Author: فضل ہادی حسن

  • فقہ میں برصغیری مزاج کا ستم – فضل ہادی حسن

    فقہ میں برصغیری مزاج کا ستم – فضل ہادی حسن

    فضل ہادی حسن برصغیر میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی خدمات کے سب معترف ہیں. ان کے افکار کو قرآن وحدیث کے علوم کے منبع اور مصدر و مرجع کا مقام حاصل ہے۔ لیکن بعد کے ادوار میں برصغیر کا خطہ بڑا ظالم ثابت ہوا بالخصوص دینی تعلیم و تعلّم کے حوالے سے۔
    اول:
    مسلک احناف کو دو دھڑوں میں تقسیم کرکے علمائے احناف کے ساتھ ظلم کیا گیا۔ ایک طرف مشربی و مسلکی مسائل پر توجہ زیادہ ہونے لگی تو دوسری طرف فقہ المقارن برائے نام اور ایک تذکرہ تک محدود ہونے کی وجہ سے اختلافی مسائل میں اعتدال مفقود اور سختی نمایاں ہوگئی ۔
    دوم:
    علمائے احناف کی دیوبندیت اور بریلویت میں تقسیم سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وسعت پیدا ہوتی (فقہ و تنقیح، مسائل، رویہ ومزاج میں ) جس طرح مذاہب اربعہ کے وجود سے دینِ اسلام کی وسعت اور آفاقیت نمایاں ہوتی ہے، مگر ایسا ممکن نہیں ہوسکا اور صورتحال سب کے سامنے ہے. برصغیر کے اس فقہی و مشرَبی مزاج نے وسعت تو دور کی بات، ہر مسئلہ کو محدود، بےلچک اور ذہنوں کو مقید و محصور کرکے جہاں انھیں مسلکی طوق پہنایا وہیں تنگ نظری اور متشددانہ سوچ کا باعث بھی بنا۔
    سوم:
    علمائے احناف اور فقہ حنفی کے ساتھ اہل حدیث اور اہل تشیع بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے بلکہ اس مزاج نے انہیں بھی متاثر کیا اور وہ بھی تنگ نظری اور بعض فقہی آراء میں حد درجہ غلو کا شکار رہے ہیں ۔

    اس کا مطلب ہرگز یہ نہ لیا جائے کہ من جملہ یہ سارے مکاتب فکر اور اس کے پیروکار اس خاص بر صغیری مزاج کے شکار ہوئے ہیں۔ بلکہ ہر فقہ و مشرب سے تعلق رکھنے والوں میں معتدل اور فقہ حنفی / مکتب اہل حدیث / اہل تشیع کے اصل وارث اور پیروکار موجود ہیں۔
    جس طرح آغاز میں ذکر کیا کہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ کی خدمات کا اہل برصغیر کھبی انکار نہیں کر سکتے، ہر فقہ و مسلک کے پیروکار ان کو اپنا امام اور سند مانتے ہیں۔ اور اسی سند کو ہی قابل فخر و غرور اور علم و فضل کا آلہ سمجھا جانے لگا ہے۔
    (( برصغیر کے احناف اور فقہ حنفی کی تقسیم کا تنقیدی جائزہ ))

  • امام ابن تیمیہؒ ایک مطالعہ-			فضل ہادی حسن

    امام ابن تیمیہؒ ایک مطالعہ- فضل ہادی حسن

    10929198_936951229648955_6554040637456884104_n

    ہمارے ہاں آج کل امام ابن تیمہ کے حوالے سے بحث چل نکلی ہے۔ یہ کہا گیا کہ ابن تیمہ کے فتاویٰ مسلم دنیا میں جاری شدت پسندی کا باعث بنے ہیں، داعش کی فکر کے پیچھے بھی ابن تیمہ کے ان فتاویٰ کا نام لیا جا رہا ہے۔ امام کے ایک فتویٰ کا ذکرخاص طور سے آیا ہے میبنہ طور پر جس میں بیٹے کو مشرک باپ کی گردن مارنے کا کہا گیا۔ ابن تیمیہ کے حوالے سے اس بحث میں دونوں اطراف سے خاصا کچھ لکھا جا رہا ہے۔ امام صاحب کا دفاع کرنے والے جوش جذبات میں قدرے تیکھا انداز بھی اختیار کر لیتے ہیں، یہی حال ان پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے والوں کا ہے۔ زیر نظر مضمون اس لحاظ سے اہم ہے کہ مصنف نے اس مسئلے پر کوئی فوری پوزیشن لینے کے بجائے پورے ایشو کو گہرائی سے دیکھنے، سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے امام ابن تیمہ کی شخصت، اس زمانے کے معروضی حالات ، امام صٓاحب کی غیر معمولی علمی فکری صلاحیت اور مختلف اہم ترین امور پر ان کے اختیار کردہ موقف کو تفصیل سے بیان کیا اور مدلل انداز میں بعض معروف مغالطوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ خاص بات تحریر کا سلیس اور علمی شائستگی سے معمور ہونا ہے۔ فضل ہادی حسن آج کل ناروے میں ایک اسلامک سنٹر (اسلامک کلچرل سنٹر) سے وابستہ ہیں۔ ”یونیورسٹی آف اوسلو ناروے“ کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔ انہوں نے نہایت متانت اور عمدگی سے اس پورے موضوع کا احاطہ کیا ہے۔ (ادارہ دلیل)

    لاہور کے ایک معروف دینی مدرسے میں دورانِ تعلیم طلبہ کرام ہمارے (چند دوستوں) بارے میں ایک خاص رائے رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک دو ایسے بھی تھے جن کے ساتھ علیک سلیک اور اٹھنا بیٹھنا زیادہ تھا۔ ایک موضوع پر ہماری ڈسکشن ہورہی تھی۔ میں نے ابن تیمیہ کا حوالہ دیا، بس نام لیتے ہی انہوں نے ایک لفظ (تفردات ابن تیمیہ) کہہ کر سب کچھ ”رد“ کردیا۔ علم دین کے آخری درجات پر پہنچنےو الے دوستوں سے لے کر عام افراد تک اس مزاج کو میں لاعلمی اور ”غیر تحقیقی مزاج“ ہی کہہ سکتا ہوں۔

