ہوم << قوم، معاشرہ اور سو سال - ناصر محمود

قوم، معاشرہ اور سو سال - ناصر محمود

ناصر محمود بنیادی طور پر کوئی بھی قوم یا معاشرہ اپنے موجودہ حالات، طرز زندگی اور اخلاقی ارتفاع و انحطاط کا کسی بھی طرح ذمہ دار نہیں ٹہرایا جا سکتا کہ اس قوم یا معاشرہ کے افراد نے جب شعور کی دنیا میں قدم رکھا تو معاشرہ اور بحیثت مجموعی اس کے افراد کسی نہ کسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور قطع نظر اچھائی یا برائی کے کچھ اخلاقی اور اجتماعی اقدار رکھتے تھے۔ نوجوان اپنے وقت اور جغرافیائی حدود کے اعتبار سے اپنے حالات اور اخلاقی اقدار کا یا تو لطف اٹھاتے ہیں اور یا پھر ان کا سامنا کرتے ہیں لیکن دونوں صورتوں میں کسی بھی طور ان کو موجودہ حالات اور اخلاقی اقدار کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہےکہ جس طرح کے بھی ماحول اور حالات میں انہوں نے شعور کی حدوں کی چھوا، ان کی آبیاری میں انہوں نے کسی بھی طرح کا کوئی کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی یہ ان کے دائرہ اختیار میں تھا۔ لیکن آج سے ٹھیک سو سال کے بعد جو بھی حالات ہوں گے، جس طرح کی بھی اخلاقی اقدار بنیں گی، ان کے نہ صرف یہ کہ ہم ذمہ دار ہوں گے بلکہ ان کے بارے میں پوچھا بھی ہمیں سے جائے گا۔
سو سال کا عرصہ ایک ایسا عرصہ ہوتا ہے کہ جس میں ایک نسل تقریبا مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے اور دنیا کا مکمل نظام دوسری نسل کو منتقل ہو جاتا ہے۔ تو آج ہم جوبھی بوئیں گے اس کا پھل ہمارے بچے کاٹیں گے۔ جس طرح کی تربیت ہم آج اپنے نونہالوں کی کریں گے، اسی طرح کا معاشرہ وہ کل دیکھیں گے۔ ہمارا کل کیسا ہوگا؟ اس کا فیصلہ ہمارا آج کا عمل کرے گا۔ جس طرح حادثے اچانک نہیں ہوا کرتے ان کے پیچھے واقعات کا ایک تسلسل ہوتا ہے، جس کی انتہائی شکل حادثے کی صورت میں سامنے آتی ہے، اسی طرح قوم اور معاشرے بھی اچانک تشکیل نہیں پاتے بلکہ انکے پیچھے ایک جہد مسلسل ہوتی ہے جس کا نتیجہ اجتماعی اخلاق، اقدار اور پھر قوم کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ آج اگر میں اپنے چند سالہ بیٹے کا دل جھوٹ سے بہلاؤں گا تو وہ کیونکر سچ کی اہمیت کو سمجھے گا، آج معصوم نونہالوں کے سامنے جب ہم رشوت ستانی اور چور بازاری کا کاروبار کریں گے تو کل ہم ان سے ایمانداری کی توقع کیونکر رکھ سکتے ہیں۔ اگر آج ہم اپنے عمل سے انکو یہ سبق دیں گے کہ پیسہ آنا چاہیے پھر چاہے طریقہ کوئی بھی ہو تو پھر کل ان کو یہ بات کیونکر سمجھ آئے گی کہ منافع خوری کیا ہوتی ہے۔ ہم آج اپنے معصوم بچوں کو مختلف طریقوں سے جھوٹ سیکھاتے ہیں، ساتھ بٹھا کر ٹریفک قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہیں، ملکی قوانین کا اپنے افعال سے مذاق اڑاتے ہیں، غیبت اور چغلی کا باقاعدہ سبق پڑھاتے ہیں غرض ہر وہ برائی جو کسی بھی قوم اور معاشرے کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہے ہم اپنی نگرانی میں اپنی آنے والی نسل کو منتقل کرتے ہیں اور پھر ان سے امید یہ رکھتے کہ ہیں کہ وہ ہمیں ایک بہترین معاشرہ تشکیل کر کے دیں۔
