Author: ریحان اصغر سید

  • سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت – آخری قسط – ریحان اصغر سید

    سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت – آخری قسط – ریحان اصغر سید

    بیڈ پر میرے مختلف خواتین کے ساتھ خلوت میcں گزارے لمحات کی تصاویر تھیں۔ یہ سب عورتیں چونکہ پیشہ ور ہوتی تھیں، اس لیے ہر دوسری تصویر میں مختلف عورت نظر آ رہی تھی۔ سب تصویریں میرے فلیٹ کے بیڈ روم کی ہی تھیں۔ یقیناً میرے بیڈروم میں خفیہ کیمرے نصب کیے گئے تھے جن سے میں بالکل بے خبر رہا تھا۔ ولی خان نے نے کھنکار کر مجھے متوجہ کیا تو میں چونکا۔
    مخل ہونے پر معذرت چاہتا ہوں سر۔ لیکن مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ کہیں آپ ان ہوشربا تصویروں کے نظارے میں کھو کر اپنی فلائٹ ہی نہ مس کر دیں۔
    دونوں ہاتھ جیب میں ڈالے انتہائی شائستہ لہجے میں اردو بولتا یہ نوجوان اس ولی خان سے بلکل مختلف تھا جسے میں جانتا تھا۔
    آپ کو دکھانے کے لیے میرے پاس کچھ اور بھی ہے سر۔
    یہ کہہ کر ولی خان نے جیب سے ایک پیپر نکال کر مجھے پکڑایا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اسے کھول کر دیکھا تو وہ میری خالہ زاد شمسہ سے میرے نکاح نامہ کی فوٹو کاپی تھی۔ میں بےاختیار بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا۔
    سیگریٹ لیں گے سر؟ ولی خان نے انتہائی مہنگے برانڈ کے سیگریٹ کی ڈبی اور ایک قیمتی نظر آنے والا لائٹر نکالتے ہوئے مصنوعی ادب سے کہا۔
    میں نے بے اختیار انکار میں سر ہلا دیا۔ مجھے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ لگتا تھا کہ ولی خان نے اپنے عیاری سے بازی پلٹ دی ہے۔ میں خود بھی قصوروار تھا، نہ میں بہکتا اور نہ آج میں ولی خان کے سامنے یوں شرمندہ ہوتا۔
    آپ کی مرضی ہے سر۔۔! آپ میرے مالک بھی ہیں اور بہنوئی بھی، عزت تو پھر دینی ہی پڑتی ہے آپ کو۔ اگرچہ آپ اس عزت کے قطعاً لائق نہیں ہیں۔
    ولی خان کے لہجے میں طنز کی کاٹ بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
    تم کیا چاہتے ہو ولی؟
    ھا ھا ھا ۔۔! چلیں کسی کو تو خیال آیا کہ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ کاش کے کوئی پوچھے کے مدعا کیا ہے۔۔ اور جہاں تک چاہنے کی بات ہے،
    ہم آپ کا لاکھ برا چاہیں کیا ہوگا
    وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا
    ولی خان میری بے بسی اور صورتحال سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہا تھا۔
    ولی میں فلائٹ سے لیٹ ہو رہا ہوں۔ مجھے دو ٹوک الفاظ میں بتاؤ، تمہاری ان گھٹیا حرکات کا مقصد کیا ہے۔
    ولی کے چہرے پر کچھ سنجیدگی کے تاثرات ابھرے۔ اس نے اپنی جیب سے مڑے تڑے کاغذات نکالے۔
    سر یہ طلاق نامہ ہے۔ آپ کو اس پر دستخط فرمانے ہیں۔ یہ میں کچھ عرصہ پہلے بھی لے کر حاضر ہوا تھا۔ تب آپ نے میری بات کو قابل اعتنا نہیں سمجھا تھا، تب سے میں اسے جیب میں ڈالے گھوم رہا ہوں کہ کبھی نہ کبھی تو آپ شفقت فرمائیں گے۔
    میں نے بے خیالی میں طلاق نامہ پکڑ لیا اور خالی خالی نظروں سے اسے تکنے لگا۔
    میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے لارڈ صاحب۔۔! کن سوچوں میں گم ہو۔ آج میں تمہیں کوئی دوسرا آپشن نہیں دوں گا، اور کوئی دوسرا آپشن ہے بھی نہیں تمہارے پاس۔ جب تمہارے ان کرتوتوں کے ثبوت بیگم صاحبہ کے پاس پہنچیں گے تو وہ جو تمہارا حشر کریں گی، تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ کتے کی طرح ذلیل ہونے سے بہتر ہے کہ چپ چاپ طلاق نامے پر دستخط کر دو! میں بڑے صاحب سے کہہ کر تمیں کچھ پیسے بھی دلوا دوں گا، یورپ یا امریکہ کی طرف نکل جانا زندگی بن جائے گی تمہاری۔
    ولی کے الفاظ کوڑوں کی طرح میری سماعتوں سے ٹکرا رہے تھے اور مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میں ٹوٹ کر پاش پاش ہو جاؤں گا۔
    مجھے تھوڑا وقت دو ولی۔! یہ اتنا آسان نہیں ہے میرے لیے۔ میں طلاق نامے پر دستخط کر دوں گا لیکن کچھ عرصے بعد، مجھے کچھ سوچنے کا موقع تو دو۔ تمہیں بڑے صاحب کا واسطہ ! میں بول رہا تھا مگر مجھے خود بھی اپنی آواز اجنبی لگ رہی تھی۔
    ولی کے چہرے پر نرمی اور کچھ سوچ بچار کے تاثرات نمودار ہوئے۔
    کتنی مہلت درکار ہے تمہیں؟ اس نے پینسل کو واپس اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے پوچھا۔
    تین ماہ۔۔ تین ماہ دے دو مجھے؟
    تین ماہ تو بہت زیادہ ہیں۔ میں تمہیں ایک ماہ کی مہلت دیتا ہوں۔ اس کے بعد تمہیں ہر صورت میں اس طلاق نامے پر دستخط کرنا ہوں گے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ تم اپنے وعدے کی ویڈیو ریکارڈنگ کرواؤ گے۔
    میں ایک دفعہ پھر ولی کی عیاری کا قائل ہو گیا۔ وہ میرے ہاتھ پاؤں بالکل ہی باندھ دینا چاہتا تھا۔
    ویڈیو ریکارڈنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا خان۔۔ تمہیں میری زبان پر اعتبار کرنا چاہیے۔ میں نے آخری کوشش کے طور پر کہا۔
    الیاس خان تم بھول رہے ہو کہ بڑے صاحب کی ایک کال پر تمہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ پھر سڑتے رہنا یہاں جیل میں اور بیٹھے رہنا تصور جاناں کیے ہوئے۔ تمہارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ میں کیمرہ آن کر رہا ہوں۔ ولی خان نے کیمرہ آن کر کے ویڈیو ریکارڈنگ شروع کر دی۔
    میرا ذہن ماؤف ہو چکا تھا۔ میں نے کیمرے کے سامنے اعتراف کیا کہ میرا پہلے بھی نکاح ہو چکا ہے اور میں نے یہ بات چھوٹی بیگم صاحبہ سے چھپائی ہوئی تھی۔ میں نے یہ بھی اقرار کیا کہ میں یہاں رنگ رلیاں مناتا رہا ہوں اور چھوٹی بیگم صاحبہ سے بے وفائی کا مرتکب ہوا ہوں۔
    یہ ویڈیو ریکارڈنگ ولی کی ڈکٹیشن میں مکمل ہوئی۔ اگلے کچھ گھنٹے بعد میں ٹیکسی پر ابوظہبی ائیرپورٹ کی جانب جا رہا تھا۔ اپنی کار میں نے فلیٹ کی بلڈنگ تلے واقع زیر زمین پارکنگ میں ہی چھوڑ دی تھی۔ میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ چکا تھا اور میں دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ میں چھوٹی بیگم صاحبہ کے قابل ہی نہ تھا۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا تھا مگر آج ولی خان نے مجھے تصویریں دکھا کر میری انا کے پندار کو جو چوٹ پہنچائی تھی، میں ان سے نظریں ملانے کے قابل بھی نہیں رہا تھا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ کا حسین و جمیل چہرہ اور ان کی مہربانیاں یاد آتی رہیں اور میرا دل کٹتا و خون کے آنسو روتا رہا۔ میرے لیے یہ تصور ہی سوہان روح تھا کہ چھوٹی بیگم صاحبہ جیسی معصوم اور پاک خاتون میری وہ تصویریں دیکھے۔
    کراچی ائیرپورٹ پر اتر کر میں اپنے خالہ زاد کزن کے گھر چلا گیا۔ اس کا نام شبیر تھا۔ شبیر نے ہی مجھے بڑے صاحب کے پاس نوکری دلوائی تھی۔ میں نے شبیر کو یہی بتا رکھا تھا کہ مجھے بڑے صاحب نے ترقی دے دی ہے اور مجھے ابوظہبی بھیج رہے ہیں۔ وہاں سے ڈھیر سارے پیسے اکھٹے کر کے لاؤں گا تو شمسہ کو رخصت کر کے ساتھ لے جاؤں گا۔
    شبیر کے سامنے سچ بولنے کی ہمت و جرات مجھ میں نہ تھی۔ اتفاق سے شبیر اور شمسہ کی ماں بھی کراچی آئی ہوئی تھیں۔ وہ مجھے دیکھ کر کھل اٹھیں اور میری بلائیں لینے لگیں۔ وہ جلد سے جلد شمسہ کی رخصتی چاہتی تھیں، میں ہوں ہاں کرتا رہا اور پھر نیند کا بہانہ کر کے اٹھ گیا۔ اگلے دن صبح سویرے میں بڑے صاحب کے بنگلے میں جا پہنچا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے پورچ میں آ کر میرا استقبال کیا۔ وہ ٹریک سوٹ میں ملبوس تھیں اور ابھی جاگنگ کر کے لوٹی تھیں۔ پسینے کے قطرے ان کے صبیح چہرے پر موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔
    واؤ! گریٹ۔۔ یو آر لکنگ ہینڈسم ۔۔! انھوں نے مسرت سے مجھے چاروں طرف گھوم کر دیکھا۔ ان کے چہرے پر شوخی کے تاثرات تھے۔
    آپ تو جینٹل مین بن کر آئے ہیں۔ اگر آپ کو ایک چکر لندن کا بھی لگوا دیا جائے، پھر تو آپ ہیرو ہی لگیں گے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ بہت خوش لگ رہی تھیں اور ان کی خوشی دیکھ دیکھ کر میرا احساس زیاں بڑھتا جا رہا تھا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے ناشتہ میرے ساتھ ہی کیا۔ وہ بلڈنگ کولیپس والے حادثہ پر مجھے حوصلہ دیتی رہیں اور دلجوئی کرتی رہیں۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ مجھے ہمراہ لے کر بڑے صاحب کے سامنے پیش ہوئیں۔
    بڑے صاحب ابھی نائٹ گاون میں ملبوس اخبارات کا مطالعہ کر رہے تھے۔ انھوں نے سرسری سے نگاہوں سے مجھے دیکھا اور بیٹھے بیٹھے نیم دلی سے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
    میں دونوں ہاتھوں سے بمشکل ان کی انگلیوں کی پوروں کو ہی چھو پایا۔
    سیٹھ صاحب نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ان کی نظریں بدستور اخبار پر ہی تھیں۔ کمرے میں ایک بوجھل خاموشی کا راج تھا۔ میں اور چھوٹی بیگم صاحبہ چپ چاپ بڑے صاحب کو دیکھتے رہے۔ آخر بڑے صاحب نے اطمینان سے اخبارات کا مطالعہ کیا۔ اپنی عینک اتار کر کیس میں رکھی۔ اس دوران ملازمہ ہمارے سامنے چائے کے کپ رکھ گئی تھی۔
    سیٹھ صاحب نے اپنا کپ اٹھا کر چائے کی چسکی لی اور میری طرف متوجہ ہوئے۔
    ابوظہبی میں تمہاری نااہلی اور غفلت کی وجہ سے کمپنی کو غیر معمولی نقصان پہنچا ہے۔ اس پر مستزاد کہ تم بغیر بتائے وہاں سے بھاگ آئے ہو جیسے کہ وہ تمہیں کل ہی گرفتار کر کے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیں گے۔ ایسا نہیں ہوتا جیسا تم سوچ رہے تھے۔ خیر جو ہوا وہ ماضی تھا۔ تم اپنے پہلے امتحان میں بری طرح ناکام رہے ہو لیکن ابھی بھی میں مکمل طور پر تم سے ناامید نہیں ہوں۔ میں تمہیں مزید مواقع بھی دوں گا۔ تم کلفٹن والے فلیٹ میں واپس چلے جاؤ۔ آرام کرو، اطمینان سے سوچو کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو؟ تم جو بھی کام کرنا چاہتے ہو بلاجھجک کرو۔ سرمایہ فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے۔
    چائے ختم کر کے میں باہر نکلا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ مجھے چھوڑنے پورچ تک آئیں۔
    آپ واپس کیسے جائیں گے؟ آپ اس طرح کیجیے کہ میری ہنڈا لے جائیے۔ کل تک ہم آپ کو آپ کی پسند کی کار دلوا دیں گے۔ تب تک ہماری کار کو خدمت کا موقع دیجیے۔
    لیکن بیگم صاحبہ۔۔۔۔۔
    لیکن ویکن کچھ نہیں۔۔! ہمارے پاس گاڑیوں کی کمی نہیں ہے۔ آپ اطمینان سے ہماری کار لے جائیے۔
    میں نے ہنڈا میں بیٹھ کر بیک گئیر لگایا اور چھوٹی بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا جو ابھی تک سیڑھیوں میں کھڑی مجھے دیکھ رہی تھیں۔
    کچھ دیر ہم ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔۔۔۔۔ پھر وہ آہستہ آہستہ چلتی میرے پاس آئیں۔ ان کے چہرے پر تشویش اور خوف کے ہلکے سے تاثرات تھے۔
    الیاس ! آر یو اوکے،، کیا ہوا ہے آپ کو؟؟ آپ اتنے اتنے بجھے بجھے اور سیڈ کیوں لگ رہے ہیں۔
    میرے چہرے پر ایک پھیکی سے مسکراہٹ دوڑ گئی۔ میں آپ کو سب کچھ بتاؤں گا، سب کچھ۔۔ بس تھوڑی سی ہمت جمع کر لوں۔
    یہ کہنے کے بعد میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو حیران و پریشان چھوڑ کر تیزی سے گاڑی دوڑاتا نکل آیا۔
    اب کلفٹن کا فلیٹ تھا، میں تھا اور سوچیں تھیں۔ بڑے صاحب کے رویے سے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ ابھی تک میری حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں مگر یہ ان کی اداکاری بھی ہو سکتی تھی۔
    اگلے دن پھر ولی خان آ دھمکا۔
    ابھی پینتالیس دن نہیں ہوئے۔۔! میں نے اس کے لیے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
    میں یہاں تمہاری منحوس شکل دیکھنے نہیں آیا اور نہ ہی مجھے کوئی ایسا شوق ہے۔ میں صرف یہ بتانے آیا ہوں کہ چھوٹی بیگم صاحبہ سے دور رہنا۔ میں تمہارا غلیظ سایہ بھی ان کے آس پاس نہیں دیکھنا چاہتا۔
    ولی خان ! میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو ڈنر پر لے کر جانا چاہتا ہوں۔ میں انھیں اپنے بارے میں سب سچ بتانا چاہتا ہوں، جب ڈنر ختم ہوگا تو ہم میاں بیوں نہیں ہوں گے۔ میں نے ولی خان کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
    ولی خان نے چونک کر مجھے دیکھا اور کچھ دیر سوچ کر بولا،
    لیکن میں آس پاس ہی رہوں گا۔
    شام کو میں نے بال بنوائے، شیو کی اور اپنا سب سے خوبصورت سوٹ پہنا اور چھوٹی بیگم صاحبہ کے پسندیدہ پرفیوم میں نہا کر ایک فائیو سٹار ہوٹل پہنچا۔
    کچھ دیر بعد ولی خان بھی چھوٹی بیگم صاحبہ کو لے کر پہنچ گیا۔ وہ ہم سے کچھ دور ٹیبل پر بیٹھ گیا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے لانگ سکرٹ پہن رکھا تھا۔ ہاف سلیف بازو اور گلے میں موتیوں کا نیکلس۔ وہ اتنی پیاری لگ رہی تھیں کہ ان پر نظر کا ٹھہرنا مشکل تھا۔
    تھنک گاڈ ! آپ کو بھی ہمارا خیال آیا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے میری نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے مینیو کارڈ اٹھاتے ہوئے کہا۔
    ڈنر کرتے ہوئے میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو ہنساتا رہا اور وہ کھلکھلا کر ہنستی رہیں۔ کچھ دور ولی خان بظاہر اپنے لیپ ٹاپ میں مگن کافی کے کپ پر کپ پیتا چلا جا رہا تھا اور بے نیاز نظر آنے کی کامیاب کوشش کر رہا تھا۔ ڈنر کر کے چھوٹی بیگم صاحبہ کی پسندیدہ آئس کریم منگوائی گئی۔
    یہ میری زندگی کے سب سے مشکل لمحات تھے۔ میں نے جیب سے ایک جیولری کیس نکال کے چھوٹی بیگم صاحبہ کو پیش کیا۔ اس میں گولڈ کا ایک کڑا تھا جس میں سستے سے پتھر جڑے تھے۔ بیگم صاحبہ یہ تحفہ میں نے ان پیسوں سے خریدا ہے جو میں نے محنت مزدوری کر کے بڑی مشکل سے اپنی شادی کے لیے جوڑے تھے، اس میں بڑے صاحب کا دیا ہوا ایک پیسہ بھی شامل نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں یہ آپ کے شایان شان نہیں ہے لیکن میں صرف اس کا ہی بندوبست ہی کر پایا ہوں۔ اس کو نہ صرف قبول کیجیے بلکہ مجھ سے وعدہ کیجیے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے آپ اسے کبھی خود سے جدا نہیں کریں گی۔
    معمولی سا کنگن پا کے بھی بیگم صاحبہ کی خوشی دیدنی تھی۔ انھوں نے کنگن کلائی پر پہنتے ہوئے وعدہ کیا کہ اب اسے میری موت کے بعد غسل دینے والی ہی اتارے گی۔میں دل کو پتھر کر کے آیا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں نے جتنا رونا تھا، رو چکا ہوں، مگر اب چھوٹی بیگم صاحبہ کے خوشی سے دمکتے چہرے کو دیکھ کر مجھے اپنے حوصلے ٹوٹتے محسوس ہو رہے تھے۔
    ہم ایک قدرے نیم تاریک گوشے میں بیٹھے تھے۔ کینڈل لائٹس میں چھوٹی بیگم صاحبہ کا چہرہ افسانوی منظر پیش کر رہا تھا اور ان کی بڑی بڑی کالی آنکھوں کی چمک ہیروں کو ماند کرتی تھی۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ ۔۔۔۔ ! میں۔۔۔ آج۔۔۔۔۔ آپ کو ۔۔۔۔۔ اپنے بارے میں کچھ ایسی باتیں،،،، بتانا چاہتا ہوں جن سے آپ ابھی تک لاعلم ہیں۔ کچھ غلطیاں ہیں جن کا اعتراف کرنا ہے اور کچھ گناہ ہیں جن کی سزا پانی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میری باتیں تحمل سے سنیں اور انھیں سمجھیں۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ کے چہرے پر کچھ گھمبیرتا کے اثرات نمودار ہوئے۔۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ۔۔ میں نے آپ کو اپنے ماضی کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا لیکن یہ نہیں بتا سکا۔۔۔۔ کہ میرا نکاح کچھ سال پہلے میری خالہ زاد سے بھی ہو چکا ہے۔۔ اگر میرا نکاح آپ سے نہ ہوتا تو اس گزرے مارچ اپریل میں ہمارے شادی ہو جاتی۔
    میں نے بمشکل نظریں اٹھا کر چھوٹی بیگم صاحبہ کو دیکھا۔۔ چہرے پر ہلکا سا تغیر، آنکھوں میں نمی کی چمک دیکھ کر میں نے گھبرا کر دوبارہ نظریں جھکا لیں۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ۔۔۔ ہم چھوٹے دیہات میں رہنے والے لوگوں کی کچھ محرومیاں اور کمپلیکس ہوتے ہیں، جو ساری عمر ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ آپ سے نکاح کے بعد میں ایک دن بھی حق ملکیت کا احساس لیے، سکون سے نہیں سو پایا۔ ہر صبح کا آغاز اس خدشے سے ہوا کہ آپ کو مجھے سے چھین لیا جائے گا یا پھر میں اپنی کمزوری کے باعث آپ کو کھو دوں گا۔۔ کاش آپ احساس کرتیں کہ غلام غلام ہوتے ہیں، مالک اور محبوب نہیں بن سکتے۔۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ۔۔۔ ابو ظہبی،،،، اچھا شہر نہیں ہے۔۔۔۔ ابوظہبی میں ایسی جگہیں ہیں جہان بسنے والی ڈائنییں پردیسیوں سے ان کے خواب، مان اور ان کے محبوب چھین لیتی ہیں۔
    میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ تو پہلے ہی بے آواز رو رہی تھیں۔
    میں آپ کا مجرم ہوں۔ میں نے آپ کو دھوکہ دیا۔ میں اپنے سارے جرائم تسلیم کرتا ہوں اور سزا کا طلب گار ہوں اور میری سب سے بڑی سزا تو یہی ہے کہ میں آپ کو ہمیشہ کے لیے کھو دوں۔ میں نے آنسو پونجھ کر جیب سے طلاق نامہ نکالا۔
    یہ کیا ہے ؟ بیگم صاحبہ کچھ چونکی۔
    انھوں نے میرے ہاتھ سے طلاق نامہ چھین کر دیکھا۔ ان کی آنکھوں اور چہرے میں شدید حیرانی کے تاثرات تھے۔
    آپ۔۔ آپ ہمیں طلاق دینا چاہتے ہیں؟ ان کے لہجے میں اتنا درد تھا کہ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔۔
    الیاس! آپ نے جو کچھ کیا ہے، وہ آپ کا فعل ہے۔ انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا۔۔ آپ نے ہم سے محبت کی وجہ سے اپنا نکاح ہم سے چھپایا، ہمیں اس جھوٹ کا کوئی دکھ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ سے کوئی بھول ہو چکی ہے تو ہم آپ کو معاف کرتے ہیں لیکن آپ کی اس بے وقوفی پر آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ ہمارا رشتہ اتنا کچا تھا کیا؟ آپ کون ہوتے ہیں اکیلے ہمارے بارے میں فیصلہ کرنے والے۔۔
    ہمیں بتائیے؟؟
    بے آواز آنسو چھوٹی بیگم صاحبہ کی آنکھوں سے ٹپک رہے تھے۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں کچھ دیر مزید انھیں دیکھتا رہا تو پتھر کا ہو جاؤں گا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ! میں آپ کی غلامی کے قابل نہیں ہوں۔ میں اپنی نظروں سے گر چکا ہوں۔ آپ کی خاطر جان دے سکتا ہوں مگر اب آپ کو مزید دھوکہ نہیں دے سکتا۔ آپ سے میری محبت کا تقاضا یہی ہے کہ میں آپ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاؤں۔ شمسہ میرا انتظار کر رہی ہے بیگم صاحبہ۔۔
    بیگم صاحبہ روتی رہیں اور انکار میں سر ہلاتی رہیں۔
    میں انھیں ہر طریقے سے سمجھا سمجھا کر تھک گیا تھا۔ وقت گزرتا چلا جا رہا رہا تھا۔ بیگم صاحبہ کی آنکھیں مسلسل رونے سے سوج کر بوٹی کی طرح لال ہو رہی تھیں۔
    الیاس! ہم نے ساری دنیا کی مخالفت مول لے کر آپ سے نکاح کیا۔ ہمیں مت چھوڑئیے۔ ہم ساری عمر بابا اور ولی سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ فار گاڈ سیک ہمیں ہماری نظروں سے مت گرائیے۔ ہمارا انسانیت اور انسانوں سے اعتبار اٹھ جائے گا۔ ہم مر جائیں گے۔۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ پر آپ کی فیملی کا دباؤ ہے۔ آپ نے شمسہ سے شادی کرنی ہے تو ضرور کیجیے مگر ہمیں طلاق مت دیجیے۔
    ہم ساری عمر آپ کے نام پر بیٹھے رہیں گے اور کبھی آپ کے سامنے نہیں آئیں گے۔ آپ کو اللہ کا واسطہ ہمارے ساتھ اس طرح مت کیجیے۔
    رو رو کر چھوٹی بیگم صاحبہ کی ہچکی بندھ گئی تھی۔ میں نے تیزی سے جیب سے پینسل نکال کر طلاق نامے پر دستخط کیے اور اپنے آنسو پونچھتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
    بیگم صاحبہ لپک کر میرے پیروں سے لپٹ گئیں۔
    جانے میرے اندر اتنی درندگی اور وحشت کہاں سے عود آئی۔ میں نے انھیں کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا اور تین بار کہا۔
    لائبہ بی بی میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، میں آپ کو طلاق دیتا ہوں۔۔۔!
    اف خدایا ۔۔۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کا وہ چہرہ ۔۔۔
    اس کے بعد میں پلٹا اور تیزی سے چلتا ہوا ہوٹل سے نکل آیا۔ بیگم صاحبہ کی کار میں نے ہوٹل میں ہی چھوڑ دی تھی۔ جانے وہ رات اور اس کا اگلا دن میں نے کہاں اور کیسے گزارا۔۔
    میں چلتا رہا۔۔ چلتا رہا۔۔۔ جانے کہاں بیٹھتا رہا، کہاں گرتا رہا۔۔ میرے دماغ میں چھوٹی بیگم صاحبہ کی آوازیں اور سسکیاں گونجتی رہیں۔
    دو تین بےخودی میں گزارنے کے بعد میں اپنے کزن کے فلیٹ پر لوٹ گیا۔ وقت گزرتا جا رہا تھا اور میرے دل کے زخم مندمل ہو رہے تھے۔ ولی خان چاہتا تھا کہ میں کچھ پیسے لے لوں اور پاکستان سے چلا جاؤں۔
    میں نے اس کے منہ پر تھوک دیا۔ اس سے بہتر میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
    میں کراچی میں رہنا بھی نہیں چاہتا تھا اور اسے چھوڑنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ چھوٹی موٹی نوکریاں کرتے ہوئے محض وقت گزار رہا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کو طلاق دیے مجبھے تین ماہ ہونے کو آئے تھے۔
    میں ایک فیکٹری میں نائٹ ڈیوٹی کر کے اپنے کوارٹر کی طرف پیدل ہی جا رہا تھا کہ ایک سوزوکی کیری کے ٹائر میرے پاس پہنچ کر چرچرائے۔ گاڑی میں اسلحہ بردار داڑھیوں والے سخت مشکوک قسم کے لوگ سوار تھے۔ ایک نے اپنی بندوق مجھ پر تانی اور دوسرے نے مجھے کھینچ کر سلائیڈنگ دروازے سے گاڑی کے فرش پر گرا دیا۔ کچھ دیر بعد میں ہاتھ پاؤں بندھوائے گاڑی کے فرش پر پڑا تھا اور گاڑی کسی انجان منزل کی طرف اڑی چلی جا رہی تھی۔
    ان لوگوں نے میرے اوپر ایک ترپال سا ڈال دیا تھا۔ اب یقیناً باہر سے دیکھنے والوں کو یہی لگ رہا ہو گا کہ گاڑی کے فرش پر سامان پڑا ہے۔ میں چپ چاپ گاڑی کے فرش پر الٹا لیٹا رہا۔ ان دنوں میں جس ذہنی کفیت میں تھا زندگی بہت حد تک اپنی اہمیت کھو چکی تھی۔ کافی دیر بعد گاڑی ایک جگہ پر جا کر رکی۔ ہارن بجایا گیا اور ایک بھاری گیٹ صدائے احتجاج بلند کرتا ہوا کھل گیا۔ گاڑی اندر داخل ہو گئی۔
    لگنے والے جھٹکوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ کوئی کچا احاطہ سا ہے۔ کہیں پاس ہی سے ویلڈنگ کٹر کے چلنے کی آواز آ رہی تھی، ہو سکتا ہے یہ کوئی ورکشاپ ہو۔ مجھے اتارنے سے پہلے میرے سر پر ایک کالا تھیلا سا چڑھا دیا گیا۔ جس سے میں بالکل ہی اندھا سا ہو گیا تھا۔ میرے میزبان پشتو بول رہے تھے۔ ایک آدمی میرا ہاتھ پکڑے مجھے ٹھوکریں لگواتا کسی عمارت کے اندر لے گیا۔ پھر ہم سیڑھیاں اترے میں نے ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا۔ آخر مجھے ایک کرسی پر بیٹھا کے میرے چہرے سے کالا تھیلا اتار دیا گیا۔ آنکھوں کو روشنی سے مانوس ہونے میں کچھ وقت لگا۔ میرے ہاتھ بدستور پشت پر بندھے تھے۔ میرے سامنے چھوٹی چھوٹی حضاب لگی کالی داڑھی والا آدمی بیٹھا تھا۔ اس نے مجھے بغور دیکھا، پھر پشتو میں میری پشت پر کھڑے مجھے لانے والے آدمی سے کچھ سوال جواب کیے۔ پھر میری پشت پر کھڑا آدمی ایک بغلی کمرے میں غائب ہوگیا، جب وہ لوٹا تو اس کے ساتھ تین آدمی اور تھے۔ ان تینوں کے ہاتھ بھی کمر پر بندھے ہوئے تھے اور وہ صرف شلواروں میں ملبوس تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر لگ رہا تھا کہ انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
    یہی ہے وہ شخص؟
    میرے سامنے بیٹھے شخص نے ان تینوں سے مخاطب ہو کے پوچھا۔ ان تینوں نے مجھے غور سے دیکھا پھر باری باری انکار میں سر ہلا دیا۔ میرے سامنے بیٹھا شخص اب کچھ حیران تھا اور مجھے لانے والے پریشان۔ وہ آپس میں تیز تیز باتیں کر رہے تھے۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مجھے غلطی سے کسی اور کی جگہ اُٹھا لائے ہیں۔ میں لاتعلقی اور بیزاری سے بیٹھا ان کے منہ دیکھتا رہا۔ آخر ان تین آدمیوں کو واپس اسی بغلی کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ میرے سامنے بیٹھا کالی داڑھی والا شخص جو بظاہر ان سب کا باس لگتا تھا، سگریٹ کے کش لیتے ہوئے مجھے دیکھتا رہا۔ اس نے میرا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس کا موقف تھا کہ اس کے آدمی مجھے غلطی سے اُٹھا لائے ہیں تو یہ سراسر میرا قصور ہے۔ مجھے کیا ضرورت تھی کہ ان کے مطلوبہ شخص جیسی شکل لے کر دنیا میں آنے کی۔۔ اگر آ ہی گیا تھے تو کہیں اور چلا جاتا، کراچی کے علاوہ اور بھی تو بہت سے شہر ہیں۔ مزید یہ کہ مجھے واپس چھوڑنے جانے سے آسان کام یہی ہے کہ قتل کر کے تین چار درجن دیگر مقتولوں کی طرح یہی گاڑ دیا جائے۔ مجھے ذاتی طور پر تو اس کی تجویز پر کوئی خاص اعتراض نہیں تھا لیکن اپنے بوڑھے والدین کا خیال مجھے بے چین کر رہا تھا۔ آخر کار باس کے چہرے پر نرمی کے کچھ آثار نمودار ہوئے اور اس نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے پیشکش کی کہ اگر میں اسے دو لاکھ کا بندوبست کر دوں تو مجھے زندہ واپس بھیجنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ میری جیب میں صرف چند سو روپے تھے۔ اس لیے مجھے بھی ایک کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا۔ یہ جگہ کسی نجی جیل جیسی تھی، یہاں شاید اغوا برائے تاوان کے قیدیوں اور دشمنوں کو رکھا جاتا تھا۔ اکثر آنے والوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا تھا۔ میں فی الحال تو مار پیٹ سے بچا ہوا تھا۔ تیسرے دن پھر مجھے باس کے سامنے پیش کیا گیا، اس نے مجھ سے پوچھا کہ میرا کیا ارادہ ہے؟ کیوں کہ اس کے پاس فالتو روٹیاں نہیں ہیں مجھے کھلانے کے لیے۔ حالانکہ مجھے تین دن میں صرف تین خشک روٹیاں دی گئی تھیں بغیر پانی اور سالن کے۔ اس دنیا میں ایک ہی ایسی ہستی تھی جو میرے لیے یہ پیسے بھر سکتی تھی، میں نے کافی سوچ بچار کے بعد اس کو چھوٹی بیگم صاحبہ کا نمبر دے دیا۔۔ کون ہے یہ؟
    باس نے اپنے سستے سے سیل پر نمبر ڈائل کرتے ہوئے کہا۔
    میری مالکن ہے۔ مجھے امید ہے میرے پیسے دے دی گی۔
    دوسری طرف سے کال ریسو کر لی گئی۔۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔ باس نے بتایا کہ آپ کا ڈرائیور الیاس ہمارے پاس ہے۔ دو لاکھ دے کے اس کی جان بخشی کروائی جا سکتی ہے۔ لو اس سے بات کرو۔ باس نے مجھے فون پکڑایا۔
    ہیلو، میں بمشکل بولا۔
    الیاس آپ کہاں ہیں؟ یہ شخص کون ہے؟ یہ کہہ رہا ہے آپ اس کے قبضے میں ہو؟
    اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا، باس نے مجھ سے سیل فون چھین لیا اور مجھے کال کوٹھڑی میں واپس بھیج دیا گیا۔ اس کے کچھ گھنٹے بعد ہی ایک کارندے نے بتایا کہ میرے پیسے مطلوبہ مقام تک پہنچا دیے گئے۔۔ مجھے آج رات چھوڑ دیا جائے گا۔
    رات کو مجھے دوبارہ کالا تھیلا پہنایا گیا، پھر گاڑی میں ایک ویران جگہ پر دھکا مار کے اتار دیا گیا۔ میرے ہاتھ کھولنے کی زحمت کی گئی تھی نہ چہرے سے کالا تھیلا اتارنے کا تکلف۔ کچھ دیر بعد کسی اللہ کے نیک بندے نے میرے پشت سے ہاتھ کھولے اور میرے سر سے تھیلا اتارا۔ تو میں اپنے کواٹر میں جا سکا۔ میں نے میسج کر کے چھوٹی بیگم صاحبہ کو اپنی زندہ اور بخیریت واپسی کی اطلاع کر دی۔
    اب میرا کراچی سے دل اچاٹ ہو چکا تھا۔ میں سیالکوٹ واپس اپنے گاؤں میں آ گیا۔ جانے کیسے شمسہ کے گھر والوں کو میرے بیگم صاحبہ کے ساتھ نکاح کی بھنک مل چکی تھی۔ دونوں گھروں کے آپسی تعلقات سخت کشیدہ ہو چکے تھے۔ آخر بات میری اور شمسہ کی باقاعدہ شادی سے پہلے ہی طلاق پر ختم ہو گئی۔۔ میں ہر چیز سے بیزار ہو چکا تھا۔۔ میں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میں نے گاؤں میں جو ہماری تھوڑی بہت زمین تھی، اس کو بیچ دیا اور پیسے ایک ٹریول ایجنٹ کو دے دیے کہ مجھے سنگاپور یا ہانگ کانگ بھیج دے ۔۔ کچھ ہفتوں بعد ہی میرا سنگاپور کا ویزہ لگ کے آ گیا۔ میں کبھی نہ لوٹ کے آنے کے ارادے سے جا رہا تھا۔ ہماری فلائٹ صبح چار بجے سنگارپور کے انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر پہنچی۔ اپنی باری پر میں نے اپنا پاسپورٹ لیڈی امیگریشن آفیسر کے کاؤنٹر پر رکھا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ ویزہ دیکھ کر کچھ چونکی ہے۔ اس نے ویزے والے سٹیکر کو کاؤنٹر میں لگی ایک لائٹ کے نیچھے کر کے دیکھا، پھر مجھے غور سا دیکھا۔ اب وہ انٹر کام پر مقامی زبان میں کچھ بات کر رہی تھی، ساتھ ساتھ مجھے بھی دیکھتی جا رہی تھی۔ مجھے احساس ہو گیا تھا کہ حسب معمول میرے ساتھ کچھ گڑبڑ ہو چکی ہے۔ کچھ لمحوں میں ہی مجھے ئیرپورٹ سکیورٹی کے اہلکاروں نے گھیر لیا۔ مجھے ایک اندرونی ہال میں لے جایا گیا جہاں مجھے بتایا گیا کہ میں جعلی ویزے پر سنگاپور میں داخل ہونے کا سنگین جرم کر چکا ہوں۔ میرے فرشتوں کو بھی جعلی ویزے کی خبر نہیں تھی۔ غالباً یہ اس ٹریول ایجنٹ کی کاریگری کا کمال تھا۔ بہرحال میں برے طریقے سے پھنس چکا تھا۔ چند ہفتوں کے اندر ہی مجھے جج نے بارہ سال قید کی سزا سنا دی۔۔
    جیل ائیرپورٹ کے نزدیک ہی تھی۔ جیل میں ہماری واحد تفریح یہی تھی کہ جب جہاز رن وے سے ٹیک آف کرتے تو کچھ دیر کے لیے جیل کے روشن دان سے نظر آتے۔ میری بیرک میں دو تین ہندوستانی قیدی بھی میرے ساتھ تھے۔ وہ بھی جعلی ویزے کے جرم میں سزا کاٹ رہے تھے۔ کچھ وقت ان سے باتوں میں کٹ جاتا۔ باقی وقت سوچیں اور یادیں کھا جاتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا تھا، چھوٹی بیگم صاحبہ کے لیے میری محبت بڑھتی جا رہی تھی۔ میں ان سے کی گئی اور ان سے سنی گئی ہر ہر بات کو درجنوں دفعہ یاد کر چکا تھا۔ میری نیند ختم ہو چکی تھی۔ ساری رات تنگ سی بیرک میں ٹہلتے رہنا اور روشندان سے چاند یا ٹیک آف کرتے یا اترتے جہازوں کی روشنیوں کو بےخیالی سے تکتے رہنا ہی میرا مشغلہ ہوتا۔
    جیل میں ہمیں ہر پندرہ دن بعد دس منٹ کال کے لیے دیے جاتے۔ میں سات آٹھ منٹ کی کال اپنے والدین کو کرتا، باقی رسیور تھام کے کھڑا رہتا اور سوچ بچار میں وقت گزر جاتا۔ آخر ایک دن میں نے آخری دو منٹ میں کانپتے ہاتھوں سے چھوٹی بیگم صاحبہ کا نمبر ملا لیا۔۔ بیل جا رہی تھی، دوسری بیل، تیسری بیل۔ میرا سانس پھول گیا تھا۔ میں نے جلدی سے فون بند کر دیا۔ اگلی دفعہ میں نمبر ملانے کی ہمت نہیں کر پایا۔ اس سے اگلی دفعہ اتفاق سے چھوٹی بیگم صاحبہ نے فوراً ہی کال ریسو کر لی۔ میرے پاس ایک سو پانچ سینکڈ رہ گئے تھے۔۔ السلام علیکم ۔۔ میں نے پہلی دفعہ بیگم صاحبہ کو فون پر سلام کرتے سنا۔۔ ورنہ وہ ہیلو کہتی تھیں۔۔ بیگم صاحبہ نے دو تین دفعہ سلام کیا لیکن میرے حلق میں تو کانٹے پڑ گئے اور دل ایسا دھڑک رہا تھا جیسے پھٹ جائے گا۔ اس دن میں بیرک کے باتھ روم میں جا کے بہت دیر روتا رہا۔ پندرہ دن بعد ابو سے میں نے سات منٹ بات کی۔ اب میرے پاس تین منٹ تھے، ایک منٹ ہمت جمع کرنے میں گزر گیا۔۔ آج بھی بیگم صاحبہ نے جلدی کال ریسیو کر لی۔۔
    السلام علیکم۔۔آپ کون بول رہے ہیں؟ ہیلو الیاس؟ آپ الیاس ہیں نہ؟ آپ بولتے کیوں نہیں؟
    جب تک میں بولنے کے قابل ہوا، میرا کال کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ اگلے پندرہ دن بہت بھاری تھے۔ میرے پاس سوائے انتظار کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ پندرہ دن بعد میں نے پہلے چھوٹی بیگم صاحبہ کو ہی کال ملائی۔۔ میں نے ایک ایک مکالمہ پہلے ہی سوچ رکھا تھا۔ ان کا حال احوال پوچھا اور انھیں اپنے حال سے آگاہ کیا۔ جسے سن کے وہ حسب توقع بہت پریشان ہوئیں۔ پھر مجھے حوصلہ اور تسلی دی، اور کہا کہ وہ فوراً کچھ کرتی ہیں ۔۔ بیگم صاحبہ کے لہجے میں میرے لیے ایسی شفقت تھی، مجھے لگا جیسے میں اپنی ماں سے بات کر رہا ہوں۔۔ میں ان سے معذرت کرنا چاہتا تھا، ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا لیکن کال کا وقت ختم ہو گیا۔ اگلے دن شام کو مجھے بتایا گیا کہ مجھ سے ملنے پاکستان سے کوئی آیا ہے۔ مجھے ملاقات والے کمرے میں لے جایا گیا جہاں چالیس پنتالیس سال کا ایک بارعب آدمی میرا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے اپنا نام ایم ایچ رضوی بتایا۔ رضوی سندھ ہائی کورٹ کا نامی گرامی وکیل تھا اور اسے چھوٹی بیگم صاحبہ نے بھیجا تھا۔ رضوی نے میرے کیس کی ساری تفصیلات حاصل کر لی تھیں۔ اس نے مجھ سے بھی بہت سے سوال پوچھے اور چلا گیا۔ میں نے اس دن وضو کر کے بہت عرصے بعد نماز پڑھی اور اللہ سے دعا کی کہ چھوٹی بیگم کو ایسا شخص عطا کر جو ان کے قابل ہو اور وہ ان سے ٹوٹ کے محبت بھی کرے۔
    مقررہ دن پر دوبارہ چھوٹی بیگم صاحبہ سے بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ مقامی قوانین کے مطابق مجھے جیل سے نکلوانا مشکل ہے۔ رضوی صاحب اس کا دوسرے طریقے سے حل نکال رہے ہیں۔۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ مجھے ایک جعلی عدالتی کارروائی کے ذریعے قتل کے مقدمے میں سزا موت سنائی گئی تھی۔ پھر پاکستان کی وزارت داخلہ کی طرف سے سنگاپور کی حکومت سے مجرم یعنی میری حوالگی کا مطالبہ کیا گیا۔ کچھ مہینے یہ ضروری قانونی کاروائی چلتی رہی۔ چونکہ دونوں ملکوں میں مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ موجود تھا، اس لیے مجھ سے طویل انٹرویو کے بعد مجھے پاکستان حکومت کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک دن مجھے الٹی ہتھکڑی لگا کے پی آئی اے میں بٹھا دیا گیا۔ نیو دہلی میں جا کے میری ہتھکڑی کھول کے سامنے لگائی گئی۔۔ کراچی ائیرپورٹ پر مجھے پولیس نے اے ایس ایف سے وصول کیا اور مجھے گاڑی میں ڈال کر وہ تھانے لے گئے جہاں رضوی صاحب پہلے ہی موجود تھے۔۔ رضوی صاحب نے پولیس والوں کو ان کی خدمات کا صلہ دیا اور مجھے تھانے سے لےکر نکلے۔۔ اب میں آزاد تھا ۔۔ میری آزادی بیگم صاحبہ کی انتھک کوششوں اور بےدریغ پیسے کے استعمال کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی۔۔ چھوٹی بیگم صاحبہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتی تھیں اور مجھ میں بھی ان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی شادی ایک ڈاکٹر کے ساتھ طے ہو چکی ہے جو جرمنی میں مقیم ہے۔ شادی کے بعد وہ بھی وہاں شفٹ ہو جائیں گی اور ان کا نمبر بند ہو جائے گا، شاید اب ہماری دوبارہ کبھی بات نہ ہو سکے۔۔
    میں نے اسی دن کراچی کا چھوڑ دیا، اور پنجاب لوٹ آیا۔ کچھ ماہ بعد میری ماں نے بھی میری شادی میری طرح ایک واجبی اور معمولی عورت سے کر دی۔ میری بیوی کا نام اقرا تھا۔ وقت اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ گزرتا رہا۔ اب ہمارے چار بچے تھے اور میں ٹرک چلاتا تھا۔ ایک دن مجھے اچانک ہی چکر آیا اور میرے کانوں اور ناک سے خون بہنے لگا۔۔مجھے ایک سرکاری ہسپتال پہنچایا گیا جہاں سے انھوں نے مجھے لاہور ریفر کر دیا۔ لیے گئے ٹیسٹس کی رپورٹس کے بعد پتا چلا کہ میں ایک موذی اور ناقابل علاج مرض میں مبتلا ہو چکا ہوں۔ کچھ دن بعد مجھے کراچی کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں بھیج دیا گیا۔ اقرا بھی میرے ساتھ تھی۔ سرکاری ہسپتالوں میں نادار اور غریبوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے، وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ میری جمع پونجی ختم ہو چکی تھی۔ قرضے کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا لیکن درد کی شدت تھی کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ میرا وزن بہت گر گیا تھا۔ ایک دن اقرا مجھے سہارا دیے ہاسپٹل کے ایک وارڈ سے دوسرے میں لےکر جا رہی تھی کہ ہمارے پاس سے گزرتی دو خواتین اچانک رک گئیں۔۔
    الیاس؟ او مائی گاڈ! یہ آپ ہیں؟ کیا ہوا ہے آپ کو؟؟
    میں نے چونک کر سر اٹھا کے دیکھا، سامنے چھوٹی بیگم صاحبہ کھڑی تھیں۔ دس سال پہلے جیسا ان کو دیکھا تھا، وہ ابھی بھی ویسی کی ویسی تھیں۔ میری حالت دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انھوں نے اقرا سے سلام دعا کی، پھر میری فائل دیکھنے لگیں۔۔ اس کے بعد وہ مجھے اور اقرا کو کراچی کے سب سے مہنگے پرائیوٹ ہاسپٹل میں لے گئیں۔۔جہاں میرا باقاعدہ علاج شروع کیا گیا۔ مرض اس سٹیج پر پہنچ چکا تھا کہ یہ اب ناقابل علاج تھا۔ ڈاکٹر صرف میری تکلیف مستقل طور پر کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔ بیگم صاحبہ روز ہم سے ملنے ہاسپٹل آتیں اور ہم تینوں گھنٹوں باتیں کرتے۔۔ بیگم صاحبہ کے بھی دو بچے تھے۔ وہ کچھ دن کے لیے ہی پاکستان آئی تھیں۔ کچھ دن بعد ہم زبردستی واپس آ گئے اور بیگم صاحبہ واپس جرمنی چلی گئیں۔۔ میرا جسم بہت لاغر ہو چکا ہے۔ میں کوئی کام کاج یا مزدوری نہیں کر سکتا۔ میری دوائیاں، علاج کے پیسے اور گھر کے اخراجات آج بھی جرمنی سے آتے ہیں۔
    آج میری عمر صرف اکتالیس سال ہے اور میں موت کا انتظار کر رہا ہوں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ میرے پاس مہلت بہت کم ہے۔ لیکن مجھے مہلت درکار بھی نہیں ہے۔۔ میں دراصل اسی دن مر گیا تھا جب میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو طلاق دی تھی۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے مجھے معاف کر دیا ہے۔ آپ میرے لیے دعا کریں کے میرا اللہ بھی مجھے معاف کر دے۔
    اللہ حافظ
    ختم شد