    ہدف تنقید و مورد الزام ابن تیمیہ کیوں؟

    ابن تیمیہؒ کا شمار ان نابغہ روزگار میں ہوتا ہے جنہیں اپنے دور سے لے کر آج تک لوگوں نےتنقید کا نشانہ بنایا۔ میں آج کچھ ذکر (سوانخ عمری نہ سمجھا جائے) ان کے بارے میں کرنا چاہتا ہوں تاکہ اس وقت ابن تیمیہ کے بارے میں جاری بحث کوسمجھنے میں آسانی ہو۔ نیز میرا یہ مضمون اجمالی اور اشاروں پر مشتمل ہوگا جس میں کچھ واقعات کی طرف کنایتاً توجہ دلائی ہے، جن دوستوں کو تاریخ، اسلام اور آئمہ کرام و سلف صالح کے بارے میں کچھ واقفیت ہے تو اس مضمون کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

    کیا ابن تیمیہ اکیلے اہل مذہب اور مخالفین دونوں کا نشانہ بنے ہیں یا کچھ اور نام بھی ہیں؟ یقیناً لمبی فہرست ہے۔ اپنے وقت کے جلیل القدر لوگ جن میں صحابہ کرام اور تابعین بھی شامل ہیں، ان کے بارے میں کیا کیا الفاظ استعمال نہیں ہوئے۔ عبداللہ بن زبیرؓکے خون کو جائز قرار دینے والے، حسینؓ کی مظلومانہ شہادت اوراس کا حکم جاری کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ کلمہ گو ہی تھے۔ سعید بن مسیبؒ کو کس نے نشانہ بنایا تھا؟ کیا امام ابوحنیفہ ؒمسلمان علماء کے ہدف تنقید کا مستحق نہیں ٹھہرے تھے؟ ان کے لیے ”زندیق“ تک کا لفظ کہنے والا کوئی اور نہیں بلکہ وقت کے منبر ومحراب کے جانشین تھے۔ افراط وتفریط یا جذبات کے دریا میں غوطہ زن لوگوں نے امام نسائی کی پٹائی کیوں کی تھی؟ جب رسول اللہ ﷺ کے داماد اور خلیفہ رابع کے مناقب لکھنے پر اسی دمشق میں لوگوں نے ’’امام نسائی‘‘ کو زدوکوب کیا تھا، جسے کئی سو سال بعد ابن تیمیہ نے فتنہ تاتار سے کسی حد تک محفوظ رکھا تھا۔

    کیا کیا لکھوں، جس غزالی پر ہم فخر کرتے ہوئے ان کی مالا جھپتے ہیں، وقت کے کچھ علماء نے انہیں بھی نہ بخشا تھا۔ عطّار ہو، رومی، رازی، ابن سینا ہو، یا فارابی، بہت کم ایسے نام ہوں گے جن پر پوری اُمت کا اتفاق ہوا ہو۔ بلکہ جس ”صحیح بخاری“ کو ہم قران کے بعد مستند کتاب سمجھتے ہیں، اس کے مصنف ومرتب کے ساتھ کیسا رویہ رکھا گیا تھا؟ ان پر زمین کیوں تنگ کردی گئی تھی؟ ہمارے لیے یہ المیہ سے کم نہیں کہ تاریخ میں کوئی بڑی شخصیت جو باقیوں سے ممتاز اور بڑے مقام پر فائز ہو، غیرمعمولی اور خداداد صلاحیتوں اور حیران کن ذہن کے مالک ہوتے ہیں، ان کے بارے میں دو فریق ضرور بن جاتے ہیں۔ ایک معتقدین اور دوسرا ناقدین، ہر گروہ تعریف و تنقیص میں حد درجہ غلو و مبالغہ اور شدت پسند بن جاتا ہے۔

    یہی رویہ ابن تیمیہ کے ساتھ بھی روا رکھا گیا۔ ابن تیمیہ اپنے زمانے کے لیے صرف ایک مجدد نہیں بلکہ وقت کے سپرپاور اور طاغوت سے ٹکر لینے اور ’’تاتاری یلغار‘‘ کو روکنے کا نام ہے۔ انہوں نے باطل کے سامنے جھکنے کے بجائے بے باکی سے ’’کلمہ حق‘‘ کہہ دیا اور اگر مقابلہ کی نوبت آئی ہے تو میدان کارزار پہنچ گئے۔ ان کا یہی ’مجاہدانہ‘ کردار دراصل تنقید کا سبب بنا ہے۔

    حالات کا ستم

    اب ہم تاریخ کے مجدّین (متجدد نہیں) کی بات کرتے ہیں۔ مجدد در اصل اپنے معاشرہ کے لیے ایسی تخلیقات یا علمی انقلاب کا باعث بنتا ہے، جس کا ادراک معاصرعلماء نہیں رکھتے ہیں۔ بلکہ مجدین کا علم اور ان کی سوچ اور ذہانت باقی لوگوں سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ اسی لیے اگر ابن تیمیہ کی بات کریں تو وہ خداد صلاحتیوں کے ساتھ علمی سطح کے بلند مقام پر فائر تھے۔ انہوں نے اپنے دور میں جو رائے اختیار کی، وہ تقلید سے ہٹ کر ”اجتہاد“ کی بنیاد پر تھی۔ اور مجتہد کی سوچ عام ’’مفتی صاحب‘‘ سے کئی درجہ بلند ہوتی ہے، اس لیے ان کوسمجھنے میں مشکل آتی ہے اور پھرلاعلمی میں فتویۃ بازی کا عمل بھی شروع کرتے ہیں۔ ابن تیمیہ وقت کے مجدد اور ایسا نام تھا جن کے بارے میں آغاز ہی سے تنقید و تنقیص اور الزامات کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اور آج تک ان کے فتوئوں اور آرا پر تنقید سے بڑھ کر انہیں گمراہی کا ذریعہ اور سبب گردانا جارہا ہے۔

    اگر فقہی مسلک کی بات ہو تو میر ا تعلق فقہ حنفی سے ہے جبکہ امام ابن تیمیہ فقہ حنبلی کے امام و مجتہد تھے، لیکن میرا یہ تعلق مجھے ان کا مخالف یا اتفاق کرنے میں رکاوٹ نہیں بن رہا ہے اور نہ ہی ان کے علمی کارناموں اور ذخیرہ سے استفادہ کرنے سے روکتا ہے۔ بلکہ میرے دل میں ان کے لیے اسی طرح کا احترام موجود ہے جو امام ابوحنیفہ ؒ سے لے کر عبد الحئی لکھنوی ؒاور شیخ الہندؒ کے لیے ہے۔

