ہوم << بےچارے مرد کی مظلومیت کی داستان - طاہرہ عالم

بےچارے مرد کی مظلومیت کی داستان - طاہرہ عالم

%d9%85%d8%b7%db%81%d8%b1%db%81 ہوش سنبھالنے سے پہلے سے آنکھوں نے عورتوں کو مظلوم کی دیوی اور مرد کو ظلم کا دیوتا دیکھا. کیا مرد مظلوم نہیں ہو سکتا؟ یہ سوال ذہن میں کئی بار آیا اور اتنی ہی تیزی سے ختم بھی گیا کیونکہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مرد مظلوم ہو کہ اس کے نام کے ساتھ ظلم جڑا ہوا ہے. ’’خواتین کا احترام کرو‘‘ جگہ جگہ پڑھنے کو ملتا ہے، تو کیا مرد حضرات کا کوئی احترام نہیں؟ یہ جملہ کیوں پڑھنے میں نہیں آتا کہ ’’مردوں کا احترام کرو‘‘ یا پھر ان کی عزت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اکثر ’’لیڈیزفرسٹ‘‘ پر عمل ہوتا دیکھنے کو ملتا ہے لیکن پھر بھی خواتین ہر جگہ شکایت کا دفتر کھولے ہوئے نظر آتی ہیں. کہا جاتا ہے کہ ہمارا تو معاشرہ ہی مردوں کا ہے لیکن جائزہ لیا جائے تو حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ مرد انتہائی بے چارہ ہوتا ہے اور ساری زندگی یہ بےچارگی ختم نہیں ہوتی. اس کے پیدا ہونے پر بہت خوشیاں منائی جاتی ہیں، آنکھوں کا تارا بنا رہتا ہے، مگر یہی قید بن جاتی ہے، اماں زیادہ دور جانے نہیں دیتیں، آنکھوں کے سامنے ہی رکھنا پسند کرتی ہیں، تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو بےچارے کا بہت دل چاہتا ہے کہ دوستوں کے ساتھ وقت گزارے لیکن یہ تو ممکن ہی نہیں، اماں اور بہنوں کی پولیس والی نظروں کا سامنا کیسے کرے اور اگراپنی مرضی سے کچھ وقت دوستوں کے ساتھ گزار بھی لے تو ایسے سوالات کے جوابات مطلوب ہوتے ہیں کہ آئندہ مہینے بھر باہرجانے سے پریز ہی کرتا ہے، اور اگر ابا جی نے کسی ایسے لڑکے کے ساتھ دیکھ لیا جو چھالیہ بھی کھاتا ہو، توگھورنے کا وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ آنکھ بچانے پر ہی عافیت نصیب ہوتی ہے. اسکول کالج یونیورسٹی تک اپنے ہی گھر میں قیدی بنا رہتا ہے. اور تو اور بےچارہ اپنی شریک سفر کا انتخاب بھی نہیں کر سکتا کیونکہ جو اسے پسند ہوتی ہے، اس میں ہزاروں کیڑے نکالے جاتے ہیں، اماں جی کو ساری برائی اس ایک لڑکی میں نظر آنا شروع ہوجا تی ہے، بہنوں کو بلاواسطے کا بیر رہتا ہے. بےچارہ مرد یہاں بھی قربانی دیتا ہے اور اماں بہنوں کی مرضی کے مطابق گھوڑی نہیں بلکہ سولی چڑھ جاتا ہے.
شادی کے بعد تو اس کی مظلومیت کا صحیح پتہ چلتا ہے. جب اماں، بہن اور بیوی نام کی چکیوں کے درمیان ایک ہی وقت میں پس رہا ہوتا ہے. ماں جی کم آمدنی کا رونا شروع کر دیتی ہیں کہ ایک فرد کا اضافہ ہوگیا ہے، پورا نہیں پڑتا، تو دوسری طرف بیوی کی ’’فرمائشیں‘‘، سمجھتی ہے کہ اس کا خاوند دنیا کا امیر ترین شوہر ہے اور اس کی ہر جائز اور ناجائز فرمائش کو پورا کرنے کا ٹھیکا اُس نے لے رکھا ہے. ابھی سال بھی نہیں گزرتا کہ بچوں کی ذمہ داری کا بوجھ بھی اُس کے کندھوں پر آجاتا ہے جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے. اس دوران اسے بہت سے اتار چڑھائو کا سامنا رہتا ہے جس میں بہن کی ذمہ داری سرفہرست ہو تی ہے. اگر پورا کرے تو بیوی نالاں اور نہ کرے تو جورو کا غلام بن جاتا ہے۔
