ہوم << دینداری کا مسئلہ اور احمد جاوید صاحب کے انٹرویو سے استفادہ - ادریس آزاد

دینداری کا مسئلہ اور احمد جاوید صاحب کے انٹرویو سے استفادہ - ادریس آزاد

ادریس آزاد روزنامہ دنیا کے سنڈے میگزین میں گزشتہ اتوار ، ملک کے معروف دینی سکالر جناب احمد جاوید صاحب کا انٹرویوشائع ہوا۔ ڈاکٹر طاہر مسعود نے انٹرویو سے پہلے نہایت لطیف پیرائے میں احمد جاوید صاحب کے ساتھ اپنی عقیدت اور پھر ان کی شخصیت اور علمی و روحانی سفر کا اجمالی جائزہ پیش کرنے کے بعد چند نہایت اہم سوالات پر اُن کی رائے قارئین تک پہنچائی۔ اُن اہم سوالات میں سب سے پہلا سوال یہ تھا،
’’فی زمانہ جو بھی کلمہ گو دین کی طرف عملاً مائل ہوتا ہے، اُس کے حلیہ اور ظاہری صورت کی وجہ سےمسلم معاشرے اور اُس کی ذات کے درمیان ایک اجنبیت کی صورت پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے دین پر، سنت پر چلنا دن بدن دشوار ہوتا جا رہاہے۔ اس کی وجہ کیا ہے اور کیا آپ کے خیال میں وقت نہیں آ گیا کہ اجتہاد کے بند دروازوں کو کھول دیا جائے؟‘‘
احمد جاوید صاحب احمد جاوید صاحب نے اس سوال کا جو جواب دیا وہ دو حصوں پر مشتمل تھا۔ پہلے حصے کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ،
’’اصل میں عقیدے کو شعور کا وہ مرکز نہیں بنایا جا سکا جس سے وابستہ رہ کر شعور اپنے تخیّلات، نظریات، افکار وغیرہ کا نظام چلاتاہے‘‘
ان کا مدعا یہ تھا کہ عقیدہ شعور کا بحیثیتِ مجموعی خاموش رہبر ہوتا ہے۔ ہم نے ’’عقیدے اور شعور‘‘ کے اس ناگزیر تعلق کو نہ سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دین و دنیا کے درمیان خلیج حائل ہوگئی۔ احمد جاوید صاحب نے یہاں عقیدے اور شعور سے کیا مراد لی یہ بتانا مشکل ہے کیونکہ انٹرویو کے متن میں مذہبی زندگی کے ان دو بڑے اجزأ کی وضاحت نہیں کی گئی۔ البتہ قاری قیافے سے کام لے کر یہ کہہ سکتا ہے کہ پروفیسر ولیم جیمز کے نزدیک جس سطح کے شعور کو ایک پسندیدہ معاشرتی زندگی کے طور پیش کیا جا سکتا ہے وہ گہرے عقیدے کی عمق سے نمودار ہوتا اور زندگی کی رہنمائی کرتاہے۔ غالباً احمد جاوید صاحب بھی ایسے ہی کسی تعلق کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں۔ بایں ہمہ یہ نتیجہ بعید از قیاس ہوگا کہ انہوں نے یہاں شعور سے کسی بھی درجہ میں ’’تعقل‘‘ یا ’’تعقلی عمل‘‘ مراد لی ہے۔
جواب کے دوسرے حصہ میں جناب احمد جاوید صاحب نے فرمایا کہ،
’’اِس المیہ صورتحال کا دوسرا سبب یہ ہے کہ ہم دین اور اخلاق کے باہمی ربط اور اس کے نتائج کو سمجھنے اور پیدا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوئے ہیں۔ اِس وقت مذہبی اخلاق، معروف اخلاق سے بہت کم تر، ان گھڑ محسوس ہوتی ہے.‘‘