    ابن تیمیہ :علمی زندگی

    یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ابن تیمیہ حنبلی المسلک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مجتہد بھی تھے۔ ان کی آرا و فکر پر ”تقلید جامد“ کی چھاپ نہیں پڑی تھی، بلکہ بعض مسائل میں انہوں نے اجتہادی رائے اختیار کی ہے۔ کئی مواقع پر تو ان کی رائے جمہور علماء و فقہاء کی رائے سے مختلف بھی تھی، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے کسی جرم کا ارتکاب کیا اور 190 ڈگری پر قرآن وحدیث اور سلف صالحین کی مخالفت کی ہو۔ ابن تیمیہ نے ایک ایسے زمانے میں آنکھ کھولی تھی کہ ایک طرف تعلیم و تعلّم کا سلسلہ جاری تھا تو دوسری طرف معاشرہ سکڑنے لگا تھا۔ جمود کے گہرے بادل چھانے لگے تھے۔ اسی دور میں اجتہاد ایک بند دروازہ قرار پایا تھا۔ ڈائیلاگ اور علمی مجالس بھی کافی حد تک غیر علمی ہوچکی تھیں۔ ابن تیمیہ نے اس جمود کو توڑنے اور ایک علمی و فکری بیداری کا بیج بُودیا تھا۔

    ان کا علمی مقام اور ذہانت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف دس برس کی عمر میں انہوں نے نحو، صرف، ادب اور بلاغت سے فراغت حاصل کی تھی۔ بچپن میں ہی قرآن حفظ کیا تھا۔ صرف سترہ کی عمر میں فتویٰ دینے کے قابل بن گئے تھے، اور 20 سال کی عمر میں پہنچے سے پہلے پہلے انہوں نے تصنیف وتالیف شروع کی تھی۔ اس زمانے میں بھی حفظ حدیث کا رواج تھا۔ انہوں نے امام حمیدی کی تصنیف ’’الجمع بین الصحیین‘‘ سب سے پہلے زبانی یاد کی تھی۔ ان کے ہم عصر علماء کہتے ہیں کہ بچپن ہی سے ابن تیمیہ نے کتب کو زبانی یاد کرنے کا سلسلہ شروع رکھا تھا۔ نیز استنباط کرنے اور استدلال کرنے میں اللہ تعالیٰ نے خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا۔ وہ صرف ایک عام عالم نہیں، بلکہ مفسر، محدث، فقیہ، سیاسی مدبر اور قائد بھی تھے۔ ان کی کتب کی فہرست بہت لمبی ہے۔ 80 کے قریب چھوٹی بڑی کتب ہیں، جن میں مجموع الفتاویٰ (فتاویٰ ابن تیمیہ) زیادہ مشہور ومعروف اور ان کی رائے و فکر کی صحیح نشاندہی اور سمجھنے کے لیے ایک شاہکار کتاب ہے۔

    ان کی ذہانت کے بارے میں مزید تفصیل لکھنے کا وقت نہیں، کہ مضمون کی طوالت سے بچنے کی کوشش کررہا ہوں۔ یہ ڈر بھی محسوس کررہا ہوں کہ کہیں مجھے بھی ان کی تعریف و توصیف پر ’’غالی اور مبالغہ‘‘ کرنے والا نہ سمجھا جائے۔

    ابن تیمیہ، سیاسی وسفارتی زندگی:

    جس زمانے میں ابن تیمیہ پیدا ہوئے تھے، اس وقت فتنہ تاتار یا ’تاتاری یلغار ‘نے پوری دنیا اور بالخصوص مسلم امت پر ایک وحشت برپا کی تھی۔ چھ سال کی عمر میں فتنہ تاتار کی وجہ سے وہ اپنے والدین کے ساتھ ہجرت پر مجبور ہوگئے تھے۔ تاتاریوں نے ایک طرف مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا تھا تو دوسری طرف مسلمانوں کی فکری و علمی ذخیروں کو تباہ اور مراکز کو مٹانے کی ٹھان لی تھی۔ ایسے دور میں جب انہوں نے بچپن گزارا تھا تو انہوں نے حالات سے بہت کچھ سیکھا۔ اور اس زمانے میں مسلمانوں کو درپیش چند اہم مسائل کو وہ اچھی طرح جان چکے تھے۔ اس وجہ سے ان کی کتب، فتاویٰ اور آرا پر ”حالات اور ماحول“‘کا اثر تھا جس سے ان حالات کا درست اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان میں سے چند بڑے مسائل یہ تھے:

    1۔ مسلم دنیا پر تاتاری یلغار۔

    2۔ مسلم دنیا پر مغربی حملے (یا صلیبی جنگیں، ابن تیمیہ کی پیدائش صلیبی جنگوں کے چوتھے دور کے آغاز میں ہوئی تھی۔

    3۔ داخلی فتنے و مسائل، فقہی مسائل جن میں سے چندایک مسلمانوں کے درمیان افراط و تفریط کا باعث بن گئے تھے۔ نیز مملوک اور حکمرانوں کے درمیان تعلقات کی خرابی اور کشیدگی سمیت دیگر مسائل بھی شامل تھے۔

