Author: مولوی روکڑا

  • اسامہ بن لادن کی موت کا 2001 سے 2011 تک 11 دفعہ اعلان کیا گیا – مولوی روکڑا

    اسامہ بن لادن کی موت کا 2001 سے 2011 تک 11 دفعہ اعلان کیا گیا – مولوی روکڑا

    دہشت گردی کو تقویت اس وقت ملی جب امریکہ نے نام نہاد ”وار آن ٹیرر“ نامی جنگ میں بےگناہ لوگوں کا قاتل عام کیا. 11 ستمبر، 2001ء کو نائن الیون کا واقعہ پیش آیا اور ٹھیک چھببیس دن بعد یعنی 7 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر چڑھائی کی گئی. اس دوران دنیا کو جو ثبوت دیا گیا وہ صرف یہ کہ فاکس نیوز، سی این این، بی بی سی پر کچھ ویڈیوز چلائی گئیں جن کی تصدیق بھی کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ سوات میں کوڑے مارے جانے والی ویڈیو کی تصدیق کرنا.
    یہاں تک کہ اسامہ کے خلاف آج بھی امریکہ میں باضابطہ طور پر کوئی قانونی ایف آئی آر درج نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی عدالتی ٹرائل ہوا. فرانسیسی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق جولائی 2001ء میں اسامہ بن لادن کو گردے کے علاج کے لیے دبئی میں امریکی ہسپتال لایا گیا تھا اور وہاں پر ان کی ملاقات سی آئی اے کے اتاشی سے ہوئی. اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 11 ستمبر کو پاکستان میں کہیں زیر علاج تھا. اسامہ اس جنگ میں”نو“ دفعہ مردہ قرار دیا گیا. اسامہ کو مردہ قرار دینے والے کوئی عام شخص نہیں تھے بلکہ،
    26 دسمبر، 2001ء کو فاکس نیوز کے مطابق طالبان نے،
    18 جنوری، 2002ء کو پرویزمشرف نے،
    17 جولائی، 2002ء کو ایف بی آئی میں انسداد دہشت گردی کے اس وقت کے سربراہ، ڈیل واٹسن نے،
    اکتوبر 2002ء میں، افغان صدر حامد کرزئی نے سی این این کو انٹرویو میں بتایا کہ اسامہ اس دنیا میں نہیں رہا.
    نومبر 2005ء میں، سینیٹر ہیری ریڈ کے مطابق اکتوبر میں پاکستان میں آنے والے زلزلے میں،
    ستمبر 2006ء میں، فرانسیسی انٹیلی جنس کی ایک لیک رپورٹ میں میں بتایا گیا کہ اسامہ مر چکا ہے،
    2 نومبر، 2007 ء کو، پاکستان کی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے الجزیرہ پر ڈیوڈ فراسٹ کو بتایا کہ عمر شیخ نے اسامہ بن لادن کوقتل کر دیا تھا !
    مارچ 2009ء میں سابق امریکی فارن انٹیلی جنس افسر اور بوسٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ینجیلو Codevilla نے کہا کہ تمام ثبوتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ایلوس Presley اسامہ بن لادن کے مقابلے میں آج زیادہ زندہ ہے.
    مئی 2009ء، پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ اب اسامہ زندہ ہے ،
    اور 2011ء میں اوبامہ اور اس کے با اختیار عہدے داروں نے اسامہ کی موت کی تصدیق کی!

    ایبٹ آباد آپریشن کتنا سچا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسامہ کو مارنے کی خاطر امریکا کو 1.5 کھرب ڈالر خرچ کرنے پڑے، اس کے ساتھ ساتھ تین ہزار امریکی فوجی ہلاک اور بیس ہزار کے قریب زخمی ہوئے. لیکن باوجود اس کے اسامہ کے مردہ جسم کو نہ میڈیا کو دکھایا گیا اور نہ امریکہ کی عوام کو جن کے ٹیکس سے افغانیوں اور پاکستان کے قبائلیوں کے چیتھڑے اڑائے گئے!

    دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلمان ممالک اور لیڈروں کا کردار کوئی خاص نہیں رہا، جہاں پاکستان اتحادی تھا وہاں مشرق وسطی میں عرب ممالک بھی امریکہ کے ساتھ کھڑے تھے. یوروپ اور امریکہ کے ساتھ دنیا بھر میں ہونےوالے جرائم اور دہشت گردی کو اسلام اور دہشت گردی کے کھاتے میں ڈال دیا گیا. انسداد دہشت گردی کے امریکی ماہرین کہتے ہیں کہ دہشت گردی میں اضافے کا سبب بےگناہ لوگوں کا قتل عام اور ان کے خاندان کا قتل ہے. سی آئی اے کے افسران کا ہی کہنا ہے کہ ڈرون حملے دہشت گردی میں اضافے کا سبب ہیں. اب سوال یہ ہے کہ یہ حملے کیونکر دہشت گردی میں اضافے کا سبب بنے، اس کا آسان جواب بےگناہ لوگوں کا قتل ہونا ہے. شکاگو کے پروفیسر Robert A. Pape جو بین الاقوامی سلامتی کے معاملات میں مہارت رکھتے ہیں،کے بقول وسیع تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ”خودکش دہشت گردی کی اصل وجوہات غیر ملکی فوجی تسلط ہےنہ کہ اسلام.“

    اگر مدرسے واقعی دہشت گرد پیدا کر رہے ہوتے تو مدرسوں کا سلسلہ نائن الیون کے بعد شروع نہیں ہوا تھا بلکہ دو سو سال پہلے سے برصغیر پاک و ہند میں مدارس موجود ہیں. مسلکی اختلاف تو اس سے پہلے سے موجود تھے لیکن ان اختلافات میں جارحانہ پن اس وقت آیا جب فرقہ واریت کی بنیاد پر عسکری تنظیمیں بنیں. ان تنظیموں کو ہر اس ملک نے سپورٹ کیا جس کا کہیں نہ کہیں کوئی پوائنٹ آف انٹرسٹ تھا. ان تنظیموں کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، میڈیا کا کردار انتہائی دوغلا اور لبرل اور سیکولر افراد کا جلتی پر تیل ڈالنے والا کردار کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا. وہ علمائے کرام جو حق زبان پر لائے، انھیں قتل کروا کر فرقہ واریت کو اور ہوا دی گئی.

