ہوم << ذکر سیدنا امام عالی مقام - راجہ قاسم محمود

ذکر سیدنا امام عالی مقام - راجہ قاسم محمود

اسلام کی تعلیمات جس طرح سے لازوال ہیں، اسی طرح اسلام سے وابستہ اہم شخصیات بھی اپنے کردار اور زندگی میں مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ ﷺ سے وابستہ کوئی بھی شے ہو وہ بہترین ہے، چاہے وہ آپ ﷺ کی معطر تعلیمات ہوں یا آپ ﷺ کے قابل تعظیم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہوں یا پھر آپ ﷺ کا مقدس گھرانہ اہل بیت اطہار ہوں۔ اسی اہل بیت کے ایک اہم فرد امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان اور فضائل و کمالات پر لکھنا مقصود ہے. ویسے میں اس قابل ہرگز نہیں کہ امام عالی مقام کا ذکر کر سکوں مگر اپنے آپ کو امام عالی مقام کا ایک ادنیٰ سا محب سمھجتے ہوئے لکھ رہا ہوں.
امام عالی مقام کے فضائل و کمالات بنیادی طور پر تین طرح کے ہیں۔
ایک حیثیت امام عالی مقام کی خاندان نبوت کے فرد ہونے کی ہے۔ امام عالی مقام نے دنیا کے سب سے افضل گھرانے میں آنکھ کھولی، آپ سے وابستہ ہر ہستی عظیم ترین منصب پر فائز ہے۔ امام عالی مقام کے نانا تمام انسانیت کے محسن اور امام الانبیاء ﷺ کی ذات مقدسہ کے متعلق ہر ذی شعور اور صاحب عقل آدمی ایک ہی رائے رکھتا ہے کہ ایسی عظیم ہستی جو کہ سراپا خیر ہی خیر ہیں اور جن کا وجود تمام عالمین کے لیے باعث سعادت اور رحمت ہے، وہ ہستی جن ﷺ کو رب کریم نے بے پناہ شانوں سے نوازا ہے اور ان ﷺ کے ذکر کو اپنی عبادت کا درجہ دیا ہو اور جن کے بارے میں رب کریم نے قرآن میں یہ اعلان کیا ہو کہ ان کی ہر آنے والی گھڑی پچھلی گھڑی سے بہتر ہے (سورہ والضحٰی: آیت نمر4) آپ ﷺ کو آپ کا رب اتنا عطا کرے گا کہ آپ ﷺ راضی ہو جائیں گے (سورہ والضحٰی: آیت نمبر5) اور جن کے ذکر کی بلندی کا اعلان بھی رب کریم فرما دے (سورہ الم نشرح: آیت نمر4) تو جب رب کریم نے ذکر کی بلندی کا اعلان فرما دیا تو آپ ﷺ سے وابستہ ہر رشتے کا ذکر بھی اسی اعلان کی تصدیق ہے اور یوں امام عالی مقام کا ذکر بھی اسی آیت کی تصدیق ہے۔پھر امام عالی مقام نے جس مقدس و معطر گود میں پرورش پائی، ان کا ذکر کرتے ہوئے ہر زبان احترام میں جھک جاتی ہے۔ میرے سے تو ویسے آپ ﷺ کی بیٹی کا نام لیا ہی نہیں جاتا، میں ہمیشہ آپ کو سیدہ نساء العامین ہی کہتا ہوں اور میں ان کا ذکر کیسے کروں جن کا استقبال اللہ کے نبی ﷺ اٹھ کر کریں۔ اور جن کے بارے میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ وہ اپنے والد کی طرح چلتی تھیں (مشکوۃ المصابیح حدیث نمبر ۔5876) (صیحح مسلم حدیث نمبر 6313) اور جن کو تمام جنتی عورتوں کی سربراہ کہا گیا ہے۔ امام عالی مقام سے وابستہ تیسرا اہم رشتہ امام عالی مقام کے عظیم اور شجاع والد سیدنا علی رضی اللہ عنہ جن کی پوری زندگی دین حق کے لیے وقف ہوئی. انھوں نے اسلام کا اس وقت ساتھ دیا جب کوئی بھی اس دین کو ماننے والا نہ تھا۔ صرف دس سال کی عمر میں اپنے قبیلے کی مخالفت کے باوجود اسلام کا ساتھ دیا، سیدنا علی رضی اللی عنہ کا قبول اسلام ایک بہت بڑا فیصلہ تھا. اس فیصلے کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہے کہ عرب کے قبائلی معاشرے کو سمھجا جائے، اس معاشرے میں اپنے قبیبلے سے جدا ہو کر علیحدہ فیصلہ کرنا ناممکنات میں سے تھا کیونکہ آپ کا قبیلہ آپ کی معاشی، سماجی اور ذاتی زندگی کا ضامن ہوتا تھا۔ جب آپ کے تمام مفادات اپنے قبیلے سے وابستہ ہوں تو اس وقت ایک دس سال کے بچہ کا قبیلے کی مخالفت کے باوجود اسلام قبول کرنا ایک بہت بڑا اور اہم فیصلہ معلوم ہوتا ہے۔ پھر امام عالی مقام کے والد محترم نے اسلام کی اولین تاریخ میں ہر اہم جگہ اپنا کردار قابل رشک طریقے سے نبھایا چاہے وہ ہجرت کی رات ہو یا پھر بدر، احد یا حنین کا میدان سیدنا علی کا کردار ہر جگہ نمایاں رہا۔ جن کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا ہو کہ وہ ان ﷺ کے لیے ایسے ہیں جیسے موسٰی علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام (صیحح مسلم : حدیث نمبر 6217) سیدنا علی سے محبت کرنے والا مؤمن اور دشمنی رکھنے والا منافق ہے (مشکوۃ المصابیح حدیث نمبر 5827)۔ سیدنا علی کی ذات کئی اور حوالہ جات سے بھی تعریف و توصیف کی حقدار ہے اور اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ یقینا آپ پر فخر کرتے ہوں گے۔ پھر امام عالی مقام سے وابستہ ایک اور اہم رشتہ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کا ہے، جن کے اخلاق و اطوار بلکل اپنے نانا ﷺ کی طرح تھے، طبعیت میں انتہائی زیادہ نرمی اور وسعت کا پایا جانا۔ میں تو کہتا ہوں کہ اہل بیت اطہار کے جمال کی بہترین شکل حضرت امام حسن کی ذات ہے۔ جن سے پیغمبر اسلام نے محبت کا اعلان کیا اور اللہ سے بھی دعا کی کہ تو بھی ان سے محبت کر (صیحح مسلم : حدیث نمبر 6258) جن کو آپ ﷺ اپنے مبارک کندھوں پر بٹھاتے تھے (مسلم حدیث نمبر 6259) اور پھر امام حسن کی بصیرت اور فیصلے کی پختگی کا فتویٰ تاریخ دے رہی ہے۔ اسی طرح امام عالی مقام سے وابستہ پانچواں اہم رشتہ آپ کی بہن سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ہیں، جن کے خصائل و شمائل کے لیے ان کا لقب ثانی زاہرہ بہترین ترجمان ہے۔ جن کے احترام اور صبر کی شہادت کربلا کی زمین اور حوصلے کی گواہی شام کا دربار ہے۔ امام عالی مقام سے وابستہ دیگر رشتے بھی عظیم تر ہیں مگر ان پر اکتفا کرتا ہوں۔ ان تمام شخصیات کے فضائل و کمالات میں امام حسین رضی اللہ عنہ بالواسطہ طور پر شامل ہیں۔
امام عالی مقام کے فضائل و کمالات کا دوسرا پہلو ذاتی ہے۔ خاندان نبوت کا فرد ہونا باعث سعادت ہے مگر اس منصب کا بھرم رکھنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ لہذا خاندان نبوت کا فرد ہونا تب ہی فائدہ مند ہوتا ہے جب اس فرد کا اپنا ذاتی کردار بھی قابل فخر ہو ورنہ آذر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ ہونے، کنعان کا حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا یا پھر ابو لہب کا آپ ﷺ کا چچا ہونے کے باوجود اپنے ذاتی کردار کی وجہ سے معتوب و ملعون قرار پاتے ہیں۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کا ذاتی کردار بھی بےمثال اور قابل رشک ہے. آپ نے اپنی اس ذمہ داری کا پورا پورا حق ادا کیا جو کہ خاندان نبوت کا فرد ہونے کے ناتے آپ پر تھی۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ حسین ہمﷺ سے ہیں اور ہم ﷺ حسین سے ہیں (ترمذی : حدیث نمبر 3775) اور آپﷺ نے امام حسین کو اور امام حسن حسین رضی اللہ عنہم کو جوانان اہل جنت کا سردار کہا ہے۔ (ترمذی: حدیث نمبر 3781) اور آپ ﷺ نے امام حسین اور امام حسن کے متعلق اعلان کیا کہ وہ مجھے بہت عزیز ہیں اور اے اللہ تو بھی ان دونوں کو عزیز رکھ (ترمذی : حدیث نمبر 3782)۔ اس لیے آپ ﷺ کا امتی ہونے کے ناتے ہر شخص پر لازم ہے کہ کہ وہ امام عالی مقام سے محبت رکھے۔ امام عالی مقام کی اپنی ذاتی زندگی بھی ایک کامیاب اور دین کے مطلوب انسان کی زندگی تھی، اور بطور نواسہ رسول ﷺ اور اہل جنت کا سردار ہونے کے تمام پیمانوں پر حسین رضی اللہ عنہ کی شخصیت پوری اترتی ہے۔ جنت کی بشارت پا جانے کے باوجود امام حسین رضی اللہ عنہ نے دین کے کسی بھی فریضے سے غفلت تو دور کی بات کبھی سستی بھی نہیں برتی، بلکہ اپنے رب سے اپنے رشتے کو مزید مضبوط کیا اور مخلوق خدا کی ہر ممکن مدد میں سب سے آگے رہے۔ جنت کی بشارت پا جانے کے باوجود اپنے آپ کو رب سے قریب تر رکھنا اور اپنے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر رکھنا ایک اعلیٰ شخص کی ہی پہچان ہے۔
امام عالی مقام حسین رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا تیسرا پہلو ایک مرد مؤمن ہونے کا ہے. ایک مرد مؤمن پر اسلام کے کیا فرائض اور اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ امام عالی مقام نے اس معاملے میں پوری عالم انسانیت میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا ہے کہ نظریے کے ساتھ کیسے جڑا جاتا ہے اور اس کی تکمیل میں کیا کیا مشکلات آ سکتی ہیں اور پھر ان مشکلات کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے. امام عالی مقام تمام انسانیت کو اس کا درس دے کرگئے ہیں، بلکہ میں سمھجتا ہوں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا یہ پہلو صرف ایک مرد مؤمن ہونے کا نہیں بلکہ ایک حق پرست انسان کا ہے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا یہ پہلو دنیا میں رہنے والے ہر انسان کے لیے بلا تفریق رنگ و مذہب جو کسی حق معاملہ پر کھڑا جدوجہد کر رہا ہے، مشعل راہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ بڑے لوگوں سے بڑا امتحان لیتا ہے، جیسے کہ حضرت نوح علیہ سلام کو اس جگہ کشتی بنانے کا حکم دیتا ہے حالانکہ دور دور تک کوئی دریا نہیں ہے، وہ حضرت ابراہیم علیہ سلام کو بڑھاپے میں اولاد دیتا ہے اور پھر حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد اور بیوی کو مکہ مکرمہ کے تپتے صحرا میں چھوڑو جہاں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے، پھر وہ رب ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیتا ہے کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرو، ابراہیم علیہ السلام وہ بھی کرنے کے لیے راضی ہوتے ہیں اور امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں۔ لہذا جو جتنے بڑے رتبہ کا انسان ہے، اس کا امتحان بھی اتنا بڑا ہے، اللہ نے یہ امتحان امام حسین سے بھی لیا اور اس کے لیے کربلا کی سرزمین کا انتخاب کیا گیا۔ اللہ نے قرآن کریم میں بھی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 155، میں اعلان کیا ہے کہ وہ کن کن طریقوں سے اپنے بندوں کو آزماتا ہے.
