ہوم << الحاد کے خلاف صف آرائی کا احوال - فوزیہ جوگن نواز

الحاد کے خلاف صف آرائی کا احوال - فوزیہ جوگن نواز

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم نے پہلی بار سحر خان نامی آئی ڈی سے فیس بک کی دنیا میں انٹری ماری. تب فیس بک پر ہمارا کام شعر و شاعری یا عمیرہ احمد کے جنّت کے پتے سے اپنی پسند کا اقتباس شیئر کرنا تھا. ایسے ہی ایک دن میری لسٹ موجود ایک بندے نے مجھے ایک گروپ ”ارتقائے فہم و دانش“ میں ایڈ کیا. گروپ وزٹ کرنے کی نیت سے اوپن کیا تو ہوش اڑ گئے. کتنی ہی دیر غم و غصّے کی کیفیت میں رہی اور سوچنے لگی کہ دنیا میں ایسی مخلوق بھی پائی جاتی ہے، جو اپنے ہی وجود کی منکر ہے؟ اللہ کا منکر اصل میں اپنی ذات کا منکر ہونا ہے. ملحد احساس سے پرے وہ بھٹکا ہوا ذرہ ہے جو اپنی کائنات پانے سے اس لیے دور ہے کہ اسے احساس ہی نہیں کہ اس کا حقیقی مدار کیا ہے۔
اس گروپ میں علم کے نام پر مقدس ہستیوں کی جو توہین ہو رہی تھی، وہ میں پہلی بار دیکھ رہی تھی اور سوچنے لگی کہ کیا ان لوگوں کو روکنے ٹوکنے والا جواب دینے والا کوئی نہیں ہے؟ کتنے ہی دن اس اذیت میں گزرے اور خود کو انتہائی بے بس محسوس کر رہی تھی. کافی لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کروائی لیکن سب نے رپورٹ اور ایسے گروپ میں نہ جانے کا مشورہ دے کر ٹال دیا کہ کہیں میں بھی اپنے ایمان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھوں لیکن میرے اندر جو آگ بھڑک اٹھی تھی، وہ رپورٹ اور گروپ میں نہ جانے سے کب بجھنے والی تھی. دوسرے دن اللہ کا نام لے کر اک ملحد نعمان سید کی پوسٹ پر میدان میں اتری. تقریباً دو گھنٹے مسلسل بحث ہوتی رہی، اس دوران کئی ملحدین اس پوسٹ پر ٹپک پڑے اور بحث کو پھیلانے، موضوع کو بدلنے اور اپنے قوال کے پیچھے تالیاں بجانے والا کام کرنے لگے، کچھ تھوڑی تھوڑی دیر بعد گستاخانہ جملے لکھ کر مجھے ہائپر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنے لگے، لیکن میں بھی اس دن جم کر بیٹھی تھی، ہر قسم کی بدتمیزی و گستاخی برداشت کر رہی تھی کہ اس دوران اچانک لائٹ چلی گئی. لائٹ آنے پر جب کمپیوٹر آن کیا تو دیکھا کہ مذکورہ گروپ غائب ہے. میں سمجھی شاید رپورٹ کی وجہ سے گروپ ختم کر دیا گیا ہے لیکن میں ان ملحدوں کی عیاریوں اور چال بازیوں سے بلکل ناواقف تھی. اس دوران گروپ ایڈمن شاہد رائے کا میسج آیا کہ آپ کو گروپ سے بلاک کیا گیا ہے. میں نے پوچھا بھلا کیوں بلاک کیا؟ شاہد صاحب کہنے لگے کہ یہی بات تو میں وہاں اس پوسٹ پر پوچھ رہا ہوں لیکن جواب نہ ملنے پر میں نے بھی احتجاج گروپ چھوڑ دیا. میرے اللہ کا مجھ پر خصوصی کرم ہے کہ اسلام کا سطحی سا علم رکھنے کے باوجود الحمد اللہ نہ میں کبھی ان لوگوں کے اعترضات سے ڈگمگائی نہ وساوس کا شکار ہوئی.
ہمارے وہ کم علم مسمان بھائی اور بہنیں جو لاعلمی میں ایسےگروپس میں ایڈ کیے جاتے ہیں، جب اک دم ایسے لوگوں کے بیچ چلے آئیں جو یہ کہیں کہ کون خدا ارے کیا خدا؟ کون رسول کیا رسول؟ اک دیوار تو اسی وقت گرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ کبھی قرآن کا ترجمہ نہ پڑھا، نماز مشکل سے ادا کرتے ہیں، پہلے سے ضعیف العقیدہ یا کہہ لیں کہ آزاد منش، اسلام کو زندگی کے optional context میں رکھ کر، قرآن کو دراز میں لپیٹ کر چومنے کے قائل تھے، شاید سمجھتے تھے کہ قرآن کا مصرف یہ ہے کہ صرف اس کا ادب کیا جائے، بس یہی اس کے اتر آنے کا مقصد اور مفہوم تھا. ان کے سامنے وہ چیزیں رکھی جائیں جو اصلا مغربی مشتشرقین کے ریسرچ پیپر تھے، اور جن میں فقط چرپ زبانی کی out of context جولانیاں تھیں، مثلا
1۔ اونٹی کے پیشاب والی حدیث. یعنی اسلام کہتا ہے کہ اونٹ کا پیشاب پیو! اور تم ہندو کو گالی دیتے ہو. میاں جھوٹ بولا گیا، اسلام ہندو ازم کا چربہ ہے.
تو سادہ لوح مسلمان گیا کام سے، مگر ان کو یہ نہیں بتایا جائے گا کہ وہ صرف بطور دوا علاج کے لیے جائز ہے. اور اضطراری حالت میں حرام کو بھی حلال کیا گیا ہے.
2۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر دیکھو، اک بوڑھے کی بچی سے شادی کر دی گئی، یہ تمہارے رسول عربی کے اطورا ہیں ( نعوذ باللہ)، کیا تم پسند کرو گے کہ تمہاری بیٹی جوگڑیوں سے کھیلتی ہو، بوڑھے سے بیاہ دی جائے؟ کہو؟
مگر یہ نہیں بتایا جائے گا کہ وہ بچی خود کیا کہتی ہے؟ صحیح بخاری کتاب النکاح میں حضرت عائشہ فرماتیں ہیں، (عرب آب و ہوا کی) لڑکی جب نو سال کی ہوجائے تو وہ عورت ہے.
3۔ بنوقریظہ کا واقعہ! دیکھو کس بےدردی سے یہود کو تمہارے نبی نے قتل کروایا، بچے بھی نہ چھوّڑے !
مگر یہ نہیں بتایا جائے گا کہ یہود نے توارت کا ہی فیصلہ منوایا کہ غداری کا فیصلہ و نتیجہ کیا ہوتا ہے.
4 ۔جمع تدوین قرآن! دیکھو تو آپ کا قرآن کیسے محفوظ ہے جسے تمہارے نبی نے کبھی لکھوایا ہی نہ تھا، ابن مسعود تو معوذتین کے قائل ہی نہیں، مصحف ابن مسعود پہ تو آتا نہیں، تم سمجھتے ہو قرآن کا ذمہ اللہ نے لیا مگر یہاں تو امت اختلاف پہ ہے.
مگر یہ نہیں بتایا جائے گا، اول منسوب احادیث ضعیف ہیں، دوم حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے قرآن کریم کی جو متواتر قراتیں منقول ہیں، ان میں معوذتیں شامل ہیں، جمہور ِ صحابہ کےمقابل خبر واحد کی حیثیت نہ تھی. یہ بھی نہیں بتایا جائے گا کہ قرآن رسول اللہﷺ کی رحلت تک ہزاروں صحابہ کے دل میں محفوظ تھا. آپ کے پاس آپ کا نسخہ لکھا ہوا موجود تھا. اس کے علاوہ پانچ اصحاب اور عشرہ مبشرہ کو حفظ و کتاب چمڑے کے Bundle کی صورت موجود تھے! .بعد کے ادوار میں صرف کاغذ پہ منتقل کیا گیا، کاپیاں اور ایک قرات پہ جمع کیا گیا، جب آپ نے رحلت کی تو قرآن پہ گواہ ایک لاکھ پچیس ہزار اصحاب موجود تھے. تیس پارے کیا چیز، اگلے امرالقیس کے دو دو لاکھ اشعار منہ زبانی یاد رکھتے تھے! ان سے چوک ہوسکتی ہے؟ یہ قرآن کا معاملہ تھا جیسے دل میں محفوظ ویسے ہی چمڑے پہ. صرف منتقلی کے دوران چوک میں کھڑے ہوکر سب کو گواہ بنا کر اس کو منتقل کرکے کاپیاں تیار کروائی گیئں کہ کوئی یہ نہ کہے کہ اسے کسی آیات پہ گواہ نہ چنا گیا! الحمدللہ۔
5۔ رجم کی آیات بکری کھا گئی اماں عائشہ کی تو قرآن کیسے محفوظ ؟
مگر یہ نہیں بتایا جائے گا کہ جناب عائشہ رض کے پاس سے ضائع ہوئیں، وہ اپنی بات کر رہی ہیں جبکہ اس وقت ابن مسعود، عثمان، طلحہ، ابوبکر رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے پاس قرآن کی ہر چیز موجود تھی، کاتبین باہر بھی موجود ہوتے.