    دہشت گردی کے اضافہ میں ایک اور اہم وجہ حکومتی سطح سے لے کر عوام تک یکطرفہ انصاف ہے، جس کا فائدہ دہشت گرد تنظیموں نے اٹھایا. ڈرون حملوں میں مارے جانے والے اور زخمی ہونے والوں کے لواحقین نے ایسی تنظیموں کے لیےایندھن کا کام کیا، اس سے دہشت گرد تنظیموں اور دوسرے ممالک کے پوائنٹ آف انٹرسٹ کو کامیابی ملی کیوں کہ ہم بحثیت قوم یکطرفہ انصاف اور یکطرفہ آنسو بہانے کے عادی ہو چکے ہیں.
    میرے ایک دوست نے کیا خوب کہا !
    Our sorrow, our sympathies and our EMPATHIES are directly proportionate to the quality of life a victim had
    ہمارے دکھ اور ہمدردی کی گہرائی کا انحصار اس بات پر ہے کہ نقصان اٹھانے والے کا میعار زندگی کتنا بلند تھا
    بلند معیار زندگی => زیادہ دیرپا غم ، زیادہ ہمدردی
    پست معیار زندگی => فی الوقت دکھ کا اظہار ، ہمدردی کی کمی یا فقدان
    (جاری ہے)

  • ٹوئٹر یاترا – مولوی روکڑا

    ٹوئٹر یاترا – مولوی روکڑا

    غنودگی طاری ہوئی تو خود کو ٹوئٹر پر پایا. کیا دیکھتا ہوں کہ تحریک انصاف کے ٹرینڈ میکر ہر روز کسی نئے ٹرینڈ کے ساتھ کسی نہ کسی کی عزت نیلام کر رہے ہیں، پھر سوچا کاش الیکشن بھی ٹوئٹر پر ہوتے تو جناب عمران خان صاحب آج دھاندلی دھاندلی تو نہ کر رہے ہوتے. اس میں شک تو کوئی نہیں کہ اس الیکشن میں دھاندلی ہوئی، لیکن کیا کرے ہمارا ملک کا نظام دھاندلی کے بنا چل ہی نہیں سکتا، اس لیے خان صاحب کوشش تو اچھی کر رہے ہیں، لیکن ان کے ساتھ جو چمچے ہیں وہ بھی تو دھاندلی زدہ ہی ہیں.

    خیر پھر کیا دیکھتا ہوں کہ مسلم لیگ کے نون میم عمران خان کی ذاتی زندگی سے لے کر ریحام خان کے ماضی تک کو نندی پور پراجیکٹ کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں، اسی وجہ سے سیاست ڈاٹ کام پر بھی پاپندی لگا دی گئی. مسلم لیگ نون نے پنجاب کو اگر کچھ نہ دیا تو شہباز شریف جیسا خادم ضرور دیا، لمبے بوٹ ہوں یا پھر فوری نوٹس کی پھرتیاں اس میں جناب پیش پیش رہتے ہیں. لیکن عملی طور آج تک خادم اعلی نے جتنے بھی نوٹس لیے ان کا کوئی رزلٹ نہیں نکلا. پنجاب پولیس کی غنڈہ گردی تو پنجاب کی شان ہے اس کے خلاف آواز اٹھانا گناہ کبیرہ ہے، یہی وجہ ہے ماڈل ٹاؤن کے لوگوں کو وہ سبق سیکھایا کہ طاہر القادری صاحب اپنا کفن ساتھ ہی لے گئے اور رانا ثنا اللہ کا کچھ نہ بگڑا! مریم نواز کو ٹوئٹر پر دیکھ بہت خوشی ہوئی لیکن آج تک ان کے ایک بھی ٹویٹ کی سمجھ نہیں آئی. مسلم لیگ کی تجربہ کار ٹیم بھی ٹوئٹر پر موجود ہے، ان میں سب سے محترم ہمارے عابد شیر علی صاحب ہیں جو ٹویٹ کا آغاز تلاوت کے ساتھ کرتے ہیں، نیک پرہیزگار اتنے ہیں کہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے، اور نہ ہی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں، لیکن اگر ان سے کوئی جھوٹے بجلی کے بحران پر ٹویٹ کرنے کی جسارت کر لے تو یہ کہاوت صادق آتی ہےکہ آ بیل مجھے مار. مسلم لیگ نون نے عوام کے لیے کچھ اگر نہیں بھی کیا تو کوئی بات نہیں لیکن اشتہاری سکیمیں جتنی مسلم لیگ کے دور میں نکلی اتنی ہی جلدی یہ سکیمیں اپنے اختام کو بھی پہنچی ہیں، یعنی چت بھی ان کی ہے پٹ بھی ان کی ہے جیت ان کی ہے مات میری، بہرحال مسلم لیگ نون نے پاکستان کو ایسا صدر پاکستان دیا جو صدارت کے عہدے پر ایک زندہ لاش کی مانند ہیں، جس کی ایک تصویر لاکھوں کی بنی، لیکن صدر صاحب کا نہ تو سایہ محسوس ہوتا اور نہ دھوپ، اور پرویز رشید صاحب کو عمران خان کی کانفرنس کے بعد کانفرنس کرنے کی فرصت ہی کہا، اگر دن میں عمران خان پچاس بار پریس کانفرنس کرے گا، تو پرویز رشید صاحب اکیاون بار تو ضرور کریں گے چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے . پرویز رشید صاحب واحد وزیر اطلاعات ہیں جو انڈین فلموں کی امپورٹ کے لیے exempt permit دیتے ہیں ورنہ پاکستان کے امپورٹ کے قانون میں انڈین فلموں کی امپورٹ پر مکمل ممانعت ہے .

    تھوڑا آگے جان ہوا تو نعروں کی گونج کی وجہ سے غنودگی میں خلل محسوس کیا، پیچھے مڑ کر دیکھا تو پتا چلا کہ بھٹو زندہ ہے، تو یہ گڑھی خدا بخش میں کون دفن ہے جو بار بار زندہ ہو جاتا ہے. پانچ سال اس نعرے سے حکومت بھی کی لیکن روٹی ملی نہ کپڑا، اور جو مکان تھا اس پر قبضہ ہی ملا. سندھ جتنا قدیم ہے، اتنا ہی قدیم پیپلزپارٹی نے سندھ کو وزیراعلی سندھ دیا، اور تبدیلی آئی بھی تو شاہ کے بدلے شاہ ہی دیا. وزیرداخلہ کے کیا کہنے، جب سے انور سیال صاحب وزیر داخلہ سندھ بنے تب سے موصوف نظر ہی نہیں آتے، بس ایک دفعہ فریال تالپور صاحبہ کا پرس اٹھائے کچھ تصویریں دیکھی تھی. مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ جناب دیکھتے کیسے ہیں. کیا پتا اب کچھ ڈھنگ کے کپڑے پہنتے ہوں. دوسری طرف فریال تالپور صاحبہ منظرعام سے ایسے غائب ہوئیں کہ اب تو عوام کو بھول گیا ہوگا کہ وہ قومی اسمبلی کی منتخب رکن ہیں. شرجیل میمن صاحب کے ٹوئٹر پر صرف بھٹو خاندان کی تعریفوں کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا، ہاں کچھ دن پہلے شرجیل میمن صاحب شادی ہال توڑ رہے تھے، پھر ایسے غائب ہوئے جیسے اربوں کے نقصان کی وجہ سے درویشی اختیار کر لی ہو . ہائے رے ستم بلاول نے پارٹی سنبھالی تو بار بار اجراء سیاست کا جلسہ کرنا پڑھا ، پھر وہ نہ پرویز ہوئےنہ پروین !

    یہ سلسلہ جاری تھا کہ ڈاکٹر فاروق ستار ٹوئٹر پر نظر آ گئے، پھر کیا تھا، میں نے سوچ لیا آج وہ دیوار دیکھ ہی لوں جس کے ساتھ مہاجروں کو لگایا جا رہا ہے، دیوار چین کا تو سنا دیوار مہاجر کا نہیں. تیسری جنریشن چل پڑی ہے اور متحدہ قومی موومنٹ ابھی تک مہاجر ہی ہے. دوسری طرف جماعت کے بانی جناب الطاف حسین بھائی اٹھارہ سال سے خود کو خود جلاوطن کرنے والےبرطانوی شہری بھی ہوگئے. بابر غوری صاحب سچے مہاجر تھے جو صولت مرزا کے بیانات کے بعد ایسی ہجرت کی کہ دوبارہ نظر نہ آئے. بہرحال ایم کیو ایم نے کراچی کو چائنا کٹنگ، بوری انویشن اور پرچیوں والے کھیل سے متعارف کروایا جس سے سیاسی اور مذہبی جماعتوں سمیت سب مستفید ہوئے.