[pullquote]وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْامْوَالِ وَالْانفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ۔(155)[/pullquote] (اور ہم کسی نہ کسی طرح آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے.)
اس آیت میں اللہ تعالی نے مختلف طریقے سے جن آزمائشوں کا ذکر کیا ہے، یہ تمام آزمائشیں امام عالی مقام پر بیک وقت کربلا کے میدان میں نازل ہوئی ہیں اور امام عالی مقام تمام کے تمام میں سرخرو ہوئے ہیں۔ باقی اہل اللہ پر جو آزمائشیں آئی ہیں، وہ ایک وقت میں ایک یا دو آئی ہیں مگر امام حسین رضی اللہ عنہ کی یہ خصوصیت انھیں باقی اہل اللہ سے ممتاز کرتی ہے۔ اور پھر جب اللہ والوں پر آزمائش آتی ہے تو ان کا ردعمل کیا ہوتا ہے، اس کا بیان اس سے اگلی آیت میں ہے.
[pullquote] الَّذِينَ إِذَا أصَابَتْھُم مُّصِيبَۃٌ قَالُوا إنَّا لِلَّہ وَإنَّا إلَيْہ رَاجِعُونَ(156)[/pullquote] (جنہیں جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں)
بالکل صد فیصد امام حسین کا رد عمل اپنے اوپر آنے والی آزمائشوں پر اسی طرح تھا جیسا کہ رب کریم کا ارشاد ہے۔ اور پھر رب کی طرف سے آئی آزمائشوں میں کامیابی پر رب کی طرف سے جو انعام ہوتا ہے، اس کا بھی رب نے اگلی آیت میں ذکر کر دیا ہے.
[pullquote]أولَـئِكَ عَلَيْھمْ صَلَوَتٌ مِّن رَّبْھمْ وَرَحْمَۃ وَأولَـئِكَ ھُمُ الْمُھتَدُونَ (157)[/pullquote] (ان پر ان کے رب تعالی کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں)
یقینا امام عالی مقام رب کے کیے ہوئے وعدے کے مطابق بے پناہ نوازشوں اور رحمتوں میں ہوگے اور ہدایت یافتہ ہونے ہی کی بدولت امام حسین کو جنت کے جوانوں کی سرداری ملی۔ امام عالی مقام کی شخصیت کے متعدد اور بھی پہلوؤں پر بھی گفتگو کی جا سکتی ہے لیکن میرے سے یہ ممکن نہیں کہ میں آپ کی شخصیت کا احاطہ کر سکوں بلکہ میرا تو ایمان ہے کہ زندگی میں آنے والی ہر مثبت معلومات سے امام عالی مقام کی شخصیت مزید واضح ہوتی چلی جائے گی۔ سب سے اہم چیز امام عالی مقام کا پیغام ہے جس کے علیحدہ سے لکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس مضمون میں جو بھی حق ہے، وہ میرے رب کا اور آپﷺ کا کرم ہے، اور اگر اس میں کوئی غلطی ہے تو وہ مجھ کم علم کی وجہ سے ہے۔

Comments

Click here to post a comment