجب ہے. محبت اور عقیدت دل کا معاملہ ہے مگر احترام ادب کا تقاضا ہے اور محبت کے قرینوں میں پہلا قرینہ ادب ہی ہوا کرتا ہے.

    یہاں اس نکتے کی وضاحت اس لیے ضروری محسوس ہوئی کہ بطور صحابی ہم پی تمام اصحابِ رسول کا یکساں احترام واجب ہے مگر ان میں سے بعض جن کا ذکر آگے کیا جا رہا ہے، ہمارے خصوصی احترام کے لائق ہیں، اور ان کی شان اور مقام اتنا بلند ہے کہ ان کا ذکر سوائے خیر و عقیدت کے کسی بھی طرح کیا جانا ہمارے ایمان میں کمی کا سبب بن سکتا ہے.

    ”خلفائے راشدین“
    اگر نبی کریم ﷺ کے انتقال کے بعد مسلمانوں کی قیادت یکے بعد دیگرے ان چار مبارک ہستیوں کے ہاتھ نہ آتی تو جانے آج کیا صورتحال ہوتی، مگر اللہ پاک نے اپنے دین کی حفاظت کی ذمہ داری خود اٹھا رکھی ہے، اس لیے ہماری خوش قسمتی کہ اس نے حضرت ابوبکر رض، حضرت عمر رض، حضرت عثمان رض اور حضرت علی رض کو دین کی نگہبانی کا فریضہ سونپا اور ان چاروں نے بلاشبہ اس فرض کی ادائیگی ایسے کی کہ جس پہ یقینا اس ذاتِ باری تعالیٰ نے بھی ناز کیا ہوگا.

    ہماری انتہائی بدنصیبی ہے کہ حضورِ پاک ﷺ کے وصال اور اس کے فوری بعد پیش آنے والے چند واقعات کو بنیاد بنا کر ایک ایسے تفرقے کی بنیاد رکھ دی گئی، جس نے پندرہ صدیوں میں لاکھوں مسلمانوں کی جان لے لی مگر وہ آج تک ختم ہونے میں نہیں آ رہا. اس کا سب سے افسوسناک پہلو یہ کہ ان چاروں مقدس ہستیوں کو ہی متنازعہ بنا دیا گیا جن کے سر پر خود اللہ پاک نے فضیلت کا تاج رکھا تھا.

    مستند تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ حضرت علی رض اور ان کے خاندان اور حمایتیوں نے چند تحفظات رکھتے ہوئے اور ایمانداری سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کا مستحق سمجھنے کے باوجود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو نہ صرف دل و جان سے امیرالمؤمنین تسلیم کیا، بلکہ جہاں انہیں مشاورت کی ضرورت پڑی وہاں بہترین مشوروں سے اور جہاں انہیں مدد کی ضرورت پڑی وہاں اپنی تمام تر قوت و صلاحیت سے ان کا ساتھ دیا. یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زبانِ مبارک سے پہلے تینوں خلفاء کے بارے میں کلمہ خیر کے سوا کبھی کچھ نہیں نکلا. حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا دم بھرنے والوں کے لیے جناب حیدرِ کرار رضی اللہ عنہ اور اولین شیعانِ علی کا یہ اسوہ یقینا مشعل راہ ہے، اور جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے، پہلے تینوں خلفائے راشدین کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں، انہیں شیعانِ علی کہنا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے صابر ساتھیوں کی شان میں بدترین گستاخی کے مترادف ہے. شیعہ بھائیوں سے ہاتھ جوڑ کر التماس ہے کہ خدارا اپنی صفوں میں سے ایسے لوگوں کو نکال باہر کریں جو رسولِ پاک ﷺ کے بہترین ساتھیوں کو ایذا پہنچا کر رسولِ پاک ﷺ کی ایذا رسانی کا باعث بنتے ہیں.

    اسی طرح ایک طبقے کی وہ کوششیں بھی قابلِ مذمت ہیں جو وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کو متنازعہ بنانے کے سلسلے میں کرتا ہے. ستم ظریفی یہ کہ یہ وہی لوگ ہیں جو یزید کی امارت کو خلافت ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہوتے ہیں، مگر حضرت علی رضی اللہ کی برحق خلافت کو تسلیم کرتے انہیں کوئی روحانی تکلیف ہوتی ہے. حضرت علی رضی اللہ عنہ ہر معیار، ہر کسوٹی پہ خلیفہ برحق ہیں اور جنگِ جمل، جنگِ صفین اور تحکیم کے معاملے میں خواہ ان کے مقابل کتنی ہی متبرک ہستیاں کیوں نہ ہوں، حق یہ ہے کہ حق علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا اور علی رضی اللہ عنہ حق کے ساتھ.

    ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جو بھی خلفائے راشدین کی یا ان میں سے چند ایک یا صرف ایک کی بھی ذات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتا ہے، وہ مسلمانوں کا خیرخواہ کبھی نہیں ہوسکتا.

    ”آلِ رسول ﷺ“

    آیاتِ تطہیر و مباہلہ کی حقیقت مفسرین جانیں، میرے لیے حسنین کریمین سے محبت و عقیدت رکھنے کو اتنا ہی کافی ہے کہ جب وہ کاندھے پہ سوار ہوتے تھے تو میرے آقا ﷺ ان کی خوشی کی خاطر اپنا سجدہ طویل فرما دیا کرتے تھے. خاتونِ جنت حضرت فاطمہؓ اور آپ کی اولاد سے نبی کریم ﷺ کی محبت کوئی سربستہ راز نہیں ہے. اس پر تکینکی اعتراضات کر کے مثلا یہ کہ اولاد تو بیٹے سے چلتی ہے، یا بیٹیاں اور ان کی اولادیں تو اور بھی تھیں وغیرہ وغیرہ، اس محبت، اس شفقت کا مذاق مت اڑائیں جو اللہ کے نبی ﷺ کو اپنی چھوٹی بیٹی اور ان کی اولاد سے تھی. حضرت فاطمہؓ کی ناراضی میں اللہ اور اس کے رسول کی ناراضی ہے اور حضرت امام حسن و امام حسین کی ناز برداری، ان سے محبت کا اظہار نبی پاک ﷺ، آپ کے جلیل القدر صحابہ اور سلف صالحین کی متواتر اور ثابت شدہ سنت ہے. آلِ فاطمہ کی محبت امت کے سوادِ اعظم کا انمول سرمایہ ہے، اور اس محبت پر کسی ایک فرقے یا مسلک کی اجارہ داری نہیں ہے. خدارا! اپنے پیارے رسولﷺ کی پیاری اولاد کی محبت کو اپنے مسلکی تعصبات کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں.

    ”امہات المؤمنین“
    ہماری مائیں جنہیں ہمارے پیارے رسولﷺ کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا، ان میں سے ایک ایک کی اپنی فضیلت، اپنا مقام ہے. کسی کا نکاح اللہ پاک نے خود پڑھوایا تو کسی کی عصمت کی گواہی اس ذاتِ پاک نے خود دی. ان مقدس اور عفت مآب ہستیوں کو لے کر جہاں مستشرقین اور ملحدین نے نبی پاک ﷺ کی ذات پر رکیک حملے کیے ہیں وہاں ہم مسلمانوں میں سے کچھ طبقات نے بھی ان میں سے بعض یا کسی ایک کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا کر اسلام کی قطعی کوئی خدمت نہیں کیﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے مزاج، اپنی سوچ اور افتادِ طبع کے باعث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ادوار میں جو بھی اقدام اٹھائے، ان کے پیشِ نظر یقیناً اللہ کے دین کی حفاظت اور انصاف کا جذبہ تھا. ہم پر لعنت ہو اگر ہم ان کی نیت پر شک کریں یا انہیں وہ بینیفٹ آف ڈاؤٹ بھی نہ دیں جس کی وکالت ہم عامیوں کے لیے تو کرتے ہیں مگر اپنی مقدس ماں کو دیتے ہمیں تکلیف ہوتی ہے. اللہ پاک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے درجات بلند فرمائے، اور ہمیں ان کے بارے میں ویسی ہی خیرخواہی رکھنے کی توفیق دے جس کا مظاہرہ شیرِ خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ جمل کے بعد فرمایا. آمین

    ”عشرہ مبشرہ“
    اس سے قطع نظر کہ ان روایات میں کون سی کتنی مستند اور ثقہ راویوں سے موسوم ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ان دس صحابہ کرام میں سے ہر ایک اتنے بلند مقام پہ فائز ہے کہ ہم پر ان کا خصوصی احترام واجب ہے. جس کسی نے خلوصِ نیت سے ان میں سے کسی ایک کی بھی پیروی کی، اللہ کی قسم وہ فلاح پا گیا.

    ”سابقین اولین“
    وہ نفوسِ قدسیہ جنہوں نے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات پر لبیک کہا جب ان کا اپنا خاندان، اپنا قبیلہ بھی ان کی دعوت قبول کرنے کو تیار نہیں تھا. ان کی قربانیاں، ان کا خلوص، ان کی مساعی کا نہ تو کسی اور سے موازنہ کیا جا سکتا ہے، نہ کوئی اور ان کے برابر کا درجہ پانے میں کامیاب ہوا، اللہ پاک ان مبارک ہستیوں کے درجات میں قیامت تک بلندی فرماتا رہے. آمین

    ”مہاجرین و انصار“

    محض اللہ کی رضا کی خاطر خونی رشتوں کو ترک کر کے آنے والے مہاجرین اور ان کےلیے خونی رشتوں سے بھی بڑھ کر ایثار کرنے والے انصاری صحابیوں پہ لاکھوں سلام. اسلام کو ان لوگوں نے اپنے خون، پسینے، جان و مال سے تقویت پہنچائی اور ہمارے لیے دین کو اتنا آسان کر دیا کہ ہمیں آج اس نعمت اور اسے ہم تک پہنچانے والوں کا احساس بھی نہیں رہا.

    ”شہدائے بدر“
    حق و باطل کے پہلے خونی معرکے کے شہدا، بے سروسامانی، کسمپرسی اور قلتِ اموال و نفوس کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے باطل کی قوتوں کے آگے جو سینہ سپر ہوئے اور اپنی لازوال قربانی کی بدولت اسلام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا. میرے ماں باپ، میری سات نسلیں ان پہ قربان، ان کے خون کے صدقے آج ہم پیدائشی مسلمان ہونے پہ ناز کیے بیٹھے ہیں، اللہ ہمیں توفیق دے کہ آزمائش کی گھڑی میں ہم بھی ان کے نقشِ قدم پر چل سکیں اور اللہ کے دین کی خاطر اپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کریں. آمین

    صحابہ کرام کی یہ چند خاص کیٹیگریز تھیں جن کا خصوصی ذکر واجب تھا. فتحِ مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے والے اصحاب کا بالعموم وہ درجہ نہیں ہے جو متذکرہ بالا صحابہ کرام کا تھا، مگر اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ ان کے ایمان یا ان کے خلوص پر شک کیا جائے. ان میں سے بعض نے اپنے خلوص اور محبت کی بدولت بہت جلد نبی پاک ﷺ کا قرب و اعتماد حاصل کر لیا، اور ان سبھی کی اولادوں کا اشاعتِ اسلام میں ناقابل فراموش کردار ہے اس لیے ان کا ذکر بھی بے ادبی کے ساتھ کرنا، ایمان میں خسارے کا موجب ہو سکتا ہے.

    یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جس کا درجہ جتنا بڑا ہو، اس کی ذمہ داریاں بھی اتنی ہی بڑی ہوا کرتی ہیں. صحابہ کرام کو شریعت کے کسی بھی معاملے میں نہ صرف یہ کہ کوئی استثنی حاصل نہیں تھا، بلکہ ایک حدیث کے مطابق جہاں ایک زمانہ ایسا آئےگا کہ دین کے کچھ فیصد پر عمل ہی نجات کے لیے کافی ہوگا وہاں صحابہ کے لیے معیار اتنا کڑا تھا کہ ان کی دین کے دس یا بیس فیصد سے روگردانی ہی ان کی آخرت تباہ کرنے کو کافی تھی. بلاشبہ وہ اس کڑے معیار پر پورا اترے. بتقاضائے بشریت ان سے یا ان میں سے چند ایک سے اگر کچھ گناہ، یا غلطیاں سرزد ہوئیں بھی تو یقینا اللہ پاک ان کی توبہ قبول کرنے والا ہے. یہاں آخر میں اس رویے کا ذکر کرنا بھی لازم ہے جو صحابہ کرام کو تقریبا انبیاء کی سی عصمت اور پاکیزگی دے دیتا ہے. جہاں کسی صحابی کے کسی انتہائی متنازعہ قول یا فعل کو ہوبہو بیان کرنا بھی گستاخی کے زمرے میں آتا ہے، اس قول یا فعل پہ تبصرہ یا تنقید تو رہی دور کی بات.

    یہ رویہ بالعموم ردعمل کی نفسیات کے تحت در آیا ہے، جہاں کھلم کھلا صحابہ کی شان میں انتہائی نازیبا گستاخیاں کی جا رہی تھیں، وہاں اس قدر حساسیت پیدا ہوجانا بھی قابل فہم ہے. مگر اپنی اصل میں یہ رویہ بھی پسندیدہ یا قابل حوصلہ افزائی قرار نہیں دیا جا سکتا. حقیقت یہ ہے کہ خود صحابہ کرام نے نہ صرف ایک دوسرے کے متنازعہ اقدامات پر کھل کر بحث کی، بلکہ تابعین اور تبع تابعین نے بھی ان کے تمام تر احترام کے باوجود تمام متنازعہ امور پر کھل کر پوزیشن لی. شریعت کا، دینی اصول و ضوابط کا، بلاامتیاز اور بلا لحاظ سب پر اطلاق ہمارے سلف صالحین کی درخشاں روایت ہے. اور ان کا کمال یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے بھی انہوں نے صحابہ کرام کا احترام ملحوظِ خاطر رکھا اور شائستگی و توازن کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا. ہمارے لیے بہترین اور پسندیدہ طریقہ یہی ہے کہ ہم متنازعہ امور پر رائے دینے سے ہر ممکن اجتناب کریں، مگر اصولی طور پر یہ تسلیم کریں کہ امرِ واقعی کو بیان کرنا گستاخی ہے نہ توہین.

    ناموسِ صحابہ کا قانون پاس ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی تھی کہ اس قانون کو تجویز کرنے والی جماعت کا سابقہ ریکارڈ ایسا تھا کہ سب جانتے تھے کہ یہ قانون ایک مخصوص فرقے کو ٹارگٹ کرنے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے. اسی وجہ سے اسے اس جماعت کی ہم مسلک مذہبی جماعتوں کی جانب سے بھی پذیرائی نہ مل سکی. قانون سازی ایک مشکل، پیچیدہ اور صبرآزما عمل ہے، اور ایک آئیڈیل قانون ہمیشہ ملزم کو شک کا فائدہ دینے والا ہوتا ہے. خود اسلامی قانون و فقہ میں بھی اس کا اہمتام کیا گیا کہ کوئی مجرم سزا سے بچ جائے,، یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ کوئی بےگناہ سزا پا جائے، اس لیے ناموسِ صحابہ پہ قانون سازی کے بجائے ذہن سازی یقینا ایک زیادہ بہتر اور پائیدار حکمت عملی ہوگی. یہ مضمون اسی جانب ایک قدم ہے. انتہائی کوشش کی ہے کہ اس سے کسی مسلک یا مکتبہ فکر کی دل آزاری نہ ہو. صحابہ کرام ہم سب کے ہیں اور ہم سب ان کے غلام ہیں. اس موضوع کو لے کر فرقہ ورانہ منافرت پھیلانے کی کوشش بھی اتنی ہی قابل مذمت ہے جتنی شانِ صحابہ میں گستاخی.

    دوسری طرف روز بروز بڑھتا ہوا یہ تشویشناک رجحان بھی قابل مذمت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کا اور ان کے متنازعہ افعال کا ذکر اس قدر بےتکلفی، دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے کیا جاتا ہے اور اس پر اپنی رائے کا ایسا بےباکانہ اظہار کیا جاتا ہے گویا ہمارا موضوع زیربحث اسلام کے ستون کی حیثیت رکھنے والی متبرک ہستیاں نہیں بلکہ نواز شریف، زرداری اور عمران خان جیسے سیاسی لیڈرز ہیں. نام نہاد پڑھے لکھے روشن خیال خواتین و حضرات صحابہ کرام کو اتنا مارجن دینے کو بھی تیار نہیں جتنا کہ وہ اپنے ساتھی لکھاریوں کو دیتے ہیں. اس رویے کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے اور اس کا بہترین طریقہ اسے بالکل نظرانداز کرنا ہے. جہاں آپ کو ہلکا سا بھی احتمال ہو کہ اس مباحثے کے خالق یا شرکاء کی جانب سے ایسا کچھ کہا جا سکتا ہے جو شانِ صحابہ کے منافی ہوگا، وہاں سے فورا باہر نکل جائیے اور اپنے دوستوں کو بھی یہی تلقین کیجیے. ایسے اکثر مباحثے محض داد یا توجہ کی خواہش کے زیراثر شروع کیے جاتے ہیں. آپ ان دونوں چیزوں کو روک لیجیے، یہ فضول بحثیں خود ہی دم توڑ جائیں گی.

    اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سے اپنی آواز بلند کرنے والوں کو اللہ پاک نے وعید سنائی ہے کہ ایسا نہ ہو تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن نفوسِ قدسیہ کو اپنا دوست کہا، ان میں سے ہر ایک کے لیے خیر کے کلمات ادا فرمائے، انہیں ستاروں کی مانند قرار دیا کہ ان میں سے کسی ایک کی پیروی بھی صراطِ مستقیم پر چلنے کو کافی ہے. ان مبارک ہستیوں کو متنازعہ بنا کر، ان پہ بے محابا تنقید کر کے، ان میں سے بعض کو دوسروں سے ادنیٰ قرار دے کر یا بعض کے خلوص اور نیت پر شبہ کر کے ہم کہیں اپنے نیک اعمال اپنے ہاتھوں سے برباد تو نہیں کر رہے؟ خدارا اس معاملے کو اس پہلو سے بھی دیکھنے کی کوشش کیجیے.

    اللہ پاک ہمیں اپنی نیتوں کا ہمہ وقت محاسبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہمیں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیارے ساتھیوں کی اتباع کی توفیق بھی عنایت کرے. آمین.

    وما علینا الا البلاغ

  • مشکوک شخص کو کیسے پہچانیں؟ محمد اشفاق

    مشکوک شخص کو کیسے پہچانیں؟ محمد اشفاق

    محمد اشفاق مشکوک شخص کی شناخت

    گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردوں نے پاکستان میں اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور عوامی مقامات پر بم دھماکے اب چند اقلیتی گروہوں کے خلاف ہی کیے جا رہے ہیں. ان کی ترجیح کسی ریاستی ادارے پر حملہ ہوتی ہے جس کی وجوہات تو بہت سی ہیں مگر فی الحال وہ ہمارا موضوع نہیں. ان حملوں کی پیش بندی، انہیں ناکام بنانے اور دہشت گردوں کو گرفتار یا ہلاک کرنے کے لیے ہماری سلامتی کے ذمہ دار اداروں نے کچھ حکمت عملیاں یقینا ترتیب دے رکھی ہیں. شاید وہ کافی نہیں ہیں یا شاید ان پر نظرِ ثانی کی اشد ضرورت ہے، مگر فی الوقت ہم اس سے بھی صرفِ نظر کرتے ہوئے، اپنی توجہ صرف اس بات پر مرکوز رکھتے ہیں کہ عوام الناس اس سلسلے میں ریاستی اداروں کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں؟

    ”اپنے اردگرد کے ماحول پہ گہری نظر رکھیے، کسی مشکوک شخص یا چیز کو دیکھتے ہی ان نمبروں پر اطلاع دیجیے.“ یہ ہدایت مختلف عوامی مقامات پر ہم سب نے پڑھ رکھی ہے. مگر سوائے یہ پیغام آویزاں کرنے کے کسی ریاستی ادارے، وزارتِ داخلہ، سول ڈیفنس یا میڈیا کی جانب سے عوام کو اس ضمن میں مناسب تربیت یا راہنمائی فراہم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی-.ایک لولی لنگڑی بلکہ مضحکہ خیز کوشش ایسا ہی ایک دوسرا پیغام ہے جس میں عوام کو ممکنہ خودکش حملہ آور کا حلیہ بتایا گیا ہے جس کی رو سے ہر تیسرا پاکستانی مشکوک ٹھہرتا ہے.

    یہ مضمون خود کو اور قارئین کو اس ضمن میں چند بنیادی باتوں سے آگاہ کرنے کی ادنیٰ سی کاوش ہے، اسے خود بھی پڑھیے، دوسروں کو بھی پڑھوائیں اور اس پر خود بھی غوروفکر کےلیے وقت نکالیں.

    ریاست اور ریاستی اداروں کے دعوے خواہ کچھ بھی رہے ہوں، یہ بات اب تقریبا ثابت ہو چکی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ ابھی کئی برس مزید جاری رہے گی، اس کےلیے اپنے طور پر تیاری ہر محب وطن شہری کا فرض ہے.

    گرد و پیش پر نگاہ کیسے رکھی جائے؟

    یہ ہدایت کرنا تو بہت آسان ہے، مگر آخر عوام کیا دیکھیں؟ وہ کس طرح فیصلہ کریں کہ فلاں شخص مشکوک ہے اور اس کی اطلاع سکیورٹی اداروں کو کیا جانا ضروری ہے؟
    گزشتہ کچھ عرصے سے سیلف ڈیفنس اور سکیورٹی کے ماہرین جس ایک اصطلاح کو بہت زیادہ استعمال کر رہے ہیں، وہ ہے Situational Awareness ، اس کا کوئی مناسب ترجمہ مجھے نہیں سوجھ رہا. جن احباب نے ”اپنی فیملی کی حفاظت“ کے سلسلے کے میرے مضامین پڑھ رکھے ہیں، انہیں یاد ہوگا کہ ضمنا ان میں بھی یہ اصطلاح استعمال ہوئی تھی. بنیادی طور پر سچویشنل اوئیرنس بھی گردوپیش پہ نگاہ رکھنے ہی کا کام ہے، مگر یہاں ماہرین صرف ہدایات ہی نہیں دیتے، بلکہ عمل کے طریقے بھی بتاتے اور سکھاتے ہیں. موضوع بہت زیادہ وسیع ہے، یہاں چند بنیادی باتیں جو ہمارے عنوان سے مطابقت رکھتی ہیں، بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے.
    آپ کو بہت زیادہ آسانی ہو جائے گی، اگر آپ سچویشنل اویئرنیس کو چار حصوں میں بانٹ کر دیکھیں. ایک ممتاز امریکی ملٹری سٹریٹجسٹ نے OODA کے عنوان سے سچویشنل اوئیرنیس کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے.
    O for Observe
    O for Orient
    D for decide
    A for Act
    1- آبزرو/ اورینٹ

    ہماری سرکاری ہدایت تو آبزرویشن ہی پہ تمام ہو جاتی ہے، مگر مشاہدہ حقیقت میں محض آغاز ہے، اور یہاں جب تک آپ کو یہ علم نہ ہو کہ آپ نے دیکھنا کیا ہے؟ آپ کا الرٹ ہونا بےکار ہو جاتا ہے. آپ ایک بدکے ہوئے وحشی کی طرح چاروں جانب گردن گھما گھما کر ہر شخص کو خوفزدہ انداز میں دیکھیں گے تو خود مشکوک قرار پائیں گے. خود کو جیمز بونڈ یا جیسن بورن سمجھنے کی کوشش مت کیجیے، ریلیکس رہیے، سمارٹ فون کا استعمال موخر کر دیجیے، اپنے گرد و پیش موجود لوگوں میں دلچسپی لیجیے اور اپنے ماحول میں ضم ہونے کی کوشش کیجیے، ماہرین کے مطابق صرف وہ شخص ہی مشکوک قرار دیا جا سکتا ہے جو کہ وہ کر رہا ہے، جو اسے نہیں کرنا چاہیے، یا پھر وہ نہیں کر رہا جو کہ اسے کرنا چاہیے. اس بظاہر آسان فقرے کی تشریح اتنی آسان نہیں، آئیے کوشش کر کے دیکھتے ہیں.

    انسان بنیادی طور پر معاشرتی حیوان ہے، ہم لاشعوری طور پر جیسا دیس ویسا بھیس پر ہر وقت عمل کر رہے ہوتے ہیں. آپ خواہ کتنے ہی مسرور ہوں اور سیٹیاں بجاتے، گنگناتے جا رہے ہوں، کسی جنازے سے سامنا ہونے پر آپ کی باڈی لینگویج میں وہی افسردگی، متانت اور سنجیدگی در آئے گی جو کہ جنازے کے شرکاء کے چہرے پر چھائی ہو. کسی ملٹی پلیکس میں باکس آفس کے سامنے قطار بنائے لوگ خواہ کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں، سب ایک جیسا بی ہیو کرتے ہیں. کسی محفل میں داخل ہوتے ہی بلند و بالا قہقہوں کی آواز آپ کی سماعت سے ٹکرائے تو آپ کے لبوں پر مسکراہٹ اپنے آپ ہی آ جائے گی. ہم سب ایسا ہی کرتے ہیں، اس لیے اگر کوئی ایسا نہیں کر رہا تو وہ آپ کی توجہ اور مشاہدے کا مستحق ہے.

    یہاں باڈی لینگویج کا فن آپ کے کام آئے گا، اس فن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جیسے جیسے آپ اسے سیکھ رہے ہوتے ہیں، ویسے ویسے آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ سب تو آپ پہلے سے جانتے تھے، اور حقیقت بھی یہی ہے. ہم سب دوسروں میں غصے، خوف، گھبراہٹ، بے چینی، دکھ، خوشی اور درجنوں دیگر کیفیات کا بالکل ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانے پر قادر ہیں. اپنی اسی صلاحیت کو استعمال کیجیے، یہ یاد رکھیے کہ باڈی لینگویج میں انفرادی جسمانی اشاروں یا gestures کی خاص اہمیت نہیں ہے، اس لیے محض کسی ایک حرکت کی بنا پر آپ کسی کو مشکوک قرار نہیں دے سکتے. اگر آپ کے زیرِ مشاہدہ شخص واقعی مشکوک ہے تو وہ آپ کو کئی ایسے اشارے دے گا، یعنی ایک مخصوص ذہنی کیفیت اشاروں کے ایک پورے مجموعے یا cluster سے عیاں ہوتی ہے.

    آپ کسی حساس ادارے کی اہم سرکاری عمارت کے باہر موجود ہیں، اور دیگر افراد کی طرح اپنے داخلے کے مراحل سے گزر رہے ہیں، یا کسی کا انتظار کر رہے ہیں، وہاں موجود تمام افراد کے تاثرات اور باڈی لینگویج کی مدد سے آپ انہیں باآسانی تین چار کیٹیگریز میں بانٹ سکتے ہیں. مطمئن، منتظر، بیزار، جلدباز، ایسے میں آپ کو ایک شخص ایسا دکھائی دیتا ہے جو باقی سب سے مطابقت نہیں رکھتا.

    آپ ریلیکس سے انداز میں اپنی توجہ اس کی جانب مرکوز کر دیتے ہیں، ایسے کہ اسے احساس نہ ہو. اب اس کی بدن بولی آپ کو اسے سمجھنے کے کئی مواقع فراہم کرے گی. اگر وہ اپنے لباس میں کوئی ہتھیار چھپائے ہوئے ہے تو بالکل لاشعوری طور پر وہ جسم کے اس حصے کو بار بار چھوئے گا. ہمارا قومی لباس پینٹ شرٹ کی نسبت ہینڈ گنز چھپانے کے لیے بہت موزوں ہے، مگر ساتھ ہی اس سے نکال کر گن فوری استعمال کرنا نسبتا مشکل ہے، اس لیے ہر وہ شخص جو نیفے میں پستول اڑسے ہوئے ہو، اپنا ہاتھ اس کے بالکل قریب رکھتا ہے. وہ بار بار اپنے دائیں بائیں موجود لوگوں کو سکین کرے گا، سکیورٹی کے عملے سے آنکھ چرائے گام اگر آپ باریک بینی سے اس کا تجزیہ کر رہے ہیں تو آپ کو یہ احساس بھی ہوگا کہ شاید وہ اکیلا نہیں، اور یہ بھی کہ شاید وہ کسی خاص موقع کا منتظر ہے.

    2- فیصلہ اور عمل

    اوپر دی گئی مثال میں آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ شخص انتہائی مشکوک ہے، ایسے میں آپ کو فوری فیصلہ کرنا ہوگا، آیا آپ اپنے شک کی تصدیق کے لیے مزید انتظار کرنا چاہتے ہیں یا آپ یہاں سے نکل لینا بہتر سمجھتے ہیں یا پھر آپ سکیورٹی عملے کو اپنے خیالات سے آگاہ کرنا پسند فرمائیں گے. ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا صورتحال میں تو تیسرا آپشن ہی بہترین ہے اور آپ کو فورا اس پر عمل بھی کرنا چاہیے، مگر جیسا کہ عرض کیا کہ سچویشنل اویئرنس ایک مستقل کیفیت ہے جو گھر سے باہر نکلتے ہوئے خود پر طاری کرنا پڑتی ہے، اس میں ایسی بہت سی صورتحال درپیش آ سکتی ہیں اور ہر صورتحال کے مطابق ہی آپ کو فیصلہ اور عمل کرنا ہوگا.

    مثلا ایسا ہی مشکوک شخص آپ بنک میں دیکھتے ہیں، اب اگر آپ کیش جمع کروانے آئے ہیں یا نکلوا چکے ہیں تو بلاتاخیر بنک سے باہر نکل جائیں، باہر نکلتے ہی گارڈ کو خبردار کرنا مت بھولیے. اگر آپ چیک جمع کروانے آئے ہیں یا چیک ابھی کیش نہیں کروایا، تو سکون سے رہیے اور بنک کے عملے یا گارڈ کو خاموشی سے اس شخص کی جانب متوجہ کر دیجیے. اگر وہ شخص آپ کے بہت قریب ہے اور آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ گن نکالنے والا ہے تو اسے خود قابو کرنے کی کوشش کریں اور ساتھ ہی شور مچا کر دیگر افراد کو متوجہ کریں.

    3- سچویشنل اوئیرنس بہتر بنانے کے طریقے

    سب سے پہلے تو یہ کہ یہ صلاحیت دیگر تمام صلاحیتوں کی طرح مسلسل پریکٹس ہی سے بہتر ہوگی. اس پریکٹس میں البتہ آپ کو درج ذیل ٹپس سے مدد مل سکتی ہے.

    1- اسے انجوائے کیجیے. سچویشنل اوئیرنس نہ صرف آپ کو ایک ذمہ دار شہری بناتی ہے بلکہ یہ آپ کو روزمرہ کے ایسے دلچسپ واقعات کے مشاہدے کا موقع بھی دیتی ہے جنہیں آپ اپنے آپ میں گم رہ کر نظر انداز کر جاتے ہیں.

    2- رویوں میں بے قاعدگی تلاش کیجیے جیسا کہ اوپر عرض کیا، عموما انسانوں کے رویے ان کے ماحول سے ہم آہنگ ہوتے ہیں، اگر کسی کے ساتھ ایسا نہیں تو لازمی نہیں کہ وہ برا شخص ہی ہو، ہو سکتا ہے وہ کسی مشکل یا تکلیف کا شکار ہو، مگر اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھیے اور دماغ حاضر.

    3- اپنے دن بھر کے مشاہدے میں سے سب سے دلچسپ انسان کو یاد کریں اور سوچیں کہ آپ کیا کچھ دیکھنا بھول گئے؟ کہاں آپ سے اندازے میں غلطی ہوئی؟ اور کیا اس کا رویہ یا ردعمل آپ کی توقع کے مطابق تھا یا نہیں؟ اور اگلی مرتبہ آپ کو کوئی ایسا شخص ملا تو آپ اسے کیا باآسانی شناخت کر لیں گے؟

    4- اپنے رویے کا مشاہدہ کرتے رہیں. جہاں بات باڈی لینگویج کی آتی ہے تو حیرت انگیز طور پر دنیا کے تقریبا تمام انسانوں میں اسی فی صد بدن بولی میں یکسانیت پائی جاتی ہے، محض بیس فی صد کے قریب فرق کلچر یا ماحول کا ہوتا ہے. جب آپ کچھ چھپانا چاہ رہے ہوتے ہیں، کسی کی نگرانی کر رہے ہوتے ہیں یا کسی کا انتظار تو جس طرح کے اشارے آپ کا بدن دوسروں کو دیتا ہے بالکل وہی اشارے دوسرے آپ کو بھی دیں گے جب وہ اسی صورتحال سے دوچار ہوں.

    5- موقع ملے تو سکیورٹی پر مامور اداروں کے افراد کے رویے کا جائزہ لیتے رہا کریں، ایک تربیت یافتہ ذہن دوسروں کو کس طرح جج کرتا ہے؟ یہ جاننا آپ کےلیے دلچسپ تجربہ ہوگا، مگر اسے خود پر حاوی مت کیجیے گا کہ تربیت یافتہ افراد بعض ناگزیر تعصبات یا امتیازات کا شکار بھی ہوا کرتے ہیں.

    6- مشاہدے اور اورنٹیشن کی جتنی اہمیت ہے اتنی ہی بروقت فیصلے اور اس پر فوری عملدرامد کی. اپنے ذہن میں کسی ناگہانی صورتحال میں کسی مشکوک شخص کو دیکھنے پر اپنا لائحہ عمل سوچتے رہا کریں. اگر آپ نے اپنے ممکنہ ردعمل اور ان کا طریقہ پہلے سے سوچ رکھا ہوگا تو ناگہانی صورتحال میں آپ مفلوج یا ماؤف نہیں ہوں گے.

    7- اس موضوع پر انٹرنیٹ پہ بہت سا معیاری مواد دستیاب ہے، اپنا علم بڑھائیے. چند گھنٹے کسی نئے کام کو سیکھنے میں صرف کرنا آپ کو بہت سا feel good کا احساس بخشتا ہے.

    8- اپنے مشاہدے اور تجزیے کے دوران اپنے ملک کے مخصوص ماحول، روایات اور سماجی رویوں کو مدنظر رکھیں.