    ان مسائل کا ادراک ابن تیمیہ کو بہت اچھی طرح ہوگیا تھا اور اسی وجہ سے انہوں نے عام علماء کی طرح اپنا فرض منصبی عبادات تک محدود نہیں سمجھا تھا، بلکہ سیاسی معاملات و مہمات میں باقاعدہ حصہ لینا بھی علماء کی ذمہ داریوں میں سے سمجھتے ہوئے بنفس نفیس حصہ بھی لیا تھا۔ جب ان کی عمر ابھی 18-19 سال تھی تو ہلاکو خان کے بیٹے نے شام پر حملہ کرکے حمص پر قبضہ کرلیا تھا جس کے اثرات دمشق میں حالات کی ابتری اور غارت گری کی صورت میں رونما ہونے لگے۔ اس موقع پر ابن تیمیہ خود ’غازان / قازان‘ (بعض کتب میں غین کے ساتھ جبکہ بعض نے قاف کے ساتھ لکھا ہے) کے پاس پہنچ گئے اور اس نے امن و امان پر بات کی، حتیٰ کہ ’امن‘ کا فرمان بھی لے کر آئے تھے۔ بلکہ جب تاتاری افواج نے بیت المقدس اور اس کی اطراف میں پہنچ کر لوگوں کو گرفتار کرلیے تو ابن تیمیہ نے غازان کے سپہ سالار سے ملاقات کرکے بہت سارے قیدیوں کو چھڑاکر بہترین سیاسی سفارتکاری کا ثبوت دیا تھا۔ اس واقعہ کے چند سال بعد پھر ’غازان بن ہلاکوخان ‘ نے شام پر حملے کی تیاری شروع کی تو ابن تیمیہ نے ایک طرف جہاد کی تیاری شروع کرنے کی ترغیب دی اور دوسری طرف غازان سے مل کر اسے اپنا ارادہ بدلنے پر مجبور کردیا، لیکن ایک سال بعد پھر تاتاری فوجیں حملہ کرنے جمع ہوگئیں تو ابن تیمیہ مسجد و خانقاہ میں بیٹھنے کے بجائے فوری طور پر مصر پہنچ گئے۔ وہاں حکمران طبقہ کو جہاد کی تیاری اور سینہ سپر ہونے کی ترغیب دی، بلکہ بڑی ہمت اور بے باکی کے ساتھ بادشاہ کو غیرت دلائی کہ اگر تم اسلام کی حمایت نہ کروگے تو اللہ کسی اور کو بھیجے گا۔ اور اس آیت کی تلاوت کی۔

    ترجمہ: ”اگر تم پیٹھ دکھاؤ تو خدا تمھارے بدلے اور قوم بھیجے گا اور وہ تمھاری طرح (بزدل) نہ ہوں گے۔( سورہ محمد 38)
    ان کی اس کامیاب سیاسی و سفارتی گفتگو سے سلاطین سمیت عام لوگ بھی متاثر ہوئے، یہاں تک مشہور امام ابن دقیق العید بھی ان کی جرات اور بہترین استنباط پر حیران رہ گئے۔

    ابن تیمیہ کی بے باک اور دلیرانہ سفارتکاری پر ان کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ جب غازان خان کے سپہ سالار (جس کا نام قتلو خان لکھاگیا ہے) کے ساتھ کسی معاملہ پر بات کرنے گئے تو سپہ سالار نے مذاق اور استہزا کے طور پر کہا کہ ” آپ کیوں آئے؟ کسی کو بھیجتے، میں خود حاضر ہوتا۔“ تو ان کا جوا ب تھا کہ ”نہیں! موسیٰؑ فرعون کے پاس خود جاتے تھے، فرعون موسی کے پاس نہیں آتا تھا۔‘‘

    ابن تیمیہ، سوشل و سماجی زندگی:

    امام ابن تیمیہ گوشہ نشین علماء میں سے نہیں تھے، بلکہ اس وقت کے لحاظ سے عامۃ الناس کی فلاح و بہود کے لیے دستیاب سہولتوں اور وسائل کا استعمال کرنا بھی جانتے تھے۔ اس زمانے میں سوشل میڈیا نہیں تھا کہ ”مفتی“ بن کر لوگوں کی اصلاح کے لیے مرد وزن کی تمیز میں اخلاقی حدود کا خیال نہ رکھا جاسکے، اور نہ وہ کوئی ”ملّا و قاری“ یا مقری تھے کہ محض مسند پر بیٹھ کر وعظ و نصیحت کے نام پر زبان و قلم تلوار کی طرح چلاکر آرا و فکر کا بے رحمی سے مضحکہ اُڑایا جاتا رہے۔ بلکہ قوم کی خدمت اور رہنمائی کے لیے تعلیم وتعلم کے ساتھ ساتھ سماجی زندگی اور خدمت میں اس قدر مصروف ہوگئے تھے کہ ذاتی زندگی کی کوئی فکر ہی نہ رہی۔

    ابن تیمیہ ایسے زمانے میں پیدا ہوئے تھے کہ مسلمان مختلف قومیتوں کا مجموعہ تھے۔ نیز سیاسی طور پرایک اضطراب اور خوف ووحشت کا دور تھا۔ تاتاری یلغار ہو یا صلیبی جنگ، مسلم دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے جن میں اخلاق و عادات اور ان کی فطرت کے ساتھ مسلمان علاقوں میں ثقافتی، تہذیبی و تمدنی اختلاط شامل تھا۔ اس وجہ سے اجتماعی زندگی اور معاشرہ مکمل طور پر غیر منظم و غیر مربوط ہوگیا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے تباہی سے دوچار ہونے جارہا ہو۔ ایسے دور میں ابن تیمیہ نے مسلم معاشرہ کے خدوخال اور اسلامی اخلاق پر خصوصی توجہ دے کر اصلاح کا کام بھی کیا۔ ثقافتی یلغار کی وجہ سے دینی امور میں ”نئی چیزوں“ کی شمولیت پر صحیح اور غلط کی وضاحت اور تمیز کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت وہ اپنی سماجی و سوشل صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عملی طور پر میدان عمل میں نکل آئے۔ محض گفتار کا غازی بننے پر اکتفا نہیں کیا تھا۔

    ابن تیمیہ ،فتنہ تاتار سے ٹکر:

    جس طرح ہم نے عرض کیا کہ وہ سیاسی وسفارتی زندگی میں بہت سرگرم رہے اور علماء کے بارے میں بھی وہ اس کے قائل تھے کہ انہیں اس میں باقاعدہ حصہ لینا چاہیے۔ اسی وجہ سے جتنا ان سے ہوسکتا تھا، تاتاریوں کے ساتھ گفت وشنید اور مذاکرت کے ذریعہ معاملات حل کرنے کی کوشش کی، لیکن جب تاتاری یلغار اور ہلاکو خان کے بیٹے غازان خان طاقت کے نشہ میں بدمست ہاتھی کی طرح شام کو تاراج کرنے نکلا، تو ابن تیمیہ کی کامیاب سفارت کاری کے بعد سلطان ناصر نے تاتاری فوج کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ایک فیصلہ کن جنگ کی صورت میں تاتاری فوجیں شکست سے دوچار ہوئیں (یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں نے تاتاری یلغار کا مقابلہ کرکے انہیں ان کی فتوحات یا تباہی پھیلانے کو بریک لگائی تھی) ابن تیمیہ اس جنگ میں کوئی ”شیخ الاسلام“ و علامہ کے بجائے ایک دلیر اور بہادر سپاہی کے روپ میں نظرآئے اور کردار کے غازی کا رول ادا کردیا۔ اس جنگ میں کامیابی اور قوم کا جوش وجذبہ بیدار کرنے کا سہرا انہی کے سر جاتا ہے۔

