تازہ تازہ لگے سیمنٹ کے گیلے پن اور ایک طرف سے جھانکتی سرخ اینٹوں کے منظر نے اس کی جھنجھلاہٹ میں بے پناہ اضافہ کر دیا تھا. رات بھر میں ہی ایک نیا سپیڈ بریکر "اُگ" آیا تھا جس نے تکمیل کے نصف مراحل طے کر لیے تھے اور اب سڑک کی بائیں جانب سے اس کے وسط تک پہنچ گیا تھا. مصعب کے دماغ نے جھنجھلاہٹ کے باوجود اندازہ لگا لیا کہ یہ اسے گھر سے بڑی سڑک تک پہنچانے والے راستے میں آنے والا ساتواں سپیڈ بریکر تھا. اس منظر نے اس کے پہلے سے ہی خالق کی نافرمانی میں گزری گذشتہ رات کے پچھتاوے اور نئے دن کے ساتھ منسلک ممکنہ نئے خوف کے درمیان جھولتے دماغ کی حالت مزید دگرگوں کر دی تھی.
دراصل کل رات وہ دفتر سے واپسی پر بہت تھک چکا تھا. ملازمت کا پہلا سال ویسے ہی مشکل ہوتا ہے. کھانا کھا کر گھڑی کی طرف دیکھا. عشاء کی اذان میں ابھی دس منٹ باقی تھے. صرف دس منٹ آرام کی غرض سے بستر پر لیٹا مگر آنکھ بارہ بجے کھلی. کچھ لمحے تو وہ خالی نظروں سے گھڑی کو گھورتا رہا پھر گھر میں چھائے مکمل سکوت سے گھڑی کے صحیح ہونے کا اندازہ ہوا.
”اوہ! آج پھر عشاء کی جماعت نکل گئی... اچھا اب گھر پر ہی نماز پڑھ لیتا ہوں... آج تیسرا دن ہے... پتہ نہیں کیوں مسلسل ایسا ہو رہا ہے.“ انہی سوچوں میں مصروف اس کا دماغ ایک بار پھر ہوش و خرد سے بیگانہ ہو چکا تھا. دوبارہ آنکھ کھلی تو چار بج چکے تھے.
”اوہو! چار بج گئے... نماز بھی پڑھ لیتا ہوں لیکن پہلے کچھ نوافل پڑھ کر اللّه تعالٰی سے معافی مانگ لیتا ہوں. پھر قرآن کی تلاوت کر لوں گا. اتنے میں فجر کا وقت ہو جائے گا... ہاں یہ ٹھیک ہے... آج اللّه سے سوری کر کے اسے منا لوں گا.“
مگر... نیند کی وادی اسے پھر سے اپنی آغوش میں لے چکی تھی.
سات بجے باورچی خانے میں گرنے والے کسی برتن کی آواز سے آنکھ کھلی اور اگلے ہی لمحے وہ بستر سے اتر چکا تھا. دفتر کے لیے نکلنے میں صرف پندرہ منٹ باقی تھے. جسم میں بجلیاں سی بھر گئی تھیں اور دماغ تو گویا جسم سے بھی زیادہ تیز رفتار سے چل رہا تھا. ماں کے ناشتہ کرنے کے لیے بلانے، بجلی کا بل جمع کرانے کی آج آخری تاریخ ہونے کی یاد دہانی کرانے، اپنی رات کو لانے والی دوا کا نام بتانے، ابو کا اس کے لیے چھوڑا پیغام اسے سنانے، ہر آواز پر کان بند کیے وہ سیڑھیاں اتر چکا تھا اور موٹر سائیکل پر سوار اب سپیڈ بریکرز کے جھٹکے کھا رہا تھا.
