ہوم << ’’حاجی صاحب‘‘ - احسان کوہاٹی

’’حاجی صاحب‘‘ - احسان کوہاٹی

سیلانی نے آنکھیں ملتے ہوئے سیل فون کی روشن اسکرین پر نظر ڈالی اور ایس ایم ایس پڑھ کر بڑبڑانے لگا ’’یہ نہیں سدھریں گے۔۔۔‘‘
سیلانی فون چارجنگ پر لگاکر غسل خانے میں گھس گیا۔ وضو کیا، نماز پڑھی اور کالم لکھنے کے لیے مسہری پر لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا، لیکن اس کا ذہن اسی ایس ایم ایس کی طرف تھا۔ اس نے لیپ ٹاپ ایک طرف کیا اور حاجی صاحب سے لڑنے کے لیے ان کا نمبر ڈائل کرنے لگا کہ یہ کیا طریقہ ہے۔ صبح سویرے کوئی اس طرح کا بیہودہ مذاق بھی کرتاہے۔۔۔
سیلانی نے حاجی صاحب کا نمبر ڈائل کیا، دوسری طرف سیل فون کی گھنٹی بجی اور پھر خلاف توقع کسی نسوانی آواز میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔
’’السلام علیکم حاجی صاحب سے بات کرادیں۔‘‘
’’حاجی صاحب کا تو انتقال ہوگیا ہے۔۔۔‘‘
’’کیا، یایایایایا۔۔۔ آپ کون بات کررہی ہیں؟‘‘
’’میں ان کی مسز بات کررہی ہوں۔۔۔ رات ان کی طبیعت خراب ہوئی، اسپتال لے کر گئے لیکن۔۔۔‘‘
’’آپ مذاق نہ کریں، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘
’’بھائی ہمیں تو خود بھی یقین نہیں آرہا۔۔۔‘‘
سیلانی نے لائن کاٹ دی اور دوبارہ لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا۔ اسے پتا تھا کہ پینسٹھ برس کے شرارتی حاجی صاحب نے مسز کو بھی ساتھ ملالیا ہے۔ اس نے کالم لکھا، ’’امت‘‘ کو ای میل کرکے حاجی صاحب سے دو دو ہاتھ کرنے نکل کھڑا ہوا۔
حاجی صاحب سیلانی کے ان خاموش قارئین میں سے تھے جو برسوں سے سیلانی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہاتھوں کے پیالوں میں اس کے لیے دعائیں لیے رکھتے ہیں، لیکن کبھی سیلانی سے نہیں ملے۔ غالبا ایک سال پیچھے حاجی طفیل صاحب ان خاموش قارئین کی صف سے نکل آئے۔ انہوں نے سیلانی کا سیل نمبر لیا اور کال کرکے پاکستان چوک آنے کی دعوت دی۔
’’پاکستان چوک پر دکنی مسجد معروف ہے، اس کے بالکل سامنے خاکسار کی چھوٹی سے ڈیری شاپ ہے۔ ادھر آکر کسی بسم اللہ ملک شاپ اور لال داڑھی والے حاجی صاحب کا پوچھ لیجیے گا، آپ پہنچ جائیں گے۔‘‘
اور ایسا ہی تھا، خوش مزاج حاجی صاحب پاکستان چوک میں اپنے خالص دودھ دہی اور خوش مزاجی کی وجہ سے چھوٹوں بڑوں، سب میں مشہور تھے۔ خاص کر بچے تو ان کے گرویدہ تھے۔ شاید ہی کوئی بچہ ہو جو انہیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے ہاتھ نہ ہلاتا ہو۔ انہوں نے دکان میں بچوں کے لیے ٹافیوں کی بڑی سی برنی بھر رکھی تھی اور ہر وہ بچہ اس ٹافی کا حقدار تھا جن پر ان کی نظر پڑجاتی۔
حاجی صاحب کے اخلاق نے پہلی ہی ملاقات میں سیلانی کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ وہ گوجرانوالہ کے تھے اور دیکھنے میں بھی گوجرانوالہ کے ریٹائرڈ پہلوان ہی لگتے تھے۔ سیلانی نے انہیں کھرے مزاج کاسچا بندہ پایا۔ انہوں نے سفید داڑھی ہی مہندی سے رنگی ہوئی تھی، اس کے سوا ان کی شخصیت پر ملمع کاری کا دور دور تک واسطہ نہ تھا۔