    فتاویٰ ابن تیمیہ، مشرق و مغرب کی نظر میں

    امام ابن تیمیہ تاریخ اسلام کی ان شخصیات میں شامل ہیں، جن پر مشرق ومغرب دونوں کے باسیوں نے ”نقد“ کی ہے بلکہ اس میں کسی حدتک کافی غلو کا شکار بھی رہے ہیں۔ امام ابن تیمیہ کوئی فرشتہ یا نبی نہیں ہیں، کہ ان سے کوئی غلطی سرزد ہی نہ ہوئی ہو یا وہ معصوم عن الخطا تھے۔ یہ دعویٰ وہ خود یا ان کے شاگرد بلکہ آج تک کسی نے بھی نہیں کیا ہے، لیکن ایسے الزامات جو ان کی فکر وکتب سے لاعلمی اور بالخصوص ان کے فتاویٰ کے پس منظر کو جانے بغیر لگائے جائیں، قطعاً نامناسب ہیں۔ اس پر مستزاد انہیں دہشت گردی اور پھر آج کی داعش اور دیگر عسکریت پسندوں کے ”ہیرو“ اور ان کے ”فکری راہنما“ کے طور پر پیش کرنا علمی بدیانتی وخیانت کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے ہاں کتنے ہی ایسے گروہ ہیں جو قرآن مجید کی مختلف آیات پیش کرکے ان کی من مانی تشریح کرتے ہیں تو کیا قرآن مجید کو یہ الزام دیا جائے گا؟ (نعوذباللہ)

    کوئی ایک سال پہلے اوسلو یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے ساتھ اقوم متحدہ کے آرڈیننیس responsibility to protect یعنی (R2P) اور humanitarian intervention کی روشنی میں شام اور لیبیا کے مسئلہ پر ایک ارٹیکل لکھ رہا تھا تو انہوں نےماردین کانفرنس (منعقدہ مارچ 2010ء ترکی۔ کانفرنس ابن تیمیہ کے ایک فتویٰ کی Re-visit کے تناظر میں منعقد ہوئی تھی) کے بارے میں پوچھا، یعنی ابن تیمیہ کا مشہور فتویٰ ”ماردین“ جس میں کرہ ارض کے بارے میں اسلامی تصور، دار الاسلام اور دارالکفر کی روشنی میں اہل ماردین (وہ علاقہ ہے جہاں ”حیران“‘ واقع ہے جو ابن تیمیہ کی جائے پیدائش ہے) نے پوچھا تھا کہ ہمارے علاقے کاحکم کیاہے؟ آیا یہ دارالاسلام ہے یا درالکفر؟ کیا یہاں سے ہجرت کرنا لازم ہے اور یہاں رہنے والے منافق ہوں گے یا نہیں؟

    اس سوال کی ضرورت اس وقت اس لیے پیش آئی تھی کہ ماردین میں مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن غلبہ اورحکمرانی غیر مسلموں کی تھی۔ ابن تیمیہ نے اس علاقے کے لیے دارا لاسلام اور دارالکفر سے ہٹ کر ایک نئی اصطلاح استعمال کی تھی کہ ’’ يعامل المسلم فيـــها بـــما يستحقه، ويعامل الخارج عن شريعة الإســـلام بــــما يستحقه‘‘ یعنی مسلمانوں کے ساتھ معاملہ ان کے مطابق (یعنی اسلام ) ہوگا جس کے وہ مستحق ہیں اور غیر مسلموں کے ساتھ معاملہ ان کی طرح، یعنی دونوں کا الگ الگ معاملہ ہوگا۔ اگر ان کا رویہ اچھا ہے تو اچھا رویہ رکھا جائے اور معاندانہ ہے تو اسی طرح رویہ رکھا جائے۔

    یہ مشہور فتویٰ الگ بحث کا متقاضی ہے، لیکن بدقسمتی سے اس فتویٰ کی آخری سطر میں وہ ’’تحریف یا تبدیلی ‘‘ ہوئی ہے جس میں عربی کا لفظ ’’یعامل الخارج‘‘ کو ’’یقاتل الخارج‘‘ سے تبدیل کردیا گیا اور اسی فتویٰ کو القاعدہ و دیگر تنظیموں نے اپنے لیے حملہ کرنے اور قتل کے جواز کے طورپر پیش کردیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ لفظ کی یہ تبدیلی جو تباہ کن ثابت ہورہی ہے، وہ کافی دیر بعد کی تبدیلی ہے، جب آج سے تقریباً 110 سال پہلے 1327ھ میں فرج اللہ الکردی نے فتاویٰ ابن تیمیہ کی تخریج میں نقل کی ہے، جسے بعد میں شیخ عبد الرحمن القاسم نے بھی ”مجموع الفتاویٰ“ میں نقل کیا ہے اور یہی بعد میں مشہور ہوا ہے، حتیٰ کہ اس وقت کافی طباعتوں میں موجود ہے۔ (میرے خیال میں نئی تخریج شدہ اور طباعت ہوسکتی ہے) حالانکہ ابن تیمیہ کے مشہور شاگرد ابن مفلح کے علاوہ دیگر سے ’’یعامل‘‘ ہی منقول ہے۔ ابن مفلح نے اپنی کتاب ’’آداب الشریعۃ‘‘ (جلد اول صفحہ 212) میں نقل کیا ہے۔ ’’یعامل‘‘ کے لفظ کے ساتھ مکتبہ ظاہریہ میں موجود واحد مخطوطہ (یعنی ہاتھ سے لکھا ہوا) میں نمبر 2757 کیساتھ مکتبہ اسد، دمشق میں موجود ہے۔ اسی طرح اسی لفظ کے ساتھ ’’الدرر السنۃ فی اجوبۃ السنیۃ‘‘ 248/12 میں نقل ہوا ہے۔جبکہ مشہور مصری عالم شیخ رشید رضا نے ’’مجلہ المنار‘‘ میں بھی نقل کیا ہے۔