یہ بات سوفیصد درست ہے۔ مذہبی اخلاق دور ِحاضر کی معروف اخلاقیات سے کئی درجہ پستی میں موجود ہے۔ ہمارا پڑوسی جنرل اور سوشل میڈیا کی بدولت جس قسم کا پڑوسی بن چکا ہے، ہماری مسجد کا منبر اُسے اُس سے کہیں نچلے درجے کا پڑوسی بنانے کی تبلیغ میں مصروف ہے۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ تاریخِ مذہب میں یہ واحد دور ہے جب زیادہ تر لوگ مذہبی پیشوا کو خدا کا نمائندہ نہیں سمجھتے اور اُن کے ایسا نہ سمجھنے میں بنیادی وجہ مذہبی پیشوا کا بذاتِ خود جدید میڈیا استعمال کرتے ہوئے ہر ایسے چیلنج میں شکست کھاتے چلا جانا ہے جن کا سلجھانا ایک زمانے تک فقط مذہبی پیشوائیت کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ مذہبی اخلاقیات معاشرے میں موجود اخلاقیات سے پست درجے پر ہے لیکن جہاں تک میرا خیال اس المیہ کی وجہ یہ یہ نہیں کہ مذہبی پیشوا پیچھے رہ گیا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام آدمی آگے نکل گیا ہے۔ آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں، ہر عہد کا عام آدمی مذہبی پیشوأ سے علمیت اور آگاہی میں پیچھے رہا ہے۔ جبکہ یہ واحد دور ہے جب مذہبی پیشوا علم وفضل میں عام شہری سے بہت پیچھے ہےاور یہ خلیج دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔چنانچہ اس خلیج کو پاٹنے کے لیے سب سے پہلے تو مذہبی پیشوا کو عام آدمی کی سطح پر آنا ہوگا اور پھر اس سے آگے جانے کے بعد ہی وہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت واپس حاصل کرسکتاہے جوکہ ایک ناممکن الحصول تصورہے۔
اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے احمد جاوید صاحب کا ایک جملہ مجھے بہت ہی معقول لگا۔ آپ نے فرمایا،
’’آج کے آدمی کی علمی نشوونما اور اخلاقی ترقی کے بے شمار مراحل میں کوئی ایک مرحلہ بھی دکھایا نہیں جاسکتاجو مذہبی رہنمائی میں طے کیا گیا ہو.‘‘
اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ اب انسان کو گویا اپنی رہنمائی کے لیے مذہب کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ اس کے برعکس مذہب کا ہر رویہ یہاں تک کہ مذہبی جمالیات بھی، انسان کی وجودی پیش رفت میں رکاوٹ بنتاہوا محسوس ہو رہا ہے۔ احمد جاوید صاحب کا خیال ہے کہ ایسی صورت میں اجتہاد بے معنی ہے کیونکہ اب مذہب میں اجتہاد ہو یا نہ ہو اب دنیا کو مذہب کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
لیکن اجتہاد ہونا یا نہ ہونا قطعی طور پر ریاست سے متعلق پیشہ ہے اور اس لیے یہ تصور کہ اسلامی ریاست کبھی وجود میں ہی نہیں آسکتی. ایک معنی میں وہی ہے جو اقبال نے چھٹے خطبے میں خلافت کے عدم جواز کے حق میں پیش کیا۔ اس میں کیا شک ہے کہ مذہب اب اپنے مروجہ معنی میں دنیا کی ضرورت نہیں رہا لیکن جہاں تک انسانی جبلت کا تعلق ہے ہم مذہب کی ضرورت سے چشم پوشی نہیں کرسکتے۔ اس پر میرا تفصیلی مضمون ہے جس کا عنوان ہے، ’’مذہب انسان کی جبلی ضرورت ہے‘‘۔ خیر! وہ ایک الگ گفتگو ہے۔ جہاں تک میں سمجھااحمد جاوید صاحب اجتہاد کو فقط کسی فرقے کے چند علمأ کی اجتماعی رائے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ حالانک اجتہاد تو قران کا بتایا ہوا راستہ ہے اور یہ راستہ ہمیشہ ایسے خودکار طریقے سے کھلا رہتاہے کہ اگر مذہب اس کی نگرانی نہ کرے تو فطرت خود بخود اس کی نگرانی شروع کردیتی ہے۔
میرا ذاتی طور پر یہ خیال ہے کہ احمد جاوید صاحب مذہب کو اس کی مذہبی شکل میں رکھ کر جس جدت کے خواہش مند ہیں وہ مذہب کی مروجہ شکل کے ساتھ کسی طور بھی ممکن نہیں۔ دو لوگ تصور میں لائیں! ایک مذہبی اور ایک غیرمذہبی ماڈرن مسلمان۔ مذہبی شخص نے مونچھیں منڈائی ہوئی ہیں اور داڑھی رکھی ہوئی ہے۔ جنید جمشید کی طرح لمبا چولا پہنا ہوا ہے اور شلوار ٹخنوں سے اوپر ہے۔ اس کے برعکس ماڈرن مسلمان نے پینٹ شرٹ پہن رکھی ہے اور اس نے کلین شیو بنا رکھی ہے۔ آپ دونوں میں سے کس کے ساتھ چلنا پسند کرینگے؟ یقیناً آپ کو مذہبی شخص کی ہمرکابی میں گھٹن محسوس ہوگی۔ مذہب کی کوئی بھی ظاہری صورت اب قابلِ قبول نہیں۔ مذہب خصوصاً اسلام کو مکمل طور پر کم ازکم اقبال جتنی تشکیل کی طرف متوجہ ہونا پڑیگا ورنہ مذہبی پیشواؤں کو اسلامی معاشروں میں اتنی جگہ بھی نہیں ملنے والی جتنی عیسائیوں نے اپنے پادریوں کو دے رکھی ہے۔
اسی تناظر میں احمد جاوید صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ علمأ اگر خود کو نہیں بدل رہے تو ان کی مجبوریاں ہماری سمجھ میں آتی ہیں۔ اصل مجرم تو جدید پڑھا لکھا طبقہ ہے۔ یہاں بات بہت زیادہ گنجھلک ہوجاتی ہے۔اگر جدید پڑھا لکھا طبقہ اسلام کو بچانے کی اپنی ذمہ داری سنبھالتاہے تو وہ کسی کو قبول ہی نہ ہوگی کیونکہ جدید طبقہ خودبخود قباحتوں سے اسلام کو پاک کردیگا یا یوں کہنا چاہیے کہ اجتہاد کرلیگا۔اور علمأ کی مجبوریوں میں جو مجبوری احمد جاوید صاحب نے بیان فرمائی وہ مجبوری ماضی میں تو کبھی نہیں رہی۔ یعنی ماضی میں ایک عالم ِ دین ہی عالم ِ دنیا بھی ہوتا تھا اور عالمِ سائنس بھی۔ ابھی چند دہائیاں پہلے تک، کاتب، حکیم ، طبیب ، معلم اور عالم ِ دین ایک ہی شخص کے قلمدان ہوا کرتے تھے۔
البتہ احمد جاوید صاحب کا یہ کہنا کہ علمأ سے عمل میں کوتاہی ہوئی ہے۔ وہ اپنا کردار پیش نہیں کرسکے، بالکل درست ہے۔انہوں نے فرمایا کہ علمأ سے اصل کوتاہی اخلاقی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنے عمل اور اپنی شخصیت سے دین کو بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ پرکشش نہیں بناسکے۔
احمد جاوید صاحب نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی فرمایا کہ،
’’قران کا فہم ، مخاطبِ قران کو جانے بغیر ممکن نہیں‘‘
مجھے ذاتی طور پر انٹرویو کے اِس حصے نے لطف دیا۔کیونکہ احمد جاوید صاحب نے اقبال کے تطبع میں قران کا مخاطب انسان کو تسلیم کرتے ہوئے اس نت بدلتی ہوئی کائنات میں انسان کے مقام کے مستقل تعین کی جو کوشش کی وہ میری نظر میں کامیاب ہے۔اقبال نے چھٹے خطبے کا آغاز بھی غالباً ایسے ہی کسی جملے سے کیاہے،