    ٹوئٹر پر سب سے زیادہ اکاؤنٹ میں نے جناب مولانا فضل الرحمان صاحب کے دیکھے، گستاخی کرتے ہوئے پوچھ لیا کہ ایسا کیوں؟ بس یہ گستاخی کرنے کی دیر تھی کہ جواب آیا، اے یہودی ایجنٹ! یہ اکاؤنٹ نہیں کرسی ہے جو بوقت ضرورت کسی بھی جماعت سے تحفظات دور ہونے کے بعد جمہوریت کی خاطر اس کے مل بیٹھ کر اس ہی کرسی پر ہم نظر آئیں گے. تھوڑا آگے جماعتی کارکن نظر آئے. جلسے جلوس بڑے لیکن ووٹ کوئی نہیں، پھر بھی پتا نہیں کیوں سیاست میں ہیں. سوچا کہ اے این پی کا چکر لگا لوں، پھر سوچا رہنے دو، یہاں سرخ ٹوپی اور کالا باغ ڈیم کو دفن کرنے کے سوا رکھا ہی کیا ہے.

  • ہود بھائی صاحب کے بارے میں لوگ کیا نہیں جانتے – مولوی روکڑا

    ہود بھائی صاحب کے بارے میں لوگ کیا نہیں جانتے – مولوی روکڑا

    ہود بھائی صاحب کے بارے میں لوگ کیا نہیں جانتے:

    – فزکس کے ماہرین کے ہودبھائی کی قابلیت پر زیادہ سے زیادہ اچھے کمنٹس یہی ہوتے ہیں، ذہین انسان نے اپنے آپ کو ضائع کر دیا.

    – ہود بھائی تعلیم کے فروغ کے لیے کیا کرنا چاہتے ہیں، اس کا اندازہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ان کی فزکس ڈیپارٹمنٹ کی چیئرمینی کے دور سے لگا لیں، جب آڈیٹوریم میں سیمینار کے وقت ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلمیں لگائی جاتی تھیں، ان کے بقول اسی سے طلبہ کا دماغ کھلے گا.

    – آج کل پاکستانی یونیورسٹیز میں پی ایچ ڈی پروگرام ختم کروانے کے لیے زور لگا رہے ہیں.

    – پاکستان توڑنے کی تحریکوں کی حمایت کرتے ہیں، مثلا بلوچستان کی علیحدگی کی تحریک کے اکبر بگٹی کے دور سے حامی ہیں، اکبر بگٹی کے چند آخری انٹرویوز میں سے ایک ان کی بیٹی اشا امیر علی نے کیا، دیگر قوم پرست تحریکوں کے بھی وہ حامی ہیں، اور نہ صرف ان علیحدگی کی تحریکوں کے بارے میں بولتے ہیں بلکہ ان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی ڈسکشن فورم کے نام پر برین واشنگ بھی کرتے ہیں، میں خود ایسے ڈسکشن فورمز میں شریک ہوئی ہوں.

    – سائنس کے فروغ کے دعوے کے ساتھ مشعل نامی این جی او چلاتے ہیں جو الحادی ادب کا اردو زبان میں سائنس کے فروغ کے نام پر ترجمہ کرتی ہے.

    – بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ قرآنی آیات یا انڈیا کے خلاف مواد نصاب سے نکالنے کی رپورٹس ہود بھائی کی NGO نے بنائی تھیں.

    – اکبر بگٹی کے قتل کے بعد ہود بھائی بھی تشدد کا نشانہ بنے اور کئی مہینے بینائی سے محروم رہے جو بعد میں امریکا میں علاج کے بعد واپس آئی.

    – ان کی بیٹی اشا ڈان نیوز انگلش پر میزبان رہی ہیں جبکہ دوسری بیٹی الیہ امیر علی NSF پنجاب کی صدر رہی ہیں.

    – نئی سیاسی جماعت عوامی ورکرز پارٹی کومنظم کر نے کے پیچھے پرویز ہود بھائی، اس کی بیٹی، اور ان کی یونیورسٹی کے رفقا خورشید حسنین، فرزانہ باری اور عبدالحمید نیّر شامل ہیں – بنیادی طور پر یہ پارٹی NSF کی ایکسٹینشن ہے جو الیہ امیر علی نے منظم کی تھی.

    – کچھ عرصہ پہلے تک ہود بھائی فار پریذیڈنٹ کی تحریک چلتی رہی ہے جو ہودبھائی کی NGO نے چلائی تھی – NGO میں کام کرنے والوں کے بقول اگر یہ عوامی طور پر کچھ مقبول ہو جائیں تو عبوری حکومت میں منسٹر کی سیٹ مل جائے گی-

    – پرویز ہود بھائی سیاسی طور پر MQM اور PPP کے حامی رہے ہیں.

    – اسلام آباد میں قائم Khaldunia High School ان کی سابقہ بیوی ہاجرہ احمد کا ہے، اس اسکول کے لیے ہودبھائی نے اسلام آباد میں CDA سے انتہائی سستی زمین کوڑیوں کے بھاؤ قسطوں پر حاصل کی.

    – قائداعظم یونیورسٹی کی رہائشی سکیم کی انھوں نے کھل کر مخالفت کی، اس تحریک کو وہ اپنے حالیہ انٹرویو میں اپنی زندگی کی واحد کامیابی بتاتے ہیں. حقیقت یہ ہے کہ ہودبھائی اپنی قسطیں بھی جمع کروا رہے تھے، قسطیں دینے کے بعد یہ سکیم G ١٤ منتقل ہوگئی، آج اس سکیم کی زمین پر پرویز ہود بھائی کا ایک کنال کا گھر ہے.

    – LUMS یونیورسٹی سے ہود بھائی کو نکال دیا گیا تھا کیوں کہ وہ یونیورسٹی میں وقت نہیں دے رہے تھے. اس وجہ سے LUMS کے خلاف میڈیا پر ایک تحریک چلائی گئی. VC عادل نجم کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ایک فوجی کے بیٹے اور دیوبندی مسلک کے ہیں، اس وجہ سے انھوں نے ہود بھائی کو نکالا ہے.

    – یہ عادل نجم کا آخری کنٹریکٹ تھا، اس کے بعد پرویز ہود بھائی کے دست راست سید خورشید حسنین کے کزن سہیل نقوی کو VC بنوا دیا گیا.

    میری پرویز ہود بھائی صاحب سے پہلی ملاقات 4،5 سال کی عمر میں ہوئی، ہمارے ان کے ساتھ خاندانی تعلقات تھے. بعد میں یونیورسٹی میں ان کی شاگرد بھی رہی.