    9- جب آپ سچویشنل اوئیرنس کی پریکٹس کر رہے ہوں گے تو آپ کو بارہا بہت سے مشکوک لوگوں سے سامنا ہوگا. اپنی discretion کا استعمال کیجیے کہ یہ بہادری کا بہتر والا حصہ ہے. کہیں ایسے لوگوں کو نظرانداز کرنا بہتر ہوتا ہے اور کہیں فوری طور پر ان کو رپورٹ کرنا. قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مدد حاصل کرتے ہوئے یا ان کی مدد کرتے ہوئے بالکل مت گھبرائیے. یقین کیجیے کہ اس معاملے میں جو منفی باتیں آپ نے سن رکھی ہیں ان کا دس فی صد بھی شاید حقیقت پہ مبنی نہ ہو. عموما پولیس سمیت تمام ذمہ دار ادارے شریف شہریوں سے تعاون کرتے ہیں.

    چند مشکوک رویے

    1- ضرورت سے زیادہ اکڑ یا ضرورت سے زیادہ عاجزی یا تابعداری دکھانا.

    2- جہاں سب نارمل ہوں وہاں ابنارمل رویہ یا جہاں سب ابنارمل یا پریشان ہوں وہاں نارمل رویہ. لندن پولیس نے ٹرین دھماکوں کے مجرم ایسے ہی شناخت کیے تھے، ابتدائی دھماکوں کے بعد جب ہر طرف panick کا عالم تھا، وہ ویڈیو میں نارمل لگ رہے تھے، کیونکہ انہیں دھماکوں کا پہلے سے علم تھا.

    3- نارمل سے زیادہ کوشش، افغانستان میں امریکی افواج اپنی جاسوسی کرنے والے طالبان کو کسانوں میں سے ایسے ہی شناخت کرتے تھے، کیونکہ وہ بہت زیادہ محنت کر رہے ہوتے تھے.

    4- ہاتھوں کی حرکات، سکیورٹی اداروں میں سب سے زیادہ لوگوں کے ہاتھوں پر توجہ دینا سکھایا جاتا ہے. آپ کے ہاتھوں کی غیرارادی حرکات و سکنات آپ کے متعلق بہت کچھ بتاتی ہیں، اور انتہائی شاطر یا نہایت اعلیٰ تربیت یافتہ افراد کے علاوہ کسی کو ان پر اختیار نہیں ہوتا، جیسا کہ اوپر مثال میں مسلح افراد کا رویہ بیان ہوا. وہ دانستہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے ہاتھ اپنے ہتھیار کی جانب نہ لے کر جائیں مگر اس کوشش میں وہ مزید مشکوک ہو جاتے ہیں.

    یہ مضمون آپ کو سچویشنل اوئیرنیس میں ایکسپرٹ تو نہیں بنا پائے گا، لیکن اگر آپ اس موضوع میں دلچسپی لینے لگے ہیں تو یہی اس کی کامیابی ہے. اسے ایک فن کے طور پر سیکھنے کی کوشش کیجیے، یہ فن بھی ہے اور ڈھیر سارا fun بھی.
    اس مضمون کی تیاری کے لیے مسٹر اینڈ مسز Bert Mckay کے Art of Manliness کے لیے لکھے گئے ایک مضمون سے مدد لی گئی ہے.

  • جنرل اسمبلی کا اجلاس اور پاکستان کو سفارتی محاذ پہ درپیش چیلنجز – محمد اشفاق

    جنرل اسمبلی کا اجلاس اور پاکستان کو سفارتی محاذ پہ درپیش چیلنجز – محمد اشفاق

    محمد اشفاق پاکستان اور وزیراعظم نواز شریف کے لیے بھارت کی بدلی ہوئی حکمت عملی کی وجہ سے سفارتی محاذ پہ چیلنجز بڑھتے چلے جا رہے ہیں.

    بھارت پاکستان کے حوالے سے دو تین پہلوؤں پہ ایک ساتھ کام کر رہا ہے. ایک تو وہ کشمیر کے معاملے پر پاکستانی کی جارحانہ سفارتی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے ناراض بلوچ رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملا کر بلوچستان کے مسئلے کو ہائی لائٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے. دوسرا اور زیادہ خطرناک وار ”سی پیک“ کو متنازعہ بنانا ہے. اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موجودہ سیشن میں بلوچستان کے خود ساختہ نمائندے جناب مہران مری نے سی پیک کو چیلنج کر کے بھارتی عزائم آشکار کر دیے ہیں. ان کا کہنا یہ ہے کہ بلوچی سرزمین کا چین کے حوالے کیا جانا ان کے لیے ناقابل قبول ہے اور وہ پاکستان اور چین کے خلاف عالمی عدالت تک جانے کو تیار ہیں. دوسری جانب براہمداغ بگٹی صاحب نے بھی بھارت میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ساتھ میں ملتے جلتے عزائم دہرائے ہیں. ان کے اس موقف کو عالمی سطح پہ زیادہ پذیرائی تو کبھی نہیں مل پائے گی، لیکن یہ ان کا مقصد بھی نہیں ہے. اصل مقصد چین کو سی پیک کے معاملے پر تشویش کا شکار کرنا ہے. ایک چینی تھنک ٹینک کے مطابق چین کو اندیشہ ہے کہ سکیورٹی خطرات کے سبب شاید سی پیک کی لاگت ابتدائی تخمینے سے کہیں زیادہ بڑھ جائے گی، اور ہمسایہ ممالک خصوصا افغانستان کی مخالفت کی وجہ سے اس سے شاید وہ معاشی فوائد بھی نہ حاصل ہو پائیں جن کی توقع کی جا رہی تھی. چین اس کے باوجود یقینا سی پیک کو ہر صورت میں آگے بڑھانا چاہےگا مگر چینی حکومت کی تشویش پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے.

    بھارت افغانستان کو اپنا ہمنوا بنا کر اکنامک کاریڈور کو مزید متنازعہ بنانا چاہتا ہے، ہماری بدقسمتی کہ افغانستان کے امور پر فیصلہ سازی کا اختیار ہم سویلین حکومت کو دینے پر تیار نہیں ہیں اور ہماری اپنی سوچ کا یہ حال ہے کہ آج چلغوزوں کی تجارت پہ پابندی لگا کر ہم اپنی وسط ایشیائی ریاستوں سے مستقبل کی اربوں ڈالر کی تجارت کو داؤ پہ لگا رہے ہیں. ہمیں یہ چیز سمجھنا ہوگی کہ سی پیک کی کامیابی کے لیے افغانستان کا کردار بہت اہم ہے اور اسے ہم نے ہر صورت ساتھ رکھنا ہے. اشرف غنی جیسے سمجھدار اور صابر لیڈر کا بھارتی کیمپ میں چلے جانا ہمارے پالیسی سازوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے. مزید ستم یہ کہ اپنے جن اثاثوں کی خاطر ہم نے اشرف غنی کو ناراض کیا، آج وہ بھی ہم پہ اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں. افغانستان بھی اگر بھارت کی ہمنوائی میں جنرل اسمبلی میں کراس بارڈر ٹیررازم کا راگ الاپتا ہے تو ہمارے لیے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی. اور یہی وہ تیسرا پہلو ہے جس پہ بھارت کام کر رہا ہے.

    اڑی میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعے کو بھارت ممکنہ حد تک اچھالےگا اور اس سے پاکستان کے کشمیر پہ موقف کو کمزور کرنے کی کوشش کرے گا. بھارت کی دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش ہوگی کہ کشمیر میں موجودہ شورش ایک عوامی تحریک نہیں ہے بلکہ پاکستان کے سپانسرڈ دہشت گردوں کا کیا دھرا ہے. اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے موجودہ اجلاس میں بھارتی نمائندے نے نہ صرف کشمیر بلکہ بلوچستان میں بلوچ راہنماؤں کی گرفتاری،گمشدگی اور قتل، سندھ میں اقلیتوں کو نشانہ بنائے جانے اور ایم کیو ایم راہنماؤں کی گرفتاری، کے پی کے میں جاری آپریشن میں لاکھوں لوگوں کے بےگھر ہونے کے حوالے سے بھی پاکستان پہ سنگین الزامات عائد کیے ہیں. اس سے بھارت کے عزائم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے.

    اس کے جواب میں ہم کیا کر رہے ہیں؟
    وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بیس نمائندے مختلف ممالک میں بھیجنے کا جو فیصلہ کیا وہ بھی ایک مثبت اقدام تھا. سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو وزیراعظم کا خط بھی ایک اچھا فیصلہ ہے. جنرل اسمبلی سے خطاب سے پہلے کشمیر جانا اور جناب راجہ مسعود کو اپنے ساتھ نیویارک لے کر جانا بھی اچھا سفارتی اقدام ہے جبکہ وزیراعظم سائیڈ لائن میٹنگز میں مصروف ہوں گے، راجہ صاحب او آئی سی کے کشمیر پہ ورکنگ گروپ کو بریفنگ دیں گے.

    جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں پانچ چھ ایشو مرکزی اہمیت رکھتے ہیں، جن میں شام کی صورتحال، یوکرائن کا تنازعہ، شام اور یوکرائن دونوں میں سیزفائر پر عملدرآمد یقینی بنانا، مہاجرین کا مسئلہ جسے پہلی بار اتنی اہمیت ملی ہے. شام کے ایک علاقے کو سیف زون قرار دے کر وہاں لوگوں کی آبادکاری، ایران سے کیے گئے جوہری معاہدے پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ ان ایشوز میں شامل تھے. پاکستان کی بروقت اور تندوتیز سفارتی کوششوں کے نتیجے میں اب عالمی ذرائع ابلاغ ان معاملات کے ساتھ ساتھ کشمیر پر پاک بھارت کشیدگی کا بھی ذکر کر رہے ہیں، جو بلاشبہ ہماری کامیابی ہے. کئی برسوں بعد کشمیر کے معاملے کو ایک بار پھر عالمی توجہ ملنے کا امکان پیدا ہوا ہے، اسے اب ضائع نہیں ہونا چاہیے.

    کل جنرل اسمبلی سے وزیراعظم کا خطاب اس حوالے سے بہت اہم ہے. ان کے الفاظ کے چناؤ سے اندازہ لگایا جائے گا کہ پاکستان اس معاملے پہ کس حد تک جانے کو تیار ہے. عین ممکن ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے بھی پاکستانی وزیراعظم ایک دو وضاحتی جملے کہہ دیں، جبکہ بلوچستان کے معاملے پر بولنا اس مسئلے کو زیادہ اہمیت دینے کے مترادف ہوگا اس لیے شاید اس پر خاموشی اختیار کی جائے، یا پھر یہ بھی امکان ہے کہ اسے بھارتی مداخلت کے ثبوت کے طور پہ پیش کیا جائے.

    ایک سخت اور جارحانہ تقریر وزیراعظم کی ضرورت بھی ہے. طاہرالقادری صاحب نے مسلسل وزیراعظم کو سکیورٹی تھریٹ قرار دیا ہے اور ان پہ بھارت نوازی کے سنگین الزامات لگائے ہیں، گو کہ قادری صاحب کو کوئی بھی سیریس نہیں لیتا، مگر ایک نرم تقریر مخالفین کو ان الزامات کا اعادہ کرنے پہ اکسائے گی. دوسری جانب عمران خان صاحب کی ایجی ٹیشن کے خلاف عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی اور فوج کو راضی رکھنے کے لیے بھی ایک جارحانہ اور تندوتیز تقریر کام آئے گی. اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم کراؤڈ کے لیے کھیلنا پسند کرتے ہیں یا پھر ایک ٹھوس، سنجیدہ مگر مدبرانہ موقف اپناتے ہیں.

    مگر یہ چیلنجز محض جنرل اسمبلی کے اجلاس تک محدود نہیں ہیں، اب یہ طے ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی بھرپور کوشش ہوگی کہ پاکستان کو خارجی محاذ پہ دفاعی پوزیشن پہ دھکیلا جائے. نومبر میں پاکستان میں سارک سربراہ اجلاس ہونا ہے جس میں چینی صدر اور بھارتی وزیراعظم کی شرکت متوقع تھی، پاکستان کے پاس بین الاقوامی امیج بہتر بنانے، سارک کے چھوٹے ممبرز سے اپنے کشیدہ تعلقات بہتر کرنے اور سفارتی محاذ پہ چند اچھے پوائنٹ سکور کرنے کا بہترین موقع تھا مگر اب یہ اجلاس بھی منسوخ ہوتا دکھائی دے رہا ہے. ہمیں یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہے کہ وہی سارک جس میں کبھی بھارت اور نیپال کو چھوڑ کر سب ملک ہمارے ہم خیال ہوا کرتے تھے، آج اس میں سری لنکا کے علاوہ ہمیں اپنا کوئی اور ہمدرد کیوں نہیں ملتا. بری خبر یہ بھی ہے کہ سری لنکا کے موجودہ صدر بھی اپنی بھارت نوازی کے لیے مشہور ہیں.

    ہمیں اپنے خیرخواہ بڑھانے اور ناقدین کم کرنے کی اشد ضرورت ہے. اس کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنا گھر سیدھا کرنے کی کوشش کریں، بلوچستان اور افغانستان کے مسئلوں پہ سویلین حکومت کو آگے بڑھ کر حالات سنبھالنے کا موقع دیں. اپنے ملک میں موجود عسکریت پسندوں کو، خواہ وہ ماضی میں ہمارے کتنے ہی لاڈلے کیوں نہ رہے ہوں، یہ موقع بالکل نہ دیں کہ وہ کشمیر میں کم سن بچوں کی قربانیوں کے نتیجے میں پنپنے والی خالصتا مقامی تحریک کو اپنے کسی بیہودہ ایڈونچر سے سبوتاژ کر سکیں. لائن آف کنٹرول پہ نگرانی کا نظام بہتر کیا جانا چاہیے، اب ہم مجاہدین درآمد یا برآمد کر کے کشمیر کاز کو فائدہ نہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گے. زمانے کے انداز بدلے گئے، اب ہماری اسی کے عشرے کی پالیسیاں ہمارے کام نہیں آنے والی.

    پاکستان کے لیے آنے والے ماہ و سال آسان نہیں ہیں، مگر یہ پاکستانیوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں رہی. ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری حکومت اور ادارے متوقع خطرات سے پوری طرح آگاہ ہوں اور ان سے نبٹنے کا ایک واضح لائحہ عمل رکھتے ہوں.

  • بھارت کو دستیاب آپشن اور ہمارا ردعمل – محمد اشفاق

    بھارت کو دستیاب آپشن اور ہمارا ردعمل – محمد اشفاق

    محمد اشفاق آج ایک بھارتی اخبار کی ویب سائٹ پر مضمون چھپا ہے جس میں مصنف نے حالیہ واقعے کے بعد بھارت کو دستیاب آپشنز بیان کیے ہیں, جو کچھ یوں ہیں.
    ✘ آزاد کشمیر میں چیدہ چیدہ مقامات پر سرجیکل سٹرائیک
    ✘ بغیر لائن آف کنٹرول کراس کیے پاکستانی فوج کے مورچوں پہ گولہ باری.
    ✘ بارڈر کے ساتھ ساتھ فائرنگ اور شیلنگ.
    ✘ 290 کلومیٹر تک رینج رکھنے والے براہموس میزائل کے ذریعے مبینہ جہادی کیمپس پر حملہ
    ✘ پاکستانی سرحدوں پہ فوجوں کا اجتماع
    ✘ پاکستان کو بین الاقوامی طور پر تنہا کرنے کی کوشش
    ✘ پاکستان کے ساتھ مذاکرات

    دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا ملک قرار دینے، پاکستان کو بین الاقوامی طور پر تنہا کرنے اور محدود حملوں کےذریعے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے. بتایا گیا ہے کہ ان حملوں کا مقام اور وقت بھارتی سرکار بعد میں منتخب کرے گی. جس قدر وسیع پیمانے پر اس ایشو کو لے کر میڈیا ہائپ کھڑی کی گئی ہے، اس کے نتیجے میں بھارتی عوام کا جو ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے اور اس اندرونی دباؤ کو جواز بنا کر جس طرح بھارتی حکومت انتہائی تندوتیز اور جارحانہ بیانات دے رہی ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ کشمیر پر پاکستان کی جارحانہ خارجہ پالیسی کو بےاثر کرنے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے.

    چین، او آئی سی اور امریکہ کی جانب سے کشمیر پر بھارتی موقف کی پذیرائی نہ ہونے کا سبب ہے کہ مودی جی خود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے نہیں جا رہے. اب عین ممکن ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کےاسمبلی سے خطاب سے پہلے یا بعد میں سرجیکل سٹرائیکس یا لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کے ذریعے عالمی برادری کی توجہ اس جانب سے ہٹانے کی کوشش کی جائے. اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ بھارت کی یہ پالیسی بیک فائر کر سکتی ہے کیونکہ بہرحال وہ کچھ بھی کریں گے، اس سے کشمیر کا تنازعہ دنیا کی توجہ مزید کھینچے گا.

    لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کوئی نئی بات نہیں اور اس سے بھارتی عوام یا میڈیا کو مطمئن کرنا شاید ممکن نہ ہو، ایسے میں سرجیکل سٹرائیکس جنہیں ایک عرصے سے بھارتی دفاعی تجزیہ نگار ایک بہتر آپشن گردانتے چلے آ رہے ہیں کو آزمانے کا امکان بڑھتا چلا جا رہا ہے.

