ہوم << سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے کارنامے اور نزول قرآن سے موافقت - میاں عتیق الرحمن

سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے کارنامے اور نزول قرآن سے موافقت - میاں عتیق الرحمن

میاں عتیق الرحمن ابوحفص عمر بن خطاب عدوی قریشی، لقب فاروق 586ء تا 590ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا لقب فاروق، کنیت ابوحفص دونوں نبی کریم ﷺکے عطا کردہ ہیں۔ آپ کا نسب آٹھویں یا نویں پشت میں رسول اکرم ﷺ سے جا ملتا ہے۔ آپﷺ کی آٹھویں یا نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی تھے جن میں سے رسول اللہ ﷺ مرہ کی اولاد جبکہ سیدنا عمر عدی کی اولاد میں سے ہیں۔ ابتدا میں جب حضور اکرم ﷺ نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو سیدنا عمر نے آپ ﷺ کی سخت مخالفت کی۔ مگر کچھ وقت گزرنے کے بعد آپ پر جب حقیقتیں کھلنے لگیں اور آپ ﷺ نے دعا بھی کی تو آپ نے اسلام قبول کر لیا۔ اس لیے آپ کو مراد رسول ﷺبھی کہا جاتا ہے۔ سیدنا عمر فاروق مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد ﷺ کے سسراور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔آپ عشرہ مبشرہ میں سے بھی ہیں اور ان کا شمار علم وحکمت سے بھرپورصحابہ میں ہوتا تھا۔ سیدنا ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔سیدنا عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، ان کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں سے ایک وجہ یہ بھی بن گئی۔
سیدنا عمر بن خطاب کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان مملکت اسلامیہ میں شامل ہوئے اور سلطنت اسلامیہ کا رقبہ 22 لاکھ 51 ہزاراور30 مربع میل تک پھیل گیا۔ انہی کے دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباًً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کاحصہ بنا۔سیدنا فاروق اعظم کی مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل بادشاہت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی زبر دست صلاحیتوں کی دلیل ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے حسن انتظام کے ہر کونے میں جو نئی سمتیں پہلی بار متعارف کر وائیں ان میں بیت المال کو قائم کرنا،عدالتیں اور قاضیوں کی مستقل تقرری،سن ہجری اور تاریخ کو رواج دینا،امیر المومنین کا لقب اختیار کرنا،رضاکاروں کی تنخواہیں مقرر کرنا،فوجی دفتر ترتیب دینا،دفتر مال قائم کرنا،زمینوں کی پیمائش جاری کرنا،نہریں کھدوانا،کوفہ،بصرہ ،جیزہ ،فسطاط اور موصل شہر آباد کرنا،مفتوحہ ممالک کو صوبوں میں تقسیم کرکے وفاق کے ساتھ ملانا، عشور ،دریائی پیدا وار عنبر وغیرہ پر ٹیکس لگانا،ٹیکس لینےوالا عملہ رکھنا،جنگ کرنے والے ملکوں کے تاجروں کو تجارت کیلئے آنے دینا،جیل خانہ جات کا قیام،درہ کا استعمال ،راتوں کو گشت کرکے رعایا کے حالات جاننا ،محکمہ پولیس کا قیام،مختلف علاقوں میں فوجی چھاؤنیوں کا قیام ،گھوڑوں کی نسلوں میں فرق کا نظام ،پرچہ نویسوں کا تقرر،مکہ اور مدینہ کے راستے میں مسافروں کیلئے سراؤں کی تعمیر ،سٹریٹ چلڈرن کی دیکھ بھال کا انتظام،مختلف شہروں میں مہمان خانوں کا اہتمام،عربوں کی غلامی کا مکمل خاتمہ،کمزور اور ناداریہودیوں اور عیسائیوں کے وظائف،مکاتب کاقیام، جناب سیدنا صدیق اکبر کے ذریعے قرآن مجید کی ترتیب واہتمام کی کوشش،اصول قیاس کے معیار کا قیام،وراثت میں مسئلہ عول کی دریافت،صبح کی نماز کیلئے آذان سن کر سوئے رہنے والے لوگوں کیلئے الصلوۃ خیر من النوم کی آواز لگانے کا اہتمام،نماز تراویح کو باجماعت کروانے کا بندوبست،شراب کی حد 80 کوڑے مقرر کرنا،تجارتی گھوڑوں کی زکوۃ کی وصولی،بنو تغلب کے عیسائیوں سے زکوۃ لینا،طریقہ وقف ،نماز جنازہ میں چار تکبیروں پر لوگوں کو جمع کرنا،مساجد میں وعظ کے طریقے مقرر کرنا،اماموں اور مؤذنوں کی تنخواہوں کا تقرر،مساجد میں رات کو روشنیوں کا اہتمام،ہجو کہنے پر تعزیر کی سزا اور غزلیہ اشعار میں عورتوں کے نام استعمال کرنے پر پابندی سمیت بہت سے امور اور جہتیں شامل ہیں۔ان کی تفصیل تاریخ طبری اور کتاب الاوائل ابو ہلال العسکری میں موجود ہے ۔
سیدنا فاروق اعظم کو یہ سعادت بھی کئی مرتبہ حاصل ہوئی کہ وحیِ خداوندی نے ان کی رائے کی تائید کی۔ ایک دفعہ ایک یہودی نے سیدنا عمر فاروق سے کہا ، جبرئیل فرشتہ جس کا ذکر تمہارے نبی کرتے ہیں وہ ہمارا دشمن ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا، مَنْ کَانَ عَدُوَّ لِلّٰہِ وَمَلاَ ئِکَتِہٖ وَرُسُلِہ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکَالَ فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوُّ لِلْکٰفِرِیْن۔ ترجمہ : جو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکائیل کے دشمن ہیں، اللہ ان کافروں کا دشمن ہے۔ (البقرۃ:٩٨) بالکل اِنہی الفاظ میں یہ آیت نازل ہوئی۔تفسیر ابن کثیر البقرۃ تفسیرآیت نمبر 98 )
ایک دوسری آیت اس طرح نازل ہوئی کہ ایک بار آپ نے عرض کی، یا رسول اللہ ! ہم مقامِ ابراہیم کو مصلیٰ نہ بنالیں ، اس پر یہ آیت نازل ہوگئی، وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہمَ مُصَلًّی ۔ لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم ؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنالو۔(البقرۃ:١٢٥) ۔بخاری شریف کتاب التفسیر :4243)
نیچے بیان کردہ تین آیات کے نزول کا پس منظر کچھ اس طرح ہے حرمت سے قبل مدینہ طیبہ میں شراب اور جوئے کاعام رواج تھا۔سیدناعمر نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ، ہمیں شراب اور جوئے کے متعلق احکامات دیجیے کیونکہ یہ مال اور عقل دونوں ضائع کرتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی، یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا اِثْم کَبِیْر۔ (البقرۃ:٢١٩) ۔ اس کے نازل ہونے کے بعد سیدنا عمر پھر وہی دعا کرتے رہے تو یہ آیت نازل ہوئی۔یٰااَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی ۔(النساء:٤٣) اسی سلسلے میں سیدنا عمر نے بار بار دعا کی ، اے اللہ ! شراب اور جوئے کے متعلق ہمارے لئے واضح حکم نازل فرما۔ حتی کہ شراب اور جوئے کے حرام ہونے پریہ آیت نازل ہوگئی۔ اِنَّمَا الْخَمْرُ والْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلاَمُ رِجْس'' مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ ۔ ۔ (المائدۃ:٩٠ تو حضرت عمر نے کہا کہ ہم باز آگئے ہم باز آگئے۔(ترمذی: 3039۔نسائی شریف: 5049)