    (ایک محترمہ کا مولوی روکڑا کے نام خط)

  • مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (5) – مولوی روکڑا

    مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (5) – مولوی روکڑا

    پرویزمشرف کی بولڈ بیان بازی اور تقریروں سے تو ہر کوئی متاثر تھا، میں ابھی بھی انھیں اچھا سپیکر مانتا ہوں، لیکن عملی طور مشرف کی پالیسیز نے پاکستان کو کھوکھلا کیا، معیشت زوال پذیر ہوئی. جہاں ٹی ٹی پی ابھر رہی تھی اور پاکستان کو نقصان پہنچا رہی تھی، وہاں لبرل، سیکولر، ملحدین اور سرخ پوشوں وغیرہ نے بھی سر اٹھایا اور اپنے اپنے ایجنڈے کو فروغ دینے لگے. غیر ملکی این جی اوز کا نیٹ ورک پھیلنے لگا، یہ این جی اوز نہ صرف جاسوسی کا کام کرتیں بلکہ ساتھ ساتھ ریاستی اداروں سے عوام کو متنفر کرنے کا کام کرتی رہیں. خفیہ اداروں کے لیے ایک وقت میں بہت سے محاذ کھل چکے تھے، اور ڈبل گیم کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا. پرویز مشرف نے میڈیا کو بھی اتنی آزادی دی اور اسے اتنا پھیلنے دیا کہ اس کے نتائج اب ہمارے سامنے ہیں. قوم کی تقسیم در تقسیم کا ایک ذمہ دار یہ میڈیا بھی ہے.

    مذہبی حلقے لال مسجد آپریشن پر بٹ کر رہ گئے. یہ وہی لال مسجد ہے جس نے روس کے خلاف جہاد اور بعد کے ادوار میں اہم کردار ادا کیا تھا. لال مسجد پر میڈیا کی رپورٹنگ اور مشرف کو آپریشن کے لیے قائل کرنے والے مشیر دہرے میعار سے کام لیتے رہے اور دوسری طرف لال مسجد والے اپنی ضد پر جمے رہے. قحبہ خانہ چلانے والی آنٹی شمیم کی خاطر مسجد کا محاصرہ کوئی عقل مندانہ اقدام نہیں تھا. لال مسجد والوں کو بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں پر زور دینا چاہیے تھا کہ قحبہ خانے بند کرواؤ نہ کہ خود سے کوئی کارروائی کی جاتی. لال مسجد آپریشن کے بعد صورتحال مزید خراب ہوئی.

    افسوسناک بات یہ ہے کہ سیاسی لیڈران میں سے کوئی ایک لیڈر بھی پاکستان کی بقا کے لیے کھڑا نہیں ہوا، جمہوریت نے مک مکائی سیاست کا روپ دھار لیا، ذاتی فوائد تک محدود سیاست دانوں نے مشرف کے خلاف کوئی خاص مزاحمت نہ کی. ٹی ٹی پی کی کارروائیاں بڑھتی چلی گئیں، مسجد سے مندر، چرچ ، بازاروں میں خود کش حملے روز کا معمول بن گئے. ڈرون حملوں میں بےگناہ لوگ مر رہے تھے، ان کے بچے اور خاندان کے لوگ دہشت گردی کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال ہو رہے تھے. پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کو بھی دشمنوں نے استعمال کرنا شروع کر دیا، امریکیوں کو کسی خاص سیکورٹی چیکنگ کے بغیر ملک میں داخل ہونے دیا گیا، ان دو عوامل نے بھی دہشت گردی میں اضافہ کیا.

    پاکستان میں لادین و سیکولر طبقے نے اس مفاداتی جنگ کو فرقہ واریت کا لباس پہنانے کی کوشش کی. جہاں عالمی میڈیا اسلام کو بدنام کر رہا تھا وہاں میڈیا فرقہ واریت کی فضا پھیلا رہا تھا. دہشت گردی کا نشانہ اگر اقلیت بنتی تو اسے فرقے سے جوڑ دیا جاتا، اس کے مقابلے میں اگر اکثریت سے کوئی قتل ہوتا تو اس کی چھوٹی سی خبر بنتی. حقیقت یہ ہے کہ ہر پاکستانی دہشت گردی کا شکار ہوا، کسی دہشت گرد نے مارنے سے پہلے کسی بھی مقام پر لوگوں کے مسلک و مذہب نہیں پوچھے، لیکن عوام کو لسانی و مذہبی فرقہ واریت میں تقسیم کیا گیا. اسلام پر دہشت گردی کا لیبل چپکایا گیا. ڈاڑھی والے سے پہلے مسلک پوچھا جاتا اور پھر اس مسلک کے مطابق فتویٰ لگا دیا گیا. دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا پر مختلف دہشت گرد تنظیموں کے نمائندے ذمہ داری قبول کرتے لیکن آج تک چاہے وہ افغانستان میں بیٹھا ہو یا پاکستان میں، کسی ترجمان کا آپریشنل محل وقوع ٹریس نہیں کیا جا سکا. بہت سے دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری ایک سے زیادہ تنظیموں نے قبول کی. اس کے علاوہ ٹی پی پی کے نام پر سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز نے اپنے مخالفین اور اپنے ہی لوگوں کو معاف نہ کیا اور ایک تیر سے دو شکار کھیلے. الزام تراشی کے کھیل اور بریکنگ نیوز کی دوڑ نے ذہنوں کو نفرت اور انتشار کا شکار بنا دیا.

    پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد آصف زرداری کی حکومت کی شکل میں ملک پر ایک اور زوال آیا، معیشت مزید لولی اور لنگڑی ہو گئی. جمہوریت و سیاست جمہوری انتقام کے طور پر سامنے آئے. بےنظیر بھٹو کے قتل کا معمہ تو کبھی حل نہیں ہو گا لیکن اس دور حکومت میں ملک کی جڑیں مزید کھوکھلی کی گئیں. ٹرانسپیرنسی کے مطابق اس حکومت کے آخری تین سال میں 3000 ارب روپے کی کرپشن ہوئی. اور نواز حکومت کیا گل کھلا رہی ہے اس کے کوئی اعداد و شمار تو میرے پاس نہیں مگر یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس نے قرضے لینے کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں. جس ملک میں اقتصادی بحران عروج پر ہو وہاں کسی عام شخص کا پیسے کے حصول کے لیے ڈاڑھی رکھ کر دہشت گرد بن جانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے.

    اس وقت مفاداتی جنگ مذہبی سلوگنز کے ساتھ لڑی جا رہی ہے. یہ سچ ہے کہ ان تنظمیوں میں کچھ وہ لوگ بھی شامل ہین جو کسی وقت افغانستان میں روس کے خلاف لڑتے تھے، مگر یہاں پالیسیز بدلیں تو ان کے مفاد بھی بدل گئے، روس کے خلاف لڑنے والے کچھ دھڑے اقتدار کے لیے بھی لڑتے رہے. ( جاری ہے )

  • مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (4) – مولوی روکڑا

    مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (4) – مولوی روکڑا

    قبل اس کے کہ جنرل مشرف کے امریکہ کے آگے ڈھیر ہونے سے آگے کی کہانی بیان کی جائے، یہاں اس ڈسکشن کے بارے میں بتانا مفید ہوگا جو آج تک میرے غیر ملکی کسٹمر، کو ورکر، دوست احباب سے دہشت گردی اور امریکی یلغار کے موضوع پر ہوئی. تقریبا اسی فیصد لوگوں کے تجزیے کا نچوڑ یہ ہے کہ امریکہ اور دوسرے اتحادی ممالک اپنی فوج کو افغانستان اور عراق پر حملے کے لیے پہلے سے تیار کر چکے تھے، ان کو مقامی زبانیں سکھائی گئیں، صحافی تیار کیے گئے جنہوں نے اس حد تک پروپیگنڈا کیا کہ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہو گیا. اس سب کا مقصد قدرتی وسائل کا حصول، ایشیا اور مشرق وسطی میں اپنی فوجی طاقت، اور اقتصادی برتری کو برقرار رکھنا شامل ہیں.