    اب اندازہ لگائیں کہ تشدد پسند، داعش اور القاعدہ یا دیگر گروہوں نے اس فتویٰ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی، لیکن اصل فتویٰ اور حقیقت کچھ اور تھی۔ اب اگر کوئی عالم اس فتویٰ کو سمجھے بغیر اور بلاتحقیق اپنے حق اور مقصد کے لیے استعمال کررہا ہو تو کیا یہ عالمانہ اور محققانہ طرزِ عمل کہلاسکتا ہے؟ نیز دار الاسلام اور دار الحرب کا معاملہ ائمہ کرام کے ہاں ایک اختلافی اور اجتہاد ی مسئلہ ہے جس پر کوئی بھی قطعی دلیل یا نص موجود نہیں، بلکہ ائمہ نے قرآن وسنت کی روشنی میں اپنے فہم وفراست سے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ یہ مسئلہ صحابہ کرام اور تابعین کے زمانے کےبعد کے مسائل میں سے ہے۔ اس لیے مسئلہ میں اختلاف آرا کے ساتھ ساتھ زمانہ اور حالات کی تبدیلی سے اس پر بھی اثر پڑسکتا ہے، جس پرحتمی رائے قائم کرنا میرے علم کے مطابق مناسب نہیں ہے۔

    اسی طرح قتل والد (مشرک) کے حوالے سے ابن تیمیہ کا فتویٰ، کس تناظر میں تھا اور ہمارے لوگ اس سے کیا مطلب سمجھ بیٹھے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اصل فتویٰ کیا تھا اور کچھ لوگ اسے کس طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اصل فتویٰ جو ابن تیمیہ کے مجموع الفتاوی (14/478)میں نقل ہے:

    ترجمہ: ”اگر والد اپنے بیٹے کواللہ کےساتھ شرک کی طرف بلاتا ہے تواس کی بات نہیں مانی جائے گی، بلکہ بیٹا اپنے والد کو منع بھی کرے اور انہیں توحید کی طرف حکم بھی دے، کیونکہ یہ والد کے ساتھ حسن سلوک‘ کے زمرے میں آتا ہے اور اگر وہ پھر بھی مشرک ہے تو اسے مار سکتا ہے، لیکن علماء کا اس کی کراہت کے بارےمیں اختلاف ہے)“

    کیا ابن تیمیہ کا مقصود یہ تھا کہ ہر غیر مسلم والد کو قتل کیا جاسکتا ہے؟ یا بالفاظ دیگر ابن تیمیہ کے نزدیک مشرک والدکا قتل ”مباح“ ہے اور کیا مشرک اور باقی غیر مسلموں کا معاملہ ایک جیسا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے اور یقیناً کوئی بھی ذی فہم اور علم رکھنےو الا فرد اسے کبھی ”ترغیب“ نہیں سمجھے گا۔ بلکہ ابن تیمیہ نے کبھی بھی والد کا خون ”مباح“ نہیں سمجھا ہے، بلکہ ان کی کتب میں کئی جگہوں پر والدین (بے شک مشرک کیوں نہ ہو) کے ساتھ حسن سلوک کے حوالے سے ملے گا۔ ابن تیمیہ کی مشہور کتاب ”جامع المسائل“ میں لکھتے ہیں (فوصاه سبحانه بوالديه، ثم نهاه عن طاعتهما إذا جاهداه على الشرك، فكان في هذا بيان أنهما لا يطاعان في ذلك وإن جاهداه، وأمر مع ذلك فصاحبهما في الدنيا معروفا، 4/275)

    ترجمہ: ”بیٹے کو اللہ نےوالدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے۔ پھر ان کی تابعداری سے منع کیا ہے اگر والدین شرک کرنے کے لیے اس پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ پھر یہاں والدین کی تابعداری نہیں ہوگی بے شک وہ دباؤ ڈالیں، اور اس کے باوجود اللہ نے ان کے ساتھ دنیا میں نیک برتاؤ کا حکم دیا ہے۔‘‘

    اس کے بعد ہم کیسے ابن تیمیہ کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ ”مشرک“ والد کے قتل کے بارے میں جواز کے قائل تھے؟ اس سلسلے میں مزید ایک دو حوالے ذکر کرنا چاہتا ہوں تاکہ مسئلہ واضح ہوجائے۔ مشہور حنفی عالم الکاسانی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ ”کسی بھی مسلمان کے لیے مکروہ اور ناجائز ہے کہ وہ اپنے محارب والد (جو جنگ کرنے آیا ہو) کو قتل کرنے میں پہل کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ”وصاحبهما في الدنيا معروفا“ (سورہ لقمان15) کہ ”دنیا میں نیک برتاؤ کیا کرو۔“ علامہ کاسانی پھر آگے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کافر والدین کے ساتھ بھی نیک برتاؤ کرنے کا، اور والدکو قتل کرنے میں پہل کرنا نیکی کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔“ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع” (7/ 101)

    میری طالب علمانہ رائے اور مطالعہ کا نچوڑ یہ ہے کہ ابن تیمیہ قرآن کے مفسّر تھے۔ ان کی وفات کے بعد مشرق وسطیٰ سے لے کر جنوب کے ممالک تک ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ کا اعلان ان الفاظ میں ہوتا تھا کہ ’’الصلوٰۃ علی ترجمان القرآن‘‘۔
    قرآن میں والدین سے حسن سلوک کی بار بار تلقین اور ’’ وإن جاهداك على أن تشرك بي ما ليس لك به علم فلا تطعهما وصاحبهما في الدنيا معروفا ‘‘کو سمجھنے اور تفسیر و تشریح کرنے کے باوجود ابن تیمیہ عمومی طور پر کیسے غیرمسلم والدین(مشرک) کے قتل کا فتویٰ دے سکتے ہیں؟ جبکہ مسلمان والدین کا قتل تو بطریق اولیٰ عدم جواز اور حرام ہے۔ یا للعجب!!