    پاکستان کو اس معاملے پر زیرو ٹالرینس کی پالیسی اپنانا ہوگی. بھارتی فوج اور دفاعی ماہرین کو خدشہ ہےتو صرف یہ کہ ان سرجیکل سٹرائیکس کے نتیجے میں کہیں بارڈر پر محدود جنگ نہ چھڑ جائے. ہمیں فوج یا حکومت کی جانب سے ایک پالیسی بیان کے ذریعے ان کےاس خدشے کو قوی کرنا ہوگا. اپنی ائیرفورس کو بھی مزید متحرک کرنے کی ضرورت ہے اور ائیر ڈیفنس سسٹم کو بھی تاکہ کسی ممکنہ سرجیکل سٹرائیک کو ناکام ہی نہ بنایا جائے بلکہ اس کا مؤثر جواب بھی دیا جا سکے.

    بھارت میں نریندر مودی اور پاکستان میں نواز شریف دو ایسے لیڈرز ہیں جن کے باہمی تعاون سے بہت سے تنازعات ختم ہو سکتے تھے اور دو طرفہ تجارت و تعاون کو ایک نئی جہت مل سکتی تھی. افسوس مودی صاحب تولے گئے اور بہت ہلکے نکلے. نواز شریف صاحب نے آرمی اور عوام کی مخالفت مول لے کر بھی بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہا مگر بھارتی رویے کو برداشت کرنا اب ان کے لیے بھی ممکن نہیں رہا.

    مودی سرکار فل سکیل جنگ کرنے یا پاکستان کو سفارتی محاذ پہ ہزیمت سے دوچار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، افسوس وقتی فائدے اور پوائنٹ سکورنگ کی خاطر انہوں نے دیرپا امن کے امکانات ایک بار پھر دھندلے کر دیے ہیں.

  • چلتے رہیے، ورنہ گولی مار دی جائے گی – محمد اشفاق

    چلتے رہیے، ورنہ گولی مار دی جائے گی – محمد اشفاق

    محمد اشفاق کوئٹہ کینٹ اپنی جائے پیدائش ہونے کے سبب اور بہت سے قریبی جاننے والوں کا تعلق فوج سے ہونے کی بنا پر بچپن ہی سے فوج کے ادارے سے ایک والہانہ سی انسیت تھی. ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ ہمارا بچپن دورِ ضیاء میں گزرا، بہرحال فوج اور فوجی جوان بہت اچھے لگتے تھے. بچپن کی بہت سی خوشگوار یادوں کا تعلق فوج اور جی ایچ کیو سے ہے.
    سی ایم ایچ پنڈی کی آفیسرز فیملی وارڈ کے سامنے جہاں آج جی ایچ کیو کا عقبی گیٹ ہے وہاں کبھی سی ایس ڈی ہوا کرتی تھی، اس کے دائیں جانب آرمی یونٹ کے جوانوں کی رہائش گاہیں، عقب میں فیملی کوارٹرز اور ان کے بیچوں بیچ سے راستہ جی ایچ کیو کو جایا کرتا تھا. ہمارا سکول لالکرتی میں تھا تو جب بھی جلدی چھٹی ہو، ہم بھاگم بھاگ جی ایچ کیو کے ساتھ واقع آرمی میوزیم پہنچ جایا کرتے تھے.

    آرمی میوزیم کی بلندوبالا عمارت میں دیوار پہ آویزاں مختلف جنگوں کی تصاویر، خصوصا پاک بھارت جنگوں کی منظرکشی، دشمن کے ہتھیار، پاک فوج کے جوانوں کے زیراستعمال وردیاں اور دیگر اشیاء بہت زیادہ فیسینیٹ کرتی تھیں، نامعلوم کتنی مرتبہ یہ سب دیکھ کر بھی جی نہیں اکتاتا تھا، مگر ہمارے لیے سب سے بڑی اٹریکشن گیٹ کے ساتھ اندرونی جانب کھڑے ٹینک اور بکتربند گاڑیاں ہوا کرتی تھیں.

    وہاں زمین میں پیوست بورڈ کے مطابق ٹینک پہ چڑھنا منع تھا مگر ہمارا آرمی میوزیم کا دورہ ٹینک پہ چڑھ کے نعرے لگائے بغیر ادھورا رہتا تھا اور مزے کی بات یہ کہ ہمیں کبھی روکا بھی نہیں گیا تھا. ٹینک پہ چڑھ کر ہم خود کو بہت قدآور محسوس کیا کرتے تھے کیونکہ سامنے جی ایچ کیو میں چیف آف آرمی سٹاف کا آفس ہماری نظروں کے بالکل سامنے ہوا کرتا تھا. آفس کے سامنے نصب قومی اور پاک آرمی کے پرچم، ڈیوٹی پہ کھڑے چاق و چوبند جوان, لان میں کام کرتے مالی، یہ سب دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا. کبھی ہم میوزیم سے نکل کر جی ایچ کیو کی دیوار سے لٹک جایا کرتے تھے جو ان دنوں محض اتنی ہی اونچی تھی جتنی عام گھروں کی بائونڈری وال ہوا کرتی ہے. دیوار پہ لٹک کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے میں ایک عجیب سا مزا تھا. اور شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ ہمیں باہر سے گزرتے لوگ تو منع کرتے تھے کہ نیچے اترو، اندر سے کبھی ہمیں اتارنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوا کرتی تھی. آفیسرز ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلا دیا کرتے تھے. جوان آفیسرز کو دیکھ کر دور سے ڈپٹتے تھے. ”اوئے بچو، بھاگو ادھر سے، نیچے اترو“ مگر ساتھ ہی آنکھ مار دیا کرتے تھے. مالیوں سے یونہی لٹکے لٹکے گپ شپ ہوا کرتی تھی. یہ سب یوں سمجھیے کہ ہماری سکول لائف کی روٹین کا ایک حصہ تھا، بہت خوبصورت، بہت خوشگوار حصہ.

    جی ایچ کیو کے سامنے گھاس کے بڑے بڑے قطعے تھے جہاں شام کو قرب و جوار سے لوگ واک کرنے آیا کرتے تھے، آرمی ہاکی سٹیڈیم کی پشت پر یہ پورا علاقہ آرمی سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے پاس تھا، آرمی کے ایتھلیٹ یہاں پریکٹس کیا کرتے تھے، عام لوگ گھاس پہ بیٹھ کر گپیں ہانکتے تھے، پرل کانٹیننٹل اور شالیمار میں مقیم غیرملکی یہاں اکثر آیا کرتے تھے اور آرمی کرکٹ گراؤنڈ جو پنڈی کرکٹ سٹیڈیم بننے سے قبل تک پنڈی کا آفیشل کرکٹ گراونڈ تھا، وہاں کھلاڑیوں کی نیٹ پریکٹس دیکھا کرتے تھے. مختلف سمتوں سے آٹھ دس راستے اس وقت جی ایچ کیو کو جاتے تھے مگر کسی پہ بھی کسی بھی شخص کو نہ تو روکا جاتا تھا نہ اس کی تلاشی لی جاتی تھی. جی ایچ کیو کے مرکزی گیٹ پہ دو فوجی جوان باہر تعینات ہوتے تھے، جو شام کو عموما بالکل فارغ ہوا کرتے تھے. کبھی آرمی چیف جی ایچ کیو میں موجود ہوں تو ایک اضافی ملٹری جیپ سے ان کی موجودگی کا پتہ چلتا تھا.

    یہ تو جی ایچ کیو کا حال تھا، سی او ڈی، ٹینتھ کور ہیڈ کوارٹر، قاسم مارکیٹ، آرمی ایوی ایشن، راولپنڈی میں سویلین اور فوج ہر جگہ اس طرح مدغم تھے کہ ایک سے دوسرے کا فرق معلوم نہیں ہوتا تھا. جہاں اب سگنلز کالج ہے وہاں سگنلز یونٹ کے اندر ہم لوگ کرکٹ کھیلا کرتے تھے، گولڑہ موڑ والے ای ایم ای کالج کے آڈیٹوریم میں فلمیں لگا کرتی تھیں، جو ریاض کے ابو کو ملنے والے پاس کی بدولت ہم مفت میں دیکھا کرتے تھے. یہ تھا ہمارے بچپن کا پنڈی اور ہمارے بچپن کی آرمی.

    جیسے جیسے عمر اور شعور میں اضافہ ہوا، فوج کی بہت سی غلطیوں کا بھی علم ہوا، جمہوریت کی بحالی کے بعد بہت سی ایسی باتیں علم میں آئیں جن پر ضیاء دور میں لب کشائی بھی جرم تھی، مگر یہ سب باتیں اس ادارے سے والہانہ محبت کو کم نہ کر پائیں. ہاں یہ ضرور ہے کہ اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کی خواہش کے باوجود میں نے آرمی جوائن نہ کی، بچپن ہی سے جمہوریت پرست جو تھے.

    کوئٹہ والی خالہ کے بیٹے آرمی میں کرنل تھے، ہمارے گھر ملنے آئے، میرا کالج کا دور تھا اور نواز شریف اور بی بی شہید میں شدید چپقلش کا زمانہ. کرنل صاحب نے طویل سیاسی تجزیے کا اختتام اس فقرے سے کیا. ”دے آل آر باسٹرڈز“ اور میرے منہ سے بے اختیار نکلا ”اینڈ سو آر یو, سر“ پھر ہمارے تعلقات کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے. ہم نے کالج سے نکل کر ادھر ادھر جھک مارنا شروع کی تو مشرف صاحب نازل ہو گئے.

    غالبا 2002ء یا 2003ء کی بات ہے، شاہ جی کی سی این جی سٹیشن سے ڈیوٹی رات بارہ بجے ختم ہوتی تھی، ہم انہیں وہاں سے ساتھ لیا کرتے تھے اور رات کو ڈھائی تین تک آوارہ گردی. ایک رات شاہ جی کے دفتر کے سامنے سڑک پر گپیں لگا رہے تھے کہ ایک فوجی چیپ پاس آ کر رکی. ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے صوبیدار نے کڑک کر پوچھا، ”ادھر کیوں بیٹھے ہو تم لوگ؟“ اسلام نے اتنا ہی کڑک کر جواب دیا ”تمہیں کیا تکلیف ہے؟“ صوبیدار صاحب طیش میں آ گئے. انہوں نے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹری کے نشے میں دو سنائیں تو جوابا انہیں دس سننا پڑیں، نشہ ہرن ہوگیا، اتنے میں شاہ جی آئے اور ہمیشہ کی طرح کامیاب مصالحت فرمائی, صوبیدار صاحب جاتے ہوئے کہنے لگے- ”آپ لوگ دیکھتے نہیں حالات کتنے خراب ہیں“ میں نے جھٹ جواب دیا ”تو حالات ہم نے نہیں، آپ لوگوں نے خراب کیے ہیں.“ صوبیدار صاحب سر جھٹک کر آگے بڑھ گئے.

    افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد حالات تیزی سے بگڑنے لگے، مشرف کی اختیارکردہ پالیسیوں کے سبب فوج اور سویلینز پر حملوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو اب تک رکنے میں نہیں آ رہا. راولپنڈی کینٹ جو ملک کا محفوظ ترین علاقہ تھا وہاں پے در پے ہونے والے خودکش حملوں اور بم دھماکوں نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا. شاید ہی کوئی ایسا کینٹ کا رہائشی ہو جس کا ایک نہ ایک جاننے والا بائیس نمبر، آر اے بازار، قاسم مارکیٹ اور جی ایچ کیو بم دھماکوں میں شہید یا زخمی نہ ہوا ہو. سویلینز تو روزانہ گھر والوں سے اور اللہ سے گناہوں کی معافی مانگ کر اللہ کے آسرے پر کام کرتے رہے اور کر رہے ہیں. فوجی اداروں کی پہلے دیواریں بلند ہوئیں، پھر گیٹ تبدیل ہوئے، پھر خاردار تاریں لگیں، پھر بیرئر لگے، پھر ریت اور سیمنٹ کے مورچے قائم ہوئے، سویلینز کا فوجی اداروں کے پاس پھٹکنا ممنوع قرار پایا تو فوجی آفیسرز کا سویلینز کے علاقوں میں باوردی جانا بھی منع ٹھہرا. مشرف پر پے در پے ہونے والے حملوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کر ڈالی اور اب ہر سویلین مشکوک ٹھہرا. جی ایچ کیو کو جانے والے تمام راستے بند ہوگئے، ٹینتھ کور فوجی قلعے میں تبدیل ہو گئی، سی او ڈی، پانچ سو دو ورکشاپ، قاسم مارکیٹ، ریس کورس کا علاقہ، ای ایم ای کالج اور گولڑہ ڈپو کے پاس سے گزرنا بھی محال ہو گیا، آرمی ایوی ایشن میں چونکہ امریکی ہیلی کاپٹر اترتے تھے لہٰذا وہاں تو قرب و جوار کے محلوں میں بھی لوگوں کے گھروں کی چھتوں پر فوجی مورچے بن گئے. ریس کورس پارک میں یوم دفاع پر ہونے والی ہتھیاروں کی نمائش اور پریڈ ختم ہو گئی. آرمی چیف نے ایک راستے سے گزرنا ہوتا تو تین راستے بند کر دیے جاتے، خلقِ خدا سڑکوں پہ کھڑی رہتی کہ ان کی جان کے محافظوں کی اپنی جان اب خطرے میں تھی. بدقسمتی سے حکمران بھی فوج تھی تو ان سب اقدامات کا سبب بھی ان کی اپنی پالیسیاں تھیں.

    یہ سب ہم دیکھتے رہے اور سہتے رہے. ایک روز ایوب پارک میں اب جس حصے پر آرمی ہیریٹج فاؤنڈیشن قابض ہے، گھوم رہا تھا، چند سکول کے بچے دیکھے جو اٹکھیلیاں کرتے ادھر آ نکلے تھے. ٹینک پر بچوں کی نگاہ پڑتی گئی تو ان میں سراسیمگی سی پھیل گئی. ”واپس چلو, یہ آرمی کا ایریا ہے“ یہ جملہ سن کر دل میں کچھ ٹوٹ سا گیا. ”بیٹا ڈرو نہیں، یہ ہماری اپنی آرمی ہے، انڈیا کی نہیں“ یہ کہہ کر بچوں کو تو میں نے بہلا لیا مگر اپنا دل بری طرح بوجھل ہوگیا. پنڈی کی ایک نسل فوجی ٹینکوں پہ سواریاں کرتے پروان چڑھی تھی جبکہ دوسری نسل کے لیے یہ ٹینک خوف کی علامت تھے. آمریت کس طرح ایک پوری نسل کا مزاج بدل ڈالتی ہے.

    کچھ عرصہ ہوا، شاید 2012 کی بات ہے، خوشگوار موسم دیکھ کر بائیک کو ایڑ لگائی، اڈیالہ روڈ سے جو راستہ ایوب پارک کے پاس پشاور روڈ پر جا نکلتا ہے وہاں سے گزر رہا تھا کہ ایک فوجی عمارت کی دیوار پہ لکھی ایک تحریر نے وہیں منجمد کر دیا.
    ”رکیے نہیں، چلتے رہیے، ورنہ گولی مار دی جائے گی.“
    کبھی کسی اور جملے نے اتنی توہین، بے بسی اور اشتعال کا احساس نہیں دیا جتنا اس وقت اس فقرے نے. یہ میرا اپنا شہر تھا، یہ میری اپنی سڑک تھی، یہ میری اپنی فوج کی عمارت تھی، اور مجھے ہدایت کی جا رہی تھی کہ چلتا بنوں ورنہ گولی مار دی جائے گی. بائیک روک کر میں اس تحریر کے سامنے کھڑا ہوگیا. اوپر مورچے پر تعینات جوان کو میں نے اشارہ کیا ”چلا گولی“. ایک بے جان، پھیکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آئی اور اس نے نظریں دوسری جانب پھیر لیں. کئی لمحے بعد میں بائیک پہ بیٹھا تو احساس ہوا کہ میں رو بھی رہا تھا. شاید یہ لکھتے ہوئے بھی میں رو رہا ہوں. ایک قوم اور اس کی فوج میں اتنے فاصلے پیدا ہوجانا بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے.

    اگلے روز صبح جاگنگ کرنے نکلا، ان دنوں میرا معمول تھا صبح کی اذانوں سے بھی پہلے سڑکوں پہ نکل آیا کرتا تھا. جانے کیوں شدت سے جی چاہا، ایک بار پھر جی ایچ کیو کی جانب جایا جائے. منہ اندھیرے کبھی جاگ تو کبھی واک کرتا لالکرتی موڑ پہنچا، جہاں آج سی ایس ڈی کمپلیکس ہے، وہاں کبھی ہم فوجی کوارٹرز کے درمیان پکڑن پکڑائی کھیلا کرتے تھے. چرچ کے سامنے سے جی ایچ کیو کی جانب مڑا، بائیں ہاتھ پر آرمی پبلک لائبریری تھی، اسی کے ساتھ کبھی آرمی میوزیم ہوا کرتا تھا. سڑک پر کنکریٹ کے بلند و بالا بیرئرز ایستادہ تھے اور ان کے پیچھے فوجی جیپ میں ملٹری پولیس کے مستعد جوان. مجھے دیکھ کر ان میں ایک بے چینی کی لہر سی دوڑ گئی. شلوار قمیض اور جوگرز میں ملبوس، پسینے سے شرابور میں رات کے اس آخری یا صبح کے اس پہلے پہر یقینا بہت مشکوک لگا ہوں گا. مگر ان کا اللہ بھلا کرے، کسی نے مجھے نہیں روکا. ہانپتا ہوا، تیز تیز دھڑکتے دل کے ساتھ میں وہاں کھڑا کچھ دیر جی ایچ کیو کو دیکھتا رہا. جہاں کبھی آرمی میوزیم تھا اس دیوار کے پیچھے اقبال، خاور، شفیق اور شبیر مجھے سکول کی یونیفارم میں دوڑتے بھاگتے نعرے لگاتے دکھائی دیے. بے ساختہ دیوار کو چھو لیا اور واپس پلٹ آیا.