    نائن الیون کے بعد پاکستان میں جو انتشار پھیلا ہے، نہیں معلوم کہ اس کا خمیازہ کتنے سالوں تک بھگتنا پڑے گا. اس سے مسلم ممالک میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، وہ کب سنبھلیں گے اور اس سے نکلیں گے، اس کا اندازہ لگانا بھی بہت مشکل ہے. جنرل مشرف اونٹ کی کروٹ دیکھے بغیر امریکی اتحادی تو بن بیٹھے لیکن اس کا سب بڑا اور پہلا نقصان ریاست نے اٹھایا، جس نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کھڑی کی تھی تاکہ پاک افغان سرحد سے کوئی خطرہ نہ ہو اور بھارت یا کوئی اور دشمن اسے ہمارے خلاف استعمال نہ کر سکے. امریکہ کا اتحادی بنتے ہی پاکستان اور طالبان کے درمیان بداعتمادی پیدا ہوئی اور اس وقت گہری ہوگئی جب افغان سفیر عبدالسلام ضعيف کو امریکہ کے حوالے کر دیا گیا. امریکی جنگ سے کشمیر جہاد بری طرح متاثر ہوا اور بھارت کو شہ مل گئی کہ وہ ان تنظیموں کو بھی دنیا میں دہشت گرد قرار دلوائے جو کشمیر میں آزادی کی جنگ لڑ رہی تھیں، اور جن کی کاروائیاں پی ٹی وی پر دیکھائی جاتی تھیں. اسی کے اثرات ہیں کہ کشمیر جہاد پر بات کرنا اب خاصا مشکل ہو گیا ہے.

    دوسری طرف سال 2000 کے بعد مسلح لسانی تنظیموں نے بلوچستان میں سر اٹھانا شروع کر دیا تھا. فرقہ وارانہ تنظیموں کو نوے کی دہائی میں نظرانداز کرنے کی وجہ سے اب وہ چنگاری آتش فشاں بن کر بھڑک اٹھی تھی، مارنے والے بھی اپنے اور مرنے والے بھی، سب سے زیادہ ٹارگٹ کلنگ کراچی میں ہوئی اور اس کا سہرا پرویز مشرف کے سر جاتا ہے جس نے دم توڑتی ایم کیو ایم کو زندگی بخشی، اس کا عسکری ونگ پھر سے توانا ہو گیا جس سے جان چھڑوانے کےلیے موجودہ عسکری قیادت سر توڑ کوششیں کر رہی ہے.

    پرویزمشرف پاکستان کو لبرل بنانے کے لیے آزاد میڈیا ہاؤسز اور کیا کیا بل پاس کرتے رہے. شاید ان کے نزدیک ترقی آزاد میڈیا کا نام تھا جو اب پاکستانی میڈیا کم اور غیر ملکی میڈیا زیادہ لگتا ہے. پالیسیز وہ تجزیہ نگار بنانے لگے جو کھاتے تو پاکستان کا تھے لیکن زبانیں کسی اور کی بولتے تھے. انہی میڈیا ہاؤسز نے فوج جیسے ادارے کی دھجیاں اڑائیں اور تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا. نائن الیون کے بعد اگر صحیح معنوں کسی کو فائدہ ہوا تو وہ ایسے ہی دانشور تھے جن کی جائیدادیں راتوں رات بن گئیں، وہ ایسے کروڑ پتی ہوئے جیسے چائے کی پتی پانی میں ڈالنے سے پھول جاتی ہے. ڈرون حملوں کی اجازت، لال مسجد آپریشن اور اکبر بگٹی کے قتل سے دہشت گردی نے بدترین شکل اختیار کر لی. ریاست کو ایسی جنگ میں دھکیل دیا گیا جس میں دشمن اور دوست کی تمیز کرنا مشکل ہوگیا.

    نیک محمد وزیر کے ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد طالبان کی صفوں میں مفاد کے دھڑے الگ الگ ہو گئے! اور پھر تحریک طالبان پاکستان المعروف ٹی ٹی پی کا جنم ہوا. پھر دوسرے ممالک نے اپنے پوائنٹ آف انٹرسٹ کو دیکھتے ہوئے مسلح لسانی تنظیموں کو جہاں اسلحہ اور ٹریننگ دی وہاں ٹی ٹی پی کو بھی سپورٹ کیا، ان تنظیموں کے افراد بھی کہیں نہ کہیں پاکستان مخالف کاروائیاں کرنے والی تنظیموں میں ضم ہوتے گئے. پھر وہ کھچڑی بنی کہ کچھ بھی تعین کرنا مشکل ہوگیا. کون کیا کارروائی کر رہا ہے، کون کیسے ذمہ داری قبول کر رہا ہے، کس پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے، اس میں کیا اور کتنا سچ کچھ پتا نہیں.
    (جاری ہے)

  • مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (3) – مولوی روکڑا

    مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (3) – مولوی روکڑا

    نوے کی دہائی میں جہاں فرقہ واریت کی چنگاری پاکستان کو اپنے لپیٹ میں لے رہی تھی وہاںروس کو افغانستان میں شکست دینے کا صلہ ہمارے دیرینہ دوست امریکہ نے پاکستان پر اقتصادی پابندیوں کی صورت میں دیا. جب پاکستان نے 1998ء میں انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں جوہری دھماکے کیے تو امریکہ نے ایک دفعہ پھر اقتصادی پابندیوں کا بوجھ پاکستان پر ڈال دیا جس کی وجہ سے کچھ ہی دنوں میں روپے نے ڈالر کے مقابلے میں 30 فیصد قدر کھو دی. روز مرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں 25 فیصد اضافہ ہو گیا. کراچی اسٹاک ایکسچینج کی قدر 40 فیصد کم ہو گئی، چنانچہ اس وقت کے وزیراعظم جناب میاں نواز شریف مجبورا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قدموں میں جا بیٹھے. اس مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونے والا ملک صرف سعودی عرب ہی تھا، جس نے پاکستان کو مفت تیل دیا، اور مالی امداد کی.