    کہانی کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (3) – ریحان اصغر سید

    سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (3) – ریحان اصغر سید

    میں کچھ دیر حیرت کی شدت سے کچھ بول ہی نہیں پایا اور سکتے کی کیفیت میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو تکتا رہا۔ جو اب اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو گھٹنے پر پھنسائے کھڑکی کے شیشے سے باہر دیکھ رہی تھیں۔ ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں نمی چمک رہی تھی۔ مجھے بےاختیار ان پر بہت ترس آیا۔ میں اپنے بارے میں قطعاً کسی غلط فہمی کا شکار نہیں تھا، ایک معمولی پس منظر کا معمولی جاہل انسان۔ جس کے پاس تعلیم، خاندان، شکل و صورت کچھ بھی نہیں تھا۔ میرے مقابلے میں بیگم صاحبہ کے پاس سب کچھ تھا۔ میں انھیں کسی بھی لحاظ سے ڈیزرو نہیں کرتا تھا۔ ان کے لائق تو کوئی ان جیسا خاندانی، اعلی تعلیم یافتہ اور خوبصورت انسان ہونا چاہیے۔ کوئی آرمی کا کرنل، پائلٹ، ڈاکٹر یا پھر کوئی اعلی سرکاری افسر۔ وہ اتنی اچھی تھیں کہ ان کے عشق میں کوئی بھی مرد گرفتار ہو سکتا تھا۔ میرے دل میں موجود ان کے لیے محبت اور عقیدت کا تقاضا تھا کہ میں فورا انکار کر دوں اور کہوں کہ میری جان بچانے کی یہ قیمت بہت بڑی ہے اور آپ میری جان بچانے کے چکر میں اپنی جان بھی خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ میں آپ کی زندگی کو اپنے ہاتھوں برباد نہیں کر سکتا۔ آپ نے میرے لیے جو کچھ کیا وہ بہت غیر معمولی ہے لیکن اب میں آپ کو مزید مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ میں یہیں سے پنجاب لوٹ جاتا ہوں، کبھی نہ واپس آنے کے لیے۔ آپ بھی اس قصے کو یہیں ختم کر دیجیے۔ حارث نے میرے ساتھ جو کچھ کیا، میں آپ کے صدقے اسے معاف کرتا ہوں۔ آپ بھی اسے معاف کر دیں۔

    میں انھیں بتانا چاہتا تھا کہ میرا نکاح میری خالہ زاد کے ساتھ لڑکپن میں ہی کر دیا گیا تھا اور وہ گھر بیٹھے میری راہ تک رہی ہے۔ اگلے سال مارچ اپریل تک ہماری شادی ہے لیکن میں ان باتوں میں سے انھیں کچھ بھی نہیں بتا پایا۔ ایک عجیب سے کمینگی اور خودغرضی نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ شاید میری رگوں میں دوڑتا معمولی خون اپنا اثر دکھا رہا تھا۔ میری عقل مجھے سمھا رہی تھی کہ بے وقوف، جس کے تو دن رات سپنے دیکھتا رہا ہے، وہ تجھے مل رہی ہے، تجھے اور کیا چاہیے؟ زندگی میں ایسے مواقع روز روز اور ہر کسی کو نہیں ملتے۔ ایک معمولی نوجوان سے ایک امیر کبیر پری کی شادی، ایسا تو صرف فلموں میں ہوتا ہے یا پھر رومانی رسالوں میں، اور تیری منکوحہ شمسہ کا کیا ہے، نہ شکل و صورت اور نہ رنگ روپ۔ تین مرلے کے کچے مکان اور بھینسوں کے ساتھ زندگی گزارنے والی ایک معمولی لڑکی جس کے جسم سے ہر وقت ایک ناگوار سی بُو اٹھتی ہے۔ یہاں سے لوٹو گے تو ساری عمر غربت کی چکی میں پستے ہوئے گزارنی پڑے گی۔
    چلیں؟
    بیگم صاحبہ نے شاید میری خاموشی سے تنگ آ کر کار کی چابی اٹھاتے ہوئے کہا۔
    کار میں بیٹھ کر میں نے بیگم صاحبہ کی طرف دیکھے بنا کہا،
    میں تیرے سنگ کیسے چلوں سجنا
    تو ساحل میں سمندروں کی ہوا
    چھوٹی بیگم صاحبہ بےاختیار کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔
    ہمیں تو آج پتہ چلا ہے کہ آپ شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں۔

    میں نے بہت محتاط لفظوں میں اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔ میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو اپنے بچپن اور ماضی کے بارے میں تفصیلاً بتایا لیکن اپنے نکاح کی بات گول کر گیا۔ ہمت کر کے میں نے انھیں یہ بھی بتا دیا کہ میں چپکے چپکے ان پر کتنا مرتا رہا ہوں اور دن رات ان کے سپنے دیکھتا رہا ہوں۔ اس کے بعد میں نے انھیں اپنے اور ان کے متوقع نکاح کے بعد پیدا ہونے والے خطرات سے آگاہ کرنے کی نیم دلانہ سی کوشش کی۔ میں انھیں ان کے فیصلے سے باز رکھنے کے لیے دلائل تو دے رہا تھا لیکن دل میں ڈر بھی رہا تھا کہ کہیں وہ قائل ہی نہ ہو جائیں اور نہ ہی میں انھیں کوئی ایسی دلیل دینا چاہتا تھا کہ جس سے وہ قائل ہو کر پیچھے ہٹ جائیں۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے میری ساری باتیں بہت غور و تحمل سے سنیں۔
    اوکے ! لیٹس میک اِٹ سِمپل۔
    ہم نے آپ کی ساری گفتگو سے جو اندازہ لگایا ہے، وہ یہ کہ آپ ہمیں بہت پسند کرتے ہیں اور ہم سے شادی بھی کرنا چاہتے ہیں، لیکن آپ کو صرف دو باتوں پر اعتراض ہے۔ ایک تو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ہمارے قابل نہیں ہیں۔ دوسرا آپ ڈر رہے ہیں کہ ہماری شادی کے بعد ہمیں خاندان و سماج کی بہت ساری مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایم آئی رائٹ؟؟
    جی بیگم صاحبہ ! میں نے تائید کی۔
    آئی جسٹ ڈونٹ کیئر! اگر آپ ہمارے ساتھ ہیں تو ہمیں دنیا میں کسی کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ہم سب سنبھال لیں گے۔ آپ ہمارے ساتھ ہیں نا الیاس؟
    کار رک چکی تھی۔ چھوٹی بیگم صاحبہ دل و جان سے میری طرف متوجہ تھیں۔ میں سرشاری کی سی کیفیت میں سر اثبات میں ہلانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کہہ پا رہا تھا۔
    الیاس ہم آپ پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم سے اقرار کرنے کے بعد آپ کے لیے واپسی کے سارے رستے بند ہو جائیں گے۔ آپ پر ہماری فیملی، اور ہو سکتا ہے کہ آپ کی فیملی کا بھی شدید دباؤ آئے۔ ہو سکتا ہے آپ کو ڈرایا جائے یا لالچ کے جال میں پھنسانے کی کوشش کی جائے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ہم دونوں قتل کر دیے جائیں۔ آپ نے جو کچھ سوچنا ہے، ابھی سوچ لیجیے. بعد میں پچھتانے یا پیچھے ہٹنے کا کوئی آپشن نہیں بچے گا۔
    بیگم صاحبہ کے چہرے پر بے پناہ سختی اور ان کی روایتی بے نیازی نمودار ہو چکی تھی۔
    میں مر جاؤں گا لیکن اب پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ میرے ہاتھ تو کاٹے جا سکتے مگر آپ کے ہاتھ سے چھڑوائے نہیں جا سکتے۔ میں نے بے اختیار چھوٹی بیگم صاحبہ کا ہاتھ تھام لیا۔

    ولی خان نے گھر جا کر سیٹھ صاحب کو ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا۔ سیٹھ صاحب کی چھوٹی بیگم صاحبہ کو دو دفعہ کال آ چکی تھی لیکن چھوٹی بیگم صاحبہ نے انھیں مطمئن کر دیا تھا۔ کراچی پہنچ کر ہم سیدھے کورٹ چلے گئے۔ جہاں ایک وکیل نے پارکنگ میں ہمارا استقبال کیا۔ میرا دل خوشی سے بلیوں اچھل رہا تھا لیکن مستقبل کے خدشات بھی ڈرا رہے تھے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ حسب معمول پرسکون و پراعتماد تھیں۔ دوپہر تک ہم ساری کاغذی کاروائی مکمل کر کے باقاعدہ ایک دوسرے کے میاں بیوی بن چکے تھے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کو گھر جلدی جانا تھا اور میں چاہ رہا تھا کہ وقتی طور پر اپنے کزن کے گھر چلا جاؤں لیکن چھوٹی بیگم صاحبہ نہیں مانیں۔ انھوں نے مجھے تسلی دی کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر اپنے بنگلے پہنچیں۔ میں اپنے کواٹر میں چلا گیا اور چھوٹی بیگم صاحبہ سیٹھ صاحب کے پاس چلی گئیں جو ان کے انتظار میں آج آفس نہیں گئے تھے۔ بیگم صاحبہ نے میری مرہم پٹی حیدرآباد سے ہی کروا دی تھی۔ میں درد کش گولیاں کھا کر لیٹ گیا۔

    ساری رات کی ہلچل اور رت جگے کے بعد میرا خیال تھا کہ میں لیٹتے ہی سو جاؤں گا لیکن میری توجہ دروازے پر ہی مرکوز رہی۔ کبھی لگتا کہ ابھی دھماکے سے دروازہ کھلے گا اور سیٹھ صاحب یا ولی خان مجھے گولیوں سے سے بھون دیں گے۔ پھر سیٹھ صاحب کی بردباری اور بیگم صاحبہ کے لیے ان کی محبت دیکھ کر دل کو تھوڑی ڈھارس بندھتی۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد میرے کوارٹر کے دروازے پر ایک نفیس سے دستک ہوئی۔
    میرا دل بے اختیار پکار اٹھا کہ یہ چھوٹی بیگم صاحبہ ہیں۔ میں نے لپک کر دروازہ کھولا اور چھوٹی بیگم صاحبہ میرے کمرے میں تشریف لے آئیں۔ وہ پہلی دفعہ میرے کمرے میں آئی تھیں، اس لیے کافی دلچسپی سے اردگرد کا معائنہ کر رہی تھیں۔ میں نے ان کے چہرے کے تاثرات تاڑنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
    آپ کی بڑے صاحب سے ملاقات ہوئی ہے؟؟ آپ نے ہماری شادی کے بارے میں کیا بتایا ہے؟؟
    میں نے بے چینی سے پوچھا۔
    ہاں ! ہم ان کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے انھیں سب کچھ بتا دیا ہے۔ پہلے تو وہ بہت سٹپٹائے اور ہم پر بہت غصہ بھی ہوئے، مگر ہم بھی ہم ہیں، جب ہم بھی غصے میں آ گئے تو انھیں نارمل ہونا پڑا۔ کیا کریں بے چارے، وہ ہم سے محبت جو اتنی کرتے ہیں۔ ان کی جان ہمارے اندر ہے، ہمیں پتہ تھا کہ وہ مان جائیں گے۔ ابھی وہ آپ کو بلا رہے ہیں، اس لیے ہم آپ کو لینے آئے ہیں۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے بڑے شوخ و چنچل انداز میں تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ ابھی تک رات والے ڈریس میں ہی ملبوس تھیں مگر پھر بھی فریش اور کھلی کھلی لگ رہیں تھیں۔