دفتر جانے کے بیس منٹ کے راستے میں اس کے ناپسندیدہ ترین پہلے پانچ منٹ تھے جن میں خوفناک قسم کے بے ڈھنگ بنے چھ سپیڈ بریکرز آتے تھے. جب کبھی اسے دفتر سے دیر ہو جاتی، ساری ذمہ داری وہ انہی بریکرز پر ڈال دیتا. ایک بار بڑی سڑک تک جانے کے لیے اس نے متبادل راستہ اختیار کیا مگر اس پر آٹھ بریکرز بنے تھے. اسے یاد تھا چند ماہ پہلے اس نے اپنے ایک دوست کو ساتھ لے کر رات کو دو بریکرز کو، جن کی حالت کچھ خستہ تھی، اپنے راستے سے ہمیشہ کے لیے ہٹانے کا منصوبہ بھی بنایا تھا. ابھی پہلے پر طبع آزمائی جاری تھی کہ دو گھروں کے دروازے ایک ساتھ کھلے اور پلک جھپکنے میں اوزار وہیں چھوڑ کر وہ دونوں بھاگ کھڑے ہوئے تھے.
تمام تر کوشش کے باوجود اسے دفتر سے دیر ہو چکی تھی اور حاضری رجسٹر پر دیر سے پہنچنے کی نشاندہی کرتی سرخ لائن اس کا منہ چڑا رہی تھی. اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سپیڈ بریکرز بنانے والوں کی گردنیں دبوچ لے. اپنے کمرے میں آتے ہی دو خواہشات وقتی طور پر ہر احساس پر حاوی ہو چکی تھیں. پہلی یہ کہ کسی طرح وقت نکال کر فجر کی نماز قضا پڑھ لی جائے اور دوسری یہ کہ پیٹ پوجا کا کوئی انتظام ہو جائے.
مظفر صاحب کے لنچ باکس پر نظر پڑتے ہی آنکھوں کی چمک کئی گنا بڑھ گئی. وہ میس سے کھانا کھانے کے بجائے گھر سے پرہیزی کھانا بنوا کر لاتے تھے مگر ان کی بیگم کے ہاتھ میں نجانے کیا ہنر تھا کہ پرہیزی کھانا بھی لذت کام و دہن کی بخوبی تسکین کرتے ہوئے حلق سے اترتا. ان کی میز پر پہنچ کر سلام دعا، حال احوال اور طبیعت دریافت کرتے ہوئے وہ انہیں فائلوں میں مگن چھوڑ کر لنچ باکس اڑا چکا تھا اور پھر بڑی احتیاط سے اپنی میز کی اوٹ میں کھول کر چکن کباب، بران بریڈ اور سیب کے مربے سے انصاف کر رہا تھا. مظفر صاحب جیسے وضع دار بندے کی خفگی کو مذاق میں اڑانا کوئی مشکل کام نہ تھا. جسمانی غذا میسر آتے ہی روحانی غذا کا خیال ذہن سے بالکل محو ہو گیا اور اب وہ اپنے کام میں پوری طرح مصروف ہو چکا تھا.
وقفے میں راشد اور وہ کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے میس میں موجود لوگوں پر فقرے کسنے، طنز کرنے اور غیر موجود ساتھیوں کی شخصیات کے بخیے ادھیڑنے میں مصروف تھے. یہ ان کا من پسند مشغلہ تھا. کھانے کے بعد نماز ظہر ادا کی گئی. آج کام کچھ کم ہونے کی وجہ سے دفتر میں دیر تک نہیں رکنا پڑا اور وہ نسبتاً جلدی گھر پہنچ گیا.
شکر ہے امی اتنا ناراض نہیں تھیں جتنا وہ سوچ کر آیا تھا. ٹی وی پر خوش الحان قاری کی تلاوت سن کر خیال آیا کہ کئی دن سے قران نہیں پڑھا.
”اچھا آج مغرب کی نماز پڑھ کر تلاوت کروں گا.“
مگر اذانِ مغرب سے پہلے پہلے وہ صوفے پر ہی سو چکا تھا اور آنکھ عشاء کے بعد کھلی. کفِ افسوس ملتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.
