ہوم << نکاح ، اسلام اور لبرلزم - عباس غفاری

نکاح ، اسلام اور لبرلزم - عباس غفاری

Untitled-1 copyیہ فطرت کا تقاضا ہے کہ معاشرے اور فرد کے درمیان ایک ایسا متوازن تعلق ہو کہ جس میں نہ معاشرے کی حق تلفی ہوتی ہو اور نہ فرد کی، بلکہ دونوں کو اپنے حقوق بھی یکساں طور پر ملیں اور نظام زندگی بھی جاری و ساری رہے۔ اس تعلق کو قائم کرنے کے لیے مختلف لوگوں نے مختلف نظریات وضع کیے۔ لیکن جو بھی نظریہ سامنے آیا، وہ اس وقت کی کسی ضرورت کو سامنے رکھ کر وضع کیا گیا۔ اس لیے وہ نظریہ فی الوقت اس ضرورت کو پورا تو کر دیتا ہے لیکن آگے جا کر وہ خود کئی ایسے ضرورتوں کو جنم دیتا ہے جو کئی دوسرے نظریات کی متقاضی ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس اسلام کے نظریہ کو لیجیے جو ایک ایسی ذات کی طرف سے ہمیں سکھایا گیا جو پہلے سے انسا ن اور معاشرے کی ضروریات جانتی ہے اور جس کا علم انسان کی طرح محدود نہیں ہے لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ وہ ذات ہمارے لیےکامل علم کی بنیاد پر جو نظام اور جو نظریہ پسند کرے گی، وہی لازما ٹھیک ہوگا اور اسی سے تمام انسانی مسائل کا حل ہوگا۔
لبرلزم یا نظریہ حریت شخصی نکاح کو انسان پر بلاوجہ ایک قید اور ایک پابندی سمجھتا ہے۔ یہ انسان کی جنسی ضرورت کو بھوک اور آرام جیسی ضرورتوں کے مشابہ قرار دیتا ہے کہ جس طرح کوئی انسان جو چاہے کھا اور پی سکتا ہے یا جہاں ، جب اور جیسے چاہے اپنی تھکاوٹ دور کرسکتا ہے ، ویسے ہی وہ اپنی جنسی ضرورت بھی پوری کرسکتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق مرد و عورت کا کسی ایک فرد تک محدود ہونا دونوں کی حق تلفی ہے اور نکاح اس حق تلفی کا سبب ہے۔ لہٰذا اس نظریے کی ضرب دوسری اخلاقی اقدار کی طرح نکاح پر بھی پڑتی ہے۔ اسلامی نظام زندگی میں معاشرے کی ابتداء خاندان سے ہوتی ہے۔ مرد اور عورت جب نکاح کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو وہ شوہر بیوی قرار پاتے ہیں۔ جب ان دو وجود کے ملاپ سے تیسرا وجود پیدا ہوتا ہے تو اولاد اور والدین کا رشتہ جنم لیتا ہے۔ اب وہ ماں اور باپ بھی ہوتے ہیں۔ اسی سے بہن ، بھائی، دادا، دادی، نانا، نانی اور کئی دیگر رشتے جنم لیتے ہیں. یہ رشتے ایک دوسر ے کے لیے تقویت کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے برعکس جب لبرلزم نکاح کو بیچ سے ہٹا دیتا ہے تو پھر کسی شوہر اور بیوی کے رشتے کا وجود باقی رہتا ہے نہ ماں باپ کا احترام اور بہن بھائی سے انسیت۔ ایک مرد اور ایک عورت ہی باقی رہتے ہیں جو صرف او ر صرف ایک دوسرے کی ضرورت پورا کرنے کے ایک آلے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ایسے میں مرد کے لیے تو کوئی مشکل نہیں ہوتی کیونکہ اس کی فطرت غالب ہوتی ہے اور وہ مضبوط اور قوی ہوتا ہے لیکن عورت کے لیے ایسی صورتحال اس کی زندگی کو جہنم بنا دیتی ہے. اس کی حیثیت روزمرہ استعمال کے اشیاء جیسی ہوجاتی ہے کہ جب ضرورت ہوئی تو استعمال میں لایا اور جب ضرورت ہوئی پھینک دیا۔ اپنی مغلوب فطرت اور کمزور جسمانی ساخت کی وجہ سے وہ اپنے دفاع کے بھی قابل نہیں ہوتی اور معاشرے میں موجود مزید درندوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے کیونکہ ایسے معاشرے میں زنا بالجبر کو بھی کسی چوری کی طرح مانا جاتا ہے کہ جس طرح ایک بھوکا اپنی ضرورت کے لیے چوری کرتا ہے، اسی طرح جنسی لذت کا بھوکا اپنی شہوانی ضرورت کے لیے زنا بالجبر کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ جو لا لیون ری پبلکن کا ایڈیٹر اس سوال پر بحث کرتے ہوئے کہ زنا بالجبر آخر کیوں جرم ہے؟ لکھتا ہے کہ " جس طرح چوری عموما بھوک کی شد ت کا نتیجہ ہوتی ہے اسی طرح وہ چیز جس کا نتیجہ زنا بالجبر اور بسا اوقات قتل ہے، اس ضرورت کے شدید تقاضے سے واقع ہوتی ہے جو بھوک اور پیاس سے کچھ کم طبعی نہیں ہے۔۔۔" (بحوالہ کتا ب پردہ از مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی ) ۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں اگر لبرلزم عورت کے وجود کے گندا ہونے اور جنسی لذت کو گناہ سمجھنے جیسے مسیحی تصور کے خاتمے کے لیے آیا تھا تو موجودہ زمانے میں یہ ان آوارہ اور ہوس پرست لوگو ں کا نعرہ ہے جو معزز گھرانوں کی معزز بہنوں اور بیٹیوں تک رسائی چاہتے ہیں۔
اسی پر بس نہیں ہے بلکہ جب ایک ایسے معاشرے میں یہی مرد اور عورت بوڑھے ہوجاتےہیں اور انکو ایک دوسرے کی ضرورت باقی نہیں رہتی تو انکا ٹھکانہ اولڈ ہاوسز جیسے ادارے ہوجاتے ہیں کہ جہاں وہ صرف موت کے انتظار میں جیتے ہیں ۔ اسکے برعکس ایک اسلامی معاشرے میں ایک فرد کی عمر جتنی بڑھتی جاتی ہے اتنا ہی لوگ اسکی عزت و احترام کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ لبرلزم اگر ایک طرف فرد کی معاشرے پر بالادستی اور معاشرے کی حق تلفی کا نام ہے تو دوسری طرف عورت کی طرف پھینکے گئے ایک ایسے جال کی مانند ہےکہ جس میں پھنسنے والے شکار کی چیرپھاڑ کے خونخوار درندے منتظر ہیں۔

Comments

Click here to post a comment