    میں ان کی راہنمائی میں چلتا ہوا بنگلے کے اندرونی حصے کی جانب بڑھا۔ اس سے بیشتر میں اس حصے میں کبھی نہیں آیا تھا۔ بنگلے کی شان و شوکت مجھے مرعوب کر رہی تھی۔ ایک شاندار کمرے میں سیٹھ صاحب ٹہل رہے تھے۔ سفید ریشم کی شلوار قمیض میں ان کی شخصیت مجھے ہمیشہ سے زیادہ بارعب و پرقار لگی۔ انھوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور چھوٹی بیگم صاحب کو تشریف لے جانے کا کہا۔
    ہم تو کہیں نہیں جا رہے، یہیں بیٹھے ہیں۔ آپ کو جو بات کرنی ہے ہمارے سامنے ہی کیجیے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے میرے قریب ہی ایک صوفے پر آلتی پالتی مارتے ہوئے کہا۔
    سیٹھ صاحب کے چہرے پر برہمی کے تاثرات ابھرے۔
    بےبی، سٹاپ اِٹ ! اتنی بڑی حماقت کے بعد تمہاری یہ بچگانہ حرکتیں اور شوخی زہر لگ رہی ہیں مجھے، جاؤ یہاں سے۔ جب میں نے ایک دفعہ تم سے وعدہ کر لیا ہے کہ تمہارے فیصلے کا احترام کیا جائے گا اور الیاس کی زندگی محفوظ رہے گی تو پھر تمہیں کوئی ڈاؤٹ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تمہارے بابا کی زبان ہے۔
    بےبی عرف چھوٹی بیگم صاحبہ پر اس تقریر کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ انھوں نے گھٹنوں پر کہنیاں رکھ کر اپنے چہرے کو ہاتھوں پر ٹکا رکھا تھا۔ سیٹھ ٓصاحب کی بات ختم ہوتے ہی وہ ٹھنک کر بولیں،
    تو بابا ہم نے کب کہا ہے کہ ہمیں آپ کی بات یا زبان پر ڈاؤٹ ہے۔ ہم تو بس الیاس کی مورل سپورٹ کے لیے یہاں بیٹھے ہیں، دیکھیں نا کتنے گھبرائے ہوئے ہیں بیچارے۔ ہم بھی اٹھ کر چلے گئے تو خاک بات کر پائیں گے آپ سے۔ بابا ہم پرامس کرتے ہیں کہ آپ دونوں کی کنورسیشن میں بالکل نہیں بولیں گے۔
    سیٹھ صاحب بے بسی سے ہونٹ کاٹ کر رہ گئے۔ انھوں نے صوفے پر بیٹھ کر سگار سلگایا اور ایک طویل کش لے کر صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر پرسوچ نظروں سے مجھے دیکھنے لگے۔

    الیاس ! ہمیں بہت افسوس ہے تم پر۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ تم ہمارے ساتھ ایسا کرو گے۔ ہم نے ہمیشہ تمھیں اپنے گھر کا فرد سمجھا۔ تمہاری ہر ضرورت پوری کی۔ اپنی سب سے قیمتی چیز ہماری بیٹی کے لیے تم پر اعتماد کیا، میرے احسانات کا یہ صلہ دیا ہے تم نے؟
    چلو بےبی تو بچی ہے مگر تم تو میچور مرد ہو۔ بجائے اسے سمجھانے کے تم بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئے۔ شادی کو گڈے گڈی کا کھیل سمجھ رکھا ہے تم دونوں نے؟؟
    بابا ۔۔۔۔! چھوٹی بیگم صاحبہ نے کچھ بولنے کی کوشش کی۔
    شٹ اپ ، آئی سے جسٹ شٹ اپ ! سیٹھ صاحب بھڑک اٹھے۔
    کم از کم اپنے الفاظ اور اپنی زبان کا پاس کرنا سیکھ لو کہ تم پر کوئی اندھا اعتماد کرے تو اس کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاتے۔ سیٹھ صاحب کے لہجے میں بلا کی تلخی اور کاٹ تھی۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے گھبرا کے اپنے منہ کے سامنے کشن رکھ لیا۔
    سیٹھ صاحب انھیں کچھ دیر گھورتے رہے۔۔ اگر یہاں بیٹھنا ہے تو اب دوبارہ تمہاری آواز نہ آئے۔۔
    تھوڑا سا پانی پینے اور سگار کے ایک دو کش لینے کے بعد وہ پھر میری طرف متوجہ ہوئے۔
    دیکھو الیاس ! تم نے ہمارا رہن سہن اور ہماری کلاس دیکھ رکھی ہے۔ بےبی کا بچپن برطانیہ میں گزرا ہے۔ میں نے ساری زندگی اس کی ہر خواہش پوری کی ہے۔ اس نے شہزادیوں کی طرح زندگی گزاری ہے۔ تم نے نکاح نامے پر دستخط کرنے سے پہلے سوچا تھا کہ تم اسے کہاں رکھو گے؟ اور اس کی شاہانہ ضروریات کیسے پوری کرو گے؟ میں تمہاری انسلٹ نہیں کر رہا لیکن تم خود غیر جانبداری سے مجھے جواب دو کہ کیا تم اور بےبی کسی بھی طور پر میاں بیوی لگتے ہو؟ اپنی تعلیم، شکل و صورت اور سٹیٹس دیکھ کر کیا تمھیں نہیں لگتا کہ تم نے بہت زیادتی کر دی ہے ہمارے ساتھ۔
    سیٹھ صاحب کے لہجے میں تلخی بڑھتی چلی جا رہی تھی اور میں شرم سے زمین میں گڑ رہا تھا۔
    الیاس ! بےبی بہت رحمدل اور حساس بچی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ تمہارے ساتھ میرے بھتیجے نے بہت زیادتی کی ہے اور اِس پاگل نے اپنے کزن کے ظلم کی تلافی کے لیے خود کو تمھارے نکاح میں دے دیا ہے۔ اور تم نے بھی خوب بدلہ لیا ہے ہم سے۔۔۔ ٹھنڈے دل سے سوچو الیاس۔۔۔! جس طرح بےبی نے آدھی رات کو جا کر تمھیں ریسکیو کیا اور تمہاری مرہم پٹی کروائی، کون کرتا ہے اپنے ملازموں کے لیے اتنا؟ اور اس کے بعد تم لوگوں نے کورٹ میں جا کر نکاح والا تماشا کیا ہے۔ کوئی بھی دوسرا صاحب حیثیت گھر ہوتا تو تمہاری لاش اس وقت کچرے پر پڑی ہوتی۔۔!
    بڑے صاحب، میں۔۔۔۔۔!
    میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ سیٹھ صاحب نے ہاتھ اٹھا کر مجھے بولنے سے روک دیا۔ سگار کا کش لگا کر انھوں نے گھڑی پر وقت دیکھا ۔
    اب میں کس منہ سے حارث کی سرزنش کروں۔ تم لوگوں نے تو اس کی بات کو سچ ثابت کر دیا ہے۔ اگر حارث کو پتہ چلا کہ تم نے بےبی سے نکاح کر لیا ہے تو وہ زندہ چھوڑے گا تمھیں؟
    جواب دو!
    سیٹھ صاحب نہایت غضب ناک ہو چکے تھے۔ میں چپ چاپ سر جھکائے پیر کے ناخن سے قالین کھرچتا رہا۔
    میں نے بےبی سے وعدہ کیا ہے کہ تمہارا نکاح برقرار رکھا جائے گا لیکن اس کے لیے میری کچھ شرائط ہیں۔
    میں نے سر اٹھا کر سیٹھ صاحب کے چہرے کی جانب دیکھا جہاں قیامت کی سنجیدگی اور سختی تھی۔
    کمرے میں کچھ دیر خاموشی کا راج رہا۔

    کیسی شرائط بابا؟ چھوٹی بیگم صاحبہ کے لہجے میں کچھ پریشانی جھلک رہی تھی۔
    بے فکر رہو بیٹا! میری شرائط کچھ ایسی ناجائز نہیں ہیں۔ بس یوں سمجھ لو کہ میرے کچھ تحفظات ہیں۔ انھیں دور کیے بنا میں تمہیں الیاس سے نہیں بیاہ سکتا۔ بطور باپ یہ میرا فرض بھی ہے اور حق بھی کہ میں آپ کے فیوچر کو سیکیور و پرعزت بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کروں۔ سیٹھ صاحب نے نرمی سے جواب دیا۔
    بڑے صاحب! چھوٹی بیگم صاحبہ سے خلع کی شرائط کے علاوہ مجھے آپ کی تمام شرائط منظور ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ہمارے ساتھ زیادتی نہیں کریں گے۔
    مجھے تم سے ایسی ہی تابعداری کی امید تھی۔ میری پہلی شرط یہ ہے کہ مناسب وقت آنے تک تم دونوں اس نکاح کا ذکر کسی سے بھی نہیں کرو گے۔ کسی سے بھی نہیں۔ اگر تم لوگوں نے میری نصیحت پر عمل نہ کیا تو میں الیاس کی زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔
    میں پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ مناسب وقت کب آئے گا لیکن بڑے صاحب کا موڈ دیکھ کر محض صرف اثبات میں سر ہلا کر رہ گیا۔
    میری دوسری شرط یہ ہے کہ جب تک تم دونوں کی باقاعدہ شادی نہیں ہو جاتی، تم دونوں علیحدگی میں نہیں ملو گے۔ نو باڈی ریلیشن شپ، ناٹ ایٹ آل ! اگر ایسا کچھ ہوا تو الیاس میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمہیں عبرت کا نشان بنا دوں گا۔ بےشک قانونی طور پر تم لوگ میاں بیوی بن چکے ہو لیکن شرعا والی ایسا نکاح منسوخ کرنے کا اختیار رکھتا ہے، جو بالکل بےجوڑ اور ہتک آمیز ہو، میں صحیح غلط کی بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ بس تم میری اس بات کو اپنے پلے سے باندھ لو کہ جب تک تم لوگوں کی باقاعدہ شادی نہیں ہو جاتی، تم میری بیٹی سے دور رہو گے۔
    بڑے صاحب کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ مجھے بے اختیار جھرجھری آ گئی۔ میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا جو صوفے پر ٹانگیں فولڈ کیے گود میں پڑے کشن کے ریشمی غلاف کے دھاگے کھینچ رہی تھیں۔
    مجھے منظور ہے۔۔ میں آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا ۔۔ میں نے نظریں جھکا کر کہا۔
    میری تیسری شرط یہ ہے الیاس کہ تمھیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ اپنے آپ کو ہمارے سوسائٹی کے قابل بناؤ، ہمارا انداز و اطور اور رہن سہن اپناؤ۔! تم جو بھی بزنس کرنا چاہتے ہو کرو، تمھیں سرمایہ میں فراہم کروں گا۔ میں تمہیں ایک کامیاب بزنس مین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ تم اپنی تعلیم مکمل کرو، تب تک بےبی کی ڈگری بھی مکمل ہو جائے گی، تو پھر میں تم دونوں کی شادی دھوم دھام سے کر دوں گا لیکن اس سے پہلے تمہیں خود کو بےبی کا اہل ثابت کرنا ہے۔
    جی! بڑے صاحب میں پوری کوشش کروں گا۔ میں نے ایک بار پھر جواب دینے سے پہلے چھوٹی بیگم صاحبہ کو دیکھا، حسب سابق اسی شغل میں مشغول تھیں۔
    صرف کوشش نہیں کرنی۔۔! تمیں کامیاب ہونا ہے۔۔! یہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن اگر تم واقعی بےبی سے محبت کرتے ہو تو یہ کوئی اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ کسی بزنس کا تجربہ ہے تمہیں؟؟ کیا کرنا چاہتے ہو؟
    یہ سوال میرے لیے کافی غیر متوقع تھا ۔
    میں نے اس بارے میں کچھ سوچا نہیں بڑے صاحب۔۔! مجھے کسی قسم کے بزنس کا تجربہ نہیں ہے۔
    ھووووں۔۔! سیٹھ صاحب نے ایک ہنکارا بھر کر سگار کر کش لیا۔
    ہماری ایک کنسٹرکشن کمپنی ابوظہبی میں بھی ہے۔ کیوں نہ تمہیں وہاں بھیج دیا جائے؟ یوں تم حارث کی نظروں سے بھی دور رہو گے اور کام بھی سیکھ جاؤ گے۔ اگر تم نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو کچھ عجب نہیں کہ میں وہ کمپنی تمہیں شادی کے تحفے میں دے دوں۔
    میں نے چونک کر بڑے صاحب کی طرف دیکھا جو پہلے ہی مجھے بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے کنفیوژ ہو کر چھوٹی بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا تو انھوں نے مسکرا کر کندھے اچکائے۔
    ٹھیک ہے بڑے صاحب ! جو آپ مناسب سمجھیں۔ میں تو آپ کے حکم کا غلام ہوں۔ میں نے کوشش کی کہ میری اندرونی خوشی کے تاثرات میرے چہرے پر نہ آئیں۔
    اور میری ایک آخری شرط بھی ہے جسے تم میری درخواست بھی سمجھ سکتے ہو۔
    حارث کو معاف کر دو۔۔! حارث ایک جذباتی ٹین ایج بچہ ہے۔ وہ میرا بھتیجا ہے اور مجھے بہت عزیز ہے۔ کبھی اس سے بدلہ لینے کا خیال دل میں مت لان ا۔۔ اسی میں تمہاری اور سب کی بہتری ہے۔
    بڑے صاحب! آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ میں حارث صاحب کو پہلے ہی معاف کر چکا ہوں۔
    چلو ٹھیک ہے۔ بےبی آج رات ہی لندن اپنی نانی اور ماموں کے گھر دو تین ہفتے کے لیے جا رہی ہے۔ اس کا پروگرام تو کچھ دن بعد کا تھا لیکن میں نے اس کی آج رات کی ہی ٹکٹ کروا دی ہے۔ تم بھی اپنا سامان پیک کر کے میرے کلفٹن والے فلیٹ میں چلے جاؤ۔ اب تمہارا یہاں رہنا مناسب نہیں۔ کل تمہارے پاس میرا ایک شخص آئے گا جو تمہارا ارجنٹ پاسپورٹ بنوا دے گا۔ تم اگلے دس دن میں ان شاءاللہ ابوظہبی میں ہوگے۔ بڑے صاحب نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
    بےبی تمہیں میرے کسی فیصلے پر کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟
    بابا! ہم پہلے ہی آپ سے بہت شرمندہ ہیں اور گلٹی فیل کر رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم نے آپ کو بہت دکھ پہنچایا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ ہماری اور الیاس کی بہتری کے لیے ہی کر رہے ہیں۔
    اپنے کوارٹر میں آ کر میں نے اپنا سامان پیک کیا مگر روانہ نہیں ہوا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے رات دس بجے ائیرپورٹ کے لیے نکلنا تھا۔ میں انھیں آخری بار دیکھنا چاہتا تھا کہ نہ جانے اب کب ملاقات ہو۔

    دس بجے بنگلے کے پورچ میں سیٹھ صاحب کی مرسیڈیز آ کر رکی۔ کالی شلوار قمیض کے نیچے جوگرز پہنے اور اپنی رائفل گلے میں لٹکائے ولی خان بھی آس پاس ہی گھوم رہا تھا۔ کچھ دیر بعد چھوٹی بیگم صاحبہ اور بڑے صاحب بنگلے کے اندرونی حصے سے باہر آئے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے گھٹنوں تک سفید رنگ کی بڑی خوبصورت فراک پہن رکھی تھی جبکہ دونوں بازو چوڑیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ میں نے اس سے پہلے کبھی انھیں اتنے اہتمام سے میک اپ کیے اور تیار ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
    شاید یہ تیاری میرے لیے تھی۔ میرا دل بے اختیار زور سے دھڑکا۔ میں اندھیرے میں کوارٹر کے دروازے کے پیچھے کھڑا تھا۔ انھوں نے کار میں بیٹھنے سے پہلے میرے کوارٹر کی طرف دیکھ کر شرما کر ہاتھ ہلایا۔ جانے انھیں کیسے معلوم پڑ گیا کہ میں دروازے کے پیچھے کھڑا ہوں۔۔
    ولی خان ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بڑے صاحب اور چھوٹی بیگم صاحبہ کے بیٹھتے ہی کار روانہ ہو گئی۔
    اس کے چند منٹ بعد ہی میں بھی اپنا بیگ کندھے سے لٹکائے، گیٹ پر کھڑے گارڈز سے سلام دعا کرتے ہوئے بنگلے سے نکل آیا۔ رکشہ لینے کے لیے مجھے کچھ دور تک پیدل چلنا پڑا۔ سیٹھ صاحب نے پچاس ہزار سے بھی زائد رقم میری جیب میں ڈال دی تھی۔ میں رکشہ میں بیٹھا سیٹھ صاحب کی باتوں پر غور کرتا رہا۔ سیٹھ صاحب نے بظاہر بڑی ہوشیاری سے مجھے چھوٹی بیگم صاحبہ سے دور ہٹا دیا تھا۔ انھیں یقیناً مجھ پر ذرا سا بھی اعتبار و اعتماد نہیں رہا تھا۔ اس لیے نہ صرف انھوں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو لندن بھیج دیا تھا بلکہ ان کی واپسی سے پہلے مجھے ابوظبہی روانہ کرنے کے انتظامات بھی کر دیے تھے۔ انھوں نے یہ سب انتہائی غیر محسوس انداز میں کیا تھا۔ میں جتنا بڑے صاحب کی معاملہ فہمی اور فراست کا قائل ہوتا جا رہا تھا، اتنا ہی ان سے مزید خوفزدہ اور مرعوب ہوتا جا رہا تھا۔

    کلفٹن کا فلیٹ بہت شاندار تھا۔ اگلے کچھ دن میں میرا پاسپورٹ اور ابوظہبی کا ویزہ بھی آ گیا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ سے فون پر دو تین بار چند منٹ کے لیے بات ہوئی مگر میں ان کو اپنے خدشات سے آگاہ نہ کر پایا۔ وہ اپنے بابا سے کافی خوش تھیں اور ہم دونوں کے مستقبل کے لیے کافی پرجوش بھی۔
    ابوظہبی کے لیے میری فلیٹ رات دو بجے کی تھی۔ میں رات دس بجے کے قریب تیاری مکمل کر کے فلیٹ سے نکلنے ہی والا تھا کہ فلیٹ کی کھڑکی سے ولی خان کو دیکھا۔ یہ فلیٹ چوتھی منزل پر تھا۔ اس کی چند کھڑکیاں سڑک والی سائیڈ پر بھی کھلتی تھیں۔ ولی خان لیدر کی جیکٹ اور جینز میں ملبوس ایک سپورٹس بائیک پر سوار تھا جو بڑے صاحب نے اسے لے کر دی تھی۔ بڑے صاحب واقعی اپنی ملازموں کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔
    میں نے کمرے کی لائٹ کو بند کیا اور پردے کے پیچھے سے ولی خان کو دیکھنے لگا۔ آج خلاف معمول اس کے گلے میں رائفل نہیں جھول رہی تھی مگر قابل تشویش بات یہی تھی کہ وہ میرے فلیٹ کی طرف ہی متوجہ تھا۔ پھر وہ اپنی مخصوص چال چلتا بلڈنگ کے گیٹ کی طرف آیا۔
    کچھ دیر بعد وہ میرے سامنے بیٹھا تھا۔ ولی خان کی آنکھوں کا رنگ گہرا سبز تھا اور اس کا چہرہ ہر وقت بخار سے تپا ہوا سا محسوس ہوتا تھا۔ اس کی ٹھوڑی اور گالوں پر داڑھی
    کے چند لمبے بال تھے۔
    ام چھوٹا سا تھا جب امارا والد صاب، بڑے صاب پر قربان ہو گیا۔ ماں تو پہلے ہی گزر گیا تھا۔ امارے والد کی لاش خون میں لت پت بنگلے کے صحن میں چارپائی پر پڑا تھا۔ جب بڑے صاب نے امارے سر پر ہاتھ رکھ کر بولاولی فکر نہ کرنا۔ اب ام تمہارا باپ ہے۔ پھر بڑے صاب نے امارا باپ ای نہیں ، ماں بن کر بھی پالا۔ ہمیں اچھے سکول پڑھایا۔ تمہیں اماری شکل دیکھ کر یقین نہیں آئے گا مگر ام کراچی کے سب سے مہنگے کالج کا گریجویٹ ہے۔ دنیا کے چھ زبانیں پَھر پَھر بولتا اے۔ بڑے صاب نے امارا ہر خواہش کا احترام کیا اور اسے پورا کیا۔ تم مانو گے نہیں کہ اس وقت امارے اکاوئنٹ میں جتنا پیسہ ہے، اور شہر میں ہمارے نام پر جتنی جائیدار ہے وہ چھوٹے صاحبوں کے نام پر بھی نہیں ہے۔ بڑا صاب امارا صرف مالک ہی نہیں بلکہ باپ بھی ہے اور اس وقت امارا باپ تم جیسی گندی نسل کی وجہ سے سخت ٹینشن میں ہے۔ بڑے صاب کا ٹینشن ام نہیں دیکھ سکتا۔ خدایا پاک کی قسم ! امارا بس چلے تو تمیں قتل کر کے تمہارے ٹکڑے کر دے۔ حیدر آباد کا ایس ایچ اور سچا تھا۔ تم واقعی نمک حرام ہو۔ جس ٹہنی کا پھل کھاتا ہے اسی کی جڑیں کاٹتا ہے۔
    ولی خان غصے سے کھول رہا تھا اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ مجھے شدید خطرے کا احساس ہوا۔
    بڑا صاب اپنے سگے بیٹوں سے پرشانی چھپا لیتا ہے مگر اپنا دل امارے سامنے کھول دیتا ہے۔ امارا بس نہیں چلتا کہ اس کی پرشانی کیسے دور کرے۔ ام نے خود پر بہت جبر کیا مگر آج خود کو روک نہیں پایا۔ یہ گن دیکھ رہے ہو؟ اب یہ تومارے اور امارے درمیان پھسلہ کرے گا۔ ام دونوں میں سے یہاں سے ایک ہی زندہ واپس جائے گا۔ ولی خان نے جیکٹ کے نیچے سے ماوزر نکال کر میز کے اوپر رکھ دیا۔
    الیاس خان ! تمہارے پاس دو آپشن ہیں۔
    نمبر ایک، اپنی قیمت بول۔ کیا چاہیے تمیں ایک کروڑ، دو کروڑ، دس کروڑ ؟؟ پچاس کروڑ تو ام اپنے پلے سے دے سکتا ہے۔ اپنی قیمت لے۔ اس طلاق نامے پر سائن کر اور دفعہ ہو جا۔ دوبارہ کبھی امارے سامنے مت آنا ورنہ تمہیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔
    دوسرا آپشن یہ ہے کہ اگر مرد کا بچہ ہے اور حلال اولاد ہے تو یہ ماؤزر تمہارے سامنے پڑا ہے اور اس کے میگزین میں گیارہ گولیاں ہیں۔ ساری کی ساری امارے سینے میں اتار دے۔ تیسرا کوئی آپشن نہیں ہے تمہارے پاس۔
    پتہ نہیں زندگی میرے ساتھ کیا چوہے بلی کا کھیل کھیل رہی تھی۔ جب کبھی میں منزل پر پہنچنے لگتا تو ایک ڈیڈ اینڈ سامنے آ جاتا اور لگتا کہ اب میں بچ نہیں پاؤں گا۔ پھر مقدر یاوری کرتا اور میں عروج کی طرف سفر کرنے ہی لگتا تھا کہ دوبارہ بگولے میرے پاؤں پکڑ لیتے۔
    اگر میں کہوں کہ مجھے تمہارے دونوں آپشن قبول نہیں ہیں، تو؟؟ میں نے صوفے کی ٹیک سے پشت لگا کر عزم سے کہا۔ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مرنا ہی ہے تو عزت سے مروں گا، کسی کی دھمکی دھونس میں نہیں آؤں گا۔
    پھر امارے پاس بھی دو ہی آپشن ہے۔ پہلا تجھے قتل کر کے چلا جائے۔ دوسرا حارث صاب کو فون کر کے تمہارے نکاح اور لوکیشن کے بارے میں بتا دے۔ باقی حارث صاب جانے اور تم جانے۔! ولی خان نے بھی صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر پھیل کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
    ولی خان تم سے جو ہوتا ہے کرلو۔۔۔!! میں لائبہ بی بی کو طلاق نہیں دوں گا۔
    میرے لہجے کی دلیری اور عزم نے ولی خان کو چونکا دیا۔ وہ بے اختیار مسکرایا۔ اس نے ماؤزر اٹھا کر بیلٹ کے نیچے اڑسا۔ طلاق کے کاغذات رول کر کے جیکٹ کی جیب میں ڈالے اور کھڑا ہو گیا۔
    مرد کا بچہ اے توم بھی۔۔۔ ام یہی دیکھنا چاہتا تھا کہ تم زندگی کے کسی موڑ پر ڈر کر چھوٹی بیگم صاحبہ کو چھوڑ تو نہیں دے گا۔ یہ کہہ کر ولی خان تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا فلیٹ سے نکل گیا۔

    کچھ دیر بعد میں ٹیکسی میں ائیرپورٹ کی طرف جا رہا تھا۔ مجھے یہ تو اندازہ تھا کہ ولی خان تیز آدمی ہے مگر وہ اتنا عیار اور اتنا بڑا اداکار بھی ہے، اس کا اندازہ نہیں تھا۔ میں یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہا کہ یہ سٹنٹ ولی خان نے اپنے طور پر کھیلا ہے یا اس کے پیچھے سیٹھ صاحب ہیں۔ یہ سخت نفسیاتی قسم کا بھرپور وار تھا جس سے میں بمشکل بچا تھا۔ میرے خدشات و تفکرات میں اضافہ ہو چکا تھا۔ ابوظہبی پہنچ کر میں مکمل طور پر بڑے صاحب کے رحم و کرم پر ہوتا۔ اگر وہ چاہتے تو میں بآسانی کسی حادثے یا مشکل میں گرفتار ہو سکتا تھا۔
    ابوظبہی ائیر پورٹ پر مجھے بڑے صاحب کی کنسٹرکشن کمپنی کے مینیجر نے ریسیو کیا۔ اس کا نام زکریا تھا۔ زکریا بہت کھلا ڈھلا اور خوش باش بندہ تھا۔ اس نے میرے ساتھ بہت تعاون کیا اور ہر جگہ میری راہنمائی کی۔ اگلے دن اس نے مجھے کمپنی کے ہیڈ آفس اور آس پاس چلنے والے پروجیکٹس کی سائٹس کا معائنہ کروایا۔ میری رہائش کا بندوبست ایک معقول فلیٹ میں کیا گیا تھا۔ ڈرائیونگ لائسنس بن جانے کے بعد مجھے ایک ٹیوٹا لیکسس کار بھی عنایت کر دی گئی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا ویسے ویسے میرے خدشات دھلتے جا رہے تھے۔ بڑے صاحب نے مجھے آفس کے بجائے ایک بڑی سائٹ کے پروجیکٹ مینیجر کے ساتھ منسلک کر دیا تھا۔ پروجیکٹ مینیجر پاکستان میں سیالکوٹ کا رہائشی تھا اور اس کا نام سہیل علی تھا۔ ایک ہی علاقے کے ہونے اور ڈیوٹی ایک ساتھ ہونے کی وجہ سے ہم جلد ہی ایک دوسرے کے گہرے دوست بن گئے۔
    مجھے یہاں آئے تین ماہ ہو چکے تھے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ سے فون پر دوسرے تیسرے دن چند منٹ بات ہو جاتی تھی۔ ایک تو وہ فطرتاً ہی کم گو تھیں۔ دوسرا انھوں نے مجھ سے بے تکلف ہونے کی کوئی کوشش بھی نہ کی اور نہ ہی میں کوئی ایسی جرات کر پایا تھا حتی کہ میں انھیں چھوٹی بیگم صاحبہ کے نام سے ہی بلاتا تھا مگر انھوں نے مجھے کبھی منع نہیں تھا کیا اور نہ ہی خود کو کبھی اصل نام سے بلوانے کی فرامائش کی۔ سہیل کے تعاون کی وجہ سے میں کام کو بڑی تیزی سے سمجھ رہا تھا۔ جلد ہی مجھے ایک نئے کام کا پروجیکٹ مینجر بنا دیا گیا۔

