ہوم << ہمارے ڈرامے کیا دکھا رہے ہیں؟ حمیرہ خاتون

ہمارے ڈرامے کیا دکھا رہے ہیں؟ حمیرہ خاتون

”امی تو عدت میں ہیں تو ابو عدت کیوں نہیں کر رہے؟“ چھ سالہ بلال اپنی دادی سے پوچھ رہا تھا۔
”امی! ایک بات تو بتائیں، آپی تو ہادی بھائی سے دوبارہ شادی کے لیے حلالہ کر رہی ہیں تو ہادی بھائی آپی سے شادی کے لیے حلالہ کیوں نہیں کر رہے؟“ بارہ سالہ بچہ اپنی ماں سے سوال کر رہا تھا۔
آپ نے یہ سوالات سنے۔ جی ہاں جناب ، یہ سوالات ہمارے ہی بچوں کے منہ سے کہلوائے جا رہے ہیں۔ پہلا سوال ARY کے ڈرامے ”نعمت“ سے لیا گیا ہے اور دوسرا سوال HUM کے ڈرامے”ذرا یاد کر“ سے۔
بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن و حدیث میں بیان کردہ احکامات حرف آخر ہیں. ان کے خلاف تاویلات کا سہارا لینا یا ان پر سوالات اٹھانا ہمیں نافرمانی اور گمراہی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے۔
”آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے۔ اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔ ( لہذا حرام وحلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں ان کی پابندی کرو)“ سورہ المائدہ آیت نمبر ۳۔
آج ہمارے ٹی وی چینلز پر مختلف ڈراموں کے ذریعے ایسے احکامات پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جو معاشرے اور خاندان کی اساس ہیں اور جن کے لیے قرآن وحدیث میں واضح احکامات دے دیے گئے ہیں۔ مگر چینلز پر آج کل ایسے رائٹرز ڈرامے لکھ رہے ہیں جن کو قرآن وحدیث اور فقہ کا خاص علم ہے نہ معاشرتی روایات کا احساس، نامکمل معلومات کے سہارے ان موضوعات پر ڈرامائی تشکیل کر لی جاتی ہے۔
ڈراموں کا جائزہ لینے سے یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ علم اور آزادی اظہار کے نام پر ایک پوری تھیم کو میڈیا کے ذریعے عوام تک منتقل کیا جا رہا ہے ، اور ہدف بنا کر واضح احکامات والے شرعی معاملات پر ایسے سوالات اٹھا کر تنقید کی جا رہی ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہاہے۔ جس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
۱۔ HUM چینل کے ڈرامے ”پاکیزہ“ میں طلاق کے بعد بیٹی کا بہانہ بنا کر طلاق کو چھپایا گیا اور سابق خاوند کے ساتھ رہائش رکھی جبکہ بیٹی چھوٹی نہیں، شادی کے قابل عمر کی ہے۔
۲۔ APLUS کے ڈرامے ”خدا دیکھ رہا ہے“ میں طلاق کے بعد شوہر منکر ہو جاتا ہے اور مولوی صاحب سے جعلی فتوی لے کر بیوی کو زبردستی اپنے پاس روک کے رکھتا ہے جبکہ بیوی راضی نہیں ہوتی۔
۳۔ ARY کے ڈرامے ”انابیہ“ میں شوہر طلاق کے بعد منکر ہو جاتا ہے جبکہ والدہ اور بہن گواہ تھیں۔ بیوی والدین کے گھر آجاتی ہے۔ شوہر اسے دوبارہ لے جانا چاہتا ہے۔ لڑکی خلع کا کیس دائر کر دیتی ہے اور فیصلہ ہونے کے باوجود صرف اپنی بہن کا گھر بسانے کی خاطر اسی شخص کے پاس دوبارہ جانے تیار ہو جاتی ہے۔
۴۔ HUM کے ڈرامے ”ذرا یاد کر“ میں طلاق کے بعد حلالہ کے لیے لڑکی خود شوہر تلاش کر رہی ہے تا کہ دوسری شادی کرکے اس سے طلاق لے کر پہلے والے شوہر سے دوبارہ شادی کر سکے۔ جبکہ باقاعدہ پلاننگ کر کے حلالہ کرنا ناجائزہے۔ اسلامی حکم یہ ہے کہ اگر طلاق دے دی جائے تو لڑکی دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے وہ دوسری شادی ختم ہو جائے تو اگر وہ چاہے تو پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے مگر پلان کر کے نہیں۔
