ہوم << ویزے کا اسلامی تصور - ناصر محمود

ویزے کا اسلامی تصور - ناصر محمود

ناصر محمود پیروں میں بیڑیاں، جسم پر تشدد کے نشان، بھوک پیاس سے نڈھال، قیدِ تنہائی کی وحشت اور اپنوں کی بے رخی کا کرب۔ یہ ہیں حضرت ابو جندلؓ جن کو اسلام قبول کرنے کی پاداش میں یہ اذیت برداشت کرنی پڑ رہی تھی۔ اور اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ اذیت دینے والے کوئی اور نہیں حقیقی والد تھے۔ جو اس وقت تک اسلام کی عظیم نعمت سے محروم تھے۔ اللہ کے نبی ﷺ مدینہ ہجرت فرما چکے تھے اور مکہ کے سرداروں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب مزید کسی کو اسلام قبول کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اور آج کے بعد جو بھی یہ قدم اٹھائے گا، اس کے ساتھ کسی بھی طرح کی کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی کہ اب معاملہ حد سے بڑھ چکا تھا اور قریشِ مکہ کی ناک خطرے میں تھی۔ جی ہاں وہی ناک جس کو بچانے کے لیے وہ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ آج اسی ناک کو ایک اور خطرہ درپیش تھا جس سے بچنے کے لیے وہ کسی حد تک بھی جانے کو تیار تھے، پھر چاہے وہ حد اپنے پیاروں کی زندگی ہی کیوں نہ ہو۔
حضرت سہیل بن عمروؓ اپنی قوم کے سردار ہونے کے ساتھ ساتھ ”خطیبِ عرب“ کا اعزا بھی رکھتے تھے، جس نے ان کے مرتبے کو مزید بلندیاں عطا کرتے ہوئے ”ناک“ کو اور نمایاں کردیا تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ چاہ کر بھی اپنی اولاد کے ساتھ نرمی نہیں برت پا رہے تھے جو ان کی مرضی اور اجازت کے بنا اسلام قبول کر چکی تھی۔ حضرت ابو جندلؓ کے بڑے بھائی، جو ان سے پہلے مسلمان ہوئے تھے، کسی طرح قید سے چھٹکارہ حاصل کر کے مدینہ میں پناہ لے چکے تھے اور اب حضرت ابو جندلؓ اکیلے ہی اس اذیت کا سامنا کر رہے تھے۔ یہ ایک بالکل فظری بات ہے کہ جب اذیت دینے والے اپنے ہوں تو کرب کا احساس دوگنا ہو جاتا ہے۔ حضرت ابو جندلؓ بھی اسی دہرے کرب سے گزر رہے تھے جس سے نجات کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی کہ مطالبہ اسلام سے پھرنے کا تھا جو انہیں کسی طور منظور نہ تھا اور دوسری طرف ”عزت“ داؤ پر لگی تھی کہ اتنے بڑے سردار اور خطیبِ عرب کا دوسرا بیٹا بھی اپنے باپ دادا کے دین سے پھر چکا تھا۔ اور اب بظاہر عزت اسی میں تھی کہ کیسے بھی کر کے کم از کم ایک تو واپس لوٹ ہی آئے۔ والد کی سختیاں بھی اس امید پر بڑھتی جا رہیں تھیں کہ جتنی سخت اذیت دی جائے گی اتنے ہی واپس لوٹنے کے امکان بھی بڑھ جائیں گے۔ حضرت ابو جندلؓ باپ کے لاڈلے اور نازو نعم میں پلے ہوئے تھے۔ زندگی میں اس سے پہلے کسی قسم کی نہ تو تکلیف جھیلی تھی اور نہ ہی کوئی مشقت اٹھائی تھی اور اس لیے والد کو یقین بھی تھا کہ جلد ہی ہتھیار ڈال کر اسلام سے بیزاری کا اعلان کر دیں گے۔ لیکن یہ وہ عظیم لوگ تھے جنہوں نے اسلام کی روح کو سمجھ کر اپنی مرضی سے اسے اپنایا تھا اور اب وہ خون بن کر رگوں میں دوڑ رہا تھا۔ ہمیں چونکہ اس عظیم نعمت کو پانے کے لیے کسی قسم کی کوئی قربانی نہین دینی پڑی، بس آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو مسلمان پایا، یہی وجہ ہے کہ اسلام نہ تو ہمارے خون میں دوڑتا ہے اور مجموعی طور پر نہ ہی ہمارے کسی عمل میں کہیں نظر آتا ہے۔ اور جو چیز بن مانگے مل جائے اس کی اہمیت کا احساس بھی بہت ہی کم لوگوں کو ہوتا ہے۔
غرض حضرت ابو جندلؓ بڑی جانفشانی سے، ہر طرح کی اذیت کا سامنا کرتے ہوئے، غیر متوقع نجات کی امید میں شب و روز گزار رہے تھے کہ اچانک ایک دن خبر ملی کہ محمد مصطفی ﷺ اپنے اصحاب کے ہمراہ مکہ کی حدود پر موجود ہیں۔ اطلاع ملتے ہی امید کی کرن جگمگائی اور قید خانے سے نکلنے کی تدبیریں کرنے لگے۔ جبکہ دوسری طرف صورتِ حال یہ تھی ہجرت کے چھٹے سال اللہ کے پیغمبر ﷺ نے عمرہ کا ارادہ فرمایا اور چودہ سو اصحاب کی معیت میں احرام باندھ کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اور جب مکہ کی حدود پر پہنچے تو مشرکین مکہ نے داخلے سے منع کر دیا۔ اللہ کے نبیﷺ نے اپنے اصحاب کو وہیں پڑاؤ کا حکم دیا اور مکہ کے سرداروں کو پیغام بھجوایا کہ ہماری نیت صرف عمرہ کی ہے اور ہم کسی بھی طرح کا لڑائی جگھڑا یا جنگ نہیں چاہتے۔ لیکن مکہ والے بضد تھے کہ کسی طور بھی مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
بالآخر اللہ کے نبیﷺ نے حضرت عثمانؓ کو افہام و تفہیم کی غرض سے مکہ کے سرداروں کے پاس بھیجا۔ سفارتی امور کی انجام دہی اور حالات کے پیشِ نظر حضرت عثمان کا قیام کچھ طوالت اختیار کر گیا اور اسی دوران، کفار کے ہاتھوں، ان کی شہادت کی افواہ پھیل گئی جس کے نتیجے میں بیعتِ رضوان کا عظیم المرتبت واقعہ پیش آیا اور مسلمان جنگ کی تیاری کرنے لگے۔ اسی دوران چند دوسرے قبائل کی مداخلت اور افہام و تفہیم سے مکہ کے سرداروں پر یہ واضح ہو گیا کہ آمد کا مقصد واقعی عمرہ تھا جس سے منع کر کےجہاں وہ اخلاقی غلطی کے مرتکب ہوئے تھے وہیں یہ خطرہ بھی لاحق ہو گیا تھا کہ دوسرے قبائل کی طرف سے، نہتے لوگوں کو عمرہ کرنے سے روکنے پر، طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بنیں گے۔ لیکن چونکہ انکار کر چکے تھے اور اس سے پھرنا بھی ان کے مزاج کے خلاف تھا تو انہوں نے صلح کا فیصلہ کیا اور حضرت سہیل بن عمروؓ کو صلح کا پیغام دے کر معاملات طے کرنے کے لیے اللہ کے نبی ﷺ کے پاس بھیج دیا۔ یہ وہی صلح ہے جو اسلامی تاریخ میں ”صلح حدیبیہ“ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
حضرت سہیل بن عمروؓ اللہ کے نبی ﷺ کے پاس پہنچے اور صلح کے معاملات طے کرنے شروع کر دیے۔ یہ بڑے زیرک سیاست دان تھے اور انہوں نے اپنی شرائط پر صلح کا ٖفیصلہ کیا تھا جو بظاہر ساری کی ساری مسلمانوں کے خلاف تھیں اور انہیں میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ ”کوئی بھی شخص مکہ سے بنا اجازت مدینہ نہیں جائے گا اور اگر کوئی چلا جاتا ہے تو اسے ہر حال میں واپس کیا جائے گا۔“
عین اسی وقت، جب شرائط طے ہو چکی تھیں، حضرت ابو جندلؓ، جو موقع کا فائدہ اٹھا کر قید خانے سے بھاگ نکلے تھے، بیڑیوں میں بندھے بدن کو گھسیٹتے ہوئے، کفار مکہ سے نظر بچا کر، مسلمانون کے پڑاؤ میں آن پہنچے اور مدد کے لیے پکارنے لگے۔ ان کو یقین تھا کہ اب کوئی ان کا بال بھی بانکا نہیں کر سکتا کہ اب وہ اپنے لوگوں میں آچکے ہیں۔ حضرت سہیل بن عمروؓ نے، جو شرائط طے کر کے فارغ ہی ہوئے تھے، جب بیٹے کو وہاں دیکھا تو فورا پکڑ لیا اور با آواز بلند کہا کہ معاہدے کی رو سے یہ آپ کے ساتھ نہیں جا سکتا کہ میں نے اس کی اجازت نہیں دی۔ آقائے نامدار ﷺ نے اس بات کو تسلیم کیا اور حضرت ابو جندلؓ کو، دل پر پتھر رکھ کر ڈبڈباتی آنکھوں سے، واپس جانے کا حکم دیا اور صبر کی تلقین فرمائی۔ حضرت ابو جندلؓ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ اے مسلمانو! کیا مجھے انہی مشرکین میں واپس بھیج رہے ہو جو میرے دین کے درپے ہیں؟
حضرت ابو جندلؓ کو اس لیے واپس بھیجا گیا، یا آج کی معروف اصطلاح کے مطابق، ”ڈی پورٹ“ کر دیا گیا کہ ان کے پاس اجازت نامہ یعنی ویزا نہیں تھا۔ یہ بنیادی طور پر ایک ریاست کا دوسری ریاست کے ساتھ قانونی معاہدہ تھا جس کی ایک شق ویزے کے بنیادی قوانین پر مشتمل تھی اور دونوں ریاستوں کے افراد پر اس کی پاسداری اسی طرح لازم تھی جس طرح کرنے والوں پر۔ ویزا چونکہ بنیادی طور پر ایک ملک سے نکل کر دوسرے ملک میں داخل ہونے کا اجازت نامہ ہوتا ہے جس کا عہد تو ریاست کے ذمہ داران کرتے ہیں لیکن اس کا پابند دونوں طرف کا ہر شہری ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اسرائیل سے پاکستان کا ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے تو کوئی پاکستانی لاکھ کوشش کرے، پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل میں داخل نہیں ہو سکتا جبکہ اس نے انفرادی حیثیت میں اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کا کوئی عہد بھی نہیں کیا ہے۔ اور اسی طرح کوئی اسرائیلی چاہ کر بھی اسرائیلی پاسپورٹ پر پاکستانی ویزا حاصل نہیں کر سکتا۔ حضرت ابو جندلؓ کے پاس یہی اجازت نامہ، یعنی ویزا، نہیں تھا اور اسی لیے انہیں، ہر طرح کی اذیتوں کے باوجود، ”ڈی پورٹ“ کر کے امت کو یہ درس دیا گیا کہ عہد کی پاسداری ہر حال میں لازم ہے اور یہ کہ ویزا کے بنا ایک ملک سے نکل کر دوسرے ملک میں داخل ہونا جس طرح ریاستی جرم ہے، بالکل اسی طرح مذہبی جرم بھی ہے۔ کہ اللہ کریم نے بڑے واضح انداز میں حکم دیا ہے کہ اپنے عہد کو پورا کرو کہ بیشک اس کے بارے میں (قیامت کے دن) پوچھا جائے گا۔ اور ویزا بھی ایک عہد ہے، جس کی اپنی حدود و قیود ہیں اور جو حکومت کے توسط سے عمل میں آتا ہے اور ہر شہری اس کا پابند ہوتا ہے۔ جس کی مخالفت کی صورت میں جہاں ریاست کے مجرم قرار پائیں گے وہیں اللہ عز وجل کی حکم عدولی کے بھی مرتکب ہوں گے۔