    ایک ویک اینڈ پر میں اور سہیل کار پر یہاں وہاں گھوم رہے تھے۔ سہیل کار ڈرائیو کرتے ہوئے مجھے لے کر ایک شیشہ کلب جا پہنچا۔ ایسی جگہیں میرے لیے نئی نہیں رہی تھیِں۔ ہم اکثر ایسے کلبوں میں آتے جاتے تھے لیکن اس کلب کا ماحول کچھ زیادہ ہی کھلا تھا۔ سٹیج پر نیم برہنہ پاکستانی اور انڈین لڑکیاں ڈانس کر رہی تھیں۔ سہیل نے وہاں سے اپنے ساتھ دو پاکستانی لڑکیوں کو لیا اور میرے ساتھ کار میں ہمارے فلیٹ والی بلڈنگ کی طرف بڑھا۔ میرا اور سہیل کا فلیٹ ساتھ ساتھ ہی تھا۔ وہ پہلے بھی یہ کاروائیاں کرتا رہا تھا مگر آج اس نے مجھے بھی نیم رضا مند کر لیا تھا۔
    اس کے بعد میرا حوصلہ بڑھتا چلا گیا۔ اب یہ ہمارا ہر ویک اینڈ کا معمول بن چکا تھا۔ میں خود کئی ایسی جگہوں سے واقف ہو چکا تھا۔ میں بہت خوش تھا۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ اچانک میری نگرانی میں بننے والی کثیرالمنزلہ عمارت کی ایک چھت گرگئی جس کے نیچے دب کر دو تین مزدور جاں بحق ہو گئے۔ میں اتفاقاً اس دن دبئی گیا ہوا تھا۔ اطلاع ملتے ہی میں فورا واپس پہنچا۔ پولیس موقع پر پہنچ چکی تھی اور اس نے باقاعدہ اپنی تفتیش کا آغاز کر دیا تھا۔ میرا بھی تفصیلی انٹرویو لیا گیا جس کے بعد مجھے شہر نہ چھوڑنے کی ہدایت کی گئی۔ فلیٹ واپس جاتے ہوئے میری چھوٹی بیگم صاحبہ سے فون پر بات ہوئی۔ وہ سخت پریشان تھیں۔ انھیں خدشہ تھا کہ مجھے گرفتار نہ کر لیا جائے۔ انھوں نے مجھے فورا ابوظہبی چھوڑنے کی ہدایت کی۔
    لیکن بیگم صاحبہ ! جب میرا کوئی قصور ہی نہیں ہے تو میں کیوں بھاگوں اور کیا سیٹھ صاحب اس کی اجازت دیں گے ؟
    سیٹھ صاحب سے میری پہلے ہی فون پر بات ہو چکی تھی۔ وہ سخت برہم تھے۔ انھوں نے مجھے سخت سست سنایا اور آگاہ کیا کہ کمپنی پر بھاری جرمانہ ہونے کا قوی خدشہ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کمپنی کا لائسنس ہی معطل کر دیا جائے۔ وہ اس سب کا ذمہ دار مجھے قرار دے رہے تھے۔
    مجھے خطرے کا احساس ہو رہا تھا۔ میں نے فورا ٹکٹ کروائی اور اپنے سامان کی پیکنگ میں مصروف ہوگیا۔ ابھی میں پیکنگ کر ہی رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے ڈور آئی سے دیکھا تو بےاختیار چونک پڑا۔
    باہر بڑے صاحب کا رائٹ ہینڈ اور ذاتی محافظ ولی خان کھڑا تھا۔ میں نے دروازہ کھولا۔
    ولی خان کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ تھی۔ وہ بہت شاندار اور قیمتی سوٹ میں ملبوس تھا۔ میرے پاس سے گزر کر اس نے کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکا اور ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا ہوا فریج کی طرف بڑھا۔ سافٹ ڈرنک کا ٹن پیک نکال کر اس نے بیڈ پر پڑے میرے بیگ کی طرف دیکھا،
    بھاگنے کی تیاری مکمل ہے۔۔۔؟
    ولی خان کو میں نے پہلے بھی دو تین دفعہ اپنی کمپنی کے آفس یا پروجیکٹ سائٹس کے آس پاس دیکھا تھا۔ وہ انگلش و عربی فر فر بولتا تھا۔ وہ اردو بھی بڑے اچھے تلفظ میں بول سکتا تھا مگر جب اسے اپنے آپ کو کہیں ان پڑھ اور جاہل ظاہر کروانا ہوتا تھا، تو وہ پشتو کے لہجے میں توڑ پھوڑ کر اردو بولنے لگتا تھا۔ ابوظبہی میں ہمارا جب بھی ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہوا تو نہ ہی میں نے اسے مخاطب کرنے کی زحمت کی اور نہ ہی اس نے مجھے بلایا۔
    آج اس کا یوں فلیٹ پر آنا کسی خطرے کی نشاندہی کر رہا تھا۔ میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور پیکنگ میں مصروف رہا۔
    تم کہیں بھی بھاگ جاؤ۔ اگر یہ چاہیں تو تمہیں پکڑ کر واپس لے آئیں گے اور کڑی سزا دیں گے۔ ولی خان نے صوفے پر ڈھیر ہوتے ہوئے دوبارہ اشتعال دلایا۔
    یہ میرا مسئلہ ہے۔ تم اپنے کام سے کام رکھو۔! میں نے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے کہا۔
    تم کسی کام سے آئے ہو؟
    ہاں ! کسی کام سے آیا ہوں۔ کچھ تصویریں ہیں میرے پاس، جو تمہیں دکھانا ضروری تھیں۔ اس نے کوٹ اٹھا کر اس کی اندرونی جیب سے ایک لفافہ نکال کر مجھے تھمایا۔
    میں کچھ دیر اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ اور اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔
    پکڑ لو، فکر مت کرو اس میں بم نہیں ہے۔ وہ بے اختیار ہنسا۔
    میں نے اسے زندگی میں پہلی دفعہ ہنستے ہوئے دیکھا تھا۔ میں نے لفافہ تھام کر اس میں موجود تصویریں باہر نکال کر دیکھیں.
    پہلی تصویر دیکھتے ہی میں اس طرح اچھلا جیسے بچھو نے کاٹ لیا ہو۔ تصویریں میرے ہاتھ سے پھسل کر بیڈ پر پھیل گئیں جنہیں میں پھٹی پھٹی
    نظروں سے دیکھ رہا تھا
    (جاری ہے)

    کہانی کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی چوتھی اور آخری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (2) – ریحان اصغر سید

    سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (2) – ریحان اصغر سید

    ریحان اصغر سید میرے سیل فون کی گھنٹی کچھ دیر بجتی رہی۔ پھر بند ہو گئی۔ مجھ پر تشدد روک دیا گیا تھا۔ سر نیچے جھکا ہونے کی وجہ سے یہ دیکھنے سے قاصر تھا کہ مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ اطمینان ہو گیا تھا کہ ان لوگوں کا فی الحال مجھے فوری طور پر قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ورنہ اتنی دور لے جانے کی کیا ضرورت تھی۔ وہاں آس پاس ہر طرف ویرانہ تھا۔ سیل فون کی گھنٹی دوبارہ بجی۔ ڈرائیور نے فون والے کو ایک فصیح گالی سے نوازا، پھر کچھ کھٹ پھٹ کی آواز سنائی دی۔ اس کے بعد دوبارہ کال نہیں آئی۔ شاید بیٹری کھول کے سم پھینک دی گئی تھی۔ کچھ دیر بعد کار ایک جگہ جا کے رکی۔ کھینچ کر مجھے نیچے اتارا گیا۔ میں لڑکھڑا کے گرتے گرتے بچا، ٹانگیں اور پیر سن ہو چکے تھے اور کمر نے سیدھا ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک اہلکار نے میرے سر کو اپنے ہاتھ سے اس طرح دبائے رکھا کہ میری ٹھوڑی میرے سینے میں دھنس رہی تھی، اس لیے میں تھانے کا نام دیکھنے سا قاصر رہا، گھیسٹتے ہوئے مجھے ایک برآمدے سے گزار کر ایک سیلن زدہ سے کمرے میں لے جایا گیا جہاں ایک زرد رنگ کا بلب بیمار سی روشنی پھیلا رہا تھا۔ ٹیبل کے پیچھے ایک بھاری بھر کم ایس ائی ٹیبل پر ٹانگیں رکھے سگریٹ پینے میں مگن تھا۔ ایک نوعمر سا لڑکا اس کے پیچھے کھڑا اس کے کندھے دبا رہا تھا۔ ایس آئی نے اطمینان سے سگریٹ ختم کی، اپنی ٹانگیں میز سے نیچے اتاریں اور پیچھے کھڑے لڑکے کو ہاتھ کے اشارے سے وہاں سے جانے کا کہا۔ کچھ دیر تک میرا آنکھوں سے ایکسرے کرنے کے بعد اس نے ساتھ کھڑے اہلکار سے آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ پوچھا تو اس نے جیب سےمیرا بٹوا اور دوسرا سامان نکال کے اس کے سامنے رکھ دیا۔ ایس آئی نے نیا سگریٹ سلگایا اور باریک بینی سے میرے شناحتی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس کا معائنہ شروع کیا۔
    اس کی کچھ خاطر تواضع کی ہے؟ ایس ائی نے میری طرف دیکھے بغیر کانسٹیبل سے پوچھا۔
    ہاں جی! کار میں کچھ چائے پانی پلایا ہے، ابھی ڈرائنگ روم میں لے جا کے کچھ ٹہل سیوا کرتے ہیں، اس۔۔۔۔کی۔
    کیوں بے! تجھے شرم نہیں آئی جس تھالی میں کھاتے ہو اسی میں گند ڈالتے ہوئے؟ بڑا ہی حرامی نسل کا انسان ہے یار تو، تو۔ تجھے تو آری سے کاٹ دینا چاہیے۔ کب سے چلا رہا ہے یہ عشق معشوقی کا چکر؟
    ایس آئی نے ٹانگیں دوبارہ ٹیبل پر چڑھاتے ہوئے کہا۔
    سر! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ سیٹھ صاحب کے مجھ پر جتنے احسان ہیں، میں مر کے بھی وہ نہیں اتار سکتا۔ حارث صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں اس گھر سے دور رہوں تو میں یہ نوکری بلکہ یہ شہر چھوڑنے کو تیار ہوں۔ میں فوراً گھر چلا جاؤں گا، پھر کبھی واپس نہیں لوٹوں گا۔
    سر میں بہت غریب آدمی ہوں۔ آپ مجھ پر رحم کریں میں ساری عمر آپ کو دعائیں دوں گا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میری آواز گلوگیر ہوگئی اور میں نے ہاتھ جوڑ دیے۔
    ابھی تو آیا ہے تو، ابھی سے جانے کی بات تو نہ کر یار ۔۔ لگتا ہے تجھے بیگم صاحبہ کی یاد آ رہی ہے۔ ایسی بات ہے نا؟؟
    ایسی کوئی بات نہیں ہے سرکار! مجھے مکے مدینے کی قسم، مجھے سوہنے رب دی قسم میں جھوٹ بولوں تو کافر ہو کے مروں۔ میں بے اختیار پھوٹ پھوٹ کے رو پڑا۔
    اس کو لے جاؤ اور ننگا کر کے الٹا لٹکا کے مارو اور تب تک مارو جب تک یہ ساری بات نہیں بتاتا اور اس سے پہلے جو یہ کرتوت کرتا رہا ہے، وہ بھی اس سے پوچھو۔ اور ظہیرے کو میرے پاس بھیج دو۔
    مجھے گھیسٹ کے ایک عقوبت خانے میں لے جایا گیا۔ یہاں بھی زرد رنگ کا بلب جل رہا تھا۔ کمرا سیلن اور عجیب سی بو سے بھرا ہوا تھا۔ دیواروں اور فرش پر جابجا خون کے داغ نظر آرہے تھے۔ میں مسلسل اپنی بےگناہی کی دہائی دے رہا تھا لیکن ان پولیس والوں پر میری کسی التجا کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔
    میں آخری دفعہ پوچھ رہا ہوں کہ الف سے لے کر یے تک ساری کہانی مجھے سنا دے، ورنہ میں تجھے کوئی نئی کہانی بنانے کے قابل بھی نہیں چھوڑوں گا۔ شادی کے قابل بھی نہیں رہے گا تو۔ بڑی بڑی مونچھوں والے کانسٹیبل نے اپنے ریچھ جیسے ہاتھ سے میرے دونوں گالوں کو پچکا کے پوچھا۔ میں درد کی شدت سے تڑپ رہا تھا لیکن اس کی جناتی گرفت سے نکلنا میرے لیے ناممکن تھا۔
    یہ اس طرح نہیں مانے گا۔ اس کے کپڑے اتار کے لٹکاؤ اسے۔ تھوڑی دیر بعد میں لباس فطری میں چھت کے ساتھ لگے کنڈے کے ساتھ بندھی رسی کے سہارے الٹا لٹک رہا تھا۔ کچھ گھنٹے پہلے میں نے اس چیز کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ایک وحشی سا اہلکار پوری طاقت سے مجھے تار اور چمڑے کے چھتر سے مار رہا تھا۔ کھال ادھڑ رہی تھی لیکن اب میری چیخوں میں درد سے زیادہ غصہ اور بغاوت تھی۔ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ مجھے موقع ملا تو میں انھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔
    اچانک تشدد روک دیا گیا۔ میں نے آنکھیں کھول کے دیکھیں، کریہہ چہرے والا کانسٹیبل میرے کندھے اور بازو کا بغور معائنہ کر رہا تھا۔ اس نے میرے جسم کو روشنی کی طرف گھما کے گولیوں کے زخموں کے نشان غور سے دیکھے.
    یہ گولیوں کے نشان ہیں؟ وہ چونکا ہوا لگ رہا تھا۔
    ہاں یہ گولیوں کے نشان ہیں۔ میں نے نقاہت سے کہا۔
    کچھ دیر بعد میں دوبارہ کپڑوں میں ملبوس ایس آئی کے سامنے کھڑا تھا۔
    میرے سامنے کوئی ہینگی پھینگی نہ مارنا۔ بیشتر کہانی کا مجھے پہلے ہی پتہ ہے۔ سیدھے اور آسان لفظوں میں مجھے بتاؤ۔ اس دن مغل پورہ کی نہر اور بھٹہ چوک پر کیا ہوا تھا؟
    ایس آئی نے دو سگریٹ سلگا کے ایک مجھے پیش کیا اور ایک اپنے ہونٹوں میں دبا لیا۔ میں نے جلدی جلدی دو تین کش لگا کے اپنے اعصاب کو پرسکون اور خیالات کو مجتمع کیا، اور بولنا شروع کر دیا۔
    یہ اکتوبر کی ایک شام تھی۔ ہم آٹھ پنجاب رینجرز کے جوان کیپٹن لودھی کی قیادت میں شالیمار کے قریب مغل پورہ کی نہر پر کھڑے اکا دکا اور مشکوک گاڑیوں کو چیک کر رہے تھے۔ اچانک ایک سفید رنگ کی کار بڑی تیزی سے زگ زیگ انداز میں دوڑتی ہوئی سڑک پر نمودار ہوئی۔ کار میں کم سے کم چار لوگ تھے بعد میں پتہ چلا پانچ تھے۔ ہمارے روکنے پر بھی وہ نہیں رکے۔ جی تھری کے ٹریگر پر میری انگلی مچل کے رہ گئی لیکن لودھی نے سڑک پر رش کی وجہ سے فائرنگ کی اجازت نہیں دی۔ اب ہماری ٹیوٹا ہائی لکس طوفانی رفتار سے سفید کار کے پیچھے دوڑ رہی تھی۔ کار کا رخ شہر سے باہر کی طرف تھا۔ ائیرپورٹ چوک کے قریب ہم نے ان پر پہلا فائر کیا۔ اگلے ایک کلومیڑ میں ہم ان کی کار ناکارہ کر چکے تھے۔ جوابی فائرنگ کرتے ہوئے وہ ایک کھلے میدان میں موجود کھڈوں اور مٹی کے چھوٹے ٹیلوں کے پیچھے اوٹ لینے میں کامیاب ہو گئے تھے جبکہ ہم ان کے مقابلے میں کھلے میں تھے۔ دوسرا ایڈونٹیج انھیں اے کے فورٹی سیون کا تھا۔ ان کو پاس ایمونیشن کی کوئی کمی بھی نہیں تھی، ہم ایک فائر کرتے تو وہ جواباً پوری میگزین ہم پر خالی کر دیتے۔ حالات مخدوش لگ رہے تھے، میرے پاس صرف بارہ میگزین کا ایمونیشن تھا، ہر میگزین میں بیس گولیاں تھیں۔ قانون کے مطابق مجھے چار میگزین کا ایمونیشن ہر قیمت پر بچا کے رکھنا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ دہشت گرد اندھیرے اور ایمونیشن کی برتری کا فائدہ اُٹھا کے بھاگنے میں کامیاب رہیں گے۔ خوشی قسمتی سے ہم ائیر پورٹ کے ریڈار کی رینج میں آ گئے تھے، ہماری گاڑی کے وائرلیس سے ریڈار آپریٹر ہماری راہنمائی کر رہا تھا۔ ہم دو جوان غیر محسوس انداز میں آگے بڑھ رہے تھے۔ ہم ابھی اس گڑھے سے دو سو گز دور ہی ہوں گے کہ وہ ہماری موجودگی سے آگاہ ہو گئے۔ ایک طویل برسٹ فائر ہوا۔ میں نے بروقت خود کو زمین پر گرا لیا۔ لیکن مرزا علی کو کئی گولیاں لگ چکی تھیں، اب خاموشی یا واپسی کا مطلب بےبسی کی موت تھا، میں فائر کرتا ہوا گڑھے کی طرف دوڑا۔ دوبارہ فائرنگ کے لیے سر بلند کرتے ہوئے دو دہشت گرد میرا نشانہ بنے اور وہ الٹ کے گڑھے میں گرے۔ جوابی فائرنگ سے پہلے میں ان کے گڑھے کے نزدیک ایک گڑھے میں خود کو گرانے میں کامیاب رہا۔ لیکن کچھ تاخیر ہو چکی تھی، کئی انگارے میرے کندھوں اور بازوؤں میں گھس چکے تھے۔ چند لمحوں میں ہی میری گن اور ہاتھ خون سے تر بتر ہو گئے لیکن اب صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی آ چکی تھی۔ دو ساتھیوں کی موت کے بعد دہشت گردوں کے حوصلے پست ہو چکے تھے۔ دوسری طرف ہم ان کے بالکل سر پر پہنچ گئے تھے، اس لیے جب انھیں ہتھیار پھینکے کا حکم دیا گیا تو تھوڑی سی گالی گلوچ اور مذاکرات کے بعد وہ آمادہ ہو گئے۔ جیسے ہی وہ ہتھیار پھینک کے گڑھے سے نکلے، اپنی تربیت کے مطابق ہم نے مزید دو کو ٹانگوں پر گولیاں مار کے پنکچر کیا اور انھیں گرفتار کر لیا۔ مجھے اور علی کو فوراً ہاسپٹل پہنچایا گیا، لیکن ہماری بدقسمتی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ گرفتار ہونے والے دہشت گرد ایک وفاقی وزیر کے ذاتی سیکورٹی گارڈ تھے جو کہیں کارروائی ڈال کے آ رہے تھے اور مرنے والوں میں اس کا کوئی بھتیجا یا بھانجا بھی شامل تھا۔ کیپٹن لودھی سمیت ہمیں فوراً معطل کر دیا گیا۔ وفاقی وزیر ہمیں اور خاص طور پر مجھے اور علی کو پھانسی کے پھندے پر دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ ہم پر جعلی مقابلہ اور اقدام قتل کی ایف آئی آر کٹوانے کے لیے بڑا پر عزم تھا لیکن کیپٹن لودھی کی کاٹھی بھی تگڑی تھی، اسی دوران ڈرامائی طور پر جمہوری حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ لیکن کیپٹن لودھی کے سوا ہم سب دوبارہ کبھی بحال نہیں ہو سکے۔ چھ مہینے بعد ہمیں مستقل جبری رخصتی کا پروانہ مل گیا۔
    میرا قصہ مکمل کرنے تک ایس آئی جس کا نام بعد میں باسط ابڑو پتہ چلا، کے تاثرات اور رویہ بدل چکا تھا۔ اس نے مجھے کرسی پر بٹھایا، سگریٹ کی پوری ڈبی اور ماچس عنایت کی اور چائے بھی پلائی۔ حارث اس کے کسی جگری کا دوست تھا، جو پیکٹ مجھے دے کر کے بھیجا گیا تھا، اس میں باسط کے لیے نذرانہ موجود تھا۔ ایس آئی ابڑو نے مجھے اپنی مشکل بتاتے ہوئے کہا کہ تمھیں سیٹھ صاحب اور ان کے خاندان کی سیاسی اور سماجی حیثیت اور طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ تم ابھی تک زندہ ہو تو اسے حارث کی رحم دلی ہی سمجھو۔ تمھارے لیے یہی بہتر ہے کہ اپنی منحوس شکل لے کے کہیں دور دفع ہو جاؤ اور دوبارہ کبھی چھوٹی بیگم صاحبہ سے رابطہ نہ کرنا۔
    حارث نے مجھے تمھارے ہاتھ پیر توڑ کر معذور کرنے کا کہا تھا۔ تم ابھی دو چار دن ادھر ہی رہو گے، میں دیکھتا ہوں کہ میں تمھارے لیے کیا کر سکتا ہوں لیکن زیادہ بہتری کی امید نہ رکھنا۔
    تھوڑی دیر بعد مجھے حوالات میں بند کر دیا گیا۔ یہاں دوسرے کئی ملزم بھی چادریں اوڑھے لیٹے ہوئے تھے، میں بھی ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کے ٹانگیں سیدھی کر کے بیٹھ گیا۔ پچھلے چوبیس گھنٹے بہت ہنگامہ خیز رہے تھے، میں کئی دفعہ پٹا، جسم کا جوڑ جوڑ درد کر رہا تھا، لیکن آنکھیں بند ہوتے ہی ایک ملیح چہرہ میرے تصور میں ابھر آیا۔ دل سے بے اختیار ایک ہوک سی اٹھی۔ کیا میں زندگی میں دوبارہ چھوٹی بیگم صاحبہ کو دیکھ پاؤں گا؟ میں نے دکھ سے سوچا۔
    اچھا ہے، میں ان سے اتنا دور چلا جاؤں کہ میرے منحوس وجود کی تہمت بھی ان کے پاکیزہ وجود تک نہ پہنچ سکے۔ خیالوں کی وادیوں میں بھٹکتے ہوئے کچھ دیر کے لیے میری آنکھ لگتی، پھر درد کی ٹیسیں اور مستقبل کے خدشات مجھے جگا دیتے۔ شاید رات کا آخری پہر چل رہا تھا کہ تھانے کے باہرایک گاڑی کے ٹائر سخت بریک سے چرچرائے۔ پھر زور سے دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔ رات کی خاموشی کی وجہ سے آوازیں صاف سنائی دے رہیں تھیں۔ خوابیدہ تھانے کے ماحول میں اچانک ہی ہلچل سے مچ گئی تھی۔ ایک آواز سنتے ہی میرے سر پر گویا حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔
    اگر الیاس یہاں پر نہیں ہیں تو باہر کھڑی میری گاڑی یہاں تمھارا باپ لایا ہے؟ یو ایڈیٹ۔ تمھیں پتہ ہے تم کس سے بات کر رہے ہو؟ میں تمھارا خون پی جاؤں گی۔
    شیرنی کی طرح دھاڑتی یہ آواز چھوٹی بیگم صاحبہ کے علاوہ اور کس کی ہو سکتی تھی۔
    اس آواز نے میرے نیم مردہ جسم میں نئی جان ڈال دی تھی۔ میں لپک کے حوالات کی سلاخوں کے پاس پہنچا اور باہر دیکھنے کی کوشش کی۔ برآمدے کے بلب کی ہلکی سی روشنی اس راہدری میں پڑ رہی تھی جہاں سب انسپکڑ کا کمرہ تھا لیکن حوالات اس زوایے پر تھی کہ مجھے وہ کمرہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کی آمد نے جہاں میرے اندر نیا ولولہ اور ہمت پیدا کر دی تھی وہاں میں کسی المیے اور انہونی کے خدشات سے لرز رہا تھا۔ سب انسپکٹر کی آنکھ میں سور کا بال تھا، چھوٹی بیگم صاحبہ کو رات کے اس پہر تھانے میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ کمرے سے مسلسل تیز تیز بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اچانک ایک ایسی بھاری بھر کم اور گونج دار آواز سنائی دی جسے سن کے میرے سارے خدشات دھل گئے۔
    ”اوے حرامخور، چھووٹی بیگم صاحب کے سامنے اپنی آواز نیچھی رکوو۔ ورنہ خدایا پاکا کی قسم ام پورا میگزین تیرے تھوبڑے پر خالی کر دے گا۔پھر تیرا ماں بھی تیرا شناحت نہیں کر پائے گا۔“
    یہ ولی خان تھا، سیٹھ صاحب کا ذاتی محافظ۔ اس کا باپ بھتہ خوروں کی طرف سے کیے گئے قاتلانہ حملے میں سیٹھ صاحب کو بچاتے ہوئے جاں بحق ہو گیا تھا۔ ولی خان کا بچپن اور لڑکپن سیٹھ صاحب کے بنگلے میں ہی گزرا تھا۔ یہ وفادار قبائلی سیٹھ صاحب کی خاطر جان دینے اور جان لینے کا حوصلہ رکھتا تھا۔
    لگ رہا تھا کہ سب انسپکڑ کے کمرے میں صورتحال کشیدہ ہو چکی ہے، کچھ عجب نہیں ولی خان نے پولیس والوں کو گن پوائنٹ پر لے رکھا ہو۔
    تھوڑی دیر بعد حوالات کی طرف آتے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میری ساری حسیات آنکھوں میں سمٹ آئیں تھیں۔ میں نے انتہائی دراز قد چھوٹی بیگم صاحبہ کو باسط ابڑو کے ساتھ حوالات کی طرف آتے دیکھا۔ پیچھے پیچھے ولی خان تھا۔ کلاشنکوف بیلٹ کے ساتھ اس کے سینے پر جھول رہی تھی اور وہ کسی جنگلی جانور کی طرح چوکنا نظر آ رہا تھا۔ بیگم صاحبہ نے نیلی جینز کے اوپر گہرے سبز رنگ کی ڈھیلی سی جرسی سی پہن رکھی تھی جس کی آستینیں فولڈ کی گئی تھیں، پیروں میں جاگر پہنے اور بالوں کا جوڑا بنائے ہوئے وہ ہمیشہ سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھیں۔ باسط ابڑو کا چہرہ ستا ہوا تھا۔ وہ کافی دبنگ بندہ تھا لیکن اس وقت وہ کچھ پریشان نظر آتا تھا۔ بیگم صاحبہ حوالات کے پیچھے سے مجھے بغور دیکھتی رہیں۔ ان کی آنکھیں سرخ اور چہرے کی رنگت سفید لٹھے کی طرح ہو رہی تھی۔
    تالہ کھولو!
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے باسط ابڑو کو حکم دیا!
    باسط ابڑو کے چہرے پر روایتی ہٹ دھرمی نمودار ہو گئی۔
    بی بی جی! آپ بچوں جسی باتیں کرتی ہیں۔ دوبارہ عرض کر رہا ہوں کہ جس آدمی کو آپ چھوڑنے کا کہہ رہی ہیں، اسے آج رات میرے لوگوں نے نیشنل ہائی وے پر منشیات سمگل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔ آپ کی ذاتی کار بھی اس مکروہ دھندے میں استعمال ہو رہی تھی، لیکن میں نے ایف آئی آر صرف آپ کے ڈرائیور کے خلاف کاٹی ہے۔ صبح ہونے والی ہے، صبح ہم اسے عدالت میں پیش کر کے اس کا جسمانی ریمانڈ لے لیں گے۔ اگر آپ کا بالکل گزارہ نہیں ہو رہا اس کے بغیر تو صبح اپنے وکیل کے ساتھ عدالت تشریف لے آئیے گا، اور ضمانت کی درخوست دائر کر دیجیے گا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
    لُک آفیسر۔ تمھیں اندازہ بھی نہیں ہے کہ تم نے خود کو کس مصبیت میں پھنسا لیا ہے۔ تم نے لاک اپ میں ایک ایسے شخص کو بند کر رکھا ہے جس نے کوئی جرم نہیں کیا۔ ہم جانتے ہیں تمھارے پاس اس کی گرفتاری کا کوئی ریکارڈ ہے نہ ہی ابھی اس پر کوئی ایف آئی آر کٹی ہے۔ یہ سیدھا سادہ اغوا اور حبس بےجا کا کیس ہے۔ اس کے بعد تم لوگ الیاس پر بدترین تشدد کے بھی مرتکب ہو چکے ہو۔ ہم تم لوگوں کو عدالت میں گھیسٹ لیں گے۔ پھر تم ناک سے لکیریں بھی نکالو گے تو معاف نہیں کریں گے۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ کے لہجے میں ان کا روایتی تحکم اور شان بےنیازی تھی۔
    سب انسپکڑ باسط ابڑو کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ بی بی جی میں آپ کے والد محترم کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ بڑے معقول اور شریف النفس انسان ہیں۔ سچ پوچھیے تو ان کے کردار کی حیا ہی مجھے مارے جا رہی ہے ورنہ آپ جس طرح ایک پاگل گن مین کے ذریعے مجھے دھمکانے کی کوشش کر رہی ہیں اور کارسرکار میں مداخلت کر رہی ہیں، اگر کوئی اور ایسا کرتا تو میں اسے بھی اس حوالات میں بند کر کے ایک ایف آئی آر اس پر بھی کاٹ دیتا۔ آپ ایک نجیب خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، ایک دو ٹکے کے سمگلر ڈرائیور کے پیچھے خود کو اتنا نہ گرائیے۔ آپ کو اس سے بہت بہتر مرد مل جائیں گے۔
    چھوٹی بیگم صاحب کے چہرے پر غصے کے شعلے لپکے۔ ولی خان کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا تھا، اس نے رائفل کو کاک کر کے برسٹ موڈ پر کیا، اور اسے باسط ابڑو کے چہرے پر تان لیا۔ اگر بیگم صاحبہ ایک لمحہ کی بھی تاخیر کرتیں تو باسط کی کہانی وہیں ختم ہو جاتی۔ بیگم صاحبہ نے ہاتھ سے ولی کی رائفل کی نال کو پیچھے ہٹایا اور اسے ڈانٹ کے پیچھے دھکا دیا۔ صورتحال ایک دم سے دوبارہ سخت کشیدہ ہوگئی تھی۔ پولیس والوں نے بھی بیگم صاحبہ اور ولی کی طرف بندوقیں تان لیں تھیں۔ ولی غصے سے بل کھا رہا تھا اور پشتو میں باسط کو گالیاں اور قتل کرنے کا عزم دہرا رہا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے اسے بمشکل شانت کیا۔
    تم ایسے نہیں مانو گے۔ ہم تمھارا دوسرا بندوبست کرتے ہیں۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے اپنی جینز کی سائیڈ پاکٹ سے اپنا سیل فون نکالتے ہوئے کہا۔
    سرکار! ہم تو صرف اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ آپ پڑھے لکھے لوگ ہیں، آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ ہم قانون کے مطابق اپنا کام کر رہے ہیں، پر آپ سیٹھ لوگ قانون کو موم کی ناک اور قانون کے رکھوالوں کو دلا سمجھتے ہیں۔ آپ کے گن مین نے دو دفعہ ایک تھانے میں ڈیوٹی پر موجود وردی میں ملبوس پولیس آفیسر پر گن تانی ہے، یہ بذات خود ایک نہایت سنگین جرم ہے لیکن میں بات کو بڑھانا نہیں چاہتا، آپ سے یہی گزارش ہے کہ گھر لوٹ جائیے، صبح وکیل کے ساتھ عدالت آ جائیے گا۔
    سب انسپکڑ باسط ابڑو اب پوری طرح سنبھل چکا تھا، اور چھوٹی بیگم صاحبہ کو وقتی طور پر وہاں سے ٹالنے کی فکر میں تھا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور فون پر بات کرتی رہیں۔ ان کے کال بند کرنے کے کچھ سیکنڈ بعد ہی باسط کے سیل فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ باسط نے سیل نکال کے نمبر دیکھا اور بے اختیار بیگم صاحب پر نظر ڈال کے فون کال ریسو کر لی۔
    جی سر!
    جی وہ ادھر ہی ہیں۔
    سر وہ۔۔۔
    جی سر۔۔
    ایف آئی آر تو ابھی نہیں کاٹی سر۔
    جی لیکن۔۔۔
    معافی چاہتا ہوں جناب۔
    باسط ابڑو بات کرتے ہوئے ہم سے دور چلا گیا اور کچھ دیر بعد وہ ماتھے سے پسینہ پونچھتا ہوا لوٹا۔ وہ سخت پریشان لگ رہا تھا۔
    لگ رہا تھا کہ باسط نے اوور کانفیڈنس میں ایک سنگین غلطی کر دی تھی۔ اس نے مجھے اٹھوا تو لیا تھا لیکن کسی قسم کی قانونی کارروائی نہیں کی تھی، اور میری کار کو بھی منظر سے ہٹانا بھول گیا تھا۔ شاید اسے یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ فدوی بالکل بے یار و مددگار اور لاوارث ہے، وہ بےفکر ہو کر اس کی ہڈیاں پسلیاں توڑتا رہے لیکن اللہ کی تقدیر ہمیشہ ظالموں کی تدبیر پر غالب آ جاتی ہے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے اپنے انکل ایس ایس پی صاحب کو کال کی تھی، اور باسط ابڑو سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے نہ صرف معطل کروا کے دم لیں گی بلکہ اسے بھی ایسے ہی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔ مجھے باہر نکال کے باسط ابڑو اب میرے اور چھوٹی بیگم صاحبہ کے پیروں میں لوٹ رہا تھا، اور معافیاں مانگ رہا تھا۔ اس کی ساری اکڑ اور کروفر ہوا ہو چکا تھا۔ بیگم صاحبہ نے اس شرط پر اسے معاف کرنے کا وعدہ کیا کہ وہ سیٹھ صاحب کے سامنے حارث کے خلاف گواہی دے گا۔ تھوڑی سی سوچ بچار کے بعد وہ آمادہ ہو گیا۔ سب انسپکڑ کے کمرے سے نکل کر ہم احاطے میں پہنچے تو فجر کی اذانیں شروع ہو چکی تھیں۔ مجھے ابھی پتہ چلا تھا کہ میں حیدر آباد شہر میں ہوں۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے ولی خان کو لینڈ کروزر لے کر کے بنگلے پر پہنچنے کی ہدایت کی اور مجھے لے کر اپنی ہونڈا میں آ بیٹھیں۔ ولی خان کے چہرے پر تذبذب کے ِآثار تھے، وہ ہماری کار کے قریب کھڑا ہونٹ کاٹتا ہوا مجھے دیکھتا رہا۔
    کیا بات ہے ولی؟ کیوں کھڑے ہو؟ ہم نے کہا نہ گھر جاؤ!
    بیگم صاحب، ام آپ کو لےکر آیا ہے، اب اکیلا کیسا چلا جاوے؟ سیٹھ صاحب کو کیا جواب دے گا؟
    ولی خان نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
    آپ فکر نہ کرو ولی۔۔ ہم بابا کے جاگنے سے پہلے واپس آ جائیں گے، ہمیں کچھ کام ہے وہ کر کے آئیں گے۔ اور یاد رکھنا یہاں جو کچھ ہوا، وہ بابا کو بتانا ہے، جب ہم آپ کو بابا کے سامنے بلائیں گے۔ اس حارث کو چھوڑنا نہیں ہم نے۔
    آج اس نے الیاس کو اٹھوایا ہے، کل کو آپ کو اٹھوا دے گا۔ ہی بیکیم ٹوٹلی میڈ، ۔
    اوکے؟
    جی میڈم۔
    ولی خان گاڑی لے کر چلا تو گیا لیکن وہ مطمئن نہیں لگ رہا تھا۔ جب ہم نیشنل ہائے وے پر آئے تو صبح کی روشنی پھیل چکی تھی۔ گاڑی بیگم صاحبہ ڈرائیو کر رہی تھیں، میں ان کے ساتھ سیٹ پر بیٹھا تھا۔
    اعصاب کو مطیع اور مفلوج کر دینے والی ایک بھینی بھینی خوشبو نے مسلسل مجھے اپنی لیپٹ میں لے رکھا تھا۔ المناک رات کا اتنا روشن سویرا ہوگا، یہ تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کے چہرے کو حزن اور اداسی نے اپنی لیپٹ میں لے رکھا تھا۔ انھوں نے کئی دفعہ مجھ سے معذرت کی اور مجھے بتایا کہ اس واقعہ نے ان کے دل اور اعصاب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ انھیں لگ رہا تھا کہ میری زندگی شدید خطرات میں گھر گئی ہے۔ حارث کے والد سیٹھ صاحب کے کئی کاموں میں بزنس پارٹنر بھی تھے۔ آثار یہی تھے کہ ایک معمولی ملازم کے لیے اس رشتے داری کو قربان نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ ملازم کی جان کی قربانی ہی دے دی جائے۔ وہ مسلسل کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی حتمی فیصلے کے ساحل پر لنگر انداز ہونا چاہتی ہیں لیکن نامعلوم اندیشوں کے بھنور انھیں ڈبو رہے ہیں۔
    ناشتہ ہم نے سڑک کے کنارے آباد ایک وی آئی پی ریسٹورنٹ میں کیا۔ اب کراچی صرف پچاس کلومیٹر دور رہ گیا تھا۔ ناشتہ ختم کر کے چھوٹی بیگم صاحبہ نے کافی کا مگ اٹھاتے ہوئے مجھے گہری نظروں سے دیکھا، ایک گہری سانس لی، اور پھر بڑبڑائیں ۔۔ او کے لٹس فنش اٹ!
    پھر تھوڑا سا کھنکار کے، سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ نظریں جھکا کے بولیں،
    الیاس کیا آپ ہمیں اپنے نکاح میں قبول کر لیں گے؟
    میرے سر پر تو گویا کسی نے بم پھوڑ دیا تھا۔ میں حیرت سے اچھل پڑا۔

