معروف کالم نویس ہارون الرشید کے تعارف پر مشتمل پہلا حصہ آپ ملاحظہ کر چکے ہیں. انٹرویو کا دوسرا حصہ پیش خدمت ہے
انقلابی
مشرق و مغرب کے اکثر انقلابی اول درجے کے تھے۔ انقلاب فصل کی طرح ہے۔ بیج بو دیا‘ بارش ہو گئی‘ کھاد دے ڈلی‘ فصل پکی تو کاٹ لی۔ اس کے برعکس انقلابی وہ احمق ہے جو ہیٹر سے گندم کی فصل فروری میں پکانے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے خیال میں انقلاب سے لغو کوئی لفظ نہیں۔ تعلیم‘ تربیت اور ارتقا سے ایک جمہوری معاشرہ تشکیل پاتا ہے‘ جہاں فرد کی بہترین صلاحیتیں کام کر سکیں۔ ابراہام لنکن اور قائداعظم حقیقی لیڈر تھے۔ مارکس اور مائو جیسے انقلابی ان سے کمتر تھے۔ انہوں نے جو کاتا‘ خود ادھیڑ دیا یا ان کے جانشینوں نے ادھیڑ دیا۔
انقلابی زندگی کو ڈسپلنڈ بنانا چاہتے ہیں۔ خدا نے انسان کو آزاد بنایا۔ جو معاشرہ خدا کو تسلیم نہیں کرتا‘ اس کے اخلاقی اقدار کااحترام نہیں کرتا‘ وہ کبھی آسودہ نہیں ہو سکتا۔ تمام انقلابی طاقت کے نشے کے اسیر رہے۔ ان کی قوت محرکہ مقبول پذیرائی اور طاقت تھی۔ یہ کوئی خوبی نہیں۔ اصل خوبی اخلاص ہے۔ مخلص آدمی ایتار بھی کرے گا اور سچا بھی ہوگا۔ انقلابی لچک سے عاری ہوتا ہے۔ مائوزے تنگ نے نہیں‘ ڈینگ ژائوینگ نے چین کو ترقی دی۔ چین جب جمہوری ملک بنے گا تو وہ آج سے بھی بہتر ہو گا۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ انسان کی آزادی بہتر ہے۔
پہلا نقطہ
فروغ علم کا پہلا نقطہ خدا کی تلاش ہے۔ جب خدا کو مان لیا تو اس کا ڈیٹا بھی قرآن کی شکل میں موجود ہے۔ اس لیے رہنمائی قرآن ہی کی ہوگی۔ یہ ا لبتہ سمجھنا چاہیے کہ ہم آج کسی قبائلی معاشرے میں نہیں رہ رہے۔ ہم کرتا اور تہمد نہیں پہن سکتے۔ تعبیر و تشریح تاریخ کے حساب سے ہوگی۔ مغالطہ مذہبی طبقے سے پیدا ہوتا ہے۔ مذہبی لوگ اکثر مذہب فروش ہوتے ہیں۔ ا یک حقیقی مذہبی معاشرے میں کوئی مذہبی طبقہ نہیں۔ اسلام میں تو کوئی اقتدار کا طالب ہو ہی نہیں سکتا۔ ہمارا مولوی تو چندہ اور اقتدار دونوں مانگتا ہے۔ سیکولروں نے مغرب اور مولویوں نے اساتذہ کے پاس اپنی عقل گروی رکھ دی
جس نے میری زندگی بدل دی
میں نے اپنی زندگی میں پروفیسر رفیق وہ واحد شخص دیکھے ہیں جنھیں کسی حادثے پر صدمہ ہوتا ہے نہ وہ غم کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کی لاتعداد پیش گوئیاں درست ہوئیں مگر وہ کبھی نہیں جتاتے۔ وہ اسے کشف بھی نہیں کہتے۔ دراصل ان کی غیرمعمولی بصیرت اور مئومنانہ فراست سے ان کے ننانوے فیصد اندازے درست ثابت ہوتے ہیں۔ ان میں وہ وصف ہے جو اولیاء اللہ میں ہوتا ہے۔ وہ گناہگاروں کو سینے سے لگاتے اور محبت کا برتاؤ کرتے ہیں۔ ہر آدمی ان کے ساتھ چائے پی اور ان پر تنقید کر سکتا ہے۔ باقی رائے ضروری نہیں کہ ان کی ہر مانی جائے۔ تصورات میں ان سے میرے کئی اختلافات ہیں جن کا وہ کبھی برا نہیں مانتے۔
عمران خان