6۔عورت کی آدھی گواہی ہے تمہارے مذہب میں، حصہ بھی آدھا! یہ مذہب ہے؟ یہ انصاف ہے؟
مگر یہ نہیں بتایا جائے گا کہ 5+ 5 ہی دس نہیں ہوتے! 3+4+3 بھی دس ہوتے ہیں. وراثت میں تقسیم برابر ہے، صرف نوعیت کا فرق ہے. یہی حال آدھی گواہی کا بھی ہے!
7. زینب رض کا نکاح ، تمہارے نبی نے اپنی بہو سے شادی کرلی. یہ مکارم ہیں؟
مگر یہ نہیں بتایا جاٰئےگا کہ منہ بولے بیٹے کی روایت ہی جاہلیت کی رسم تھی! لوگ سگی اولاد کا درجہ دے کر اصل اولاد کا حق مارتے تھے، جس کا تدارک سب سے پہلے اسلام نے کیا! اسلام ہر اس اصول کے خلاف آیا جو اس جہل کی پراگندگی میں مقدس تھے. منہ بولا بیٹا ختم کردیا گیا، مطلقہ رسول کی کزن تھیں. سو وہ طلاق کے بعد کس حیثیت سے بہو تھی؟ جس کا رشتہ رسول ِاقدسﷺ نے خود پڑھوایا، زید غلام تھے جس کو بیٹا کہا تھا، پھر قریش کے سردار کی بیٹی سے اپنے ہاتھوں عقد کروایا، کیا تب نہ کرسکتے تھے، جب زید سے نکاح نہ تھا، احسان یاد نہ رہا. بات کو توڑ کر پیش کرنا اس طبقے کا وطیرہ رہا ہے.
8۔ رسول نے تو ورقہ بن نوفل سے قرآن چرایا! چوری شدہ، امرا القیس کی شاعری ہے قرآن میں!
یہ نہیں بتایا جائے گا کہ ورقہ بن نوفل توارت عبرانی کا عالم تھا! اس نے فقط تائید کی تھی رسول ﷺ کی! رسول اللہﷺ تو لکھنا پڑھنا تک نہ جانتے تھے. جو تجارت میں سوت کو ریشم کے ساتھ ضم کر کے بیچنے کے قائل نہ تھے، وہ اعبرانی آیات کا کتمان کرکے عربی میں کیسے ڈھال سکتا تھا؟ نہ وہ شاعر نہ وہ ادیب نہ مشتشرق ، نہ لکھا نہ پڑھا! جسے مادری زبان کے سوا کچھ نہیں آتا وہ Edit& Exit کرے گا؟ تورات کے عالم یہودی جب مسلمان ہوئے تو کیا وہ اندھے تھے کہ اس پر احتجاج نہ کیا کہ یہ مثل تورات ہے یا یہ تورات کی آیت کا چربہ ہے؟ جب قرآن ہی کہا، وہ اندھوں کی طرح نہیں ٹوٹ پڑتے ! امرا القیس کے کس مقطع کا مثل قرآن سے جا ملتا ہے؟ بنو قیس کے لوگ جب حلقہ اسلام میں آئے جنہوں نے قیس کے دو لاکھ اشعار یاد کر رکھے تھے، قرآن پڑھتے وقت اندھے ہو رہے تھے؟ انہیں چربہ نہ ملا، بس فیس بک پہ بیٹھے مشتشرق عجمی کو چربہ نظر آ گیا ! خدا کی شان!
9۔ رسول تو لوٹ مار کرتے تھے! فدیہ کے نام پر، غنیمت کے نام پر!
یہ نہیں بتایا جائے گا کہ میدان جنگ میں جو چیز آئے وہ حق ہے! گھوڑا، زیور، اسلحہ جو میدان میں ہو، کوئی اک روایت نہیں ملتی جس میں چنگیزوں کی طرح گھروں میں گھس کر عورتوں کے بالے نوچ لیے گئے ہوں،گھروں کو لوٹا گیا ہو، انہوں نے تو اپنے دشمن ابو سفیان کے گھر کو دارالامان کہہ دیا کہ جو وہاں آجائے اسے امان ہے، کھیتیاں، املاک، بچوں بوڑھوں اور گھروں میں ہاتھ نہ ڈالا جائے. مرد مومن کا حصہ، میدانِ جنگ میں گرا پڑا مال ہے، اس سے زیادہ رتی بھی حرام جو کسی کے ہاتھ میں ہے جو کسی کے گھر میں ہے.
10۔ رجم سنگسار قطع ِید تو ظلم ہیں، زیادتی ہے، ارتداد پہ قتل کی تاویل؟ یہ دین ِامن ہے؟ یہ انسانیت ہے؟
یہ نہیں بتایا جائے گا کہ رجم اور سنگسار ”مجرم“ کے لیے ہیں، نہ کہ ہر چلتے کے لیے. مجرم کے ساتھ رعایت جرم کے ساتھ رعایت ہے. قتل کی سزا قتل ہر جگہ ہے. دین نے قصاص اور خون بہا دینے کی شق سب سے پہلے رکھی جو کہ تاریخ ِ انسانیت میں سب سے پہلا عظیم قانون تصور کیا جاتا ہے. خون معاف کر دینے کو قانونی شکل رسول اللہ.نے دی. ارتداد پر قتل اسلام کے moral کو نقصان پہچانے کے عوض ہے. غدار ہے وہ جس نے ارتداد کیا، غدار کی سزا تاریخ انسانیت میں قتل ہی ہے. سیکولر اسٹیٹس جب wiki leaks کے غدار کو پکڑنے اور قتل کرنے کے درپے ہیں تو غداری کا جواز اپنے ہی گریبان میں ڈھونڈ لیجیے! ہم نے قتل کے بدلے مجرم کو معاف کردینے کی شق کو افضل رکھا! انسانیت کا دین یہی ہے.
الغرض یہ فتنہ یوں اٹھا کہ وہ کہتے ہیں نا سچ جب تک جوتیاں پہنتا ہے تب تک جھوٹ آدھی دنیا کا چکر لگا چکا ہوتا ہے. مگر جہاں بت ہوتے ہیں وہیں بت شکن بھی ہوتے ہیں، جس جگہ خداوند سانپ پیدا کرتا ہے وہیں اس کے آس پاس اس زہر کے تریاق کی جڑی بوٹی بھی اگا ڈالتا ہے، کہ تیرے رب نے تجھے تنہا نہیں چھوڑا، ان دھندلکوں میں جہاں یوں حبس تھا، یاد نہیں کس اللہ کے بندے نے مجھے آپریشن ارتقائے فہم و دانش گروپ میں ایڈ کیا. یہاں آکر میں نے ایک چھبیس سالہ جوان جواد علی کو دیکھا جو ملحدوں کے گرو گھنٹال جو فخر سے خود کو علامہ ایاز نظامی کہتا ہے کو چیلنج کرتا ہے اور مباحثے کے پہلے ہی راؤنڈ میں اس علامہ کو چاروں شانے چت کرتا ہے. یہاں میں نے وسیم بیگ جیسے نفیس انسان کو دیکھا جب یہی علامہ صاحب قران میں تضاد دکھانے پر وسیم بیگ کو چیلنج کرتا ہے، اور پہلے ہی تضاد جو کہ اصل میں اس کی عقل کا تضاد تھا کو تضاد ثابت کرنے پر وسیم بیگ کے آگے علامہ کو دانتوں پسینہ آتا ہے اور یوں اپنی علمیت کا جنازہ دھوم دھام سے اٹھا کر پورے دو ہفتے فیس بک سے مفرور رہتا ہے. سنا ہے وسیم بھائی سے چھتر کھانے کے بعد اس نے اپنے نام کے ساتھ علامہ لکھنا چھوڑ دیا ہے. یہاں میں نے خواجہ عباس بٹ بھائی کو دیکھا جب ایک ملحد خبیث امجد نبی کریم ﷺ کی ولدیت پر اعتراض اٹھاتا ہے اور ہمارے خواجہ بھائی اسی ملحد کو اس کو اپنےگروپ فری تھنکر میں اسی پوسٹ پر دلائل سے خبیث ثابت کرکے جدید اور مشہور ضرب المثل اندر گھس کر مارنے کی عملی وضاحت پیش کرتا ہے. یہاں میں نے ذوہیب انکل جیسے انسان کو دیکھا جو ہر اعتراض، ہر قسم کی کنفیوژن کو انتہائی خوصورتی سے کلیئر کرکے بندے کو اش اش کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہاں میں نے چھوٹے استاد محمد اسامہ جو 18 سالہ معصوم سا بچہ ہے، کو فلسفے اور سائنسی بحث کے پیج پر ملحدوں کو لوہے کے چنے چبواتے دیکھا. یہاں ذیشان وڑائچ بھائی جب کسی ملحد کی پوسٹ پر انٹری مارتا ہے تو ملحد کو ایسے ہولے ہولے سے تھپاتا ہے کہ بےچارے کو پتہ نہیں چلتا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ یوں ذیشان بھائی اپنے انوکھے انداز سے ملحد کو گھر کے دروازے تک چھوڑ آتا ہے. سالم فریادی اور اعوان یہ دونوں کسی تعارف کے محتاج نہیں، کلام پاک پر اعتراض ہو یا احادیث پر اعتراض کرنے والے پر اس کا اپنا جوتا اس کے منہ مارنے کا فن یہ دونوں بھائی خوب جانتے ہیں لیکن یہ دونوں آج کل غیر حاضر ہیں. میری ریکویسٹ ہے کہ دونوں بھائی اپنے قیمتی وقت میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر گروپس کے رونق میں مزید اضافہ کریں. یہاں میں نے مہران بھیا کو دیکھا کہ جب وہ کسی اعتراض کا جواب لکھتا ہے تو اعتراض کرنے والا بھی مارے حیرت کے دانتوں میں انگلی دبا لیتا ہے. یہ سب بھائی ایک ایک کرکے بغیر کسی جرم کے ملحدوں کے گروپ ارتقائے فہم و دانش سے بلاک ہو گئے تھے. یہاں میں ان ملحدوں کو مخاطب کروں گی جو اکثر یہ طعنہ دیتے ہیں کہ ہم فری تھنکر میں کیوں جواب نہیں دیتے؟ ان کو بتانا چاہتی ہوں کہ آپ ملحدین ذرا اپنی علمی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ فری تھنکر میں مجھ سمیت ہمارے تینوں گروپس کے ایڈمنز بلاک ہیں۔ وجہ صرف ملحدین کی روٹی روزی میں روڑے اٹکانا۔ اور ہمارے تینوں گروپس کے دروازے سارے ملحدین کےلیے ہر وقت کھلے ہیں سوا ان ملحدوں کے جو اپنی خباثت سے مجبور ہو کر مقدس ہستیوں کی توہین کرتے ہیں، قاری حنیف ڈار صاحب سے لاکھ نظریاتی اختلافات اپنی جگہ لیکن رد الحاد پر ان کا کام قابل ستائش ہے. اس کے علاوہ اس محاذ پر کام کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے، اگر ایک ایک کی کوالٹی بیان کرنے لگوں تو شاید پوسٹ کئی اقساط پر پھیل جائے، سو میں یہاں صرف نام لکھنے پر اکتفا کروں گی،
ہمایون ناصر، عرفان ریاض، اعجاز گوندل، قاضی عبدالرحمان، عفیفہ شمسی، عائشہ عمران، انعم علی، ڈاکٹر ذیل شہزاد، فیضان، میاں عمران، ملک ولید، ولید احمد، عبدالسلام فیصل، فیصل ریاض، خاور نعیم، انعام الحق، حسنین، محمد تیمور، طارق احسن، سعید خاور، اقبال، بابر علی ( اللہ بابر بھائی کو اچھی صحت و ایمان والی لمبی زندگی عطا فرمائے )، ممتاز علی، عمر اعوان، عاطف عمیر، مزمل بسمل، خاموش آواز، نوید حسین، نوید ہاشمی، ابو بکرملک، سلمان شیخ، صدف ناز، فائزہ خالد، سید ذوالقرنین، عاصم منیر، بن یامین مہر، سالار سکندر، محمد سعد چودھری، یہ سب وہ گوہر نایاب ہیں جنہوں ہر فورم پر ملحدین کو بری طرح پچھاڑا.
ایک طرف بہت بڑی تعداد میں پروفیشنل، ٹرینڈ سکالرز اور ریسرچرز کا ایک گروہ ہے جن کو اس شعبے سے متعلق ماہرین نفسیات تک کی خدمات حاصل ہیں۔ ان کی پشت پناہی بڑی طاقتیں کر رہی ہیں، ان کو معاشی فکر سے آزاد کر دیا گیا ہے، اور دوسری طرف عام مسلمان نوجوان جن میں سے شاید کسی ایک نے بھی دین کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ شاید ان کو نماز کے فرائض و واجبات تک کا علم نہ ہو۔ ان کو کہیں سے کوئی مدد حاصل نہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ الحاد کے مقابلے میں غیرمعمولی تیزی سے ”ٹرینڈ“ ہوگئے اور ناقابل یقین انداز میں انہوں نے الحاد کو بےبس کردیا، اور اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ الحاد اپنا سارا رس نکال چکا۔ اب ان کے پاس سوائے طنز، ٹھٹھہ مذاق اور کج بحثی کے اور کچھ نہیں بچا.
ان نوجوانوں کی محنت ہے کہ بہت سے لوگ الحاد سے واپس آ رہے ہیں اور زیادہ پکے مسلمان بن کر واپس آ رہے ہیں۔ جن کے دلوں میں شک اور وسوسے پڑ گئے تھے وہ دور ہو رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ملحدین کے پاس آخری اور فیصلہ کن دلیل ”بلاک کرنا“ ہی رہ گئی ہے. ان بھائیوں اور بہنوں کی یہ مزاحمت اسلام کی بلکل وہی مزاحمت ہے جیسی تاتاریوں کی یلغار کے مقابلے میں مسلمان شکست کھا گئے تو اسلام نے خود مزاحمت کی چند تاجروں اور قیدیوں کی شکل میں۔ بے شک اللہ جس سے چاہے کام لے سکتا ہے، وہ چاہے تو ابابیلوں کو ہاتھیوں پر غالب کر دے.
ملحدین کے نام پیغام!
ملحدین کہتے ہیں کہ اسلام اُس غبارہ کی مانند ہے جس میں ذرا سوئی کیا گزرے، پھٹ کر بے نشاں ہوجائے. ہم کہتے ہیں کہ اسلام واقعی غبارے کی مانند ہے. اس کو الحاد پھاڑنے نہیں ڈبونے کے چکروں میں ہے، مگر ان کو معلوم نہیں کہ غبارہ اک فطرت ہے، اسے پھونک کر پانی کی سطح پر رکھ کر پورے وجود کے ساتھ چڑھ دوڑو، یہ ڈوبتا نہیں، جتنا دباؤ گے جھٹکے سے اچھل کر سطح سے باہر آ رہے گا، جتنا دباؤ ڈالو اتنا ہی اچھلے گا، نہ یہ خود ڈوبتا ہے اور نہ خود پر سوار ہونے والوں کو ڈوبنے دیتا ہے. یہ وہ نیا ہے جو سوار کو دریا پار لگاتی ہے! بھنور میں بھی اس کو پکڑنے والے قطعاً ڈوبتے نہیں.

Comments

Click here to post a comment