    پرویزمشرف نے مارشل لا لگایا تو پابندیوں کے باوجود شروع میں معیشت میں بہتری آئی مگر پھر نائن الیون جیسا سانحہ رونما ہو گیا. نائن الیون کیوں ہوا، کس نے کیا؟ اس کی حقیقت تو شاید کبھی معلوم نہ ہو، لیکن امریکہ کی اسامہ دشمنی کا آغاز اس سے نہیں ہوا تھا بلکہ اصل مسلہ تب شروع ہوا جب 1990ء میں عراق نے کویت پر حملہ کیا تو سعودی عرب کو شک ہوا کہ عراق کا اگلا ہدف سعودی عرب ہوگا، اسی خدشہ کی بنا پر سعودی حکومت نے امریکی فوجیوں کو اپنی سرزمین میں تعینات کرنے کی اجازت دی، جس پر اسامہ بن لادن نے تنقید کی کیوں کہ اسامہ نہیں چاہتا تھا کہ کفار کی افواج کے پاؤں مقدس سرزمین پر پڑیں، اسی بنا پر امریکہ کو اسامہ بن لادن ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا. امریکی پروپیگنڈے کی وجہ سے اسامہ کو سعودی عرب سے دربدر کر دیا گیا اور اسامہ یمن چلا گیا! لیکن پروپیگنڈا جاری رکھا. امریکی حکومت کے لیے اسامہ افغان جہاد کے دوران عظیم مجاہد، عظیم کمانڈر اور افغانستان کا رکھوالا تھا، کیوں کہ وہ روس کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا اور اس کا فائدہ کہیں نہ کہیں امریکا کو ہو رہا تھا، اسی لیے اسامہ بن لادن اور اس کے جنگجوئوں کوامریکی اور سعودی حکومتیں مالی امداد فراہم کرتی تھی. بعض تجزیہ کاروں نے یہاں تک کہا کہ اسامہ بن لادن نے سوویت یونین کے خلاف جہاد کے لیے سی آئی اے سے سکیورٹی ٹریننگ لی تھی، اور اسامہ کو مقدس جنگ کا ہیرو قرار دیا گیا تھا.

    اسامہ اس وقت دہشت گرد بنا جب اس نے امریکی کی مڈل ایسٹ خاص کر سعودی عرب میں موجودگی پر تنقید کرنا شروع کی. اسامہ پہلا شخص نہیں تھا جسے اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، نیلسن منڈیلا جیسا عظیم رہمنا بھی مغرب کی نظر میں کبھی دہشت گرد تھا، اسامہ اور نیلسن منڈیلا کی دہشت گردی اور ہیرو کی داستان میں فرق اتنا ہے کہ نیلسن منڈیلا پہلے انگلینڈ کی نظر میں کالا دہشت گرد اور بعد میں ہیرو ہوا جبکہ اسامہ امریکہ کی نظر میں پہلے ہیرو تھا اور بعد میں دہشت گرد بنا.

    نائن الیون میں ایک بھی افغانی ملوث نہیں تھا مگر افغانستان پر چڑھائی کر دی گئی کیوں کہ افغانستان کی طالبان حکومت نے اسامہ کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار دیا، افغان حکومت نے امریکا سے اسامہ کے خلاف ثبوت مانگے لیکن ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا جس سے ثابت ہوتا کہ پھر نائن الیون کا ماسٹر مائنڈ تھا. انھوں نے اسامہ کو ایک تیسرے فریق کے حوالے کرنے کی بھی پیشکش کی مگر اسے مسترد کر دیا گیا. آج پاکستان اور دوسرے بہت سے ممالک کے دشمنوں نے مغرب میں پناہ لے رکھی ہے، تو کیا مغرب ان دشمنوں کو پاکستان یا بنا ثبوت کے کسی دوسرے ممالک کے حوالے کرے گا؟ مغرب اپنے دفاع کے لیے انٹرنیشنل لا اور ہیومن رائٹس جیسی اصطلاحات کے پیچھے چھپ جاتا ہے لیکن اگر یہی پریکٹس کمزور ممالک کریں تو ان پر چڑھائی کر دی جاتی ہے. یہ تو سب جانتے ہیں کہ امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی تو پرویزمشرف کو بش کے ایک پیغام نے ڈھیر کر دیا ”تم ہمارا ساتھ کھڑے ہو یا ہمارے دشمن“
    (جاری ہے)
    پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • جو چلے جہاں سے گزر گئے – مولوی روکڑا

    جو چلے جہاں سے گزر گئے – مولوی روکڑا

    یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں صرف قادیانیت پر لکھا کرتا تھا، تب حافظ بابر بھائی نے مجھے میسج کیا اور کہا کہ جناب قادیانیت پر بہت لکھ لیا اب رد الحاد، لبرل و سیکولر ازم پر آ جائیں. اس دن کے بعد ہم اکثر پرائیویٹ چیٹ میں الحادیوں کی پوسٹس پر گفتگو کرتے تھے. جب کبھی وہ پوسٹ لگا کر کہیں مصروف ہوتے تو مجھے کہہ دیتے کہ نظر رکھنا، اور اسی طرح میں بھی ان کو میسج کر دیتا. یہ وہ وقت تھا جب نامی گرامی لکھاریوں نے الحاد و سیکولرازم پر قلم نہیں اٹھایا تھا اور الحاد سیکولرازم اور فہم و دانش کے خوشنما پردے میں چھپ کر اپنا زہر پھیلا رہا تھا. تب کوئی ایسے پیجز تھے نہ کوئی گروپ تھا اور نہ کوئی ایسی سائٹ جہاں پر رد الحاد کا کام ہو رہا ہو. یہ وہ وقت تھا جب زوہیب زیبی، حافظ بابر، ارمان علی (انجان مسافر)، عمراعوان، اسلم فریادی، عبدالسلام فیصل، مرزا وسیم بیگ، فوزیہ جوگن نواز اور دوسرے ساتھیوں کی ٹیم تھی جن کا مقصد ملحدین کے اعتراضات کا نہ صرف مفصل جواب دینا تھا بلکہ دوسرے مسلمان ساتھیوں کی اس فتنہ کے خلاف تربیت بھی مقصود تھی۔

    ان دنوں میں الحادی فتنہ کے بانی کھلے عام نہ صرف گستاخیاں کرتے بلکہ عام مسلمانوں کا مذاق بھی خوب اڑاتے تھے. تب سب سے پہلے حافظ بابر نے ہی ان کے مکروہ طنز کو جوابی طنز سے کاؤنٹر کرنا شروع کیا. انھوں نے مفتی سیریز میں سوفٹ عزازی جیسے ملحد کو خاموش کروایا. اس طرح ان کے مینٹل نامہ، واٹس ایپ سیریز کے عنوان سے مشہور مکالمے فیس بک کے گروپوں میں آج بھی موجود ہیں. حافظ بابر ان فیس بکی گستاخوں کے خلاف اتنے قابل انداز میں متحرک تھے کہ نامی گرامی ملحدین جب بھی کوئی اپنا نیا سیکرٹ گروپ بناتے تو اس میں سے بھی ان کی حکمت عملی، پلاننگ لیک ہو جاتی تھی. آج ان ساتھیوں کی کاوشوں کی وجہ سے الحادی اپنے ہی گروپ محدود ہوگئے، ان کی جارحانہ حکمت عملی انھی پر پلٹ چکی ہے، ان کے دوغلے اور غلیظ عزائم سب کے سامنے کھل کر آ چکے ہیں. یہ اسی انتھک محنت کا نتیجہ ہے کہ اب نامی گرامی لکھاریوں سے لے کر مین سٹریم میڈیا تک اس فتنہ کے خلاف جو گونج سنائی دے رہی ہے، حافظ بابر کا اس میں بہت بڑا حصہ ہے.

