ہوم << بربریت یا سربریت، تاریخی پس منظر - صدیق احمد فاروق.

بربریت یا سربریت، تاریخی پس منظر - صدیق احمد فاروق.

ہمارے ہاں اصطلاحات سے لےکر الفاظ تک اور خیالات سے لےکر افکار تک سب مغرب اور مغربی میڈیا سے مستعار شدہ ہیں. بہت سے الفاظ و اصطلاحات جنھیں ہم روزمرہ اپنے کلام کا حصہ بناتے ہیں، نہ اس کے پس منظر کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی اس معنی کا کچھ پتہ، ان سنی سنائی باتوں کے نقل کرنے میں بعض اوقات عزت نفس کو بھی سخت ٹھیس پہنچتا. ہے جو بندہ کی کم علمی کو ظاہر کرتا ہے اسی ضمن میں ایک لطیفہ یاد آیا.
اردو کے ایک معروف شاعر کو گفتگو کے دوران اپنے ہر جملے میں انگریزی کا کوئی نہ کوئی لفظ ٹانکنے کی عادت تھی. جب انگریزی کا کوئی لفظ سنتے تو فورا اپنے کسی ساتھی سے اس کا معنی بھی پوچھ لیتے. ایک دن دوران گفتگو لٹریچر کا لفظ سنا تو فورا اپنے ساتھی سے پوچھ بیٹھے.
"یار یہ لٹریچر کے کیا معنی ہیں؟ ساتھی نے جواب دیا ”ادب“
اسی شام کافی ہاؤس میں مولانا چراغ حسن حسرت نے شاعر مذکورہ سے کہا ”عزیزم! سنا ہے کہ تم میرے بارے میں بڑی بک بک کرتے رہتے ہو.“
مولانا یہ کیسے ہو سکتا ہے، میں تو اپ کا بےپناہ لٹریچر کرتا ہوں. لٹریچر کی ترکیب استعمال سن کر مولانا دم بخود ہوگئے.
مقصد کہنے کا یہ ہے کہ سنی سنائی باتوں کے استعمال میں نہایت احتیاط لازمی ہے، کہیں مخاطب پر آپ کی کم علمی ظاہر نہ ہو.
اسی طرح رزمرہ کے استعمال ہونے والے الفاظ میں ایک لفظ بربریت بھی ہے. یہ لفظ کثرت سے بولا جاتا ہے اور تکلم میں اسے بڑی اہمیت بھی دی جاتی ہے مثلا کہیں ہم بولتے ہیں کہ کشمیری عوام پر انڈیا نے ظلم و بربریت کی انتہا کردی. اور کہیں کہتے ہیں کہ عراق و افغانستان میں امریکہ نے ظلم و بربریت کی وہ تاریخ رقم کردی کہ اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی. فلسطین میں اسرائیل اور امریکہ نے ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ دیے. غرض یہ کہ مختلف مواقع پر اس لفظ کا استعمال مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے.
لیکن اس لفظ کے معنی سے بہت ہی کم لوگ واقف ہیں. اگر اس کی حقیقت سے ہم واقف ہوجائیں تو اس کا ستعمال ہی ترک کر دیں اور اس کا متبادل سوچیں اور استعمال کریں. تو آئیے اس لفظ کی حقیقت جانتے اور اس کی متبادل پر غور کرتے ہیں. افریقہ کے ایک جنگجو قبیلے نے اسلام کی حقانیت و سچائی سے متاثر ہو کر دین اسلام قبول کیا جس کے بعد دیگر قبائل نے بھی بڑی تیزی سے اسلام کو سمجھا اور اپنایا. افریقہ کے یہ جنگجو قبائل ”بربر“ کہلاتے تھے. ان قبائل نے اسلام کی سربلندی اور ظلم کی خاتمے کےلیے ایسی جوانمردی دکھائی کہ تاریخ میں اس کی مثال کم ملتی ہے. یوسف بن تاشفین اس کے سپہ سالار تھے جنھوں نے اندلس میں مسلمانوں کی حکومت کو بحال کیا تھا. نسیم حجازی کا ناول ”یوسف بن تاشفین“ اس کا گواہ ہے. اسلام دشمن طاقتوں کو اسلام کا غلبہ راس نہ آیا اور بربر قوم کی قوت ہضم نہ ہوئی تو ایک سازش کے تحت ”بربر“ قبائل کو بدنام کرنے کےلیے لفظ بربر کو بربریت کا نام دے کر ایک قسم کی گالی بنا دیا گیا.
رہے ہم تو ہم نے جلتی پر تیل کا کام کیا. اصل مقصد تو مسلمانوں کی جرات و عظمت کو داغدار کرنا تھا. تو ہم نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے لفظ بربریت کو ظلم اور نا انصافی جیسے معنوں میں استعمال کرنا شروع کردیا. ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اس کا دفاع کرتے یا متبادل ڈھونڈ لیتے لیکن اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس سنی سنائی بات کو بلا چوں چرا اور حقیقت جانے بغیر تسلیم کرلیا.
محترم قارئین! تو کیا اب بھی ہم اس لفظ کا استعمال کریں گے؟ جی نہیں.
پھر متبادل میں کیا بولیں گے
اس کی جگہ لفظ "سربریت" بولتے رہیں گے کیونکہ یورپی ملک سربیا کے سرب عیسائیوں نے بوسنیا کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑے کہ درندے بھی شرما گئے، اس لیے ظلم و ستم کےلیے بولا جانے والا صحیح لفظ ”سربریت“ ہے نہ کہ ”بربریت“