قرآن مجید کا چھٹا مقام سورت البقرۃ کی آیت نمبر 187 کاشان نزول ہے جس کے بارے حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں رمضان المبارک کی رات میں بھی بیوی سے قربت منع تھی ۔تمام صحابہ کرام اس پابندی سے رخصت کے طلب گار تھے مگر اس کا اظہار سب سے پہلے عمر فاروق نے کیا اور جس پر تمام صحابہ کرام کا مسئلہ بھی حل ہوا اور امت کو ایک رخصت مل گئی اور پھر شب ‏میں مجامعت کو جائز قرار دے دیا گیااور آیت نازل ہوئی۔ اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَائِکُمْ۔البقرۃ 187) تفسیر ابن کثیر تفسیر سورت البقرۃ آیت 187) حافظ احمد شاکر ؒ نے عمدۃ التفاسیر میں اسے صحیح کہا ہے۔
قرآن مجید کے ساتویں مقام سورت نساء آیت نمبر 65 میں بھی بعض کمزور روایات میں موافقت عمر فاروق میں شمار کیا گیا ہے ۔ہوا کچھ یوں تھا کہ دو شخص لڑائی کے بعد انصاف کے لیے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے ۔ حضور ﷺ نے ان کا فیصلہ کر دیا لیکن جس کے خلاف یہ فیصلہ ہوا، وہ منافق تھا۔ اس نے کہا کہ ‏چلو سیدنا عمر کے پاس چلیں اور ان سے فیصلہ کرائیں۔ چنانچہ یہ دونوں پہنچے اور جس شخص کے موافق حضور نے فیصلہ کیا تھا اس نے سیدنا عمر ‏ سے کہا ، حضور نے تو ہمارا فیصلہ اس طرح فرمایا تھا لیکن یہ میرا ساتھی نہیں مانا اورآپ کے پاس فیصلہ کے لئے لے آیا ۔ آپ نے فرمایا، ذرا ٹھہرو میں ‏آتا ہوں۔ آپ اندر سے تلوار نکال لائے اور اس شخص کو جس نے حضور کا فیصلہ نہیں مانا تھا، قتل کر دیا۔ دوسرا شخص بھاگا ہوا رسولُ اللہ ا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ‏اس واقعہ کی اطلاع دی۔ آپ نے فرمایا، مجھے عمرسے یہ امید نہیں کہ وہ کسی مومن کے قتل پر اس طرح جرات کرے ۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ‏ سیدنا عمر اس منافق کے خون سے بری رہے۔آیت یہ ہے۔ فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ الخ۔( النساء 65) یہ واقعہ یا شان نزول ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں علامہ زیلعی نے تخریج الکشاف ، علامہ سیوطی نے لباب النقول اور علامہ شوکانی نے فتح القدیر میں نقل کیا ہے مگر سب نے ابن لھیعہ کے وجہ سے اسے ناقابل استدلال ٹھہرایا ہے۔
موافقات عمر کا آٹھواں مقام سورت الانفال کی آیت نمبر 68 ہے ۔۔ بدر کے قیدیوں کے متعلق بعض نے فدیہ کی رائے دی تھی جبکہ جناب سیدنا عمر فاروق نے انہیں قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔ اس پر آپ کی موافقت میں یہ آیت ‏نازل ہوئی۔ لَوْلاَ کِتَاب مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا اَخَذْتُمْ عَذَاب عَظِیْم''‏(الانفال:٦٨‏)۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی''۔صحیح مسلم 2399)
جناب سیدنا عمر فاروق کی تائید میں قرآن کریم کانواں مقام سورت التوبہ کی آیت نمبر 84 ہے کہ جب منافق عبداللہ ابن اُبی مرا تو ان کے بیٹے نے آپ ﷺ سے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے درخواست کی ۔اس پر سیدنا عمر فاروق نے عرض ‏کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ، عبداللہ ابن اُبی توآپ کا سخت دشمن اور منافق تھا ،آپ اُس کا جنازہ پڑھا ئیں گے مگر پھر بھی رحمتِ عالم ﷺنے تبلیغ دین کی حکمت کے پیشِ نظر اس کی نمازِ جنازہ ‏پڑھائی۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ یہ آیت نازل ہوگئی ، وَلاَ تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَاتَ اَبَدًا۔ التوبہ 84، سلسلہ صحیحہ: 1130)
