ہوم << قرآن معجزہ کیسے ہے؟ : ساحر فاروقی

قرآن معجزہ کیسے ہے؟ : ساحر فاروقی

قرآن مجید ، عربی مبین میں نازل ہوا اور اس کے اولین مخاطب حجاز کے عرب تھے جنہیں اپنی زبان دانی ، فصاحت و بلاغت اور خطابت پر بہت ناز تھا۔ قرآن نے جو اسلوب اختیار کیا اور جس پیرائے میں اپنی ہدایات واضح کیںاس کے سامنے تمام عرب اس کے شعراء اور فصحاء شرمندہ ہو گئے، وہ اس امر کا اعتراف کرنے پر مجبور تھے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہو سکتا۔اور یہی اس ’’کلام ‘‘ کا اعجاز ہے۔
اعجاز باب افعال سے مصدر ہے اس کے معنی دوسرے کو عاجزکر دینے یا عاجز پانے کے ہیں۔ معجزہ اس کام کو کہتے ہیں جس کے زریعے مخالف کو عاجز کردیا جائے۔اعجاز کے اصطلاحی معنی ہیں وہ خارق عادت امرجو اللہ نے کسی پیغمبر کی صداقت کے لئے دنیا پرظاہرکیا ہو۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کی وہ کیا اعجازی خصوصیات تھیں جن کے آگے عرب خاموش ہوگئے؟یا ہم قرآن کو معجزہ کیوں کہیں جب کہ یہ لفظ نہ خود کتاب میں مذکور ہے اور نہ صحابہؓ اور تابعینؒ نے بیان کیا۔
دراصل معجزہ اسلامی ادبیات میں ایک دینی یا مذہبی اصطلاح کے طور پر مروج ہے۔قرآن مجید نے اس مفہوم کو بیان کرنے کے لئے(نشانی، دلیل،اور علامت) کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ مثلا حضرت صالح ؑ کی اونٹی اور حضرت موسی ؑ کے معجزات کے لئے قرآن میں آیت کا لفظ آتا ہے۔اس کے مفہوم کو زیادہ قابل فہم بنانے کے لئے علماء نے ’معجزہ‘ کی اصطلاح استعمال کی جو اپنی جامعیت کی وجہ سے جلد عام ہو گیایعنی وہ نشانی جو عاجز کردے۔
معجزے کی دو قسمیں ہیں ایک حسی دوسری عقلی، بنی اسرائیل کے اکثر معجزات حسی تھی کیونکہ وہ بڑی کند ذہین قوم تھی جبکہ امت محمدیہ ؐ کے معجزات عقلی ہیں۔یہاں ہمیں اللہ کی سنت بھی کارفرما ن نظر آتی ہے کہ جس پیغمبر کو جو معجزہ عطاء کیا وہ اس علاقے کے حالات، ماحول اور اس خطے کے لوگوں کی ذہنی و عقلی، علمی و تمدنی سطح کے مطابق تھا۔جو قوم جس فن میں بے مثل تھی اسکو اسی میداں میں معجزہ دکھا کر عاجز کیا گیا۔
عرب قانون ،فلسفے، ریاضی سے واقف نہیں تھے۔زبان دانی یعنی فصاحت اور بلاغت ہی ان کا میدان تھی وہ خود کو فصیح اللسان اور باقی تمام دنیا کو عجم (گونگا)سمجھتے تھے۔عربوں کو جو چیز متاثر کر سکتی تھی وہ’’ کلام اللہ کے لفظی معنی،اسکی فصاحت و بلاغت، اس کے اسلوب کی بلندی،اس کے صنائع بدائع اوراندرونی نظم تھا‘‘
قرآن کی ان اعجازی خصوصیات سے عرب گنگ رہ گئے اور باوجودکئی بار مجادلے اور چیلنج کے اس کے مثل ایک آیت بھی پیش کرنے سے قاصر رہے۔
نظم:
القاموس الجدید میں نظم کاکا مطلب درج ہے’’ منتطم کرنا،ایڈجسٹ کرنا،انتظام کرنا‘‘
المنجد عربی اردو لغت کے مطابق مادہ نظم کا مطلب’’ موتی پرونا، آراستہ کرنا،موزون کرنا،کسی چیز کو کسی چیز سے جوڑنا‘‘
لسان العرب میں نظم کی تعریف’’ نظم کے معنی ہیں ملانااور جوڑنانظمت اللوللو،یعنی میں نے موتی کو لڑی میں پرو دیا،نظام کے معنی ہیں دھاگہ یا اس قسم کی کوئی چیز جس میں کسی چیز کو پروتے ہیں‘‘
نظم کی اس لغوی تشریح کے تناظر میں نظم قرآن کامطلب یہ ہواکہ قرآن مجید ایک مربوط کلام ہے،منظم کلام ہے ۔غیر مربوط بیانات کا مجموعہ ہرگز نہیں جیسا کہ مخالفین الزامات لگاتے ہیں۔
نظم قرآن:
مولانا امین احسن اصلاحی اپنی تفسیر تدبر القرآن میں قرآن فہمی کے داخلی وسائل زیر بحث لاتے ہوئے قرآن کے نظم کو بھی ایک اہم زریعہ سمجھتے ہیں’’ نظم کلام کا ایسا جز لاینفک ہوتا ہے جس کے بغیر کسی عمدہ کلام کا تصور نہیں کیا جاسکتا‘‘
ایک عام قاری کو قرآن پڑھتے وقت بے ربط معلومات کا خزانہ لگتا ہے جہاں سماج،معاشرت،اخلاقیات و عقائد کے درس ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں، چناچہ اکثر قارئین یہ سوچتے ہیں کہ شاید قرآن میں کوئی خاص ترتیب یا نظام نہیں ہے۔ لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قرآن جس کو فصاحت و بلاغت کا معجزہ قرار دیا جائے اور وہ نظم سے خالی ہو؟؟؟
جرجانی نے اپنی کتاب دلائل الاعجازکی ابتدائی فصلوں میں لکھا ہے’’ فصاحت ولاغت میں اصل اعتبارنظم کا ہے،نہ کہ الفاظ کااسلئے کہ الفاظ معنی کے خادم ہوتے ہیں‘‘
عرب ان ہی امتیازات و خصوصیات کی وجہ سے عاجز رہ گئے جو انہیں قرآن کے نظم میں دکھائی دیں،اور ان کی نگاہیں خیرہ ہوگیئں جب انہوں نے ایک ایک سورت ایک ایک آیت پر غور کیا مگر ایک جگہ بھی کوئی کلمہ ایسا نہ ملا جو بے محل ہو، یا سکی جگہ دوسرا لفظ لایا جا سکے۔ بلکہ انہوں نے کلمات کے درمیان بھی ایسا نسق پایا کہ ششد رہ گئے اور اس کا مثل لانے سے عاجز رہے۔بڑے بڑے بلغا ء کی بھی قرآن کے نظام، یکسانیت،اتفاق اور پختگی دیکھ کر زبانیں گنگ ہو گئیں۔ لیکن یہ نظم کیسا نظم ہے؟
خلیل الرحمن چشتی لکھتے ہیں’’ قرآنی سورتوں کا ٓپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے،جس طرح کسی عالیشان عمارت میں کمرے سے کمرہ جڑا ہوتا ہے۔سورہ بقرہ سورہ آل عمران سے جڑہی ہے ،ایک مغضوب کی تفسیر ہے دوسری ضالین کی۔ اسی طرح سورہ انفال و سورہ توبہ کا موضوع جہاد ہے‘‘ بالکل اسی طرح ہر سورت بھی ایک وحدت ہے جس کا مرکزی مضمون یا عمود ہوتا ہے۔بار بار مطالعے سے ہم پر وہ عمود واضح ہوجاتا ہے تو پوری سورت متفرق آیات کے بجائے ایک نہایت حسین وحدت بن جاتی ہے۔
تلاشِ نظم کے اصول:
سب سے پہلی چیزجس کے سبب لوگ عموما نظم قرآن سے مانوس نہیں ہوتے وہ قدیم عربی ادب کی خصوصیت سے نا آشنائی ہے، عربی زبان میں اطناب و ایجازا ور طول و اختصار کے جو قائدے ہیںجن کو عرب کے فصحاء نہایت آزادی سے برتتے ہیںہم اپنی زبان میںعام طور پر ان چیزوں سے اچھی طرح مانوس نہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب قرآن میں ان سے سابقہ پیش آتا ہے تو وہ ہماری گرفت میں نہیں آتیں۔
اعلی عربی ادب سے جن لوگوں کو واسطہ رہا ہے وہ ضرور جانتے ہوں گے کہ بات ایک خاص نقطہ سے شروع ہو تی ہے اورپھر بات سے بات پیدا ہوتی چلی جاتی یہاں تک کہ ایک حد تک پہنچ کرکلام پھر اپنے اصل مرکز کی طرف لوٹ آتا ہے،ایک دعویٰ آتا ہے اور معاٌ اسکی دلیل مزکور ہوتی ہے۔لیکن یہ واضح نہیں کیا جاتا کہ یہ اسکی دلیل ہے بلکہ یہ چیز محض موقع کلام کی دلالت پر اعتماد کرکے چھوڑ دی جاتی ہے۔
قرآن سے اندرونی نظم و ربط کی امثال
سورہ بقرہ رکوع نمبر پانچ،آیت نمبر چالیس
’’اے بنی اسرائیل ذرا خیال کرو میری اس نعمت کاجو میں نے تم کو عطا کی تھی،میرے ساتھ تمھارا جو عہد تھا اسے تم پورا کرا تو میرا جو عہد تمھارے ساتھ تھا اسے میں پورا کروں اور مجھ ہی سے ڈرو‘‘
