ہوم << باپ کے نام ایک بیٹے کا خط - اعجازالحق عدیم

باپ کے نام ایک بیٹے کا خط - اعجازالحق عدیم

%d8%a7%d8%b9%d8%ac%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d9%84%d8%ad%d9%82-%d8%b9%d8%af%db%8c%d9%85 بیٹوں کی مائوں سے جذباتی وابستگی ایک حقیقت ہے لیکن ایک بیٹے کی زندگی کا کل اثاثہ اس کا باپ ہی ہوتا ہے۔ دنیا کا ہر بیٹا زندگی میں سب سے پہلے اپنے باپ سے متاثر ہوتا ہے اور باپ کی شخصیت ہی اس کے لیے پہلی آئیڈیل پرسنالٹی ہوتی ہے۔ بیٹے کو خود پر یقین ہو نہ ہو لیکن اپنے بابا پر اس کے یقین کا لیول اپنی حدوں کو چھو رہا ہوتا ہے۔ باپ کا وجود ہی ایک بیٹے کے کونفیڈنس اور اعتماد کی پہلی وجہ ہوتی ہے، اس کے لیے ہمت کا سبب اور دنیا کے مشکل سے مشکل چیلنج سے نبردآزما ہونے کے لیے انرجی کی حیثیت رکھتی ہے۔باپ بیٹے کے لیے خدا کی سب سے بڑی نعمت اور دنیا میں سب سے مضبوط سہارا ہوتا ہے۔ ایک بیٹا اپنے باپ سے کیا کہنا چاہتا ہے، یہی سوچ کر آج میں نے قلم اٹھایا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کا ہر بیٹا اپنے باپ سے ایسے ہی مخاطب ہونا چاہے گا، کچھ ایسے ہی الفاظ میں اپنے بابا سے شکوے اور اظہارِ محبت کرنا، اور اسی طرح اپنے بابا سے اپنے دل کی باتیں کرنا چاہے گا۔ اس لیے میں اپنے ان ٹوٹے پھوٹے جملوں، خام خیالات اور بچگانہ احساسات کو دنیا کے ہر باپ کے نام کرتا ہوں۔
بابا! امیتابھ بچن نے نواسیوں، عامر خاکوانی صاحب نے بیٹیوں اور عامر امین صاحب نے بیٹوں کے نام خط لکھا۔ میرے لیے دنیا میں سب سے عظیم ہستی آپ ہیں۔
بابا! میری باتیں اور میرے خیالات آپ سے منسوب ہیں. آپ میں مجھے دنیا کے ہر باپ کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ دوسرے والدین کی طرح اولاد کے حق میں آپ بھی رویے کی سختی کے قائل ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بچپن میں آپ نے مجھے سو روپے دے کر گھر کے ساتھ والی شاپ سے دودھ لانے کا کہا اور جب میں واپس آیا تو میری مٹھی میں پیسے دودھ کے ریٹ کے حساب سے کم تھے۔ آپ نے صرف بقیہ پیسوں کا پوچھا تھا اور میں سہم کر بیڈ کے نیچے چھپ گیا تھا۔ جب آپ نے بیڈ کے نیچے جھک کر دوبارہ سوال کیا تو میں رونے لگا تھا۔ بابا! اس وقت میں صرف سات سال کا تھا۔ مجھے کائونٹنگ نہیں آتی تھی اور آپ کا رعب مجھ پر اس قدر حاوی تھا کہ میں آپ سے یہ وضاحت بھی نہ کر سکا تھا کہ پیسے مجھے دکاندار نے کم دیے ہیں۔ اسی طرح گھر آئے مہمان کزن کا ہونٹ زخمی تو میری وجہ سے ہوا تھا لیکن میں نے جان بوجھ کر انہیں چوٹ نہیں لگائی تھی۔ آپ عین موقع پر آگئے اور میرا موقف جانے بغیر میری پٹائی کر دی۔ کزن کے سامنے یوں بےگناہ پٹنے کی وجہ سے مجھے کئی دنوں تک کمتری اور ذلت کا احساس ہوا تھا۔
بابا! رویے کی اس سختی کے پیچھے ضرور آپ کے ذہن میں کوئی معقول وجہ ہوگی لیکن آپ کا وہ رویہ ہمیشہ میری خود اعتمادی، سیلف ریسپیکٹ اور خودداری میں کمی کا سبب بنتا رہا۔ اسی سخت رویے کی وجہ سے بچپن میں آپ کے ساتھ کھیلنا اور باتیں شیئر کرنا تو درکنار میں آپ سے کبھی کہانی سنانے کی فرمائش بھی نہ کرسکا۔
بابا! میں ہمیشہ چاہتا تھا کہ آپ میری تعریف کریں، میری حوصلہ افزائی کریں اور میرا دل بڑھائیں۔ جب سالانہ امتحان میں کلاس میں پہلی پوزیشن میرے نام آئی تو تب آپ نے امی سے میری تعریف کی جو میں نے کمرے کے باہر سن لی تھی۔ لیکن میں چاہتا تھا کہ آپ امی کو بتانے کے بجائے براہ راست مجھے تھپکی دیں۔ میں نے جب بھی گھر آکر اپنا کوئی کارنامہ بیان کرنا چاہا تو آپ نے مجھے ٹوکا اور میرے طریقے پر تنقید کر کے اپنے طریق کار پر عمل کرنے کی تاکید کی۔ تبھی تو آج بھی کرکٹ میں مجھے بائولنگ کرنا نہیں آتا، فٹبال کو کبھی کک نہیں لگائی اور بیڈمنٹن کا ریکٹ کبھی ہاتھ میں نہیں لیا۔