    اللہ حافظ بابرعلی بھائی!‌ اللہ تعالی آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور قبر میں اپنے نور کی بارشیں فرمائے. حافظ بابر اپنی کاوشوں کی صورت ہمارے درمیان زندہ ہے اور ان شاء اللہ زندہ رہے گا

  • چین میں وسط خزاں کا تہوار – مولوی روکڑا

    چین میں وسط خزاں کا تہوار – مولوی روکڑا

    آج کے دن چائنیز وسط خزاں کا تہوار مانا رہے ہیں. چینی کیلنڈر کے آٹھویں مہینے کے 15th تاریخ کا پورا چاند چائنیز سال میں سب سے بڑا اور پورا چاند ہوتا ہے، اس دن کو چائنیز The Mid-Autumn Festival یا Mooncake Festival کے طور پر مناتے ہیں. 3500 سالہ پرانی روایت کے مطابق آج کے دن چاند کی عبادت، فصل کی کٹائی کا دن اور مون کیک کھائے جانے کا تہوار منانے کا دن ہے. اس تہوار کے جشن کا اہم حصہ رنگ برنگی کاغذ کی لالٹینوں کو روشن کرنا اور مون کیک کا قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ تبادلہ کرنا ہوتا ہے.

    وسط خزاں کا تہوار چاؤ خاندان ( Zhou Dynasty) میں شروع ہوا تھا جو کہ تمام چائنیز Dynasty سے سب سے لمبی چائنیز Dynasty کہلاتی ہے، لیکن مون کیک کا تبالہ بعد میں Tang Dynasty کے وقت فیسٹیول کا حصہ بنا. اور Song Dynasty نے فصل کی کٹائی کو اس تہوار سے جوڑ دیا تھا.

    مون کیک کے بارے میں مشہور ہے کہ Yuan Dynasty کے وقت منگولوں کے خلاف چینی بغاوت کے دوران مون کیک کی ڈسٹربیوشن نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا. اس وقت کے باغی رہنما Zhu Yuanzhang نے منگولوں کے دارالحکومت میں منگولوں کی حکمرانی کے جشن کی آڑ میں ہزاروں مون کیک چینی باشندوں میں تقسیم کیے تھے، اور مون کیک کے اندر کاغذ کے ٹکڑے پر چینی باشندوں کے لیے ایک پیغام چھوڑا تھا کہ ”آٹھویں مہینے کے 15th تاریخ کو منگولوں کو مار ڈالو.“ یہ منصوبہ بندی کامیاب ہوئی اور منگولوں کو ہلاک کیا گیا اور شکست دی گئی. بعد میں Zhu Yuanzhang نے Ming Dynasty کی بنیاد رکھی. آج بھی چائنیز اس فیسٹیول کو مناتے ہیں، اور چاند کی پوجا کرتے ہیں. چین کے علاوہ یہ تہوار ویتنام اور فلپائن میں بھی منایا جاتا ہے.

  • مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (2) – مولوی روکڑا

    مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (2) – مولوی روکڑا

    اسی کی دہائی میں سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہوئی تو ملکوں کے پوائنٹ آف انٹرسٹ کا اور ایک محاذ خلیج کی جنگ کی صورت میں کھل گیا. ایران اور عراق کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو امریکہ، اسرائیل اور دوسرے ممالک نے اپنے اپنے مفاد کے پیش نظر فیصلے کیے. امریکہ اور برطانیہ نے کیمیکل ویپن (Chemical weapon) عراق کو دیے اور ساتھ میں guaranteed loan یعنی امریکا کے ٹیکس payer کا پیسہ ڈبل کیا. فنانشل ٹائمز کے مطابق امریکہ کی جن کمپنیز نے چور دروازے سے عراق کو اپنی ٹیکنالوجی بیچی، ان میں نامی گرامی ہیولٹ پیکارڈ Hewlett – Packard، اور Tektronix اور میٹرکس (Matrix) شامل تھیں. فرانس نے عراق کو ہائی ٹیک فوجی سازوسامان اور یورینیم فروخت کی. پرتگال نے بھی یورینیم فروخت کیا. برطانیہ نے عراق کو Sodium cyanide for chemical weapons، اور پلوٹونیم، اور گیس سپیکٹرومیٹر ( gas spectrometer) فروخت کیے. جبکہ ایران کو اسرائیل نے 75 ملین امریکی ڈالر مالیت کے ہتھیار اسرائیل ملٹری انڈسٹریز کے اسٹاک سے فروخت کیے. اس خلیجی جنگ میں سعودی عرب کا پوائنٹ آف انٹرسٹ عراق کو سپورٹ کرنا تھا، وہاں پاکستان کا پوائنٹ آف انٹرسٹ ایران کو سپورٹ کرنا تھا، اس وقت کے صدر ضیاء الحق جس کو آج ہر سیکولر گالی دینا فرض بلکہ سیکولرزم کی معراج سمجھتا ہے، اس کے لیے عرض ہے کہ اسی ضیاء الحق نے عراق ایران جنگ میں ایران کا نہ صرف ساتھ دیا تھا بلکہ surface-to-air missile دیے اور خفیہ مالی امداد بھی کی، باوجود اس کے سعودی عرب اور امریکہ کا بہت زیادہ پریشر تھا. اس کے علاوہ چائنیز ہتھیار ، اور امریکہ کے وہ ہتھیار جو افغان جہاد کے نام پر لیے گئے تھے، وہ بھی ایران کو دیے گئے.

    اس خلیجی جنگ کی گود سے مسلم ممالک میں جو تنازع پیدا ہوا، وہ سنی شیعہ جنگ کا روپ اختیار کرکے فرقہ وارانہ شکل میں ڈھل گئی. مذہبی رہنمائوں نے ایک دوسرے پر قسم قسم کے حملے کیے، اس کے اثرات پاکستان میں بھی ظاہر ہونے لگے، ایک طرف توہین آمیز لٹریچر، صحابہ کرام کو گالیاں، ازواج مطہرات پر بہتان سامنے آئے تو نتیجتا دوسری طرف سے کفر کے فتویٰ سر عام ہونے لگے. اس توہین آمیز لٹریچر کی وجہ سے پاکستان میں فرقہ وارنہ اختلاف کتابوں سے نکل کر سڑکوں اور تقریروں میں آ گئے، اور پاکستان کو ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش کی طرف دھکیلتے گئے. اس کےلیے تنظیمیں بنیں، جنھوں نے بعد ازاں مسلح جتھوں کی صورت اختیار کر لی. یہ تھی وہ سوغات جو ایران عراق کی صورت میں پاکستان کو نصیب ہوئی. اس فرقہ وارانہ جنگ میں جہاں دوسرے ممالک نے اپنا اپنا پوائنٹ آف انٹرسٹ تلاش کیا وہیں خود پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ان تنظیموں کو اپنے سیاسی فوائد کے لیے استعمال کیا اور ان کے ساتھ مل کر الیکشن لڑے اور جیتے. برادر اسلامی ممالک نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے اپنے فرقے کی تنظیموں کو نہ صرف فنڈنگ فراہم کی بلکہ گوریلا ٹریننگ سے بھی لیس کیا جس کے شواہد اب سامنے آ رہے ہیں. آج اس فرقہ واریت کا ملبہ ضیاء الحق اور افغان جہاد پر ڈالا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خلیجی جنگوں کا شیعہ سنی تنازعے کی شکل اختیار کرنا پاکستان میں اس فرقہ واریت کی بنیادی وجہ ہے. توہین آمیز لٹریچر کی اشاعت سے اشتعال پھیلا، شدت میں اضافہ ہوا اور اس نے باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر لی جس میں دونوں طرف مرنے والے عام شہری ہیں. اگر فرقہ واریت کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو نہ صرف بلاتفریق کالعدم تنظیوں کا خاتمہ کرنا ہوگا بلکہ توہین آمیز لٹریچر پر بھی پابندی لگانی ہوگی اور دیگر ممالک کی مداخلت کا بھی قلع قمع کرنا ہوگا.

