ہوم << کاش میں اس دور میں ہوتی..... آن علی

کاش میں اس دور میں ہوتی..... آن علی

تشنگی قلب کا شعلہ پھر
بجھ جائے جوترا دیدار ہو
حرمت کا مہینہ محرم، اسلامی سال کا پہلا دن، یار محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم فجر کی نماز کے لیے صفیں درست کروا رہے ہوں نماز کے دوران ایک مجوسی خنجر سے حملہ کر دے، زخم ٹھیک نہ ہو رہے ہوں، اس حالت میں آنکھیں دیدار یار کی طلب میں برس رہی ہوں، چہرہ اقدس آسمان کی طرف اٹھتا ہو، بارگاہ الہی میں رقت آمیز دعا جاری ہو، یار کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت مل گئی ہو، چشم تصور سے محبوب کو دیکھتے ہوں ، زبان پر کلمہ جاری ہو، قید خانے سے رہائی ملے، یاروں کے پہلو میں تدفین ہو، روح کو جنت میں پہنچایا جا رہا ہو، وصل کی لذت اور قرب کے لمحات جدائی کے سال بھلا ڈالیں، روح مالک حقیقی تک جا پہنچے، امت مسلمہ اپنے عظیم خلیفہ کی جدائی میں نڈھال، فراق سے دل پھٹنے کو ہوں،
اور
اسلام.... ایک عادل حکمران، خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ سے محروم ہو چکا ہو
میرے پیارے رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم میری محبوب ترین ہستی، پسندیدہ ترین شخصیت جن کا نام لبوں پر آتے ہی عقیدت سے نگاہیں جھک جاتی ہیں، دل مرعوب ہو جاتا ہے، آنکھیں چھلک پڑتی ہیں، دیدار کی طلب بڑھنے لگتی ہے، حاضری کی حسرت جاگ اٹھتی ہے، زندگی بے معنی سی لگتی ہے، دل چاہتا ہے وقت چودہ سو سال پیچھے چلا جائے اور چند لمحات ہی سہی، دیدار رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آنکھیں سیراب کر لوں، بے تابی قرار میں بدل جائے، وقت رک جائے،
سرشاری کا عالم ہو، لذت دیدار سے لطف اٹھاؤں ، زندگی کو معنی مل جائیں، سر سجدے کی حالت میں ہو، روح پرواز کر جائے، اس قفس سے جان چھوٹ جائے،
لیکن
وہ حسرت ہی کیا جو پوری ہو جائے
سوچتی ہوں کاش اس وقت پیدا ہوئی ہوتی تو
صحن مسجد کے کسی کونے کو مسکن بنا لیتی، اسلام کے جگ مگ کرتے موتیوں میں بیٹھے محبوب خدا کو دیکھتی، چہرہ اقدس پر پھیلا تبسم، موتی کی صورت چمکتا پسینہ، آنکھوں کی ٹھنڈک بن کر دل میں اتر جاتا، صدیق اکبر کو دیکھتی، ان کی جانثاری کا عالم دیکھتی، فاروق اعظم کو دیکھتی، عدل فاروقی دیکھتی، عثمان غنی کو دیکھتی، سخاوت کا عالم دیکھتی، علی کو دیکھتی، بہادری کا عالم دیکھتی،
نظر رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم پر آ کے ٹھہر جاتی، دوستوں، جانثاروں اور علم وحکمت کے موتیوں میں علم بانٹتے، اس شخص کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا دیکھتی
وقت گزر رہا ہے، چہرہ آسمان کی طرف، لبوں پر کلمہ اور....
