ہوم << ماں کے بغیر بچے کی پیدائش - نجم الحسن

ماں کے بغیر بچے کی پیدائش - نجم الحسن

نجم الحسن سائنسی جریدے نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہونے والی تحقیق کے نتائج کے مطابق مستقبل بعید میں عورتوں کو بچہ پیدا کرنے کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا کرنا ممکن ہو جائے گا، مطلب ماں کے بغیر بچہ پیدا کرنا ممکن ہو سکے گا۔ ................................................................
کسی بھی شخص کی زندگی میں کوئی تعلق اتنا مضبوط اور بےلوث نہیں ہو سکتا، جتنا ماں کا رشتہ بےلوث اور اٹوٹ ہوتا ہے۔ وہ اس نئے تخلیق شدہ بچے کا پہلا تعلق آفرین ہوتا ہے۔ مگر جس طرح انسان نے ایک ایک کرکے تمام تعلقات کو کسی نہ کسی انداز میں ہدف بنا کر اسے توڑنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اب اس کی نظر میں ماں اور اس سے جنم لینے والے بچے کے فطری تعلق کو بھی توڑنے کے لیے کوشاں ہے اور اس مد میں سائنس کو ایک بہترین آلہ کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ ویسے تو عام انسان بالعموم اور سائنسدان بالخصوص کئی فطری عوامل کو غیر فطری انداز میں دیکھنا پسند کرتے ہیں اور یہ خصلت بھی انسان کی اپنی فطری جبلت کی مرہون منت ہے۔ مگر جہاں تعلق انسان کا اپنی ماں، اپنی جنم دینی والی ہستی سے ہو تو وہاں لامحالہ فطری تعلق، جذبات و احساسات کا سوال اٹھتا ہے۔ ماں کا اپنے بچے کے ساتھ تعلق صرف پیدائش کے بعد کا نہیں ہوتا، بلکہ اس کی داغ بیل اس وقت پڑ جاتی ہے جب بچہ اپنی ماں کی رحم میں پرورش پاتا ہے، اور یہی وہ اصل ماخذ ہے جہاں سے ایک اٹوٹ رشتے کی ابتدا ہوتی ہے، جہاں سے احساسات کی ایک نئی زندگی جنم لیتی ہے۔ لیکن اب سائنسدان اس اس انوکھے بندھن کو توڑنے کے درپے ہیں، اور ایسے طریقے ایجاد کرنے میں لگے ہیں جس سے ماں اور جنم لینے والے بچے کا یہ انمول تعلق ختم کرکے محض ایک جسمانی تعلق کے طور پر سامنے آ جائے۔ اس ضمن میں یونیورسٹی آف باتھ کے سائنسدانوں نے سائنسی جریدے نیچر کمیونیکیشنز میں اپنی ایک تحقیق مقالے میں اس امر کا دعوی کیا ہے کہ اب وہ وقت دور نہیں کہ بن ماں کے بچے جنم لینے لگیں گے۔ ان کی سائنسی تحقیق کی کامیابی اپنی جگہ پر ایک بڑی بات ہے مگر اس سے چند ایسے آسان اور عام فہم سوالات جنم لیں گے جن کا جواب شاید ان کی انتہائی گھمبیرتا رکھنے والی سائنس شاید ہی دے سکے۔
ماں کے بغیر بچہ تو پیدا ہو ہی جائے گا، مگر،
ماں کی ممتا کہاں سے لاؤگے؟
وہ دل کہاں سے لاؤگے جو بچے کے دھڑکن کے ساتھ دھڑکتا ہے؟
اس کی تکلیف سے دہک جاتا ہے؟
اس کی خوشی سے مہک جاتا ہے؟
اس کی مسکان کے ساتھ چہک جاتا ہے؟
وہ احساس کہاں سے لاؤگے؟ جس سے بچے کو دنیا وما فیہا کی تمام آسائشیں ایک آغوش میں ہی مل جاتی ہیں۔
وہ گود کہاں سے لاؤگے، جہاں سر رکھ کر بندہ ہر غم و تکلیف سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔
وہ آنچل کہاں سے لاؤگے جس میں بچہ تپتے آسماں کے نیچے بھی ٹھنڈک محسوس کرتا ہے۔
وہ نظر کہاں سے لاؤگے؟ جس میں انسان کبھی بوڑھا ہوتا نہیں، کبھی مرتا نہیں۔
کتنے بدنصیب ہوں گے وہ بچے جن کے نصیب میں ماں نہیں ہوگی، اور وہ کبھی یہ نہ کہہ سکیں گے کہ
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے

Comments

Click here to post a comment