    خلاصہ کلام

    اگر فتویٰ یا کتب سے متاثر ہونے اور دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کے محاسبے اس طرح ہونے لگیں کہ فلاں شخصیت اور کتاب سے وہ متاثر ہوئے تھے تو پھر تو مطالبہ دور تک پہنچے گا۔ سید موودوی، سید قطب اور ابن تیمیہ سے بات آگے بھی نکل سکتی ہے اور بہت دور تک جاسکتی ہے۔ پھر تو تبع تابعین اور تابعین سے آگے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر سوال شروع ہوسکتے ہیں۔ اگر یہی رویہ برقرار رہتا ہے تو یہ مطالبہ پھر انبیاء کرام علیہم السلام اور کتب میں سے ’’قرآن‘‘ تک پہنچ سکتا ہے۔ وہاں پہنچ کر کیسے دفاع کریں گے اور کس طرح دین سے وابستگی کو مصلحت پسندی کے چنگل سے آزاد کرسکیں گے؟

    اردو زبان میں علامہ ابن تیمیہؒ کی زندگی، حالات وعہد کے بارے میں تفصیل جاننے کے لیے بہت سی کتب ہیں لیکن شیخ محمد ابو زھرہ کی کتاب ”ابن تیمیہ“ اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی کتاب ”تاریخ دعوت وعزیمت جلد دوم“ زیادہ مناسب سمجھتا ہوں۔ مطالعہ کا مشورہ دیتا ہوں۔

  • اسلامی سیکولرازم کا نعرہ – فضل ہادی حسن

    اسلامی سیکولرازم کا نعرہ – فضل ہادی حسن

    10929198_936951229648955_6554040637456884104_n’’اسلامی سیکولرازم‘‘ کی بات کرنے والے کیا ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا انجام بھول گئے؟ یا پھر سرخ انقلاب کے متلاشیوں کی طرح ’’سیکولرازم‘‘ کی آغوش میں پناہ لیتے ہوئے انھوں نے اپنا بیانیہ تبدیل کر دیا ہے؟ یا اسے وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے بیانیے میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے اور جگہ بنانے کی کوشش سمجھا جائے؟ چند مہینے پہلے ’’اسلامی سیکولرازم‘‘ کے بجائے ’’مذہبی نما سیکولرز‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ لیکن تب یہ فکر لاحق ہوئی تھی کہ کہیں علمی ’’خیانت‘‘ یا ’بیانیہ‘ موسم میں افراط وتفریط کا شکار نہ ہوجاؤں۔
    خورشید ندیم صاحب سے تعلق دوست سے بڑھ کر ایک استاد و شاگرد کا بھی ہے۔ کئی دفعہ ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی ہے، اور نقد و اعتراض کے ذریعہ کچھ موضوعات کو سمجھنے اور ان سے سیکھنے کی کوشش بھی ہے۔

    لیکن گزشتہ کل جب انھوں نے اپنے کالم میں میں پاکستانی سیاست اور سیکولرازم کو ’’مقبول بیانیہ‘‘ قراردیتے ہوئے ’’اسلامی سیکولرازم‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تو حیرانی نہیں ہوئی بلکہ جس خدشہ کا اظہار کیا جارہا تھا ، وہ درست ثابت ہوا۔ رائے اور خیالات میں تبدیلی کا یہ عنصر جو ’’المورد‘‘ کے احباب کے ہاں دیکھنے کو ملتا ہے شاید کہ کہیں دوسری جگہ اس کی کوئی مثال ملتی ہو۔ چاہے وہ 1973 کے آئین کے بعد مملکت کے ’’مسلمان‘‘ ہونے سے مذہبی سیاست نہ کرنے کا مشورہ دے کر بعد میں ریاست کو ’’بلامذہب‘‘ قرار دے دینا ہو یا جہاد کے اعلان و توہین رسالت و حدود کی سزائوں کو ’ریاست‘ کی اتھارٹی اور پابندی کے زمرے میں لا کر (اور اسی طرح ہونا بھی چاہیے) لیکن مسئلہ قادیانیت سمیت بعض دیگر امور کو ریاست و پارلیمنٹ کے دائرے سے نکال کر علماء و سکالرز کا معاملہ قرار دینا ہو۔ علی ہذا القیاس۔ خاکسار کو خورشید ندیم صاحب کی کئی دینی و مذہبی رہنمائوں سے ملاقاتوں کا اہتمام کرنے کا موقع ملا، اور انھیں ایسے پروگرامات میں باصرار بلوایا جہاں دوسرے شرکاء کو اعتراض ہوتا تھا، کوشش یہی تھی کہ ان کی رائے کو سننے اور خیالات سے آگاہی کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ قربت کا کوئی راستہ نکل سکے۔ اس کوشش میں بسا اوقات احساس ہوتا تھا کہ کہیں احباب اور بزرگ میرے بارے میں کوئی خاص رائے قائم نہ کریں)

    خورشید ندیم صاحب سے جب بھی گفت وشنید ہوئی یا ملاقاتوں اور پروگرامات میں سننے کا موقع ملا تو پاکستانی سیاست پر بات کرنے سے انہوں نے ’’تقریبا‘‘ احتراز ہی کیا، مذہبی جماعتوں کے مرکزی قائدین سے ملاقاتوں کے موقع پر ان کی گفتگو کا آغاز کچھ ایسا ہی ہوتا تھا کہ ’’میں سیاست کا نہیں بلکہ مذہب و سماجیات کا طالبعلم ہوں، اس لیے سیاست سے ہٹ کر تربیت و دعوت پر ہی بات کرسکتا ہوں‘‘ مگر مذکورہ کالم میں انھوں نے بلاول زرداری اور پاکستانی سیاست پر ’’ماہرانہ‘‘ گفتگو کی۔ (ویسے یہ بھی خوش آئند ہے کہ اسلامی سیکولرزم یا بلاول زرداری کی وجہ سے وہ سیاست کی طرف آئے اور کھل کر بات کی۔

