قربانی کے دنوں میں ہرطرف جانوروں کی ریل پیل ہوتی ہے۔ شہری علاقوں میں خصوصاً سب جانوروں کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے یعنی عام طور پر جانوروں کی مختلف نسلوں اور ان کی خصوصیات کے بارے میں علم نہیں ہوتا۔ کئی مرتبہ بیوپاری کسی نسل کو اعلیٰ ترین بتا کر اس کی بنیاد پر خریداروں سے اضافی قیمتیں بھی وصول کرلیتے ہیں۔ اسی لیے عید پر ہم آپ کا تعارف کروارہے ہیں عید قرباں کے ان خصوصی مہمانوں سے! بکرے، گائے، اور اونٹوں کی مختلف نسلوں اور اقسام کے مختصر جائزے کو مرتب کرتے ہوئے اس بات کا احساس بھی ہوا کہ ملک عزیز کو خدا نے کیسی کیسی نعمتوں سے نوازا ہے۔ یہاں پائی جانے والی مویشیوں کی کئی اقسام دنیا بھر میں بہترین قرار دی جاتی ہیں۔ گوشت، دودھ، چمڑے اوراون کی پیداوار کے حوالے سے ہمارے ہاں پائے جانے والے مویشیوں میں بہترین صلاحیت رکھنے والی نسلیں موجود ہیں۔ دوسری جانب ہر سال قربانی کے موقعے پر لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ اتنی بڑی کاروباری سرگرمی اور مختلف قدرتی وسائل کے باوجود ہمارے ہاں گلہ بانی تاحال سائنسی بنیادوں پر استوار نہیں ہوسکی اور یہ شعبہ بے سمتی اور بے ہنگمی کا شکار ہے۔ اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس جملہ معترضہ کے بعد آپ اس تحریر سے لطف اندوز ہوں اور جانیے کہ جس بکرے، بیل یا اونٹ کی بوٹیاں آپ اُڑا رہے ہیں وہ کہا کا رہنے والا تھا، نام پتا اور خصوصیات بھی جانیے۔!
٭چھوٹا گوشت
٭بیتل:
٭ڈیرہ دین پناہ
٭ناچی
٭ٹیڈی:
ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، سرگودھا، میانوالی، گجرات، جہلم، اور راولپنڈی کے علاوہ آزاد کشمیر سے متصل علاقوں میں پائی جانے والی بکروں کی یہ قسم اپنے چھوٹے قد اور گٹھی ہوئی جسامت کے باعث ”ٹیڈی“ کہلاتی ہے۔ اس نسل میں سفید، دودھیا، کتھئی، کالے رنگ کے علاوہ بعض جانور چتکبرے بھی ہوتے ہیں۔ چھوٹے نوکیلے سینگ، چھوٹے کان اور قدرے نوک دار ناک اس کی چند اہم علامتیں ہیں۔ بالغ نر میں اکثر تھوڑی کے نیچے داڑھی بھی نکل آتی ہے۔ ٹیڈی نسل کی بکریاں سال میں دو مرتبہ بچے دیتی ہیں، جن میں جڑواں بچوں کی پیدایش کی شرح 50جب کہ تین بچوں کی پیدایش کی شرح 15فی صد تک ہوتی ہے۔ عام طور پر اس نسل کے بالغ جانوروں کا وزن اوسطاً 30کلو تک ہو جاتا ہے۔ اسے گوشت کے لیے موزوں قرار دیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں افزائش نسل کی صلاحیت زیادہ ہونے کی وجہ سے بعض ماہرین کے نزدیک مختلف نسلوں کے ملاپ سے نئی اقسام حاصل کرنے کے لیے ٹیڈی بکریاں موزوں کیرئیر کا کام دے سکتی ہیں۔
٭پٹیری یا پاتیری
٭ جٹاں
٭گلابی
گلابی بکرا دراصل اپنی خوبصورتی کے باعث اس نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس نسل کے جانوروں کا شمار انتہائی مہنگے جانوروں میں ہوتا ہے، ان کی زاید قیمتوں کی بنیادی وجہ بھی ان کی خوب صورتی ہی ہے۔ سفید رنگ کے ان بکروں کے کان لمبے ہوتے ہیں اور ان کا رنگ ہلکا گلابی دکھائی دیتا ہے۔ سینگ چھوٹے اور جسامت درمیانی ہوتی ہے۔ اپنے سفید خوب صورت رنگ کی وجہ سے عام طور بیوپاری ان کے منہ مانگے دام وصول کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔
٭بربری
یہ نسل دودھ اور گوشت کے لیے موزوں قرار دی جاتی ہے۔ یہ نسل سندھ کے دادو، سکھر ، نوابشاہ ، میر پور خاص اور پنجاب کے علاقوں ساہیوال ، لاہور جھنگ، فیصل آباد سرگودھا میں پائی جاتی ہے۔ بالغ نر کا وزن اوسطاً 40کلو ہوتا ہے جب کہ بالغ مادہ کا اوسط وزن 25 کلو ہوتا ہے۔
٭کاموری:
کاموری سندھ میں پائی جانے والی اہم ترین نسلوں میں سے ایک ہے، کاموری بکروں کی خصوصیت ان کے لمبے کان اور چٹے دار کتھئی رنگ ہے، کاموری بکریاں سال میں ایک وقت میں ایک سے تین بچے دیتی ہیں۔ اپنے اونچے اور مضبوط قد کاٹھ کے علاوہ سندھ میں بکثرت اگنے والے خودرو پودوں کیکر اور کامو جیسی خشک اور کڑوی ترین غذا پر پلنے والی یہ نسل دودھ اور گوشت کے لیے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ گذشتہ برس کاموری نسل کے بکروں کی بڑے پیمانے پر برآمد اور اسمگلنگ کے باعث اس کی نسل ختم ہونے کے بارے میں خدشات بھی ظاہر کیے گئے تھے۔ بعض فارمرز کے مطابق پورے سندھ میں کاموری نسل کے بکروں کی تعداد صرف چند ہزار ہی رہ گئی ہے۔ نایاب ہونے کی وجہ سے اصل کاموری نسل کے بکروں کے بچے بھی 20سے 25ہزار روپے میں فروخت ہورہے ہیں جبکہ بڑے بکرے بکریوں کی قیمت لاکھ اور اس زائد بھی وصول کی جاتی ہے۔
٭بکروں کی دیگر نسلیں اور اقسام
ہردل عزیز کجلا:
پاکستان میں بھیڑ کی بھی کئی اقسام اور نسلیں پائی جاتی ہیں۔ چکی والے دنبوں میں بلخی، ببرکی، دنبی، گوجل، ہرنائی، ہشتنگری، کوہِ گزر، مچنی، پہاڑی، رخشانی، سالٹ رینج، تیرائی اور وزیر اہم ترین نسلیں ہیں جب کہ چھتروں میں بکر وال، بچی، چولستانی، دامنی ، کچی، کاغانی، کیل، کیلی، کوکا، لوہی، پونچی، سپلی اور تھلی اہم ترین اقسام تصور ہوتی ہیں۔ قربانی کے حوالے سے بھیڑوں میں سب سے معروف اور ہر دل عزیز نسل ”کجلا“ یا کجلی تصور ہوتی ہے۔ بڑے قد کاٹھ، مضبوط جسامت، لمبے کان اور آنکھوں کے گرد سیاہ نشان جسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس کی آنکھوں میں کاجل لگا ہوا ہے اور یہی اس نسل کی وجہ تسمیہ بھی ہے۔ فارمنگ کے علاوہ قربانی کے لیے جانور پالنے کے شوقین افراد میں یہ نسل انتہائی معروف ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لاہور میں ہر سال کجلے چھتروں کا مقابلہ منعقد کیا جاتا ہے، جس میں جیتنے والے جانوروں کے مالکان کو بیش قیمت انعام بھی دیے جاتے ہیں۔ اس مقابلے کے منتظم استاد جاوید کھسے والا بتاتے ہیں کہ اس نسل کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ سرگودھا کے معروف ٹوانہ خاندان کو اس چھترے کی جوڑی کسی غیر ملکی نے تحفے میں دی تھی جس کے بعد یہ پاکستان میں مشہور ہوئی۔ جب زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف اینیمل بریڈنگ کے ڈاکٹر سیف الرحمن کہتے ہیں ”یہ مقامی نسل ہے۔ اس کی بڑی واضح نشانی یہ ہے کہ اس کی بال قدرے سخت ہوتے ہیں جن سے فائن وول حاصل نہیں ہوتا جب کہ غیر ملکی بھیڑوں کی بال زیادہ ملائم ہوتے ہیں۔“ کجلا عام بھیڑوں کے مقابلے میں اونچے اور مضبوط قد کاٹھ کا حامل ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنی سخت جانی کی وجہ سے یہ مختلف حالات اور موسمی اثرات کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اور بکروں کے مقابلے میں بیماری اور موسمی حالات کا زیادہ دیر مقابلہ کرسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ جانور پالنے کا شوق رکھنے والوں میں انتہائی مقبول ہے۔ لاہور میں کئی برسوں سے سگیاں بائی پاس کے نزدیک ”کجلا چھترا شو“ منعقد ہوتا ہے۔ اس مقابلے میں مختلف کیٹیگریز کے تحت مقابلے ہوتے ہیں ان میں چھوٹے بچوں کے لیے نرسری، بارہ مہینے کی عمر تک کے لیے ”دوندا“، چوگا، اور چھگا کی کیٹگری ہوتی ہے۔ اس مقابلے میں ”کجلا ککا“ کی بھی کیٹگری ہوتی ہے۔ عام طور پر کجلے کی تھوتنی، آنکھوں اور کانوں کے کناروں پر سیاہ دھبے ہوتے ہیں لیکن ”ککا“ اس کجلے کو کہا جاتا ہے جس کا پورا جسم سفید ہوتا ہے۔ اس مقابلے کے منتظمین کے مطابق 2015 کے مقابلے کا سب سے وزنی جانور 210کلوگرام کا تھا۔ مقبولیت کی وجہ سے کجلے کی قیمتیں بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ عام طور پر اس کے نومولود بچے بھی ہزاروں روپوں میں فروخت ہوتے ہیں جب کہ قربانی کے لیے جن جانوروں کی ”تن سازی“ کی جاتی ہے ان کی قیمتیں ایک لاکھ سے اوپر تک لگائی جاتی ہیں۔ کجلا پالنے والوں کی ایک بڑی تعداد انھیں فروخت کے بہ جائے صرف قربانی کے لیے پالتی ہے۔ گوشت اور اون کی ضروریات پوری کرنے کے بھرپور صلاحیت رکھنے والی اس نسل کی سائنسی بنیادوں پر فارمنگ کی جائے تو اس کے کئی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
٭بڑا گوشت
گائے بنیادی طور پر دودھ کی پیداوار کے لیے پالا جانے والا جانور ہے۔ عام طور پر قربانی کے لیے بیل پہلا انتخاب ہوتے ہیں۔ گائے کی نسلوں کو تین زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جس میں دودھ دینے والی نسلیں، باربرداری اور کھیتی باڑی کے لیے استعمال ہونے والی اور دونوں مقاصد کے لیے موزوں نسلوں کی تقسیم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ غیرملکی اور مقامی جانوروں کے ملاپ سے بھی قربانی کے لیے جانور حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہاں صرف چند اہم مقامی نسلوں کا تعارف ہی پیش کیا جارہا ہے۔
٭ساہیوال
٭ریڈ سندھی
چولستانی:
٭بھاگ ناڑی
٭دیگر نسلیں
ان معروف نسلوں کے علاوہ داجل، دھنی، لوہانی ، روجھان ، تھر پارکر اور حصاری مقامی نسلیں بھی پائی جاتی ہیں جن کے جانور بھی قربانی کے لیے منڈیوں میں لائے جاتے ہیں۔ بڑے جانوروں کی مخلوط اقسام بھی دودھ اور گوشت کے لیے پالی جاتی ہیں اور مخلوط نسل کے جانور قربانی کے لیے بھی منڈیوں میں لائے جاتے ہیں۔ عام طور پر ریڈ سندھی اور ساہیوال کے ساتھ فریزین اور جرسی کی غیر ملکی نسلوں کا کراس کروایا جاتا ہے۔ فریزین اور آسٹریلین نسلوں کے بیل بہت وزنی ہوتے ہیں لیکن عام طور پر اپنی روایتی سج دھج کی وجہ سے مقامی نسلیں ہی قربانی کے لیے پسند کی جاتی ہیں۔
٭اونٹ
مجموعی طور پر اونٹ کی قربانی کم ہی کی جاتی ہے۔ عام طور پر میدانی اور شہری علاقوں میںرہنے والے افراد اس کا گوشت کھانے کے عادی نہیں ہوتے یہی وجہ ہے کہ بعض ذوق و شوق رکھنے والے ہی عید قرباں پر اس جانور کی قربانی کرتے ہیں۔ بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے صحرائی علاقوں میں اونٹ کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں جن میں چولستان، بیریلا، براہوی، کچھی، خارانی، لاسی، مکرانی، پشنی، رودباری، مایا، باگڑی، کالا چٹا، موریچا، لاڑی، سکرائی اور دیگر ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے ماہرین پاکستان میں اونٹوں کی کم ہوتی تعداد کے بارے میں خدشات ظاہر کررہے ہیں۔ 2010میں شایع ہونے والی ایک روپورٹ کے مطابق اونٹوں کی افزائش نسل پر توجہ نہ دینے، خلیج کے ممالک میں اسمگلنگ اور قحط سالی کی وجہ سے پاکستانی اونٹوں کی نسلیں معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال ملک بھر میں تقریباً تیس ہزار اونٹ قربان کیے جاتے ہیں۔
٭سستی قربانی ایک خواب
رفتہ رفتہ اجتماعی قربانی کا چلن عام ہوتا جارہاہے۔ عید الاضحی کے موقعے پر چھوٹے بڑے تمام ہی جانوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ خاص طور پر بکروں کی اوسط قیمت 15سے 20ہزار تک پہنچ جاتی ہے اور اس قیمت میں ملنے والے بکرا صرف ”قانونی“ طور پر بکرا ہوتا ورنہ وزن اور قد کاٹھ کے اعتبار سے اسے کیا کہا جائے یہ آج تک خریداروں کو بھی سمجھ نہیں آپایا۔ ہر سال پاکستان میں عید الاضحیٰ پر اندازاً چالیس لاکھ سے زاید بکرے اور دس لاکھ سے زائد بھیڑ قربان کیے جاتے ہیں۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف اینیمل سائنسز کے اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سیف الرحمن کا کہنا ہے کہ عام طور پر بکروں کی کچھ نسلیں مثلاً بیتل ، کجلا، وغیرہ کے جانور بہت مہنگے ہوتے ہیں۔ ان کے اچھے تن و توش اور قد کاٹھ بھی ان کی زیادہ قیمت کی بنیادی وجہ ہے۔ ”ہمارے ہاں ہر سال لاکھوں لوگوں نے سنت ابراہیمی ادا کرنا ہوتی ہے۔ اس کے لیے اگر درمیانی درجے کی نسلوں کو منظم انداز میں افزائش کی جائے تو قربانی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے کیوں کہ عام طور پر درمیانی آمدن رکھنے والے افراد بھی جانوروں کی زیادہ قیمتوں کے باعث قربانی نہیں کر پاتے۔“
اس حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بڑے بڑے شہروں میں لگنے والی وسیع مویشی منڈیوں میں حکومت مختلف مدات میں ٹیکس اور کرایہ وغیرہ تو وصول کرتی ہے مگر قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے کوئی میکانزم تشکیل نہیں دیا جاتاہے۔ پاکستان میں مویشیوں پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر محسن نیاز کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ عام طور پر بیوپاری ملک کے دور دراز علاقوں سے انتہائی کم قیمتوں پر جانور خرید کر شہروں میں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے جانور پالنے والوں کو اس معاشی سرگرمی کا حقیقی فائدہ نہیں مل پاتا۔ اگر حکومتی سطح پر جانوروں کی خرید و فروخت اور منظم انداز میں فارمنگ اور افزایش کے لیے منصوبہ بندی کی جائے تو قربانی کے جانوروں کی قیمتوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
٭کس کی کھال اچھی ہوتی ہے
پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے عہدے دار گلزار فیروز کا کہنا ہے پاکستان میں عید پر قربان ہونے والے جانوروں کی صحیح تعداد بتانا تو مشکل ہے لیکن گذشتہ برس جمع ہونے والی کھالوں کے اعداد و شمار سے اس کا کچھ اندازہ ممکن ہے۔2014میں ملک سے 25لاکھ گائے، 40 لاکھ بکرے، 10لاکھ دنبے اور چھترے اور 30ہزار اونٹ کی کھالیں جمع ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بتانا تو مشکل ہے کہ کس خاص نسل کی کھال زیادہ کارآمد ہوتی ہے لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ سرسبز و شاداب اور زرخیز علاقوں میں پلنے والے جانوروں کی کھال کی کوالٹی زیادہ اچھی ہوتی ہے جب کہ پہاڑی اور خشک علاقوں کے جانوروں خاص طور پر بکروں کے جسم پر بال زیادہ ہوتے ہیں جو کہ دیگر مقاصد کے لیے تو موزوں ہوتے ہیں لیکن چمڑے کے حصول کے لیے سرسبز علاقوں میں پلے جانوروں کی کھال کی کوالٹی زیادہ اچھی ہوتی ہے۔
عیدقرباں کے خصوصی مہمان - رانا محمد آصف

درست تفہیم ہے. جیسے جمہوریت اور حقوق انسانی کے تصورات کو مغرب مسلمانوں کے خلاف ایک Tool یا ہتهیار کے طور پر استعمال کرتا ہے. اسی طرح یہ تصور بھی ایک ہتهیار کے طور پر برتا جاتا ہے.