قرآن کریم کا سیدنا عمر فاروق کی تائید میں دسواں مقام سورت منافقون کی آیت 6 بھی اسی وقت یا اس سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی۔ اسی نماز جنازہ کے حوالے سے حضرت عمر فاروق نے عرض کی تھی ، سَوَاء عَلَیْہِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ (منافقون 6) مجمع الزوائد جلد 9 /70)
گیارہویں موافقت کی روداد کچھ اس طرح ہے کہ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ جب آیت لَقَدْخَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِنْ طِیْنِ ۔ (المؤمنون:١٢) نازل ہوئی تو اِسے سن کر سیدنا عمر فاروق نے بے ساختہ کہا، فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ۔ '' تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والا''۔ اس کے بعد اِنہی لفظوں سے یہ آیت نازل ہوگئی۔تفسیر ابن ابی حاتم تفسیر سورت مومنون آیت 12،13)
بارہویں دفعہ قرآن مجید میں آپ کی موافقت کچھ اس طرح آئی کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ پرمنافقوں نے جب بہتان لگایا تو ر سول اللہ ﷺنے دیگر صحابہ کی طرح سیدنا عمر سے بھی مشورہ فرمایا۔ انہوں نے جواب دیا کہ اے میرے آقا ! آپ نے اُن سے نکاح خود کیا تھا یا اللہ تعالیٰ کی مرضی سے تو آپ ﷺ نے جواب دیا کہ ، اللہ کی مرضی سے تو اس پر آپ نے کہا کہ کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے رب نے آپ سے اُن کے عیب کوچھپایا ہو گا، بخدا یہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر عظیم بہتان ہے۔ سُبْحٰنَکَ ھٰذَا بُہْتَان'' عَظِیْم'' (النور:١٦)۔ اسی طرح آیت نازل ہوئی۔ عمدۃ القاری ،کتاب الصلاۃ ،باب ما جاء فی القبلۃ ۔۔۔الخ ،شرح حدیث 402)
تیرہویں تائید ایزدی اس طرح حاصل ہوئی کہ سیدناعمر ایک روز سو رہے تھے کہ ایک غلام بغیر اجازت لیے اندر چلا آیا۔ اس وقت آپ نے دعا فرمائی ، اے اللہ بغیر اجازت گھروں میں داخل ہونا حرام فرما دے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا ۔(النور:٢٧،)۔بخاری شریف کتاب التفسیر ج2 ص 706 حاشیہ 7)
قرآن مجید کا چوھدواں مقام جو آپ کی تائید میں اترا وہ سورت الاحزاب کی 53 نمبر آیت نازل ہو گئی ۔آپ کو لوگوں کا امہات المومنین کے پاس جانا پسند نہیں تھا آپ نے اس کا اظہار فرما یا تو یہ آیات نازل ہو گئیں ۔( صحیح مسلم 2399)
پندرویں مقام میں موافقت سورت التحریم کی آیت نمبر 5 جن میں امہات المومنین کو تنبیہ کی گئی ہے،سولہویں نمبر پر سورت الانفال کی آیت نمبر 5 ، جس میں غزوہ بدر کیلئے باہر نکل کر لڑنے کا مشورہ سیدنا عمر کاتھا تو قرآن مجید کے نزول نے بھی اس کی تائید کردی ،سترہویں موافقت قرآنی سورت منافقون کی آیت نمبر 6 ہے جس میں منافقین کیلئے دعا کرنے یا نہ کرنے سے انکی مغفرت نہیں ہوتی کے بارے میں بتایاگیا تھا ،اٹھارہویں تائید یا موافقت سورت الواقعہ کی آیات نمبر 39،40 ہیں جن میں امت محمد ﷺ کی زیادتی کا ذکر کیا گیا ہے ۔(تاریخ الخلفاء ص 200)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ جنت الفردوس میں آپکے درجات کو اور بلند فرمائے ، اور ہمارے دل میں آپکی عظمت اور آپکی سیرت پہ عمل کرنے کا بیج بو دے۔اللہ ہم سب کے گناہوں کو معاف فرمائے۔اور اگر کوئی غلطی، کمی کوتاہی ہو گئی مجھ سے تو معاف فرمائے۔ اور ہمیں ایسا بنادے کے ہم اسے پسند آ جائیں۔ اور نبی پاک روحِ مقدس پیر کامل محمد مصطفیٰ ﷺ پہ ،تمام اصحاب پہ تمام امت پہ اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے۔۔۔آمین ثم آمین یا رب العالمین

Comments

Click here to post a comment