ہوم << عیدقرباں کے خصوصی مہمان - رانا محمد آصف

عیدقرباں کے خصوصی مہمان - رانا محمد آصف

قربانی کے دنوں میں ہرطرف جانوروں کی ریل پیل ہوتی ہے۔ شہری علاقوں میں خصوصاً سب جانوروں کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے یعنی عام طور پر جانوروں کی مختلف نسلوں اور ان کی خصوصیات کے بارے میں علم نہیں ہوتا۔ کئی مرتبہ بیوپاری کسی نسل کو اعلیٰ ترین بتا کر اس کی بنیاد پر خریداروں سے اضافی قیمتیں بھی وصول کرلیتے ہیں۔ اسی لیے عید پر ہم آپ کا تعارف کروارہے ہیں عید قرباں کے ان خصوصی مہمانوں سے! بکرے، گائے، اور اونٹوں کی مختلف نسلوں اور اقسام کے مختصر جائزے کو مرتب کرتے ہوئے اس بات کا احساس بھی ہوا کہ ملک عزیز کو خدا نے کیسی کیسی نعمتوں سے نوازا ہے۔ یہاں پائی جانے والی مویشیوں کی کئی اقسام دنیا بھر میں بہترین قرار دی جاتی ہیں۔ گوشت، دودھ، چمڑے اوراون کی پیداوار کے حوالے سے ہمارے ہاں پائے جانے والے مویشیوں میں بہترین صلاحیت رکھنے والی نسلیں موجود ہیں۔ دوسری جانب ہر سال قربانی کے موقعے پر لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ اتنی بڑی کاروباری سرگرمی اور مختلف قدرتی وسائل کے باوجود ہمارے ہاں گلہ بانی تاحال سائنسی بنیادوں پر استوار نہیں ہوسکی اور یہ شعبہ بے سمتی اور بے ہنگمی کا شکار ہے۔ اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس جملہ معترضہ کے بعد آپ اس تحریر سے لطف اندوز ہوں اور جانیے کہ جس بکرے، بیل یا اونٹ کی بوٹیاں آپ اُڑا رہے ہیں وہ کہا کا رہنے والا تھا، نام پتا اور خصوصیات بھی جانیے۔!
٭چھوٹا گوشت
٭بیتل:
بیتل نگریی پنجاب میں پائی جانے والی بکروں کی یہ نسل وزن اور خوب صورتی کے لحاظ سے اعلیٰ ترین تصور ہوتی ہے۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف اینیمل سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ایم سیف الرحمن کا کہنا ہے کہ دیسی بکروں میں بیتل جیسی خصوصیات کم ہی کسی اور نسل میں پائی جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی جسمانی افزائش کی بہترین صلاحیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ کئی برسوں سے ہیوی ویٹ بکروں کے مقابلوں میں پہلے نمبر پر آنے والے جانور اسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ”گذشتہ برس 290اور اس برس ہونے والے مقابلے میں 293کلو وزنی بکرے جو مقابلے کے فاتح قرار پائے اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔“ اس نسل کو دودھ اور گوشت کے حصول کے لیے موزوں قرار دیا جاتا ہے۔ بیتل نر کا اوسط وزن 70سے 80کلو اور بکری کا اسط وزن 50سے 60کلو ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سیف الرحمن کا کہنا ہے کہ دیسی بکروں کی دیگر اچھی نسلیں مکھی چینی، نکری، فیصل آبادی (جسے عرف عام میں دیسی بکرا بھی کہتے ہیں)،بیتل م ناگری، رحیم یار خان اور گجراتی وغیرہ بھی دراصل بیتل نسل ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ بیتل کا وزن اور قد تیزی سے بڑھتا ہے اسی لیے زیادہ تر قربانی کے لیے اس نسل کے بکرے تیار کیے جاتے ہیں اور ان خصوصیات کی وجہ سے یہ انتہائی مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بعض ماہرین اسے ”امیروں کا بکرا“ بھی کہتے ہیں۔ زیادہ تر اس کا رنگ سرخ ہوتا ہے جس پر کالے اور سفید دھبے ہوتے ہیں۔ جانوروں میں عام طور پر گہرے بھورے یا کتھئی رنگ کو سُرخ ہی کہاجاتا ہے۔ باربری بک بیتل بکرے کی جسامت مضبوط ہوتی ہے، اس کا سر کافی بڑا ہوتا ہے اور بعض اقسام میں اس کی ناک کافی ابھرئی ہوئی ہوتی ہے جسے ”رومن نوز“ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ بیتل نسل کے بکرے ملتان، ساہیوال، لاہور، فیصل آباد، سرگودھا، جھنگ اوکاڑہ، جہلم، گوجرانوالہ، گجرات اور سیالکوٹ سمیت پنجاب کے تمام ہی نہری علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ بیتل کو جمنا پوری بکروں سے قریب ترین قرار دیا جاتا ہے اور بعض علاقوں میں اسے ”امرتسری“ بھی کہتے ہیں۔ بیتل بکری کو دودھ کی پیدوار کے لیے بھی بہترین قرار دیا جاتا ہے۔ اچھی دیکھ بھال اور خوراک دستیاب ہو تو یہ روزانہ ڈھائی لیٹر تک دودھ دیتی ہے۔
٭ڈیرہ دین پناہ
ڈیرہ مظفر گڑھ، لیہ اور ملتان کے علاقوں میں پائی جانے والی بکروں کی یہ نسل مظفر گڑھ کے علاقے ڈیرہ دین پناہ کے نام سے موسوم ہے۔ کالے رنگ کے ان بکروں کا سر بڑا ہوتا ہے، جب کہ ناک ابھرئی ہوئی ہوتی ہے۔ چوڑی چکلی جسامت کے علاوہ جسم بالوں سے ڈھکا ہوتا ہے اور ٹھوڑی کے نیچے بھی بال ہوتے ہیں۔ گردن لمبی اور مضبوط ہوتی ہے۔ اس کے سینگ لمبے ، مضبوط اور لچھے دار ہوتے ہیں۔ اس بکرے کی دُم درمیانے سائز کی ہوتی ہے اور اس پر بال ہوتے ہیں۔ اس نسل کی بکری روانہ ڈیڑھ لیٹر تک دودھ دیتی ہے جب کہ نر اور مادہ کا اوسط وزن 40سے 45کلو تک ہوسکتا ہے۔ ڈیرہ دین پناہ نسل کے بکروں سے سالانہ فی کس 1200گرام بال حاصل ہوتے ہیں جو مختلف مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں۔
٭ناچی
ناچی ا بہاول پور، جھنگ، مظفر گڑھ، لیّہ ملتان اور ساہیوال کے علاقوں میں پائی جانے والی یہ نسل اپنی مستانی چال کی وجہ سے ”ناچی“ کہلاتی ہے۔ عام طور پر یہ ان کا رنگ کالا ہوتا ہے لیکن بعض کے جسم پر سفید یا سرخ دھبے بھی پائے جاتے ہیں۔ ناچی کو بالوں کے حصول کے لیے بہترین نسل قرار دیا جاتا ہے جب کہ گوشت اور دودھ کی پیداوار کے حساب سے یہ درمیانے درجے کی نسل تصور ہوتی ہے۔ ان کے سینگ اور کان درمیانے سائز کے ہوتے ہیں۔ ناچی نسل کے ایک بکرے یا بکری سے سالانہ چھے سو گرام بال حاصل ہوتے ہیں۔ اس کے بالغ نر اور مادہ جانور کا اوسط وزن بالترتیب 33اور 28کلو گرام ہوتا ہے۔ ناچی بکری عام طور پر جڑواں بچوں کو جنم دیتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ بالوں کے حصول کے لیے موزوں ترین نسل ہے لیکن اسے دودھ اور گوشت کے لیے بھی پالا جاتا ہے۔ مختلف میلوں میں ”ناچی“ اپنی منفرد جسامت اور چال کی وجہ سے لوگوں کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔
٭ٹیڈی:
ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، سرگودھا، میانوالی، گجرات، جہلم، اور راولپنڈی کے علاوہ آزاد کشمیر سے متصل علاقوں میں پائی جانے والی بکروں کی یہ قسم اپنے چھوٹے قد اور گٹھی ہوئی جسامت کے باعث ”ٹیڈی“ کہلاتی ہے۔ اس نسل میں سفید، دودھیا، کتھئی، کالے رنگ کے علاوہ بعض جانور چتکبرے بھی ہوتے ہیں۔ چھوٹے نوکیلے سینگ، چھوٹے کان اور قدرے نوک دار ناک اس کی چند اہم علامتیں ہیں۔ بالغ نر میں اکثر تھوڑی کے نیچے داڑھی بھی نکل آتی ہے۔ ٹیڈی نسل کی بکریاں سال میں دو مرتبہ بچے دیتی ہیں، جن میں جڑواں بچوں کی پیدایش کی شرح 50جب کہ تین بچوں کی پیدایش کی شرح 15فی صد تک ہوتی ہے۔ عام طور پر اس نسل کے بالغ جانوروں کا وزن اوسطاً 30کلو تک ہو جاتا ہے۔ اسے گوشت کے لیے موزوں قرار دیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں افزائش نسل کی صلاحیت زیادہ ہونے کی وجہ سے بعض ماہرین کے نزدیک مختلف نسلوں کے ملاپ سے نئی اقسام حاصل کرنے کے لیے ٹیڈی بکریاں موزوں کیرئیر کا کام دے سکتی ہیں۔
٭پٹیری یا پاتیری
پٹیری سندھ کے علاقوں حیدرآباد، نواب شاہ، خیر پور اور سانگھڑ کے علاقوں میں پائی جانے والے اس نسل کے بکرے اور بکریاں بہت خوب صور ہوتے ہیں۔ ان کا جسم سفید ہوتا ہے اور ان کے لمبے لمبے کان اکثر سرخ یا کتھئی رنگ کے ہوتے ہیں ۔ پٹیری سندھ کی فربہ ترین نسلوں میں سے ایک ہے۔ پاتیری کے بالغ نر کا وزن اوسطاً 52کلو اور مادہ کا 42کلو تک ہوتا ہے۔ پاتیری نسل کو دودھ اور گوشت کی پیداوار کے لیے موزوں قرار دیا جاتا ہے۔ عیدِ قرباں کے لیے پاتیری نسل کے پَلے ہوئے اچھے وزن کے بکروں کی ہمیشہ ہی سے مانگ رہی ہے اور اپنی خوبصورتی اور وزن کے باعث یہ خریداروں کی توجہ حاصل کرنے میں کام یاب رہتے ہیں۔
٭ جٹاں
بیتل نگری سندھ میں اونٹ پالنے والے جاٹ قبائل کے نام سے موسوم یہ نسل سندھ کے میر پور خاص ڈسٹرکٹ اور تھر کے صحراؤں میں پائی جاتی ہے۔ عام طور پر ان کا رنگ زردی مائل کتھئی، سرخ اور کالا ہوتا ہے۔ بڑے حجم کے اس جانور کی ٹانگیں لمبی ہوتی ہیں جب کہ قدرے لمبے کانوں پر اکثر زردی مائل سُرخ اور سیاہ رنگ کے دھبے ہوتے ہیں۔ جٹاں نسل کے بکروں کی گردن کے گرد سیاہ دائرہ بھی ہوتا ہے۔ نر اور مادہ دونوں کے سینگ ہوتے ہیں۔ بکرے کا اوسط وزن 50اور بکری کا 42کلو ہوتا ہے۔
٭گلابی
گلابی بکرا دراصل اپنی خوبصورتی کے باعث اس نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس نسل کے جانوروں کا شمار انتہائی مہنگے جانوروں میں ہوتا ہے، ان کی زاید قیمتوں کی بنیادی وجہ بھی ان کی خوب صورتی ہی ہے۔ سفید رنگ کے ان بکروں کے کان لمبے ہوتے ہیں اور ان کا رنگ ہلکا گلابی دکھائی دیتا ہے۔ سینگ چھوٹے اور جسامت درمیانی ہوتی ہے۔ اپنے سفید خوب صورت رنگ کی وجہ سے عام طور بیوپاری ان کے منہ مانگے دام وصول کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔
٭بربری
یہ نسل دودھ اور گوشت کے لیے موزوں قرار دی جاتی ہے۔ یہ نسل سندھ کے دادو، سکھر ، نوابشاہ ، میر پور خاص اور پنجاب کے علاقوں ساہیوال ، لاہور جھنگ، فیصل آباد سرگودھا میں پائی جاتی ہے۔ بالغ نر کا وزن اوسطاً 40کلو ہوتا ہے جب کہ بالغ مادہ کا اوسط وزن 25 کلو ہوتا ہے۔
٭کاموری:
کاموری سندھ میں پائی جانے والی اہم ترین نسلوں میں سے ایک ہے، کاموری بکروں کی خصوصیت ان کے لمبے کان اور چٹے دار کتھئی رنگ ہے، کاموری بکریاں سال میں ایک وقت میں ایک سے تین بچے دیتی ہیں۔ اپنے اونچے اور مضبوط قد کاٹھ کے علاوہ سندھ میں بکثرت اگنے والے خودرو پودوں کیکر اور کامو جیسی خشک اور کڑوی ترین غذا پر پلنے والی یہ نسل دودھ اور گوشت کے لیے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ گذشتہ برس کاموری نسل کے بکروں کی بڑے پیمانے پر برآمد اور اسمگلنگ کے باعث اس کی نسل ختم ہونے کے بارے میں خدشات بھی ظاہر کیے گئے تھے۔ بعض فارمرز کے مطابق پورے سندھ میں کاموری نسل کے بکروں کی تعداد صرف چند ہزار ہی رہ گئی ہے۔ نایاب ہونے کی وجہ سے اصل کاموری نسل کے بکروں کے بچے بھی 20سے 25ہزار روپے میں فروخت ہورہے ہیں جبکہ بڑے بکرے بکریوں کی قیمت لاکھ اور اس زائد بھی وصول کی جاتی ہے۔
٭بکروں کی دیگر نسلیں اور اقسام
مکھی چینی مذکورہ بالا چند اہم اور معروف نسلوں اور اقسام کے علاوہ پاکستان میں بکروں کی کئی دیگر نسلیں اور اقسام بھی پائی جاتی ہیں جب کہ بہت سی ایسی اقسام بھی ہیں جن کی باقاعدہ نشان دہی نہیں کی گئی اور کئی نسلیں علاقائی ناموں کی وجہ سے مختلف تصور ہوتی ہیں۔ دیگر اہم نسلوں میں سے چند کے نام یہ ہے: چھپڑیا کوہستانی، سندھی دیسی، کاغانی، خراسانی، دامنی، گڈی، لہڑی، پہاڑی، بلتستانی، بری، بیاری، بُچی، بگی توری، بجری، جاڑا خیل، جٹل، کچھن، کیل، کوٹی، کری، لابڑی، لوہڑی، لہڑی، پامیری، پوٹھوہاری، شری، ٹاپری یا لپّی، تھرکی یا تھری وغیرہ۔
ہردل عزیز کجلا:
پاکستان میں بھیڑ کی بھی کئی اقسام اور نسلیں پائی جاتی ہیں۔ چکی والے دنبوں میں بلخی، ببرکی، دنبی، گوجل، ہرنائی، ہشتنگری، کوہِ گزر، مچنی، پہاڑی، رخشانی، سالٹ رینج، تیرائی اور وزیر اہم ترین نسلیں ہیں جب کہ چھتروں میں بکر وال، بچی، چولستانی، دامنی ، کچی، کاغانی، کیل، کیلی، کوکا، لوہی، پونچی، سپلی اور تھلی اہم ترین اقسام تصور ہوتی ہیں۔ قربانی کے حوالے سے بھیڑوں میں سب سے معروف اور ہر دل عزیز نسل ”کجلا“ یا کجلی تصور ہوتی ہے۔ بڑے قد کاٹھ، مضبوط جسامت، لمبے کان اور آنکھوں کے گرد سیاہ نشان جسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس کی آنکھوں میں کاجل لگا ہوا ہے اور یہی اس نسل کی وجہ تسمیہ بھی ہے۔ فارمنگ کے علاوہ قربانی کے لیے جانور پالنے کے شوقین افراد میں یہ نسل انتہائی معروف ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لاہور میں ہر سال کجلے چھتروں کا مقابلہ منعقد کیا جاتا ہے، جس میں جیتنے والے جانوروں کے مالکان کو بیش قیمت انعام بھی دیے جاتے ہیں۔ اس مقابلے کے منتظم استاد جاوید کھسے والا بتاتے ہیں کہ اس نسل کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ سرگودھا کے معروف ٹوانہ خاندان کو اس چھترے کی جوڑی کسی غیر ملکی نے تحفے میں دی تھی جس کے بعد یہ پاکستان میں مشہور ہوئی۔ جب زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف اینیمل بریڈنگ کے ڈاکٹر سیف الرحمن کہتے ہیں ”یہ مقامی نسل ہے۔ اس کی بڑی واضح نشانی یہ ہے کہ اس کی بال قدرے سخت ہوتے ہیں جن سے فائن وول حاصل نہیں ہوتا جب کہ غیر ملکی بھیڑوں کی بال زیادہ ملائم ہوتے ہیں۔“ کجلا عام بھیڑوں کے مقابلے میں اونچے اور مضبوط قد کاٹھ کا حامل ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنی سخت جانی کی وجہ سے یہ مختلف حالات اور موسمی اثرات کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اور بکروں کے مقابلے میں بیماری اور موسمی حالات کا زیادہ دیر مقابلہ کرسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ جانور پالنے کا شوق رکھنے والوں میں انتہائی مقبول ہے۔ لاہور میں کئی برسوں سے سگیاں بائی پاس کے نزدیک ”کجلا چھترا شو“ منعقد ہوتا ہے۔ اس مقابلے میں مختلف کیٹیگریز کے تحت مقابلے ہوتے ہیں ان میں چھوٹے بچوں کے لیے نرسری، بارہ مہینے کی عمر تک کے لیے ”دوندا“، چوگا، اور چھگا کی کیٹگری ہوتی ہے۔ اس مقابلے میں ”کجلا ککا“ کی بھی کیٹگری ہوتی ہے۔ عام طور پر کجلے کی تھوتنی، آنکھوں اور کانوں کے کناروں پر سیاہ دھبے ہوتے ہیں لیکن ”ککا“ اس کجلے کو کہا جاتا ہے جس کا پورا جسم سفید ہوتا ہے۔ اس مقابلے کے منتظمین کے مطابق 2015 کے مقابلے کا سب سے وزنی جانور 210کلوگرام کا تھا۔ مقبولیت کی وجہ سے کجلے کی قیمتیں بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ عام طور پر اس کے نومولود بچے بھی ہزاروں روپوں میں فروخت ہوتے ہیں جب کہ قربانی کے لیے جن جانوروں کی ”تن سازی“ کی جاتی ہے ان کی قیمتیں ایک لاکھ سے اوپر تک لگائی جاتی ہیں۔ کجلا پالنے والوں کی ایک بڑی تعداد انھیں فروخت کے بہ جائے صرف قربانی کے لیے پالتی ہے۔ گوشت اور اون کی ضروریات پوری کرنے کے بھرپور صلاحیت رکھنے والی اس نسل کی سائنسی بنیادوں پر فارمنگ کی جائے تو اس کے کئی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
٭بڑا گوشت
گائے بنیادی طور پر دودھ کی پیداوار کے لیے پالا جانے والا جانور ہے۔ عام طور پر قربانی کے لیے بیل پہلا انتخاب ہوتے ہیں۔ گائے کی نسلوں کو تین زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جس میں دودھ دینے والی نسلیں، باربرداری اور کھیتی باڑی کے لیے استعمال ہونے والی اور دونوں مقاصد کے لیے موزوں نسلوں کی تقسیم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ غیرملکی اور مقامی جانوروں کے ملاپ سے بھی قربانی کے لیے جانور حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہاں صرف چند اہم مقامی نسلوں کا تعارف ہی پیش کیا جارہا ہے۔
٭ساہیوال
ساہیول یہ بنیادی طور پر دودھ دینے والی نسل ہے اور اس کے نر گوشت کی پیدوار کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ساہیوال بلاشبہہ دنیا بھر میں معروف ہے۔ ساہیوال، اوکاڑہ، پاکپتن، اور فیصل آباد کے اضلاع میں پائی جانے والی گائے کی اس نسل کا قدم درمیانہ اور جسامت متوازن ہوتی ہے۔ رنگ سرخی مائل بھورا ہتا ہے۔ نر کا رنگ آنکھوں، گردن اور پچھلی ٹانگوں پر گہرا سرخ اور سیاہی مائل سرخ ہوتا ہے۔ نر کے سینگ موٹے اور مضبوط ہوتے ہیں جب کہ عام طور پر مادہ کے سینگ نہیں ہوتے۔ ڈھیلی ڈھالی جلد اور نر کے اونچے کوہان کی وجہ سے اس کی خوب صورتی دو چند ہوجاتی ہے اور اسی لیے یہ عام طور پر قربانی کے لیے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ ساہیوال بیل کا وزن 400سے 500کلوگرام ہوتا ہے جب کہ 1000کلوگرام کے نر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں، ان کی پرورش اور کھانے پینے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔
٭ریڈ سندھی