سیلانی کی حاجی صاحب سے دوستی ہوگئی۔ عمروں کے فرق کے باوجود مزاج ایک سے تھے، اس لیے خوب دوستی ہوگئی۔ اس دوستی میں پاکستانیت اور خوش خوراکی کا بڑا عمل دخل تھا۔ سیلانی خود ہی کو بڑا خوش خوراک سمجھتا تھا، لیکن حاجی صاحب کے سامنے وہ واقعی طفل مکتب تھا۔ سیلانی ان سے سٹی کورٹ کے پیچھے کیفے حسن کی نہاری کا ذکر کرتا تو حاجی صاحب کہتے اسلم روڈ والے کی نہاری کھائی ہے؟ سیلانی ان سے جامع کلاتھ کی چنا چاٹ کی بات کرتا تو فرماتے اقبال کی چنا چاٹ کھائی ہے؟ اور پھر وہ سیلانی کو وہ چیز کھلانا فرض سمجھ لیتے۔ انہوں نے اصرار کرکے منیب الرحمان اور شیث خان کو بھی ایک دن دکان پر بلالیا اور اس کے بعد تو حاجی صاحب سیلانی کے گھر کے فرد جیسے ہی ہوگئے۔ منیب الرحمان تو اٹھتے بیٹھتے ان کے گن گاتا رہتا۔ اس کی حاجی صاحب سے ایسی دوستی ہوگئی کہ نیند سے بھی اٹھاکر حاجی صاحب کے پاس چلنے کے لیے کہا جاتا تو آنکھیں ملتا ہوا پاؤں میں چپل ڈال کر کھڑا ہوجاتا۔
سیلانی موٹر سائیکل دوڑائے چلا جارہا تھا اور وہ تمام القابات، خطابات جمع کررہا تھا جو اس نے آج حاجی صاحب کو عطا کرنے تھے۔ اس سے پہلے بھی وہ ایک بار ایسی ہی حرکت کرچکے تھے۔ حرکتیں تو بہت سی کرتے رہتے تھے، ان کی تازہ ترین حرکت سیلانی کو اپنا پیر ومرشد قرار دینا تھی۔ وہ ان سے ملنے جاتا تو کسی مرید کی طرح کھڑے ہوجاتے۔ سیلانی بھی کسی پیر کی طرح ان کے شانے پر کرامتی ہاتھ سے تھپتھپاہٹ دے دیتا اور پھر دونوں پیر مرید مل کر قہقہہ لگاتے۔ بات پیر و مرشد ٹھہرانے تک رہتی تو کوئی مضائقہ نہ تھا۔ حاجی صاحب نے تو اوروں سے بھی سیلانی کا تعارف ’’میرے پیر ومرشد‘‘ کی حیثیت سے کرانا شروع کردیا تھا۔ کچھ دن پہلے دو خواتین دکان میں داخل ہوئیں۔ سیلانی کی شامت آئی ہوئی تھی کہ وہ بھی وہیں موجود تھا۔ ان خواتین کو دیکھ کر حاجی صاحب نے فورا کہا
’’او بسم اللہ بسم اللہ، میری بیٹیاں آئی ہیں، کوئی ٹھنڈی لسی شسی پلائے‘‘۔
ملازم نے ان کے لیے بنچ صاف کرکے رکھ دیا۔ وہ دونوں خواتین تھکی ہوئی لگ رہی تھیں۔ حاجی صاحب نے بتایا کہ یہ بچیاں پولیو ورکر ہیں۔ بڑی محنت کر تی ہیں۔ پھر ان سے خیر خیریت پوچھتے پوچھتے اچانک ہی گویا ہوئے ’’یہ میرے پیر صاحب ہیں، انہیں سلام کریں، دعائیں لیں۔‘‘
اب جو خواتین نے کلین شیو پیر صاحب پر نظر ڈالی تو یہ بات ہضم نہ کرسکیں۔ ادھر سیلانی ان کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگا، لیکن حاجی صاحب کہاں باز آنے والے تھے۔ انہوں نے مزید کہا: ’’ان کے کلین شیو چہرے کی طرف نہ جائیں یہ اللہ والے اپنا آپ چھپاکر رکھتے ہیں‘‘۔
بس ان کا یہ کہنا تھا کہ ایک پولیو ورکر التجائیہ لہجے میں گویا ہوئی ’’میرے لیے دعا کیجئے کہ اس بار پوری تنخواہ مل جائے، بہت محنت کر رہے ہیں‘‘
دوسری نے کہا ’’بس دعا کریں کہ ہمارے حالات اچھے ہوجائیں، ہمیں گھر سے باہر دھکے نہ کھانا پڑیں‘‘
حاجی صاحب نے صدق دل سے آمین کہا اور ملازم سے کہا کہ انہیں ایک ایک لسی گھر کے لیے بھی پارسل کرکے دو۔ آج میرے پیر صاحب آئے ہوئے ہیں، میرا دل بڑا ہی خوش ہے۔۔۔ وہ احسان مند لہجے میں شکریہ ادا کرکے چلی گئیں اور سیلانی نے حاجی صاحب کے سامنے ہاتھ جوڑ لیے
’’نہ کیتا کرو حاجی صاحب، کیوں پھنسوائوگے‘‘
’’میں توانوں اتھے پیر صاحب مشہور نہ کردیاں تے کہنا‘‘ حاجی صاحب نے شرارتی انداز میں اپنے ارادوں کا اظہار کیا اور سیلانی نے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔
سیلانی موٹر سائیکل دوڑتا ہوا پاکستان چوک کے علاقے میں داخل ہوچکا تھا۔ وہ سوچ چکا تھا کہ حاجی صاحب کے ساتھ کیا کرنا ہے، لیکن کسی انجانے خدشے سے اس کا دل بھی دھک دھک کررہا تھا، جیسے جیسے دکان قریب آرہی تھی، اس کے دل اور تیزی سے دھڑکتا جارہا تھا۔ پھر دکان سامنے آگئی۔ دکان کھلی ہوئی تھی۔ اس کے دل کو ذرا ڈھارس سی ہوئی۔ اس نے دکان کے سامنے موٹرسائیکل کھڑی کی اور تیزی سے اترکر آگے بڑھا تو حاجی صاحب کے بیٹے انس کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو۔ اس نے دکان میں نگاہ ڈالی، حاجی صاحب کی کرسی خالی تھی۔
’’حاجی صا۔۔۔صاب‘‘ سیلانی نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔
’’رات انتقال ہوگیا جی۔‘‘ ملازم نے اداس لہجے میں بتایا۔
’’کب کیسے۔۔۔ ابھی تو تین دن پہلے میں ان سے مل کر گیا تھا، کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
’’ابو جی کی دو دن سے طبیعت خراب تھی، رات کو طبیعت پھر بگڑگئی، ایمبولینس منگوائی، اسپتال لے کر گئے لیکن ۔۔۔‘‘
سیلانی انس کے گلے لگ کر رو پڑا۔ انس سیلانی کے گلے لگ کر رو رہا تھا اور سیلانی انس کو گلے لگاکر گلوگیر آواز میں جانے کیا کیا کہہ رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں علی بھی آگیا۔ تدفین کا انتظام کرنا تھا۔ سچی بات ہے سیلانی کی تو سمجھ نے ہی کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گیا۔ اس کا دل ہی نہیں مان رہا تھا کہ حاجی صاحب اس طرح اچانک چلے جائیں گے۔
وہ تین دن پہلے ہی تو حاجی صاحب سے مل کر اور ہمیشہ کی طرح تڑی لگاکر گیا تھا کہ اب اگر انہوں نے یہ تکلفات کا سلسلہ بند نہ کیا تو وہ نہیں آئے گا اور یہ سچ بھی تھا۔ حاجی صاحب اس کی موٹرسائیکل کے ہینڈل پر بڑا سا تھیلا لٹکا دیتے جس میں بچوں کے لیے کبھی لسی کبھی بسکٹ اور والدہ کے لیے میٹھا دہی ہوتا۔ ان کے اس تکلف کی وجہ سے سیلانی نے ان سے ملنا کم کردیا تھا، لیکن ایسا کم ہی ہوتا کہ یہ وقفہ ہفتہ دس دن سے زیادہ رہا ہو۔ حاجی صاحب کی محبت خلوص اسے زیادہ دن پاکستان چوک سے دور رہنے نہیں دیتی تھی، لیکن اب وہ ہی دور ہو رہے تھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جارہے تھے۔
حاجی صاحب سے سیلانی کی دوستی سال بھر کی بھی نہ تھی، لیکن اس مختصر سے عرصے میں حاجی صاحب نے سیلانی کے دل میں ہمیشہ ہمیشہ کی جگہ بنالی تھی۔ ایسی جگہ کہ شاید ہی کوئی اس کا مالک ہوسکے۔ ایسے محبت کرنے والے کھرے سچے لوگ آج کل کی مصنوعیت میں کہاں ملتے ہیں؟ حاجی صاحب کی نماز جنازہ آرام باغ کی مسجد میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ کے بعد حاجی صاحب کے چہرے پر سے چادر ہٹائی گئی، ہنسنے بولنے والا حاجی طفیل خاموشی سے آنکھیں موندے لیٹا ہوا تھا، جیسے طویل مسافت کے بعد مسافر تھک کر سوتے ہیں۔ سیلانی کا جی چاہا کہ وہ اس تھکے ماندے مسافر کو جگادے، کہہ دے کہ کچھ دن تو ٹھہرجاؤ۔ ابھی تو علی اور انس کی دُلہن تلاش کرنی ہے۔ بیٹی کو وداع کرنا ہے۔ نادر نے تیز موٹرسائیکل چلانا نہیں چھوڑی، اس کے کان کھینچنے ہیں اور منیب الرحمان بھی تو آپ کو بہت یاد کرتا ہے، اسے کیا کہوں گا۔۔۔۔ اے کاش کسی کے جگانے سے ابدی نیند سونے والے جاگ سکتے، روکنے سے رک سکتے۔۔۔ سیلانی حاجی صاحب کے سرہانے کھڑا تھا کہ آواز آئی آگے آگے بڑھتے جائیں، بھائی اوروں کو بھی چہرہ دیکھنے دیں، تب سیلانی بوجھل قدموں سے آگے بڑھتے ہوئے نمناک آنکھوں سے حاجی صاحب کو آنکھیں موندے لیٹادیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

Comments

Click here to post a comment