ہوم << مغرب تیرے پاس فرضی سپر ہیروز ہی کیوں؟ مدیحی عدن

مغرب تیرے پاس فرضی سپر ہیروز ہی کیوں؟ مدیحی عدن

%d9%85%d8%af%db%8c%d8%ad%db%8c-%d8%b9%d8%af%d9%86 ہمارے گھر میں سائنس فکشن پہ مبنی فلمیں کافی پسند کی جاتی ہیں اور مجھے اتنی ہی حقیقت سے دور ، کسی اور جہان کی باتیں لگتی ہیں۔
سپرمین ، بیٹ مین کے کردار پر میری چار سال بحث چلتی رہی کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایک کردار کے پاس اتنی اتھارٹی اور طاقت ہو کہ وہ ہر چیلنج کو اپنی طاقت سے مات دے دے۔ پھر سب سے بڑی بات کہ مغرب سوسائٹی کے پاس سائنس دانوں، سیاستدانوں، اداکاروں، سماجی کارکنوں کی بڑی تعداد موجود ہے، ایسے میں ہیروز ان کے اپنے جیسے انسانوں میں سے کیوں نہیں؟ سپر پاورز میں کیوں تلاش کیے جاتے ہیں؟ پھر ان کو اپروچ اتنا غیرحقیقی کیوں کیا جاتا ہے کہ جو سرے سے ممکن ہی نہیں۔ بیٹ مین ، سپرمین، آئرن مین، سپائیڈر مین، ونڈر ویمن سب میں تھیم لائن ایک ہی ہے کہ ہیروز کے پاس ایکسٹرا سپر پاورز ہوتی ہیں، جو لوگوں کو یا سوسائٹی کو کسی بھی مشکل سے نکالنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ جو اپنی سپر پاورز سے ہی بگڑے معاشرے کو بہتری کی طرف لا سکتے ہیں۔ جو لوگوں کی فلاح کا کام بےلوث ہو کے کرتے ہیں۔
میرا سوال بہت سادہ سا ہے کہ کیا یہ سب کچھ انسان نہیں کر سکتے، ایک حقیقت پسند اپروچ کے ساتھ؟ کیا ضروری ہے کہ اس کے لیے کردار میں ٹھوس سپر پاورز ہو، جو ہی ممکن بنائے ہر چیلنج سے نمٹنے کو؟ اور پھر ایسے معاشرے میں جہاں قابل انسانوں کی کسی صورت کمی نہیں۔
فلم بیٹ مین ورسز سپر مین، ڈان آف جسٹس میں ایک ڈائیلاگ نے میری سوچ کے زاویے کو ایک نیا رخ دیا۔ فلم کے ڈائیلاگ کچھ اس طرح سے ہیں۔
”ہم اس سیارے زمین پت بحیثیت انسانی آبادی ایک مددگار، نجات دلانے والے کی تلاش میں ہیں۔
نوے فیصد لوگ ایک اعلی طاقت پر یقین رکھتے ہیں، اور ہر مذہب میں مسیحا (مددگار) پر یقین موجود ہے۔
بنی نوع انسان کی ایسی خوفناک تاریخ موجود ہے جس میں وہ ایسی سپر پاور طاقت کا پیروکار رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شاید وہ (سپرمین) شیطان یا مسیح میں سے کوئی نہ ہو۔ شاید وہ صرف صحیح کام کرنے کی کوشش کرنے والا ایک آدمی ہو۔
ڈارون اور کوپرنیکس سے پتہ چلا کہ ہم اکیلی نوع نہیں ہیں اس کائنات میں۔ اور اب ہم نے یہ جانا کہ ہم پوری کائنات میں خاص بھی نہیں ہیں کیونکہ سپرمین ہم میں ہیں۔
آپ ایک متحدہ امریکہ کے سینیٹر کے طور پر، ذاتی طور پر ایک غمزدہ والدین کو کہہ سکتے ہیں: سپرمین، آپ کے بچے کو بچا سکتا تھا؟“