    نوے کی دہائی میں پاکستانی توجہ کشمیر جہاد اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کو سہارا دینے میں مرکوز رہی. پاکستان کے اندر فرقہ وارنہ تنظیموں پر سیاسی چھتر چھایا ہونے کی بدولت پولیس اور دوسرے اداروں نے اسے کنٹرول کرنے کو خاص ترجیح نہیں دی جس کی وجہ سے سنی اور شیعہ فرقے کے وہ نامی گرامی علمائے کرام، پروفیسرز اور ڈاکٹرز بھی قتل ہوئے جن کا فرقہ واریت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا. سیاسی جماعتوں نے اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کے لیے عسکری ونگز سے چشم پوشی کی. وہ ممالک جن کے پوائنٹ آف انٹرسٹ اس وجہ سے بڑھ گئے تھے انہوں نے بھی اس فرقہ وارانہ کشمکش کو بڑھاوا دیا، ان دنوں پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا تھا اور ریاستی ادارے ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مصروف رہے، اور اندرونی معاملات پولیس جیسے ادارے پر چھوڑ دیے گئے. سیاسی قیادت اور ایلیٹ کلاس نے ہر کیس میں سیاسی مداخلت کو جیسے فرائض میں شامل کر لیا ہو، مقصود اپنی قوت میں اضافہ ہو، اس تناظر میں معیشت کی مضبوطی پر توجہ نہ رہی، نتیجتا بےروزگاری بڑھتی گئی اور نوجوان ان تنظیموں کے ہاتھ چڑھتے گئے !
    (جاری ہے)

    پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (1) – مولوی روکڑا

    مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (1) – مولوی روکڑا

    آج کل اگر کوئی دہشت گردی کی وجوہات پر سوال اٹھائے تو وہ ہمارے کچھ طبقوں کے لیے دہشت گرد سے کم نہیں ہے ! اور کوئی خاموشی سے اپنی زندگی گزار رہا ہو یا پھر دہشت گردی کے عوامل سے ہٹ کر کچھ دینی کام کر رہا ہو، اس کو بھی مشکوک نظروں سے دہشت گردوں کا سہولت کار وغیرہ سمجھا جاتا ہے. نائن الیون کے بعد تو دہشت گردی کا ٹھپہ جیسے ہر کسی نے اٹھا رکھا ہے اور جہاں کہیں کوئی داڑھی والا نظرآئے، اس کی کی توثیق دہشت گردی کی مہر سے کر دی جاتی ہے !

    کسی بھی ملک میں خاص طور اکیسویں صدی میں اٹھنے والی تحریکوں، انقلابات، جنگوں وغیرہ سے دوسرے ممالک کے تھنک ٹینکوں نے اپنے قومی مفاد کے ”پوائنٹ اف انٹرسٹ“ کو ضرور تلاش کیا ! اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے مختلف حیلے ہتھکنڈے استعمال کیے ! تاکہ اپنا مفاد پورا کیے جا سکے ! وسیع تر قومی مفاد، اکنامک انٹرسٹ! قدرتی وسائل تک رسائی، ہتھیاروں کی صنعت کا فروغ، دوسری قوموں پر برتری کا حصول! ان مفادات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مختلف اصطلاحات کا استعمال کیا جاتا رہا ہے اور کیا جا رہا ہے تاکہ اپنے مفاد کےلیے کھیلی جانے والی ”ڈرٹی گیمز“ کا جواز پیش کیا جا سکے!

    دوسرے ممالک کسی ملک میں اپنے مفاد تب ہی تلاش کر پاتے ہیں جب اس ملک کے اندرونی حالات خرابی کا شکار ہوں ! اتنی تمہید باندھنے کا مقصد یہ کہ میں ابھی پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی پر جو بات کرنے جا رہا ہوں، اس میں ہمارا بحثیت قوم کتنا کردار ہے اور اس کے علاوہ ایسے کون کون سے فیکٹر ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ملک میں انتہاپسندی مذہبی اور لبرل طبقے میں گھر کر گئی!

    مفادات کا پس منظر!
    پاکستان بنتے ہی اسے سب سے پہلا زخم کشمیر کا لگا جب انڈیا نے کشمیر میں اپنی فوج داخل کر دی! 1971ء میں ایک اور زخم بنگلہ دیش کی صورت میں لگا جس کی وجہ سے پاکستان کے اندر پولیٹیکل اور اقتصادی زوال شروع ہوا اور ریاستی اداروں کی افادیت عوامی سطح پر ڈگمگانے لگی. کچھ ہی عرصۂ بعد سوویت افغان جنگ کا محاذ کھل گیا اور سوویت یونین کو افغانستان میں ہی روکنے کے لیے ریاستی ادارے سوچ بچار میں پڑ گئے، دوسرے ممالک نے بھی اپنا پوائنٹ آف انٹرسٹ تلاش کر لیا، امریکہ اس میں سرفہرست تھا. پاکستان جہاں افغان مزاحمت کو جہاں ریاستی سطح پر سپورٹ کیا، وہیں پاکستان سے انفرادی و تنظیمی قوت کو بھی تیار کیا گیا. اور اس انفرادی قوت کا حصول مذہبی طبقوں سے لیا گیا. لال مسجد جیسی مساجد اس وقت مجاہد بھرتی کرنے کے لیے استعمال ہوتی رہیں اور ان کو مغرب اور امریکہ میں فریڈم فائٹر، مجاہدین جیسے لقب سے نوازا گیا. سنی مجاہدین کو پاکستان، سعودی عرب، امریکہ اور اتحادی سپورٹ کرتے تھے جبکہ شیعہ دھڑوں کو ایران اور اتحادیوں کی سپورٹ حاصل تھی. سوویت یونین کی افغانستان میں شکست بعد ان دھڑوں کو اسلحہ سے لیس اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا، امریکہ عمیت عالمی برادری اور اتحادیوں نے آنکھیں پھیر لیں.

    افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی ہوئی تو کشمیر نیا محاذ تھا، مجاہدین نے جس کا رخ کیا، حکومت و ریاست کی افغانستان جیسی اعلانیہ سپورٹ اور پالیسی تو یہاں میسر نہیں تھی مگر کسی نہ کسی سطح پر تائید و رضامندی اس میں شامل تھی، قوم نے یہاں بھی نہ صرف ساتھ دیا بلکہ شہروں سے گاؤں تک چندے بھی جمع ہوئے، اور پھر جو تنظیمیں سامنے آئیں، ان میں ہر وہ نوجوان شامل ہوا جو اپنے کشمیری بھائیوں بہنوں کے لیے دلی درد رکھتا تھا! مذہبی رجحان رکھنے والے نوجوان اس میں نمایاں اور آگے تھے. اس وقت ہمارے لبرل طبقے کے نوجوان دوسری قوموں کو نقالی کرنا سیکھ رہے تھے. بہرحال یہ تنظیمیں انڈیا کے مدمقابل ایک مزاحمتی فورس کی صورت میں سامنے آئیں، اس کی 7 لاکھ فوج کو وہاں انگیج کر لیا.
    ( جاری ہے )

    دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں