ہوم << تیسرے سیارے پر ایک رپورٹ - آرتھر سی کلارک

تیسرے سیارے پر ایک رپورٹ - آرتھر سی کلارک

احمد سعد [اس دستاویز کا گزشتہ دنوں ”بین السیاراتی آثار قدیمہ کمیشن“ کے لیے ترجمہ کیا گیا ہے. اسے مریخ پر آج تک دریافت ہونے والے تمام آثار قدیمہ سے زیادہ اہم قرار دیا جا رہا ہے اور یہ ہمارے معدوم شدہ ہمسایوں کے سائنسی علم اور سوچ پر روشنی ڈالتا ہے. یہ مریخی تہذیب کے آخری زمانے یعنی یورینیم کے دور کے آخری دنوں میں لکھا گیا تھا یعنی حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے تقریبا ایک ہزار سال قبل.
یہ ترجمہ اصل متن کے کافی قریب ہے، تاہم ان حصّوں کی نشان دہی کر دی گئی ہے جو قیاس کی بنیاد پر لکھے گئے ہیں. جہاں مناسب سمجھا گیا وہاں مریخی اصطلاحات اور اکائیوں کو زمینی تراکیب سے بدل دیا گیا ہے. احمد سعد، مترجم]

………………………………
گزشتہ دنوں سیارہ زمین کے ہم سے کم فاصلے پر آجانے کی وجہ سے ایک بار پھر وہ تمام قیاس آرائیاں زندہ ہوگئی ہیں جن کا تعلق خلا میں ہمارے قریب ترین پڑوسی پر زندگی کے امکانات سے ہے. یہ وہ سوال ہے جس پر صدیوں سے بحث جاری ہے لیکن ابھی تک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکا ہے. البتہ پچھلے چند برسوں میں نئے خلائی آلات کی ایجاد نے ہمیں دوسرے سیاروں کے بارے میں کافی درست معلومات مہیا کی ہیں. اگرچہ فی الحال ہم خلا میں زندگی کے وجود کے بارے میں تصدیق یا تردید نہیں کر سکتے لیکن اب ہمارے پاس زمین کے حالات کے بارے میں کافی درست معلومات موجود ہیں جن کی وجہ سے ہماری تحقیق مضبوط سائنسی بنیادوں پر آگے بڑھ سکتی ہے.
زمین کے بارے میں ایک تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ جب یہ ہم سے انتہائی قریب ہوتی ہے تب ہم اس کا مشاہدہ نہیں کرسکتے کیونکہ اس وقت یہ ہمارے اور سورج کے درمیان ہوتی ہے اور اس کا تاریک حصّہ ہماری طرف ہوتا ہے. ہمیں اس وقت تک انتظار کرنا پڑتا ہے جب تک یہ صبح یا شام کا تارا نہ بن جائے لیکن تب یہ ہم سے سو ملین میل دور جا چکی ہوتی ہے، اس سے پہلے کہ ہم اس کا روشن حصّہ غور سے دیکھ پائیں. اس وقت دوربین سے یہ ایک روشن ہلال کی طرح نظر آتی ہے جس کے گرد ایک تنہا بڑا سا چاند گھوم رہا ہوتا ہے. دونوں آسمانی اجسام کے رنگوں میں فرق چونکا دینے والا ہے. چاند کا رنگ خالص روپہلا سفید ہے لیکن زمین ایک بیمار سے سبزی مائل نیلے رنگ کی حامل ہے.
[اسم صفت کا اصل زور نامعلوم ہے لیکن یقینا کوئی خوشگوار مطلب نہیں ہے. ”مکروہ“ یا ”زہریلا“ مترادفات ہو سکتے ہیں ... مترجم]
جیسا کہ زمین بھی اپنے محور پر گھومتی ہے، اس کا دن ہمارے دن سے صرف ایک گھنٹہ چھوٹا ہے. محوری گردش کے ساتھ ساتھ سیارے کے مختلف حصے تاریکی سے نکل کر روشن ہلال پر ظاہر ہوتے ہیں. کئی ہفتوں تک مستقل مشاہدہ کرنے کے بعد اس کی سطح کا مکمل نقشہ بنالیا گیا ہے جس کے مطالعے سے یہ حیران کن انکشاف ہوتا ہے کہ سیارہ زمین کا دو تہائی سے زیادہ حصّہ کسی سیال میں ڈوبا ہوا ہے.
کچھ صدیوں پر محیط شدید اختلاف کے باوجود اب کوئی خاص شبہ نہیں رہ گیا ہے کہ یہ سیال دراصل پانی ہے. اگرچہ مریخ پر پانی اب ناپید ہے لیکن اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ ماضی بعید میں ہمارے سیارے کا بڑا حصّہ بھی اسی مائع سے ڈھکا ہوا تھا. اس لیے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زمین ابھی اس حالت میں ہے جس میں ہمارا اپنا سیارہ کئی لاکھ سال قبل تھا. ہمارے پاس یہ بتانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ یہ زمینی سمندر (اگر انہیں سائنسی طور پر سمندر کہا جاسکے) کتنے گہرے ہیں لیکن کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ان کی گہرائی کم از کم ایک ہزار فٹ ہوگی.
سیارے کا کرہ ہوائی بھی ہمارے اپنے کرہ ہوائی سے کہیں زیادہ بھاری ہے. مختلف تخمینوں کے مطابق یہ ہم سے کم از کم دس گنا کثیف ہے. چند سال پہلے تک ہم یہ بتانے سے قاصر تھے کہ زمین کا کرہ ہوائی کن چیزوں سے مل کر بنا ہے لیکن اب اسپکٹرو اسکوپ نے یہ مسئلہ حیران کن نتائج کے ساتھ حل کردیا ہے. گیس کی تہیں جو زمین کو لپیٹے ہوئے ہیں، ان میں بڑی مقدار ایک انتہائی زہریلی اور شدید تعامل پذیر عنصر آکسیجن کی ہے جو ہماری اپنی فضا میں برائے نام ہی پائی جاتی ہے. زمین کے کرہ ہوائی میں خاصی بڑی مقدار نائٹروجن اور آبی بخارات کی بھی ہے جو بڑے بڑے بادل بناتے ہیں جو اکثر کئی کئی دن تک زمین کی سطح کے عظیم قطعے چھپائے رکھتے ہیں.
مریخ کے مقابلے میں سورج سے 25 فی صد قریب ہونے کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت ہماری دنیا سے کافی زیادہ ہے. ہماری سب سے بڑی دوربینوں سے جڑے تھرموکپلز سے لی جانے والی پیمائشوں کے مطابق زمین کا خط استوا ناقابل برداشت حد تک گرم ہے. تاہم اونچے عروض البلد پر حالات اتنے شدید نہیں ہیں اور دونوں قطبین پر طویل و عریض برفانی ٹوپیوں کی وجہ سے درجہ حرارت کافی بہتر ہے. یہ قطبی برفانی ٹوپیاں کبھی بھی مکمل طور پر نہیں پگھلتیں (جیسا کہ مریخ پر گرمیوں میں ہوتا ہے) اس لیے یہ یقینا بہت دبیز ہوں گی.
زمین کیونکہ مریخ کے مقابلے میں بہت بڑی ہے (زمین کا قطر مریخ سے دوگنا ہے) اس لیے اس کی کشش ثقل بھی کافی زیادہ طاقتور ہے. درحقیقت یہ مریخی ثقل سے تین گنا زیادہ ہے. لہذا ایک 170 پاؤنڈ کا انسان زمین پر چوتھائی ٹن وزنی ہوگا. اس طاقتور کشش ثقل کے یقینا کئی اہم نتائج ہوں گے اور ان سب کا ہم ابھی ادراک نہیں کر سکتے. یہ زمین پر کسی بڑے جاندار کے امکان کو ختم کردیتی ہے کیونکہ وہ اپنے ہی وزن کے نیچے کچل کر رہ جائیں گے. البتہ یہ ایک معمہ ہے کہ زمین پر مریخ سے کہیں اونچے پہاڑ موجود ہیں. یہ غالبا ایک اور ثبوت ہے کہ یہ ایک کم عمر سیارہ ہے جو ابھی اپنی ابتدا میں ہے. جس کی سطح کے اصلی خدوخال ابھی غائب نہیں ہوئے.
ان ٹھوس حقائق کو دیکھتے ہوئے اب ہم زمین پر زندگی کے امکانات کو تول سکتے ہیں. اور یہ بات بلاتردد کہی جاسکتی ہے کہ یہ امکانات نہایت مخدوش ہیں. بہرحال ہمیں کھلے ذہن کے ساتھ ہر طرح کے ناممکنات کو قبول کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے جب تک وہ ہمارے سائنسی قوانین سے متصادم نہ ہوں.
سب سے بڑا اعتراض جو زمین پر پر زندگی کی موجودگی پر کیا جاتا ہے اور بہت سے ماہرین جسے حتمی سمجھتے ہیں، وہ انتہائی زہریلی آب و ہوا ہے. اتنی بھاری مقدار میں گیسی آکسیجن کی موجودگی وہ سائنسی چیلنج ہے جس سے نمٹنے سے فی الحال ہم قاصر ہیں. آکسیجن اپنی شدید تعامل پذیری کے سبب عام طور پر آزاد حالت میں برقرار نہیں رہ سکتی. مثلا ہمارے اپنے سیارے پر یہ لوہے کے ساتھ تعامل کرکے وہ خوبصورت سرخ صحرا بناتی ہے جنہوں نے ہماری دنیا کا بیشتر حصّہ ڈھکا ہوا ہے. ان علاقوں کی عدم موجودگی زمین کو ایسا ناخوشگوار سبز رنگ دیتی ہے.
زمین پر کوئی ایسا نامعلوم عمل ہو رہا ہے جو اس گیس کے اتنی زیادہ مقدار میں اخراج کا سبب بن رہا ہے. کچھ تخیلاتی قلم کاروں کا خیال ہے کہ شائد زمینی جاندار اپنے میٹابولزم کے دوران آکسیجن خارج کرتے ہوں گے. اس خیال کو حد سے زیادہ افسانوی ہونے کی وجہ سے مسترد کرنے سے پہلے یہ ذکر مناسب ہوگا کہ مریخی نباتات کی بھی کئی ابتدائی (اور اب معدوم) شکلیں بالکل ایسا ہی کرتی تھیں. بہرحال یہ ماننا بہت مشکل ہے کہ زمین پر ایسے پودے اتنی ناقابل تصور تعداد میں ہوں گے کہ اس قدر زیادہ آکسیجن پیدا کر سکیں.
[یہ بات ہم وثوق کے ساتھ جانتے ہیں کہ زمین کی تمام آکسیجن نباتاتی حیات کے پھلنے پھولنے کا ہی نتیجہ ہے. ہمارے سیارے کا اصل اور قدیم ماحول بھی آج کے مریخ کی طرح آکسیجن سے خالی تھا ... مترجم]
اگر ہم یہ فرض بھی کرلیں کہ زمین پر ایسی مخلوقات موجود ہیں جو اتنی زہریلی آب و ہوا اور کیمیائی طور پر تعامل پذیر حالات میں زندہ رہ سکتی ہیں، تب بھی اتنی زیادہ آکسیجن کی موجودگی کے دو تباہ کن اثرات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا. ان میں سے پہلا مظہر زیادہ پیچیدہ ہے اور حال ہی میں زبردست نظریاتی تحقیق سے سامنے آیا ہے اور اب مشاہدات سے ثابت بھی ہوگیا ہے.
معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے کرہ ہوائی میں بہت بلندی پر، یعنی کوئی بیس تیس میل کے ارتفاع پر، آکسیجن ایک گیس بناتی ہے جس کو اوزون کہتے ہیں. اس کے ایک مالیکیول میں آکسیجن کے تین ایٹم ہوتے ہیں برخلاف عام آکسیجن مالیکیول کے جو کہ دو ایٹمز پر مشتمل ہوتا ہے. یہ گیس اگرچہ نہایت قلیل مقدار میں انتہائی بلندی پر موجود ہے لیکن اس کا اثر زمینی ماحول پر غیر معمولی طور پر بہت زیادہ اور اہم ہے. یہ سورج کی تقریبا تمام الٹرا وائلٹ شعاؤں کو سیارے کی سطح تک پہنچنے سے روک دیتی ہے.
صرف یہ ایک ہی مظہر زمین پر زندگی کی ان تمام اشکال کے پنپنے کا امکان ختم کردیتا ہے جو ہمارے علم میں ہیں. سورج کی الٹرا وائلٹ ریڈی ایشن جو مریخ کی سطح تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ جاتی ہے ہماری صحت کے لیے اشد ضروری ہے اور ہمارے جسموں کو درکار توانائی کا بڑا حصہ مہیا کرتی ہے. اگر ہم زمین کا زنگ پرور ماحول سہہ بھی جائیں تب بھی اس اہم ریڈی ایشن کی غیر موجودگی ہمیں جلد ہی ختم کرڈالے گی.
اتنی زیادہ آکسیجن کی موجودگی کا دوسرا نتیجہ اس سے بھی زیادہ تباہ کن ہے. اس انتہائی خوفناک مظہر کو، جو خوش قسمتی سے صرف لیبارٹری میں ممکن ہے، سائنس دان آگ کہتے ہیں.
بہت سے عام مادے زمینی ماحول میں جب ایک درمیانے سے درجۂ حرارت تک گرم کیے جائیں تو ایک خطرناک اور مسلسل کیمیائی عمل شروع کردیتے ہیں جو ان کو پوری طرح ہڑپ کرنے کے بعد ہی تھمتا ہے. اس عمل کے دوران حرارت اور روشنی کی ناقابل برداشت مقدار خارج ہوتی ہے اور ساتھ ہی زہریلی گیسیں بھی. جو لوگ اس مظہر کا مشاہدہ لیبارٹری میں سخت حفاظتی ماحول میں کرچکے ہیں اسے انتہائی ڈراؤنا قرار دیتے ہیں. یقینا یہ ہماری بہت خوش قسمتی ہے کے لیبارٹری سے باہر یہ مریخ پر ممکن نہیں.
لیکن یہ مظہر زمین پر بہت عام ہوگا، اور زندگی کی کوئی شکل اس کی موجودگی میں باقی نہیں رہ سکتی. زمین کے تاریک رخ کے مشاہدے میں کئی بار بہت روشن حصے نظر آچکے ہیں جہاں یہ آگ نامی عمل واقع ہورہا ہوتا ہے. اگرچہ سیارے کے کچھ پرامید طالب علموں نے ان روشنیوں کو زمینی شہروں کی روشنیاں قرار دینے کی کوشش کی ہے لیکن اس خوبصورت خیال کو مسترد کئے بنا چارہ نہیں. ان چمکدار خطّوں میں بہت تیزی کے ساتھ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں اور چند ایک کے علاوہ سب کی عمر بہت کم ہوتی ہے. نیز ان کی جگہیں بھی بدلتی رہتی ہیں.
[یہ مشاہدات یقینا جنگلات کی آگ اور آتش فشانی پر مبنی ہوں گے. ثانی الذکر سے مریخ ناواقف تھا. افسوس اگر مریخی خلاباز چند ہزار سال مزید زندہ رہ جاتے تو وہ انسانوں کے شہروں کی روشنیاں بھی دیکھ لیتے. ہم نے ایک دوسرے کو اپنے سیاروں کی عمر کے دس لاکھویں حصے سے بھی کم مدت میں کھو دیا ... مترجم]
کثیف اور نمی سے بھرپور ماحول، زبردست کشش ثقل، اور سورج سے قربت کے سبب زمین تباہ کن انتہاؤں کی دنیا ہے. ناقابل یقین شدت کے طوفان کئی بار مشاہدے میں آ چکے ہیں جو زمین کے وسیع رقبوں پر محیط ہوتے ہیں. ان میں سے کچھ کے ساتھ مبہوت کن برقی اثرات بھی ہوتے ہیں جنہیں مریخ پر ہمارے حساس ریڈیو ویو ریسیور باآسانی پکڑ لیتے ہیں. ناممکن ہے کہ زندگی کی کوئی بھی شکل ایسے تباہی خیز طوفانوں کے آگے ٹھہر سکے جن سے یہ سیارہ کبھی آزاد نہیں ہوتا.
اگرچہ سردی اور گرمی میں درجۂ حرارت کا فرق ہمارے سیارے کے برخلاف بہت زیادہ نہیں ہوتا لیکن دیگر غیر موافق عوامل کی موجودگی میں یہ کوئی بہت دل خوش کن بات نہیں رہ جاتی. مریخ پر تمام حرکت کرنے والے جاندار باآسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرکے سردی سے بچ سکتے ہیں. ان کا راستہ روکنے کی لیے یہاں کوئی سمندر اور پہاڑ نہیں ہیں. زمین کے مقابلے میں ہماری دنیا کا مختصر حجم اور سال کی تقریبا دگنی طوالت کی وجہ سے ایسی موسمیاتی ہجرتیں ایک عام بات ہیں جن کے لیے اوسطا دس میل روزانہ کی رفتار بھی کافی ہے. لہذا یہاں ہمیں ایک جگہ ٹک کر سردی کا مقابلہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اور مریخی حیات کی بہت کم اقسام ہی ایسا کرتی ہیں.
لیکن زمین پر معاملہ یقینا برعکس ہوگا. سیارے کے اتنے زیادہ حجم اور انتہائی مختصر سال کی وجہ سے وہاں پر حیات کو کم از کم چالیس میل روزانہ کی رفتار سے ہجرت کرنا ہوگی تاکہ سردی کی سختیوں سے بچا جا سکے. اگر کسی طرح یہ رفتار حاصل کر بھی لی جائے (جو طاقتور کشش ثقل کی وجہ سے ناممکن لگتا ہے) تب بھی سمندر اور پہاڑ ناقابل عبور رکاوٹیں ثابت ہوں گے.
کچھ سائنس فکشن مصنفین نے اس مسئلے کا حل اڑنے والے جانداروں کا خیال پیش کرکے نکالا ہے. اس مضحکہ خیز تھیوری کے حق میں وہ کہتے ہیں کہ زمین کا کثیف ماحول اڑنے میں معاون ہوتا ہوگا. تاہم زیادہ کشش ثقل کے اثرات سے وہ صرف نظر کرجاتے ہیں. اڑنے والے جانداروں کا خیال ہے تو خوبصورت لیکن کوئی بھی قابل بائیولوجسٹ اسے سنجیدہ نہیں لیتا.
ایک زیادہ مناسب نظریہ یہ ہے کہ اگر زمین پر حیات موجود ہے تو وہ ان وسیع و عریض سمندروں میں ہوگی جنہوں نے سیارے کا بیشتر حصّہ ڈھکا ہوا ہے. گمان ہے کہ ہماری اپنی دنیا میں بھی زندگی کی ابتدا مریخی سمندروں کے اندر ہی ہوئی تھی لہذا یہ کوئی دیومالائی نظریہ بھی نہیں. سمندروں میں زمینی حیات کو اپنے سیارے کی طاقتور کشش ثقل سے بھی نبرد آزما نہیں ہونا پڑتا ہوگا. اگرچہ سمندر میں رہنے والے جانداروں کا تصور عجیب سا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ زمینی سمندر خشکی کے مقابلے میں ایک زیادہ حیات دوست جگہ ہوں گے.
لیکن حال ہی میں اس تھیوری کو نظری طبیعات میں ہونے والے کام سے دھچکا لگا ہے. ہم جانتے ہیں کہ زمین کا ایک دیو قامت چاند بھی ہے جو زمین سے نظر آنے والا سب سے نمایاں فلکی جسم ہوگا. یہ ہمارے اپنا دونوں چاندوں سے کوئی دو سوگنا بڑا ہے اور اگرچہ یہ زمین سے کافی فاصلے پر ہے لیکن پھر بھی اس کی کشش ثقل کے اثرات سیارہ زمین پر گہرے ہوں گے. اس کی کشش یقینا سمندروں میں زبردست مدوجزر کا سبب بنتی ہوگی جس سے سمندروں کی سطح کئی کئی فیٹ تک اتھل پتھل ہوجاتی ہوگی. نتیجتا زمین کے تمام نچلے مقامات دن میں دو بار سیلاب کا شکار ہوتے ہوں گے. ان حالات میں یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ زندگی خشکی یا سمندر میں پنپ سکتی ہے کیونکہ دونوں خطے ایک دوسرے سے جگہ بدلتے رہتے ہوں گے.
خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا پڑوسی سیارہ زمین تباہ کن طاقتوں کی دنیا ہے جو مریخ پر موجود حیات کے لیے بالکل ناموزوں ہے. تاہم بارشوں اور طوفانوں سے بھرپور ماحول میں نباتاتی حیات کی کچھ اقسام ضرور ممکن ہیں. بہت سے خلائی سائنس دنوں کا دعوی ہے کہ انہوں نے بعض خطّوں میں رنگ کی تبدیلی نوٹ کی ہے جو موسمیاتی نباتاتی نشونما کا اشارہ ہے.
جہاں تک حیوانات کا تعلق ہے تو یہ صرف تخیل ہے اور تمام حالات اس کے خلاف ہیں. اگر وہ موجود بھی ہیں تو طاقتور کشش ثقل کا مقابلہ کرنے کے لیے انتہائی جسیم اور مضبوط ہوں گے. ان کے شائد کئی پیر ہوں اور وہ آہستہ آہستہ حرکت کے ہی قابل ہوں گے. ان کے سست جسم موٹی کھال سے ڈھکے ہوتے ہونگے جو ان کو موجود خطرات، جیسے طوفانوں آگ اور زنگ دوست ماحول سے ڈھال کا کام دیتی ہوگی. ان حقائق کی روشنی میں زمین پر ذہین حیات کی بحث کو اب بند سمجھنا چاہئیے. ہمیں یہ حقیقت قبول کرلینی چاہیے کہ نظام شمسی میں ہم ہی واحد ذہین مخلوق ہیں.
جو رومان پرست اب بھی کسی امید افزا جواب کی تلاش میں ہیں ان کے لیے تیسرا سیارہ اپنے باقی راز بھی جلد اگل دے گا. راکٹوں پر ہونے والی حالیہ تحقیق کے بعد ایسی خلائی گاڑی بنانا ممکن ہو گیا ہے جو مریخ کی ثقل کے حصار کو توڑتے ہوئے خلا کی عمیق گہرائیوں کو چیرتی ہمارے پراسرار پڑوسی کی طرف بڑھ سکے. اگرچہ زمین کی طاقتور کشش ثقل کی وجہ سے زمین پر اترنا خطرناک ہوگا (علاوہ ریڈیو کنٹرولڈ روبوٹ گاڑیوں کے لیے) لیکن ہم کم بلندی پر زمین کے گرد چکر لگا سکتے ہیں اور سطح کی ہر تفصیل اپنے موجودہ فاصلے سے دس لاکھ گنا کم فاصلے سے نوٹ کر سکتے ہیں.
اب جبکہ ہم ایٹم کو توڑنے اور مرکزے کی بے حساب توانائی خارج کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں، جلد ہی ہم اس زبرست نئی طاقت کو اپنی دنیا سے باہر نکلنے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں. زمین اور اس کا دیوقامت چاند تو محض پہلے اجرام فلکی ہوں گے جہاں ہمارے کھوجیوں کے قدم پہنچیں گے. ان سے پرے …
[بدقسمتی سے یہ مسودہ یہاں ختم ہوجاتا ہے. باقی حصّہ بری طرح جل چکا ہے اور ترجمہ کرنا ممکن نہیں رہا. ایسا غالبا اس تھرمو نیوکلیر دھماکے سے ہوا جس نے امپیریل لائبرریری اور ساتھ ہی اوسس شہر کو بھی تباہ کر دیا. عجیب اتفاق ہے کہ وہ میزائل جنہوں نے مریخی تہذیب کا خاتمہ کردیا، انسانی تاریخ کے ایک اہم لمحے میں داغے گئے. چالیس ملین میل کے فاصلے پر نسبتا کم ترقی یافتہ ہتھیاروں کے ساتھ یونانی ٹرائے پر حملہ کر رہے تھے. مترجم]

(اس سائنس فکشن کا احمد سعد نے دلیل کےلیے خصوصی طور پر ترجمہ کیا ہے۔)

Comments

Click here to post a comment