ہوم << ماں جی کی نصیحت - فرح رضوان

ماں جی کی نصیحت - فرح رضوان

ماں جی! آپ تو ہر بات سے ہی روک دیتی ہیں. شازیہ نے اچھے خاصے جھلائے لہجے میں ماں جی سے شکوہ کیا تو جوابا وہ خاموش ہی رہیں۔
ذرا دیر گذرنے پر شازیہ کو اپنے لہجے کی تلخی کا احساس ہوا تو اس نے ان سے معذرت تو کی، لیکن ساتھ ہی اپنی شکایت دہراتے ہوئے پھر ان سے پوچھا.
ماں جی! شانی آنٹی سے میری ساری سہیلیوں کو اتنا پیار ہے، اور مسلمان سے اگر اللہ کی خاطر محبت کی جائے تو اسے تو بتانا بھی چاہیے.
ہاں کہ نہ؟
اس نے ماں جی سے اپنی بات کی تصدیق چاہی تو انہوں نے اثبات میں سر ہلا دینے پر ہی اکتفا کیا۔
شازیہ نے پوچھا پھر جب شانی آنٹی نے آج درس ختم کیا اور سب لوگ ان سے اپنے اپنے حساب سے بے لوث محبت کا اظہار کر رہے تھے، تو آپ کیوں خود بھی پیچھے رہیں اور مجھے بھی ادھوری بات کے بیچ میں ٹوک کر بات کا رخ کیوں موڑ دیا؟
جملہ ختم کرنے تک شازیہ کافی جذباتی اور روہانسی ہو چلی تھی.
لہٰذا ماں جی نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے مدھم لہجے میں کہا.
دیکھ پتر! انسان کی اچھائی سے محبت ہونا برا نہیں، بلکہ برا، محبت کا اندھا ہونا ہے، کیونکہ اس رویے سے انسان اپنا اور اس بندے کا جس سے وہ اندھی محبت کرتا ہے، دونوں ہی کا بوھتا نقصان کردیتا ہے، کیونکہ ہولے ہولے سے یہی رویہ اندھی تقلید اور شخصیت پرستی میں بدل جاتا ہے. یاد ہے ناں کہ انسانی تاریخ میں سب سے پہلے شرک کی شروعات اسی شخصیت پرستی سے ہی تو شروع ہوئی تھی، جب لوگوں نے صالح لوگوں کے دنیا سے چلے جانے کے بعد پہلے ان کی تصویریں تو بعد میں بت بنا لیے تھے کہ یہ ہمیں رب سے جوڑنے کا سبب ہیں.
آج کتنے ہی مشہور نام ہیں جن کو سادہ لوح افراد مذہبی سکالر، ڈاکٹر یا علامہ کے نام سے جانتے ہیں۔ جو مذہب ہی کے نام پر اپنے مداحوں کو دین سے دور لے جا رہے ہیں. کون ہے جو رہبر کے بھیس میں چھپے ان رہزنوں کو ان کی حرکتوں پر روک ٹوک سکے؟ اور یہ رہزن، مداحوں کی اندھی ناروا محبت اور خود ان شخصیات میں شہرت و ناموری کی نہ مٹنے والی بھوک و پیاس نے ہی تو جنم دیے ناں!
کچھ دیر خاموشی رہی، پھر بات جاری رکھتے ہوئے ماں جی ہی بولیں،
ہر قسم کی ہی بھوک پیاس آزمائش ہے شازیہ پتر! زیادہ مل جانا بھی، تھوڑا مل جانا بھی اور سرے سے نہ ملنا بھی، اللہ تعالٰی آزمائش کی سختی اور آفتوں کی مشقت سے ہم سب کو بچائے.
شازیہ جو ابھی تک خاموشی اور غور سے ماں جی کی باتیں سن رہی تھی، ان کے خاموش ہونے پر بولی لیکن ماں جی! ان سب باتوں کا شانی آنٹی والی بات سے کیا تعلق؟ وہ تو باکل بھی ایسی نہیں ہیں.
اس پر ماں جی ہنستے ہوئے بولیں یاد ہے شازیہ! پرسوں صائمہ کے گھر اس کی پرانی تصویروں کے البم دیکھ رہے تھے تو کتنا ہنس رہے تھے سارے کہ آج جو موٹی موٹی خالہ تائی اماں، اتنے موٹے پھوپھا صاحب ہیں، کبھی وہ سب کس قدر دھان پان تنکے جیسے دبلے پتلے ہوا کرتے تھے، یہ تو سبھی کو پتہ ہوتا ہے کہ آج بچے ہیں تو کل کو جوان اور پھر بوڑھا بھی ہونا ہے لیکن اتنے دبلے لوگوں کے لیے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اس قدر فربہی کا شکار ہو جائیں گے، وجہ کچھ بھی ہو لیکن ایسا ہوا ناں؟ توسوچ تو سہی پتر! کل کو کون کیسا ہو جائےگا یا کس کا خاتمہ کس حال میں ہوگا؟ ہمیں تو کچھ نہیں نا خبر! پھر بھی محبت کے مارے ہر کوئی شانی جی سے یہی بولے جا رہا تھا کہ اللہ تعالٰی ہمیں آپ کے جیسا بنا دے، اور شانی جی بھی ان کو اس وقت نہیں ٹوک رہی تھیں. تب میں نے تمہیں روکنا مناسب سمجھا کہ تم اس قدر محدود سوچ سے دور رہو۔
پھر وہ ہنستے ہوئے بولیں، بچپن میں ایک لطیفہ سنا تھا یاد آگیا، کہ کوئی شخص ماہ رمضان کے آخری ایام میں شدید بیمار ہوگیا، بیٹا اسے باہرگاڑی میں لے گیا تو حادثہ ہوگیا، گھر واپس آئے تو چوری ہو چکی تھی، سر پکڑے بیٹھے تھے کہ اتنے میں بیل بجی اور پوسٹ مین نے عید کارڈ تھما دیا، جس پر لکھا تھا کہ اللہ آپ کو ایسی ہزاروں عیدیں دیکھنا نصیب کرے۔

Comments

Click here to post a comment