ہوم << رحمت اللعالمین ﷺ کے جانثار غلام کی داستان - غلام نبی مدنی

رحمت اللعالمین ﷺ کے جانثار غلام کی داستان - غلام نبی مدنی

غلام نبی مدنی اسلام ایک مکمل اور جامع دین ہے، جو انسانیت کی قدم قدم پر رہنمائی کرتاہے، ابتدا سے انتہاء تک، عالم دنیا سے عالم بالا تک اور قبر سے حشر تک غرض ہر جگہ اور ہر مقام پر اشرف المخلوقات کے لیے آسانیاں پید اکرتا ہے۔ کبھی تویہ رہنمائی افضل البشر محمدﷺکے ذریعہ کی جاتی ہے اور کبھی انسانیت کی خاطر سید البشر ﷺکے جانثار رفقاء کو ذریعہ ہدایت بنایا جاتاہے، کبھی کلام اللہ میں انسانیت کی فلاح کے لیے روشن اصول بیان کیے جاتے ہیں تو کبھی رسول اللہ ﷺ کے اقوال وافعال کے ذریعہ اور کبھی صحابہ کرام ؓ سے ایسے واقعات سرزد کروا کر امت کو پیش آمدہ گھمبیر مسائل کے حل کی سلجھن سکھائی جاتی ہے، لیکن ان سب باتوں کے باوجود امت کا اتفاق ہے کہ صحابہ کرام ؓ محفوظ ہیں اور معیار ِحق اور لائق تقلید ہیں، کسی کو ان کے کسی فعل وقول پر جرح کرنے کی قطعا اجازت نہیں کیوں کہ اللہ عزوجل نے بذات خود ’’رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ‘‘ کے ذریعے ان عظیم ہستیوں کو اپنی رضا کا پروانہ دے دیا ہے۔
زیرنظر مضمون ایک جلیل القدر صحابی ؓکی ایسی داستان سے معمور ہے جس میں انسانیت کے لیے بےشمار فوائد اور حکمتیں ہیں۔ اس داستان میں دنیاوی زندگی کو کارآمد بنانے کے لیے ایک کارگرنسخہ بھی سمجھایاگیاہے ۔اس داستان کے پڑھنے سے نہ صرف عشق رسول ؐکا شوق بڑھتا ہے بلکہ زندگی میں اتباع سنت کے جذبات بھی بھڑک اٹھتے ہیں۔ یہ داستان صرف داستان ہی نہیں بلکہ ایک ایسا سبق ہے جس کا پڑھنا اور یاد کرنا، اسے عملی زندگیوں میں بروئے کار لانا اور دوسروں تک پہچان اہر مسلمان کے لیے ضروری ہے تاکہ عشق رسول ﷺ اور محبت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا پیغام پوری دنیا میں پھیل سکے۔
افضل البشر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار کا جانثار غلام کعب بن مالک خزاعی ؓ اپنی داستان اپنی زبانی یوں بیان کرتے ہیں کہ ’’میں سوائے دو غزوات (غزوہ بدر اور غزوہ تبوک) کے باقی سب غزوات میں اپنے آقامحمد مصطفی ﷺ کا ہمسفر رہا، غزوہ بدر میں شرکت کا موقع اس وجہ سے نہ ملا کیوں کہ اس وقت آپ ؐ جنگ کے قصد سے نکلے تھے اور نہ اس کے لیے اعلانِ عام کیا تھا بلکہ آپ نے توصرف قافلہ قریش کے تعاقب کے لیے مدینہ کو چھوڑا تھا، اور مجھے اس غزوہ میں عدم شرکت کا افسوس بھی نہیں کیونکہ میں ’’لیلۃ العقبہ‘‘ کی بیعت میں شریک تھا جس میں ہم نے اسلام کی حمایت و حفاظت کے لیے جان قربان کرنے کی بیعت کی تھی۔
