ہوم << مذہبی طبقے کا اخلاقی بحران - مجاہد حسین

مذہبی طبقے کا اخلاقی بحران - مجاہد حسین

Prayer

482921_4302145965119_2052185217_n مذہبی طبقہ جس قسم کے اخلاقی بحران کا شکار ہے، اس کے نمونے پورے سوشل میڈیا پرجا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔ ان سب کو دیکھ دیکھ کردل بہت کڑھتا تھا۔ تاہم آج اسلامسٹس کی ایک نئی ویب سائٹ (دلیل) پر ایسا مضمون نظر سے گزرا جس نے ضبط کے سارے بندھن توڑ دیے۔ میں سمجھتا ہوں اب کھل کر اس رویے پرتنقید ہونی چاہے تاکہ اصلاح کی کوئی صورت پیدا ہو۔
سب سے پہلے میں ایک لبرل لکھاری کے مضمون میں سے چن چن کرقابل اعتراض الفاظ اور فقرے آپ کے سامنے رکھتا ہوں، اس کا جواب اسلامی طبقے کے ایک نمائندہ مصنف نے لکھا۔ اس میں سے بھی قابل اعتراض لفظ اور فقرے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں. آخر میں ایک نئےلکھاری کے مضمون کی چند جھلکیاں پیش کروں گا. اوریا مقبول جان کے جواب میں فرنود عالم نے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا "حیا نہیں ہے ’فلانے‘ کی آنکھ میں باقی"۔ اس کے چند سب سے قابل اعتراض الفاظ اورفقرے ملاحظہ کیجیے۔
۔۔۔جو پاکیزہ نگاہیں بالنگ کراتی لڑکی کی آر پار نکل گئیں1913661_578720588948497_3649350239332541835_n
۔۔۔جن کا ایمان انوشکا شرما کی رعنائیوں سے نہیں ڈگمگایا
۔۔۔سات پردوں میں بیٹھی کسی حسینہ کا ایکسرے لے لینا بھی کوئی مشکل نہیں
۔۔۔ ان حلقوں میں ابھی وہ وقت آنا باقی ہے جب انہیں یقین ہوگا کہ عورت کی ٹانگیں اور بھی بہت کچھ کرنے کے کام آتی ہیں، مثلا دوڑلگانا
۔۔۔ آپ کی نگاہ اگر ناف کے گرد ونواح میں اٹک کر رہ گئی ہے تو اس میں قصور یقینا آپ کے زاویہ نگاہ کا ہے۔
اب چند فقرے ان صاحب کے جنہوں نے اس مضمون کا اپنی وال پرجواب دیا ہے اوران کی پوسٹ کے نیچے ان کے مداحین نے تعریفوں کے پل باندھے ہوئے ہیں۔
10941902_1385251575116695_6636132306759483348_n۔۔۔ یا تو جھنڈے لگا کر شرمگاہ کے پجاری شہوت کے ریسا مردوں کے سامنے ٹانگیں اٹھا کر رکھیں انگ انگ کھول کھول کر دکھائیں یا پھر زندہ درگور ہوجائیں
۔۔۔ جینز یا ٹراوزر میں پی کیپ پہنی عورت نما جانور
۔۔۔ بلکہ اوپر پنڈلی سے لپٹا پاجامہ اور پھر ران کی موٹائی اور کمر کی نازکی اور پھر چھاتیوں کی اٹھان اور گریبان کی گہرائی میں جھانکنا شروع کر دیتی۔۔
۔۔۔ جی ان باحیاؤں کے ہاں بچی میٹرک میں ہی ماں بن جاتی ہے اور ایک ڈاکیا تیرہ سو لبرلز کا ابا نکلتا ہے جی
۔۔۔۔ ارے آپ کا ایمان سارہ کی بالنگ کے دوران غباروں کی سٹ سٹینڈ یا منگل بدھ پر اتھل پتھل نہیں ہوتا تو۔۔۔
یہ صرف چند نمونے ہیں جناب نوفل ربانی کی تحریرسے۔ خود فیصلہ کیجئے کہ کیا کوئی ذہن جس میں اسلام بسا ہو، اسقدرکراہت سے بھرپورجملے لکھ سکتا ہے؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اب آئیے نئی ویب سائٹ (دلیل) پر شائع ہونے والے مضمون کی طرف۔ پڑھیے اور سر دھنیے۔
مضمون نگار رضوان رضی لبرلز کے بارے میں فرماتے ہیں۔۔11987158_1015569631828227_2469661962038679454_n
۔۔۔ جی ہاں یہ خاندانی ایجنٹ ہوتے ہیں ۔اور ہر دور میں ہوتے ہیں۔ کوئی بھی ہو۔ کبھی یہ کمیونزم اور سوشلزم کبھی کیپٹل ازم، اور کبھی اسلام ، انہیں اس سے غرض نہیں کہ آقا کون ہے۔ یہ تو بس خاندانی اور پیشہ ورانہ ایجنٹ ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔ ان کی جائز و ناجائز اولادیں آج بھی انہی اعتراضات کی جگالی کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں
۔۔۔ اب ان کی دم پر پاؤں آ گیا ہے اور انہوں نے سوشل اور مین سٹریم میڈیا پر اوریا صاحب کے خلاف ایک یلغار کردی ہے۔
۔۔۔۔۔ جواب اس قدر بھرپور اور جامع تھا چاوں چاوں کی آوازیں چاردانگِ عالم میں برآمد ہو رہی ہیں۔
بخدا آپ اس قسم کی تحریریں جی بھرکے لکھیے لیکن پھراسلامسٹ کے کیمپ سے باہر نکل جائیے ۔ یقین کریں کسی لبرل کی مجال نہیں کہ وہ اس کیمپ کو اتنا نقصان پہنچائے جتنا آپ کا یہ لب ولہجہ پہنچا رہا ہے۔