    (یہ سچی داستان ابھی جاری ہے)

    کہانی کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی چوتھی اور آخری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (1) – ریحان اصغر سید

    سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (1) – ریحان اصغر سید

    ریحان اصغر سید میرا نام الیاس خان ہے۔ میں سیالکوٹ کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوا۔ میرا سارا بچپن عسرت اور تنگدستی میں گزرا۔ میں ساتویں کلاس میں تھا جب میرے باپ نے مجھے سکول سے چھڑوا کے کام سیکھنے کے لیے ایک ورکشاپ میں بیٹھا دیا۔ میں سانولی رنگت، عام نقوش، اور اوسط قامت کا ویسا ہی ایک معمولی انسان تھا جو مزدوری کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ شادی کرتے ہیں، بچے پالتے ہیں، پھر ایک دن مسائل، غربت اور بیماریوں سے لڑتے لڑتے مر جاتے ہیں۔ میرے کچھ کزنز کراچی میں بسلسلہ روزگار مقیم تھے۔ میں بھی ایک دن ان کے پاس چلا گیا اور انھوں نے مجھے ایک سیٹھ صاحب کے پاس ڈرائیور کی نوکری دلوا دی۔ سیٹھ صاحب بہت مالدار اور اچھے آدمی تھے۔ انھوں نے مجھے کبھی ملازم نہیں سمجھا، سیٹھ صاحب کے سارے بیٹے بھی بہت شریف النفس اور غریب پرور انسان تھے۔ میں کچھ مہینے سیٹھ صاحب کی ذاتی کار چلاتا رہا، پھر سیٹھ صاحب کو گھر کے لیے ایک با اعتماد آدمی کی ضرورت تھی تو انھوں نے گھر والی گاڑی میرے حوالے کر دی ،اور خود اپنی گاڑی کے لیے دوسرے ڈرائیور کا بندوبست کر لیا۔ اب میری ذمہ داریوں کی نوعیت بدل گئی تھی۔ اب میں صبح اُٹھ کے نئی نکور ہنڈا سوک کو دھوتا چمکاتا اور چھوٹی بیگم صاحبہ کا انتظار شروع کر دیتا۔ سیٹھ صاحب کی اکلوتی بیٹی لائبہ عرف چھوٹی بیگم صاحبہ یونیورسٹی میں پڑھتی تھیں۔ ان کو یونیورسٹی لے کر جانا اور واپس لانا میرے فرائض منصبی میں شامل تھا۔
    ……………………………………………
    میں حسب معمول گاڑی کے پاس کھڑا چھوٹی بیگم صاحبہ کا انتظار کر رہا تھا، جیسے ہی وہ آئیں، میں نے نظریں جھکا کے مؤدب انداز میں کار کا پچھلا دروازہ کھولا اور وہ نزاکت سے اپنا بیگ سنبھالتے ہوئے کار میں بیٹھ گئیں۔ ایک مدھم لیکن موڈ کو خوشگوار کر دینے والی خوشبو کا جھونکا میری ناک سے ٹکرایا۔ میں گھوم کے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
    الیاس! آج ہمیں یونی سے بارہ بجے ہی پک کرنا، ہم بازار جائیں گے، کچھ شاپنگ کرنی ہے۔
    جی بیگم صاحبہ! میں نے مودب انداز میں جواب دیا، اور بیک ویو مرر میں انھیں دیکھا۔ اپنے سن گلاسز کو ہاتھ میں پکڑے جانے وہ کن سوچوں میں گم تھیں۔ جب وہ کچھ سوچتی تھیں تو ان کی بڑی بڑی آنکھوں کے تحیر پر بےاختیار پیار آ جاتا تھا۔ آپ نے زیبا بختیار کو جوانی میں دیکھا ہے؟ بس وہ کچھ ویسی ہی تھیں، بڑی بڑی خمار آلود آنکھیں، شہابی رنگت اور غیر معمولی دارز قامت، مں چپکے چپکے انھیں بیک ویو مرر میں دیکھتا رہا۔ مقررہ وقت پر میں نے انھیں یونیورسٹی سے لیا اور ایک قریبی مارکیٹ کا رخ کیا، وہاں بیگم صاحبہ نے کچھ شاپنگ کی اور پھر مجھے لے کر ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں آ بیٹھیں۔
    میں نے زندگی میں کبھی اتنے شاندار ریسٹورنٹ کو اندر سے نہیں دیکھا تھا، میں بیگم صاحبہ کے سامنے والی کرسی پر پریشان اور بوکھلایا سا بیٹھا تھا۔
    میں نے سوچا آج الیاس کو بہت پیدل گھمایا ہے، اس لیے ایک چھوٹی سی کھانے کی دعوت تو بنتی ہے باس۔۔کیا کھائیں گے آپ؟ بیگم صاحبہ نے سن گلاسز کو آنکھوں سے اتار کر سر پر لگاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
    میں بے اختیار ان کے موتیوں کی طرح جڑے دانت دیکھتا رہا۔
    کیا بات ہے یار، ریلیکس ہو کے بیٹھیں، آپ تو کرسی پر یوں ٹکے ہیں جیسے موقع ملتے ہی بھاگ لیں گے۔ بیگم صاحبہ نے مینو پکڑ کے بےتکلفی اور مصنوعی خفگی سے کہا۔ میرے منع کرنے کے باوجود انھیں نے میرے لیے پزا اور کولڈ ڈرنک منگوا لی۔ میں جھجکتا رہا اور ان کو دیکھتا رہا، وہ بے نیازی سے کھانا کھاتے ہوئے مجھ سے یوں ہلکی پھلکی باتیں کرتی رہیں جیسے میں ان کا بچپن کا دوست ہوں۔ اس سے پہلے کہ ہم اُٹھتے، ایک دارز قامت خوبصورت لڑکے نے ہماری ٹیبل پر جھک کے، اسے بجا کے ہمیں چونکا دیا۔
    ہائے حارث! بیگم صاحبہ نے خوش دلی سے کہا۔
    یہ بندر کون ہے؟ حارث نے حیرت اور غصے سے مجھے سر سے لے کر پاؤں تک دیکھا۔
    کیا بکواس کر رہے ہو؟ یہ الیاس ہیں، ہماری گاڑی ڈرائیو کرتے ہیں۔
    واٹ دی ہیل آف دس؟
    ڈرائیور ہے تو باہر گاڑی میں جا کے بیٹھے۔ لائبہ تمھیں شرم نہیں آتی، ان چوڑھے چماروں کو اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے۔ لائبہ پورا ہال تمھیں گھور رہا ہے، تمھیں نظر نہیں آ رہا کہ یہ نمونہ کتنا ان فٹ ہے اس آٹماسفیر میں۔ اگر اسے کچھ کھلانا ہی تھا تو گاڑی میں بھجوا دیتی۔ حارث کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مجھے کچا چبا جائے۔
    شٹ اپ حارث! شٹ اپ۔
    ہمیں کس کو اپنے ساتھ بٹھانا ہے، کس کو نہیں، اس کا فیصلہ ہم خود کریں گے۔ ہو دی ہیل آف یو؟ مائنڈ یور اون بزنس۔
    بیگم صاحب کے چہرے پر آگ جل رہی تھی انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اٹھایا اور حارث کو دھکا دے کر باہر کی طرف چل پڑیں، حارث کے چہرے کے نقوش غصے اور نفرت سے بگڑ رہے تھے۔
    یہ ہمارا کزن ہے. ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہے، اس لیے بہت بگڑ گیا ہے۔ آئی ایم سو سوری الیاس! آپ کو ہماری وجہ سے اتنی انسلٹ برداشت کرنی پڑی، آپ بے فکر رہیں، ہم جا کے بابا سے اس کی شکایت کریں گے۔
    بیگم صاحبہ نے گاڑی میں بیٹھتے ہی معذرت کی۔
    مجھے شرمندہ نہ کیجیے بیگم صاحبہ! آپ کے کزن صاحب بالکل درست کہہ رہے تھے۔ میں واقعی ہی اس قابل نہیں ہوں کہ آپ کے ساتھ بیٹھ سکوں۔
    آپ چپ کر جائیے۔ ہمارا موڈ پہلے ہی حارث نے خراب کر رکھا ہے، ہمیں زیادہ بہتر پتہ ہے آپ کس قابل ہیں۔
    ……………………………………………
    گھر پہنچ کر میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو اتارا اور اپنے کواٹر میں آ کر چارپائی پر لیٹ گیا۔ آج کے سارے دن کے مناظر کی فلم میری آنکھوں میں چلنے لگی۔ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میں بیگم صاحبہ کے اتنے پاس ان کے روبرو بیٹھوں گا اور وہ مجھ سے اتنی باتیں کریں گی۔ میں اتنے سرور میں تھا کہ مجھے حارث کے ہاتھوں ہوئی بےعزتی بھی بےمعنی لگ رہی تھی۔ جس طرح بیگم صاحبہ نے میرا دفاع کیا، مجھے ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور ہاتھ پکڑ کر گاڑی تک لائیں، وہ منظر کئی دن تک میں جاگتی آنکھوں سے بھی چشم تصور سے دیکھتا رہا۔ اس دن کے بعد سے بیگم صاحبہ مجھ سے کافی بےتکلفی سے بات کرتیں اور کبھی کار کی اگلی سیٹ پر میرے ساتھ بھی بیٹھ جاتیں۔ بیگم صاحبہ بہت کم بولتی تھیں لیکن جب بھی بولتیں تو ان کی آواز میں ایک خاص قسم کا تحکم اور رعب ہوتا تھا۔ ان کا اپنے لیے ہم کا صیغہ استعمال کرنا مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ بیگم صاحبہ جب بھی شاپنگ کرتیں، کچھ نہ کچھ میرے لیے بھی لے لیتیں۔ اس لیے اب میرے جوتے، کپڑے، پرفیومز وغیرہ بھی برانڈڈ ہوتے تھے۔ لیکن میں پھر بھی ان کے ساتھ چلتا ہوا ان کا خادم اور غلام ہی لگتا تھا۔
    کچھ دن بعد یونیورسٹی سے واپسی پر ہم ٹریفک جام میں پھنس گئے۔ یہ نومبر کے اوائل تھے، موسم خوشگوار تھا، بیگم صاحبہ نے کار کا آدھا شیشہ نیچے کر رکھا تھا، کار میں نصرت صاحب کی غزلیں دھیمی آواز میں چل رہی تھیں۔ ایک موٹر سائیکل پر سوار تین لڑکے ہماری کار کی بائیں جانب رکے ہوئے تھے، اپنے حلیے اور انداز و اطوار سے وہ انتہائی اوباش اور بگڑے ہوئے لگ رہےتھے، انھوں نے پچھلی نشست پر بیٹھی بیگم صاحب کے بالکل قریب موٹر سائیکل روک رکھا تھا، اور انھیں گھورنے کے علاوہ آپس میں ذومعنی باتیں بھی کر رہےتھے۔ مجھے خون اپنے سر کو چڑھتا ہوا محسوس ہوا، غیر ارادی طور پر میرے اعصاب تن گئے، میں نے اپنے سائیڈ والے دروازے پر لگے کنڑول پینل سے سارے شیشے پورے اوپر چڑھا دیے۔ جس پر باہر ایک زوردار قہقہ پڑا۔ تینوں میں سے ایک لڑکے نے بےباکی سے بیگم صاحبہ والے شیشے کو انگلی سے بجایا اور نہایت بے ہودہ بات کی۔ میں نہیں جانتا کہ مجھے اس وقت کیا ہوا تھا، شاد یہ وہی کفیت تھی جس میں انسان سے غیر ارادی قتل ہو جاتے ہیں، میں نیچے اترا اور گھوم کر موٹرسائکیل کے پاس پہنچا، نوجوانوں کو شاید مجھ سے ایسے کسی ردعمل کی توقع نہیں تھی، اس لیے وہ بدستور مجھے تمسخر اڑانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے فقرے کس رہے تھے۔ میرا نشانہ شیشہ بجانے والا لڑکا تھا۔ اس کا چہرہ کتنا نفرت انگیز ہے۔ اس کے چہرے کو کچل دینا چاہیے۔ میں نے اسے موٹر سائیکل سے گھیسٹ کے اتارتے ہوئے سوچا۔ میرے اندر اس وقت جناتی طاقت آ چکی تھی، مجھے ان تین لڑکوں نے بہت پیٹا، میں لہو لہان ہو گیا لیکن میں نے اپنے شکار کو نہیں چھوڑا، مکے مار مار کے میں نے اس کے چہرے کا بھرتا بنا دیا، میرے اور اس کے سارے کپڑے پھٹ گئے، وہ نیم جان ہو چکا تھا لیکن میرا غصہ سرد نہیں ہو رہا تھا۔ آخرکار جب بیگم صاحبہ نے مجھے چلاتے ہوئے جنجھوڑا تو مجھے ہوش آیا۔

    اسے چھوڑ دیں الیاس! یہ مر جائے گا، فار گاڈ سیک چھوڑ دیں اسے۔ کیا ہو گیا ہے آپ کو؟ بیگم صاحبہ روتے ہوئے چلا رہی تھیں، میری حالت ایسی تھی جیسے چابی والے کھلونے کی چابی اچانک ختم ہو جائے اور اس کے اعضا جہاں تھے وہی معلق ہو جائیں۔ بیگم صاحبہ نے مجھے بازو سے پکڑ کے کار میں بٹھایا اور خود ڈرائیو کرتے ہوئے مجھے ہاسپٹل لے گئیں۔ سارا رستہ وہ مجھے مجھے دیکھ دیکھ کے روتی رہیں، ان کی آنکھیں اور ناک کی نوک ٹماٹر کی طرح سرخ ہو رہی تھیں، میں اس وقت بڑی بےخودی اور بےباکی سے انھیں دیکھ رہا تھا۔ وارفتگی اور لاپروائی کی ایک لہر نے مجھے اپنی لیپٹ میں لے رکھا تھا۔ مرہم پٹی کے بعد ہم گھر پہنچے تو شام کو میری پیشی سیٹھ صاحب کے سامنے ہوئی، مجھے زیادہ تشویش حارث کو ان کے پاس بیٹھے دیکھ کر ہوئی۔ سیٹھ صاحب نے میرے منہ سے سارے واقعہ کی تفصیل سنی اور بیچ میں سوال بھی پوچھتے رہے۔ میں نے اس سے پہلے سیٹھ صاحب کو کبھی اتنا سنجیدہ نہیں دیکھا تھا۔ انھوں نے نہ ہی مجھے بیٹھنے کے لیے کہا اور نہ ہی میری چوٹوں کے بابت کچھ دریافت کیا۔ کچھ دیر بعد میں واپس اپنے کواٹر میں تھا۔ ابھی میں چارپائی پر لیٹا ہی تھا کہ میں نے تنک مزاج اور دارز قامت حارث کو اپنے کواٹر میں داخل ہوتے دیکھا۔
    مزے کر رہے ہو استاد!
    حارث نے سگریٹ سلگا کے مجھے گہری نظروں سے دیکھا۔ میں اُٹھ کے بیٹھ گیا تھا۔ حارث کپڑوں کی الماری کھول کے میرے کپڑے دیکھ رہا تھا، اس نے ایک دو قمیضوں کے کالر الٹ کے ان کے برانڈ دیکھے، پھر مڑ کے مجھے دیکھا۔ اس کے چہرے کی درشتی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اب وہ جھک کے الماری میں پڑے میرے جوتے دیکھ رہا تھا۔ او گوچی! اس نے ہونٹ سکوڑے اور پرفیوم کی بوتل کو دیوار پر دے مارا۔ ایک زوردار ِآواز پیدا ہوئی اور بوتل ٹوٹ گئی۔ سارے کمرے میں خوشبو اور شیشے پھیل گئے۔ حارث تیز قدموں سے چلتا ہوا آیا اور کرسی گھیسٹ کے بالکل میرے قریب بیٹھ گیا، میرے اور اس کے چہرے میں بمشکل چند انچ کا فاصلہ تھا، کچھ دیر ہم دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے ،پھر میں نے نظریں جھکا لیں۔ یہ سب تم نے خود خریدا ہے؟
    حارث نے سگریٹ کا کش لے کر اسی ہاتھ سے الماری کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے دیکھا اس کا ہاتھ پتلا اور انگلیاں باریک اور لمبی ہیں۔
    نہیں، یہ بیگم صاحبہ نے لے کر دیا ہے۔
    میں نے دھیمے انداز میں جواب دیا۔
    کس حثیت سے؟
    ایک ملازم کی حثیت سے!
    آپ غلط سوچ رہے ہیں صاحب۔ میں نے حارث کی آنکھوں میں دیکھا، جہاں حسد اور غصے کی آگ جل رہی تھی۔
    اچھا! یعنی ہمارے ٹکڑوں پر پلنے والا ایک ان پڑھ جاہل دیہاتی مجھے بتائے گا کہ مجھے کیا سوچنا ہے۔ شکل دیکھی ہے تم نے اپنی؟ یاجوج ماجوج لگتے ہو بلڈی فول۔
    مجھے لگا کہ وہ مجھ پر جھپٹے گا لیکن اس نے اپنے جذبات پر قابو پا لیا، کچھ دیر وہ سگریٹ کے کش لیتا رہا اور مجھے انگلش میں گالیوں سے نوازتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کسی کو سیل پر کال ملائی اور اس سے انگلش میں بات کی جو میں بالکل نہیں سمجھ سکا۔
    ہری اپ ہری اپ۔ جلدی اٹھو، اس نے خود اٹھتے ہوئے مجھے بھی اٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ شوز پہنو، جلدی تمھیں حیدر آباد جانا ہے۔
    لیکن صاحب؟؟
    لیکن ویکن کچھ نہیں، ڈارمے نہ کرو، اچھے بھلے ہو تم، کچھ نہیں ہوا تمھیں۔
    میرے جسم کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا لیکن میں حارث کی خوشنودی کے لیے تیار ہوگیا ورنہ مجھے خطرہ تھا کہ وہ مجھے نوکری سے ہی نہ نکلوا دے۔ حارث نے مجھے ایک پیکٹ دیا اور اسے فوراً حیدر آباد اس کے دوست کے گھر پہنچانے کا حکم سنا دیا۔ میں چھوٹی بیگم صاحبہ یا سیٹھ صاحب کو بتا کے جانا چاہتا تھا لیکن حارث کا موڈ دیکھتے ہوئے چپ ہی رہا۔ کچھ دیر بعد میری گاڑی نیشنل ہائی وے پر حیدر آباد کی طرف اڑی جا رہی تھی، مجھے صبح تک واپس آ کے بیگم صاحبہ کو یونیورسٹی بھی لے کر جانا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں حیدر آباد پہنچتا، چھوٹی بیگم صاحبہ کی کال آ گئی۔
    ہم سونے لگے تھے، سوچا آپ کا حال احوال پوچھ لیں۔ اب کسی طبعیت ہے؟ سو تو نہیں گئے تھے آپ؟
    بیگم صاحبہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ میں حیدر آباد جا رہا ہوں ۔میں نے کار کی رفتار آہستہ کرتے ہوئے کہا۔
    حیدر آباد؟ کیوں؟ بابا ساتھ ہیں؟
    نہیں بیگم صاحبہ! مجھے حارث صاحب نے بھیجا ہے، ان کا کچھ سامان ہے جو یہاں دینا ہے۔ ابھی پولیس ناکہ آ رہا ہے، میں آپ کو بعد میں کال کرتا ہوں۔
    واٹ ار یو ٹاکنگ مین؟ کون حارث؟ وہ کون ہوتا ہے آپ کو کہیں بھیجنے والا؟ آپ نے حالت دیکھی ہے اپنی؟ فوراً واپس آئیے، جہنم میں جائے حارث۔ حسب توقع بیگم صاحبہ کا پارہ ہائی ہو گیا تھا۔ میری کار ناکے پر پہنچ چکی تھی، میں نے کال بند کر کے سیل سائیڈ سیٹ پر رکھا اور شیشہ نیچے کیا۔ میرا شناحتی کارڈ دیکھتے ہی پولیس والوں نے مجھے اتار لیا، ایسا لگتا تھا کہ وہ میرا ہی انتظار کر رہے تھے۔ انھوں نے مجھے میری ہی کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھایا اور دو پولیس والے میری سائیڈوں پر بیٹھ گئے۔ وہ میرے ہر سوال کا جواب مکوں اور تھپڑوں کی شکل میں دے رہے تھے۔ ایک پولیس والا کار چلا رہا تھا۔ میں سخت خوفزدہ ہو چکا تھا۔ پولیس والوں نے مجھے سیٹ پر اس طرح جھکا کے بیٹھایا کہ میرے دونوں ہاتھ ان کے پیروں کے نیچے کچلے جار ہے تھے۔ اور میرا سر کار کے فرش کو چھو رہا تھا۔ انھوں نے میری کمر ننگی کی اور اسے چمڑے کے لتر سے مارنا شروع کر دیا۔ میری چیخوں سے گاڑی گونج رہی تھی لیکن وہ بڑے پروفیشنل انداز میں بڑی بے حسی سے مجھے مار رہے تھے۔ اتنی دیر میں کار کی اگلی سیٹ پر پڑا میرا فون بجا۔ یقیناً یہ چھوٹی بیگم صاحبہ کی کال تھی۔

    (اس سچی داستان کا کا بقیہ حصہ اگلی قسط میں ملاحظہ کیجیے)

    کہانی کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی چوتھی اور آخری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • وزیراعظم صاحب کے نام کھلا خط – ریحان اصغر سید

    وزیراعظم صاحب کے نام کھلا خط – ریحان اصغر سید

    ریحان اصغر سید جناب وزیراعظم صاحب
    السلام علیکم !
    ہم بہت عرصے سے آپ سے گفتگو کرنا چاہتے تھے۔ بہت سی باتیں ہیں جو آپ کے گوش گزار کرنی ہیں، بہت سے شکوے شکایتیں ہیں جو آپ تک پہنچانی ہیں، کچھ سوال ہیں جو آپ سے پوچھنے ہیں اور کچھ تجاویز ہیں جو آپ کو پیش کرنی ہیں۔

    افسوس اس بات کا ہے کہ آج فائیو-جی 5G کے اس دور میں بھی ہمیں آپ سے ہم کلام ہونے کے لیے خط کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ آپ کے حواریوں نے آپ کو اتنے بلند قلعوں کے پیچھے قید کر رکھا ہے کہ جہاں تک نہ ہماری رسائی ہو پاتی ہے اور نہ ہی آپ کو ہماری آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ اس لیے آج یہ خط ہم آپ کو اس امید پر لکھ رہے ہیں کہ شاید آپ کا کوئی پی اے اسے پرنٹ کر کے دیگر اخباری تراشوں اور خبروں کے ساتھ آپ کی ٹیبل پر رکھ دے اور شائد آپ تک ہمارے جذبات پہنچ جائیں۔