غزوہ تبوک میں میر ی عدم شرکت کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ مجھے اتنی فراوانی کبھی نہ ملی جتنی غزوہ تبوک کے اعلان کے وقت تھی، خداکی قسم! اس وقت میر ے پاس دو سواریاں تھیں جبکہ اس سے پہلے میرے ہاں سواری کا نام ونشان تک نہ تھا۔ ادھر غزوہ تبوک کی اہمیت بھی بہت زیادہ تھی کیوں کہ اس غزوہ کا اعلان اس وقت کیا گیا تھا جب فصلیں پک چکی تھیں اور گرمی کی شدت اس قدر تھی کہ ہر شخص کو سایہ محبوب تھا اور مسلمانوں کو بے آب وگیاہ صحرا عبور کر کے بہت بڑے دشمن سے پنجہ آزمائی کرنا تھی، اسی اہمیت کے پیشِ نظر رسول اللہ ﷺ نے عادت مبارکہ سے ہٹ کر سمتِ سفر کا تعین بھی فرما دیا اور جہاد کا کھل کر اعلان بھی کردیا تھا، اس اعلان کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کی ایک زبردست فوج تیار ہوگئی اور تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ ان سب کی فہرست بنانا دشوار تھا۔
میرا حال یہ تھا کہ میں ہر روز صبح کو جہاد کی تیاری کا ارادہ کرتا مگر ہر بار سوچتا کہ میں توجہاد پر قادر ہوں، میرے پاس اسباب بھی موجود ہیں، پھر اتنی جلدی کی کیا ضرورت ہے؟ یوں میرا ارادہ ہر روز ٹلتا رہا، ادھر مسلمان محنت و مشقت سے تیار ی کرکے آپ ﷺ کے ساتھ روانہ ہوگئے، مجھے جب آپ ﷺ کے کوچ کرنے کی اطلاع ملی تو سوچا کہ ایک دو دن میں تیار ی کرکے آپ ﷺ کے ساتھ لشکر میں جا ملوں گا، دوسرے دن تیاری کرنی چاہی مگر نہ کر سکا، تیسرے دن بھی یہی ہوا، میں اسی حال میں رہا یہاں تک کہ غزوہ میں نہ جاسکا، کئی بار میں نے جانے کا ارادہ کیا کہ ان سے جاملوں ،کاش! میں ایسے کر لیتا ! لیکن یہ میرے لیے مقدر نہ تھا۔
ادھر پورے راستہ میں کہیں بھی میری یاد رسول اللہ ﷺ کو نہ آئی، تبوک پہنچ کر آپ نے ایک مجلس میں فرمایا ’’ کعب کو کیا ہوا وہ کیوں نہیں آئے؟‘‘ بنو سلمہ کے ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ان کو مال و دولت کی فروانی اور کبر و غرور نے جہاد میں شرکت سے روک دیا. حضرت معاذ ابن جبل ؓ نے کعب بن مالک ؓ کے متعلق جب یہ الفاظ سنے تو فور ابول اٹھے کہ تم نے جو کہا برا کہا، اور آپ ﷺ سے عرض کیا خدا کی قسم! میں ان میں خیر کے سوا کچھ نہیں جانتا۔ یہ سن کر آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔
جب رسول اللہ ﷺ کی واپسی کی خبر مجھے ملی تو میں آپ ﷺ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے جھوٹے بہانے سوچنے لگا، لیکن جب آپ ﷺ مدینہ واپس تشریف لائے تو میرے دل سے تمام جھوٹے خیالات نکل گئے اور میں نے سمجھ لیا کہ میں جھوٹ بول کر آپ کی ناراضگی سے نہیں بچ سکتا کیوں کہ اس سے وقتی طور پر اگر آپ ﷺ نے درگزر کر بھی دیا تو آخر جب آپ ﷺ کو اس جھوٹ کا علم ہوگا تو اور زیادہ خفگی ہوگی، اس لیے میں نے سچ بولنے کا عزم کر لیا۔
رسول اللہ ﷺ صبح کے وقت واپس آئے تھے اور آپ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ ہمیشہ سفر سے واپسی پر دو رکعت نماز مسجد میں پڑھتے اور لوگوں کے ساتھ کچھ دیر کے لیے بیٹھ جاتے، حسب ِعادت جب آپ مسجد میں بیٹھے تو غزوے میں غیر حاضر رہنے والے اسّی سے زیادہ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قسمیں کھا کر اپنے اپنے عذرِلنگ بیان کرنے لگے، آپ ﷺ نے ان کے ظاہری قول و قرار اور قسموں کو قبول فرما کر ان کو بیعت کرلیا اور ان کے لیے مغفرت کی دعا بھی فرما دی۔ اسی حال میں، میں بھی حاضر خدمت ہو گیا اور آپ کو سلام کیا، جوابا آپ ﷺ نے ایسا تبسم فرمایا جیسے کوئی ناراض آدمی تبسم کرتا ہے، پھر آپ نے میری غیرحاضر ی کے متعلق دریافت فرمایا، میں نے عرض کیا، خدا کی قسم ! اگر آپ کے سوا دنیا کا کوئی اور آدمی ہوتا تو میں اس کے سامنے کوئی عذر گھڑ کر اس کی ناراضگی سے بچ جاتا کیوں کہ میں بروقت بات بنانے کا ماہر ہوں، لیکن خدا کی قسم! مجھے یقین ہے کہ میں جھوٹ بول کر اگر آپ کو راضی کرلوں تو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ پر حقیقت حال کھول دیں اور آپ مجھ سے ناراض ہوجائیں، اور اگر میں نے سچ بتا دیا جس سے آپ وقتی ناراض ہوں گے تاہم مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے معاف فرما دیں گے! تو سچ یہ ہے کہ میری غزوہ سے غیر حاضری کا کوئی عذر نہ تھا بلکہ جتنی مالی اور جسمانی فراوانی اس موقع پر تھی اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تم نے سچ کہا! اب جائو یہاں تک کہ اللہ خود تمہارے متعلق کوئی فیصلہ فر مادیں. میں آپ ؐ کے دربار اقدس سے اٹھ کر چلا آیا، راستہ میں بنوسلمہ کے لوگ مجھے کہنے لگے کہ ہمارے علم کے مطابق تم نے اس سے پہلے تو کوئی گناہ نہیں کیا، یہ تم نے کیا بیوقوفی کی؟ اس وقت جان خلاصی کے لیے کوئی عذر ہی پیش کر دیتے، اور پھر تمہارے اس گناہ کے لیے آپ ﷺ کا مغفرت کر دینا کافی ہوجاتا۔ یہ لوگ بار بار مجھے یوں ہی ملامت کرتے رہے حتی ٰکہ میرے دل میں بھی یہ خیال آگیا کہ میں آپ ﷺ کی خدمت میں جا کر دوبارہ عرض کروں کہ جو بات میں نے پہلے آپ سے کہی وہ غلط تھی، میرے پا س عذر صحیح موجود ہے، لیکن اس سے پہلے کہ میں آپ کے پاس جاتا، میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ میر ی طرح کسی اور نے اقبال ِجرم کیا ہے؟ تو انہوں نے میرے سامنے ایسی دو برگزیدہ ہستیوں کا تذکرہ کیا جو اسلام کی سب سے پہلی جنگ کے سپاہی تھے۔ میں نے ان کا نام سن کر کہا کہ بس! میرے لیے ان دو بزرگوں کا عمل ہی قابل تقلید ہے، یہ کہہ کر میں اپنے گھر چلا آیا۔
ادھر رسول اللہ ﷺ نے ہم تینوں سے سلام و کلام کرنے سے صحابہ کو روک دیا تھا، اس وجہ سے سارے لوگ ہم سے الگ رہنے لگے۔ میرے دونوں ساتھی اس مقاطعہ سے عاجز آ کر اپنے اپنے گھروں میں محصور ہوگئے اور انہوں نے رونے دھونے کا مشغلہ اپنا لیا، میں چونکہ نوجوان اور قوی اعصاب کا مالک تھا، اس لیے میں باہر نکلتا، مسلمانوں کے ساتھ نمازوں میں شریک ہوتا اور بازارو ں کے چکر لگاتا، مگر آپ کے حکم کی تعمیل میں لوگ مجھ سے بات نہ کرتے اور نہ سلام کا جواب دیتے، میں آپ کی مجلس میں آتا، سلام کرتا، پھر دیکھتا کہ جواب میں آپ ﷺ کے لب مبارک ہلے ہیں یانہیں؟ کبھی میں آپ کے قریب نماز پڑھتا تو نظر چرا کر آپ ﷺ کی طر ف دیکھتا تو ایسے معلوم ہوتا کہ جب میں نماز میں مشغول ہو جاتا ہوں تو میرے آقا ﷺ میری طر ف نظر شفقت ڈالتے ہیں، اور جب میں آپ ﷺ کی طرف دیکھتاہوں تو آپ ﷺ رخ پھیر لیتے ہیں۔ بہرحال جب لوگوں کی بے رخی طویل ہوگئی تو ایک روز میں اپنے چچا زاد بھائی ابو قتادہ ؓ کے باغ میں دیوار پھاند کر گیا، وہ مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبو ب تھے، میں نے جا کر سلام کیا، خداکی قسم! انہوں نے سلام کا جواب نہ دیا، میں نے عرض کیا کہ ابو قتادہ! میں تمہیں خدا کا واسطہ دیتا ہوں، کیا تمہیں علم نہیں کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں؟ انہوں نے کوئی جواب نہ دیا، میں نے دوسری بار یہ بات کہی تب بھی وہ خاموش رہے، تیسری بار جب میں نے کہا تو انہوں نے صر ف اتنا کہا ’’اللہ و رسولہ اعلم‘‘ بس یہ سننا تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور میں واپس اپنے گھر چلا آیا۔ یہی حال چلتا رہا کہ ایک دن میں مدینہ منورہ کے بازار میں جا رہا تھا، اچانک میں نے ملک شام کے ایک نبطی تاجر کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ’’ کعب بن مالک کہاں ہے؟‘‘ لوگوں نے میری طرف اشارہ کر دیا تو وہ میرے پا س آیا اور مجھے غسانی بادشاہ کا خط دیا. خط کا مضمون یہ تھا ’’امابعد!مجھے اطلاع ملی ہے کہ تمہارے نبی (ﷺ) نے تم سے جفا کی ہے اور تمہیں دور کردیا ہے۔ اللہ نے تمہیں ذلیل بنایا ہے نہ بےکار، (تم کام کے آدمی ہو)، تم ہمارے پاس آجائو، ہم تمہارے ساتھ ہمدردی کریں گے‘‘۔ میںنے جب یہ خط پڑھا تو میرا جسم کانپ اٹھا، میں نے فوراً اس خط کو تنور میں ڈال دیا۔
جب چالیس راتیں گزر گئیں تو آپ ﷺ کا ایک قاصد میرے پاس آیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺنے آپ کو حکم دیا ہے کہ تم اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرو، میں نے پوچھا کیا میں طلاق دے دوں؟ انہوں نے کہا نہیں! صرف علیحدہ رہو اور قریب نہ جائو۔ اسی طرح کا حکم میرے دوسرے دو ساتھیوں کو دیا گیا، میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم اب میکے چلی جائو اور وہیں رہو جب تک کہ اللہ کوئی فیصلہ فرما دیں۔ میرے دوسرے ساتھی ہلال بن امیہ کی بیوی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یارسول اللہ! ہلال بہت بوڑھے اور ناتواں ہیں، ان کا کوئی خادم بھی نہیں، اگر میں ان کی خدمت کرتی رہوں تو کیا آپ کو ناگوار ی ہوگی؟ آپ نے فرمایا نہیں! ہاں مگر وہ تمہارے قریب نہ آئیں، اس پر ان کی بیوی نے کہا کہ خدا کی قسم! بڑھاپے کی وجہ سے ان میں حرکت ہی نہیں ہے، جب سے عتاب ہوا اس وقت سے وہ مسلسل روتے رہتے ہیں۔ مجھے بھی میرے گھر کے بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ میں بھی ہلال کی بیوی کی طرح آپ سے اجازت لوں، میں نے کہا بخدا! میں اجازت نہ لوں گا، نہ معلوم آپ کیا جواب دیں گے! میں نے اسی حال میں دس راتیں گزاریں یہاں تک کہ پچاس راتیں مکمل ہوگئیں۔
