ہوم << بھارت احساس کمتری کا شکار کیوں ہے؟ مجاہد حسین خٹک

بھارت احساس کمتری کا شکار کیوں ہے؟ مجاہد حسین خٹک

مجاہد حسین پہلے مسلمانوں نے آٹھ نو صدیوں تک ہندوستان پر حکمرانی کی، ان کے بعد انگریزوں کی باری آئی۔ جب پاکستان اور انڈیا آزاد ہوئے تو مسلمانوں کو ایک طرح سے اپنا بچھڑا ہوا اقتدار واپس ملا جس کی وجہ سے ان کی اشرافیہ نے اس تبدیلی کو نسبتاً نارمل انداز میں لیا۔ ان کی اجتماعی نفسیات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ اس کے برعکس ہندوؤں کو پہلی بار اقتدار نصیب ہوا تو ان کے اندر ایک بیمار قسم کا قومی تفاخر پیدا ہوگیا جس کی جڑیں شدید قسم کے احساس کمتری میں پوشیدہ تھیں۔ کسی گاؤں کا شودر پیسہ کما کر اسی گاؤں کا چوہدری بن جائے تو وہ اپنے اس تبدیل شدہ سٹیٹس کو ہر لمحہ جام شیریں کی طرح قطرہ قطرہ چکھنا اور اس سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے. اس کا من کرتا ہے کہ اس نئی صورتحال کا اس کے سامنے ہر لمحہ ذکر کیا جائے، لوگ اسے بار بار یاد دلائیں کہ وہ اب چوہدری بن چکا ہے۔ وہ غلط فیصلے بھی کرے تو لوگ واہ واہ کریں۔ وہ زیادتی بھی کرے تو عام افراد خاموش رہیں۔ بالکل یہی حالت بھارت کی ہے۔
ایک بھرے ظرف والے اور ایک کم ظرف والے فرد میں جو فرق ہوتا ہے، وہی فرق پاکستان اور ہندوستان کی اشرافیہ میں ہے۔ ان کی اشرافیہ اپنی اس کیفیت کو اپنے میڈیا کے ذریعے عوام میں منتقل کر دیتی ہے۔ بھارت میں گونجنے والے جنگی ترانے اسی بیمار ذہنیت کی پیداوار ہیں۔ پاکستانی اشرافیہ میں بہت سی خرابیاں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ انڈیا کی اشرافیہ سے بھی زیادہ گئی گزری ہو مگر وہ کھوکھلے ڈھول کی طرح بار بار بجنے نہیں لگ جاتی۔ شاید ہمارے اندر نیشنل ازم کی کمی بھی اسی وجہ سے ہے کہ ہمیں ایک وسیع علاقے کی حکمرانی چھوڑ کر ایک چھوٹے علاقے کی حکومت پر راضی ہونا پڑا ہے۔ اس کے برعکس ہندوؤں کو ایک ہزار سال کی غلامی کے بعد ایک دم سے اتنا بڑا علاقہ مل گیا ہے کہ وہ اپنے آپے سے باہر ہو گئے ہیں۔ اس کی مثالیں جنگی میدان سے ہٹ کر کھیلوں میں، خصوصاً کرکٹ میں بھی ملیں گی جہاں بھارت پیسے کے زور پر کھلی غنڈہ گردی کے ذریعے میدان مارنے کی کوشش کرتا ہے۔
مجھے کارگل کا معرکہ بھی یاد ہے، اس کے علاوہ ممبئی حملوں کے بعد کی صورتحال بھی دیکھی ہےاور موجودہ صورتحال بھی سامنے ہے۔ پاکستانی عوام اور میڈیا باؤلا نہیں ہو جاتا۔ ان کا رویہ بہت حد تک معتدل ہوتا ہے۔ زندگی نارمل انداز میں رواں رہتی ہے۔ کچھ زید حامد جیسے لوگ جنگی جنون پیدا کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں مگر ان کا اثر بہت محدود ہوتا ہے۔ اس کے برعکس انڈیا کا میڈیا ہر دفعہ پاگل پن کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ فرق بھی اسی وجہ سے ہے کہ ہم حکمرانی کے عادی ہیں، انہیں پہلی دفعہ نہ صرف ایک وسیع علاقے پر حکومت ملی ہے بلکہ ایک بڑی منڈی ہونے کے ناطے دنیا بھی انہیں اپنی جھولی میں بٹھائے رکھتی ہے۔ ان کی معاشی ترقی بھی کمال کی ہے جو ان کے احساس تفاخر کو دو آتشہ کر دیتی ہے۔
یہ سارے عوامل مل کر بھارتیوں کو ایک طرح کے نشے میں مبتلا کرتے ہیں۔ جب انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ایک چھوٹے سے غریب ملک نے ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہے تو اس نشے کا لطف غارت ہو جاتا ہے۔ احساس کمتری میں مبتلا چوہدری کی طرح ہندو اشرافیہ یہ سمجھتی ہے کہ وہ جب چاہیں ہماری سرحدوں پر بمباری کر کے ہمارے فوجی اور شہری شہید کر دیں، یا اپنے جاسوس بلوچستان بھیجتے رہیں، ہمیں خاموش رہنا چاہیے تاکہ انہیں مسلسل تصدیق ہوتی رہے کہ وہ اب شودر نہیں رہے۔ چونکہ ہمارا رد عمل اس سے مختلف ہوتا ہے توان کے مزاج میں شدید قسم کی برہمی پیدا ہو جاتی ہے۔
جب احساس کمتری کا مارا آپ کا پڑوسی پیسے والا ہو گا تو آپ کے در پر گندگی بھی ڈالا کرے گا، آپ پر رعب بھی جھاڑنے کی کوشش کرے گا اور جب آپ جواب دیں گے تو وہ ہرقسم کی کمینگی دکھا کراپنی بیمار انا کی تسکین کرنا چاہے گا۔ پاکستان اور انڈیا کا بنیادی طور پر یہی مخمصہ ہے۔

Comments

Click here to post a comment