صاحبِ تفھیم القرآن مودودیؒ لکھتے ہیںکہ ابتدائے چار رکوع تمھیدی تقریر تھی جس کے مخاطب تمام انسان تھے،اب یہاں سے مخاطب بنی اسرائیل ہیں۔آگے آیات میںبنی اسرائیل پر ثابت کیا گیا ہے کہ جو ہدایات تمھیں دی گئیں اسکی پیروی کرنے میںاورجو رہنمائی کامنصب دیا گیا تھا اس کا حق ادا کرنے میں ناکام ہو گئے۔اللہ نے اپنے احسانات یاد لائے کہ اقوام عالم پر فضیلت دیا جانا،فرعونیوں کی غلامی سے نجات،سمندر چیر کر راستہ نکالنا،بچھٹرے کا معبود بنانے کے باوجود معافی ملنا، من وسلوی کا نزول اور پانی کے بارہ چشمے کا نکلنا۔
سورہ بقرہ آیت نمبر ۶۳۔۶۴
ان آیات میں وہی مضمون لوٹ رہا ہے
’’یاد کرو وہ وقت ،جب ہم نے طور کو تم پر اٹھا کر تم سے پختہ عہد لیا تھااور کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمھیں دے رہے ہیںاسے مضبوطی کے ساتھ تھامنااور جو احکام و ہدایات اس میں درج ہیںانہیں یاد رکھنااسی کے زریعے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم تقوی کی روش پر چل سکو گے مگر اس کت بعدتم اپنے عہد سے پھر گئے۔اس پر بھی اللہ کے فضل اور رحمت نے تمھارا ساتھ نہ چھوڑاورنہ تم کبھی کے تباہ ہو چکے ہوتے‘‘
نظم کے متذکرہ اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو دونوں رکوعات کے آغاز میں عہدکی پاسداری سے متعلق کلام کا آغاز کیاگیا اور دلائل دینے کے بعدوہی نقطہ پھر دہرایا گیا۔کہ اللہ نے جو عہدکیا تھا وہ پورا کیا مگر بنی اسرائیل اپنے عہد سے پھر گئے۔
سورہ کہف اندرونی نظم و مناسبت کی ایک مثال
سورہ کہف کے موضوعات پر اجمالی نظر ڈالیں تو وہ بھی مختلف واقعات کی تفصیل بیان کرنے کے باوجود ایک مربوط جز ہے۔سورت کی ابتداء میں جس آزمائش کا ذکر ہے بقیہ سورت اسکی تفصیل ہے
ابتدائی رکوع،آیت نمبر (۶۔۷)
’’ واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمایئں ان میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے آخر کار اس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں ‘‘
آیئندہ سورت ان آزمایشوںکی تفصیل ہے
۱صحاب ِ کہف کا قصہ۔۔۔(ایمان کی آزمائش)
دو زمیں داروں کا قصہ۔۔۔(مال و دولت کہ کمی بیشی کی آزمائش)
قصہ موسی ؑ و خضر ؑ۔۔۔۔۔(علم کی آزمائش)
قصہ ذولقرنین۔۔۔۔۔۔(اقتدار کی آزمائش)
اور آخر میں پھر بات آزمائش کی ناکامی وکامیابی کے دارومدار کا ذکر کیا گیا
ٓآخری رکوع آیت نمبر (۱۰۴۔۱۰۳)
’’اے نبی ﷺ ان سے کہو کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں ؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں ‘‘
ایک خاص حسن ترتیب و نظم و مناسبت سے سلسلہ کلام جہاں سے شروع کیا گیا وہیں بات لوٹ ائی۔ اب کوئی کیسے کہہ سکتا ہے ہے قرآن ایک بے ترتیب کتاب ہے؟؟ اور یہ تو انتہائی موٹی اور واضح مثالیں ہیں قرآنی نظم کی، مفسرین نے نظم خفیف کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جو آیات کے درمیان پایا جاتا ہے۔مولانا امیں احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر تدبر القرآن میں نظم پر خاص روشنی ڈالی ہے۔۔۔
قرآن کا اعجاز ہر زمانے میں قائم ہے لیل و نہار گزرنے کے ساتھ باقی ۔۔زمانے کا ساتھ ثابت اور ماہ و سال گزرنے کے ساتھ قائم و دائم۔

                  تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
                   گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف