ہوم << چھِلڑ کی عید - شاہنواز سرمد

چھِلڑ کی عید - شاہنواز سرمد

شاہنواز سرمد کئی برس بعد اپنے پیاروں کے بیچ عید منانے وطن لوٹا تو ایک عرصے بعد عید کا دِن صحیح معنوں میں خوشیوں سے بھرپور نظر آیا، ورنہ پردیس کی عید بھی کیا عید ہوتی ہے، پھیکی اور بے رنگ سی۔ نمازِ عید کے لیے مسجد میں داخل ہوا تو مختلف صفوں میں بہت سے ننھے نمازیوں کو اپنے والد، چچا، تایا، بھائی کے پہلومیں بیٹھے دیکھا۔ جن میں سے کچھ تو شرافت سے تشریف فرما تھے جبکہ کچھ اپنے ہم عمر نمازیوں کے ساتھ اشاروں کنایوں اور سرگوشیوں میں محوِ گفتگو تھے۔ عید کے اُجلے لباس میں اپنے سائز کی چھوٹی چھوٹی ٹوپیاں پہنے معصومانہ چہروں پہ بےاختیار پیار آیا۔ نماز کے بعدایک دوسرے کو گلے لگا کر عید ملنے کا سلسلہ شروع ہوگیا، اسی اثنا میں میری نظر مسجد کے دروازے کے قریب کھڑے پولیس کے سپاہی پر پڑی جو نماز کے لیے سکیورٹی پر مامور تھا اور اب نماز کے بعد تنہا کھڑا لوگوں کو ایک دوسرے سے عید ملتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ مجھے ایک دھچکا سا لگا کہ جب ساری دُنیا نئے نویلے کپڑے پہنے عید کی خوشیاں منا رہی ہے اوریہ ’’ چھِلڑ‘‘ آج بھی یہاں وردی پہنے بندوق اُٹھاکے کھڑا ہے، عجیب آدمی ہے۔ مجھے ہم وطنوں سے سُنے پولیس سے متعلق وہ تمام قصے یاد آنے لگے جن سے یا تو پولیس ظالم ثابت ہوتی تھی یا کرپٹ۔
park1 خدا کا شکر ہے کہ میرا اپنا تو آج تک پولیس سے واسطہ نہیں پڑا لیکن بتانے والوں کے مطابق پولیس ایسی ہی تھی۔ مگر یہاں تو گنگا اُلٹی بہہ رہی تھی، یار یہ بندہ تو ہمارے لیے اپنی عید قربان کر کے بہت بڑی قربانی دے رہا ہے اورایک انسان ہونے کے ناطے ہی سہی اس کو بھی عید کی مبارکباد دینی چاہیے، یہی سوچ کر میں احباب کے دائرے سے نکل کر اپنی روایتی اَنا کے سر پہ پائوں رکھ کر ایک اَن دیکھی دیوار پھلانگتا ہوا آگے بڑھا مگر دو قدم ہی اٹھائے تھے کہ ایک پُرانا دوست گرم جوشی سے میری طرف بڑھتا دکھائی دیا جو ہاتھ تھام کر مسجد سے باہر لے آیا جس کے بعد عید ملن کا ایسا سلسلہ چلا کہ ایک کے بعد ایک دوست سے ہوتا ہوا اپنے گھر پہنچ کر رُکا۔ اس دوران میں اُس پولیس والے کو بالکل ہی بھُول گیا۔ دِن کے پچھلے پہر مجھے یہ بات یاد آئی تو بہت افسوس ہوا کہ مجھے اس شخص کا شکریہ ادا کرنا تھا جس نے اپنی عید ہماری حفاظت پر قربان کر دی۔ وہ بھی یقیناََ کسی کا باپ، چچا، تایا اور بھائی ہوگا، اس کے بچے بھی مسجد میں موجود ننھے نمازیوں کی طرح اس کا ہاتھ تھام کر عید کی نماز کے لیے مسجد جانا چاہتے ہوں گے اور اس کا بھی دِل کرتا ہوگا کہ نماز کے بعد سب دوستوں، رشتہ داروں سے عید ملے اور گھر کی طرف جاتے ہوئے انگلی تھامے اپنے بچوں کو عید کے لئیے سجے رنگ برنگ ٹھیلوں سے کھلونے اور کھانے پینے کی چیزیں دِلائے اور اُن کے چہروں سے پھُوٹتی ہوئی خوشیوں کو دیکھے۔ کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم اُیسے فرض شناس اہلکاروں کے بھائی اور دوست بن کر اُسے عزت دیں، عید ملیں، سلام کریں اور انھیں اس بات کا احساس تک نہ ہونے دیں کہ وہ اپنوں سے دُور عید منا رہے ہیں۔
park دوپہر کو بچوں کی ضد پر انھیں لے کر ایک تفریحی پارک گیا تو یہاں بھی دروازے پر پولیس اہلکار کو موجود پا کر مجھے صبح مسجد کا واقعہ یاد آیا۔ اب کی بار میں نے موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور اُس پولیس اہلکار سے نہ صرف خود ہاتھ ملایا بلکہ بچوں کو بھی ملوایا اور صحیح معنوں میں متعارف کرایا کہ وہ کون ہے اور ( عید کے دِن بھی ) وہاں کیوں کھڑا ہے۔ آخر بچے وہی تو سیکھتے ہیں جو ہم انھیں کر کے دکھاتے ہیں یا بتاتے ہیں۔ بچوں کو پارک میں محفوظ جگہ چھوڑ کر میں واپس اس اہلکار سےگپ شپ کرنے اس کے پاس آگیا تاکہ اُسے اس بات کا علم ہو کہ جس عوام کے لیے وہ وہاں موجود ہے، وہ بھی اس کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔
’’جوان کیسے ہو؟ ‘‘ میرے سوال پر وہ چونکا۔
’’جی سر ٹھیک ہوں۔‘‘ وہ غور سے میرے چہرے کی طرف دیکھنے لگا جیسے اسے حیرت ہوئی ہو کہ کوئی اس کا حال کیسے پوچھ سکتا ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کی بات کیا کروں، کیونکہ غالباََ میرے لیے بھی یہ کسی اجنبی سے اس طرح بات کرنے کا پہلا موقع تھا، اور اجنبی بھی ایسا کہ جس سے ہاتھ ملانے میں بھی معاشرے کے ہر فرد کو ہزاروں بے بنیاد دیواریں حائل نظر آتی ہیں۔ ایسے میں یہ واقعی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ میں نے اسے ہاتھ میں پکڑی کولڈ ڈرنک پیش کی اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی ردِ عمل ظا ہر کرتا، میں قریب پڑے بنچ پر بیٹھ گیا۔
’’موسم کافی گرم چل رہا ہے ابھی تک، مجھے توپیاس بہت لگتی ہے ایسے موسم میں۔‘‘ میں نے اپنی کولڈ ڈرنک سے گھونٹ بھرتے ہوئے اسے بھی پینے کا اشارہ کیا۔
چند لمحے پہلے بچوں کے ہمراہ اس سے ہونے والی دُعا سلام کے نتیجے میں وہ کچھ اچھے مزاج میں نظر آیا۔
’’ عید پر ڈیوٹی کرتے ہوئےگھر والوں کی یاد تو آتی ہوگی۔‘‘ آخر میں نے اس کی دُکھتی رگ پر دھیرے سے ہاتھ رکھ دِیا۔
جواب میں صرف ایک سرد آہ موصول ہوئی۔ وہ کچھ لمحوں بعد، جیسے الفاظ کا چنائو کر کے بولا۔ ’’ہماری عید اور روزے نمازیں تو ایسے ڈیوٹی پر ہی گزرتے ہیں، لوگوں کو خوش دیکھ کر ہی خوشی منا لیتے ہیں کہ چلو ہمارے ہونے سے ان کی عید تو محفوظ گزرتی ہے۔ مگر دُکھ ہوتا ہے کہ کوئی ہمیں گھاس تک نہیں ڈالتا۔ نوجوان فقرے کستے ہیں تو بڑے بھی مذاق ہی اُڑاتے ہیں۔ میں تو عوام کو بچاتے ہوئے یہیں شہید بھی ہو جائوں گا تو یہی سننے کو ملے گا کہ ٹھیک سے کام کرتے تو ایسا کوئی واقعہ نہ ہوتا۔ ہم کوشش تو کرتے ہیں نا جی، آ گے اوپر والے کی مرضی۔‘‘ جذبہ قابلِ دید تھا۔ میں تھوڑا حیران بھی ہوا کہ کیا یہ وہی پولیس ہے جس کا میں تذکرہ سنتا آیا ہوں۔
مزید گفتگو سے پتا چلا کہ اس کا گھر وہاں سے ایک گھنٹے کی مسافت پہ تھا اور میں حیران تھا کہ میں دُنیا کے دُوسرے کونے سے کوسوں میل دُور کا سفر طے کر کے عید منانے گھر پہنچ گیا ہوں مگر یہ گھر سے اتنا قریب ہو کر بھی عید گھر پر نہیں منا سکا اور فرض کی ادائیگی کے لیے یہاں موجود تھا۔ اس کے مطابق رمضان میں پولیس کی ڈیوٹی صبح تین بجے شروع ہو کر رات گیارہ بجے تک تمام نمازوں اورتراویح کے لیے جاری رہتی ہے اور کیا آفیسر، کیا اہلکار، سب کے سب اس کام پر مامور ہوتے ہیں۔ لوگ عبادت گاہوں کے اندر عبادت کر رہے ہوتے ہیں اور پولیس اہلکار فرض کی ادائیگی کے ذریعے باہر۔ سوچنے کی بات ہے کہ تنخواہ تو ہر سرکاری ملازم لے رہا ہے مگر کیا کوئی اور محکمہ اس طرح جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرتا ہے جیسے پولیس کرتی ہے؟
اس عید قربان پر بھی ہزاروں پولیس اہلکار اپنی عید ہم سب پر قربان کرکے دورانِ نمازہماری حفاظت کے لئے کھڑے ہوں گے۔ یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان کو گلے لگاکرعید کی مبارکباد دیں اور دورانِ نماز ہماری حفاظت کرنے پر شکریہ ادا کریں۔

ٹیگز

Comments

Click here to post a comment