بابا! زندگی کے قدیم آداب پر آپ کا ایقان اپنی جگہ درست ہے لیکن موجودہ وقت کا تقاضا ہے کہ نئے دور کی کئی چیزوں کو قبول کیے بغیر ہم آگے نہیں جا سکتے۔ میں نے کئی دفعہ گھر میں ٹی وی رکھنے اور صرف پی ٹی وی چینل چلانے کی اجازت چاہی تاکہ میرے علاوہ گھر کے دوسرے بچے بھی باہر کی دنیا اور نت نئی چیزوں سے آگاہ ہو سکیں لیکن آپ کبھی نہیں مانے۔ میری تحریریں اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں لیکن میں نے آپ کو کبھی نہیں بتایا کہ مجھے لکھنے کا شوق ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ یہ جان کر مجھے فضول کی اکٹویٹیز ترک کرنے اور پڑھائی پر توجہ دینے کا کہیں گے۔
بابا! آپ مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے لیکن جب میں نے لٹریچر پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو میری توقعات کے برعکس آپ نے کہا ”جو اچھا لگے وہی پڑھو“۔ یہ بات میں نے بڑے فخر سے اپنے ان تمام دوستوں کو بتائی تھی جن کے والدین نے انہیں ان کی مرضی کے خلاف سبجیکٹس پڑھنے پر مجبور کیا تھا۔
بابا! میں جانتا ہوں کہ آپ کی مجھ سے بہت توقعات وابستہ ہیں۔ مجھے آپ نے اپنی حیثیت سے زیادہ مہنگے تعلیمی اداروں میں داخل کیا اور میری ہر خواہش اور ضرورت کا خیال رکھ رہے ہیں۔ میں بھی آپ کی آنکھوں میں سجے خوابوں کی تعبیر بننے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہوں بلکہ میں نے تو اپنی زندگی کا مقصد ہی آپ کی خوشیوں کو بنا لیا ہے لیکن آپ کی مجھ سے وابستہ حد سے زیادہ بڑھی ہوئی توقعات کی وجہ سے میں نفسیاتی دبائو کا شکار ہوں۔ مجھے ہر وقت یہ خوف ستائے رکھتا ہے کہ اگر میں آپ کی توقعات پر پورا نہ اترا تو آپ کی مایوسی مجھ سے دیکھی نہیں جائے گی۔ اس لیے میں آپ سمیت دنیا کے تمام والدین سے التجا کرتا ہوں کہ خدارا اپنی ناکامیوں کا بوجھ اپنی اولاد کے کمزور کندھوں پر مت ڈالیے گا۔ اگر آپ اپنے بچوں سے ان کی حیثیت سے بڑھ کر توقعات رکھیں گے تو وہ فرسٹریشن کا شکار ہو کر اپنی پڑھائی کا لطف نہیں اٹھا سکیں گے۔
بابا! مجھے آپ کی محبت کا پورا یقین ہے، اور یہ بھی پتہ ہے کہ ہر معاملے کو آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں لیکن غصے میں کئی دفعہ آپ وہ باتیں بھی کہہ دیتے ہیں جو باپ کو ایک جوان بیٹے سے نہیں کہنی چاہییں۔ اسی طرح مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ دنیا کے تمام والدین کے لیے ان کی اولاد چاہے جس عمر میں بھی ہو چھوٹی اور ناسمجھ رہتی ہے۔ آپ مجھے اکیس سال کی عمر میں بھی بڑے چیلنج قبول کرنے سے منع کرتے ہیں، مجھے کوئی بھی ایسا قدم جو آپ کے حساب سے نیا ہو، اٹھانے نہیں دیتے اور کسی بھی نئے تجربے سےگزرنے سے منع کرتے ہیں۔ یہ احتیاط سے زیادہ اولاد کی صلاحیتوں پر عدم یقین کی علامت ہے۔
بابا! والدین کا اولاد کی شخصیت پر اثر ہوتا ہی ہے لیکن ایک بیٹا اپنی شخصیت کے غالب رنگ اپنے باپ سے ہی مستعار لیتا ہے۔ اس لیے احتیاط اور حساسیت کا دامن چھوڑے بغیر باپ کو اپنے بیٹے پر ویسا ہی یقین اور اعتماد رکھنا چاہیے جیسا وہ خود اپنی ذات پر رکھتا ہے۔
بابا! میں جانتا ہوں کہ خط میں گستاخی کے پہلوئوں کو نظرانداز کر کے آپ ایک بیٹے کے دل میں موجود باپ کی محبت اور عظمت کے جذبات کو سمجھ سکتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ آپ کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے۔ آمین!