اس طرح کے خواب تو اب دیوانے بھی نہیں دیکھتے جس طرح کی امیدیں ہم اپنی اس نام نہاد تربیت کے بعد آنے والی نسل سے لگا لیتے ہیں۔ نہ جانے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہر آنے والا وقت گذرے ہوئے سے زیادہ تیز ہوتا ہے۔ کل جن کو بنا ہیلمٹ کے موٹرسائیکل چلانے کی شعوری یا غیر شعوری اجازت دی گئی تھی آج وہ اسی کو ہوا میں اڑانے کے جتن کر رہے ہیں۔ کل جن سے جھوٹ بلوا کر ہم نے کسی ان چاہے مہمان سے جان چھڑوائی تھی وہ آج خم ٹھونک کر فراڈ اور دھوکہ دہی کی دکان چمکا رہے ہیں، کل جن کو ساتھ بیٹھا کر ہم نے دودھ میں تھوڑا سا پانی ملایا تھا، وہ آج پانی میں دودھ ملا رہیں ہیں اور جو زیادہ "عقلمند" تھے وہ کھاد اور گھی سے باقاعدہ دودھ تیار کر رہیں ہیں۔ آج جتنی بھی برائیاں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں پھر چاہے وہ مذہبی حلقوں میں ہوں یا دنیوی، ان کے آغاز پر اگر غور کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ کچھ عرصہ پہلے ان کی ابتدا ایک نہایت معمولی اور بظاہر بے ضرر دکھائی دینے والے فعل سے ہوئی تھی لیکن آج وہی بے ضرر اور معمولی ابتدا ہمارے لیئے عفریت بن چکی ہے۔ بنیادی طور ہم باپ تو بن جاتے ہیں لیکن مربی نہیں بن پاتے، بچوں پر رعب تو جھاڑ لیتے ہیں لیکن اصلاح نہیں کر پاتے کہ اسکے لیئے ہمیں عملی نمونہ بننا پڑتا ہے جو ہمیں قطعا منظور نہیں۔ ہم یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم چاہے کچھ بھی کریں ہمارے بچے اخلاق کا اعلی نمونہ ہونے چاہییں جو اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے میں سے اونٹ کا گذرنا اور جب مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آتے تو ہم بجائے عوامل پر غور کرنے کہ اپنا باپ والا حق استعمال کرتے ہوئے یا تو ہاتھ اٹھاتے ہیں یا گالم گلوچ کرتے ہیں اور جو ذرا مہذب ہیں وہ لعن طعن سے کام چلاتے ہیں اور نتیجے میں اپنی ہی اولاد کو دوسروں کے سامنے نیچا دکھا کر ذہنی بغاوت پر مجبور کر دیتے ہیں۔
نہ تو دنیا میں ایسا کوئی نظام ہے جو ایک رات میں کسی بھی معاشرے کو بدل سکے اور نہ ہی کوئی رہنما جو یہ معجزہ کر دکھائے۔ اللہ کریم نے قوموں کے عروج و زوال کے طریقے واضح طور پر بیان کر دیئے ہیں اور قطع نظر رنگ، نسل اور مذہب کے جس نے بھی ان پر عمل کیا، ترقی نے انکے قدم چومے اور دنیا کی حکمرانی انکا حق ٹہری۔ اور جس جس نے ان ضابطوں سے منہ موڑا آج وہ سب اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہم اگر یہ چاہتے ہیں کہ روز محشر اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے پر پکڑ نہ ہو اور ہماری آنے والی نسلیں ایک منفرد اور خوشحال معاشرے کی تشکیل کریں تو اس کے لئے ہمیں آج محنت کرنی ہو گی، آج ہمیں وہ بیج بونے ہوں گے جو کل گلزار بنیں، آج ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمارا کل کیسا ہو۔ کسی بھی معاشرے کا ہر ہر فرد پھر چاہے وہ امیر ہو یا غریب، کسی دور دراز گاؤں گوٹھ کا ہو یا شہر کا، ایک مستقل فرد کی حیثیت رکھتا ہے اور معاشرے کی اصلاح یا بگاڑ میں ایک ان پڑھ مزدور کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہوتا ہے جتنا کسی پڑھے لکھے انسان کا۔ یہ ہماری وہ ذمہ داری ہے جس سے فرار کی صورت میں ہم جہاں دنیا کو ایک تعفن زدہ معاشرہ اور اخلاق سے عاری، مار دھاڑ کی دلدادہ قوم کا تحفہ دیں گے وہیں رب کے ہاں بھی جواب دہ ہوں گے ان حالات اور اخلاقی اقدار کے جو آج سے سو سال کے بعد ہمارے خطے میں رائج ہوں گی۔

Comments

Click here to post a comment