ہوم << کبھی ملازم کی پلیٹ میں کھانا کھایا؟ ابوبکر قدوسی

کبھی ملازم کی پلیٹ میں کھانا کھایا؟ ابوبکر قدوسی

13343153_1139281389464517_4639609068427595420_nوہ ہمارا دوست ہے، ڈیفنس کا رہائشی، ممکن ہے ارب پتی رہا ہو وگرنہ بہت امیر تو ہے. مسجد میں اعتکاف بیٹھ گیا. میں آج تراویح کی نماز کے بعد "مرکز" کے دفتر میں داخل ہوا تو ماحول یخ بستہ تھا. میز پر ایک "پرات" پڑی ہوئی تھی، بات چیت چل رہی تھی، باتوں کے بیچ میں سب گاہے ہاتھ بڑھاتے ، ایک آدھ لقمہ چاول کا لے لیتے. منظر کا روشن پہلو وہ بچہ تھا جو ٹوپی پہنے اعتماد کے ساتھ چاول کھا رہا تھا. میں ہنس دیا کہ کیا اعتماد اور بے تکلفی ہے..
"کس کا بچہ ہے؟"
اس کا باپ بول اٹھا. کل ہی جو مجھے بتا رہا تھا کہ محلے میں ایک کونے پر سبزی لگاتا ہوں آج کل. اور آج اس کا بیٹا ارب پتی کی پلیٹ میں گھسا بیٹھا تھا. یہ برابری اسلام کا اعجاز ہے.
اس سے اگلے روز لاہور کی جوتے کی سب سے بڑی "چین" کا مالک اسی مرکز میں نماز پڑھ رہا تھا، ساتھ میں ممکن ہے کوئی "کھوتی ریڑھی" والا کھڑا ہو.
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
سگنل پر برابر میں ایک"ایم پی اے" صاحب کی گاڑی رکی، مولوی صاحب ممبر اسمبلی تھے. میں نے شیشہ نیچے کیا، متوجہ کیا اور کہا
"آپ ڈرائیور کے برابر کیوں نہیں بیٹھے ؟ پیچھے بیٹھے ہیں. یہی غرور ہے" بھلے آدمی تھے فورا مان گئے کہ ہاں غلط ہے
اسامہ موعود کبھی پنجاب کے چیف سیکرٹری تھے. پکے مذھبی آدمی. اک روز میرے پاس اس طرح آئے کہ افسرانہ غرور اور تکبر کے برعکس ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.
میں اپنی بات نہیں کرتا لیکن دوپہر کا کھانا اپنے ملازموں کے ساتھ ایک ہی برتن میں ان سے مل کے کھاتا ہوں. اس سے میرا ایمان جاتا ہے نہ میرا رتبہ کم ہوتا ہے.
اگلے روز قاضی عبدالقدیر خاموش تشریف لائے. ان کی موجودگی میں ہی "مولوی شریف" آ گیا، محکمہ اوقاف کا باورچی، بے انتہا نیک. قاضی صاحب نے اسے برابر ہی نہ بٹھایا بلکہ کچھ کتب بھی پیش کیں. برابری سے مل رہے تھے، ساتھ بیٹھے تھا. کہاں کا غرور ؟
ہاں ہم "ملاؤں " نے یہ سب اپنے نبی ﷺ کے اسوۂ سے سیکھا. لیکن حضور آپ؟؟؟
جی ہاں محترم لبرل ازم کے ماموں حضور... جتنے یہ لبرل دانشور ہیں... جو ٹی وی پر اپنی دانش بگھارتے ہیں .. انسانی حقوق کے لقمے "حلال" کرتے ہیں.
آپ کبھی اپنے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے ؟
کبھی اس کی پلیٹ میں کھانا کھایا؟
حہھھھھھہ کھانا؟ آپ کو فوڈ پوائزننگ ہو جائے گی یار.
ان کے کسی "استادی" سے پوچھیں کہ جتنے انسانی حقوق والے آپ نے اپنے اردگرد اکٹھے کیے ہوئے ہیں، ان کو کہیں کہ کبھی اپنے ملازم کو بھی ساتھ میں فائیو سٹار ہوٹل میں ساتھ بٹھا کے کھلا کے دکھائیں، کبھی اس کی پلیٹ میں کھائیں، سانس اکھڑ جائے گی، روشن خیالی ابکائیاں لینے لگے گی اور .... قامت کی درازی کا سب بھرم کھل جائے گا..
اس ماحول میں کتنی منافقت ہے اس سے اندازہ کریں کہ ایک بار میں سفر میں تھا، راستے میں بھوربن آتا تھا. ہمارے ساتھ ایک غریب آدمی تھے جن کا نام لکھنا مناسب نہیں. ان کے کندھے پر سرخ رومال دھرا تھا. ہم پرل کانٹینٹل میں رک گئے. لابی میں بیٹھے تھےکہ ایک آفیسر آیا اور ان صاحب کو کہنے لگا کہ رومال کو کندھے سے اتار کے ہاتھ میں پکڑ لیں. اپنا دماغ ایک دم سے فیوز ہو گیا. میں نے کہا کہ اس کے بوسیدہ رومال سے تمہارا ماحول متاثر ہوتا ہے لیکن ابھی کوئی حیا باختہ نیم برہنہ آ نکلے تو تمہارا ماحول خراب نہیں ہوگا. بہت سنائیں تو معذرت کرنے لگا ..
یہ صرف ایک پہلو ہے. ورنہ منافقت کے بیسیوں رنگ ہیں....آزادی نسواں...انسانی حقوق ..چائلڈ لیبر...سب جھوٹے ڈرامے ہیں جو میڈیا پر چلتے اور تحریروں میں پلتے ہیں لیکن گھروں میں ان کے بھی غلام بچے ہی پائے جاتے ہیں. ورنہ ان سے پوچھیے کہ ان کے گھر میں "پوچا" ہیلری کلنٹن آ کے لگاتی ہے ؟ جناب وہی لوکل غلام بچے جن کی تنخواہ بیگم صاحبہ پانچ ہزار دیتی ہیں اور رات کو ٹاک شو میں مولوی کو ان کے حقوق کا غاصب گردانتی ہیں، اور بیک گراؤنڈ میں میوزک چلتا ہے، منافقت زندہ باد

Comments

Click here to post a comment