    جناب وزیراعظم!
    آپ نے بطور کاروباری شخص کے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ آپ کے محترم والد مرحوم ایک سیلف میڈ انسان تھے۔ آپ پنجاب کے وزیر خزانہ رہے، پھر وزیراعلی منتخب ہوئے۔ بعدازاں پاکستان کی عوام نے آپ کو تین بار اپنے ووٹوں کی طاقت سے آپ کو وزیراعظم بنوایا۔ نیز آپ اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔ آپ مختلف سیاسی اتحادوں اور تحریکوں کا حصہ رہے۔ آپ کو مختلف آرمی چیفس اور اعلی عدلیہ کے ججوں سمیت ہر طرح کی بیوروکریسی کے ساتھ کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ کچھ سال چھوڑ کر عملاً آپ کی پارٹی پچھلے تیس سال سے پنجاب میں برسر اقتدار ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ اس وقت پاکستان کے سب سے زیادہ تجربہ کار اور زیرک سیاستدان ہیں ، تو یہ قطعاً غلط نہ ہوگا۔ اس لیے جب ہم آپ سے مخاطب ہیں تو ہم ایک سسٹم سے، ایک سیاسی جماعت، ایک نظریے سے مخاطب ہیں۔ اس حکومت کے بطور وزیراعظم بے شک آپ کو تیین سال ہوئے ہیں لیکن آپ عملاً پچھلے تیس سال سے پنجاب کی حد تک برسر اقتدار ہیں جو کہ پاکستان کی کل آبادی کا تقریبا نصف ہے۔ اس لیے آپ پاکستان بالخصوص پنجاب کی ہر خوبی و خامی کے براہ راست یا بالواسطہ طور پر ذمہ دار تصور کیے جاتے ہیں۔

    جنابِ وزیراعظم!
    ہم روزانہ ٹی وی و اخبارات پر آپ کی اور پنجاب حکومت کی اعلی کارکردگی کے تعریفی اشتہارات دیکھتے ہیں۔ ان کروڑوں اربوں کے اشتہارات کی ادائیگی اس غریب اور مقروض ملک کے قومی خزانے سے کی جاتی ہے۔ ہماری حکومتوں کی اعلی کارکردگی کو جانچنے کے لیے کچھ دیگر ادارے بھی ہیں جو فی سبیل اللہ ہمیں یہ خدمات فراہم کرتے ہیں۔ جن کی رپورٹس کا لب لباب یہ ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم خوراک کی خطرناک حد تک کمی کا شکار ممالک میں سرفہرست دس ممالک میں شامل ہیں۔ خطرناک موسمی تبدیلیوں اور مستقبل میں شدید خشک سالی اور پانی کی کمی کا شکار ہونے والے پہلے دس ممالک میں بھی ہمارا ذکر کیا جا رہا ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ بدامن اور غیر محفوظ پہلے دس ممالک میں کی فہرست میں بھی اپنی پوزیشن پکی ہے۔ کرپشن، بیڈ گورئنس اور ٹیکس کولیکشن میں بھی ہم آخری نمبروں پر ہیں۔ ہمارا لٹریسی ریٹ اور نظام تعلیم شرمناک ہے۔ انتالیس فیصد عوام خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ سرکاری سکولوں اور کالجوں کی حالت ابتر ہے۔ طبعی سہولیات برائے نام اور ناقص ہیں۔ ملک کی بیشتر عوام بیماریوں کی بنیاد بننے والا آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کا لوئر جوڈیشنری نظام دنیا کے کرپٹ ترین اور سست ترین نظاموں میں شامل ہے۔
    پاکستان اور بالخصوص پنجاب پولیس کا تاثر انتہائی کرپٹ اور ظالم ادارے کا ہے۔ سرکاری محکمے رشوت خوری اور بدنظمی کا گڑھ بن چکے ہیں جہاں روزانہ عوام کی تذلیل کی جاتی ہے اور انھیں رشوت دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ٹریفک کے مسائل، گندگی، پولوشن، اشیاء خورد و نوش میں ملاوٹ، گرانی، بے روزگاری، میرٹ کا قتل عام، اقربا پروری سمیت درجنوں مسائل ہیں جن سے روازنہ ایک عام آدمی کا پالا پڑتا ہے اور وہ اس نظام کی بربادی کی دعا کرتا ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا جب اخبارات میں مالی پرشانیوں سے تنگ آئے ہوئے عوام کی خودکشیوں کی خبریں نہیں چھپتی۔ کہیں ماں بچوں سمیت نہر میں کود جاتی ہے تو کہیں باپ بچوں کو زہر کھلا کر مار دیتا ہے اور کہیں کوئی اپنے بچے بیچنے سڑکوں پر آ جاتا ہے۔
    جناب ! ہمارا سوال آپ سے صرف اتنا ہے کہ ان مسائل کو کون حل کرے گا؟ اور ان مسائل کو حل کرنے کے لیے آپ کو مزید کتنے عشرے درکار ہیں؟؟؟ کیونکہ پچھلے آٹھ سال سے مسلسل آپ کے برادر خورد اور آپ کی ہی پارٹی کی پنجاب میں حکومت قائم ہے جبکہ مسائل ہیں کہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ کیا عام آدمی یہ سوچنے میں حق بجانب نہیں کہ آپ کی حکومت ظلم و جبر پر مبنی یہ نظام بدلنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی یا پھر اس کو بدلنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی۔

    جنابِ وزیراعظم !
    2013ء کے عام انتخابات کی الیکشن کمپئین میں آپ نے زرداری حکومت کے احتساب کا نعرہ لگایا تھا ! آپ نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا ! آپ نے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا عظم دکھانا تھا ! آپ نے طاہر لاہوتی کو باعزت رزق کی فراہمی کا مژدہ سنایا تھا۔ وزیراعظم بننے کے بعد آپ نے پہلی تقریر میں فرمایا تھا کہ نہ خود کرپشن کریں گے اور نہ کسی کو کرنے دیں گے۔ آپ نے وفاقی کابینہ کی کارکردگی کو مستقل بنیادوں پر جانچنے اور خراب کارکردگئی والوں کو فارغ کرنے کی بھی نوید سنائی تھی ! آپ نے کہا تھا کہ آپ قومی اداروں کے سربراہوں کی تعیناتی کا ایک جدید اور شفاف طریقہ کار متعین کریں گے۔ آج آپ کی حکومت کو تین سال سے زائد ہو چکے ہیں، جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے میں کیا پیش رفت ہوئی ہے؟؟؟ پنجاب اور مرکز میں آپ کی حکومت ہے، کوئی بھی قابل ذکر سیاسی جماعت اس صوبے کی مخالف نہیں ہے، پھر ہم جان سکتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے میں کیا امر مانع ہے ؟
    لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا اپنا وعدہ پورا کرنے میں حکومت واقعی متحرک نظر آتی ہے لیکن بجلی کے منصوبوں میں کرپشن، ناقص منصوبہ بندی، غلط ترجیہات اور نااہلی کی بازگشت مسلسل سنائی دے رہی ہے۔
    آئی پی پی پیز کو بغیر آڈٹ کے دیے گئے پانچ سو ارب روپے، نندی پور پاور پروجیکٹ، قائداعظم سولر پلانٹ، ساہیوال تھر کول پلانٹ اور قطر ایل این جی معاہدے کے سلسلے میں مکمل تفصیلات عوام کے سامنے کیوں پیش نہیں کی جاتی؟ اب پھر یہ نوید سنائی جا رہی ہے کہ آئی پی پی پیز کا گردشی قرضہ دوبارہ تین سے چار سو ارب تک جا پہنچا ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟؟؟ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کا احتساب کیوں نہیں کیا گیا؟؟؟ ملک پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ ماہر معاشیات پاکستان کے مستقبل کی انتہائی افسوسناک تصویر کشی کر رہے ہیں۔ آخر اتنے بھاری قرضے کیوں لیے جا رہے ہیں، آپ اس معاملے میں قوم کی تشویش کیوں دور نہیں کرتے۔۔؟

    جنابِ وزیر اعظم!
    پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کی بنیادی اکائی تصور کی جاتیں ہیں۔ نہایت افسوس اور دکھ سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ آپ کی جماعت سمیت ہماری بیشتر سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کی بجائے آمریت رائج ہے، یہاں طوعاً و کرہاً انڑا پارٹی الیکشن کروائے بھی جائیں تو وہ خانہ پوری اور مجبوری کے تحت کروائے جاتے ہیں، آپ پیچھلے تین عشرے سے پارٹی کے سربراہ ہیں آپ کے برادر خورد تین دفعہ پنجاب کے وزیر اعلٰی اور آپ تین دفعہ وزیر اعظم منتحب ہو چکے ہیں۔ کیا یہ فرض ہے کہ آپ دونوں بھائیوں کے علاوہ کوئی وزیر اعظم یا وزیر اعلی نہیں بن سکتا؟ اس وجہ سے سیاسی جماعتوں میں ترقی کا پیمانہ قابلیت، صلاحیت، حب الوطنی، محنت و دیانت کی بجائے پارٹی راہنماوں کی ذاتی وفاداری، خوش آمد اور چاپلوسی قرار پا چکا ہے۔ اسی وجہ سے ہی نا اہل اور کمتر صلاحیت کے وزیر مشیر جنم لیتے ہیں۔ جس سے اہل قیادت اور نوجوان نہ صرف سیاست اور سیاست دانوں سے متنفر ہو رہے ہیں بلکہ یہ جمہوریت کے لیے بھی اچھا شگون نہیں ہے۔ کیا سبب ہے کہ امریکہ میں ایک کالا ملک کا صدر بن جاتا ہے لندن میں ایک تارک وطن مسلمان کا بیٹا مئیر منتحب ہو جاتا ہے۔ حتی کے انڈیا میں ایک چائے بیچنے والا سیاسی کارکن ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچ جاتا ہے لیکن اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں نسلی اور موروثی سیاست کا دور ہے کہ ختم ہونا کا نام نہیں لے رہا۔ جناب کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ مریم نواز ،حمزہ شہباز اور دوسرے شاہی خاندان کے افراد کسی قانون و آئین کے تحت امور مملکت میں براہ راست مداخلت کرتے ہیں اور سرکاری اجلاسوں کی صدارت فرماتے ہیں؟ آخر ہر اہم عہدے پر کیوں آپ اپنے خاندان کے اور اپنے ذاتی وفاداروں کو ہی تعینات کرنا چاہتے ہیں؟ اقربا پروری کی کوئی حد ہے بھی یہ نہیں؟

    جنابِ وزیر اعظم!
    آپ کی حکومت بننے سے پہلے عام تاثر یہی تھا کہ جلا وطنی نے آپ پر بہت مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ آپ نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے۔ عام انتحابات کے بعد آپ نے خیبرپختون خواہ اور بلوچستان میں جس طرح دیگر سیاسی جماعتوں کو حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا وہ آپ کی اخلاص اور معاملہ فہمی کا ثبوت تھا۔ آپ عمران خان صاحب کے پاس چل کے گئے آپ نے چار حلقوں میں دھاندلی تحقیقات کا مطالبہ تسلیم کیا، آپ کے وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی کے فلور پر چالیس حلقے کھولنے کی پیشکش کی، پھر کیا سبب ہے کہ اس ایشو کو اتنا سنجیدہ بنا دیا گیا کہ عمران خان صاحب کو مسلسل احتجاج اور دھرنا دینا پڑا، پانامہ لیکسں کے معاملے میں بھی یہی راویت دہرائی گئ، آپ نے ٹی وی پر اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں خود کو تحقیقات کے لیے پیش کرنے کی پیش کش کی پھر اپوزیشن کو اتنا زچ کر دیا کہ وہ احتجاج اور اسلام آباد کو بند کرنے پر تل گئ۔ کیا دھرنوں اور احتجاجوں سے ہونے والے نقصان میں حکومت برابر کی قصوروار نہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ آپ کی پیچھلی دو حکومتوں کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئ، آپ کو معزول کر کے گرفتار کیا گیا اور پھر جلا وطن کر دیا گیا۔ ملڑی اسٹبلشمنٹ سے آپکے تحفظات اور کھنچاو ایک فطری امر ہے۔ بلا شبہ آپ سول بالادستی کے شدید حامی ہیں لیکن کیا یہ اس طرز حکومت سے ممکن ہے جو آپ نے اختیار کر رکھا ہے؟ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ کیا سبب ہے کہ ایک جمہوری ملک میں ایک آرمی چیف ایک منتحب وزیر اعظم سے زیادہ مقبول کس طرح ہو جاتا ہے؟ سول بالادستی اخباروں میں خبریں فیڈ کروانے اور چالبازیوں سے ممکن نہیں اسکے لیے آپ کو گڈ گورنس کے ذریعے ڈلیور کرنا ہو گا۔ قومی ادروں کو سیاسی دباوٴ سے آزاد اور خود مختار بنانا ہو گا۔ قومی مفاد کے لیے ذاتی اور سیاسی مفادات کو قربان کرنا ہو گا ۔ جب تک سیاسی قیادت اپنی اہلیت، دیانت داری اور خلوص ثابت نہیں کرتی طاقت کا کھویا ہوا توازن حاصل کرنا ناممکن ہے۔ آپ سے گزارش ہے تب تک مزید ایڈونچرز سے باز رہیں اور سسٹم کو چلنے دیں۔

    جنابِ وزیراعظم!
    آپ ناصرف ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ آپ بذات خود بھی صوم صلاة کے پابند مسلمان ہیں۔ یہ بات ہمارے آئین میں بھی لکھی ہے اور بطور مسلمان یہ ہمارا ایمان بھی ہے کہ اصل حاکم اعلیٰ اور اختیارت کا منبع الله تعالی کی ذات ہے۔ بطور حکمران آپ کی ذمہ داری ایک نائب اور عوام کے خادم کی ہے۔ ایک مسلمان حکمران کے لیے حکمرانی کا بوجھ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کیوں کے ہمارے سامنے نبی کریمﷺ سے لیکر خلفا راشدین کے طرز حکمرانی کی روشن مثالیں موجود ہیں۔ جناب ہم آپ سے یہ نہیں چاہتے کہ آپ سایئکل پر سفر کیا کریں یا آپ پیوند لگے کپڑے پہنے کریں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ خود اپنا محاسبہ کریں اور اپنے طرز حکمرانی پر غور کریں۔ زندگئ موت الله کے ہاتھ میں ہے۔ اپنے گرد یہ سیکورٹی کی فیصیلں کم کریں عوام سے رابطے بڑھائیں۔ الله نے آپ کو بہت عزت، دولت شہرت دی ہے آپ نے ایک بھرپور زندگئی گزاری ہے کیا اب آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ اب قوم کو ریڑن کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ خدارا اپنا سارا تجربہ اور مہارت اس ملک اور اسکی عوام کی بہتری اور فلاح کے لیے صرف کر دیجیے۔ ،ماڈل ٹاوٴن میں جو چودہ مرد و زن بے دردی سے قتل کر دیے گئے۔ انکی تحقیق و تفتیش کے لیے ہر ممکن کوشش کیجے۔ ایسا نہ ہو انکے پس ماندگان کی آہیں آپ کے اقتدار اور دولت کے سورج کو لے ڈوبیں۔ اگر ان کو اس دنیا میں انصاف نہ ملا تو اگلی دنیا میں تو ملے گا ہی۔ ہر ذی نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اور اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہے۔ میدان حساب میں نہ بیٹے کام آتے ہیں نہ مال دولت اور نہ وزیر مشیر۔
    سکندر جب دنیا سے گیا تھا تو اسکے دونوں ہاتھ خالی تھے۔
    ہمیں اور کچھ بھی نہیں کہنا جناب۔
    والسلام۔
    آپ کی مجبور اور سسکتی رعایا

  • انکل عمران خان کے نام کھلا خط – ریحان اصغر سید

    انکل عمران خان کے نام کھلا خط – ریحان اصغر سید

    ریحان اصغر سید پیارے عمران انکل،
    السلام علیکم،
    میں بہت مہینوں سے آپ کو خط لکھنا چاہتا تھا لیکن ہر دفعہ اپنی کم مائیگی اور آپ کی مصروفیت کا خیال آڑے آ جاتا تھا۔ لیکن کچھ دن سے پاکستان کے حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس نے مجھ سمیت کروڑوں عام پاکستانیوں کو سخت پریشان اور ہراساں کر رکھا ہے۔ اس لیے آج میں آپ کو خط لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ امید ہے آپ اس پر درد دل سے غور کریں گے۔

    مجھے آج بھی تیس اکتوبر دو ہزار گیارہ کا وہ تاریخ ساز جلسہ یاد ہے جس نے آپ کے سیاسی کیرئیر کو ایک نئی زندگی دی تھی۔ ہم تمتماتے ہوئے پرجوش چہروں کے ساتھ آپ کو تقریر کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور ہماری آنکھیں سنہرے مستقبل کے خوابوں سے چمک رہیں تھیں۔ جب آپ نے ہمارے لیے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا تھا تو تب میری عمر صرف آٹھ سال تھی، لیکن جب آپ نے ٹرافی کو (جسے میں ایک بڑا ہیرا سمجھ رہا تھا) دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر اُٹھایا تو مجھے اس وقت بھی آپ پر ایسا ہی مان اور فخر محسوس ہوا تھا۔

    دو ہزار تیرہ کے عام انتحابات سے پہلے بہت سا وقت دوستوں اور خاندان کے افراد کو آپ کی قابلیت، خلوص اور ملک کے لیے آپ کی خدمات گنواتے ہوئے گزرا۔ تہجد کی نمازوں کے بعد کی گئی بہت سی دعائیں آپ کی کامیابی اور ملک کی سلامتی کے لیے مختص ہونے لگیں۔ میں جانتا تھا کہ ہمارے حلقے سے آپ کے ایم این اے اور ایم پی اے کے امیدواروں کا جیتنا بہت مشکل ہے کیوں کہ میں نے نہ صرف آپ کی پارٹی کی ان امیدواروں کا نام ہی پہلی دفعہ سنا تھا بلکہ وہ پوری الیکشن کیمپین میں مجھے کہیں نظر بھی نہیں آئے، زیادہ حیرت مجھے اپنے پولنگ سٹیشن پر آپ کی پارٹی کے پولنگ ایجنٹ کو موجود نہ پا کر ہوئی۔ پھر بھی میں نے دونوں ووٹ آپ کی پارٹی کو دیے تھے۔

    سچ پوچھیے تو عام انتحابات کے نتائج میرے لیے حیران کن نہیں تھے کیوں کہ الیکشنز سے پہلے کے تقریباً تمام پول، سروے اور تجزیے ایسے ہی رزلٹ کی نشاندہی کر رہے تھے۔ ہم خوش تھے کہ تحریک انصاف کو ایک صوبے میں نہ صرف حکومت بنانے کا موقع مل رہا ہے بلکہ مرکز میں بھرپور اپوزیشن کی وجہ سے حکومت کو من مانی اور کرپشن کی اجازت نہیں ملے گی اور آپ عوامی مفادات کا بھرپور تحفظ کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ جب آپ نے دھاندلی کی بنیاد پر دو ہزار چودہ میں پہلی دفعہ اسلام آباد میں دھرنے کا منصوبہ بنایا تو یہ پہلا موقع تھا جب مجھے آپ پر سخت غصہ آیا۔ آپ قادری صاحب اور شیخ رشید جیسے مشکوک کرداروں کے ساتھ اسلام آباد پہنچے۔ آپ نے لکھے ہوئے معاہدہ کی خلاف ورزی کی۔ آپ کے کارکنوں نے پاکستان کے قومی ٹیلی ویژن، اور قومی اسمبلی کی عمارت پر حملہ کیا۔ کاروبار زندگی معطل ہو گیا۔ ملک کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی اور قومی معشیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

    دھرنے کے بعد میرا خیال تھا کہ اب آپ اپنی توجہ خیبر پختون خواہ کی صوبائی حکومت پر مرکوز کر دیں گے۔ انٹرا پارٹی الیکشنز میں دھاندلی اور کرپشن کرنے والوں کو سزا اور پارٹی سے نکال دیں گے۔ ناکام دھرنے کا مشورہ اور پلاننگ کرنے والوں کا محاسبہ اور سرزنش ہو گی لیکن افسوس آپ نے بیشتر وقت اس منظم دھاندلی کے احتجاج پر ضائع کر دیا ہے جسے آپ کسی بھی پلیٹ فورم پر ثابت نہیں کر سکے۔ مجھے نواز شریف صاحب سے نہ تو خیر کی کوئی خاص امید ہے نہ ہی میں ان کا ووٹر ہوں۔ میرے سارے شکوے اور سوال آپ سے ہیں۔ آپ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ مانا، دھرنا منسوخ کیا، بہت اچھا کیا، میرے دل کی آواز یہی تھی مگر میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ایک منتخب وزیر اعظم سے دھونس دھاندلی سے استعفا طلب کرنا درست نہیں ہے، کل کو آپ وزیراعظم بنیں اور اپوزیشن ایسا کرے تو، یہ تو غلط روایت قائم ہو جائے گی. آپ کےتجویز کردہ وزیراعلی پرویز خٹک صاحب نے پاکستان کو توڑنے اور نسلی تعصب کو فروغ دینے کے نفرت انگیز بیانات دیے اور آپ نے آج انھیں ہیرو قرار دیا، نہیں معلوم کہ آپ کو اس کے نتائج کا کوئی اندازہ بھی ہے یا نہیں؟

    پتہ نہیں کیوں عمران انکل! مجھے ایسا لگتا ہے جیسے آپ سیاست کو بھی کرکٹ کے میچ کی طرح کھیل رہے ہیں جہاں فیلڈ ایڈجسٹمنٹ اور داؤ پیچ سے کھلاڑی کو آؤٹ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یاد رکھیے یہ سیاست ہے اور آپ ہمارے ملک کی سلامتی سے کھیل رہے ہیں، آپ جس منتحب وزیراعظم کو رخصت کرنے کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہیں، وہ ڈیڑھ کروڑ ووٹ لے کر آیا ہے۔

    عمران انکل! اس سیاسی آپا دھاپی میں آپ نے انتحابی اصلاحات کا موقع ضائع کر دیا اور مردم شماری ہو نہیں سکی، الیکشن کمیشن بقول آپ کے کرپٹ ہے۔ آپ کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہے۔ پھر آپ کیوں فوری انتحابات چاہتے ہیں؟ مجھے کہنے دیجیے کہ اگر نواز شریف نے اربوں کی کرپشن کی ہے تو آپ کے ان دھرنوں اور ہنگاموں کی وجہ سے ملک کو کھربوں کا نقصان پہنچا ہے۔ کیا آپ کو پتہ ہے آپ کی اس بے وقت کی راگنی نے کشمیر ایشو، سی پیک اور معشیت کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ آپ کو مبارک ہو سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی ہے اور چند دن میں سرمایہ کاروں کے چار سو ارب روپے ڈوب گئے ہیں۔ بارڈر پر انڈیا ہماری جان کے درپے ہے، پر آپ کو تو اقتدار چاہیے ہر صورت میں اور ہر قیمت پر۔

    عمران انکل! آپ نے انتشار کے شکار اس معاشرے کو مزید تقسیم کا شکار کر دیا ہے۔ آپ نے اور آپ کے کارکنوں نے آپ سے اختلاف کو جرم بنا دیا ہے۔ آپ کی پارٹی اور آپ سے اختلاف کرنے والوں کی عزت محفوظ ہے نہ جان۔ بیچ چوراہے میں پگڑیاں اچھالی جا رہی ہیں اور غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کیے جا رہے ہیں۔ آپ نفرت کی فصل بو کر کیا کاٹنے کی امید کر رہے ہیں؟

    کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ آپ ابھی تک نواز شریف صاحب کے عدلیہ بحالی لانگ مارچ سے بہت انسپائر ہیں۔ بہت اچھا لگتا ہے آپ کو انسانوں کا ہجوم لے کے جانا اور تختہ الٹ دینا۔ آپ شاید روز اس کا خواب دیکھتے ہیں۔ کاش آپ نواز شریف صاحب سے ہی سیکھ لیتے کہ اپنی باری کا انتظار اور جمہوریت کا تحفظ کس طرح کیا جاتا ہے۔ کاش آپ پلاننگ نام کی کسی شے سے واقف ہوتے، دھرنے کی کال کی بری طرح ناکامی کے بعد کچھ واقف ہو جائیں، پورے ملک میں آپ کی کال پر ہو کا عالم رہا، خود آپ کی پارٹی کا کوئی ایک کارکن کسی دوسرے شہر میں نہ نکلا۔ اس کے باوجود خدا جانے آپ کس دنیا اور کن ہواؤں میں ہیں۔ خدارا اپنی راہ میں اتنے کانٹے نہ بچھائیے کہ بعد میں آپ کا اپنا جسم لہو لہو ہو جائے۔ ایسی روایات قام نہ کیجیے کہ بعد میں کسی کا بھی حکومت کرنا مشکل ہو جائے۔ سیاسی استحکام اور امن اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اور اگر آپ چاہیں تو ملک کو یہ نعمت نصیب ہو سکتی ہے۔

    عمران انکل! یہ ملک قائداعظم اور دیگر بزرگوں نے بہت محنت اور قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا۔ ہم بیس کروڑ عوام کے لیے اس کے علاوہ کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ خون میں ڈوبے حسرت و یاس کی تصویر بنے مشرق وسطی سے عبرت پکڑیے۔ اپنی ذاتی دشمنیاں چکانے اور اپنی انا کی تسکین کے آپ کو اور بھی مواقع مل جائیں گے مگر پاکستان نہ رہا تو ہم برباد ہو جائیں گے۔ اب تو سپریم کورٹ نے فیصلہ دے دیا ہے، کمیشن بنائے گی، اب واویلا چھوڑ کر اپنی پارٹی منظم کیجیے اور الیکشن 2018ء کی تیاری کیجیے ورنہ مجھے خطرہ ہے کہ آپ ان الیکشن کے بعد پھر دھاندلی کا شور مچا رہے ہوں گے۔ میاں صاحب پر تو ہمارا کوئی زور نہیں، ہم تو آپ سے ہی درخوست کر سکتے ہیں کہ امید بھی آپ سے ہے۔
    ہمارے حال پر رحم کیجے، اپنا رویہ بدلیے اور تیاری کیجیے۔
    والسلام
    آپ کا رنجیدہ سپورٹر

  • مشترکہ خاندانی نظام، نعمت ہے یا زحمت؟ ریحان اصغر سید

    مشترکہ خاندانی نظام، نعمت ہے یا زحمت؟ ریحان اصغر سید

    ریحان اصغر سید جوائنٹ فیملی سسٹم اسلامی نہیں ہندوانہ نظام ہے ! نامی بلاگ جو کچھ دن پہلے دلیل پر ہی شائع ہوا ہے، نظروں سے گزرا۔ بلاگ میں مخصوص پاکستانی انداز میں ایک انتہائی مؤقف لیتے ہوئے اپنے حق میں دلائل دیے گئے ہیں۔ پڑھ کے یہ احساس ہوا کہ اس وسیع موضوع کے بہت سے گوشوں کو شعوری یا لاشعوری طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ میرے ذاتی خیال میں یہ دو انتہائی سنجیدہ موضوعات ہیں جھنیں ایک ہی بلاگ میں بھگتانے کی کوشش کی گئی ہے۔

    پہلا یہ کہ یہ سوال اہم نہیں کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام ہندوانہ نظام ہے یا نہیں؟ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام اسلام مخالف ہے؟
    دوسرا یہ کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام پاکستانی معاشرے کے لیے زیادہ موزوں اور سود مند ہے یا نہیں؟

    مذکورہ بلاگ کے نام میں پہلے موضوع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور متن میں اسے دوسرے موضوع کی مدد سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ بہتر یہ ہو گا کہ ان کو علیحدہ علیحدہ موضوع بحث بنایا جائے۔ پہلے دوسرے سوال پر بات کر لیتے ہیں کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام پاکستان کے شہریوں کے لیے ایک رحمت ہے یا زحمت؟

    حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒ سے کسی نے دریافت کیا، حضرت، شادی کرنا سنت ہے یا واجب؟
    آپ نے فرمایا، جو طاقت رکھتا ہو اور اس کے گناہ میں پڑ جانے کا قوی اندیشہ ہو اس کے لیے فرض ہے۔ جو طاقت رکھتا ہو لیکن نفس پر قدرت رکھتا ہو اس کے لیے واجب ہے۔ صحت مند لیکن تنگ دست کے لیے سنت ہے اور نامرد کے لیے حرام ہے۔

    ایسا ہی کچھ معاملہ مشترکہ خاندانی نظام کا بھی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں کہیں اسےاپنانا مجبوری ہے، کہیں یہ خیر کا باعث ہے اور کہیں یہ ٹوٹ پھوٹ اور ناکامی کا شکار ہے۔ بیشتر جگہوں پر یہ یہ واحد چوائس اور مجبوری کے طور پر نافذ ہے اور جب آپ کے پاس کوئی دوسری چوائس نہ ہو تو بہتر ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں رہتے ہوئے نظام میں آنے والی خرابیوں کو دور کر کے بہتری کی طرف سفر جاری رکھا جائے۔

    اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً 37 فیصد حصہ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ یعنی تقریباً سات کروڑ لوگ روٹی اور فاقے کے درمیان ڈول رہے ہیں کسی قسم کی جائیداد اور اس کی تقسیم ان کے لیے دیوانے کا خواب ہے ۔ ایک دو کمرے کے مکان میں چھ سے لے کر درجن تک لوگ رہتے ہیں۔ تمام تر مسائل اور مشکالات کے باوجود مشترکہ خاندانی نظام کو اپنائے رکھنا ان کی مجبوری ہے۔

    اگر پاکستان کی اشرافیہ اور اپر مڈل کلاس کی بات کریں تو جوائنٹ فیملی سسٹم ان کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ یہ سب لوگ اپنے الگ الگ شاندار محل نما گھروں اور مختلف شہروں، ملکوں میں مقیم ہوتے ہیں۔ اگر کہیں اکٹھے ہوں بھی تو پورشن اور ہانڈی روٹی علحیدہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس ہی رہ جاتی ہے۔ ان میں سرکاری ملازم بھی ہوتے ہیں اور درمیانے اور چھوٹے کاروباری لوگ بھی۔ روزگار کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی اکثریت کو بھی آپ ان میں شامل کر لیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جس میں مشترکہ خاندانی نظام وجہ نزاع بنا ہوا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اس طبقے کے لیے بھی اس نظام کا متبادل ڈھونڈنا آسان نہیں۔ کمر توڑ مہنگائی، محدود آمدنی، کم وسائل، مہنگے پلاٹ، بےپناہ تعمیری لاگت، اور کرایہ کے گھر کے جھنجھٹوں کی وجہ سے مشترکہ خاندانی نظام سے چاہ کر بھی چھٹکارا پانا اس طبقے کے لیے بھی آسان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ دیگر مسائل اور سوال ہیں۔

    اگر گھر میں چار پانچ بھائی رہتے ہیں، والد کی وفات کے بعد اگر وہ مکان بیچ دیں تو بہنوں کو بھی حصہ دینے کے بعد ان کے پاس شاید آٹھ دس لاکھ بھی حصہ نہیں آئے گا۔ ظاہر ہے ان پیسوں میں پلاٹ ملنا ہی مشکل ہے، سب کے گھر کیسے بنیں گے؟ چھوٹے اور طالب علم بھائی اپنا کرایہ اور دیگر اخراجات کیسے پورے کریں گے؟ چھوٹی بہنیں اور والدہ کہاں جائیں گی؟ ایک اوسط مڈل کلاس لڑکی کی شادی پر آٹھ سے دس لاکھ جہیز اور دوسرے اخراجات آتے ہیں، والد کے بعد وہ کون پورے کرے گا؟

    عموماً کاروبار بڑے بھائی ہی سنبھالتے ہیں۔ اگر بیرون ملک بھیجا گیا تھا تو والدین نے جمع پونجی اور زیوارت بیچ کے بھیجا تھا۔ بڑے لڑکوں کی شادی بھی والد صاحب خود کر جاتے ہیں جس میں لگنے والے لاکھوں کا خرچہ بھی انھوں نے اُٹھایا تھا۔ یہ اضافی وسائل اور سہولیات دوسرے بھائیوں کے حصے میں تو نہیں آئیں؟ اگر کوئی شخص اس حال میں دنیا سے چلا گیا کہ اس کے دو تین بچے سیٹل اور دو تین بچے پڑھ رہے ہیں ۔ بچوں کے لیے طالب علمی اور نوکری ملنے تک کا مرحلہ بہت حساس ہوتا ہے، اگر ان کی کفالت سے ہاتھ اٹھا لیا جائے تو ہر گھر میں کچھ بچوں کا مستقبل تباہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ گھر اور کاروبار کی فوری بندر بانٹ سے کاروبار بھی ختم ہو جائے گا اور سب کے سروں سے اپنی چھت بھی چھن جائے گی اور امید ہے بیشتر نوجوان کچھ ہی عرصے میں اپنا حصہ ضائع کر کے سڑک پر آ جائیں گئے (یہاں وارثت اور قرآن کے احکام کی خلاف ورزی کی تاویل نہیں دی جا رہی، اس بات کی وضاحت اگلے بلاگ میں کی جائے گی.)