    بحیثیت قوم اس سے پہلے اور اس کے بعد ہم بہت کچھ دیکھ اور بھگت چکے تھے، سلالہ چیک پوسٹ، ایبٹ آباد آپریشن، ڈرونز اور جواب میں اپنا مرا مرا سفارتی احتجاج. ہم یہ بھی دیکھ چکے کہ جب جب فوج اپنی طے شدہ ذمہ داریوں سے بڑھ کر مزید ذمہ داریاں اپنے کندھوں پہ اٹھاتی ہے، اس کا سب سے زیادہ نقصان خود فوج ہی کو ہوتا ہے. لگتا یہ ہے کہ ہماری موجودہ قیادت نے اس بات کا احساس کر لیا ہے. بہت کچھ درست ہوچکا بہت کچھ درست ہونا ابھی باقی ہے. یوم دفاع ابھی گزرا ہے اور ستمبر 65ء کے 17 دن ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ جب ایک قوم اپنی فوج کے پیچھے آہنی دیوار بن کر کھڑی ہوتی ہے تو تین گنا زیادہ طاقتور دشمن کو بھی میدان جنگ سے نامراد لوٹنا پڑتا ہے اور جب فوج قوم کی حمایت کھو بیٹھتی ہے تو اس کی اپنی سرزمین اس کے لیے اجنبی ہوجایا کرتی ہے جیسا کہ مشرقی پاکستان میں ہوا.

    یہ آہنی بنکرز، یہ فولادی بیرئرز، یہ ریت کی آڑ میں بنے مورچے اور ان کے اندر سے جھانکتی مشین گن کی نالی، آپ کو دہشتگردوں سے تو نہیں بچا پاتے، البتہ عوام اور آپ میں ایک غیرمرئی مگر آہنی پردہ ضرور تان دیتے ہیں. وعدہ کیجیے کہ آپ ہماری حفاظت کو بھی اتنی ترجیح دیں گے جتنی اپنی سلامتی کو دیتے ہیں، تو پوری قوم آپ کے پیچھے اسی طرح کھڑی ہو گی جیسے 1965ء میں کھڑی تھی. ورنہ یقین جانیے اب ملی نغمے اور آپ کی پریس ریلیزز زیادہ متاثر نہیں کرتیں.
    پاکستان زندہ باد

  • بچوں کے نگہبان بنیے، فیملی کی حفاظت (3) – محمد اشفاق

    بچوں کے نگہبان بنیے، فیملی کی حفاظت (3) – محمد اشفاق

    محمد اشفاق اسے بدقسمتی کہیے یا ہمارے اعمال کا پھل، ہمارا معاشرہ بچوں کےلیے کوئی آئیڈیل معاشرہ نہیں کہا جا سکتا. ریاست کی اپنے بچوں کی تعلیم، صحت، ماں اور بچے کی نگہداشت، صحتمند تفریح اور کھیلوں کے مواقع پہ سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے. ایسے میں اپنے بچوں کی ممکنہ حد تک یا یوں کہہ لیجیے کہ حسبِ استطاعت بہترین پرورش کی ذمہ داری ساری کی ساری والدین کے کندھوں پہ آ جاتی ہے. بچوں کے تحفظ کا بوجھ بھی آپ نے خود ہی اٹھانا ہے، اس لیے علم ہونا چاہیے کہ آپ انہیں ایک محفوظ ماحول دینے کےلیے کیا کچھ کر سکتے ہیں.

    ’’متوقع خطرات‘‘
    یہ بہت مبہم سا عنوان ہے، بچوں کو بلکہ بڑوں کو بھی لاحق خطرات کی ہزارہا اقسام ہو سکتی ہیں. مگر اپنی آسانی کی خاطر ہم یہاں انہیں چار حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں.
    گھریلو حادثات
    بیرونی حادثات
    جسمانی، ذہنی یا جنسی تشدد
    اغوا

    ’’گھریلو حادثات‘‘
    زیادہ تر ڈیڑھ دو سال سے نو دس سال کی عمر کے بچے ان حادثات کا نشانہ بنتے ہیں. اگر آپ نے اس مضمون کی پہلی قسط پڑھ کر اس پہ عمل کر رکھا ہے تو امید ہے کہ آپ کا گھر بچوں کے لیے بہت حد تک محفوظ ہوگا. ایک سے پانچ سال کی عمر تک کے بچے دنیا کو خود دریافت کر رہے ہوتے ہیں. اس لیے وہ اپنی حسیات کا بھرپور استعمال کرتے ہیں. ہر چیز کو چھو کر، سونگھ کر، چکھ کر دیکھنا ان کے سیکھنے کے عمل کا حصہ ہے. اس میں رکاوٹ مت بنیے، بس اتنا دھیان رہے کہ نوکیلی، کھردری، وزنی اشیاء سے وہ بچے رہیں. کوئی مضر چیز نگلنے نہ پائیں. اس کے لیے ماؤں یا دیگر بڑوں کو بچوں پہ کڑی نگاہ رکھنا پڑتی ہے. خدانخواستہ کسی حادثے کی صورت میں فرسٹ ایڈ کٹ جس کا ذکر پہلے مضمون میں آیا، استعمال کیجیے اور فوری ڈاکٹر سے رجوع کیجیے. بہتر یہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر سے فون پہ رابطہ کر کے ان سے ہدایات لے لی جائیں خصوصا اس صورت میں جب بچے نے خدانخواستہ کوئی زہریلی چیز نگل لی ہو. بعض اوقات قے کروانے کے لیے جو گھریلو ٹوٹکے استعمال کیے جاتے ہیں وہ زیادہ نقصان کا سبب بنتے ہیں.
    پانچ تا دس سال کے بچے زیادہ تر کھیل کود یا جسمانی شرارتوں میں زخمی ہوتے ہیں. یہ ان کے سیکھنے اور مضبوط ہونے کا عمل ہے، ان کی حوصلہ شکنی مت کیجیے، نگرانی میں البتہ کوتاہی نہیں ہونی چاہیے.

    ’’بیرونی حادثات‘‘
    گھر سے باہر جہاں بچے ٹریفک حادثات کی زد میں ہوتے ہیں، وہاں کھیل کے میدان یا سکول میں ہونے والے حادثات بھی انہیں متاثر کر سکتے ہیں. بچوں کی سکول وین کا ڈرائیور ذمہ دار شخص ہونا چاہیے. کم عمر ڈرائیوروں سے بچیے. اس مد میں مزید احتیاطی تدابیر آگے آئیں گی. اطمینان کر لیجیے کہ بچوں کے سکول میں کھیل کود فزیکل انسٹرکٹر کی نگرانی میں ہوتی ہیں. سکول میں فرسٹ ایڈ باکس موجود رہتا ہے. سکول انتظامیہ کے پاس آپ کا اور آپ کے پاس ان کا نمبر موجود ہے.
    بچوں کے ساتھ شاپنگ یا تفریح پہ جاتے ہوئے گاڑی انتہائی محتاط ہو کر چلائیں. چھوٹے بچوں کو کسی صورت فرنٹ سیٹ پہ مت بٹھائیں. نہ صرف خود غلطی کرنے سے بچیں بلکہ دوسروں کی غلطیوں سے بھی خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں. ٹریفک قوانین کی پابندی کریں. جو نسل آج سڑکوں پہ گاڑی چلا رہی ہے اگر اس کے ماں باپ کو ٹریفک سینس ہوتی تو آج ہماری سڑکیں اتنی غیرمحفوظ نہ ہوتیں.
    پیدل چلتے ہوئے بچوں کو سڑک والی طرف مت چلنے دیں. روڈ کے درمیان دوڑنے بھاگنے کو ان کی عادت مت بننے دیجیے. انہیں چلتی یا رکی ہوئی گاڑیوں کو چھونے سے بھی منع کیجیے. پبلک ٹرانسپورٹ پہ سفر کرنا پڑے تو جہاں تک ممکن ہو، بہتر سروس استعمال کیجیے.

    ’’جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد‘‘

    بچوں پہ جسمانی اور ذہنی تشدد سب سے زیادہ والدین اور اساتذہ کی جانب سے کیا جاتا ہے، خود کو سدھار لیجیے. دنیا بھر میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ تشدد صرف نفرت کو جنم دیتا ہے، یہ سیکھنے کے عمل میں کسی بھی طرح معاون نہیں ہوتا. بچوں کو تمیز سکھانی ہے تو خود تمیزدار بنیے. انہیں دیندار بنانا ہے تو پہلے خود تو بن جائیے. انہیں ذمہ دار دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنی ذمہ داریاں نبھائیے. اپنے دیگر رشتہ داروں یعنی والدین، بہن بھائیوں وغیرہ کی اپنے عمل سے حوصلہ شکنی کیجیے کہ وہ آپ کے یا اپنے بچوں پہ تشدد نہ کریں. بچوں پہ سختی بسا اوقات ضروری ہو جاتی ہے لیکن ریڈ لائن کبھی عبور مت کریں. ذہنی تشدد میں بلاوجہ کی ڈانٹ ڈپٹ، لعن طعن، تعلیمی کارکردگی کی وجہ سے دباؤ میں رکھنا، یہ سب والدین کی جانب سے ہوتا ہے اور بچے کی شخصیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیتا ہے. یقینی بنائیں کہ بچوں کو سکول میں جسمانی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جاتا، مگر اتنا کافی نہیں. یہ بھی یقینی بنائیں کہ آپ کے بچے کو تضحیک اور تمسخر کا نشانہ نہ بنایا جاتا ہو، خصوصا کسی جسمانی یا ظاہری خامی کی وجہ سے. اس کا طریقہ یہی ہے کہ بچوں کو اتنا اعتماد دیں کہ وہ باہر کی ہر بات آپ کو بتاتے ہوں. اگر بچہ اچانک سکول جانے سے گھبرانے لگے، سکول سے واپس آ کر خاموش رہے تو اسے سیریس لیجیے. اس کی بات پہ بھروسہ کریں لیکن ساتھ ہی اس کی تصدیق کرنا مت بھولیں.

    بچوں پہ جنسی تشدد ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا سوچ کر ہی دل ڈوب سا جاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس پہ بات کرنے سے عموما گریز کیا جاتا ہے، لیکن ہم کتنا ہی گریز کیوں نہ کریں یہ لعنت اتنی عام ہے کہ ملک کے کچھ علاقوں میں تو اسے بالکل نارمل سا سمجھا جاتا ہے. بچیوں کی نسبت بچے اس کا زیادہ نشانہ بنتے ہیں، اور خوفناک بات یہ کہ مجرم زیادہ تر بچے کے قریبی رشتے دار ہوتے ہیں. پاکستان میں ’’ساحل‘‘ نامی ایک این جی او نے اس گھمبیر اور خوفناک مسئلے پہ نہ صرف بہت کارآمد تحقیقات کر رکھی ہیں بلکہ اس سلسلے میں والدین کو آگاہی فراہم کرنے کےلیے ان سے آپ کو بہت سی مفید معلومات بھی مل سکتی ہیں. ’ساحل‘ کی ویب سائٹ وزٹ کیجیے، فون نمبر لے کر ان سے معلومات حاصل کیجیے، ویب پہ بچوں کی اس حوالے سے تربیت، والدین کو آگاہی مہیا کرنے اور حفاظتی تدابیر وغیرہ پہ بہت سا قیمتی مواد موجود ہے، اس سے استفادہ کیجیے.

    گزشتہ دنوں ہمسایہ ملک کے اداکار عامر خان کی ایک وڈیو وائرل ہوئی تھی, جس میں وہ بچوں کو اس حوالے سے بہت سی مفید باتیں سمجھا رہے تھے، اسے ضرور دیکھیے. اس مسئلے کو نظرانداز بالکل مت کیجیے. یہاں ایک بار پھر بچے کی بہتری کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ آپ سے کس حد تک بلاجھجک اپنا ہر مسئلہ اور ہر الجھن بیان کر سکتا ہے. اس کے لیے آپ کو اپنا بہت سا قیمتی وقت بچوں کو دینا ہوگا، اپنی بہت سی مصروفیات ترک کرنا ہوں گی. محض بچوں کو جنم دے کر جنت نہیں کمائی جاسکتی. اپنی ذمہ داری کو سمجھیے. بچہ خدا کو نہیں جانتا، اس کے سب کچھ آپ ہیں، اس کا خدا سے، شیطان سے اور دنیا سے تعارف آپ ہی کے توسط سے ہونا ہے. یہ بات یقینی بنائیں کہ اسے آپ میں ایک اچھی دنیا دکھائی دے. اسے جہاں برائی دکھائی دے گی، وہ اسے بھی آپ سے شئیر کرے گا، ایسے میں اسے دھمکانے کی، ڈانٹنے کی یا اس کی حوصلہ شکنی کی ہر کوشش اسے آپ سے کچھ دور اور بدی سے کچھ قریب کر دے گی.

    ’’اغوا‘‘
    ان دنوں پورا ملک میڈیا اور سوشل میڈیا کے غیرذمہ دارانہ رویہ کی بنا پہ جن افواہوں کی زد میں ہے، ان سے قطع نظر بہرحال جرائم پیشہ عناصر نہ صرف ہمارے اردگرد موجود ہیں، بلکہ اکثر بغیر قانون کے کسی ڈر کے پھل پھول بھی رہے ہیں، اس لیے بہرحال بچوں کا اغوا ایک حقیقت ہے.
    اپنے بچوں کو سکول سے لانے اور لے جانے کے لیے جو سکول وین لگوائیں، اس کے ڈرائیور کو آپ اچھی طرح جانتے ہوں، اس کا پتہ آپ کے پاس محفوظ ہونا چاہیے. اسے کبھی لاپرواہی مت برتنے دیں، کبھی نیا ڈرائیور وین میں دیکھیں تو مکمل تسلی کر لیں. سکول کے گارڈز اور عملے سے دوستانہ تعلقات رکھیے، وہ آپ کے بچے کا خصوصی خیال رکھیں گے، مگر انہیں بھی بچوں سے ایک حد سے زیادہ بے تکلف مت ہونے دیں. بچوں کو والد، والدہ، چچا یا ماموں کے نام، نمبرز، اپنے گھر کا پتہ وغیرہ یاد کروائیں. اگر آپ گارڈ افورڈ کر سکتے ہیں تو بچوں کو سکول، شاپنگ یا تفریح وغیرہ پہ گارڈ کے ساتھ بھیجیں. خود یہ فریضہ انجام دے سکتے ہیں تو سب سے بہتر. کم عمری ہی سے بچوں کو اجنبیوں سے برتاؤ کی تربیت دیں، انہیں اعتماد دیجیے. ان سے کھیل کھیل میں مختلف خطرناک سچویشنز ڈسکس کیجیے، انہیں سکھائیں کہ خطرے کی صورت انہیں کیا کرنا چاہیے. مارشل آرٹس نہ صرف بچوں کو جسمانی طور پہ مضبوط بناتے ہیں بلکہ انہیں ذہنی طور پہ بھی چوکس اور مضبوط رکھتے ہیں. بچوں اور بچیوں دونوں کو ان کی تربیت دیجیے.

    ان سب باتوں سے زیادہ اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ اپنے بچوں کے لیے پروٹیکٹو ہوں لیکن اوور پروٹیکٹو ہرگز مت ہوں. انہیں اپنا بچپن بھرپور طریقے سے گزارنے دیجیے. یہ مضمون آپ کو خوفزدہ کرنے اور آپ کے بچوں کو چاردیواری میں مقید کرنے کی نیت سے نہیں لکھا گیا. بچوں کو اپنی زندگی جینے دیں، وہ گریں گے، پھسلیں گے، چوٹ کھائیں گے اور جینا سیکھیں گے. بس اپنی دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنے عمل سے بھی یقینی بنائیں کہ انہیں کوئی ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچے. اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو.

    اس سلسلے کی اگلی قسط آخری ہوگی جس میں کوشش ہوگی کہ پبلک مقامات پہ اپنی اور اپنے پیاروں کی حفاظت اور سیلف ڈیفنس کے چند بنیادی اصولوں سے متعلق آپ کو آگاہی دی جائے. ان شاءاللہ

    پہلی قسط یہاں ملاحظہ کیجیے

    دوسری قسط یہاں ملاحظہ کیجیے

  • سفر کیجیے Suffer نہیں، فیملی کی حفاظت (2) – محمد اشفاق

    سفر کیجیے Suffer نہیں، فیملی کی حفاظت (2) – محمد اشفاق

    محمد اشفاق گزشتہ مضمون میں ہم نے اپنے گھر کو فیملی کے لیے زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے چند طریقے دیکھے تھے، مگر ہمیشہ گھر پہ رہنا بھی ممکن نہیں. تعلیم، روزگار یا شاپنگ کے علاوہ تفریح یا کسی خوشی یا غم میں شرکت کے لیے پوری فیملی کو سفر کرنا پڑتا ہے. یہ سفر اندرونِ شہر کا بھی ہو سکتا ہے اور کسی دوردراز مقام کا بھی. اپنی افتادِ طبع سے مجبور ہو کر میں نے اس مضمون میں سفر بسلسلہ سیر و تفریح فرض کیا ہے مگر اس کا اطلاق دیگر تمام مقاصد کے تحت کیے جانے والے سفر پہ بھی ہو سکتا ہے.

