ہوم << ایک باپ کا اپنے بیٹے کے نام جوابی خط - مصطفی ملک

ایک باپ کا اپنے بیٹے کے نام جوابی خط - مصطفی ملک

%d9%85%d8%b5%d8%b7%d9%81%db%8c-%d9%85%d9%84%da%a9 عزیز ازجان بیٹے!
تمہارا خط پڑھا، خوشی ہوئی میرا بیٹا اس قابل ہوگیا ہے کہ اپنے باپ کو مخاطب کر سکے، سب سے بڑھ کر خوشی یہ بھی کہ میرے بیٹے نے اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لکھنا شروع کردیا ہے۔ قومی اخبارات اور اردو کی بڑی ویب سائٹس پر اس کے کالم چھپ رہے ہیں۔ تمہیں پتہ ہے کہ دنیا میں کوئی کسی کو اپنے سے آگے نکلتا اور ترقی کرتے نہیں دیکھ سکتا، سگے بھائی بھی اپنے بھائیوں کی ترقی سے جل جاتے ہیں، تم نے برادران یوسف کا قصہ تو پڑھا ہے مگر میری جان! دنیا میں صرف باپ وہ واحد فرد ہے جو چاہتا ہے کہ میرا بیٹا مجھ سے زیادہ ترقی کرے، مجھ سے زیادہ تعلیم یافتہ ہو، مجھ سے زیادہ بڑے گھر اور کاروبار کا مالک ہو۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ اپنی ساری توانائیاں خرچ کرتا ہے، دن رات محنت کرتا ہے، اوور ٹائم لگاتا ہے تاکہ تمہارے تعلیمی اخراجات پورے ہوسکیں اور تمہارے دوستوں کے سامنے تمہیں سبکی نہ ہو۔
میں نے تمہارے خط کو بار بار پڑھا ہے، کبھی ہنسی آئی اپنے بیٹے کی معصومیت پر تو کبھی حیرانی ہوئی اپنے بیٹے کے خیالات پر، مجھے خوشی ہے کہ تم نے بار بار مجھے یہ جتانے کی کوشش کی ہے کہ میں تمہارا آئیڈیل ہوں، تمہیں مجھ سے بہت محبت ہے، تمہیں ہر جگہ میری محبت کا عکس کا نظر آتا ہے مگر تمہیں دکھ ہوا ہے ہمیشہ میرے غصہ پر، تم نے لکھا ہے،
”آپ کو یاد ہوگا کہ بچپن میں آپ نے مجھے سو روپے دے کر گھر کے ساتھ والی شاپ سے دودھ لانے کا کہا اور جب میں واپس آیا تو میری مٹھی میں پیسے دودھ کے ریٹ کے حساب سے کم تھے۔ آپ نے صرف بقیہ پیسوں کا پوچھا تھا اور میں سہم کر بیڈ کے نیچے چھپ گیا تھا۔ جب آپ نے بیڈ کے نیچے جھک کر دوبارہ سوال کیا تو میں رونے لگا تھا۔ بابا! اس وقت میں صرف سات سال کا تھا۔ مجھے کائونٹنگ نہیں آتی تھی اور آپ کا رعب مجھ پر اس قدر حاوی تھا کہ میں آپ سے یہ وضاحت بھی نہ کر سکا تھا کہ پیسے مجھے دکاندار نے کم دیے ہیں۔بابا! رویے کی اس سختی کے پیچھے ضرور آپ کے ذہن میں کوئی معقول وجہ ہوگی لیکن آپ کا وہ رویہ ہمیشہ میری خود اعتمادی، سیلف ریسپیکٹ اور خودداری میں کمی کا سبب بنتا رہا۔“
بیٹا جی! آپ نے خود ہی سوال کر کے خود ہی جواب بھی دے دیا، سوچو آج چودہ سال بعد بھی تمہیں وہ واقعہ یاد ہے، کیا یہ سبق تمہاری زندگی میں کام نہیں آیا گا؟ تم کبھی بھی بغیر کائونٹنگ کے ریزگاری واپس نہیں لوگے، اس وقت تو وہ چند روپے تھے، مستقبل میں تو تمہیں لاکھوں کروڑوں کا حساب کرنا ہے، چھوٹا سا ایک سبق تمہیں زندگی بھر کے لیے راستہ نہیں دے گیا۔ بس بیٹا یہی معقول وجہ تھی، باپ کبھی بھی نہیں چاہےگا کہ اس کے بیٹے کی خود اعتمادی، سیلف ریسپیکٹ اور خودداری میں کمی ہو۔