”میرے اللہ! کیوں مجھ سے نماز کی توفیق چھین لی؟ میں تجھ سے قریب ہونا چاہتا ہوں اور تو مجھے خود سے دور کرتا جا رہا ہے. میرے مالک! میں گناہ گار ہوں مگر تیرا اپنی بارگاہ سے مجھے دھتکارنا میری برداشت سے باہر ہے. صبح تیری یاد کے بغیر دن کا آغاز کرتا ہوں اور رات کو تیری یاد کے بغیر ہی غافل دل لیے سو جاتا ہوں... مجھے ایسی زندگی نہیں گزارنی... تو کیوں مجھ سے ناراض ہو گیا ہے؟“
آج اتوار تھا. نانا ابو کے ہاں دعوت تھی. مصعب گاڑی میں امی ابو اور باقی گھر والوں کے ساتھ تھا جبکہ چھوٹے دونوں بھائی موٹر سائیکل پر.
”مصعب بھائی، ہمارے ساتھ ریس لگائیں گے نانا ابو کے گھر تک؟“ معاذ کا انداز چیلنج کرنے کا سا تھا.
”ہاں ضرور لگاؤں گا.“ کالر کھڑے کرتے ہوئے چیلنج قبول کیا گیا.
مگر برا ہو ان سات سپیڈ بریکرز کا جہاں سے گزرتے ہوئے معاذ تو دائیں بائیں اور درمیان کے ٹوٹے ہوئے حصوں سے بڑی صفائی سے بائیک نکال لے گیا مگر گاڑی کا ہر سپیڈ بریکر پر سے پوری طرح گزرنا ناگزیر تھا. سپیڈ بریکرز سے اس کی ازلی دشمنی عروج پر تھی اور وہ اپنی ہار سے پیشگی آگاہ خراب موڈ کے ساتھ نانا ابو کے گھر پہنچا. معاذ حسبِ توقع آنکھوں میں فاتحانہ چمک لیے ہیرو بنا گیٹ پر ہی موجود تھا اور اب تمام کزنز کو یہ قصہ سنائے بغیر اسے چین کہاں آنا تھا. اسی لیے مصعب ان سے کچھ الگ الگ ہی رہا اور زیادہ وقت نانا ابو کے ساتھ گزارا.
شام کو ان کے ساتھ ایک سیمینار میں بھی شرکت کی جہاں ایک معروف مذہبی سکالر مدعو تھے. ان کی گفتگو نے ابتدا سے ہی مصعب کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی. وہ کہہ رہے تھے،
”حدیثِ رسول کے مفہوم کے مطابق مومن پر کوئی سے دو دن ایک جیسے نہیں گزرتے. آنے والا ہر دن پچھلے سے بہتر ہو گا یا بدتر. ہم سب کو اپنا اپنا احتساب کرنا چاہیے. اگر خدانخواستہ ہم ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف جا رہے ہیں تو اس کے بھی کچھ اسباب ہیں جن میں سے اہم ترین چار ہیں: گناہ کرنا، زیادہ بولنا، زیادہ سونا، زیادہ کھانا.
ہم غیر محتاط بات چیت کرتے ہوئے زبان کی ساری آفات میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اپنے اعمال سے بھی مخلوقِ خدا کے لیے رحمت کے بجائے زحمت بن جاتے ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد سے لاپرواہی برتتے ہیں. یہ عوامل ہماری روحانی ترقی کی رفتار کو کم کر دیتے ہیں اور ہم...“
”رفتار کو کم؟“ مصعب کے دماغ میں کسی خیال کا کوندا سا لپکا. "یعنی سپیڈ بریکر؟"
"اوہ! میرے اللہ! یہ چیزیں مجھے تجھ سے دور لے جا رہی ہیں..؟ اور میں تنزلی کی راہ پر بڑھتے بڑھتے ترقئ معکوس کی جانب گامزن ہوں..؟“
”مالک! مجھے معاف کر دے. میں ان سپیڈ بریکرز سے بالکل بے خبر رہا جو میری ہمیشہ کی زندگی کے سفر کو مشکل بنا دینے والے ہیں... تو مجھے توفیق دے دے کہ آئندہ محتاط رہوں... مجھے خود سے دور نہ کر...“
آنکھوں سے رواں موتی جہاں ربّ سے سچی طلب کی دلیل تھے وہیں توبہ کی قبولیت اور نیکی کی توفیق کی بشارت بھی سنا رہے تھے..!
تبصرہ لکھیے