اگلے دن فجر کے بعد میں اپنی چھت پر بیٹھا تھا کہ میں نے سِلع نامی پہاڑ کی جانب سے ایک منادی کی آواز سنی، جو پکار کر کہہ رہا تھا کہ اے کعب! تمہیں بشارت ہو، میں یہ سنتے ہی سجدہ ریز ہوگیا، خوشی سے آنسو جاری ہوگئے، میں سمجھ گیا کہ اب معاملہ حل ہوگیا ہے۔ پھر وہ شخص میرے پاس آگیا اور خوشخبری سنائی، میں نے اس کی بشارت کی خوشی میں اسے اپنا لباس اتار کر دے دیا حالانکہ اس وقت میرے پاس صرف یہی ایک لباس تھا، پھر میں نے اپنے چچازاد بھائی سے لباس عاریتاً لیا اور آپ ﷺ کے دربار میں حاضری دینے کی خاطر چل پڑا، راستے میں لوگ جوق در جوق ملتے رہے اور مبارکباد دیتے رہے۔ جب میں مسجد نبوی ﷺ میں داخل ہوا تو دیکھا آپﷺ تشریف فرما ہیں اور آپ ﷺ کے ارد گرد آپ کے غلام بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے آپﷺ کو سلام کیا تو آپ کا چہرہ خوشی کی وجہ سے چمک اٹھا، آپ نے فرمایا اے کعب! تمہیں بشارت ہو ایسے مبارک دن کی جو تمہاری عمر میں پیدائش سے لے کر آج تک سب سے زیادہ بہترین دن ہے۔ میں نے آپ ﷺ سے پوچھا یہ حکم آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالی کی طرف سے؟ آ پ نے فرمایا یہ اللہ کا حکم ہے، تم نے سچ بولا اور اللہ نے تمہاری سچائی کو ظاہر فرما دیا۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! میں اپنی اس توبہ کی خوشی میں اپنا سارا مال صدقہ کرنا چاہتا ہوں، آپ نے فرمایا کچھ اپنے پاس بھی باقی رکھو، تو میں نے غزوہ خیبر میں جو حصہ ملا تھا اسے صدقہ کر دیا۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ نے مجھے سچ بولنے کی وجہ سے نجات دی، اس لیے اب میں عہد کرتا ہوں کہ زندگی بھر سچ بولوں گا۔ خدا کی قسم! جب سے میں نے آپ ﷺ سے یہ عہد کیا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ خدا نے میرے سِوا اتنا کسی کو نوازا ہوگا جتنا کہ اس عہد کے بعد مجھے نوازا ہے، خدا کی قسم! اسلام کے بعد سب سے بڑی نعمت جو مجھے ملی وہ آپ کے سامنے سچ بولنا ہے، کیوں کہ اگرمیں جھوٹ بولتا تو ہلاک ہوجاتا جس طرح کہ 80 لوگ جھوٹی قسمیں کھانے والے اللہ کے عتاب کے مستحق ٹھہرے۔
اس داستان میں بے شمار حکمتیں اور نصائح مضمر ہیں جو ہر عام و خاص کے لیے مفید ہیں، افادہ عام کے لیے چند ایک پیش ہیں۔
٭ امام، حاکم یا کوئی بڑا اگر کسی کام کے کرنے کا حکم دیں تو اس کی انجام دہی کے لیے ہمہ وقت تیار رہناچاہیے، جیسے غزوہ تبوک کے اعلان کے بعد صحابہ کرامؓ جنگ کی تیاری میں مشغول ہوگئے، اگر آدمی سستی و کاہلی کا شکار ہوگیا تو آزمائش آسکتی ہے، جیسے کعب بن مالکؓ کو اپنے دوساتھیوں سمیت پچاس دن تک مقاطعہ کی اذیت جھیلنا پڑی۔
٭ اگر کوئی آدمی کسی کے بارے میں نامناسب بات کہے تو اسے ٹوکنا چاہیے جیسے حضرت معاذبن جبل ؓ نے بنوسلمہ کے اس آدمی کو ٹوکا جس نے حضرت کعب ؓکی عدم حاضری کو مال و دولت کی فراوانی سے نتھی کیا تھا اور پھر خود حضرت معاذؓ نے حضرت کعبؓ کی صفائی دی کہ ’’میں تو ان میں خیر کے سوا کچھ نہیں دیکھتا‘‘۔
٭ یہ بھی معلوم ہوا کہ جو آدمی دین میں جتنا مضبوط ہوگا اس سے کسی چھوٹی سی چھوٹی غلطی کے سرزد ہونے پر مواخذہ بھی اتناہی سخت ہوگا ،جیسا کہ حضرت کعب بن مالکؓ کے ساتھ ہوا۔
٭ اگر کوئی آدمی کسی دوسرے میں نامناسب بات دیکھے تو اس کی نشاندہی کردینی چاہیے تاکہ وہ اصلاح کرلے۔