    دوسری طرف مشترکہ خاندانی نظام سے کچھ حقیقی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں جس کا ذکر مذکورہ بلاگ میں بھی کیا گیا ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو ان مسائل کا شکار طبقے کی بھی دو تین قسمیں ہیں۔ پہلی قسم کے وہ گھر ہیں جس میں تین چار بھائی اپنے بال بچوں اور والدین کی زندگی کی صورت میں ان کے سمیت ایک گھر میں رہتے ہیں، سب برسرروزگار ہیں، کوئی نوکری کرتا ہے تو کوئی دکان، کوئی رزق کی تلاش میں بیرون ملک مقیم ہے لیکن اس کے بیوی بچے اسی گھر میں رہتے ہیں، بچے بڑے ہو رہے ہیں، ان کی آپسی لڑائیوں، خواتین کی گھریلو سیاست اور بھائیوں کی آمدنی کے تفاوت کی وجہ سے دلوں میں نفرتیں اور دوریاں جنم لے رہی ہیں لیکن کوئی بھی فی الحال علحیدہ کرایہ کا یہ اپنا گھر افورڈ نہیں کر سکتا۔ یا سب نے مکان کی تعمیر میں حصہ ڈال رکھا ہے، کوئی بھی گھر چھوڑنے کو تیار نہیں، بعض دفعہ والدین آسودہ اور صاحب جائیداد ہوتے ہیں، ان کی خوشنودی بھی عزیز رکھنی پڑتی ہے۔ اور کچھ لوگ واقعی ہی سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے معاشی طور پر کمزور بہن بھائیوں کی مدد کریں اور ان کو سہارا دیں، اس سے بعض دفعہ ان کے اپنے بیوی بچوں کے حقوق کچھ متاثر ہوتے ہیں لیکن یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔

    اکثر مشترکہ خاندانی نظام کے مسائل کی وجہ معاشی کمزوری، معاشی ناہمواری، والدین کی ایک دو بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کی کامیابی کے لیے والدین کا کردار انتہائی اہم ہے۔ بہتر ہو کہ والدین بچپن سے ہی بڑے بچوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں۔ جب بوجھ بڑے بچوں پر پڑے تو چھوٹے بچوں کو جلد سے جلد عملی زندگی کے لیے تیار کیا جائے اور کامیاب ہونے کی صورت میں بھائی اور ان کے بچوں کے ساتھ ان سے بڑھ کے نیکی اور احسان کریں۔ والدین سب بچوں سے ہر معاملے میں یکساں سلوک کریں۔ کماؤ اور بیرون ملک بچوں کے بچوں کی خصوصی نگہداشت اور پروٹوکول ان کا حق ہے، سب بھائیوں اور بہنوں سے یکساں اور پیار والا سلوک کیا جائے۔ کمانے والے کے پیسوں سے بنائی گئی جائیداد اس کے نام پر ہی خریدی جائے۔ اگر سارے بچے آسودہ حال ہیں اور اکٹھے نہیں رہنا چاہتے تو ان کو ایموشنل بلیک میل کر کے اکٹھا رہنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ گھر بناتے ہوئے پورشن اور نقشہ ہی اس حساب سے ترتیب دیا جائے کہ بعد میں ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی علیحدہ رہائش اختیار کی جا سکے۔ بچوں کی لڑائیوں کو سنجیدہ نہ لیا جائے، جب ایک ہی گھر میں رہنا ہے تو تحمل، درگزر اور برداشت، سے کام لیا جائے۔ اولاد کو والدین ، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کے حقوق کے معاملے میں توازن لانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر والدین کی حق تلفی کسی صورت نہیں ہونی چاہیے، اگر کوئی زرعی زمین یا دوسری وارثت ہے تو اس کی جلد سے جلد منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے، بلکہ اگر حکومت اگر کوئی ایسا قانون بنا دے کہ جس میں زمین کی مقررہ حد کی وارثت میں مالک کے فوت ہوتے ہی شرعی طریقے کے مطابق اس کی تقیسم متعلقہ حق داروں میں خودکار طریقے سے ہو جائے تو کافی مسائل سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔

    مشترکہ خاندانی نظام کوئی آئیڈیل نظام تو نہیں لیکن پاکستان کی عوام کے موجودہ حالات کے لحاظ سے نہ صرف کافی موزوں ہے بلکہ ہماری معاشرتی اور سماجی نظام زندگی سے کافی ہم آہنگ ہے۔ کیوں کہ یورپ اور امریکہ وغیرہ میں جہاں ایک اکائی ایک خاندان کا نظام رائج ہے وہاں ویلفیئر حکومتیں کام کر رہی ہیں، سوشل قرضوں کا نظام مؤثر ہے۔ نابالغ، طالب علموں، اور بوڑھے لوگوں کی بہبود اور پرورش کوئی مسئلہ نہیں۔ علحیدہ مکان بنک فنانس پر لینا یا کسی بھی برسر روزگار شخص کے لیے کرایہ کا مکان اور ہانڈی روٹی اس کی کل آمدنی کا تیس سے پچاس فیصد بنتا ہے، جبکہ پاکستان میں صورتحال یکسر مختلف ہے۔ یہاں مشترکہ خاندانی نظام کے علاوہ کوئی سوشل سکیورٹی کا نظام میسر نہیں ہے، اس لیے ابھی مشترکہ خاندانی نظام ہی ہمارے بچاؤ کی واحد صورت ہے۔

    اگلے بلاگ میں قرآن و حدیث اور سنت رسولﷺ کی روشنی میں ہم دیکھیں گے کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام واقعی ہی اسلام کی آئیڈیالوجی سے متصادم ہے؟

  • شیدا سیکرٹ سروس – ریحان اصغر سید

    شیدا سیکرٹ سروس – ریحان اصغر سید

    ریحان اصغر سید میں اور شیدا پہلوان دودھ دہی کی اُس دوکان کے سامنے چنگ چی رکشے سے اترے جس کی بالائی منزل کے سامنے ہماری جاسوس کمپنی “شیدا سیکرٹ سروس” کا ہیڈ آفس تھا۔ جس کے باہر لگے بورڈ پر نمایاں اور واضح لفظوں میں رقم تھا کہ ہماری کوئی دوسری شاخ یا برانچ نہیں۔ ملتے جھلتے ناموں سے دھوکہ نہ کھائیے۔ ہمارا ادارہ ہر قسم کی جاسوسی خدمات کے علاوہ جادو ٹونے کی کاٹ، پلٹ ، کا ماہر ہے، نیز محبوب کو آپ کے قدموں میں لانا اور شوہر کوراہ راست دیکھانا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ اس کے علاوہ ہم ہر قسم کے تعویذ گنڈے کے بھی ماہر تسلیم کیے جاتے؎
    ہیں۔ بے اولاد حضرت کے علاوہ ہر قسم کے زنانہ اور مردانہ پوشیدہ امراض کا شافعی و تسلی بخش علاج بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لکی کمیٹی، انعامی سکیم، پرائز بانڈ، غیر ملکی کرنسی سمیت ہر قسم کی خفیہ معلومات کے لیے تشریف لائیے۔
    چوبیس گھنٹے سروس،
    آفس ٹائم دن آٹھ سے شام چھ بجے۔
    صدر و چیف ایگزیکٹیو پیر و مرشد حضرت گجراتی بابا المعروف پیزے برگر والی سچی سرکار۔
    اسٹنٹ ڈائریکٹر، اکاوئنٹنٹ، ڈائریکٹر ایچ آر شیدا جِن۔
    اب ایسا نہیں تھا کہ ہم روزانہ چنگ چی پر ہی آفس آتے تھے۔ ہمارے پاس ایک پرانی لیکن دھانسو قسم کی سپورٹس بائیک تھی، جسے میں اس اتوار ایک جوئے کی محفل میں ہار گیا تھا۔ چونکہ وقت خراب ہے اور شریف لوگوں کا باہر نکلنا بھی دوبھر ہوگیا ہے اس لیے ہم سب ہم پیالہ و نوالہ پینے پلانے کا بندوبست کر کے کسی ایک دوست کے ہاں سرشام ہی بیٹھ جاتے ہیں۔ بعض دفعہ تاش کی بازی بھی لگ جاتی ہے۔ اس دفعہ میں کچھ زیادہ ہی پی گیا۔ مزید ستم یہ کہ شیدے نے اپنے دو بھرے ہوئے سیگریٹ بھی مجھے پلا دیئے تو میرے دماغ کی رہی سہی بتی بھی گل ہو گئ۔ پہلے میں اپنے سارے پیسے ہارا، پھر شیدا جو کہ میری پشت پر بیٹھا مجھے پنکھی سے ہوا دے رہا تھا اور گاہے بہ گاہے مجھے سیگریٹ کے کش لگوانے کے علاوہ بازی سے متعلق مفید مشورے دینے میں مشغول تھا، اس کی ساری جیبوں کی تلاشی کے بعد ملنے والے دو سو روپے بھی ہار گیا۔
    اس کے بعد غم غلط کرنے کے لیے میں نے گلاس سر پر رکھا۔ بوتل ہاتھ میں پکڑ کر لہک لہک کے ماتمی گیت گانے شروع کیے۔
    دیوہیکل شیدا فرط غم سے فرش پر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا اور اپنے منہ سے ویسا بیک گراونڈ میوزک دینے کی کوشش کر رہا تھا جیسا آجکل نعت خوانوں کے پیچھے کھڑے دیہاڑی دار منہ سے گھٹر غوں، گھٹر غوں جیسی آوازیں برآمد کرتا ہے۔ شیدے کا دوسرا ساز اس کا پہاڑ جیسا پیٹ تھا۔ جسے وہ بنیان اٹھا کر دونوں ہاتھوں سے بجانے میں مصروف تھا۔ میرے جگری دوستوں نے کچھ دیر میری مجذوبانہ حرکات پر درد دل کے ساتھ غور کیا اور باہمی مشورہ سے اس نتیجے پر پہنچے کہ اس موقع کو ہاتھ سے جانے دینا کفران نعمت کے مترادف ہو گا اور مزید یہ کہ گھوڑے گھاس سے دوستی نبھائیں تو کھائیں کیا؟
    اس لیے انھوں نے مجھے گھیر کر دوبارہ چٹائی پر بیٹھایا اور سمجھایا کہ اب کی بازی بڑی ہونی چائیے تاکہ میرے پچھلے نقصان کا ازالہ بھی ہو سکے۔ بڑی بازی سے میرا دھیان شیدے کی طرف چلا گیا۔ جب میرے پاس ہارنے کو کچھ نہ بچتا تھا تو میں شیدے کو بازی پر لگا دیتا تھا۔ پہلے پہل شیدا پانچ ہزار والی بازی کے کام آتا تھا، لیکن عالمی کساد بازاری کے دور رس اثرات کی وجہ سے شیدے کی مارکیٹ ویلیو بھی ڈاون ہوتی چلی گئ جس کی وجہ سے اب شیدے کو زیادہ سے زیادہ دو ہزار والی بازی پر لگایا جا سکتا تھا۔ اگر میں بازی ہار جاتا تو شیدا تب تک میرے دوستوں کے زیر استعمال رہتا جب تک میں مطلوبہ رقم ادا کر کے شیدے کو بازیاب نہ کروا لیتا۔ تب تک شیدا میرے دوستوں کی گاڑیاں موٹر سائیکل دھونے، گھروں کا سامان ڈھونے، بچوں کو کھیلانے ، انھیں سکول چھوڑنے اور واپس لانے کے کام آتا۔
    بڑی بازی کا سن کر شیدے کے تارکول جیسے رنگ پر مزید سیاہی چھا گئ۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھ سے رحم کی اپیل کی۔ اس سے پہلے کہ میں رحم کی اپیل مسترد کرتا، میرے دوست ارشد ماکڑی نے تصیح کی۔
    او نہیں یار ! بڑٰی بازی سے ہماری مراد موٹر بائیک کی بازی ہے۔ پھر ارشد ماکڑی نے میری جیت جانے کی صورت میں ہونے والے متوقع مالی فوائد کے ساتھ ساتھ میری اور شیدے کی زندگی میں آنے والی خوشگوار تبدیلیوں پر تفصیلی بریفنگ دی تو میں پرجوش ہو کر راضی ہو گیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔۔۔۔

    بات ہو رہی تھی آفس پہنچنے کی۔ میں اور شیدا سیڑھیاں چڑھ کر آفس کے لکڑی کے خستہ دروازے کے سامنے پہنچے جس پر کافی پنکچر لگے ہوئے تھے۔ باہر ایک زنگ آلودہ تالا ٹنگا تھا۔ یہ تالہ ہماری عملی زندگی شروع کرنے کی نشانی تھا۔ ہم جو بھی نیا کام شروع کرتے اس کے آفس کے باہر یہی تالا استعمال کرتے۔ شیدا بیک وقت چابی، سکریو ڈرائیور اور ہتھوڑے سے تالا کھولنے کی معمول کی کاروائی میں مصروف تھا۔ ساتھ ساتھ اس کے منہ سے تالے کے خاندانی پس منظر، عادت و خصائل اور ان کی مستورات کی بے راہروی کے بارے میں انکشافات کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ آخر کار تالہ کھل گیا۔ شیدے نے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے فخریہ انداز میں مجھے دیکھا۔
    میں نے شیدے کے کاندھے پر شاباشی دیتے ہوئے کہا کہ فکر نہ کر، آج کوئی گاہک قابو آیا تو سب سے پہلے تجھے نیا تالا لے کر دوں گا۔ پھر ہم دونوں اپنے کبوتر خانے جیسے آفس میں داخل ہوئے۔ جہاں ایک طرف انسانی ڈھانچہ پڑا تھا۔ جو بنا تو پورسلین کا تھا مگر شیدے کی کاریگری کے بعد بلکل اصلی لگتا تھا۔ میز پر ایک کھوپڑی اور کچھ ہڈیاں بکھری پڑی تھی۔ چھت پر رنگ برنگی لائیٹس لگی تھی جن کی روشنی سے کمرے کا منظر کافی ڈراونا بن جاتا تھا۔
    پیچھے الماریاں میں دوائوں کی شیشیاں پڑی تھی جن میں ہم نے رنگ دار پانی بھرا ہوا تھا۔
    کبوتر خانے کے پیچھے ایک اور ڈربہ نما کمرہ تھا جس میں ہم نے خفیہ ساونڈ سسٹم فِٹ کر رکھا تھا۔ روحوں اور موکلوں سے ملنے کے شوقین افراد سے شیدا اسی کمرے میں بیٹھ کر ہم کلام ہوتا۔ شیدے کے جن بھوت والے مختلف کاسٹیوم بھی ادھر ہی پڑے تھے۔ میں نے فون کی آنسرنگ مشین آن کی۔ آج کل کیبل پر ہمارا اشتہار چل رہا تھا جسے دیکھ کر یہی محسوس ہوتا تھا کہ دنیا میں موت کے سوا ہر بیماری کا علاج ہمارئ پاس ہے۔مسئلہ کشمیر کے علاوہ ہم سارے مسئلے حل کرنے پر قادر ہیں۔ یورپ، آسٹریلیا، امریکہ کا ہر ویزا ہماری اجازت سے مشروط ہے۔ بندے کو تعویذ سے مارنا ہمارے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ ہمارے مشورے کے بغیر کوئی بھی کاروبار شروع کرنا، یا زمین و مکان کی خرید و فروخت نہایت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

    جب سے ہم نے جادوئی کلپ کا ایڈ دیا تھا اس کے جادوئی اثرات نظر آ رہے تھے۔ ماٹھا پڑتا کاروبار چمک اٹھا تھا۔ ہر وقت فون کالز اور گاہکوں کا تانتا بندھا رہتا۔ ابھی بھی آنسرنگ مشین پر رات کو آنے والی کالز کے پیغامات موجود تھے۔ پہلی ریکارڈنگ کسی موٹے سیٹھ کی تھی جو کافی موٹی آسامی لگ رہا تھا۔ وہ اپنے سے بھی موٹی بیوی کو ہماری ہر دلعزیز پروڈکٹ کالا کوبرا تعویذ سے مروا کر کسی کم عمر چھوکری سے شادی کرنے کی فکر میں تھا۔ میں نے جواباً میسج ریکارڈ کروا دیا کہ کالا کوبرا تعویذ صرف افریقی ملک یوگینڈا کے ایک کالے مندر میں چاند کی چودھویں رات میں اُس کالے بکرے کے خون سے ہی لکھا جا سکتا ہے جو پیدائشی بھینگا اور لنگڑا ہو۔ ٹکٹ اور آنے جانے کا کل خرچہ ملا کر دس لاکھ سے تجاوز کر جاتا ہے۔ جس میں سے آدھا ایڈوانس وصول کیا جائے گا۔ کام شرطیہ پورا ہو گا۔ آزمائش شرط ہے۔ اپنی بیوی کی تازہ تصویر اور مبلغ پانچ لاکھ روپے آفس پہنچا دیں تاکہ کاروائی کا باقاعدہ آغاز کیا جا سکے۔

    دوسرا پیغام کسی کالج کی لڑکی کا تھا جو اپنے محبوب کو اپنے قدموں میں دیکھنا چاہتی تھی۔ چونکہ بیچاری کے پاس صرف دو سونے کی بالیاں ہی تھی۔ اس لیے غریب پروری کرتے ہوئے اسے بھی بالیاں اور محبوب صاحب کی جمیع تفصیل کورئیر کرنے کی ہدایت کر دی گئی ۔پھر ایک ساسو ماں کا میسج تھا جسے عین الیقین تھا کہ اس کی بہو اس پر کالا جادو کرتی ہے۔ وہ اس کی کاٹ اور پلٹ کروانا چاہتی تھی۔
    میری اور شیدے کی آنکھیں ایک نوجوان کا میسج سن کر چمکیں جس کا باپ امریکہ میں تھا۔ وہ جادو کے زور پر خود کو کالج میں ٹاپ اور رقیب کو فیل کروانا چاہتا تھا۔ ظاہر ہے ایسے مشکل کام کے لیے موکل ایسی کالی گائے کا خون مانگتے ہیں جس نے ساری عمر پاکدامنی میں گزارنے کے علاوہ صرف ایسے کھارے کنویں کا پانی پیا ہو جیسے کسی لنگڑے مستری نے کھودا ہو ..اور ایسی گائیں صرف کینیا میں ہی پائی جاتی ہیں۔ گائے کی خون کی بلی لینے کے بعد موکل دو ماہ تک کھلے سمندر میں چلہ کرتے ہیں پھر کہیں جا کر کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ یہ ساری تفصیلات بتا دی گئیں۔ امید تھی لڑکا قابو آجائے گا اور پھر ہم دو چار دن میں ہی نئ موٹر بائیک لینے کے قابل ہو جائیں گے۔

    تھوڑی دیر گزری تو ایک سیاہ فام بونی سی عورت آفس کے داخلی دروازے سے اندر داخل ہوتی نظر آئی۔ جو مجھے شکل سے ہی سکہ بند جادوگرنی لگ رہی تھی۔ کچھ عجب نہیں کہ وہ ہم سے کالے جادو کے نئے جنتر منتر سیکھنے آئی ہو۔ اس کی سانپ جیسی چھوٹی چھوٹی آنکھیں اور پیلے دانت کافی ڈروانے لگ رہے تھے۔ پہلے اس نے آنکھیں گھما گھما کر آفس، شیدے اور میرا بغور معائنہ کیا۔
    جی محترمہ ! میں کیا خدمت کر سکتا ہوں آپ کی۔ میں نے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا
    مجھے اپنے شوہر کی جاسوسی کے لیے آپ کی خدمات کی ضرورت ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ وہ کسی دوسری عورت کے چکر میں ہے۔ بونی عورت نے چھت کی لائیٹوں کا حیرت سے مشاہدہ کرتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا۔
    جی ہم ہر طرح کی جاسوسی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ مجھے بہت افسوس ہوا آپ کے شوہر کے بارے میں جان کر۔ ان کی عقل پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔ پتہ نہیں آج کل کے شوہروں کو کیا ہو گیا ہے جو آپ جیسی حسین و جمیل اور گریس فل خاتون کو چھوڑ کر کسی اور عورت کے چکر میں ہے۔ یقیناً وہ اندھے ہوں گے۔ میں نے پورے یقین سے کہا کیونکہ اس چڑیل نما عورت سے کوئی اندھا ہی شادی کر سکتا تھا۔
    بونی عورت نے میری بات سنی ان سنی کر دی وہ اس وقت ٹیبل پر پڑے فون کو اٹھا کر حیرت سے الٹ پلٹ کر کے دیکھ رہی تھی۔ لگتا تھا اس نے یہ سب چیزیں زندگی میں پہلی بار دیکھی ہیں۔
    میں نے کھنکار کر بونی عورت کو متوجہ کیا تو وہ چونکی۔
    آپ لوگوں کی فیس کتنی ہے؟
    فیس کی بات سے ہماری منہ میں ایسے پانی بھر آتا تھا جیسے اکثر لوگوں کے پیزے اور بریانی کے نام سے۔ میں نے لیپ ٹاپ کے کئ بورڈ پر بے مقصد انگلیاں بجائیں۔ کیلکولیٹر پر دو تین دفعہ ۷۸۶ کو ۷۸۶ سے ضرب دے کر ۳۰۲ کو نفی کر کے ۴۲۰ کو جمع کیا اور گھمبیر لہجے میں کہا کہ اس طرح کے کاموں میں ایجنٹوں کو بہت بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے۔ سبجیکٹ کی نگرانی کے لیے فیول و دیگر اخراجات بے پناہ ہو جاتے ہیں۔ آپ وقتی طور پر پچاس ہزار روپے جمع کروا دیں پھر باقی حساب کتاب بعد میں کر لیں گے، گھر والی ہی بات ہے۔ اپنا اور اپنے خاوند کا پتہ و دوسری تفصیلات اس کاغذ پر لکھ دیں۔
    پچاس ہزار کا سن کر وہ بونی عورت اس طرح اچھلی جس طرح کسی غریب کا پانچ ہزار بل آ جائے تو وہ اچھلتا ہے۔ ہاتھ نچا کر بولی
    آئے ہائے ! اتنے سے کام کے اتنے زیادہ پیسے؟
    تم لوگوں نے تو بہت زیادہ لوٹ مار مچا رکھی ہے اور فیول کا خرچہ کاہے کا؟
    کیا تمہارے جِن اور موکل پیٹرول پر چلتے ہیں؟
    تم لوگ تو اپنے ایڈ میں کہتے ہو کہ ہر کام کے لیے تمہارے پاس جِنّوں اور موکلوں کی علیحدہ علیحدہ تجربہ کار ٹیمیں ہیں۔ ریٹ لسٹ کہاں ہیں تمہاری۔ مجھے دیہاتی سمجھ رکھا ہے کیا؟ اس دنیا میں نئ آئی ہوں تو کیا ہوا۔ میں بھی ٹیڑک پاس ہوں۔ صیح ریٹ بتاو ورنہ ملاوں نمبر کنزیمور کورٹ کا۔
    خاتون کے تیور خطرناک لگ رہے تھے۔ میں گال اور شیدا سر کھجاتے ہوئے ڈانٹ سن رہے تھے۔
    دیکھیں محترمہ ! اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس جِنّوں اور موکلوں کا اتنا بڑا جتھا ہے کہ ان کی اکاموڈیشن کے لیے ہم نے گلبرگ میں دو کنال کی کوٹھی لے رکھی ہے۔ آج کل عمرے کا سیزن ہے اس لیے مسلمان جِن اور موکل اس وقت حرم شریف میں طواف میں مصروف ہوں گے۔ دو جن یوگنڈا میں ایک مشن پر مصروف ہیں جبکہ ایک سری لنکا اور ایک بنگال میں ہے۔ کچھ جِن سالانہ چھٹیوں پر اپنے وطن کوہ قاف گئے ہوئے ہیں۔ فی الحال میرے پاس یہی ایک جن ہے لیکن یہ میرا ذاتی خادم ہے۔ میں نے شیدے کی طرف اشارہ کیا،
    اور
    ہم کونسا ریڑھی لگا کر آم فروخت کر رہے ہیں جو آپ ہم سے ریٹ لسٹ کا مطالبہ کر رہی ہیں اور میٹرک تو سنا تھا یہ ٹیڑک کونسی ڈگری ہے ؟

    یہ جن ہے؟؟
    خاتون نے حیرت سے شیدے کو دیکھتے ہوئے کہا۔ جو عجیب و غریب ڈراونی شکلیں بنا کر جِن نظر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔ حالانکہ سوا چھ فٹ قد، اڑھائی سو پاونڈ وزن اور تارکول جیسی رنگت کی وجہ سے وہ بغیر کوشش کے بھی جن نظر آتا تھا۔
    اب بونی عورت شیدے سے کسی غیر مانوس جناتی زبان میں باتیں کر رہی تھی۔ انداز استفسارنا تھا۔ ایسی زبان جو میں نے بھی کبھی نہیں سنی تھی تو بھلا شیدا اس کا کیا جواب دیتا۔ بس آنکھیں نکال نکال کر جن ہونے کی ایکٹنگ کرتا رہا۔
    یہ جن نہیں ہے !
    خاتون نے اعلان کرنے والے انداز میں کہا۔ مجھے پتہ چل گیا ہے تم لوگ فراڈ ہو۔
    اچھا ! وہ کیسے ؟
    شیدے نے مذاق اڑایا۔
    اس لیے کہ میں خود ایک چڑیل ہوں۔ اگر تم جن ہوتے تو تمھیں جِنّوں کی زبان سے ضرور آگاہی ہوتی۔ دوسرا تمیں میرے یہاں آتے ہی پتہ چل جاتا کہ میں کوئی انسان نہیں ہوں۔

