ہوم << زندگی ہو کہ موت، اب بس دلیل کے ساتھ - حافظ یوسف سراج

زندگی ہو کہ موت، اب بس دلیل کے ساتھ - حافظ یوسف سراج

13006698_1120626147982743_4328716347595490718_nتعمیری سوچ کی پرورش و پرداخت کے لیے ’دلیل ‘ کے نام سے ویب سائٹ کا اجرا کر دیا گیا ہے ۔ کیا سعادت ہے کہ انسانیت کی آخری گائیڈ بک قرآن اور پھر اسلامیان ِ عالم کی دھڑکنوں میں سمائے پاکستان ہی کو نہیں، مقاصدِ قرآن و پاکستان کی ’د لیل‘ کے نزول کو بھی شبِ قدر ہی کی برکت و رحمت سے پُرآغوش میسر آئی ہے. یہ بجائے خود بڑی نیک فال ہے. دراصل شبِ قدر ہی وہ رات ہے کہ جس میں مدبر ِ کائنات فرشتوں کو مخلوق کی آئندہ سال بھر کی تقدیر کا شیڈول فراہم فرماتا ہے۔ صدی بھر (83سال سے بہترین کو صدی ہی کہیے) کی مسلسل بندگی سے بہتر ی کی حامل یہ شب، غروبِ آفتاب سے طلوع فجر تک سراسر سلامتی والی اور امن بھری ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ روح الامین جبریل علیہ السلام اس رات زمیں پر اتنے نورانی فرشتوں کی معیت میں نزول کرتے ہیں کہ جتنے زمیں پر کنکر یا ریت کے ذرات ہو سکتے ہیں، توبہرحال ثابت یہ ہوتا ہے کہ عین اسی مبارک اور سلامتی والی رات آسمانوں پر یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ اب کے ٹھیک ستائیسویں شب اہلِ زمیں کو’ دلیل‘ فراہم کر دی جائے گی اور کر دی گئی. وللہ الحمد.
سوائے نہ جاننے والوں کے اس سے بھلا کون انکار کرسکتاہے کہ کام چھوٹا ہو یا بڑا، بغیر اذنِ خداو ندی کے کبھی نہیں ہو سکتا. سو اس تناظر میں معلوم یہ ہوتا ہے کہ ستائیسویں شب کو دلیل کے نزول کا خیال دے کر اسے پورا کر دینے کی توفیق بھی دے دینا، یہ میرے مولا کی منشا بھی تھی اور اس کارِ خوش ادا میں مصروف خوش بختوں کے لیے سراسر نیک فال بھی. یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ جس طرح فال ِبد کا کسی سلیم الفطرت انسان کو کبھی اقرار نہیں ہو سکتا، اسی طرح خوش فال لینے سے بھی کسی مسلمان کو انکار نہیں ہونا چاہیے.
ظاہر ہے ’دلیل ‘پر دلیل دیے بغیر تو چارہ ہی نہیں ، ورنہ تو ا س کی وجہِ پیدائش ہی نذرِ تمسخر ہو جائے گی. انسانی دانش نے اب تک امن و محبت اور برداشت کی جو واحد راہ تلاشی اور تراشی ہے وہ دلیل ہی ہے ۔یہ عین انسانی تجربے اور مشاہدے کی بات ہے کہ جب دلیل نہ ہو تو پھر ’سب‘ کا بے دلیل کہا اور کیا ہی رائج اور روا ٹھہرنے لگتا ہے. سو سب کی روش ِغلط سے سچائی کو ممتاز کرنے کے لیے ہی دلیل میدان میں اتاری جاتی ہے. ا س کا احساس اور پیروی ہم سب پر لازم ہونی چاہیے ۔ فالِ نیک سے خوش گماں ہونے کی دلیل ہمیں اس مرجع دلائل ذاتِ اقدس سے ملتی ہے کہ خالقِ کون و مکان نے جس کے حرمت ِحرف کو تحفظ و احترام عطا فرمایاہے. یہ صلح حدیبیہ کا قصہ ہے، مدینہ سے اہل دلیل رسولِ جہاں پناہ کی پناہ میں بےتاب دل لیے عمرے کے لیے کھنچے چلے آئے تھے، اور اہل ِ زور کے جبر نے انھیں جہاں تہاں روک لیا تھا. دلیل و جبر کی اس کشمکش اور کھینچا تانی میں، حدیبیہ کے اس مقام پر مذاکرات اور مکالمے کے کئی دور چلے. قریش کے کئی نامی سفارتکار آئے اور گئے. عروہ ثقفی بھی آئے کہ جنھوں نے بعد میں اسلام بھی قبول کر لیاتھا اور واپسی پر اپنے ہی قبیلے کواپنی چشم دید دلیل کی بنا پر ان کے آئندہ عہد کے تمام ہونے کی وارننگ بھی سنا ڈالی تھی. خیر یہ الگ معاملہ ہے. بہرحال انھی آنے والوں میں سے ایک کانام ’سہیل بن عمرو‘ تھا ، نام سنتے ہی رسولِ رحمت نے مسرت بھری نیک فال لی اور فرمایا، اگر سہیل نام کا سفیرآیا ہے تواللہ معاملہ بھی سہل اور آسان ہی فرما دے گا. منجملہ اور کے ،یہ بھی خوش فالی کی ایک دلیل ہے اور اسی سنت کی اتباع میں ہم ’دلیل ‘کے لیے اچھی فال لیتے ہیں اور بجا طور پراس کی تعمیر و ترقی کے لیے خوش گمانی محسوس کرتے ہیں
اب آتے ہیں، اس تحریر کے عنوان کی طرف. یعنی اب کوئی بھی جیے یا مرے مگر دلیل کے ساتھ. تو دراصل سورۂ انفال کی آیت نمبر 42 میں مذکور قرآن کے اس فیصلے کا اعلان دراصل بدر میں کیا گیا، جو کچھ یوں تھا :
’’(یاد کیجیے کہ معرکۂ بدر بپا ہونے سے اک ذرا پہلے ) تم (اہل دلیل) وادی مدینہ کے قریب تھے تو تمھارے مخالفین وادی کے دور کنارے مقیم تھے، جبکہ ابوسفیان کا تجارتی قافلہ دور پرے کہیں نیچے سے گزرتا تھا. اب اگر تم وعدے وعید کی تیاریوں میں پڑ جاتے تو تم باہم ٹکرا ملنے کا وقتِ مقرر ہی کھو دیتے، اللہ مگر یہ معرکہ بپا کرنے کی ٹھان چکا تھا، اور ظاہر ہے ، اللہ کا چاہا ہو کر رہتا ہے. القصہ اس معرکہ ٔ دلیل و شر بپا کرنے سے اللہ کا مقصد محض ایک حتمی د لیل اور حجت قائم کردینا تھا کہ اب جو جیے وہ بھی واضح دلیل ِحق کے ساتھ جیے اور جو اپنے تکبر میں تمام ہو رہے وہ ساتھ ہی ساتھ پس ماندگان اور لواحقین پر دلیل کی برتری کی مجسم اور پُر عبرت دلیل بھی ہو رہے۔‘‘
تو گویاہم صرف دو چیزیں عرض کرنا چاہتے ہیں.