سندھی کوہستان کے پہاڑی سلسلہ جو کراچی کے کچھ حصوں، ٹھٹھہ اور دادو کے اضلاع تک پھیلا ہوا ہے یہ نسل اسی علاقے میں پائی جاتی ہے۔ اس کا آبائی علاقہ حیدرآباد کے زرخیز میدانوں اور بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے بارانی علاقوں تک محیط ہے۔ ریڈ سندھی نسل کے مویشی درمیانے قد اور مضبوط جسامت کے حامل ہوتے ہیں۔ عام طور پر اس کا رنگ سُرخ ہوتا ہے اسی لیے اسے ریڈ سندھی کہا جاتا ہے۔ اس نسل کی لسبیلہ قسم سے تعلق رکھنے والے بیلوں کی رنگت قدرے گہری ہوتی ہے۔ عام طور پر نر کا رنگ شانوں پر گہرا سرخ ہوتا ہے، سر بڑا اور بعض بیلوں کے ماتھے پر ہلکا سے ابھار بھی ہوتا ہے۔ نر کے سینگ مضبوط اور موٹے ہوتے ہیں۔ نر کا کوہان بھاری ہوتا ہے جب کہ گردن کے نیچے جھالر کی طرح لٹکتی ہوئی کھال نر اور مادہ دونوں میں درمیانی ہی ہوتی ہے۔ سخت حالات برداشت کرنے کی صلاحیت رکھنے والے اس نسل کے جانور طاقت ور ہوتے ہیں۔ نر کا وزن چارسو سے پانچ سو کلوگرام تک ہوتا ہے جب کہ مادہ ساڑھے تین سو کلو گرام تک وزنی ہوتی ہے۔
چولستانی:
چولستانی چولستان کے صحرائی علاقے سے تعلق رکھنے والی یہ نسل بہاول پور، بہاول نگر، اور رحیم یار خان کے مختلف علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ اس نسل کے مویشی ڈھیلی ڈھالی جسامت کے ہوتے ہیں ان کے سینگ چھوٹے اور کان لمبے ہوتے ہیں۔ نر کا کوہان بھاری اور گردن کے نیچے جھالر کی طرح لٹکتی ہوئی کھال ہوتی ہے۔ سفید جسمانی رنگت پر بھورے ، سرخ اور سیاہ دھبے ہوتے ہیں۔ نر کا اوسط وزن ساڑھے چار سو سے پانچ سو کلوگرام ہوتا ہے۔ چولستانی بیل بار برداری اور کھیتی باڑی کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں جب کہ ان دونوں شعبوں میں مشینری کے بڑھتے ہوئے استعمال کے بعد اسے گوشت کا اچھا ذریعہ قراردیا جاتا ہے۔ بھاری بھرکم جسامت اور کوہان کی وجہ سے قربانی کے لیے یہ بیل خریداروں کی نگاہوں کا مرکز بنا رہتا ہے۔
٭بھاگ ناڑی
bhaag nari sibbi bull ماہرین کے مطابق قدرتی طور پر پاکستان کی سب سے بھاری بھرکم نسل بھاگ ناڑی ہی ہے۔ اس نسل کے بیل عام طور پر مارکیٹ میں ”سبّی بُل“ یا سبّی کے بیل کہلاتے ہیں۔ بالغ نر کا قد چھے فٹ تک ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر بھاگ ناڑی باربرداری اور کھیتی باڑی کے لیے موزوں سمجھی جانے والی نسل ہے لیکن اپنے اونچے قد اور وزنی جسامت کی وجہ سے اس نسل کے خوبصورت بیل قربانی کے لیے خریداروں کا اولین انتخاب سمجھے جاتے ہیں۔ بلوچستان کے گرم ترین علاقوں میں پائی جانے والی یہ نسل انتہائی سخت جان ہوتی ہے اور قحط سالی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
٭دیگر نسلیں
ان معروف نسلوں کے علاوہ داجل، دھنی، لوہانی ، روجھان ، تھر پارکر اور حصاری مقامی نسلیں بھی پائی جاتی ہیں جن کے جانور بھی قربانی کے لیے منڈیوں میں لائے جاتے ہیں۔ بڑے جانوروں کی مخلوط اقسام بھی دودھ اور گوشت کے لیے پالی جاتی ہیں اور مخلوط نسل کے جانور قربانی کے لیے بھی منڈیوں میں لائے جاتے ہیں۔ عام طور پر ریڈ سندھی اور ساہیوال کے ساتھ فریزین اور جرسی کی غیر ملکی نسلوں کا کراس کروایا جاتا ہے۔ فریزین اور آسٹریلین نسلوں کے بیل بہت وزنی ہوتے ہیں لیکن عام طور پر اپنی روایتی سج دھج کی وجہ سے مقامی نسلیں ہی قربانی کے لیے پسند کی جاتی ہیں۔