مجھ پر اکثر یہ الزام لگتا ہے کہ میں اپنے کالموں میں عمران کی مدح لکھتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں عمران کا مداح ہوں۔ وہ بہت سادہ آدمی ہے۔ اس کے مالی معاملات نہایت شفاف ہیں۔ عمران
(یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ پرانا انٹرویو ہے، عمران خان کے بارے میں ہارون صاحب کی رائے اب پہلے جیسی نہیں رہی، اس کا وہ اپنےکالموں میں اظہار کرتے رہتے ہیں)
کالم نگاری
میں نے پہلا کالم 1970ء میں لکھا۔ ان دنوں وفاق میں رپورٹر تھا۔ بسنت کے موقع پر چھ بچے چھتوں سے گر کر زخمی ہوئے۔ میں انہیں دیکھنے گیا۔ واپس آ کر خبر لکھنی شروع کی تو کچھ دیر بعد
(جاری ہے)
ہارون الرشید کی کہانی ، ان کی اپنی زبانی - عامر خاکوانی

نہائیت معذرت کیساتھ ۔۔۔۔۔ ہارون صاحب کبھی عمران خان کو اللہ کا کوئی اوتار اور ولی کامل اور اس قوم کا واحد نجات دہندہ ثابت کرنے اور 2013 کے انتخابات میں خیرہ کن کامیابیوں کی نوید سناتےوقت ایسی حد پر چلے جاتے تھے کہ انکی اپنی حیثیت مشکوک سی لگتی تھی لیکن ہمارے جیسے احتراما" اور محبت عمران میں خاموش رہتے تھے لیکن دبے لفظوں اظہار کردیا کرتے تھے کہ حضرت کچھ زیادہ نہی ھوگیا۔ ہاروں صاحب کے عارف زمانہ جنکا ہمیشہ محترم اس طرح تذکرہ فرماتے ہیں کہ عقیدت اپنی انتہاؤں پر نظر آتی ھے ۔ انکے عارف زمانہ صاحب کو گزشتہ کچھ عرصے میں سنا اور جب بالخصوص اعلی حضرت عمران خان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار فرماتے سنے گئے تو رب تعالی کا شکر ادا کیا کہ عارف زمانہ صاحب اور انکے پیروکار ہارون صاحب اب اچھا ھی ھوا کہ عمران خان سے دور ھو گئے ہیں اور اللہ کرے دور ھی رہیں۔ عارف زمانہ صاحب جس تکبر سے اپنے مریدین کو بتا رھے تھے کہ ہم نے عمران خان کو یہ کہا وہ کہا اور ہم نے عمران خان کوکیا حیثیت دلائی اور ہم نے عمران خان کو حکم دیا کہ ہمارے ان ان بندوں کو ٹکٹ ضرور دینا اگر کامیاب ھونا ھے اور عمران نے آگے سے ٹکا ھوا جواب دیدیا تو سب سمجھ میں آگیا کہ حضرت کونسے چینل سے بول رھے ہیں ۔ عارف زمانہ صاحب اب قوم کو پوری صداقت سے تلقین فرماۓ جا رھے ہیں کہ پاکستان جیسے ملک کے لئے شریف برادران ہی بہتر حکمران ہیں کہ کم از کم لاھور میں پل اور سڑکیں تو بنا رھے ہیں 🙂 ۔ ہماری بات پر شک ھو تو عارف زمانہ صاحب کی ڈسکہ میں اپنے معتقدین کو خطاب کی کلپ ملاحظہ فرمالیں۔ ہارون صاحب کی سوچ ضبط اور انٹیلیکٹ کا امتحان لینا ھو تو ذرا انکے محبوب گزشتہ سپہ سالار اعظم اور انکے بھائیوں نے جو اپنے دور میں ات اٹھائی ھوئی تھی اسکے بارے میں سوال کرلیں ۔۔۔۔۔۔۔ پورے ہارون رشید صاحب آشکار ھو کر سامنے آجاتے ہیں 🙂
Haroon sb aik jazbati aadmi hain.aik muddat tak jammat k madah rahay phir Zia k Islam k Usk bad Arif k Imran k aur phir Kiani k.laiekn ye hey jald hi apni bat pe tauba kar laitay hain
جناب نے صرف پرفیسر رفیق کو دیکھا ہے جبکہ کئی گمنام لوگ نہ جانے کس کس مقام پر ہیں
[…] پہلی قسط پڑھیں دوسری قسط پڑھیں […]