ہوم << اپنا اپنا پاکستان. ڈاکٹر منصور احمد باجوہ

اپنا اپنا پاکستان. ڈاکٹر منصور احمد باجوہ

میں شہر کے ایک کنارے پر، محلہ دھونس پورہ کے ، ایک کچے مکان میں رہتا ہوں۔بڑی سڑک سے کوئی چار کلومیٹر دور،دائیں بائیں بیس ، آڑی ترچھی ، بل کھاتی ، گلیاں مڑ کر اپنے گھر تک پہنچتا ہوں۔جوں جوں آگے بڑھتا ہوں راستہ تنگ ہوتا جاتا ہے ، حتیٰ کہ میرے مکان تک پہنچتے پہنچتے،سرنگ نما سا رہ جاتا ہے، جس میں سے بمشکل ایک سائیکل گزر سکتا ہے۔ اسی راستے پر ، ارد گرد کے تمام گھروں کا گندا پانی نکل کر، ندی کی طرح، راستے کے عین درمیان میں بہتا ہوا، ایسے ہی کسی دوسرے محلے کی طرف جاتا ہے۔محلے کے چھوٹے چھوٹے بچے ، سارا دن اس میں کشتیاں چلا چلا کر خوش ہوتے ہیں ۔ یہی ان کی واحد تفریح ہے۔کہیں اس کی چوڑائی دو فٹ، کہیں چار فٹ اور کہیں چھ فٹ ہو جاتی ہے، جہاں ہم نے قدم قدم اینٹیں رکھ کر راستہ بنایا ہوا ہے۔سائیکل سر پر اٹھا لیتے ہیںاور اینٹوں پر پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے،گندگی کا یہ پل صراط عبور کرتے ہیں۔ بارش ہو جائے تو عورتیں اور بچے تو محصور ہو جاتے ہیںمگر میں مزدوری کی تلاش میں، جوتے سر پر رکھے،، پائنچے رانوں تک اٹھائے، کچھ چلتا ، کچھ اٹکتا،کچھ گرتا ، کچھ سنبھلتا،کسی نہ کسی طرح یہ بحرِ گند عبور کر ہی لیتا ہوں۔ دھونس پورہ اسے اس لئے کہتے ہیں کہ سارا ناجائز تجاوزات پر مبنی ہے اور ہم لوگوں نے اپنی غربت کی دھونس پر، دو دو چار مرلوں پر، دائیں بائیں مٹھیاں گرم کرکے، قبضہ کرکے ، کچے پکے، ٹیڑھے میڑھے، مکان بنائے ہوئے ہیں۔ اصل دھونسئیے، یعنی کمیٹی اور پولیس والے بھی، و قتاً فوقتاًاِ دھر کا چکر لگا کر ہماری خبر لیتے رہتے ہیں۔ اس خبر گیری کے عوض ہم سب پچاس پچاس، سو سو اکٹھے کرکے ان کی خدمت کرتے رہتے ہیں۔
میرا لیڈر اسلام آباد میں دس ایکڑ کے فارم ہائوس میں رہتا ہے۔چہار طرف پانچ پانچ سو فٹ کھلی شاہرائیںاس کے گھر پر آ کر گلے ملتی ہیں۔پھلوں پھولوں اور مہکتی فضائوں میںیہ گھر جنت کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ بیسیوں مالی اور بیلدار ہر وقت گھر کو سجانے اور سنوارنے میں لگے رہتے ہیں۔ گھنٹوں بارش ہو تب بھی پانی کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔ در پر باوردی ، چست و چالاک دربان نظر آتے ہیں جو مجھ جیسے لوگوں پر نظر رکھتے ہیں کہ کہیں اس محل کے گرد و نواح میں ، اپنے گندے قدموں سے ، اس کی پاک صاف فضا کو بھی آلودہ نہ کر دیں۔کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کی مجال نہیں کہ اس محل کے نزدیک پھٹک سکے ۔محل کے اندر خونخوار کتے بھی بھی بھونکتے رہتے ہیں کہ خبردار ادھر کا رُخ نہ کرنا ورنہ ہم سے برا کوئی نہ ہو گا۔یہ اس کے بہت سے محلوں میںسے ایک ہے۔سنا ہے اس کے ایسے ہی محل لاہور اور کراچی میں بھی ہیں۔شنید یہ بھی ہے کہ لندن اور نیویارک میں بھی اس کے عالیشان بنگلے اور فلیٹ اس کی آمد کے منتظر رہتے ہیں۔
میں تیس سال کا ہوں مگر لگتا پچاس کا ہوں۔میری بیوی پچیس کی ہے مگر لگتی وہ بھی پچاس کی ہے۔ اس لئے جس گھر میں کام کرتی ہے ، سبھی اسے مائی ہی کہتے ہیں۔ میری شادی کو دس سال ہو گئے ہیں۔ میرے آٹھ بچے ہیں۔ لوگ مجھ سے مذاق کرتے ہیں۔ پوچھتے ہیں یہ دو سال کا وقفہ کیسے آ گیا۔ میں بھی ہنس دیتا ہوں ۔ ان کو بتا نہیں سکتا کہ میری ساری جائداد یہی بچے ہیں۔بڑے دو بچے ایک ورکشاپ میںکام سیکھ رہے ہیں۔ دو سال کے عرصے میں ماشاءﷲ کافی ماہر ہو گئے ہیں۔
استاد کا تھپڑ کون سے گال پر کھانا ہے،کس وقت کون سا اوزار پکڑ کر کھڑے رہنا ہے تا کہ استاد، انجن میں منہ گھسیڑے ہوئے بھی مانگے ، تو ایک لمحے کی تاخیر نہ ہو،چائے کہاں سے لانی ہے، برتن کیسے دھونے ہیں ، گاڑی پر کپڑا کیسے مارنا ہے، استاد کے کھانے سے مکھیاں کیسے اڑانی ہیں، اس کے پائوں کیسے دبانے ہیں۔ استاد بہت اچھا ہے۔ ہر ہفتے ، ہر ایک کو پورے پچاس روپے دیتا ہے(اگر کوئی گلاس وغیرہ نہ توڑا ہو تو) کہ جائو عیش کرو۔محلے کی ایک گلی میں ہی ، محلے کی ایک میٹرک پاس لڑکی نے انگلش میڈیم سکول کھولا ہوا ہے۔ چار بچے ، باری باری وہاں پڑھنے جاتے ہیں، کیا پڑھتے ہیں، مجھے علم نہیں کیونکہ میں اور میری بیوی دونوں ان پڑھ ہیںلیکن جب کبھی اے بی سی کی رٹ لگاتے ہیں، پانی کو واٹر کہتے ہیں، ون ٹو تھری کرتے ہیں تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ کسی دن بابو بن کر، کرسی پر بیٹھ کر کوئی نہ کوئی گل ضرور کھلائیں گے۔استانی سے، جسے وہ میڈم کہتے ہیں،روز ڈانٹ پڑتی ہے، کبھی یونیفارم نہ ہونے پر، کبھی فیس نہ دینے پر،کبھی پلاسٹک کی ہوائی چپل پہننے پر۔ پہلے پہل اس پر رویا کرتے تھے، شکایت کرتے تھے، مطالبے رکھتے تھے مگر اب انہیں عادت پڑ گئی ہے ۔ کوئی دو چار لگا بھی دے تو دو چار آنسو بہا کر خود ہی چپ ہو جاتے ہیں۔میرا باپ کہتا ہے یہ بڑی اچھی عادت ہے اور زندگی میں بڑا کام دے گی۔دو بچے ابھی چھوٹے ہیں۔ سارا دن گھر
کے اندر رینگتے اور ہر الٹی سیدھی چیز کو منہ میں دبا کر چباتے رہتے ہیں۔ بیوی کہتی ہے اس وجہ سے کھانے کی کافی بچت ہو جاتی ہے۔

 میرا لیڈر ساٹھ سال سے اوپر ہے۔ لگتا اب بھی تیس پینتیس سال کا ہے،خوبصورت جوان۔ میں تو جب سے دیکھ رہا ہوں ایسا ہی ہے۔ اس کا ہیر سٹائیل تو میرے سارے بچوں کو پسند ہے۔نائی سے ہمیشہ اصرار کرتے ہیںکہ اس جیسے بال بنا دو۔جواباً نائی دو تھپڑ لگا کر، ان کے سر دونوں گھٹنوں میں دبا کر ، اپنی مرضی سے مشین چلا دیتا ہے۔میرے لیڈر کے دو بچے ہیں۔ دونوں انگلینڈ میں پڑھتے ہیں۔ بالکل انگریز لگتے ہیں۔ کبھی کبھی ٹی وی پر آتے ہیںتو فر فر انگریزی بولتے ہیں۔مجھے تو ابھی سے اپنے لیڈر لگنے لگے ہیں۔ کبھی کبھار پاکستان کا بھی چکر لگاتے ہیں، آخر کل جوان ہو کر انہوں نے یہیں حکومت کرنی ہے ۔میرا لیڈر ہر مہینے ، انہیں ملنے انگلینڈ جاتا ہے۔ زیادہ دیر وہاں نہیں ٹھہرتا۔ بس پندرہ بیس روز بعد واپس آ جاتا ہے کہ یہاں کبھی لانگ، کبھی شارٹ مارچ اس کے منتظر ہوتے ہیں۔ اس کی بیوی بھی ہماری لیڈر ہے۔ تقریریں کرتی ہے، ٹی وی پر بحث کرتی ہے۔ بحث کرتے ہوئے جب ، سر کے ایک جھٹکے سے ، بالوں کی آوارہ لٹ، ماتھے سے ہٹاتی ہے تو اس کی دلیلوں میں اور وزن آ جاتا ہے۔میری بیوی پوچھتی ہے کہ تمہارا لیڈر اور اس کی بیوی سارا وقت تو گھومتے پھرتے ،تقریریں کرتے،ٹی وی پر بحث کرتے، لندن اور امریکہ کی سیریں کرنے میں گزارتے ہیں، یہ کام کیا کرتے ہیں، کھاتے کہاں سے ہیں۔اس جاہل کو یہ بھی نہیں پتہ کہ لیڈروں کے یہی تو کام ہیں، اسی کی تو یہ کھٹی کھاتے ہیں۔ باپ دادا جاگیردار تھے، ملیں ہیںکارخانے ہیں، ہم جیسے لاکھوں ان کے ملازم ہیں، انہیں اور کام کرنے کی کیا  ضرورت ہے۔ ملک اور قوم کی خدمت کر رہے ہیں اور کیا کریں؟

میرا یک پڑوسی کچھ پڑھ لکھ گیا ہے اور دن بھر ٹی وی پر تبصرے سنتا رہتا ہے۔کہتا ہے کہ ہمارا پاکستان اور ہمارے لیڈر کا پاکستان جدا جدا ہیں۔ وہ ہمارے پاکستان میں نہیں آتا اور ہم اس کے پاکستان میں نہیں جا سکتے۔میں اس سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہمارا پاکستان ایک نہیں ہو سکتا؟وہ کہتا ہے ’ہو تو سکتا ہے مگر اس کے لئے تمہیں اپنی گردن سے ایسے لیڈر کی اطاعت اور فرمانبرداری کا جوااتار پھینکنا ہو گا‘ ۔ میں اسے کہتا ہوں’یہ اگر مگر کیا لگا رکھی ہے؟ سیدھی طرح کیوں نہیںکہتے کہ ہم ہمیشہ اپنے اپنے پاکستان میں ہی رہیں گے۔‘

Comments

Click here to post a comment