ہوم << انسانیت سے ہٹ کر - شاہنواز سرمد

انسانیت سے ہٹ کر - شاہنواز سرمد

شاہنواز سرمد صحت اللہ کریم کی عطا کی ہوئی نعمتوں میں سب سے عظیم نعمت ہے، غورکیا جائے تو ایک صحت مند انسان بہت سے دوسرے انسانوں کے لیے بھی مدد گارثابت ہو سکتا ہے کیونکہ زندگی میں بہت سے ایسے مراحل آتے ہیں جب کتنی ہی دولت، جائیداد، عہدہ یا ترقی ہو، سب بےکار ہو جاتے ہیں اور محض ایک انسان ہی دوسرے کی تکلیف دُور کر سکتا ہے۔ جس کی ایک مثال تھلیسیمیا جیسی بیماری میں مبتلا بچے ہیں جن کی زندگی کا انحصار ہر دس سے پندرہ دن بعد لگنے والے خون کی دستیابی پر ہے جو دوسرے انسانوں کے عطیہ کرنے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔
مصنف و شاعر مُنّو بھائی سے ملاقات کے لیے سُندس فائونڈیشن کی انتظار گاہ میں بیٹھے ہوئے میں نے گِردو پیش کا جائزہ لینا شروع کر دیا جیسا کہ ہم عموماََ نئی جگہوں پر کرتے ہیں۔ سامنے کی نشستوں پر پریشان حال والدین اور ہاتھ یا بازو پرڈرِپ کے لیے لگائی گئی سُوئی کے ساتھ ننھے بچے معصومانہ چہروں پر مسکراہٹیں اور آنکھوں میں صحت کی بہتری کے خواب سجائے بیٹھے نظر آئے تو دِل جیسے مُٹھی میں آ گیا۔ تھیلیسیما کے بارے میں پہلے بہت دفعہ سُن اور پڑھ چُکا تھا مگر کہتے ہیں نا کوئی ایک لمحہ بعض اوقات بہت اثر پذیر ہوتا ہے، تو ایسا ہی ہوا، جس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ اس ساری صورتحال کو دیکھنے کے بعد میرے ذہن میں جو پہلا خیا ل آیا، وہ یہ تھا کہ اگر اِن والدین کی جگہ میں خود ہوتا تو کس کرب سے گزر رہا ہوتا؟ کیا دُنیا میں اس سے بڑی آزمائش بھی کوئی ہو سکتی ہے کہ آپ کے ہاتھوں میں آپ کا عزیز ترین سرمایہ ، آپ کی اولاد سسک رہی ہو اور آپ اس کے لیے کچھ بھی نہ کر سکیں۔ کہتے ہیں اولاد تو ماں باپ کے جسم ہی کا حصہ ہوتی ہے، تو یہ والدین کس طرح سے اس تکلیف کو سہہ رہے ہوں گے جس میں اُن کے بچے مبتلا ہیں۔ صورتحال اس قدر اثر انگیز تھی کہ میں نے فوراََ سوچا کہ میں اور میرے جیسے دوسرے صحت مند انسان کیسے ایسے مریضوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ img_20160901_143742-copy ایک فوری ذریعہ تو خون کا عطیہ ہو سکتا تھا جو میں نے ضروری کار روائی کے بعد فوراََ ہی دے دیا۔ دوسرا اہم کام یہ ہو سکتا تھا کہ باقی لوگوں، بالخصوص نوجوانوں، کو بھی عطیہء خون کے لیے متحرک کیا جائے۔ اس مہم کے لیے مجھے ایک ہی ذریعہ ’’جہاد بالتحریر‘‘ سب سے موزوں لگا، جس میں میری کچھ مہارت بھی ہے۔ آن لائن میڈیا کے دور میں نوجوان نسل تک اپنی بات پہنچانے کا اہم ذریعہ بلاگ بھی ہے، جو اس سلسلے میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ انتظامیہ سے اپنی اس خواہش کا اِظہار کیا تو انھوں نے تھلیسیمیا بیماری سے متعلق اور اپنے ادارے کے بارے میں نہ صرف تمام تر معلومات بہم پہنچائیں بلکہ وہاں موجود جدید لیبارٹریز کا تفصیلی دورہ بھی کروایا۔
20160901_143705 مہیا کی گئی معلومات اور بعد کی تحقیق سے پتا چلا کہ تھلیسیمیا میجر میں مبتلا مریض کے جسم میں اس قدر ہیموگلوبن پیدا نہیں ہوتی جو کہ خون کے سرخ خلیے بنانے کے لیے درکار ہے۔ اس لہے ایسے بچوں کو باقاعدگی سے انتقالِ خون کی ضرورت پیش آتی ہے جس کی عدم موجودگی میں 85 فیصد بچوں کے5 سال کی عمر تک پہنچنے تک جان کی بازی ہارنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ مرض کی تشخیص بچے کی پیدائش کے بعد پہلے تین ماہ میں عموماََ اُس وقت ہوتی ہے جب مسلسل بیماری کی صورت میں والدین بچے کو ہسپتال لے جاتے ہیں جہاں خون کے تجزیے کے بعد ڈاکٹر تھلیسیمیا کی تشخیص کرتے ہیں اور ایسے اداروں کی طرف بھیج دیتے ہیں جو اس کارِخیر کو بغیر کسی بڑی حکومتی سرپرستی کے، تن تنہا چلا رہے ہیں۔ انتقالِ خون کی ضرورت مریض کی حالت کے مطابق ہر 10سے15 دِن بعد پیش آتی ہے اور ساری زندگی جاری رہتی ہے۔