ان کی دنیا سے رخصتی میرے دل کو چیر رہی ہے، صبر کی انتہاؤں سے گزر رہی ہوں، آنسو میرے حلق میں اتر رہے ہیں، ساکت کھڑی دیکھتی ہوں، جلیل القدر اصحاب کو دیکھتی ہوں، یار غار کو دیکھتی ہوں جو غم سے نڈھال ہیں، عمر کو دیکھتی ہوں جو تلوار نکالے کھڑے ہیں، کوئی ایسا بولے تو سہی گردن اڑا دوں گا، تکلیف کی شدت دیکھتی ہوں، جدائی کا غم دیکھتی ہوں،
آنسوؤں سے بھری آنکھیں کھول کر دیکھتی ہوں تو خود کو یہیں پاتی ہوں، کہاں گئے وہ سب؟ حیرت سے دیکھتی ہوں، دوبارہ اس منظر میں جانے کی کوشش کرتی ہوں تو تکلیف سے آنکھیں بھر آتی ہیں،
منبر پر وہ ہستی اب نہیں ہے، صبر کا پتھر دل پہ رکھ کر نظر جو دوڑاؤں تو ابوبکر کو
خلیفہ بنتا دیکھوں، ان کی تحمل مزاجی دیکھوں، سادگی سے گزرتی زندگی دیکھوں،
اور پھر.......
ایک اور غم سے نڈھال ہوتے عمر کو دیکھوں
وہ عمر، جسے میرے پیارے نے رب سے مانگا تھا
وہ عمر، جس سے مکہ کے سردار تک ڈرتے تھے
وہ عمر، جس کے بارے میں میرے پیارے نے فرمایا : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا، تو وہ عمر ہوتا
وہ عمر، جس کو دیکھ کر شیطان بھی اپنا راستہ بدل دے
وہ عمر، جو عدل کا ایسا نظام قائم کر گیا جس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی
وہ عمر، جو میرے پیارے کا سُسر ہے
اس عمر کو خلیفہ بنتا دیکھوں، خلافت کا عروج دیکھوں، اسلام کا عروج دیکھوں،
آنکھ کھلتی ہے تو منظر تحلیل ہو جاتا ہے
آنکھیں مل مل کر دیکھتی ہوں خواب میں دوبارہ جانا چاہتی ہوں وہاں جہاں عرب وعجم کی قسمت بدل رہی ہے، جہاں فتوحات کا سلسلہ جاری ہے، اسلام اپنی اصل شکل میں، پوری آب وتاب کے ساتھ، دنیا کے کونے کونے میں اپنی روشنی پھیلا رہا ہے،
چشم تصور سے وہاں جھانکتی ہوں، عمر پر نظر پڑتی ہے تو چہرہ خوشی سے کھل اٹھتا ہے، اپنے اسلاف پر فخر محسوس کرتی ہوں،
عمر کو دیکھتی ہوں
وہ عمر، جو صحن مسجد میں فرش خاک کو بستر بنا کے سو جاتا
وہ عمر، جو بیماری کی حالت میں لوگوں کو جمع کر کے کہتا ہے اجازت ہو تو بیت المال سے تھوڑا شہد لے لوں
وہ عمر، جو روم اور ایران جیسی بڑی سلطنتوں کا فاتح تھا
وہ عمر، جو قیصر و کسری کے سفیروں سے اس حال میں ملتا کہ سر پر عمامہ اور پاؤں میں پیوند لگا جوتا ہوتا
وہ عمر، جو مدینہ میں اس حالت میں داخل ہوتا ہے کہ غلام سواری پر اور وہ پیدل چلے آ رہے ہیں
تہجد کا وقت ہے آنکھ کھل گئی ہے اور اب وہ منظر دھندلا رہا ہے نوافل پڑھتی ہوں دعا کے لیے ہاتھ بلند ہوتے ہیں
سلام اس پر، جو میرے پیارے کی مقبول دعا ہے
سلام اس پر، جو صدیق اکبر کا انتخاب ہے
سلام اس پر، جو راتوں کو جاگ کر رعایا کی خبر گیری کرتا رہا
سلام اس پر، جو کہتا تھا دریائے فرات کے کنارے کتا بھی پیاس سے مر گیا تو میں جواب دہ ہوں
سلام اس پر، جس کا قول اقوام متحدہ کے چارٹر میں موجود ہے
انکی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا، تمہیں کس نے اختیار دیا کہ انہیں غلام بناؤ
سلام اس پر، جو دنیا کے لیے حکمرانی کی اعلی مثال قائم کر گیا
از قلم :آن علی

Comments

Click here to post a comment