’’تہذیب و ثقافت کی نظر سے دیکھا جائے تو اسلام نے دنیائے قدیم کا یہ نظریہ تسلیم نہیں کیا کہ کائنات ایک ساکت و جامد وجود ہے‘‘
احمدجاوید صاحب نے بھی واضح الفاظ میں کہا کہ،
’’اس نظری نظامِ تغیر کا لحاظ رکھے بغیربلکہ اِسے اپنے علم القرآن کا حصہ بنائے بغیر دینی عالم ہونے کا دعویٰ روا نہیں‘‘
اور اس نظری نظام ِ تغیر کی بھی انہوں نے ایک جملہ پہلے وضاحت کردی تھی کہ،
’’دوسرا سیاق و سباق متغیر ہوتاہے یعنی قران کا مخاطب انسان اور قران کا مہبط یہ دنیا لامحالہ بدلتی رہی اور بدلتی رہیگی‘‘
اسی طرح احمد جاوید صاحب کا یہ جملہ ایک بہت بڑی حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ،
’’اس وقت دین کے لیے ضرر کا اصل ساماں وہ لوگ ہیں جو دیندار نظر آتے ہیں‘‘
ان کا یہ کہنا کہ’’ اصل میں ہمارا نظامِ ترجیحات ہی مسخ ہوچکاہے ۔ ظواہر بھی ضروری ہیں لیکن ایسے جیسے کسی پھل کا چھلکا‘‘ قولِ حق ہے۔علمأ پر ہی بات کرتے ہوئے احمد جاوید صاحب نے ایک بہت ہی بصیرت افروز نکتہ بیان کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ مذہبی پیشوائیت کی فطرت میں آمریت ہے جو مفتی اور استاد جیسے عہدوں کی خالق رہی ہے۔مذہبی پیشوائیت کو جب اس حس کی تسکین کے مواقع میسر نہیں آتے تو وہ طاقت کے حصول کے لیے ایسا سٹرکچر بناتی ہے جو انسانی معاشرے کی تعمیر کی بجائے اس کے انہدام کا باعث بن جاتاہے۔گزشتہ پچاس سالوں کی شدت پسندیوں کے تناظر میں یہ حقیقت کتنی روشن اور واشگاف ہے۔
احمد جاوید صاحب سے ایک اور نہایت اہم سوال کیا گیا جو اخلاقیات کے حوالے سے تھا۔ ڈاکٹر طاہر مسعود نے پوچھا کہ،’’ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام اخلاقی تعلیمات مذہب کی عطا کردہ ہیں جبکہ مغرب نے بے منتِ مذہب اخلاقی کمال حاصل کرلیاہے‘‘۔ اس پر احمد جاوید صاحب نے اولاً اخلاقیات کی جو تعریف کی وہ دیکھنے کے قابل ہے۔ فرمایا کہ،
’’اخلاق فطری اور آفاقی ہوتے ہیں۔ فطرت میں خیر کے فعّال اجزأ کواخلاق کہتے ہیں‘‘
سوال یہ ہے کہ خیر کیا ہے؟ اقبال کے ایک شعر میں،
ناپاک جسے کہتی ہے مشرق کی شریعت
مغرب کے فقیہوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہے پاک
خیر کے فعّال اجزأ تک ہماری رسائی تب ہی ممکن ہوگی جب ہمارے سامنے خیر کا تصور واضح ہو۔میں سمجھتاہوں کہ فطرت میں خیر کے اجزأ کی تلاش بھی اضافی ہے کیونکہ خود احمد جاوید صاحب کے بقول مغرب نے یہ اجزأ فقط اس بنا پر حاصل کرلیے کہ وہ جان گئے کہ’’ جھوٹ بول کر کاروبار میں نقصان ہوگا۔ ملاوٹ سے آخرالامر کوئی فائدہ نہیں ہونے والا‘‘۔
دراصل یہ فلسفے کا ایک بہت مشہور سوال ہے۔ اسے پرابلم آف فلاسفی کے تحت پڑھایا جاتاہے۔ سوال یہ ہے کہ،
۱۔ جو اچھاہے وہ خدا کرتاہے
۲۔ یا جو خدا کرتاہے وہ اچھاہے
اسے پرابلم اس لیے سمجھا جاتاہے کہ دونوں صورتوں میں خدا کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ پہلی صورت میں جو اچھاہے، وہ تو پہلے سے اچھاہے چنانچہ کیا ضروری ہے کہ وہ خدا کی طرف سے سمجھا جائے؟ دوسری صورت میں خدا تو کچھ بھی کہہ دیتاہے۔ اگر کسی مذہب کا خدا یہ کہے گا کہ دوسرے انسانوں کو قتل کردو تو اس کا یہ کہنا بھی جائز ہوگا کیونکہ جو خدا کرتاہے وہ اچھاہے۔ دونوں صورتوں میں خدا غیرضروری ہوجاتاہے۔ احمد جاوید صاحب نے دراصل اسی سوال کا جواب دیا۔لیکن معاملہ اس وقت تک لاینحل ہے جب تک یہ طے نہ ہوجائے کہ ’’خیر‘‘ اور’’شر‘‘ کیاہیں؟
میری ذاتی رائے میں
’’خیر وہ عمل ہے جسے ہرانسان دل سے اچھا جانے اور اس پر عمل کرنے پر مجبور نہ ہو.‘‘
جبکہ
’’شر وہ عمل ہے جسے کوئی انسان دل سے پسند نہ کرے لیکن اس پر عمل کرنے پر مجبور ہو.‘‘
اوّل الذکر کو اسلامی شرعی اصطلاح میں معروف کہتے ہیں۔ دراصل معروف کے یہی معنی ہیں کہ جو لوگوں میں معروف ہو۔ لوگوں کو پسند ہو اور لوگ اسے شوق سے کرنا چاہیں نہ کہ شرما کر اور جب لوگ اُسے انجام دیں تو خود کو مجبور نہ پائیں۔ اس کے برعکس ’’شر‘‘ کا عمل وہ ہے کہ جس پر انسان خود کو مجبور پائے اور اسے دل سے اچھا نہ جانتاہو۔ مثال کے طور پر ہم اگر کسی بھی شخص سے پوچھیں کہ ’’جہیز‘‘ کی کیا حیثیت ہے ؟ تو وہ کہے گا جہیز ایک لعنت ہے۔ یہ ہے ثانی الذکر کی مثال۔
احمد جاوید صاحب کے اس خیال پر بھی میرے تحفظات ہیں کہ
’’اخلاق جواب دہی کے خود کار یقین سے پیدا ہوتاہے.‘‘
مغرب میں ہی اس کی مثال موجود ہے۔ مغرب کی ایک بڑی آبادی کسی بھی قسم کے جوابدہی کے خیال کے بغیر ہی اخلاق پر کاربند ہےاگرچہ احمد جاوید صاحب نے اس سوال کا جواب یہ دیا کہ وہ لوگ وہاں کی حکومتوں کو جوابدہی کے نظام سے جڑے ہیں اس لیے اخلاق سے وابستہ ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ وہ لوگ فقط حکومتوں کو جوابدہ ہونے کی وجہ سے اخلاق پسند ہیں۔احمد جاوید صاحب نے اخلاق کو نیت اور جوابدہی کے ساتھ منسلک کیا ہے جبکہ میں اخلاق کو ایک ہتھیار سمجھتاہوں۔ جیسے جانوروں کو سینگ اور دانت اور پنجے ملے ہیں ، انسان کو اخلاق ملا ہے۔ انسان اپنے آپ کو دوسروں کے شر سے محفوظ رکھنے کے لیے اسی ہتھیار کا استعمال کرتاہے۔ اگر میں پڑوسی کے بچے کا خیال نہیں رکھونگا تو میرا بچہ بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں رہیگا اور میں سمجھتاہوں یہ خیال عین اسلامی ہے۔ خود رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث اس پر دلالت کرتی ہے جس میں فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ ہاتھ اور زبان سے محفوظ ہونا ’’شر‘‘ سے محفوظ ہوناہی ہے۔
