ہوم << میر قاسم علی کا شناختی کارڈ - معظم معین

میر قاسم علی کا شناختی کارڈ - معظم معین

معظم معین ا تو بنگلہ دیش کی حسینہ نے 63 سالہ خطرناک دہشت گرد کو پھانسی دے دی. اب ملک میں امن ہو جائے گا اور ترقی ہو گی. سنا ہے حسینہ واجد کی حکومت سیکولر ہے. اسلامی تو خیر نہیں ہے. اسلامی ہوتی تو اسلام پسندوں کا جو حال کر رہی ہے وہ کیوں کرتی. سکھ، عیسائی یا یہودی بھی نہیں کہہ سکتے. ہندو بھی نہیں ہے. جیسا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں، بھارت نواز کہہ لیں... بھارت بھی سیکولر ملک ہے... تو ایسا لگتا ہے سیکولرازم کے قریب قریب ہی کہیں ہو گی. مگر سیکولر لوگ تو بڑے سمجھدار اور پرامن ہوتے ہیں. دن رات امن کی آشا کے کبوتر چھوڑتے رہتے ہیں... اب امن کہاں گیا؟ ستر ستر سال کے قریب المرگ بوڑھوں کو پھانسیاں لگا کر ملک کیسے ترقی کرے گا؟ اب تک یہ سمجھ نہیں آ سکی.
گزشتہ تین برس سے جو یہ سلسلہ چل رہا ہے کتنا زرمبادلہ کمایا؟ اس سے. کتنا جی ڈی پی میں اضافہ ہوا؟ بے روزگاری میں کتنی کمی ہوئی؟ حسینہ واجد کہتی ہے کہ ان پھانسیوں کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھے گا. تو پچھلے تین سال میں کتنا آگے بڑھ گیا. دودھ اور شہد کی نہروں کی بھل صفائی شروع ہوئی کہ نہیں؟ وہ کہ پنتالیس سال جنہوں نے اپنے وطن سے محبت کی، بنگلہ دیشی کہلائے، عہدے نبھائے، قوم کی ایک تعداد جنہیں اپنا قائد مانتی رہی، یکایک اب وہ غدار ڈیکلئر ہو گئے، پھانسیوں پر جھول گئے.
ساری دنیا پر سناٹا طاری ہے. وہ کہ ایک پرندے کی جان بچانے کی خاطر جن کی ساری سرکاری مشینری حرکت میں آجاتی ہے وہ بھی خاموش ہیں. جو ادھر ادھر سے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے سزائے موت پر پابندی کا راگ الاپتے ہیں اس موقع پر وہ بھی آنکھیں موندے ہوئے ہیں. کون سی عالمی برادری کون سا عالمگیر بھائی چارہ. لوگو نوٹ کر لو عالمی بھائی چارہ صرف اپنے مفادات کے وقت سپر پاوروں کو یاد آتا ہے. صرف اپنا الو سیدھا کرنے کے حربے ہیں. اخلاقیات ایتھکس اور امن کی آشا کے نفمے صرف اپنی مطلب براری کے ہتھکنڈے ہیں. سنا ہے عالمی قانون کے مطابق ستر سال سے زائد عمر کے فرد کو پھنسی نہیں دی جا سکتی شاید بتانے والے نے پوری بات نہیں بتائی. شاید کوئی ایسی شق ہو گی کہ تیسری چوتھی دنیا کے بوڑھے کو ہو سکتی ہے کہ عالمی قوانین وغیرہ عالمی طاقتوں کی فلاح و بہبود کے لئے ہوتے ہیں چوتھی پانچویں یا چھٹی دنیا کے باسیوں کے لئے نہیں اور اگر حسن اتفاق سے وہ کوئی پسماندہ فکر کا حامل ہو تو بالکل بھی نہیں...
یہ بھی عجب کہانی ہے. جماعت اسلامی والے کبھی پاکستان کی مخالفت کے طعنے سنتے ہیں کبھی پاکستان کی محبت میں پھانسیاں جھیلتے ہیں... آخر یہ ہیں کیا ملک دشمن یا محب وطن ... کس بات کو سچ سمجھیں... پرانی پرانی تحریروں کو یا نوشتہ دیوار کو... کبھی طالبان کے حامی قرار دیے جاتے ہیں تو کبھی پاک فوج کی ذیلی تنظیم... آخر سچا کون ہے. کیا یہ پھانسیاں بھگت کر پاکستان کی مخالفت کے طعنوں کا طوق اپنی گردن سے اتار سکیں گے.... شاید نہیں کہ ہر کوئی اپنی اپنی خود ساختہ دنیا کا باسی ہے... جس نے جس کو جس طرح اپنے ذہن کے خانے میں ڈھال رکھا ہے وہ اس کو بدلنے کے لئے تیار نہیں. اور بہت سی پھانسیوں اور سانحوں کی طرح ہم اس سانحے کو بھی بھول جائیں گے اور پھر وہی طعنے ہوں گے اور وہی دلائل.
کچھ کم عقل دانشور اور تجزیہ کار پاکستانی حکومت کو برا بھلا کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے کچھ نہیں کیا. مذمت تک نہیں کی. انہیں کون بتائے کہ اب ملک میں کمپیوٹرازڈ شناختی کارڈ چلتا ہے جس کے پاس پرانا شناختی کارڈ ہو اس کا بھلا کیا حق. میر قاسم علی کے پاس تو پنتالیس سال پرانا شناختی کارڈ تھا. ہماری حکومت اور سفارتخانے تو تازہ شناختی کارڈ والوں کو نہیں پوچھتے پرانے بھلا کس کھاتے میں.
البتہ عالم اسلام کے ایک ملک نے دقیانوسی ہونے کا ثبوت دے دیا. ترکی نے اپنے سفیر کو بنگلہ دیش سے واپس بلا کرثابت کیا کہ وہ ترقی نہیں کرنا چاہتا. چلو عالم اسلام کا ایک ملک تنزلی کی طرف گامزن ہوا تو دوسرا تو پھانسیوں کی بنیاد پر اب ترقی کی منازل فل سپیڈ پر طے کرے گا. دیکھتے ہیں کب وہ غریب ملکوں کے باشندوں کے لئے گرین کارڈ اسکیم شروع کرتا ہے....