    خورشید ندیم صاحب سے پہلے ’اسلامی سیکولرازم‘ کا نعرہ جن معروف و غیر معروف چہروں کی طرف سے لگایا گیا ہے، ان سب نے اپنی نسبت بالواسطہ یا بلاواسطہ ’’المورد‘‘ یعنی جاوید احمد غامدی صاحب کی طرف کی ہے۔ اگر خورشید ندیم صاحب دبے لفظوں سے سیکولر بیانیہ کو اسلام کا لبادہ اوڑھا کر اسے ’اسلامی سیکولرازم‘‘ کا نام دے رہے ہیں اور کچھ اذہان کو ترغیب دینے کی بھی کوشش کررہے ہیں ، تو میری دانست کے مطابق یہ ان کی ذاتی رائے کم اور فکری سوچ و رائے ذیادہ ہے۔ اس وقت اہل مذہب کا وہ طبقہ جو سیکولرازم بیانیہ کا حامی اور بڑا وکیل نظر آتا ہے، ان میں خود جاوید غامدی صاحب اور ان کی فکر سے وابستہ افراد سب سے نمایاں ہیں۔ اس وجہ سے موصوف نے اپنے مضمون میں اسلامی بیانیہ (جسے انھوں نے سیاسی اسلام کا بیانیہ کہا ہے) کو ’’ناکارہ و نامکمل‘‘ قرار دینے کوشش کی نیز اسے ’دہشت گرد‘‘ تنظیموں کے ہاتھوں یرغمال بھی کہا۔
    ایک طرف اسے ناکارہ سمجھتے ہیں اور مذہب کا بیانیہ علمی طور پر پیش کرنے والا انھیں پاکستان بھر میں کوئی فرد نظرنہیں آرہا تو دوسری طرف سیاست میں بیانیہ کو صرف ’دیوبند‘ تک محدود کر دیا جسے ابھی ان کا حتمی یا دوٹوک موقف قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ ’یہاں‘ بھی تضاد نظر آرہا ہے۔

    خلاصہ:

    1 : خورشید ندیم صاحب سیکولرازم کے علمبرداروں کو ایک نیا نام و اصطلاح پیش کرنے اور اسے اسلامی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    2 : موصوف مذہبی جماعتوں کو مفلوج و اپاہج سمجتھے ہوئے مذہب کا بیانیہ پیش کرنے کے لیے نا اہل سمجھتے ہیں۔

    3 : وہ لوگ جو دینی و مذہبی پس منظر رکھنے کے ساتھ ساتھ مذہب وسیاست کے بارے میں تحفظات کا شکار ہیں انھیں ایک نئی راہ دکھاتے ہوئے ’’اسلامی سیکولرازم‘‘ کے سایہ میں پناہ لینے پر آمادہ کرتے ہیں۔

    4 : ایک لحاظ سے اپنی سوچ اور فکر کے سرخیل کو مذہب کا بیانیہ پیش کرنے کے لیے اہل اور موزوں سمجھتے ہوئے ان کےلیے ’’اعتماد سازی ‘‘ اور ” ذھن سازی ” کر رہے ہیں۔ واللہ اعلم

  • دلیل ، تازہ ہوا کا جھونکا ہے. فضل ہادی حسن

    دلیل ، تازہ ہوا کا جھونکا ہے. فضل ہادی حسن

    10929198_936951229648955_6554040637456884104_nبحث علمی ہو یا سیاسی، موضوع مغرب ہو یا اسلام، لیڈر اسلامسٹ ہو یا سیکولرسٹ، پارٹی مذہبی ہو یا لسانی، کسی بھی ایشو یا موضوع کو دلیل کی بنیاد “قبول” کرنا اور دلیل ہی کی بنیاد پر “رد” کرنا ہوگا ۔ اسی سے معاشرہ آگے بڑھے گا، تحمل وبرداشت کی صفات پیدا ہوں گی اور وہ مثبت تبدیلی آئے گی جس کے ہم سب بلاتفریق اسلامسٹ و سیکولرسٹ خواہشمند ہیں ورنہ جہاں ہم آج کھڑے ہیں اور سوشل میڈیا پر جیسے بحث جاری ہے، اسے دیکھ کر خوف آتا ہے اور گاہے گمان ہوتا ہے کہ یہ ایک لاوا ہے جو کسی وقت پھٹ کر معاشرے کو تباہی سے دوچار کرسکتا ہے ۔
    اگر استدلال کی بنیاد پر قبول و رد ہوگا اور دلیل سے گفتگو ہوگی تو فضا خوشبو سے معطر ہوگی ورنہ گھٹن اور متعفن فضا میں سانس لینا بھی مشکل و محال اور بازی ہارنے کا ذریعہ و سبب بھی بن سکتا ہے۔
    جب نظریات و افکار کے درمیان کشمکش اور جنگ و جدال عروج پر پہنچتا ہے تو زوال و تباہی کا رونما ہونا بھی تقریبا “مقدر” ہوتا ہے، مغلوب سائیڈ کےلیے جینا محال ہو جاتا ہے، نتیجتا ایک ردعمل پیدا ہوتا ہے، اور معاشرہ سکڑ کر جمود، لاعلمی و جہالت کا شکار ہوجاتا ہے۔
    آج سوشل میڈیا کے اس دور میں اگر ہم اپنے مزاج اور جذبات و خیالات کو تحمل وبرداشت اور رواداری کے پیرامیٹر سے ماپنے کی کوشش کریں تو اس وقت خود کو اخلاقی اور علمی طور پر نچلی سطح پر موجود پایئں گے۔ ہمارا معاشرہ ماڈل تو دور کی بات “تذکرہ” کرنے کا بھی قابل نہیں رہا ہے۔ “دلیل” کا جواب “گالی” سے اور “اعتراض” کا جواب “تھپڑ” سے دینا چاہتے ہیں۔ ہم علم و تحقیق کا جواب جہالت و درندگی سے دینے کا سوچتے ہیں۔ ہمارے سماج میں تحمل و برداشت کو غیرت و بہادری کے متضاد معنوں میں استعمال کیا جانے لگا ہے۔ ہم “دلیل و استدلال” کی بجائے “زور و زبردستی” سے نظریات کو ٹھونسے کے لیے حکمت عملیاں تیار کرنے لگےہیں۔

    ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہوئے:

    اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پھر سے اس روایت کو زندہ کریں۔
    جہاں بات سلیقے سے شروع ہو۔
    جہاں شائستگی و متانت کے ساتھ مکالمہ ہو۔
    جہاں بحث و مباحثوں کے دوران برداشت و اخلاق کا دامن تھاما جائے۔
    جہاں پھر سے “دلیل” کی بنیاد پر “قبول و رد” تو ہو لیکن “سرکوبی و شکست” مقصود و مطلوب نہ ہو۔

    ہمارے محترم جناب محمد عامر ہاشم خاکوانی صاحب کی قیادت میں “دلیل” کی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے جس نے ایسے حالات میں ایک اچھا قدم اٹھایا ہے۔ مجھے “دلیل” کی آمد پر بے حد خوشی بھی ہے اور میں اس پلیٹ فارم سے مثبت تبادلہ خیال کے لیے پرامید و متمنی بھی ہوں۔