آگے لکھتے ہو،
”بابا! زندگی کے قدیم آداب پر آپ کا ایقان اپنی جگہ درست ہے لیکن موجودہ وقت کا تقاضا ہے کہ نئے دور کی کئی چیزوں کو قبول کیے بغیر ہم آگے نہیں جا سکتے۔ میں نے کئی دفعہ گھر میں ٹی وی رکھنے اور صرف پی ٹی وی چینل چلانے کی اجازت چاہی تاکہ میرے علاوہ گھر کے دوسرے بچے بھی باہر کی دنیا اور نت نئی چیزوں سے آگاہ ہو سکیں لیکن آپ کبھی نہیں مانے۔“
آپ ٹھیک کہتے ہو میرے بیٹے! مجھے ادراک ہے کہ نئے دور کی چیزوں کو قبول کرکے ہم آگے نہیں جا سکتے، مگر مجھے پتہ ہے اب تم بڑے ہوگئے ہو، اب تمہیں اچھے اور برے کی تمیز آنے لگی ہے مگر جب تم چھوٹے تھے تو میں نے اور تمہاری امی نے فیصلہ کیا تھا کہ بچوں کی تعلیم کے ابتدائی سالوں میں انہیں ٹی وی سے دور رکھا جائے تاکہ یکسوئی سے تعلیم پر توجہ دیں، کچھ بڑے اور سمجھدار ہو جائیں گے تو ٹی وی چلالیں گے، کبھی تم نے سوچا ہے کہ یہ فیصلہ ہم نے کتنا خود پر جبر کرکے کیا تھا، تب ہم کوئی بوڑھے نہیں تھے کہ ہم بھی ٹی وی نہ دیکھیں مگر تم سب کی بہتری کے لیے ہم نے خود پر بھی ٹی وی دیکھنے کی پابندی عائد کر لی۔
تمہیں اپنے بچپن کا واقعہ بتاتا ہوں، جب میں چھٹی کلاس میں تھا تومیرے والد نے مجھے اپنے ایک دوست کےگھر جانے اور ان سے ملنے ملانے سے منع کر دیا۔ بار بار منع ہونے پر میری پٹائی بھی ہوئی، تب میری سوچ بھی تمہارے جیسی ہی تھی۔ میری بھی خود اعتمادی، سیلف ریسپیکٹ اور خودداری مجروح ہوئی تھی مگر آج میں سوچتا ہوں تو سب سے پہلے اپنے والد کے لیے دعا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے ایک بہت بڑی دلدل میں پھنسنے سے بچا لیا، وہ اگر آج میرا دوست ہوتا تو میں آج ایک بہت بڑے منشیات فروش کا ساتھی ہوتا۔ بیٹا! باپ کی نظریں بہت گہری ہوتی ہیں، اس کے پیش نظر ہمیشہ اپنی اولاد کی بھلائی ہوتی ہے۔ بعض اوقات مجھ سے غلط فیصلے بھی ہوئے ہوں گے مگر اس کے پیش نظر ہمیشہ تمہاری بھلائی ہی رہی ہے۔
تم نے بجا لکھا ہے کہ
”بابا! والدین کا اولاد کی شخصیت پر اثر ہوتا ہی ہے لیکن ایک بیٹا اپنی شخصیت کے غالب رنگ اپنے باپ سے ہی مستعار لیتا ہے۔ اس لیے احتیاط اور حساسیت کا دامن چھوڑے بغیر باپ کو اپنے بیٹے پر ویسا ہی یقین اور اعتماد رکھنا چاہیے جیسا وہ خود اپنی ذات پر رکھتا ہے۔“
بیٹا مجھے تم پر یقین ہے اور ہمیشہ رہےگا مگر میری پھر وہی بات ہے کہ باپ تو صرف تمہاری بھلائی چاہتا ہے وہ جس رنگ میں بھی ہو۔
خوش رہو، جیتے رہو، تمہاری ہر خوشی ہی ہماری خوشی ہے، زندگی میں ہمیشہ کامیابیاں اور کامرانیاں تمہارا مقدر بنیں۔