    ’’ایک روزہ سفر‘‘
    شہر کے اندر یا مضافات میں کسی پارک یا تفریحی مقام کی سیر بہت خوشگوار تجربہ ہوتا ہے. خواتینِ خانہ کو گھر کی یکسانیت سے نجات ملتی ہے تو بچوں کو اپنی سخت تعلیمی روٹین کی تھکن اتارنے کا موقع ملتا ہے. گھر سے دور کسی پرفضا مقام پہ اکٹھے دن گزارنا پورے خاندان کو کئی دنوں کے لیے تازہ دم کر دیتا ہے. اس سفر کو زیادہ سے زیادہ محفوظ اور خوشگوار بنانے کےلیے ضروری ہے کہ آپ چند باتوں کا خیال رکھیں.

    ’’متوقع خطرات‘‘
    وہی بات کہ مصیبت کی آمد کا انتظار مت کیجیے بلکہ اسے آنے سے پہلے ہی روکنے کے انتظامات کریں. اس قسم کے سفر میں عموما جو خطرات درپیش آ سکتے ہیں، ان میں خراب موسم، گاڑی کی خرابی، ٹریفک کے مسائل، تفریحی مقام پہ رش یا آوارہ قسم کے لوگ، ناقص خوراک یا آلودہ پانی شامل ہیں. ان سے بچنے کے لیے مندرجہ ذیل ترکیبوں پہ عمل کیجیے.
    ★ موسم کی صورتحال دو دن پہلے دیکھ لیجیے اور اس کے مطابق تیاری کیجیے.
    ★ اپنی گاڑی کو ایک دن پہلے تیار کر لیجیے، یہ یقینی بنائیں کہ تیل پانی پورا ہے، اے سی یا ہیٹر اور ریڈی ایٹر بہترین حالت میں ہیں. ٹائرز کی کنڈیشن ٹھیک اور ہوا پوری ہے، سپئر وہیل اور جیک پانا موجود ہیں اور گاڑی کے بریکس بالکل درست کام کر رہے ہیں. اگر اپنی گاڑی نہیں، کسی دوست کی یا رینٹ پہ لینی ہے تو بھی یہ باتیں مدنظر رکھیں، اگر پبلک ٹرانسپورٹ پہ سفر کرنا ہے تو وقت سے پہلے نکلنے کی کوشش کیجیے تاکہ بہتر آپشن مل سکیں.
    ★ گاڑی میں اپنے ساتھ فرسٹ ایڈ کٹ جس کا گزشتہ مضمون میں ذکر ہوا لازمی رکھیے. اس کے علاوہ ایک سوئس نائف، ایک مضبوط رسی، ایک اچھی کوالٹی کی ٹارچ ایسی اشیاء ہیں جن کا ہر وقت گاڑی میں موجود ہونا آپ کے لیے بہت سی مشکلات سے نجات کا سبب بنتا ہے.
    ★ سفر کا متوقع روٹ اور ایک یا دو متبادل رستے آپ کے علم میں ہونے چاہییں. علم نہ ہو تو کسی علم والے سے پوچھتے یا گوگل بابا کی مدد لیتے بالکل مت شرمائیں. کوئی دوست یا جاننے والا حال ہی میں وہاں جا چکا ہے تو اس سے مشورہ کر لیجیے. مشاورت بہت سے پچھتاووں سے بچا لیتی ہے.
    ★ رش آورز سے بچنے کی کوشش کیجیے، ایسے پروگرام عموما تعطیل والے دن رکھے جاتے ہیں، اور تعطیل پہ رش آورز بدل جایا کرتے ہیں، اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے.
    ★ بہت مرتبہ تفریحی مقامات پہ بہت سی فیملیوں کو بوکھلائے ہوئے یا بیزار سے گھومتے دیکھا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ بےتحاشا رش اور اوباش قسم کے لوگ ہوا کرتے ہیں. پارک یا تاریخی مقام سے وابستہ سکون اور آسودگی کا تصور لوگوں کے جمِ غفیر، بے ہنگم موسیقی کے شور اور آوارہ کتوں کی سی فطرت و عادات کا مظاہرہ کرتے اوباشوں کے گروہوں کے ہاتھوں پامال ہو کر رہ جاتا ہے. اس قسم کی صورتحال سے بچنے کے کئی ایک طریقے ہیں. کسی ایسے گوشے کا انتخاب کیجیے جہاں زیادہ رش نہ ہو، مگر کم ازکم دو تین فیملیاں آپ کے اردگرد موجود ہوں. ایسی تفریح جن پہ ٹکٹوں کے لیے طویل قطاریں لگی ہوں، سے پرہیز کریں. انتظار کی کوفت اٹھانے کے بعد چند منٹ کی تفریح سے بہتر ہے کہ متبادل آپشنز کا انتخاب کیا جائے. اگر آپ کا پالا لفنگوں سے پڑ ہی جائے تو حتی الامکان انہیں نظرانداز کیجیے اور گھر والوں کو بھی ایسا کرنے کی تلقین کریں. آوارہ کتوں ہی کی طرح یہ لوگ بھی توجہ کے طالب ہوا کرتے ہیں، آپ اگنور کریں گے تو کسی اور سمت منہ پھیر لیں گے. اگر کوئی منہ زبانی بیہودگی کرے تو صبر سے کام لیجیے. آپ کے گھر والوں کی سلامتی و تحفظ آپ کی انا یا عزت نفس سے زیادہ قیمتی ہے. میں ذاتی طور پہ ایک ایسے صاحب کو جانتا ہوں جنہوں نے ایک شخص کو اپنی بیوی کو گھورنے پہ زخمی کردیا اور پھر وہی بیوی سینکڑوں گھورتی نگاہیں سہتی ان سے جیل میں ملنے جایا کرتی تھی. جہاں تصادم ناگزیر سمجھیں وہاں صرف اس حد تک جارحیت دکھائیں جو معاملات کو ایک حد سے آگے نہ بڑھنے دے، ضرورت پڑے تو انتظامیہ یا سکیورٹی اگر ہو تو ان کی مدد لیجیے.
    ★ اس ناخوشگوار صورتحال، رش، ٹریفک، تھکن اور بدمزگی سے بچنے کا ایک نہایت کارآمد اور آزمودہ نسخہ یہ ہے کہ تفریح کے لیے علی الصبح نکل کھڑے ہوں. فجر کی نماز پڑھ کر ناشتہ بنائیں یا خاتونِ خانہ کو آرام دینا مقصود ہے تو باہر سے گرما گرم ناشتہ پیک کروائیں اور خالی سڑکوں پہ گاڑی بھگاتے اپنے مطلوبہ مقام پہ جا پہنچیں. گرمیوں کی شبنمی صبح یا سردیوں کی رومانی دھند میں پارک کے پرسکون ماحول کا لطف اٹھائیں. ناشتہ کریں، گھر والوں کے ساتھ گھومیں، کھیلیں، کودیں، ناچیں، گائیں اور جب رش زیادہ بڑھنے لگے تو واپس ہو لیں.
    ★ شاپنگ یا سفر میں جب آپ کسی خاتون کے ساتھ پیدل چل رہے ہوں تو انہیں راستے کی اندرونی جانب رکھیے، ان کی دوسری جانب ایک قدم پیچھے رہ کر چلیں، ان کےلیے دروازے کھولیں، کسی مشکل مقام پہ آگے بڑھ کر انہیں سہارا دیں اور خواتین سے دس قدم آگے چلنے والی احمقانہ روایت پہ لعنت بھیجیں. متانت و وقار کے ساتھ چلیے اور لوگوں کی جانب گھور کر دیکھنے سے احتراز کیجیے.
    ★ کسی تقریب میں شرکت مقصود ہو تو اتنا پہلےنکلیں کہ بروقت پہنچ سکیں اور تقریب ضرورت سے زیادہ طول پکڑ جائے تو بروقت نکلتے ہوئے ذرا بھی مت ہچکچائیں.
    ★ بچوں کو گھر سے باہر کےماحول میں اعتماد سے رہنے کی تربیت دیجیے اور ان پہ کڑی نظر رکھیے، انہیں پبلک مقامات، تفریحی مقامات اور دوسروں کے گھروں کے آداب سکھائیں اور ان پہ عمل یقینی بنائیں، اس کے لیے آپ کو خود مثال بننا ہوگا.
    ★ ایک روزہ سفر میں بہتر یہی ہوتا ہے کہ گھر سے کھانا ساتھ لے کر جائیں، اور صاف اور ٹھنڈے پانی کا انتظام بھی لازمی ہو. باہر سے کھانا ہو تو ایسے ریستوران کا انتخاب کیجیے جہاں فیملیز کے لیے معقول انتظام ہو، کھانا سستا، معیاری اور تازہ ہو. یہ اگر مشکل ہو تو تازہ پھلوں اور کولڈ ڈرنکس وغیرہ پہ گزارا کریں.

    ’’لمبا سفر‘‘
    تعطیلات میں اکثر خاندان کئی دن کسی پرفضا مقام پہ گزارنا پسند کرتے ہیں. طوالت سے قطع نظر اس سفر کی مشکلات تقریبا وہی ہیں جو ایک روزہ سفر کی انجان راستے، ہوٹلوں میں قیام, امن و امان کی مخدوش صورتحال چند اضافی خطرات ہیں. اوپر ایک روزہ سفر میں دیے گئے مشوروں کے علاوہ مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیے.
    ★ اسلامی روایت کے مطابق بطور کنبے کا سربراہ آپ سفر کے امیر بھی ہوں گے، اس لیے سفر پہ نکلنے سے پہلے اپنی نیت درست فرما لیجیے. آپ اپنی فیملی کو ایک معیاری اور بامقصد تفریح پہ لے کر چلے ہیں، جہاں وہ اللہ پاک کی بنائی اس خوبصورت کائنات کا ایک حصہ دیکھ سکیں گے، انہیں بہت کچھ جاننے اور سیکھنے کا موقع ملے گا، اس لیے اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کا سفر محفوظ اور خوشگوار بنائے. جانے سے پہلے اور بحفاظت واپسی پہ اللہ کی راہ میں صدقہ خیرات کرنا مت بھولیے. اہلِ خانہ کو آدابِ سفر سے آگاہ کیجیے. بچوں کو سفر کی دعا سمیت مختلف مسنون دعائیں آپ نے یاد کرا رکھی ہوں گی، انہیں موقع کی مناسبت سے وہ پڑھتے رہنے کی ترغیب دیجیے.
    ★گاڑی کے متعلق اوپر دی گئی ٹپس پہ عمل کیا جائے. فرسٹ ایڈ کٹ، سوئس نائف، رسے اور ٹارچ کے علاوہ تمام اہل خانہ کے موسم کی مناسبت سے کپڑے اور جوتے، چھتری، برساتی وغیرہ کا اہتمام کیا جائے. تھوڑا بہت اضافی فیول ساتھ لے لیا جائے. ایک دو چادریں یا ایک دری لازمی ساتھ رکھی جائے. گاڑی کی لوڈنگ کپیسٹی کا خیال رکھیے، سامان یا بندے زیادہ ہوں تو ایک ہی گاڑی میں سب کو ٹھونسنے کے بجائے ایک اور گاڑی یا بڑی گاڑی کا انتظام کیا جائے. اگر مجبوری کے تحت کم جگہ پہ زیادہ مسافر بٹھانے پڑیں تو ہر ایک گھنٹہ بعد ان کی نشستیں تبدیل کر لی جائیں اور ہر دو گھنٹے بعد پانچ دس منٹ انہیں ٹانگیں سیدھی کرنے کا موقع دیا جائے.
    ★ اپنی منزل تک کا کل فاصلہ ذہن میں رکھیں اور اسے راستے میں آنے والی جگہوں کی مناسبت سے کئی حصوں میں تقسیم کر دیں. مثلا آپ نے چھ سو کلومیٹر چلنا ہے تو اسے سو سے ڈیڑھ سو کلومیٹر کے چار پانچ حصوں میں دیکھیے، ہر حصے کا آغاز اور اختتام کہاں ہوگا، راستے میں کون کون سے مقام آئیں گے. سڑک کی حالت کیسی ہوگی، جن اوقات میں آپ کا گزر ہوگا ٹریفک کی کیا صورتحال ہو سکتی ہے؟ ہر حصے کا متبادل راستہ اگر کوئی ہو تو آپ کے علم میں ہونا چاہیے. گوگل میپس سے ایک منزل سے دوسری منزل تک کا راستہ الگ الگ سیو کر لیجیے.
    ★ حتی الامکان کوشش کیجیے کہ فیملی کے ساتھ رات کو سفر نہ کرنا پڑے. اگر آپ نے مثلا لاہور سے براستہ موٹروے پنڈی یا پشاور جانا اور وہاں سٹے کرنا ہے تو کوئی ہرج نہیں. لیکن لنک روڈز اور غیر معروف راستوں پہ رات کے سفر سے اجتناب کیجیے.
    ★ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہے کہ آپ کا موبائل ایک لائف سیونگ ڈیوائس ہے. چارجر اور پاور بنک ہمراہ رکھیں. ایک سے زیادہ سمیں ساتھ ہوں یا دیگر اہلِ خانہ کے نیٹ ورکس آپ سے مختلف ہیں تو سب کے موبائلز میں معقول بیلنس ہو. سفر میں کوشش کیجیے کہ موبائل سائلنٹ پہ رہیں، دو تین گھنٹے بعد جہاں رکیں وہاں سب کالز کا جواب دے دیں. آپ کے موبائل میں ڈیٹا پیکج ہونا اور ساتھ اچھی تھری جی یا فور جی ڈیوائس ہونا بھی ضروری ہے.
    ★ یہ اہتمام کیجیے کہ پیچھے کوئی نہ کوئی ایک یا دو افراد ایسے ہوں جنہیں آپ نے ہر ایک یا دو گھنٹے بعد میسج کے ذریعے اپنی موجودہ لوکیشن بتانی ہے. راستے میں جہاں کہیں کوئی مسئلہ پیش آئے ان کے علم میں ہو. کبھی ہم دوستوں نے اپنی آوارہ گردیوں میں یہ سسٹم اپنا رکھا تھا اس کے بہت فائدے ہیں.
    ★ کم از کم ایک یا دو وقت کا کھانا ساتھ لے کر چلیں تو بہتر ہے، ورنہ کوشش کیجیے کہ جب تک کسی مین پوائنٹ پہ نہ پہنچیں، راستے کے ہوٹلوں سے کچھ نہ لیں. بھوک مٹانے کے لیے ڈبوں میں بند خوراک، خشک و تر پھلوں اور کولڈ ڈرنکس وغیرہ پہ گزارا کریں. کھجوریں فوری توانائی کا بہترین ذریعہ ہیں، سفر میں ہمیشہ ساتھ رکھیں اور اگر پسند ہو تو چنے اور گڑ بھی ساتھ لے لیں.
    ★ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جہاں آپ جا رہے ہیں، وہاں اگلے چھ سات دن موسم کی کیا صورتحال ہوگی؟ محکمہ موسمیات کی ویب سائٹ سے استفادہ کیجیے اور اس کے مطابق تیاری کریں. آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی منزل پہ اور راستے میں آنے والے سٹے پوائنٹس پہ ہوٹلز کے کرائے وغیرہ کیا ہیں؟ کیا کیا سہولیات میسر ہیں؟ ان سب باتوں کے لیے ویب آپ کے کام آتی ہے. بہت سی ٹریول اور ٹرپ ایڈوائزری سروسز، پاکستان کے تقریبا ہر قابل ذکر سیاحتی مقام کے متعلق موجود بےتحاشا مواد اور لوگوں کے تاثرات نیٹ پہ موجود ہوتے ہوئے بھی اگر آپ بے خبر رہتے ہیں تو یہ بہت بھاری غلطی ثابت ہوسکتی ہے.
    ★ راستے میں جہاں کھانے پینے کے لیے رکیں، وہاں ممکن ہو تو سڑک کے دوسری جانب قیام کیجیے. یہاں آپ کو وہ لوگ ملیں گے جو اس راستے سے واپس آ رہے ہیں جہاں آپ نے جانا ہے. ان سے آپ کو بہت مفید معلومات مل سکتی ہیں.
    ★ اپنی منزل پہ پہنچ کر سب سے پہلے قیام کا بندوبست کیجیے، آرام کریں نیند پوری کریں، تازہ دم ہو کر پہلے مقامی بازار کا ایک چکر لگائیں. ہوٹل کے عملے سے گپ شپ لڑائیں، خود کو مقامی ماحول، روایات سے ہم آہنگ کریں اور اس کے بعد کسی ایڈونچر کا سوچیں.
    ★ ہائیکنگ پہ جاتے وقت فرسٹ ایڈ کٹ کا ایک مختصر سا پیک، ٹیکٹکل فلیش لائٹ، واکنگ سٹکس وغیرہ ساتھ رکھیے. پہاڑی علاقوں میں موسم پلک جھپکتے میں تبدیل ہو جاتا ہے اس کے لیے مناسب انتظام کیجیے. بھاری بھرکم جیکٹس وغیرہ پہننے کے بجائے layers والا فارمولا اپنائیں یعنی شرٹ کے اوپر ایک ہلکی سویٹر، اور اپر وغیرہ. آپ کے لباس کی اوپر والی لئیر واٹر پروف ہونی چاہیے یا پھر ٹو پیس برساتی اپنے ساتھ رکھیے.
    ★ کسی بھی نئے مقام پہ جاتے ہوئے یقینی بنائیں کہ آپ کے ہوٹل کے عملے کو اور اگر کوئی مقامی جاننے والا ہے تو اسے علم ہونا چاہیے کہ آپ کہاں جا رہے ہیں اور واپسی کب تک متوقع ہے؟
    ★ اپنے ٹرپ کے متوقع اخراجات کا ایک حقیقی تخمینہ لگائیں، اس میں دس فی صد جمع کریں اور جو رقم بنے اس میں مزید بیس فی صد شامل کر کے اپنے پاس رکھیں. اے ٹی ایمز پہ زیادہ بھروسہ مت کیجیے. پاس موجود نقد رقم کو تین چار حصوں میں تقسیم کر کے تین چار لوگ اپنے پاس رکھ لیں. اب کوشش یہ کیجیے کہ اصل تخمینے کا بھی دس فی صد آپ نے بچا کر واپس لانا ہے.
    ★ مخصوص تعطیلات جیسا کہ عیدین، یومِ آزادی وغیرہ پہ ٹرپ پلان کرتے ہوئے بہت محتاط رہیں. ہر سال عید پہ مری، وادی نیلم اور کاغان ناران وغیرہ میں سیاحوں کا بقول اخبارات کے’’تاریخی رش‘‘ دیکھنے کو ملتا ہے. اس تاریخی رش میں فیملیوں کے ساتھ آئے لوگ ’’تاریخی خجل خواری‘‘ برداشت کرتے ہیں. منہ مانگے، ہوش ربا کرائے دے کر گھٹیا سے ہوٹلوں میں ٹھہرنا، کئی کئی گھنٹے گاڑی رش میں پھنسے رہنا، پٹرول کی قلت یا عدم دستیابی، یہ وہ مصائب ہیں جو آپ کی تفریح کا بیڑا غرق کرنے کو کافی ہیں. اس مرتبہ جو لوگ چھوٹی عید پہ تین دن کے لیے ناران آئے، ان کے دو دن سڑکوں پہ ٹریفک جام میں پھنسے، ہوٹلوں میں کمرے ڈھونڈتے اور گاڑیوں کے لیے پٹرول تلاش کرتے گزر گئے. اگر ان دنوں ایسی جگہوں پہ جانا ہی ہو تو ہر طرح کی صورتحال کے لیے تیار رہیے.
    ★ اپنے ساتھ کم سے کم سامان رکھیے، اور آپ ٹرپ زیادہ سے زیادہ انجوائے کر سکیں گے.
    ★ کم کھائیں مگر معیاری کھائیں. سفر میں اپنی خوش خوراکی کی عادت پہ کنٹرول رکھیے.
    ★ احتیاطا کوئی ایسی چیز ہمیشہ ساتھ رکھیں جو بوقت ضرورت ہتھیار کا کام دے سکے. کچن والی چھری، چاقو، واکنگ اسٹک حتیٰ کہ ٹیکٹکل ٹارچ تک آپ کے کام آ سکتی ہے. عام تاثر کے برعکس، پاکستان کے سیاحتی مقامات دنیا کے بیشتر تفریحی علاقوں کی نسبت بہت زیادہ محفوظ ہیں. پاکستانی کتنی شاندار قوم ہیں؟ اس کا اندازہ آپ کو سفر ہی میں ہوتا ہے اس لیے اس ٹپ کو پڑھ کر گھبرائیے مت. مقصد صرف ذہنی طور پہ بیدار اور تیار رہنا ہے.
    ★ سب اہلِ خانہ کو سمجھائیں کہ دوران سفر اپنا دھیان سمارٹ فونز کے بجائے اپنے اردگرد کے ماحول پہ رکھیں. سکیورٹی اور سیلف ڈیفنس میں ایک اصطلاح عام استعمال ہوتی ہے جسے situational awareness کہتے ہیں. سچویشنل اویئرنیس آپ کو کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بروقت آگاہ کرتی اور اس سے بچنے میں معاون ثابت ہوتی ہے. اس پہ موقع ملا تو تفصیلا لکھوں گا ان شاء اللہ، فی الحال اتنا جان لیں کہ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمارٹ فونز ہیں. وہ ڈیوائس جو آپ کی زندگی بچا سکتی ہے، اسے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے کا سبب نہ بنائیں. سٹیٹس اپڈیٹ اور سلفیز اپلوڈ کرنے کے لیے آپ کے ہوٹل کا کمرا مناسب ترین مقام ہے.
    ★ دورانِ سفر عموما حقوق اللہ میں کوئی کمی کوتاہی رہ جایا کرتی ہے، واپسی پہ اس کی تلافی کی کوشش کیجیے. دورانِ سفر اور واپسی پر زیادہ سے زیادہ شکر ادا کرتے رہیے. اللہ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے. آمین
    اگلی قسط میں بچوں کی حفاظت، شاپنگ یا ہوٹلنگ کے دوران احتیاطی تدابیر اور چند عمومی دفاعی ٹوٹکے پیش کیے جائیں گے. ہمارے ساتھ رہیے گا