۵۔ GEO کے ڈرامے ”جورو کے غلام“ میں ایک بیٹے نے باپ کی بات مانتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور پھر ایک شخص کو رقم دے کر اپنی بیوی سے نکاح کروایا تا کہ دوسرے دن وہ طلاق دے دے اور یہ خود اس سے نکاح کر سکے۔
۶۔ HUM کے ڈرامے ”من مائل“ میں لڑکی طلاق کے بعد اپنے والدین کے گھر جانے کے بجائے اپنے چچا کے گھر ان کے بیٹے کے ساتھ رہتی ہے جبکہ چچا اور چچی گھر پر نہیں ہیں۔ وہ بعد میں اطلاع سن کر آتے ہیں۔
۷۔ HUM کے ڈرامے ”تمھارے سوا“ میں میں لڑکے کے دوست کی بیوی کو کینسر ہوتا ہے۔ اس کے پاس علاج کے لیے رقم نہیں تو پلاننگ کے تحت لڑکا اپنے دوست سے طلاق دلوا کر خود نکاح کر لیتا ہے اور آفس میں لون کے لیے اپلائی کر دیتا ہے۔ اس دوران وہ لڑکی اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ ہی بغیر عدت گزارے رہتی ہے۔ اور اس کا پورا خیال رکھتی ہے۔
۸۔ HUM کے ڈرامے ”دیاردل“ میں لڑکی اپنے باپ کی وفات کے بعد اپنے دادا سے اپنا شرعی حق جائیداد میں حصہ کے لیے کیس کر دیتی ہے اور دادا کو اسے جائیداد دینی پڑتی ہے جبکہ والد کی وفات کے بعد دادا کی جائیداد میں شرعی طور پر پوتے یا پوتی کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔
سب جانتے ہیں کہ ٹی وی عوام الناس کی رائے بنانے کا ایک مؤثر ہتھیار ہے۔ اور پرائم ٹائم میں پیش کیے جانے والے ڈرامے اور ٹاک شوز کو عوام کی ایک بڑی تعداد دیکھتی ہے۔ خاص طور پر پاکستان کی۵۰ فیصد سے زائد آبادی دیہاتوں میں موجود ہے اور دیہات میں ٹی وی تفریح کا بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں ایک پوری پلاننگ اور تھیم کے تحت ڈراموں کے ذریعے اسلامی احکامات کو توڑمڑور کر پیش کرنا، اس طرح کے سوالات اٹھانا اور لوگوں میں کنفیوژن پیدا کرنے کا مقصد عوام کو اسلام سے دور کرنا اور اسلامی تعلیمات پر پکے بھروسہ کو متزلزل کرنا ہے۔
کیا وزارت اطلاعات و نشریات کا کوئی بورڈ ایسا نہیں جو فلم یا ڈرامے کو پکچرائز کرنے سے قبل چیک کرے اور اس کی منظوری دے؟
کیا حکومت نے ایسی کوئی ایڈوائزری کمیٹی تشکیل نہیں دی جو ان مالکان کو ایڈوائز دے؟
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ شرعی احکامات کی اتنی کھلم کھلا خلاف ورزی پیمرا کے علم میں کیوں نہیں آتی؟ اس پر کوئی رکاوٹ کیوں نہیں؟
کیا کوئی مانیٹرنگ کمیٹی نہیں جو اسلام اور پاکستان کے خلاف پیش کی جانے والی چیزوں کا نوٹس لے؟
کیا ہمارے چینلز اور ان کے مالکان اپنی آزاد پالیسی رکھتے ہیں کہ جو چاہے دکھا دیں۔ کوئی ان کو چیک کرنے والا ۔ روکنے والا نہیں ہے؟

Comments

Click here to post a comment

  • سادہ فکری اور سادہ بیانی میں فرق ہے۔ برٹرینڈ رسل کو دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ کیسے فلسفیانہ مباحث کو پانی کرتا ہے۔ لفظوں کے ساتھ الجھنا اور قاری کو الجھا دینا ایک سادہ مسئلے کو پیچیدہ بنا دیتا ہے، جب کہ پیچیدہ مسئلے کو ممکنہ حد تک سادگی سے بیان کرنا اصل فن ہے۔