ہوم << مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (4) – مولوی روکڑا

مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (4) – مولوی روکڑا

قبل اس کے کہ جنرل مشرف کے امریکہ کے آگے ڈھیر ہونے سے آگے کی کہانی بیان کی جائے، یہاں اس ڈسکشن کے بارے میں بتانا مفید ہوگا جو آج تک میرے غیر ملکی کسٹمر، کو ورکر، دوست احباب سے دہشت گردی اور امریکی یلغار کے موضوع پر ہوئی. تقریبا اسی فیصد لوگوں کے تجزیے کا نچوڑ یہ ہے کہ امریکہ اور دوسرے اتحادی ممالک اپنی فوج کو افغانستان اور عراق پر حملے کے لیے پہلے سے تیار کر چکے تھے، ان کو مقامی زبانیں سکھائی گئیں، صحافی تیار کیے گئے جنہوں نے اس حد تک پروپیگنڈا کیا کہ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہو گیا. اس سب کا مقصد قدرتی وسائل کا حصول، ایشیا اور مشرق وسطی میں اپنی فوجی طاقت، اور اقتصادی برتری کو برقرار رکھنا شامل ہیں.
نائن الیون کے بعد پاکستان میں جو انتشار پھیلا ہے، نہیں معلوم کہ اس کا خمیازہ کتنے سالوں تک بھگتنا پڑے گا. اس سے مسلم ممالک میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، وہ کب سنبھلیں گے اور اس سے نکلیں گے، اس کا اندازہ لگانا بھی بہت مشکل ہے. جنرل مشرف اونٹ کی کروٹ دیکھے بغیر امریکی اتحادی تو بن بیٹھے لیکن اس کا سب بڑا اور پہلا نقصان ریاست نے اٹھایا، جس نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کھڑی کی تھی تاکہ پاک افغان سرحد سے کوئی خطرہ نہ ہو اور بھارت یا کوئی اور دشمن اسے ہمارے خلاف استعمال نہ کر سکے. امریکہ کا اتحادی بنتے ہی پاکستان اور طالبان کے درمیان بداعتمادی پیدا ہوئی اور اس وقت گہری ہوگئی جب افغان سفیر عبدالسلام ضعيف کو امریکہ کے حوالے کر دیا گیا. امریکی جنگ سے کشمیر جہاد بری طرح متاثر ہوا اور بھارت کو شہ مل گئی کہ وہ ان تنظیموں کو بھی دنیا میں دہشت گرد قرار دلوائے جو کشمیر میں آزادی کی جنگ لڑ رہی تھیں، اور جن کی کاروائیاں پی ٹی وی پر دیکھائی جاتی تھیں. اسی کے اثرات ہیں کہ کشمیر جہاد پر بات کرنا اب خاصا مشکل ہو گیا ہے.
دوسری طرف سال 2000 کے بعد مسلح لسانی تنظیموں نے بلوچستان میں سر اٹھانا شروع کر دیا تھا. فرقہ وارانہ تنظیموں کو نوے کی دہائی میں نظرانداز کرنے کی وجہ سے اب وہ چنگاری آتش فشاں بن کر بھڑک اٹھی تھی، مارنے والے بھی اپنے اور مرنے والے بھی، سب سے زیادہ ٹارگٹ کلنگ کراچی میں ہوئی اور اس کا سہرا پرویز مشرف کے سر جاتا ہے جس نے دم توڑتی ایم کیو ایم کو زندگی بخشی، اس کا عسکری ونگ پھر سے توانا ہو گیا جس سے جان چھڑوانے کےلیے موجودہ عسکری قیادت سر توڑ کوششیں کر رہی ہے.
پرویزمشرف پاکستان کو لبرل بنانے کے لیے آزاد میڈیا ہاؤسز اور کیا کیا بل پاس کرتے رہے. شاید ان کے نزدیک ترقی آزاد میڈیا کا نام تھا جو اب پاکستانی میڈیا کم اور غیر ملکی میڈیا زیادہ لگتا ہے. پالیسیز وہ تجزیہ نگار بنانے لگے جو کھاتے تو پاکستان کا تھے لیکن زبانیں کسی اور کی بولتے تھے. انہی میڈیا ہاؤسز نے فوج جیسے ادارے کی دھجیاں اڑائیں اور تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا. نائن الیون کے بعد اگر صحیح معنوں کسی کو فائدہ ہوا تو وہ ایسے ہی دانشور تھے جن کی جائیدادیں راتوں رات بن گئیں، وہ ایسے کروڑ پتی ہوئے جیسے چائے کی پتی پانی میں ڈالنے سے پھول جاتی ہے. ڈرون حملوں کی اجازت، لال مسجد آپریشن اور اکبر بگٹی کے قتل سے دہشت گردی نے بدترین شکل اختیار کر لی. ریاست کو ایسی جنگ میں دھکیل دیا گیا جس میں دشمن اور دوست کی تمیز کرنا مشکل ہوگیا.
نیک محمد وزیر کے ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد طالبان کی صفوں میں مفاد کے دھڑے الگ الگ ہو گئے! اور پھر تحریک طالبان پاکستان المعروف ٹی ٹی پی کا جنم ہوا. پھر دوسرے ممالک نے اپنے پوائنٹ آف انٹرسٹ کو دیکھتے ہوئے مسلح لسانی تنظیموں کو جہاں اسلحہ اور ٹریننگ دی وہاں ٹی ٹی پی کو بھی سپورٹ کیا، ان تنظیموں کے افراد بھی کہیں نہ کہیں پاکستان مخالف کاروائیاں کرنے والی تنظیموں میں ضم ہوتے گئے. پھر وہ کھچڑی بنی کہ کچھ بھی تعین کرنا مشکل ہوگیا. کون کیا کارروائی کر رہا ہے، کون کیسے ذمہ داری قبول کر رہا ہے، کس پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے، اس میں کیا اور کتنا سچ کچھ پتا نہیں.
(جاری ہے)