    پہلی قسط یہاں ملاحظہ کیجیے

    تیسری قسط یہاں ملاحظہ کیجیے

  • اپنی فیملی کی حفاظت کیجیے، مرد حضرات کےلیےخاص – محمد اشفاق

    اپنی فیملی کی حفاظت کیجیے، مرد حضرات کےلیےخاص – محمد اشفاق

    محمد اشفاق نوٹ: بنیادی طور پہ مضامین کا یہ سلسلہ مرد حضرات کے لیے ہے، خصوصا ان کے لیے جو اپنے کنبے کے سربراہ ہیں لیکن خواتین بھی اس سے استفادہ کر سکتی ہیں.

    روایتی طور پہ اس وقت سے جب انسان غاروں اور جنگلوں میں رہا کرتا تھا، مرد کی بنیادی ذمہ داری اپنے خاندان کا تحفظ رہی ہے اور ہمارے ہاں رائج ’’مردانگی‘‘ کے تصور کا یہ ایک اہم حصہ ہے. آج کے مہذب معاشرے میں جب ہم نے اپنی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست کو سونپ دی ہے، بطور ایک محافظ کے اپنے کردار کو ہم بڑی حد تک فراموش کر چکے ہیں. ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا کیونکہ ایک تو ہماری ریاست اپنی ذمہ داریاں کس حد تک نبھا رہی ہے؟ یہ ہم سب جانتے ہیں اور دوسرا یہ کہ بہرحال ریاست کتنی ہی فرض شناس کیوں نہ ہو، اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا تحفظ آپ کی بنیادی ذمہ داری ہے اور ہمیشہ رہے گی.

    مضامین کے اس سلسلے میں کوشش یہ ہوگی کہ پڑھنے والے کم از کم چند بنیادی نکات سے آگاہ ہو جائیں اور تھوڑی سی کوشش سے اس آگاہی کا مثبت استعمال کر سکیں. تو چلیے، آج ابتدا آپ کے گھر سے کرتے ہیں.

    ’’خطرات سے آگاہی‘‘
    سکیورٹی امور سے وابستہ احباب جانتے ہوں گے کہ بنیادی اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ درپیش خطرات کا ادراک رکھتے ہوں، ان خطرات کی پیش بندی یا مقابلے کا مرحلہ بعد میں آتا ہے. آپ کے گھر کو خدانخواستہ جو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، انہیں آسانی کےلیے تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں.
    1- قدرتی آفات
    2- گھریلو حادثات
    3- بیرونی خطرات (چوری چکاری، ڈکیتی، بچوں کا اغوا وغیرہ)

    ’’قدرتی آفات‘‘
    اس مضمون کو پڑھنے کے بعد آپ سب سے پہلے تو اپنے گھر کا جائزہ لیجیے اور دیکھیے کہ……
    ★ جس عمارت کو آپ گھر کہتے ہیں، قدرتی آفات سے وہ کس حد تک محفوظ ہے، اگر آپ کا گھر کسی قدرتی نالے، ندی یا دریا کے کنارے ہے تو شدید بارش اسے کس حد تک متاثر کر سکتی ہے؟ پہاڑی علاقے میں اگر آپ کا گھر واقع ہے تو وہاں لینڈ سلائیڈنگ کا امکان کتنا ہے؟ کیا آسمانی بجلی سے آپ کا گھر محفوظ بنایا گیا ہے؟ کیا زمینی بجلی کو ارتھ کیا گیا ہے؟ اگر آپ کسی نشیبی علاقے میں رہتے ہیں تو کہیں بارش کی صورت میں پانی آپ کے گھر تو نہیں داخل ہوتا؟ آپ کی گلی یا محلے کا سیوریج سسٹم کیسا ہے؟ گھر سے پانی کی نکاسی کا کیا انتظام ہے؟ عمارت کتنی پرانی ہے اور کس حد تک محفوظ ہے؟ گھر کے قرب و جوار میں کوئی ایسا تعمیراتی کام تو نہیں جاری جس کے نتیجے میں آپ کے گھر کی بنیادیں کمزور ہونے کا خدشہ ہو؟ زیرِزمین پانی کس سطح پر ہے؟ کیا آپ کے گھر کی عمارت اتنی مضبوط ہے کہ ایک سخت زلزلے کو برداشت کر سکے؟
    ★ گھر کے بیرونی سٹرکچر کا ایک تنقیدی جائزہ لیجیے اور جہاں جو کمی دکھائی دے اسے دور کرنے کی کوشش کیجیے. اگر آپ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں اور وہ آپ کو محفوظ نہیں لگتا تو مکان بدل لیجیے.

    ’’گھریلو حادثات‘‘
    اب اپنے گھر کے اندرونی حصے کا ایک تنقیدی جائزہ لیجیے اور دیکھیے کہ
    ★ آپ کے گھر کی بجلی کی وائرنگ کتنی پرانی ہے اور کس حد تک معیاری کہی جا سکتی ہے؟ اگر آپ اکثر وولٹیج کی کمی بیشی کا شکار رہتے ہیں جبکہ آپ کے ہمسائے اس سے محفوظ ہیں تو پہلی فرصت میں وائرنگ چیک کروائیے.
    ★ کیا آپ کے ہر کمرے اور باورچی خانے کو علیحدہ سرکٹ بریکر ملا ہوا ہے؟ یا پورا گھر ایک ہی بریکر اور ایک ہی مین سوئچ پہ چل رہا ہے؟ یاد رکھیے کہ اس مد میں معمولی سا خرچ آپ کو کسی مہلک حادثے سے بچا سکتا ہے اور ذرا سی لاپرواہی بہت بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے.
    ★ گھر کے کمروں میں لگے سوئچ بورڈز کو چیک کیجیے، اگر کوئی سوئچ ساکٹ خراب حالت میں ہے تو اسے خود تبدیل کر لیجیے، یا پھر پورے گھر کا جائزہ لے کر کسی اچھے الیکٹریشن کو بلوا لیجیے، یہ ایک بار کا خرچہ آپ کو بہت سی سر دردی سے بچا سکتا ہے.
    ★ بجلی کے آلات کا جائزہ لیجیے، زیادہ بجلی استعمال کرنے والے آلات مثلا موٹر، ائر کنڈیشنر، ریفریجریٹر وغیرہ اگر علیحدہ سے ارتھ ہوں تو بہتر ہے. ان آلات کو پوری وولٹیج ملتی رہے، یہ یقینی بنانے کے لیے مارکیٹ میں بہت سے سستے آلات دستیاب ہیں، ان سے استفادہ کیجیے.
    ★ گھر میں استری کثرت استعمال کی وجہ سے بہت جلد خراب ہو جاتی ہے، اس کی تار اور ایلیمنٹ چیک کیجیے، استری سے لگنے والا شاک مہلک ثابت ہوسکتا ہے.
    ★ اگر جنریٹر استعمال ہوتا ہے تو یقینی بنائیے کہ اس کی خارج کردہ گیس گھر گھر داخل نہ ہونے پائے. اسے بارش، پانی اور دھوپ سے محفوظ رکھیں اور سال میں ایک بار سروس کروا لیں.
    ★ گیس کی پائپ لائن میٹر سے گھر کے آخری گوشے تک چیک کیجیے، کہیں کوئی لیکج ہے تو فوری مرمت کروائیے. اپنے گیس کے آلات چولہے، کوکنگ رینج اور ہیٹرز وغیرہ کا معائنہ کیجیے، کوئی نقص ہو تو دور کروائیے.
    ★ گیس کی ترسیل کے لیے پلاسٹک کے پائپ کا استعمال بہت خطرناک ہے، جن کمروں میں سردیوں میں ہیٹر استعمال کیا جانا ہو وہاں تک گیس پائپس نصب کیے جائیں، اور یقینی بنائیں کہ ہر کنکشن کا سیفٹی والو علیحدہ ہے.
    ★ اپنے واٹر ٹینکس کو دیکھیے، اگر انڈر گراؤنڈ ٹینک ہے تو اس کا ڈھکن خراب تو نہیں، اس میں کائی تو نہیں جمتی، کیڑے مکوڑوں، چھپکلی یا چوہوں نے گھر تو نہیں بنا رکھا؟ پانی زندگی ہے اسے ممکنہ حد تک پاک رکھیے.
    ★ اوورہیڈ ٹینک کی بلندی کتنی ہے، کیا اس کا ڈھکن مضبوطی سے بند ہے، اگر پلاسٹک ٹینک ہے تو گرمی سے بچائیں، کسی بھی قسم کی لیکج یا سیپج کی فوری مرمت کروائیں، چھت سے رسنے والا پانی دیواروں کو خراب کرتا ہوا گھر کی بنیادوں تک پہنچ جاتا ہے.
    ★ پانی کی موٹر کا سوئچ اکثر قریب ہی رکھا جاتا ہے, اس کے پانی سے متاثر ہونے کا خدشہ رہتا ہے- اس کا خاص خیال رکھیں-
    ★ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ بجلی اور گیس کے آلات کو آن/آف کرنے کی ذمہ داری بچوں کو نہ سونپی جائے. کسی ایک پوائنٹ پہ بہت زیادہ لوڈ مت ڈالا جائے. کمپیوٹر، پرنٹر، چارجرز وغیرہ کےلیے پراپر ساکٹس یا مضبوط ایکسٹنشن کیبلز استعمال کیجیے.

    یہ چند بہت آسان سے اقدامات آپ کو کسی حادثے کی صورت میں فوری مدد دے سکتے ہیں اور کسی بڑے نقصان سے بچا سکتے ہیں- ان کے علاوہ

    ★ گھر میں ایک فرسٹ ایڈ باکس ہمیشہ رکھیے، یقینی بنائیے کہ اس میں دو تین سائز کی بینڈیجز، پایوڈین، سکاٹرن پاؤڈر، پولی فیکس، برنول، درد کش ادویات، بخار، پیٹ کی خرابی، الرجی وغیرہ کی عام استعمال ہونے والی ادویات، سپرٹ وغیرہ نہ صرف موجود رہیں بلکہ ایکسپائری سے پہلے پہلے تبدیل ہوتی رہیں. یہ باکس ایسی جگہ ہونا چاہیے جہاں سے ہر بڑے فرد کو اس تک رسائی حاصل ہو. اہلِ خانہ کو ان اشیاء کے استعمال کا طریقہ بھی سکھا دیجیے.
    ★ اگر ممکن ہو تو کچن میں یا اس کے قریب فائر ایکسٹنگشر بھی نصب کر دیجیے. گھر کے تمام بڑوں کا اس کے استعمال کا طریقہ آنا چاہیے.
    ★ فائر بریگیڈ، ریسکیو، پولیس ایمرجنسی، متعلقہ پولیس سٹیشن یا چوکی، قریب ترین ایک سرکاری اور ایک پرائیویٹ ہسپتال کا نمبر، ایک دو قریبی ہمسائیوں یا ایسے رشتہ داروں کے نمبرز جو فوری پہنچ سکتے ہوں، آپ کے پاس بھی سیو ہونے چاہییں اور انہیں گھر میں کسی نمایاں جگہ مثلا کچن یا لیونگ روم میں بھی لکھ کر رکھ دیا جائے.
    ★ اپنے بیوی بچوں یا بہن بھائیوں سے ہلکے پھلکے ماحول میں تفصیلی تبادلہ خیال کیجیے، کسی ایمرجنسی کی صورت میں کون کیا کرے گا؟ کس کس کو اطلاع دینی ہے؟ کس سے مدد طلب کرنی ہے؟ یہ سب طے شدہ ہونا چاہیے. اس امکان کو مدنظر رکھا جائے کہ اگر ایمرجنسی کی صورت میں آپ سے کسی وجہ سے رابطہ نہیں ہوتا تو دوسرا اور تیسرا آپشن کون لوگ ہوں گے.