بےچارہ مرد اپنے بال بچوں کی ذمہ داری پوری کرتے کرتے حرام حلال میں تمیز تک بھول جاتا ہے، اپنی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کر لیتا ہے لیکن عورت اس سب کچھ کے باوجود گھر کو جنت کا نمونہ بنانے کے بجائے مرد کے لیے ایک ایسی جگہ بنا دیتی ہے جہاں وہ صرف تب ہی جانا چاہتا ہے جب گھر کے بیشتر افراد سو چکے ہوں۔ سکون کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے، جائز و ناجائز تعلقات استوار کر رہا ہوتا ہے، اپنے لیے مصنوعی جنت ڈھونڈتا ہے جس میں دو پل سکون سے گزار سکے، اور اپنے فرائض بھی نبھاتا ہے۔ ضرروتوں کو پورا کرتے کرتے تھک جاتا ہے لیکن اسے کوئی ایوارڈ نہیں ملتا، بیٹی کی شادی، بیٹوں کی ذمہ داری نبھاتے نبھاتے وہ خود کو بھول ہی تو جاتا ہے۔ گاہے اس کےلیے پردیس کا منہ بھی دیکھتا ہے، اپنوں سے دور اپنوں کے لیے زندگی کے خو بصورت ترین سال تنہائی میں گزار آتا ہے.
ان تمام قربانیوں کے باوجود مرد ذات کے لیے تعریف کے دو لفظ کوئی نہیں بولتا، اس کی قربانیوں کو سراہا نہیں جاتا. عورت چاہے پڑ ھی لکھی ہو یا تعلیم سے محروم، مر د کی زندگی کو بہت حد تک اجیرن ہی رکھتی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ 90 فیصد مرد اپنی بیوی سے ڈرتے ہوئے زندگی گزار رہے ہو تے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ بیچارے نہ کسی کزن سے بات کر سکتے ہیں اور نہ شادی بیاہ میں انھیں مسکرانے کی اجازت ہوتی ہے، کیونکہ انھیں پتہ ہوتا ہے کہ واپس گھر ہی جانا ہے۔ اسی وجہ سے شادی بیاہ میں تمام مرد حضرات کے منہ پر تقر یبا 12 بجے ہوتے ہیں جبکہ خواتین زرق برق میچنگ والے لباس میں کھلکھلاتی نظر آتی ہیں۔
سو نے پہ سہاگہ یہ ہے کہ مردوں کے معاشرے میں مردوں کی کوئی نہیں سنتا۔ ہمیشہ عورتوں کی سنی جاتی ہے۔ اگر کوئی عور ت کسی مرد پر کوئی بھی الزم لگا دے تو چاہے وہ بےچارہ کتنا ہی بےقصور ہی کیوں نہ ہو، ہزاروں بھائی نکل آتے ہیں اور زدوکوب کر نے سے بھی پرہیز نہیں کرتے۔
ظلم کہنے کو ایک لفظ لیکن اس کا اصل مطلب صرف وہی جانتا ہے جس پر بیتی ہو، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ عورت پر ہونے والے مظالم ساری دنیا کے سامنے ظاہر ہو جاتے ہیں اس لیے لوگ ہمیشہ عورت کو ہی مظلوم سمجھتے ہیں، کتابوں کہانیوں اور دنیا میں بننے والی فلم چاہے وہ ہالی وڈ کی ہو یا بالی وڈ اور لالی وڈ کی، سب عورت کو ہی مظلوم دکھا رہے ہوتے ہیں لیکن کیا کسی نے کبھی یہ سوچا کہ مرد کہلائی جانے والی مخلوق بھی مظلوم ہو سکتی ہے. دنیا کا سب سے جان لیوا ظلم وہ ہے جو دکھائی نہ دے. مرد اگر عورت پر رات کے اندھیرے میں چار دیواری میں بھی ہاتھ اٹھاتا ہے تو جانے کہاں سے پوری دنیا کو خبر ہو جاتی ہے لیکن ایسے مرد بھی اسی دنیا میں بستے ہیں جو خواتین کے ہاتھوں زدوکوب کا نشانہ بنتے ہیں مگر چونکہ واویلا نہیں مچاتے اور مگرمچھ کے آنسو نہیں بہاتے، اس لیے مظلوم ہونے کے باوجود بھی ظالم ہی رہتے ہیں.
ایک صحت مند معاشرہ عورت اور مرد کی مفاہمت سے ہی وجود میں آتا ہے. صرف عورت مظلوم نہیں مرد بھی ہوتے ہیں. صرف خواتین کا احترام نہیں بلکہ ایک دوسرے کا احترام ضروری ہے. سچی محبت صرف عورت کا حق اور ضرورت نہیں بلکہ مرد بھی اس کا مستحق ہیں۔ عورت اور مرد مل کر خاندان اور معاشرہ تشکیل دیتے ہیں، اگر مستقبل بچانا ہے تو مظلومیت کے بجائے محبت کو فروغ دینا ہوگا۔

Comments

Click here to post a comment