ہوم << مجاز کی بےحقیقت پرتیں - عدنان کیانی

مجاز کی بےحقیقت پرتیں - عدنان کیانی

بوڑھے موچی نے جوتے کو پالش کر کے سائیڈ پر رکھا اور دونوں ٹانگیں سیدھی کر کے درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ ٹانگیں جو گھنٹوں جڑی رہنے کے بعد سیدھی ہوئیں تو اس کے جسم میں شکر کی ایک میٹھی لہر اٹھی جس نے اس کی پوری ہستی کو سیراب کر دیا۔ کبھی کبھی اسے لگتا تھا کہ محنت پیسہ کمانے کے لیے نہیں کی جاتی، بس اس لیے کی جاتی ہے کہ آپ آرام کی لذت کو پہچان سکو۔ اللہ کی طرف سے دکھ، تکلیفیں صرف اس لیے اتاری جاتی ہیں تاکہ خوشی کی ماہیت کو سمجھ سکیں۔ کام کے بعد جسم میں جو سرور دوڑتا ہے، اسے اس سطحی لذت سے کوئی مطابقت نہیں ہوتی جو کوئی مہنگے ترین تھائی مساج کے بعد محسوس کرتا ہے۔
انسان اپنی پوری ترقی کے باوجود اس قابل نہیں ہو سکا کہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور عیاشیوں کو ریپلیکیٹ ہی کر سکے جو سادہ ترین زندگی میں بنا کوئی طلب کیے ہی آپ پر اتر آتی ہیں۔ کھانے کی مثال ہی لے لیں۔ دعوی سے کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے مہنگے سے مہنگے ہوٹل کا سب سے خاص کھانا بھی آپ کے جسم میں وہ لذت (جی ہاں لذت) جگا نہیں سکتا جو دن بھر کھیت میں کام کرنے کے بعد پیاز سے روٹی کھانے سے ملتی ہے۔ اس سادہ نوالے کی لذت ایک نشہ آور دوا سے زیادہ طاقت سے آپ کے جسم کے در و دیوار میں سکون بھر دیتی ہے۔
خدا کو شکست دینے کے زعم میں ہم نے بہت کوشش کی۔ ہم نے کھانے کی لذت کو اجزا میں ڈھونڈا، ماحول میں ڈھونڈا، خصوصیات میں ڈھونڈا۔ نہیں ڈھونڈا تو اصل حقیقت میں نہیں ڈھونڈا۔ اصل حقیقت یہ تھی کہ لذت سے آغاز ہی غلط تھا۔ لذت تو بس ایک بائی پراڈکٹ تھی۔ یہ کام کی اجرت نہیں ایک بخشش تھی جو مالک خوش ہو کر دے دیا کرتا ہے۔ یہ بخشش کوئی حق نہیں ہوتا۔ اگر کوئی اسے حاصل کرنے کی نیت سے کام کرتا ہےتو اس کی منافقت اس کے پورے جسم کا احاطہ کر لیتی ہے۔ اس کی آنکھوں کی لجاجت اپنے آپ میں ایک زبان بن جاتی ہے اور مالک کو بخشش دینے کے تصور سے بھی گھن آنے لگتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پھر بھی کچھ دے ہی دے مگر وہ صرف اپنی جان چھڑانے کے خیال سے ایسا کر رہا ہوگا۔ وہ بخشش جسے دے کر دینے والا اور لینے والا دونوں ایک ابدی مسرت کو چھو لیں اور ہوتی ہے۔
تو ہمارا آغاز غلط تھا۔ ہم نے ایک غلط علم کی تلاش میں اتنا کچھ ضائع کر دیا۔ اب ہمارے گھروں میں چوبیس گھنٹے کھانے پکانے کے چینل چلتے ہیں، سات سمندر پار سے کھانوں کے اجزا آتے ہیں، گھنٹوں کی محنت شاقہ کے بعد کھانا تیار ہوتا ہے۔ سب کچھ ہے مگر وہ کھانا اتنی خوشی بھی نہیں دے پاتا جتنی غریب کو دال چاول کھانے سے ملتی ہے۔ اور ہم اصل میں بھاگ تو اسی خوشی کے پیچھے رہے تھے نا۔ بس ہمیں لگا کہ وہ انھی اجزا میں کہیں ہوگی مگر خوشی تو اجزا سے باہر تھی۔ خوشی تو اس کام میں تھی جو آپ نے اپنے پروردگار کی اطاعت میں کیا۔ کھانا کوئی انعام نہیں تھا وہ تو ایک ضرورت پوری کرتا تھا۔ جسم کو اس قابل بناتا تھا کہ آپ پھر سے کام کے قابل ہو سکو۔ اور پھر اللہ نے بڑی محبت سے اس سارے عمل میں خوشی بھی ڈال تھی۔ اپنی طرف سے، بندے کے کسی حق کے بغیر۔ تو چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اس رضا کو کھوجتے، عطا کے اس میکنزم پر غور کرتے تاکہ خدا کی زیادہ سے زیادہ بخشش کے قابل ہو سکتے مگر ہم سدا کے کم عقل ٹھہرے کہ کھانے کو ایک چیستان بنا ڈالا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ عصرِ حاضر کی ہر شے میں تاثیر نہ ہونے کی بس یہی وجہ ہے کہ ہم نے چیزوں کی روح کو چھوڑ کی ان کے ظاہر کو پکڑ لیا ہے اور پیاز کے چھلکوں کی طرح ہم حقیقت مجازی کی جتنی پرتیں کھولتے چلے جائیں گے اتنا ہی بھٹکتے چلے جائیں گے۔