ہوم << بارے کچھ پاکستان کے بیاں ہو جائے: محمد عازب

بارے کچھ پاکستان کے بیاں ہو جائے: محمد عازب

پاکستان میں دو قومیں آباد ہیں۔ ایک پنجابی اور دوسرے غیر پنجابی۔ یہاں بادشاہی نظام قائم ہے ،جس میں عوام میڈیائی پروپگینڈہ اور ذہنی غلامی کے ذریعے، دھاندلی شدہ بادشاہ چنتی ہے۔ جس کے اوپر فوج کا سپاہ سالار حکومت کرتا ہے۔ بادشاہ اور سپاہ سالار دونوں اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں۔ بادشاہ عوام کی گالیاں کھاتے ہیں۔ اور سپاہ سالار ٹیکس۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عوام اس دوران بس جوتے کھانا پسند کرتی ہے۔
پاکستانی عوام بحیثیتِ مجموعی کافر ہے۔ اس کو بہتر سمجھنے کے لئے مختلف فرقوں سے ایک دوسرے کے بارے میں آرائ لی جا سکتی ہیں۔ آللہ تعالی نے دنیا کے تمام لوگوں کی مغفرت یا عذاب کا ٖفیصلہ بروزِ قیامت کرنا ہے۔ مگر پاکستان کی معاملے میں نرمی برتی اور اس کا فیصلہ علما کے ہاتھ میں دے دیا ۔ اب وہ اپنی مرضی، موڈ اور افرادی قوت کے زور پر، کسی کو بھی کافر یا مسلمان کر سکتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے کہ ،میں ربی اول کی محفل میں جانے پر کافی عرصہ کافر کافر پھرا۔ پھر گڑگڑا، گڑگڑا کر "رفعِ الیدین" کیا تو معافی ملی۔ اس ہی طرح میرا ایک دوست، نماز کے بعد سلام نا پڑھنے کی وجہ سے کافی عرصہ مسندِ غیر مسلم پہ فائز رہا۔ اور دینا کا بدترین کافر قرار پایا۔ پھر شعیوں کے شدید احتجاج پر ان کا لقب واپس لوٹایا گیا۔
ہم پاکستانی کھانے پینے کے بہت شوقین ہیں۔ اتنے زیادہ کے کتے، بلیاں، چوہے، گدھے بھی کھا جاتے ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ ہم کو بتایا نا جائے۔ پاکستانی عوام کی مرغوب غذا کرپشن اور دھوکا دھڑی کا پیسا ہے۔ بعض لوگ اس کو پسند نہیں کرتے، کیوں کہ ان کو رشوت کے پکوان کا چسکا لگ جاتا ہے۔ پاکستانی حکمران ، جو حرام کا مال عوام جمع کرتی ہے، اس کو ان سے لے کر، اپنے حرام مال کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ اس طرح یہ فوڈ سائیکل چلتا رہتا ہے۔ لیکن یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نا ہوگا کہ، فوڈ چین میں یہاں سب سے اوپر پاکستانی افواج برجمان ہیں۔ جو سب کچھ کھا سکتے ہیں، اور ان کو کوئی نہیں کھا سکتا۔ آپ ان کو "اینیمل فوڈ سائیکل" کا ببر شیر سمجھ لیں۔
لباس کے معاملے میں ہم کوئی خاص ضد نہیں کرتے۔ ہاں شلوار قیمض پہنے والوں کو جاہل اور ملا ضرور سمجھتے ہیں۔ شلوار قمیض کے ساتھ اگر اونچی شلوار، بڑے کھلے بال اور کھلا گریبان ہو تو، آپ کا مزاج اور حال چال ڈرون سے پوچھا جائے گا۔ ہاں اگر آپ خاتوں ہیں، تو یہی حلیہ آپ کو کسی بھی نوکری کے لئےانتہائی قابل ثابت کر سکتا ہے۔ خیر، یہ تو شہروں کا معاملہ ہے۔ گاؤں دیہات اور چھوٹے شہروں میں کم عمر بچوں کو کپٹرے پہنانا، خاص کر کہ شلوار، معیوب اور اصراف سمجھا جاتا ہے۔ بڑے ہونے پریہی بچے اپنی حسرت پورے تھان کی شلوار بنا کرمٹاتے ہیں۔ مگر اکثر بزرگ اپنی کمزور یادوں میں نوجوانوں کے بچپن کے قصے ضرور دبا کر رکھتے ہیں۔ اور ہر اس جگہ اور فرد کے سامنے اس کا تذکرہ ضروری سمجھتے ہیں، جہاں ان کی عزت کی جاتی ہو۔ بات ہو اگر خواتین کی تو، دو قسم کی خواتین پائی جاتی ہیں۔ ایک، جو خوبصورت ہیں۔ دوسری، وہ جو پردہ کرتی ہیں۔
پاکستان کی معیشت کوئی خاص مضبوط نہیں۔لیکن چونکہ ہم ایک زرعی ملک ہیں، اور ناقص منصوبہ بندی کے سبب ہماری برآمدات کم ہیں۔ لہذا، ہم پوری دنیا میں دہشت گرد سپلائی کرتے ہیں۔ ویسے بھی دہشت گردوں کے معاملے میں ہم خود کفیل ہیں۔ دینا بھر میں آبادی کم کرنے کے لئے ضبط حمل کی ادویات کے استعمال پر ضرور دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں لوگ ادویات کے استعمال کو پسند نہیں کرتے۔ اس لئے ہماری آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے دہشت گردی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی آبادی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ ایک حکومتی عہدیدار خاتون نے ٹی وی پہ بیٹھ کر، دو دن کی چھٹی بتائی تھی۔
ہمارا سب سے بڑا دشمن انڈیا ہے۔ اور اس کے ساتھ امن کی بات کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ وحی کب اتری؟ تاریخ اس حوالے سے خاموش ہے۔ امید یہی ہے کہ، تاریخ دان کو بھی خاموش کر دیا گیا ہوگا۔ ویسے یہ انڈیا بھی اتنا سیدھا نہیں۔ کبھی ہمارا پانی بند کر دیتا ہے، تو کبھی دنیا بھر میں ناقطہ۔ پھر ہم مشترکہ ابو امریکہ سے اس کی شکایت کر دیتے ہیں۔ ابو امریکا، ان ماں باپوں میں سے پرگز نہیں ہے، جو بچوں میں برابری کرتے ہیں۔ بلکے اپنی سفید چمڑی کے باوجود اس کو کالا کلوٹا مودی پسند ہے۔ ہمارا، سرخ سفید، انار دانہ، قسم کا نواز شریف ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ابو امریکہ کی دو بیویاں ہیں۔ ایک سعودیہ عرب اور ایران۔ اور یہ دونوں آپس میں سلوک بھی سوکنوں والا کرتے ہیں۔ سوکنوں کی اس لڑائی میں اکثر پاکستان کو نقصان اٹھانا پڑ جا تا ہے۔ دوسری طرف ہمارا ایک سوتیلا بھائی افغانستان بھی ہے۔ اس کی مثال اس بچے کی سی ہے، جسے گود لے کر پالو۔ مگر بڑا ہونے پر آپ کو ہی آنکھ دکھاتا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کے بنانے والے محمد علی جناح تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ محمد علی جناح نے اچھے ٹھیکداروں سے پاکستان نہیں بنوایا۔ سمنٹ، سریا کی کمی نے، 71ئ میں ہی آدھی عمارت گرا دی۔ باقی بچی کچی عمارت کا پلسٹر بھی جگا جگا سے اکھڑ رہا ہے۔ کہیں سیپیج اور لیکیج کا مسئلہ ہے۔ ایک دو جگہ جہاں سے خطرہ تھا کہ بلڈنگ گر سکتی ہے۔ وہاں بجائے لیپا پوتی اور سہاروں کہ، ایٹم بم کو ٹیڑھا کر کے کھڑا کر دیا ہے۔ اب پوری عمارت بس اس کے زور پہ کھڑی ہے۔ ویسے اتنا بتاتا چلوں۔ جس دن یہ ایٹم بم چل گیا نا۔۔۔۔
ہماری عمارت تو گری گری، آگے پیچھے، سب بھی جائیں گے۔

Comments

Click here to post a comment