اوپر بیان کردہ سطور میں اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ انسانوں کی بڑی تعداد ہمیشہ سے کسی مددگار، نجات دلانے والی کی پیروکار رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ انسانوں کی اس کمزوری کی طرف اشارہ ہے جو اس کو مجبور کرتی ہے ایسے خدا کو ماننے پر جس کے پاس لافانی طاقتیں ہیں، جس کے پاس ناممکن کی قید ہی نہیں، جو سب کچھ کر سکتا ہے۔ تو پھر یہ مغربی معاشرہ الحاد پرستی میں کیسے مبتلا ہوگیا؟ جبکہ انسان سائیکلوجکلی سپر پاور کو ماننا پسند کرتا ہے. اس کو پسند ہے یہ سوچنا کہ کوئی ہمارا ایسا مددگار اور نجات دلانے والا ہو جس پہ ہم اندھا یقین کر سکیں۔ اس کا ثبوت اس معاشرے میں بڑی تعداد میں بننے والی ایسی سپر پاورز پر مبنی فلمیں ہیں، جہاں سب سے زیادہ پیسہ ایسی فلموں کی عکاسی پہ خرچ کیا جاتا ہے اور جہاں ریٹنگ بھی ایسی سپر پاور فلموں کی ہی آتی ہیں، اور دیکھنے والے ناظرین بھی پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور ایسی فلموں کی پروموشن بھی بڑی سطح پر کی جاتی ہے۔
اب سوال آتا ہے کہ کردار انسانوں میں سے کیوں نہیں؟ فرضی ہیروز کیوں؟
سب سے بڑی بات کہ مغربی معاشرے کے جتنے بڑے نام گزرے ہیں انھوں نے ہیرو سے زیادہ ولن کا رول اپنی زندگی میں بخوبی انجام دیا ہے اور کئی طرح کی مختلف برائیوں کا شکار، انسانوں کی قتل و غارت میں ملوث یا پھر اخلاقی اعتبار سے کرپٹ رہے ہیں۔ جبکہ لوگ ہیرو کی صورت میں ایسے کردار کو مثالی مانتے ہیں جو برائیوں سے پاک ہو، جس کا دل صاف ہو، جو کرپٹ نہ ہو، جس کا اپنا کوئی مقصد یا فائدہ نہ ہو، جس کے پاس کچھ ایسی اضافی صلاحیتیں ہوں جس سے لوگوں کو نجات دلائی جا سکے اور جو لوگوں کی ہر دم مدد کے لیے تیار ہو۔ اس کا سب سے بڑا مقصد ایک پرامن معاشرے کا قیام ہو۔ یہ کام مغرب میں ہمیشہ سے فرضی سپر ہیروز سے لیا جاتا رہا۔ حاضرین کے ذہنوں میں ایسے ہیروز کو قبول کرنا اس لیے بھی آسان تھا کہ وہ پہلے سے ہی ایسے نجات دہندہ کی تلاش میں تھے، اور وہ خود کو بےبس اور لاچار محسوس کرتے تھے، ان بڑی بڑی تبدیلیوں کو لانے میں جو ان کے معاشرے کو کافی حد تک بگاڑ رہی تھیں۔ اپنے اردگرد کی برائیوں کو دیکھ کر وہ خالصتا فرار حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ایسے مایوس کن حالات میں ان کو انسانوں سے کم ہی امیدیں تھیں۔
پھر مذاہب میں جو حضرت عیسی اور دجال کے ظہور کا ذکر آتا ہے تو انسانی ذہنوں میں کہیں نہ کہیں ان کا انتظار موجود ہے۔ تبھی فلموں میں سپر ہیروز کے ساتھ سپر ولن بھی ہوتا ہے اور ہر بار سپر ہیرو اس کو ہرا کے ایک پرامن معاشرہ بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اگر تجزیہ کیا جائے اس تھیم کا تو دجال کے بارے میں جو پیشن گوئیاں آتی ہیں اس میں بھی حضرت عیسی ولن دجال کا خاتمہ کریں گے اپنی مافوق الفطرت طاقتوں کے ساتھ۔