    شیدے کی پیشانی پر پسینہ چمکا اور مجھے اپنی ٹانگیں گیلی گیلی سی ہوتی محسوس ہوئیں۔ مجھے ابتدا سے ہی اس عورت کے انداز و اطوار بہت عجیب سے لگ رہے تھے۔ اس کی شکل ہی بڑی غیر انسانی تھی۔ اتنے میں ایک دھماکے کی سی آواز آئی۔ شیدا خوف کی شدت سے بے ہوش ہو کر گر گیا تھا یا بے ہوش ہونے کی ایکٹنگ کر رہا تھا۔ اب جو کچھ کرنا تھا مجھے اکیلے ہی کرنا تھا۔ اگر شیدا بے ہوش نہ ہوتا تو شاید اہم بھاگنے کا سوچتے۔
    عورت نما چڑیل اب لیپ ٹاپ کو اپنی طرف کھینچ کر اسے الٹ پلٹ کر کے دیکھنے میں مگن تھی۔ اس کی اسکرین میں نظر آنے والے اپنے چہرے کو عجیب عجیب سے پوز بنا کر دیکھ رہی تھی۔
    دیکھیں محترمہ ! میں نے ہکلاتے ہوئے بات کا آغاز کیا
    جن اور انسان بھائی بھائی ہیں اور اس طرح آپ میری بہن لگتی ہیں۔ انسان تو ہے ہی خطا کر پتلا۔ ہم سے کوئی غلطی کوتاہی ہو گئ ہو تو ہمیں چھوٹا سمجھ کر معاف کر دیں۔ میں نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ دیے اور پلیز اس کو چھوڑ دیں۔ یہ دنیا کی قیمتی اور نازک اشیاء میں شمار ہوتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ ٹوٹ جائے۔ ابھی تو اس کی آدھی اقساط بھی بقایا ہیں۔
    چڑیل کے چہرے پر کچھ نرمی کے تاثرات نمودار ہوئے ۔ اس نے لیپ ٹاپ میز پر رکھ کر میری طرف کھسکا دیا اور عجیب فلسفانہ لہجے میں بولی
    میرا تو انسانوں سے وشواس ہی اٹھ گیا ہے۔ تم عجیب مخلوق ہو۔ ہر وقت اپنی ہی نسل کو دھوکہ دینے میں مشغول رہتے ہو۔ زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارا نام استعمال کر کے ہمیں بھی بدنام کرتے ہو۔ پہلے ہم جِنوں میں یہ دھوکہ دینے والی برائی نہیں پائی جاتی تھی۔ پر جب سے کوہ قاف میں جنگ عظیم چہارم چھڑی ہے تب سے کوہ قاف کے معاشی حالات بہت خراب ہو گئے ہیں۔ کوہ قاف کے جنات اس دنیا میں کام کے لیے آتے ہیں تو واپسی پر دھوکہ دینے والی برائی ساتھ لے جاتے ہیں۔ چونکہ ہمارے بہت سارے رشتہ دار جن اس دنیا میں بھی رہتے ہیں تو ہمارے بہت سارے جن ہجرت کر کے اس دنیا میں آ رہے ہیں۔ تمہاری دنیا کے جنات کی طرح ہمیں چوری چکاری اور ہڈ حرامی کی عادت نیں بلکہ ہم اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتے ہیں۔
    میں بھی اپنے بچوں کے بہتر اور محفوظ مستقبل اور پرورش کے لیے کچھ دن پہلے ہی اس دنیا میں آئی ہوں۔ میرے بچے ابھی کوہ قاف میں ہی ہیں۔ سوچا تھا یہاں کوئی جاب لگ جائے تو انھیں بھی بلوا لوں گی۔ میں نے اخبار میں تمہارے اشتہار میں دیکھا کہ بہت سارے جن تمہارے پاس ملازم ہیں تو سوچا کہ شاید مجھے بھی نوکری مل جائے اور اپنے سرزمین کی مخلوق کے ساتھ میرا دل بھی لگ جائے گا۔ اسی لیے میں یہاں پر آئی تھی۔ شوہر والی بات تو میں نے تمہارا امتحان لینے کے لیے کی تھی مگر افسوس۔۔۔۔
    کوہ قاف سے آتے وقت میں جو کیش لائی تھی اور جِنوں کی کرنسی ایکسچینج سے تمہاری دنیا کی کرنسی میں تبدیل کروائی تھی، وہ بھی ختم ہونے والی ہے۔ چڑیل عورت دھیمی آواز میں بولتی رہی جبکہ میں حیرت سے سن رہا تھا۔
    بات ختم کر کے وہ بڑے دل گرفتہ انداز میں اٹھی اور اپنا بیگ تھام کر جانے کے لیے پر تولتی نظر آئی۔
    فرش پر بے ہوش شیدا جھٹ سے اٹھا اور بولا
    تم نہ جاو چڑیل باجی۔ ہم تمیں جاب دینے کے لیے تیار ہیں۔ پھر گھٹنوں کے بل چلتا ہوا میری طرف آیا اور میز کے نیچے سے میرے گھٹنے تلاش کر کے انھیں پکڑ کر بولا
    مرشد !
    ان کو کام پر رکھ لیں۔ سوچو اگر ہمارے پاس سچ مچ میں ایک جن عورت ہو گی تو ہمیں کام نمٹانے میں کتنی آسانی ہو گی۔ یہ جن غائب ہو کر کسی بھی جگہ ایک لمحے میں پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارا ہر مشن منٹوں میں مکمل ہو جایا کرے گا۔ ہماری دھوم مچ جائے گی۔ ہم منہ مانگی فیس لیا کریں گے۔

    اگر ہم آپ کو بطور جن اپائنٹ کریں تو آپ کی کیا ڈیمانڈ ہو گی اور آپ کی رہائش و کھانے پینے کی ترکیب کیا ہو گی؟
    میں نے چڑیل کی طرف متوجہ ہو کر کہا جو پر امید نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
    رہائش کا تو کوئی مسئلہ نہیں۔ میں یہیں رہ لوں گی۔ ویسے بھی ہم اپنی ضرورت کے مطابق بہت چھوٹے یا بڑے ہو جانے پر قادر ہیں۔ میں تو چھوٹی سی ہو کر ماچس کی ڈبیا میں بھی سو سکتی ہوں۔ کیا میں آپ لوگوں کو چھوٹی ہو کر دکھاوں؟؟
    نہیں نہیں !
    اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اور شیدا بیک زبان ہو کر بولے۔
    چلو تمہاری مرضی۔ چڑیل نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ اور کھانے کا بھی مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ابھی میں ایک میرج ہال کے پیچھے موجود کچرے سے دو من چکن کھا کر آئی ہوں جو میرے دو مہینے کے لے کافی ہو گا۔ میں تو حیران ہوں کہ تمہاری اس دنیا میں ہم جِنوں کے لیے کس قدر رزق بکھرا پڑا ہے۔

    چلو یہ سب تو ٹھیک ہو گیا۔ اب پیسے کی بھی بات کر لیتے ہیں۔ میں ابھی آپ سے کوئی وعدہ تو نہیں کرتا لیکن ہر کام سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک مخصوص حصہ آپ کو دیا کروں گا۔ یوں سمجھ لیں ہماری پارٹنر شپ ہے لیکن ہر مشن آپ کو اپنی خاص صلاحتیوں کی بدولت ہی پورا کرنا ہو گا۔ اگر آپ کو یہ شرطیں منظور ہیں تو شیدا سیکرٹ سروس میں ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ میں نے تو دو ٹوک انداز میں کہا تو وہ چڑیل حسب توقع فوراً راضی ہو گئ۔
    وہ اپنی نوکری لگ جانے پر بہت خوش لگ رہی تھی پتہ نہیں بیچاری اس دنیا میں کہاں کہاں دھکے کھاتی رہی تھی ۔ہم نے اسے کسٹمر ڈیل کرنے کا طریقہ سمجھایا اور اسے آفس میں چھوڑ کر خود لنچ کے لیے بریانی کھانے حکیم بریانی ہاوس پہنچ گے۔

    شیدا بہت پرجوش ہو رہا تھا۔ ہمیں لگ رہا تھا کہ اب ہمارے دن پھرنے والے ہیں۔ اب ہمارا ہر مشن منٹوں میں مکمل ہو جایا کرے گا۔ بریانی کھا کر واپس آنے تک میں اور شیدا اپنی اپنی پسندیدہ گاڑیوں کے ریٹ اور پوش ایریاز میں کوٹھیوں کی قیمت او۔ایل۔ایکس پر چیک کر چکے تھے۔
    اپنے آفس کی بوسیدہ سیڑھیاں چڑھ کر جب ہم اوپر کبوتر خانے میں واپس پہنچے تو یہ دیکھ کر ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ آفس کا دروازہ پورا کھلا ہوا تھا اور وہ چڑیل لیپ ٹاپ، آفس کے موبائل فون لینڈ لائن سیٹ ڈھانچے سمیت ہر چیز لے کر غائب ہو گئ تھی۔ میز کے دراز کھلی حالت میں تھے۔ ایک دراز کے خانے میں موجود دو لاکھ کی جعلی کرنسی جو ہم نے ایک لاکھ میں خریدی تھی وہ بھی غائب تھی۔ اس کے علاوہ بھی کوئی قابل ذکر چیز موجود نہ تھی۔ وہ نوسر باز چڑیل نما عورت ہمیں الو بنا کر نو دو گیارہ ہو چکی تھی۔
    ایسے موقعوں پر شیدے کی تخلیقی صلاحتیں پوری طرح بیدار ہو جاتی ہیں اور وہ ایسی ایسی گالیاں ایجاد کرتا ہے کہ سنتے جاو اور سردھنتے جاو۔ وہ نان اسٹاپ گالیاں دیتے ہوئے ہر چیز کو چیک کرتا اور پھر اسے موجود نہ پا کر نئے جذبے سے گالیاں دینا شروع کر دیتا۔ جبکہ میں دونوں ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے کھڑکی سے نیچے گلی میں دیکھتے ہوئے یہ سوچنے میں مصروف تھا، کہ دنیا میں انسانیت ہی ختم ہو گئ ہے نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔ شیدا میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا
    یار ایک بات تو ماننی پڑے گی۔ وہ چڑیل نہ سہی پھر بھی اس کے پاس شائد کالا علم تو تھا کیونکہ جب ہم بریانی کھانے باہر جا رہے تھے تو وہ مجھے کہہ رہی تھی کہ میری جِنّوں والی حس بتا رہی ہے کہ تم لوگوں کا کوئی بڑا نقصان ہونے والا ہے۔

  • جنت سے، کشمیری بچے کا بھارت کے نام خط

    جنت سے، کشمیری بچے کا بھارت کے نام خط

    (کشمیر میں قابض بھارتی پولیس کے ہاتھوں پیلٹ گن کے چھروں سے شہید ہونے والے بارہ سالہ معصوم طالب علم جیند احمد کا ایک دل کو لہو کر دینے والا فرضی خط لکھا گیا ہے۔ کوئی بھی صاحب دل اسے پڑھ کر آنسو نہیں روک پاتا۔ ریحان اصغر سید نے دلیل کے لیے اس کا ترجمہ کیا ہے، قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔)

    بنام انکل نعیم اختر
    وزیر تعلیم جموں کشمیر
    (برائے میرے امتخانات کی منسوخی)

    پیارے انکل!
    میں یہ بات آپ کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں کہ میں (یعنی جنید احمد کلاس ہفتم، رول نمبر ۲۹ نیو بونونت انگلش سکول سرینگر) دو ہزار سولہ کے سالانہ امتحانات میں شرکت نہیں کر سکوں گا جھنیں آپ نومبر دو ہزار سولہ میں ہر صورت کروانے کے لیے کمربستہ نظر آتے ہیں، کیونکہ میں پہلے ہی آپ سے بہت دور جا چکا ہوں۔

    میں اپنے گھر کے دروازے کے پاس ہی کھڑا تھا جب ایک مہربان صورت پولیس انکل نے اپنی بدصورت نظر آنے والی بندوق سے مجھ پر گولی چلائی۔ اور پیلٹ گولیوں کی بوچھاڑ نے مجھے سر سے لیکر پاؤں تک چھلنی کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ پولیس انکل غلط فہمی کا شکار ہو کر مجھے کوئی ”مطلوب پتھر پھینکنے“ والا لڑکا سمجھے ہوں گے جو کہ میں نہیں تھا۔ مجھے ان پولیس انکل سے کوئی شکایت نہیں ہے۔

    پلیز! محبوبہ آنٹی کو بتا دیجیے گا کہ میں کسی فوجی کیمپ پر حملہ کرنے نہیں گیا تھا، اور ہاں! مجھے دودھ اور ٹافیاں پسند ہیں جس کا تذکرہ محبوبہ آنٹی نے دو مہینے پہلے راج ناتھ انکل (جو کے میرے دادا ابو جیسے ہیں) کے ساتھ پریس کانفرنس میں کیا تھا۔ کیا انھوں نے سوالیہ انداز میں نہیں پوچھا تھا کہ کیا یہ پتھر پھینکنے والے لڑکے آرمی کیمپوں پر دودھ اور ٹافیاں لینے جاتے ہیں، جن پر وہ اپنی پتھربازی کے ذریعے حملہ کرتے اور نشانہ بناتے ہیں؟ یہ کہہ کر انھوں نے کشمیر میں ہونے والے بےگناہوں کے قتل عام اور بندوق سے محبت کرنے والی فورسز کی وحشت کو جائز قرار دیا تھا. مجھے ان فوجیوں سے بھی کوئی شکایت نہیں ہے کیوں کہ انھیں قتل کرنے کی ہی تربیت دی جاتی ہے۔ یہ ان کا کام ہے اور وہ اسی چیز کی تنخواہ لیتے ہیں۔

    میرے ہمسائیوں نے میرے زخمی جسم کو قریبی ہسپتال لے جانے کی کوشش کی لیکن میرے گھر سے ہسپتال کا مختصر سا فاصلہ بہت طویل ثابت ہوا اور اسی دوران میری زندگی کی بچ جانے والی سانسوں کا سلسلہ پورا ہو گیا۔

    اب جب میں اپنی قبر میں ہوں، آپ سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کے میرا سارا سابقہ تعلیمی ریکارڈ اور نتائج ضائع کر دیے جائیں اور مجھ پر رول نمبر سلپ جاری کرنے کی عنایت نہ کی جائے، جس طرح لیلہار پور کی شائستہ حامد کو اس کی موت کے دو مہینے بعد کامیاب قرار دیا گیا تھا۔

    میں آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے مجھے ایسی جگہ بھیجا ہے جہاں پامپور کے ایک اُستاد شبیر احمد مونگا پہلے سے موجود ہیں۔ یہاں میرے پاس بے پناہ وقت ہے کہ میں ان سے پڑھوں اور منطق، دلیل سے تنقید کرنے کی زبان جانوں۔

    میں اس لیے بھی آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے میرے پرانے قصبے ورمول کے دوست فیضان سے ملوا دیا ہے جسے گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور آزاد گنج پل ورمول سے دریائے جہلم میں پھینک دیا گیا تھا۔ اب ہم یہاں خوب انجوائے کریں گے، کھلا وقت ہوگا اور پھر یہاں قتل کیے جانے، اندھا یا معذور ہونے کا ڈر بھی تو نہیں ہے.

    برائے مہربانی میرا پیغام محبوبہ آنٹی تک پہنچا دیجیے کہ وہ میری قبر پر آنے کی زحمت نہ فرمائیں کیوں کہ میں ان کو یہ کہتا ہوا نہیں سن سکتا کہ آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا، آپ اس کے لیے مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں؟ میں ان سے بھی ناراض نہیں ہوں۔

    شاہ فیصل انکل میں آپ کی کمپین ”کشمیری باکس ڈاٹ کام“ کا حصہ نہ بننے پر معذرت خواہ ہوں، جس میں آپ نے اندھے ہو جانے والے بچوں کے لیے کتابیں اور دوسری تعلیمی اشیاء دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے. ان کا منصوبہ مجھے پیلٹ سے اندھا کرنے کا تھا، لیکن رحم دل پولیس انکل نے مجھے اندھا کرنے سے مار دینا زیادہ مناسب سمجھا۔

    میں ذاتی طور پر اس پولیس والے انکل کا انتہائی شکرگزار ہوں جھنوں نے مجھے اندھا کرنے کے بجائے قتل کر کے مجھے اپنے والدین پر بوجھ بننے سے بچا لیا۔ میں پرانے قصبے وارمول کے اعجاز کبیر بیگ کے والدین کا درد سمجھ سکتا ہوں جسے اپنی والدہ کی دوائی خریدنے کی پاداش میں اندھا کر دیا گیا تھا۔

    خدارا میرے والد کو نہ ستائیےگا، میں انھیں قائل کر لوں گا کہ وہ میرے قتل کی کوئی ایف آئی آر نہ کٹوائیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ انھیں تھانے میں بلا کر دھمکائیں گے نہ خوفزدہ کریں گے، اور نہ حصول انصاف کی کوشش میں برے انجام سے ڈرائیں گے.

    مجھے اس شاندار طریقے سے الوداع کہنے پر میں آپ کا انتہائی ممنون ہوں۔ ایسا شاندار الوادعیہ منتخب لوگوں کے حصے میں ہی آتا ہے۔ اگرچہ میری آنکھیں بند ہوگئیں اور جسم بے جان ہو گیا مگر اس کے باوجود میں پاوا شیلز کی شدت اور تلخی محسوس کرتا رہا۔ ہاں! میں اس کے لیے مودی انکل سے بھی کوئی شکایت نہیں کر رہا۔

    آپ سے حقیقی محبت کرنے والا،
    لیکن مردہ طالب علم

    جنید احمد
    کلاس ہفتم
    رول نمبر ۲۹
    نیو بونووانت ہائی سکول نیو کمپس
    اعلی مسجد ہال روڈ
    سرینگر، کشمیر

  • سرجیکل سڑائیک میں حصہ لینے والے ایک کمانڈو کی ڈائری کا ورق – ریحان اصغر سید

    سرجیکل سڑائیک میں حصہ لینے والے ایک کمانڈو کی ڈائری کا ورق – ریحان اصغر سید

    ریحان اصغر سید 28-9-16

    میں نے آنکھیں کھولیں اور ڈرتے ڈرتے اردگرد دیکھا۔ اپنے کمرے میں خود کو زندہ و سلامت دیکھ کے من خوشی سے بھر گیا۔ جس طرح کے حالات چل رہے ہیں روز سوتے ہوئے یہی ڈر ہوتا ہے کہ پتہ نہیں کل ہو نہ ہو، پاکستانی جیسے جنونی اور دہشت گرد دیش کا کیا بھروسہ۔ رات کی تاریکی میں پرمانوں بموں سے حملہ کر دے یا ان کے فوجی سینک سر کاٹ لے کر جائیں۔ بھگوان نے بھی ہمارے ساتھ پھرکی لی ہے۔ اب ایسے خطرناک دیش کا پڑوسی بننے کو ہم ہی رہ گئے تھے کیا؟
    میں نے تکیے کے نیچے سے سیل فون نکال کر دیکھا تو پتنی جی کی مس کالز اور میسج آئے ہوئے تھے۔ میں نے کال بیک کی تو اس کا پہلا سوال ہی چُھٹی کے متعلق تھا۔
    چھٹی کہاں سے ملنی ہے، میں نے جل کے کہا۔ یہ سہولت صرف ہندو افسران کے لیے ہے، جنگ میں مرنے کے لیے ہم سردار اور مُسلے جو ہیں۔ تو فکر نہ کر میں کوشش کر رہا ہوں، آج پھر او سی صاحب سے بات کرتا ہوں۔
    ……………………………………………………..
    شیو کر کے میں نے وردی پہنی ہی تھی کہ او سی صاحب کے بلاوے کا سندسیہ آ گیا۔ میں فوراً افیسر کمانڈنگ کرنل پروہت شرما کے آفس کی طرف بڑھ گیا۔ کرنل صاحب کے چہرے پر گھمبیرتا کے تاثرات دیکھتے ہی میرا من ڈوبنے لگا اور ٹانگیں بے جان ہونے لگیں۔
    جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا، دہلی سے فوجی ہیڈ کواٹر نے سرجیکل سڑائیک کی اجازت دے دی تھی۔ پلان ہم پہلے بھی کئی دفعہ ڈسکس کر چکے تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ پاکستان میں گھسنا تھا۔ ہمیں ایل او سی کو کراس کر کے پاکستانی آکوپائیڈ کشمیر میں داخل ہونا تھا۔ یہ ساری بارڈر لائن بارود کا ڈھیر بنی ہوئی ہے۔ ہماری طرف سے گھس بیٹھیوں کی دراندازی روکنے کے لیے تھری لئیر سسٹم کام کر رہا ہے۔ خاردار تاریں ہیں جن میں کرنٹ دوڑتا ہے، باردوی سرنگیں ہیں، سنسرز ہیں، پھر بھاری نفری بھی تعینات ہے، دوسری طرف کی سینا کے انتظامات بھی تگڑے ہیں۔ سب سے مشکل مرحلہ تو ایل او سی کو کراس کرنے کا ہے۔ جہاز کے ذریعے پیراشوٹوں سے اترنا یا ہیلی کاپڑوں کے ذریعے جانا موت کو ماسی کہنے والی بات ہے، کیوں کہ سرحد پار پاکستانی سینا بپھری ہوئی ہے۔
    ……………………………………………………..
    اب ہمارے پاس اجیت دول صاحب کی صلاحیتوں اور تجربے پر واشوس کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، جو اس مشن پر ہمیں بریف کرنے کے لیے بنفس نفیس راجدھانی سے ہیلی کاپٹر پر آ رہے تھے۔ گیارہ بجے کے قریب ان کا ہیلی کاپڑ اترا تو میں سواگت کے لیے آگے بڑھا۔
    اجیت صاحب نے مشکوک نظروں سے مجھے دیکھا، پھر میرا بیج دیکھ کے بولے، کیپٹن مان سنگھ! آج سارا دیش تمھاری طرف دیکھ رہا ہے، اپنا سپشیل سروسز گروپ لے کے گھس جاؤ دشمن دیش میں اور مزہ چکھاؤ دشمن کو ہم سے پنگا لینے کا۔
    جی سر! میں نے سیلوٹ جھاڑا اور ان کو لے کے میٹنگ روم کی طرف بڑھ گیا۔
    اجیت دول صاحب نے ہمیں نقشے پر اس جگہ کہ نشاندہی کی جہاں ہمیں آپریشن کرنا تھا۔
    لیکن سر ہم وہاں جائیں گے کیسے؟؟
    میں نے سوال پوچھا۔
    اجیت صاحب کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ پھیل گئی۔
    پھر انھوں نے جیب سے ایک ڈبی نکال کر ہمیں دکھائی اور فرمایا:
    ’’بھارتی سرکار اپنی سینا اور اس کے ناگرکوں کی سرکھشا کے حوالے سے بہت پریشان رہتی ہے، ہم دوسرے دیشوں جیسے نہیں ہیں کہ اپنی سینا کو آگ میں جھونک دیں، آپ کے ایک ایک ویکتی اور سپاہی کی رکھشا ہمیں اتنی ہی عزیز ہے جتنی ہمیں اپنی۔ میرے ہاتھ میں آپ جو دیکھ رہے ہیں یہ ہمارے سائنسدانوں اور ہماری مذہبی شکتیوں کا مشترکہ شہکار ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ جدید سائنس کے تمام بنیادی کلیے گیتا اور ہمارے شاتروں سے ہی لیے گئے ہیں۔ یہ ایک ایسی گولی ہے جس کو کھانے سے کسی بھی پرش کا جسم اگلے چوبیس گھنٹے کے لیے ان ویزیبل ہو جاتا ہے۔‘‘
    اجیت صاحب نے ایک چانکیائی مسکراہٹ سے ہمیں دیکھا اور ہماری حیرت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بولے:
    ’’اس ایک گولی کی تیاری میں کروڑوں کا خرچہ آتا ہے لیکن ہمارے سینکوں کی جان اس سے بھی قیمتی ہے۔ کیپٹن مان سنگھ اور ان کی بارہ رکنی ٹیم یہ گولیاں کھا کے ان ویزییل ہو جائے گی اور ریکھا پار جا کے سرجیکل سڑائیک کرے گی۔‘‘
    جے ہند۔
    ……………………………………………………..
    سارا دن ہم آپریشن کی تفصیلات طے کرتے اور ایکشن کی تیاری کرتے رہے۔ رات دس بجے مایک ہیلی کاپٹر پر میری ٹیم کو لے کے ایل او سی کی طرف بڑھا۔ ہیلی کاپٹر نے ہمیں ایل او سی کے تین کلومیڑ اندر اپنی ایک پوسٹ کی اوٹ میں اتارا اور واپس چلا گیا۔ چوکی کے ذمہ دار صوبے دار مہیندر لال نے ہمارا سواگت کیا۔ چوکی کے سامنے ہی انٹری وے تھا۔ انٹری وے کنٹرول لائن پر ہماری طرف ہر دس کلومیٹر کے بعد ایک کلومیٹر کا وہ علاقہ ہے جس میں بارودی سرنگیں اور سنسرز وغیرہ نہیں لگے ہوئے، یہ اس لیے ہے کہ اگر ہمیں پاکستانی آکوپائیڈ کشمیر میں حملہ کرنا پڑے تو مسئلہ نہ ہو۔ یہیں پر ہم نے غائب ہونے والی گولیاں کھائیں اور سچ مچ میں غائب ہو گئے۔ صوبیدار مہیندر کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، ہم نے اسے تسلی دی اور ایل او سی کی طرف بڑھے۔ ایک ایک قدم من من کا ہو رہا تھا، بےشک ہم مائن فری علاقے میں تھے لیکن انسانی غلطی کی گنجائش تو ہر جگہ رہتی ہے۔ خاردار تاروں کے کرنٹ کا کنکشن منقطع کر دیا گیا تھا۔ ہم آسانی سے پاکستانی علاقے میں گھسنے میں کامیاب رہے۔ دل تو گویا اب حلق میں آرہا تھا۔ حوالدار بھوشن نے میرے کان میں گھستے ہوئے تیسری دفعہ کہا۔
    سر میں نے موتر کرنا ہے، کہاں کروں؟؟
    یو بلڈی ایڈیٹ۔ پیمپر نہیں پہنا کیا؟ پیمپر اس لیے پہنایا ہے تمھیں۔ کر لو جو کچھ کرنا ہے۔
    میں غصے سے پھٹ پڑا۔ یہاں جان پر بنی ہے اور اسے موتر کی پڑی ہے۔
    ……………………………………………………..
    اب ہم پاکستانی چوکیوں کے پہلو سے گزر رہے تھے۔ ہوا کے دوش پر قہقوں کی آواز آتی تو ہم وہی دبک جاتے۔ دو گھنٹے چلنے کے بعد نقشے اور جی پی ایس کی مدد سے ہم اپنے ٹارگٹ گاؤں میں پہنچے۔ وہاں چوہدری خالد اپنا آدمی تھا۔ خالد نے ایسے آدمی پہلے کہاں دیکھے تھے جن کی آواز تو آتی ہے پر وہ نظر نہیں آتے۔ اس لیے اطلاع ہونے کے باوجود خالد خوف اور بےبسی سےگھگھیانے لگا۔
    حوصلہ کرو خالد۔ ہم تمھارے دوست ہیں اور تم ہمارے دوست ہو۔ وقت ضائع نہ کرو اور ہمیں فوراً گھس بیٹھیوں کے لانچنگ پیڈز کی طرف لے چلو۔
    لانچنگ پیڈ؟ یہاں تو کوئی لانچنگ پیڈ نہیں ہے۔ خالد نے حیرت سے میری طرف دیکھا یعنی جہاں سے اسے آواز آئی تھی، ادھر دیکھا۔
    میرا میٹر گھوم گیا، میں نے خالد کو گربیان سے پکڑ کے جنجھوڑا۔گھٹیا دلال! پیسے ہم سے لیتے ہو اور جب کام کا وقت آتا ہے تو تمھارے دل میں دیش کی محبت جاگ جاتی ہے۔چپ چاپ ہمیں لانچنگ پیڈ کی طرف لے چلو ورنہ یہی گولیوں سے چھلنی کر دوں گا۔ چلو آگے لگو۔
    خالد چپ چاپ آگے چلنے تو لگا لیکن اس کے چہرے پر کنفیوژن کے تاثرات تھے جس کو دیکھ کے میں پریشان ہو رہا تھا کہ یہ شخص ہمیں مروا نہ دے۔ رات کے دو بج چکے تھے، پورے گاؤں پر ہو کا عالم تھا۔ خالد ہمیں لے کر ایک کھنڈر نما عمارت کے پاس لے آیا جس کی بیرونی دیواریں ٹوٹی ہوئیں تھیں۔ اور برآمدے میں تین چار نشئی سے لوگ نشہ پانی کر رہے تھے، قریب ہی آگ کا الاؤ روشن تھا۔ یہ لانچنگ پیڈ ہے؟ یہ لوگ کون ہیں؟
    یہ لوگ جہاز ہیں جی، ساری پروازیں یہی سے روانہ ہوتی ہیں۔ خالد نے آواز کی سمت کی طرف دیکھ کے کہا،
    جہاز؟ کہاں ہیں جہاز؟ میں نے حیرت سے دائیں بائیں دیکھا۔
    میرا مطلب ہے یہ لوگ پائلٹ ہیں، جہاز تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ خالد نے جانے کیوں گڑبڑا کر جواب دیا۔ میں نے حیرت اور افسوس سے ان چار مدقوق اور بدحال لوگوں کی طرف دیکھا جن کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، شیویں بڑھی ہوئیں تھیں اور بال الجھے ہوئے تھے۔ مجھے یہ تو جانکاری تھی کہ پاکستان میں بہت غربت ہے لیکن پاکستان سینا کے پائلٹ بھی اتنے بدحال ہوں گے۔ یہ میرے تصور میں بھی نہیں تھا۔ مجھے بےاختیار جھرجھری آ گئی۔ میں نے اپنی ٹیم کو بلڈنگ میں ٹائم بم فٹ کرنے کا کہا۔ پاکستانی پائلٹ اپنا دفاع کرنے سے عاجز تھے، ہماری مزاحمت کیا کرتے۔ دھماکے سے پہلے ہم نے ویڈیو بنانے کی کوشش کی تو یاد آیا ہم تو نظر ہی نہیں آ رہے۔ اب ہم دنیا اور پاکستانی میڈیا کو ثبوت کے طور پر کیا دکھائیں گے۔ بہرحال یہ ایک سمسیا تھی۔ بلڈنگ تباہ کر کے ہر ممکن پھرتی اور تیزی سے ہم اسی راستے سے اپنے دیش باحفاظت لوٹ آئے۔ آج میں بہت خوش ہوں۔ پورے بھارت کو ہم پر اور خود پر فخر کرنا چاہیے۔ ہم نے واقعی آج گھس کر مارا ہے۔ جے ہند