مغرب کے اخلاق پر تنقید کرتے ہوئے احمد جاوید صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ چونکہ مغرب کی اخلاقیات میں سے بعض اقدار مکمل طور پر محو ہوگئی ہیں جن کا تعلق خالص قلبی یا روحانی کیفیات کے ساتھ تھا مثلاً انکساری یا مہمان نوازی وغیرہ اور اس کے برعکس ہم ایسی اخلاقیات کے آج بھی واحد امین ہیں چنانچہ ثابت ہوتاہے کہ مغرب کی ہر اخلاقی معاملے میں تقلید دراصل ان کے تصور ِ انسان کو تسلیم کرلینے کے مترادف ہے جو کہ یقینا ایک بچگانہ حرکت ہوگی۔ اس خیال سے مجھے اختلاف نہیں اتفاق ہے لیکن اس چھوٹی سی گزارش کے ساتھ کہ ہمارے پاس انکساری اور مہمان نوازی جیسی جو اخلاقیات باقی ہے یہ قبائلی دور کی یادگارہے اور مغرب کے قبائلی دور میں مغرب کے ہاں بھی ایسی اخلاقیات موجود تھی۔ میں سمجھتاہوں ایسی اخلاقیات کا تعلق دراصل مذہب سے زیادہ ثقافت کے ساتھ ہے اور ثقافت ہر اس ملک سے وقت کے ساتھ ساتھ فنا ہوجاتی ہے جہاں جمہوریت موجود ہو۔ ایسا کیوں ہوتاہے یہ بات ایک الگ مضمون کی متقاضی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں احمد جاوید صاحب نے، جب وہ مغرب میں اعلیٰ اخلاق کے وجود کے اسباب گنوارہے تھے بڑی عمدہ بات فرمائی،
’’ہم جو مانتے ہیں ویسا بننے میں کامیاب نہیں کیونکہ ہمارے لیے ’ماننے‘‘ کی فضا تو موافق ہے لیکن ’بننے ‘ کی فضا بالکل موافق نہیں.‘‘
اس سوال کا جواب کہ زوال ِ اُمت کا کیا تدارک ہے احمد جاوید صاحب نے پہلے توفرمایا کہ،
’’علم اور اخلاق میں باقی دنیا کے مقابلے میں فوقیت حاصل کرنا۔ یہی واحد راستہ ہے‘‘ پھر فرمایا ایک اندرونی تدبیر بھی ہے اور فرمایا کہ،
’’تدبیر یہ ہے کہ اپنے دین کے مزاج کو پہچانیں اور اسے اپنے اندر آب حیات کی لہر کی طرح جاری کریں.‘‘
جہاں تک علم و اخلاق میں تفوق کی بات ہے تو ظاہر ہے یہی دو راستے ہیں کسی بھی قوم کو زمانے میں معتبر بنانے کے لیے۔ لیکن یہ تو کسی بھی قوم کے لیے ایک آفاقی اصول کی سی حقیقت ہے۔ جب بات آئے گی کسی مرتے ہوئے مذہب کی اور اس مذہب کو دوبارہ زندہ دیکھنے کی تمنّا کی تو ہم علم و اخلاق کے رسمی نعرے تک محدود نہ رہ پائینگے۔ سچ تو یہ ہے کہ مذہب کبھی بھی عقلوں کو نہیں پکارتا۔ مذہب ہمیشہ براہِ راست دلوں کو پکارتاہے۔ آپ ساری دنیا کے عاقلین کو جمع کرکے ایک انسان کو جذباتی نہیں کرسکتے لیکن ایک جذباتی عمل سے آپ ساری دنیا کے انسانوں کو جذباتی کرسکتے ہیں۔ مذہب اسی لیے جذبات کو براہِ راست پکارتاہے اور ہمیشہ عمل کی تلقین کرتاہے۔ مذہب میں عقائد کا نظام ثانوی درجے کی چیز ہے۔ مذہب میں عمل کی حیثیت بنیادی ہے اور اسی حقیقت کے ذکر سے اقبال نے اپنے خطبات کے دیباچے کا آغاز کیا۔ جبکہ دوسری تدبیر یعنی اپنے مذہب کو پہچانیں اور اسے اپنے اندر آبِ حیات کی طرح رواں کریں ، استعاراتی زبان میں کہا گیا خطیبانہ طرز کا فقرہ ہے۔
احمد جاوید صاحب کا انٹرویو خاصا طویل ہے۔ ابھی میں آدھے انٹرویو سے اپنا استفادہ پیش کرسکاہوں۔ اُمید کرتاہوں کہ باقی آدھا کل لکھ پاؤں گا۔ انشااللہ

Comments

Click here to post a comment