ہمارا حال یہ ہے کہ نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کا جی بھر کر مذاق اڑانے کے بعد ہم پھر سے اندرونی سیاست میں مشغول ہوگئے ہیں۔ ہمارے دو فوجی شہید ہوئے لیکن ان شہدا کا کیس عالمی سطح پر اٹھانے، ایل او سی کی خلاف ورزی پر شور کھڑا کرنے اور دنیا سے ہندوستان کے لیے مذمت نہ سہی، اپنے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا کروانے سے زیادہ ہمارا زور اس بات پر ہے کہ کس طرح زور سے ہنسا جائے۔ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر جھوٹی سچی ویڈیوز اور من گھڑت دعوے شیئر کرنے کے بعد ہم ایک بار پھر اقتدار کے پجاری لیڈروں کے لیے باہم دست و گریباں ہیں۔
ہندوستان نے جو دعوی دنیا کے سامنے رکھا ہے، اس کے لیے انداز وہی تھا جو سرجیکل اسڑائیک کے لیے اختیار کیا جاتا ہے حالانکہ برسر زمین بات اس کے بالکل برعکس تھی۔ ہم لاکھ سچائی پیش کریں لیکن ہمارے سامنے ایک ملک خود جارحیت کا دعوی کر رہا ہے اور دنیا خاموش ہے۔ کیا ہمارے پالیسی سازوں نے ایسی کسی صورتحال کے لیے کاؤنٹر اسڑیٹیجی بنا رکھی تھی؟
دوسری طرف ہندوستانی ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر جشن کا سماں ہے۔ کوئی مبارکباد دے رہا ہے تو کوئی وصول کر رہا ہے۔ اور یہ جشن کیوں نہ ہو؟ کسی حقیقی حملے کے بغیر وہ سفارتی اور صحافتی محاذ پر ہمیں شکست دے چکے ہیں! درج ذیل میں سے کون سی کامیابی ہے، جو مودی سرکار نے نہیں سمیٹی؟
1۔ بھارتی عوام اور میڈیا مطمئن ہے کہ بدلہ لے لیا گیا۔
2۔ کسی بھی محدود یا وسیع جنگ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
3۔ عالمی برادری کی خاموشی گویا تائید سمجھی جارہی ہے۔
4۔ بھارتی دعوی بھلے غلط ہو لیکن روایت بن گئی ہے کہ LOC عبور کرکے کارروائی کا حق ہے۔
5۔ بھارت کے اندر سے کشمیریوں کے لیے اٹھنے والی انصاف پسند آوازوں پر حب الوطنی کا تالہ ڈال دیا گیا ہے۔
6۔ نریندر مودی پر نہ صرف تنقید بند ہوگئی ہے بلکہ اس وقت وہ اپنی مقبولیت کی بلند ترین سطح پر کھڑے ہیں۔
7۔ یوپی انتخابات میں بی جے پی کی پوزیشن مظبوط ہوگئی ہے۔
8۔ تحریک آزادی کشمیر کو عالمی دہشت گردی کے ساتھ گڈمڈ کردیا گیا ہے۔
تبصرہ لکھیے