20160901_140059 ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 5000 کے قریب بچے تھلیسیمیا میجر کے طور پر تشخیص کیے جاتے ہیں، جس کی بڑی وجہ ایسی شادیاں ہیں جن میں دونوں شریکِ سفر ’’تھلیسیمیا مائنر‘‘ کے حامل ہوتے ہیں، ایسی صورت میں 25 فیصد امکان ہوتا ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ تھلیسیمیا میجر کا شکار ہوگا۔ حکومت کو سنجیدگی سے ایسے قوانین کے اطلاق کے بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے جن کے ذریعے شادی سے قبل میاں بیوی کے خون کے نمونوں کو ’’تھلیسیمیا مائنر‘‘ کے لیے جانچا جائے۔ ’’احتیاط علاج سے بہتر ہے‘‘ کا مقُولہ اس صورتحال کا بجا طور پر احاطہ کرتا ہے۔ خاندان کے اندر شادی کرنے کے رواج کی حوصلہ شکنی اور شادی سے پہلے احتیاطی طور پر ’’تھلیسیمیا مائنر‘‘ کا تجزیہ کرانے کی حوصلہ افزائی اس بیماری کے مریضوں کی تعداد میں بڑی حد تک کمی لا سکتی ہے۔ نہ صرف عوام کو اس بیماری سے بچائو کی احتیاطی تدابیر بتانے کی ضرورت ہے بلکہ صحت مند افراد تک یہ معلومات پہنچانا بھی ضروری ہے کہ وہ ایسے مریضوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں۔
ہم خون کے عطیات کے لیے اپیل میں ’’سماجی ذمہ داری‘‘ اور ’’انسانیت کی خدمت‘‘ جیسے ثقیل الفاط تو روز سنتے ہیں مگر خون کا عطیہ کرنے سے ضرورت مند مریضوں کی مدد کے علاوہ عطیہ کرنے والے کو خود جتنے فوائد حاصل ہوتے ہیں اُن کا اندازہ شاید ہمیں قطعاََنہیں ہے، آئیے ایسے ہی کچھ ’’مادی‘‘ فوائد پر کچھ نظر ڈالتے ہیں۔
جسم میں اضافی فولاد کی وجہ سے اعضائے رئیسہ جیسے دِل اور جگر کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ خون دینے سے فولاد کی مقدار متوازن ہو جاتی ہے جو کینسر جیسے موذی مرض سے بھی بچاتی ہے۔ وزن میں کمی کے لیے بھی عطیہء خون ایک موثر کردار ادا کرتا ہے کیونکہ ایک دفعہ کے عطیہ جسم میں 650 کلو کیلوریز کم ہوتی ہیں۔ عطیہء خون سے پہلے آپ کا ایک میڈیکل چیک اَپ بھی مفت میں ہو جاتا ہے۔ خون دینے سے قبل درجہء حرارت، نبض کی رفتار، بلڈ پریشر، خون کا گروپ اور ہیمو گلوبن کی سطح کا تجزیہ کیا جاتا ہے جبکہ خون کا نمونہ لینے کے بعد اس کا مزید تفصیلی معائنہ کیا جاتا ہے جس میں متعددی بیماریاں جیسے ایچ آئی وی، ہیپا ٹائیٹس اور ملیریا کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اگرخدانخواستہ ہیپاٹائیٹس پازیٹو ہو تو ایسے افراد کے لیے PCR ٹیسٹ کی سہولت انتہائی کم قیمت پر مہیاکی جاتی ہے جس سے ہیپاٹائیٹس کے جرثوموں کی حالت مزید واضح ہوتی ہے۔
اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے SUNMAC Lab کے اِنچارج فضل الٰہی چودھری نے کہا: ’’جن افراد سے خون کا عطیہ لیا جاتا ہے ان کے نمونوں کو نہ صرف متعدد بیماریوں کے لیے جانچا جاتا ہے بلکہ اس کا DNA Analysis بھی کیا جاتا ہے جس سے ’’تھلیسیمیا مائنر‘‘ ہونے یا نہ ہونے کا پتا چلتا ہے۔ یہ ٹیسٹ اس سلسلے میں عام طور پر کیے جانے والے CBC ٹیسٹ سے کہیں بہتر اور تفصیلی نتائج فراہم کرتا ہے۔‘‘
زیرِ بحث تمام ٹیسٹ بازار سے کروائے جائیں تو ان کی لاگت 25 سے 30 ہزار ہو سکتی ہے، چنانچہ یہ مفت میڈیکل چیک اَپ آپ کے عطیہء خون کا انعام بھی تصور کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو ایسا مرض ہے جسے کوئی امیر آدمی بھی افورڈ نہ کرسکے تو مملکتِ خداد میں جہاں دُودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں، صحت کی ’’بہترین‘‘ سہولیات چپے چپے پر دستیاب ہیں اور تیزی سے ترقی کی حدیں پھلانگتی ہوئی معیشت ہے، سو ،دو سو روپے دیہاڑی کمانے والا طبقہ ایسے روگ کو لے کر کہاں جائے۔ ہر بار خون لگواتے ہوئے والدین یہی سوچتے ہوں گے کہ پتا نہیں اگلی بوتل کہیں سے ملے گی یا نہیں اور خدانخواستہ کبھی خون کی دستیابی کی کوئی صورت نہ بن پا رہی ہو تو اُن کے دِلوں پر کیا بیتتی ہوگی۔ ان کی پہلی اور آخری اُمید میں اور آپ ہی ہیں۔ ریڈ کریسنٹ کے مطابق عموماََ خون کی ایک بوتل سے تین افراد کی جان بچائی جا سکتی ہے۔ اور جان بچانے والے کی کیا اہمیت ہے یہ ہم سب نے قرآنِ کریم کی اس آیت میں پڑھ رکھا ہے۔
’’اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی، گویا اس نے تمام انسانیت کی جان بچائی‘‘ (پارہ: 5، آیت:32)