    ’’بیرونی خطرات‘‘
    بیرونی خطرات سے آگاہی، ان کا تدارک اور کسی خطرناک صورتحال کا مقابلہ کرنے کی تدابیر بھی اتنی ہی اہم ہیں جتنا کہ گھریلو حادثات سے بچاؤ کی تدابیر.
    اپنے گھر کا ایک بار پھر سے تنقیدی جائزہ لیجیے اور دیکھیے کہ
    ★ آپ کی گلی یا محلے میں داخل یا خارج ہونے کے راستے کیسے ہیں؟ کیا گلی عام طور پہ سنسان رہتی ہے یا بارونق علاقہ ہے؟ چوکیداری کا نظام رائج ہے یا نہیں؟
    ★ ایک چور یا ڈاکو کی نظر سے اپنے گھر کو دیکھیے. داخلی گیٹ کس قدر مضبوط ہے؟ بیرونی دیواریں کس قدر بلند ہیں؟ گھر کے بیرونی پیرامیٹرز کے ساتھ کوئی ایسا درخت یا کھمبا وغیرہ تو نہیں جس کے سہارے اندر داخل ہوا جا سکے؟ ہمسائیوں کے گھر سے ملحقہ دیواریں یا چھت کیسی ہے؟ کھڑکیاں یا روشندان کتنے ہیں؟ پڑوسیوں کے گھر سے آپ کے گھر داخل ہونا آسان ہے یا مشکل؟
    ★ اگر افورڈ کر سکتے ہیں تو کسی اچھی سیکیورٹی کمپنی کے گارڈ رکھ لیجیے. اگر نہیں کرسکتے تو گلی والوں کو قائل کیجیے کہ مشترکہ گارڈز رکھ لیے جائیں، اگر یہ بھی ممکن نہیں تو ایک کتا رکھ لیجیے، کتا کاٹنے والا بیشک نہ ہو اسے بھونکنے والا لازمی ہونا چاہیے. اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو لمبی گردن والی بطخیں رکھ لیجیے، اجنبیوں کو دیکھ کر یہ بھی اتنا ہی شور مچاتی ہیں جتنا کتا، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو بھی فکر مت کیجیے اور بہت طریقے ہیں.
    ★ گھروں میں سکیورٹی کیمرے محض بعد از مرگ واویلے کا کام دیتے ہیں، ان پہ اپنا وقت اور سرمایہ برباد مت کیجیے. زیادہ ضروری ہو تو محض داخلی راستے پہ ایک کیمرا نصب کر دیجیے.
    ★ اپنے گھر کی تمام کھڑکیوں اور روشن دانوں پہ مضبوط قسم کی جالیاں لگوائیے یا سلاخیں نصب کیجیے.
    ★ گھر کی چھت یا بیرونی دیوار پہ چڑھنا یا اس سے گھر میں داخل ہونا آسان نہ ہو، اس کےلیے مناسب اقدامات کیجیے مثلا پیراپیٹ وال کو مزید اونچا کرنا، اس پہ خاردار تار لگانا، چھت سے نیچے جانے والی سیڑھیوں پہ مضبوط دروازہ اور دروازے میں مضبوط تالا نصب کرنا اور اسے روزانہ رات کو بند کرنا.
    ★ کوشش کیجیے کہ گھر کے کام کاج کےلیے ماسی وغیرہ دیکھ بھال کر رکھیں، اگر کسی پارٹ ٹائم ملازم کے ملنے والے بہت آتے ہیں تو اسے بدل دیجیے. جزوقتی ملازمین کے بجائے باقاعدہ ملازم بہتر رہتے ہیں، لیکن افورڈ نہ کر سکتے ہوں تو ان کی مناسب نگرانی کی ہدایت سختی سے گھر والوں کو دیجیے.
    ★ گھر پہ کام کے لیے آنے والے الیکٹریشن اور پلمبر وغیرہ قابل بھروسہ لوگ ہونے چاہییں، آپ خود کسی کو نہیں جانتے تو کسی جاننے والے کی مدد لیجیے. انہیں صرف وہاں تک رسائی دی جائے جہاں ان کا کام ہے، اگر پورا گھر دکھانا ضروری ہو تو خصوصی احتیاط برتیے-
    ★ ایسے مہمان جن سے آپ زیادہ واقف نہیں یا جن سے اتفاقا پالا پڑا ہو، کو ڈرائنگ روم یا گیسٹ روم تک محدود رکھیں، ضرورت سے زیادہ مروت مت برتیں.
    ★ گھر کے تمام دروازوں پہ اندرونی جانب حفاظتی زنجیریں لگوائیں، بیرونی دروازے پہ تو یہ بہت ہی ضروری ہے.
    ★ زیورات اور نقدی کےلیے بنکوں کو استعمال کرنا سیکھیں جو جابجا کھلے ہوئے ہیں. گھر پہ صرف روزمرہ ضرورت کا کیش اور عام استعمال والے زیورات رکھیں. دیگر قیمتی اشیاء بھی ادھر ادھر بکھری نہ ہوں، نیز اپنے گھر کے فرنیچر و الیکٹرانکس مصنوعات کی ترتیب یا جگہ بھی سال میں ایک دو بار بدلا لیا کیجیے.
    ★ یہ معاملہ طے شدہ ہونا چاہیے کہ دروازے پہ اگر بھکاری اور سیلزمین وغیرہ آتے ہیں تو دروازے پہ کون جائے گا اور انہیں کیسے ٹریٹ کیا جائے گا؟ سائل کو خالی ہاتھ ہرگز نہ لوٹائیں مگر اس کےلیے گھر کے دروازے وا کرنا قطعی ضروری نہیں. سیلز گرلز سے گھریلو خواتین محتاط رہیں خصوصا جب وہ غیرمعروف کمپنی کی غیر معروف سی پراڈکٹس بیچ رہی ہوں.
    ★ اپنے محلے یا علاقے میں اگر چوری چکاری کی وارداتیں تسلسل سے ہوتی سنیں تو خصوصی احتیاط برتیں تاوقتیکہ یہ سلسلہ کہیں اور منتقل نہ ہو جائے.
    ★ اگر ہتھیار چلانے کی تربیت رکھتے ہیں تو لائسنس یافتہ ہتھیار ضرور رکھیے، مگر اسے ہمیشہ درست حالت میں اور ایسی جگہ رکھیں جہاں صرف آپ کی رسائی ممکن ہو. آتشیں اسلحہ مالک کو نہیں پہچانتا.
    ★ اگر گھر والے خود کو خطرے میں محسوس کریں تو انہیں کیا کرنا چاہیے، یہ بھی پہلے سے طے شدہ ہو. مثلا کسی چور یا ڈاکو کے خدانخواستہ گھر میں گھس جانے کی صورت میں کیا کیا جائے؟ بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ اگر مندرجہ بالا تمام اقدامات کے بعد بھی وہ گھر میں گھس آتے ہیں تو پھر آپ کچھ نہ کیجیے، سب کچھ وہ خود ہی کر لیں گے. لیکن اگر مزاحمت یا دفاع ہی آخری حل ہے تو اس کا کیا طریقہ ہونا چاہیے، کون کیا کرے گا؟ وغیرہ. یہ سب طے کر لیا جائے.

    اگلی قسط میں ہم ان شاء اللہ دیکھیں گے کہ جب اپنی فیملی کے ساتھ آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو کن کن باتوں کا خیال رکھا جانا چاہیے، اور کیا کیا تدابیر اختیار کی جائیں.

    دوسری قسط یہاں ملاحظہ کیجیے

    تیسری قسط یہاں ملاحظہ کیجیے

  • سائبر کرائم ایکٹ، ہم کیا کر سکتے ہیں؟ محمد اشفاق

    سائبر کرائم ایکٹ، ہم کیا کر سکتے ہیں؟ محمد اشفاق

    محمد اشفاق سوشل میڈیا پہ احتجاج، اخبارات کے اداریوں میں اظہارِ تشویش، انسانی حقوق اور انٹرنیٹ پہ اظہارِ رائے کی آزادی کےلیے سرگرم تنظیموں کے تحفظات اور عام انٹرنیٹ صارفین کی بےچینی کے باوجود سائبر کرائم ایکٹ کو سینیٹ کے بعد اب قومی اسمبلی سے بھی منظوری مل چکی ہے- غنیمت یہ ہے کہ ایکٹ صدرِمملکت کی منظوری سے قبل ہی عدالت میں چیلنج ہوچکا ہے- پاکستان میں انٹرنیٹ کی آزادی اور اظہارِ رائے کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں، انسانی حقوق کے اداروں اور صحافیوں کی تنظیموں کو چاہیے کہ اس کیس میں فریق بنیں اور عدالت کو درست فیصلے پر پہنچنے میں معاونت فراہم کریں.

    سوال یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے عام صارفین خود کو اور دوسروں کو اس متنازعہ قانون کی زد سے بچانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ اس امر پہ نامور وکلاء، صحافیوں، سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کا تقریبا اتفاق ہے کہ اس قانون کی بہت سی شقوں میں اتنا ابہام موجود ہے کہ اس کا غلط استعمال بہت ہی آسان ہے. مزید تشویشناک امر یہ ہے کہ مبینہ سائبر کرائمز کی تفتیش جن اداروں نے کرنا ہے، انٹرنیٹ اور اس سے متعلقہ معاملات میں ان کی آگاہی اور مہارت بھی نہ ہونے کے برابر ہے. اسی طرح نچلی سطح کی عدلیہ میں بھی ایسے مقدمات کی سماعت کی صلاحیت و اہلیت پہ سوالات اٹھ رہے ہیں. پاکستان میں معمولی مخالفت پہ تہذیب و انسانیت کی سطح سے نیچے گر کر مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنا شہروں اور دیہاتوں میں بہت عام سی بات ہے. اپنے مخالفین پر مارپیٹ، اقدام قتل حتیٰ کہ آبروریزی جیسے جھوٹے مقدمات درج کرانا بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے. انٹرنیٹ پر چونکہ زیادہ تر نظریاتی، سیاسی و مذہبی مباحث عام ہیں لہذا یہ اندیشہ کہ کوئی بھی آپ کی پوسٹ یا تبصرے کو عداوت کی بناء پہ آپ کے خلاف استعمال کر سکتا ہے، قطعی بعید از قیاس نہیں.

    اس صورتحال سے نبٹنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟
    سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے آپ کو صرف اسے استعمال کرنا آنا کافی ہے. اس کے لیے کوئی کوالیفکیشن، ڈپلومہ یا ہنر درکار نہیں ہوتا. آپ کے آفس کا چپڑاسی بھی سوشل میڈیا استعمال کر سکتا ہے، آپ بھی اور آپ کا باس بھی. انٹرنیٹ تک رسائی درکار ہے اور بس. اب چونکہ بیس کروڑ کے ملک میں کروڑوں لوگوں کو یہ رسائی حاصل ہے تو یقینی بات ہے کہ آپ کو بھانت بھانت کی آوازیں سننے کو ملیں گی.

    یہ بھی جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر کوئی اسی مذہب، اسی نظریے پر عمل پیرا نہیں ہوسکتا جو آپ کا مذہب یا آپ کا عقیدہ ہے. بالکل اسی طرح سب لوگ ایک جیسی اخلاقی اقدار، ایک جیسی تعلیم و تربیت اور ایک جیسی عادات رکھنے والے بھی نہیں ہوسکتے، چنانچہ انٹرنیٹ پر آپ کو ملحد بھی ملیں گے، مومن بھی، مشرک بھی اور بتوں کے پجاری بھی. اور یہ سب کے سب آپ کی طرح خود کو درست سمجھتے ہوں گے. یہاں مدارس کے طلبہ و طالبات بھی ہوں گے اور جدید ترین تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچے بچیاں بھی. سب اپنے اپنے نصاب کے زیرِ اثر ہوں گے. یہاں اپنے شعبے میں اعلیٰ مہارت رکھنے والے پروفیشنلز بھی ہوں گے اور ماہر ہونے کا دعویٰ کرنے والے اناڑی بھی. ہر مذہب، ہر مسلک، ہر طرح کا مزاج، ہر طرح کی فطرت رکھنے والے جب ایک ہی فورم پہ اکٹھے ہوتے ہیں اور سب کو وہاں اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا بھرپور موقع بھی میسر آتا ہے تو اختلافات کا پیدا ہونا بھی لازمی امر ہے. ایک دوسرے کی دل شکنی یا جذبات کو مشتعل کرنے کا احتمال بھی رہتا ہے اور طعن و تشنیع اور گالی گلوچ کی نوبت بھی آجاتی ہے. ہم جب خود کو حق پر سمجھ رہے ہوتے ہیں تو اس حق کو دوسروں پہ آشکار کرنے کو ہم ہر حد سے گزر جاتے ہیں. اس کے لیے جعلسازی، جھوٹے حوالے، توہین آمیز زبان سب کچھ روا سمجھا جاتا ہے. یہ سب بہت بار مجھے بھی بہت مایوس و دل شکستہ کر دیتا ہے، یقینا آپ کو بھی کرتا ہوگا.

    اس تمام عمل میں ہم سب، میں اور آپ، مدارس کے طلبہ بھی اور غیرملکی تعلیمی اداروں کے زیرتعلیم بھی، دیوبندی بھی اور بریلوی بھی، مسلم بھی اور ملحد بھی، شیعہ بھی اور سنی بھی، خواتین بھی اور حضرات بھی …. ایک دوسرے کو بہتر طور پہ سمجھ بھی رہے ہیں اور ایک دوسرے کو پہلے سے زیادہ برداشت بھی کر رہے ہیں. دینی مدارس کے طلبہ سے بات ہو تو پتہ چلتا ہے کہ اب وہ اتنے بھی تنگ نظر نہیں جتنا انہیں سمجھا جاتا رہا ہے. یہی طلبہ جب مخلوط تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات سے مکالمہ کرتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ اتنے بھی بے حیا نہیں جتنا وہ انہیں سمجھتے تھے. بےشمار ملحد ہیں جو آئے تو دین کو گالیاں دینے تھے مگر جنہیں دین کو بہتر سمجھنے کا اور توبہ کرنے کا موقع فیس بک پہ آ کر ملا. بے شمار مسلکی تعصبات کا شکار لوگوں کو یہاں آ کر احساس ہوا کہ شاید ہم بھی سو فی صد درست نہیں اور شاید مخالف فرقہ بھی سو فی صد غلط نہیں. یقین جانیے کہ یہاں بہت بڑے شر میں بہت بڑی خیر بھی پنہاں ہے. اس خیرِ کثیر سے سب کو مستفید ہونے کا موقع ملتا رہے، اس کے لیے ہم سب کو عہد کرنا ہوگا کہ ہم خود اپنے موقف کو کبھی جھوٹ، مبالغہ آرائی، طعن و تشنیع یا دشنام طرازی سے تقویت دینے کی کوشش نہیں کریں گے. کبھی کسی شخصیت، نظریے یا عقیدے کی توہین نہیں کریں گے، ہمیں تنقید کا حق حاصل ہے توہین کا نہیں. اگر کوئی دوسرا ایسی کوشش کرتا پایا گیا تو اسے نظرانداز کر دیں گے، اس کے سکرین شاٹس نہیں محفوظ کریں گے، پکار پکار کر لوگوں کو اس کی جانب متوجہ نہیں کریں گے، لوگوں کے مذہبی جذبات کو اشتعال دلانے کی کوشش نہیں کریں گے. جن سیاسی شخصیات سے ہمارا اختلاف ہے، ان پر مثبت تنقید ضرور کریں گے مگر ان کی تصاویر فوٹو شاپ کر کے، ان کے جھوٹے بیانات تخلیق کر کے، ان کے متعلق افواہیں پھیلا کر اپنی تعلیم و تربیت پر کسی کو شک کا موقع نہیں دیں گے. اگر دوسرے ہمارے لیڈر کے بارے میں ایسا کریں گے تو انہیں یہ سوچ کر نظرانداز کر دیں گے کہ انہیں ابھی مزید علمی، اخلاقی اور سیاسی تربیت کی ضرورت ہے.

    ہمارے دوستوں یا جاننے والوں میں سے کوئی اگر اس قانون کی زد میں آتا ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ متذکرہ معاملے میں اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو ہم اس کا بھرپور دفاع کریں گے. اس کے حق میں لکھیں گے، دوسروں کو اس کی حمایت پر آمادہ کریں گے، اگر ہمارے بس میں ہوا تو تفتیشی اداروں کے سامنے پیش ہو کر اس کا دفاع کریں گے، عدالت میں اس کے حق میں گواہی دیں گے. اگر کسی بلاگر، کسی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ، کسی عام صارف کو مذہبی و سیاسی منافرت کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ اس کی رائے انتہائی معقول اور مدلل تھی تو ہم اس کی رائے کو باوجود اختلاف کے اپنی رائے بنا لیں گے، اسے اپنے اپنے اکاؤنٹ سے شئیر کریں گے، اون کریں گے. یاد رکھیے کہ کسی ایک شخص پر جھوٹا الزام لگا کر اس پہ مقدمہ چلانا بہت آسان، لیکن دس ہزار لوگوں کے ساتھ ایسا کرنا بہت مشکل ہے.

    ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا پر فعال تمام طبقات، تنظیمیں اور نمایاں افراد چند بنیادی نکات پر اتفاق کر کے ان کی ترویج و اشاعت کی بھرپور کوشش کریں. آپس کی جنگیں چلتی رہیں گی لیکن انہیں آپس ہی میں رکھنا ہے. اس پر اگر سب متفق ہو جائیں تو اس قانون کی متنازعہ شقیں اپنے منفی مقاصد کے لیے استعمال کرنا کسی حکومت یا حکومتی ادارے کے لیے آسان نہیں رہے گا. انٹرنیٹ نے کروڑوں مختلف الخیال لوگوں کو ایک ہی لڑی میں پرو رکھا ہے اور یہی اس کا حسن ہے. جب تک ہم ایک لڑی بن کے رہیں گے، ریاست جتنے بھی خوفناک قوانین بناتی رہے، ہمارا اظہار رائے کا حق ہم سے نہیں چھین پائے گی. جہاں ہم نے اس قانون کا اپنے مخالف پہ استعمال ہوتا دیکھ کر تالیاں بجائیں، وہیں سے ہمارا اپنا کاؤنٹ ڈاؤن بھی شروع ہو جائے گا.