ہوم << موٹروے پولیس - رعایت اللہ فاروقی

موٹروے پولیس - رعایت اللہ فاروقی

رعایت فاروقی نیشنل ہائیوے اینڈ موٹروے پولیس کا ادارہ 1997ء میں پاکستان کی پہلی موٹروے کے افتتاح کے ساتھ سامنے آیا۔ اس ادارے نے خدمات کے حوالے سے اتنی شاندار مثال قائم کی کہ 2006ء میں اسی کے طرز پر اسلام ٹریفک پولیس کا ادارہ قائم کیا گیا۔ ان دونوں اداروں کی کاکردگی اس حد تک مثالی رہی ہے کہ وفاقی وزرا بھی اس کی چالان سلپ سے نہ بچ سکے۔ بالخصوص اسلام آباد ٹریفک پولیس کا وہ کارنامہ کبھی نہ بھلایا جا سکے گا جب مشرف دور میں تین سگنلز توڑتا ہوا وزیر مملکت اپنی وزارت کے دفتر میں جا گھسا اور تعاقب کرنے والا ٹریفک افسر اس کی جھنڈا لگی کار اس کے دفتر سے لفٹر پر اٹھا کر لے گیا اور کوئی بھی اسے روک نہ سکا۔ یہ قانون شکن ملک میں قانون کی بالادستی کی ایک شاندار مثال تھی تو جو اس افسر نے قائم کی تھی۔
عام طور پر ٹریفک پولیس کا کام ٹریفک کی روانی برقرار رکھنا اور کسی قانون کی خلاف ورزی پر قانونی کار روائی تک محدود ہوتا ہے لیکن نیشنل ہائیوے اینڈ موٹروے پولیس یا اسلام آباد ٹریفک پولیس صرف اس تک محدود نہیں۔ یہ پولیس کسی بھی ایمرجنسی میں ہمیں دیگر خدمات بھی مہیا کرتی ہے۔ اس حوالے میں اپنے ذاتی دو واقعات شیئر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
پہلا واقعہ 2002ء میں پیش آیا۔ میری فیملی کراچی سے شالیمار ایکسپریس پر آ رہی تھی جو لاہور تک آتی ہے۔ یہ ٹرین تب رات 12 بجے لاہور پہنچتی تھی، میں اگر صبح بھی اسلام آباد سے لاہور کے لئے نکل جاتا تو آسانی سے فیملی کو لینے پہنچ سکتا تھا مگر خیال آیا کہ رات کو سفر کرکے لاہور چلا جاتا ہوں، وہاں دن کو آرام کرکے رات کو فریش واپسی کر لوں گا۔ لاہور جاتے ہوئے رات گیارہ بجے سالٹ رینج کے پہاڑی سلسلے سے اتر کر کچھ ہی آگے گیا تھا کہ 120 کلومیٹر کی رفتار پر گاڑی کا گیئر بکس فارغ ہو گیا اور حادثے سے بال بال بچا۔ سڑک کے کنارے نصب مواصلاتی پول سے رابطہ کرکے اپنی مشکل بتائی تو کہا گیا کہ انتظار فرمائیں ہمارا سٹاف پہنچتا ہی ہے۔ پانچ منٹ بعد موٹروے کی لاہور سے آنے والی جانب موٹروے پولیس کی ایک کار آ کر رکی اور دو پولیس افسران اتر کر میرے پاس آگئے۔ انہوں نے گاڑی کی صورتحال کا جائزہ لیا اور پھر مجھ سے پوچھا۔
"آپ کو بھوک تو نہیں لگ رہی ؟ کیا آپ نے کھانا کھایا ہے ؟"
میں نے بتایا کہ کھا چکا ہوں۔ تقریبا پندرہ بیس منٹ بعد موٹروے سٹاف کی ہی ایک ہائی ایس آ پہنچی۔ اس سے ایک مکینک، ایک الیکٹریشن اور دو ہیلپر اترے اور گاڑی کا معائنہ کیا۔ معائنے کے بعد فرمایا۔
"گیئر بکس بالکل ہی فارغ ہو چکا ہے یہ ریپئر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی یہاں گیئر بکس کھولا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی اور مکینکل یا الیکٹریکل ایشو ہوتا تو ہم ٹھیک کردیتے۔ آپ لفٹر کا انتظار کیجئے جو گاڑی کسی سروس سٹیشن تک پہنچا دے گا"
یہ کہہ کر وہ چلے گئے اور موٹروے پولیس کے دونوں افسران میرے پاس ہی کھڑے رہے۔
میں نے ان سے پوچھا
"لفٹر کب تک پہنچے گا ؟"
انہوں نے بتایا
"تقریبا گھنٹہ لگ سکتا ہے کیونکہ وہ چکوال سے آئے گا اور ہے بھی ہیوی لفٹر جو زیادہ رفتار سے نہیں دوڑ سکتا"
میں نے کہا۔
"پھر آپ کیوں میرے ساتھ خوار ہورہے ہیں، آپ لوگ بھی جائیں"
ان میں سے ایک نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
"یہ ہماری ڈیوٹی ہے، رات کے اس پہر اس ویران جگہ آپ کو تنہا نہیں چھوڑا جاسکتا، آپ کی سیکیورٹی ہماری ذمہ داری ہے، جب تک آپ یہاں ہیں ہم بھی کھڑے رہیں گے"
کوئی سوا گھنٹے بعد لفٹر آیا جس نے گاڑی سروس سٹیشن پہنچادی اور میں گاڑی وہیں چھوڑ کر بذریعہ بس لاہور چلا گیا۔
دوسرا واقعہ 2008ء میں پشاور سے آتے ہوئے جی ٹی روڈ پر پیش آیا۔ میں اور میرا بھائی رحمت اللہ پشاور سے گاڑی لے کر آ رہے تھے اور اس کمبخت گاڑی کا پٹرول گیج کہیں خراب تھا۔ گیج کے مطابق گاڑی میں آدھی ٹنکی پٹرول موجود تھا لیکن گاڑی ٹیکسلا کے قریب ایک پل پر پہنچ کر بند ہو گئی۔ یہ سخت گرم دن تھا اور ہم کچھ ہی دیر میں پسینے سے شرابور ہوگئے۔ کچھ ہی دیر میں موٹروے پولیس کی گاڑی آ پہنچی اور انہوں نے اترتے ہی سب سے پہلے ہمیں ٹھنڈا پانی پلایا اور پھر کہا۔
"سب سے پہلے گاڑی کو پل سے ہٹائیں تاکہ حادثے سے بچا جا سکے"
ان دونوں افسران نے دھکہ لگا کر پل عبور کرادیا اور پھر گاڑی کا اپنے طور پر معائنہ کیا کہ بند ہونے کی ممکنہ وجہ کیا ہو سکتی ہے ؟ ہم سب ہی اس نتیجے پر پہنچے کہ پٹرول ختم ہوا ہوگا۔ انہوں نے رحمت اللہ کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور چلے گئے، کوئی بیس منٹ بعد یہ واپس آئے تو پٹرول سے بھرا گیلن ساتھ لائے۔ پٹرول ڈالا گیا تو گاڑی سٹارٹ ہو گئی۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا تو جواب ملا۔
"شکریہ کس بات کا ؟ ہم تنخواہ ہی اسی کام کی لیتے ہیں، یہ ہماری ڈیوٹی ہے"
اس ملک میں موٹر وے پولیس جیسا فرض شناس اور خدمت گزار ادارہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اور یہ ادارہ کوئی غیر ملکیوں پر مشتمل نہیں بلکہ انہی پاکستانیوں پر مشتمل ہے جو دوسرے اداروں میں ہڈ حرامی کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ یہ ادارہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر درست حکمت عملی اور صحیح خطوط پر بنائے جائیں تو ہمارے تمام سرکاری ادارے مثالی ہو سکتے ہیں۔ موٹروے پولیس محض ادارہ نہیں ہے بلکہ یہ خدمت اور کار کردگی کی ایک شاندار علامت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے ادارے کے اہلکاروں پر ان کا حملہ کسی صورت قبول نہیں جو ہر چیک پوسٹ پر ہمیں گھورنے یا دہمکی دینے کو فرائض کی ادائیگی کے لیے لازم سمجھتے ہیں !

Comments

Click here to post a comment