1۔اپنے نام میں’ دلیل‘ اپنے اندر ایک خو ش فال رکھتی ہے. سو اسے اک مقدس شبِ قیام میں اپنا نام اور اپنے مفہوم معانی کا قیام مبارک ہو
2۔ پھر دلیل ہی بدر کے اعلان کے بعد (اگرچہ پہلے بھی مگر اب بصورتِ آیت قرآنی ) قول فیصل، حکم الامر اور قوتِ قاہرہ ہوا کرتی ہے
سو اب ہمیں جاننا ہی نہیں ماننا بھی چاہیے کہ دلیل کا اقرار زندگی ہے اور دلیل سے فرار موت۔ د لیل دراصل انسانی دانش و فائدے کی ضامن ہے اور دلیل ہی انسانوں، فرزانوں بلکہ حیوانوں تک کی زندگی کی بنیاد بھی ہے. دلیل امن کی علامت ہے جبکہ دھونس فساد کی جڑ. اللہ اپنے وجود کو دلیل سے ثابت کرتا ہے اور قرآن دلیل کے مقابل بار بار مخالفین کا عجز عیاں فرماتاہے، یہ کہہ کر کہ بھئی جلتے بھنتے کیوں ہو ؟ تم بھی لے آؤ ، اگر کوئی دلیل رکھتے ہو تو؟ یعنی یہ طے ہو چکا کہ کائنات ہو یا اہل کائنات، ان سب کی زندگی و موت کا فیصلہ دلیل ہی کرتی ہے۔ دیکھیے اسے بھی قرآن نے سورۃالرعد:آیت17میں دلیل سے پیش کیا ہے:
’’بارش برستی ہے تو پھر اس کی اٹھائی بے فائدہ جھاگ آنکھ جھپکتے میں ہی بھاگ اٹھتی ہے اور عامۃ الناس کے لیے مفید و معتبر زندگی کا ضامن پانی زمیں پر دائم باقی رہتاہے۔‘‘
سو یہ اب اس کائنات کی کائناتی سچائی (Universal Truth) ہی سمجھیے کہ زندگی نہ زہریلے طعن سے اور نہ بھونڈے تمسخر سے گزر سکے گی. زندگی تو بس اب دلیل ہی سے بسر ہو سکے گی ۔ سو ’دلیل ‘کا قیام، اتنا ساپیغام ہے کہ آئیے دلیل کی طرف ، آئیے پرامن اور شائستہ مکالمے کی طرف. آئیے توازن اور اعتدال کی طرف. پاکستان کے زمینی حقائق کے اقرار اور سچائیوں کے اعتراف کی طرف. آئیے قوت ، ہجوم اور شور و غل کے بجائے دلیل کو جیت کا معیار بنائیں۔آئیے دلیل کے ہاتھ سے ہاتھ ملائیں اور اس دنیا کو جنت بنائیں۔
پسِ تحریر:
1۔دلیل کی پذیرائی اللہ کا انعام اور اس سے جڑے لوگوں کے اخلاص نیت کی دلیل سہی، اس کے مقابل اٹھنے والا شورِ قیامت بھی مگر بتاتا ہے کہ دلیل کاری اور اہل ِدھونس پہ یہ ضرب بھاری ہے۔ لیجیے کام کرنے والوں کی کلفت کام آئی ۔
2۔ ’’دلیل کسی کے مقابل نہیں‘‘ کا اظہار اور تکرار مکرم عامر ہاشم خاکوانی صاحب کے خلوص نیت اور توازنِ شخصیت کا اظہار ضرور ہے. کائناتی تناظر اور قرآنی الفاظ میں (سورہ حج : آیت 40) دلیل بہرحال کسی نہ کسی کے مقابل ہی ہونی چاہیے :
’’اگر اللہ تمھارے باہمی تصادم سے ایک کو دوسرے کے ذریعے سے پیچھے ہٹاتا نہ رہتا تو عبادت گاہیں، کلیسا، مساجد، یہودیوں کے معبد اور نام خدا کے لیے قائم سب مساجد گرا ہی دی جاتیں۔جو اللہ کے لیے اٹھے گا ، اللہ بالضرور اس کی مدد فرمائے گا۔ ‘‘
لبرل دوست اس پر غور کر سکتے ہیں کہ قرآن نے یہاں معبدوں کو ’کسی ‘سے خطرہ قرار دیا ہے ، ’کسی ‘ کو معبدوں سے خطرہ قرارنہیں دیا ہے۔ یعنی الفاظِ قرآن میں جارحیت غیرمذہبی لوگ کریں گے اور اہل معبد دفاع میں اٹھیں گے۔ ویسے دفاع کے حق پر اتنا سیخ پا ہونا بھی کوئی معقولیت تو نہیں. یعنی جو چاہو سو آپ کرو ہو. واللہ اعلم باالصواب

Comments

Click here to post a comment