٭ اگر کسی سے کوئی اچھا کام فوت ہوجائے تو اس کے فوت ہونے پرندامت اور تاسف کا اظہارکرنا چاہیے اور آئندہ کے لیے اللہ تعالی سے مدد طلب کرنی چاہیے، جیسے حضرت کعب بن مالکؓ ،مرارہ بن ربیعؓ اور ہلا ل بن امیہ ؓتینوں حضرات غزوہ کے فوت ہونے پر مسلسل روتے رہے۔
٭ اگر کسی سے غلطی سرزد ہوجائے تو صاحبِ منصب یا منتظم کو سرزنش کرنی چاہیے اور نا راضگی کا اظہار کرنا چاہیے تا کہ آئندہ وہ اس غلطی کا مرتکب نہ ہو، جیسے حضرت کعب ؓکی عدم حاضری پر آپ ﷺ کا ناراضگی والا تبسم فرمانا اور صحابہ کرام ؓکو مقاطعہ کا حکم دینا۔
٭ یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی بڑے کو اپنا آئیڈیل بنانا اور اس کے نیک عمل اور اچھے کردار کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے جیسے حضرت کعب ؓ نے ہلا ل بن امیہ ؓ کو اپنا آئیڈیل بنایا اور ان کے طرز ِعمل کو اختیار کیا۔
٭ اگر حاکم یا منتظم یا کوئی بڑا کسی بات سے روک دے تو ہرحال میں اطاعت لازم ہے اور تعمیلِ حکم میں اگر محبوب شئی بھی چھوڑنا پڑے تو بلاتامل چھوڑدینا چاہیے، جیسے حضرت ابو قتادہ ؓ کا باوجود چچا زاد ہونے کے حضرت کعبؓ کو سلام کا جواب نہ دینا ،اور آپ ؐ کے حکم کی تعمیل میں ان تینوں حضرات کا اپنی بیویوں سے دور رہنا۔
٭ یہ بھی معلوم ہو اکہ بیوی کوخاوند کی خدمت کرنی چاہیے اور سخت سے سخت آزمائش میں ساتھ نبھانا چاہیے، جیسے ہلا ل بن امیہ کی بیوی کا آزمائش میں ساتھ نبھانے کے لیے آپ ؐ سے اجازت طلب کرنا۔
٭ کوئی خوشخبر ی یا اچھی بات کی خبر سننے پراللہ کا شکرادا کرنا چاہیے، اور نعمت کے حصول اور پریشانی کے زوال پر صدقہ کرنا چاہیے تاکہ مزید انعامات کی بارش ہو، اس سلسلہ میں حضرت کعب ؓ کا عمل قیامت تک کے لیے بہترین اسوہ حسنہ ہے۔
٭ لب لباب اور نچوڑ یہ ہے کہ آدمی کو ہر وقت، ہرلمحہ اطاعت ِخدا اور رسول ﷺ کا اہتمام کرنا چاہیے اور دنیا کی مختصر زندگی کو مکمل طور پر شریعت کے مطابق گزارنا چاہیے، اور اوامر پر سختی سے عمل کرنا اور نواہی سے لازماً اجتناب کرناچاہیے. جھوٹ، سستی کاہلی، عیش وعشرت، مال و اولاد کی محبت میں انہماک سے گریز کرنا چاہیے، اور سب سے اہم بات یہ کہ ہمیشہ سچ بولنا چاہیے کیوں کہ سچ نہ صرف انسان کے وقار کو بلند کرتا ہے بلکہ فلاح دارین کا سبب اور لازوال نعمتوں کے حصول کا ذریعہ بھی بنتا ہے، حضرت کعب ؓکا قسم اٹھانا اس نعمت کی اہمیت اور عظمت کی واضح دلیل ہے۔ یہ داستان بھی اسی فلسفہ کوعملی زندگی میں اپنانے اور رواج دینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
یاد رہے! حضرت کعب بن مالکؓ کی دکھ بھری داستان ان چند خوبیوں اور حکمتوں کی محتاج نہیں بلکہ اس جیسی سینکڑوں نصیحتیں اس یادگار داستان میں پنہاں ہیں جو اہل ِعقول اور صاحب بصیرت لوگوں کو غور وخوض کی دعوت اور ان کو اپنانے کی ترغیب دی رہی ہیں۔ خدائے جل جلالہ ہم سب کو اس کی جستجواور اس داستان سے حاصل ہونے والی ہر خوبی اور حکمت پر عمل کرنے کی توفیق دے. آمین ۔