Comments

Click here to post a comment

  • افسوس دلیل کی ابتدا میں ہی ایسا مضمون چھپا جو دلیل سے عاری اور سطحی جذبات پہ مبنی تھا کاش "سینیئر صحافی" ویب سائیٹ کے نام کی ہی لاج رکھ لیتے

  • مجاہد حسین صاحب کی تحریر کا محرک مثبت ہے اسلام پسندوں کے کیمپ سے اخلاقی گراوٹ قابل اصلاح ہے

  • دلائل کمزور ہوں تو متکلم یا لکھاری جذبات پہ چوٹ لگاتا ہے- اور اس طرح وہ اپنے مقصد کے حصول سے اور دور نکل جاتا ہے -

  • بحران تو دونوں طرف پایا جاتا ہے پتہ نہیں فاضل مضمون نگار نے اسے مذہبی اور غیر مذہبی میں کیوں بانٹ دیا اور جس شخص کی وجہ سے انہیں نے یہ نقطہ نظر قائم کیا ہے ان کا قلم مذہبی اور غیر مذہبی دونوں کے لیے ایک ہی پیمانہ رکھتا ہے۔۔اگر مضمون نگار نے ذرا تفصیل سے ان کی وال دیکھی ہوتی تو شاید انہیں اتنی زحمت نہ اٹھانی پڑتی

  • نوفل ربانی کی گفتگو بہت خراب تھی لیکن اس لبرل صاحب کی گفتگو بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ ادبی انداز میں بدترین مذاق اُڑانا اور زہریلے طعنے دینا اس کا شیوہ ہے۔

  • مزید یہ کہ مجاہد حُسین صاحب صاحب ذہن سے یہ غلط فہمی نکال دیں کہ سارا مذہبی طبقہ ہی نوفل ربانی ہے۔ کالم کا ٹائٹل ہی غلط دیا ہے جناب نے۔

  • دردناک تقسیم رنگ و نسل اور انسان کو ایں و آں کے ٹکڑوں میں بانٹنے کی تقسیم ہے.سو یہ تجزیہ اور بنیاد ہی خام اور نا پخت.قصور ادھر کا ہے نہ ادھر کا ہے.بات انسانی جبلت کی ہے.جبلت تاہم یە بھی ہے کہ انسان اپنی آنکھ کا شہتیر تو کامل ہوشمندی میں بھی دیکھنے سے قاصر رہتا ہے دوسرے کی آنکھ کا تنکا مگر یہ سوتے میں بھی ضرور دیکھ لیتا ہے. بلبلاتا مگر یہ تب ہے جب اس کے مقابل آئینہ رکھ دیا جائے. اورکسی بھی خام کاری کے مقابل دلیل سے بڑا اور برا کوئی آئینہ نہیں پوتا. آپ قریب دور کی تاریخ دیکھ لیجئے لہجوں کی جس شیرینی کے پہلے اسلامسٹ شاکی تھی اور میاں خلیل خاں تب فاختہ اڑانے کے ساتھ ساتھ بغلیں بھی بجایا کرتے تھے. دلیل آئی تو آج وہی علامہ راشد الخیری کا فسانہ اور میر تقی میر کا دیوان ہونے لگے ہیں.ورنہ تو کیا مذہبی اور کیا غیر مذہبی اس سلسلے میں ہم سب ایک جیسے ہیں.
    سو کیا بہتر نہیں ہم بطور انسان اپنی اپنی منجی تھے ڈانگ پھیر لیں . تاکہ انسان اور انسانیت کا کچھ بھلا ہو سکے.

  • گستاخی معاف ! جناب آپ نے تقابل میں دونوں طرف کے نمونے دکھائے ہیں لیکن تنقید صرف ایک مذہبی طبقے پر ہی کی ہے ۔ کیا آپ نہیں چاہتے کہ لبرل طبقے کا بھی اخلاقی بحران زائل ہو جائے یا آپ انہیں مستثنیٰ کر رہے ہیں ۔ آپ نے عنوان ہی غلط دیا ہے ۔
    میں دلیل کے ادارے سے بھی گزارش کروں گا کہ ابتداء میں ہی ایسی تحاریر شائع کرنے سے گریز کریں جن سے صرف جذباتی تسکین تو ملتی ہو اس کے سوا وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آتا ہو۔

  • Ghaliban Munahid Hussain sahab ye kehna chahtay thay k mazhabi zehn rakhnay walay log kion k iqdaar k maamlay men ziyada hassaas jote hain, lihaza unhen alfaz k intikhab men ziyada ihtiat baratni chahye.