٭اونٹ
مجموعی طور پر اونٹ کی قربانی کم ہی کی جاتی ہے۔ عام طور پر میدانی اور شہری علاقوں میںرہنے والے افراد اس کا گوشت کھانے کے عادی نہیں ہوتے یہی وجہ ہے کہ بعض ذوق و شوق رکھنے والے ہی عید قرباں پر اس جانور کی قربانی کرتے ہیں۔ بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے صحرائی علاقوں میں اونٹ کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں جن میں چولستان، بیریلا، براہوی، کچھی، خارانی، لاسی، مکرانی، پشنی، رودباری، مایا، باگڑی، کالا چٹا، موریچا، لاڑی، سکرائی اور دیگر ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے ماہرین پاکستان میں اونٹوں کی کم ہوتی تعداد کے بارے میں خدشات ظاہر کررہے ہیں۔ 2010میں شایع ہونے والی ایک روپورٹ کے مطابق اونٹوں کی افزائش نسل پر توجہ نہ دینے، خلیج کے ممالک میں اسمگلنگ اور قحط سالی کی وجہ سے پاکستانی اونٹوں کی نسلیں معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال ملک بھر میں تقریباً تیس ہزار اونٹ قربان کیے جاتے ہیں۔
٭سستی قربانی ایک خواب
رفتہ رفتہ اجتماعی قربانی کا چلن عام ہوتا جارہاہے۔ عید الاضحی کے موقعے پر چھوٹے بڑے تمام ہی جانوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ خاص طور پر بکروں کی اوسط قیمت 15سے 20ہزار تک پہنچ جاتی ہے اور اس قیمت میں ملنے والے بکرا صرف ”قانونی“ طور پر بکرا ہوتا ورنہ وزن اور قد کاٹھ کے اعتبار سے اسے کیا کہا جائے یہ آج تک خریداروں کو بھی سمجھ نہیں آپایا۔ ہر سال پاکستان میں عید الاضحیٰ پر اندازاً چالیس لاکھ سے زاید بکرے اور دس لاکھ سے زائد بھیڑ قربان کیے جاتے ہیں۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف اینیمل سائنسز کے اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سیف الرحمن کا کہنا ہے کہ عام طور پر بکروں کی کچھ نسلیں مثلاً بیتل ، کجلا، وغیرہ کے جانور بہت مہنگے ہوتے ہیں۔ ان کے اچھے تن و توش اور قد کاٹھ بھی ان کی زیادہ قیمت کی بنیادی وجہ ہے۔ ”ہمارے ہاں ہر سال لاکھوں لوگوں نے سنت ابراہیمی ادا کرنا ہوتی ہے۔ اس کے لیے اگر درمیانی درجے کی نسلوں کو منظم انداز میں افزائش کی جائے تو قربانی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے کیوں کہ عام طور پر درمیانی آمدن رکھنے والے افراد بھی جانوروں کی زیادہ قیمتوں کے باعث قربانی نہیں کر پاتے۔“
اس حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بڑے بڑے شہروں میں لگنے والی وسیع مویشی منڈیوں میں حکومت مختلف مدات میں ٹیکس اور کرایہ وغیرہ تو وصول کرتی ہے مگر قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے کوئی میکانزم تشکیل نہیں دیا جاتاہے۔ پاکستان میں مویشیوں پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر محسن نیاز کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ عام طور پر بیوپاری ملک کے دور دراز علاقوں سے انتہائی کم قیمتوں پر جانور خرید کر شہروں میں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے جانور پالنے والوں کو اس معاشی سرگرمی کا حقیقی فائدہ نہیں مل پاتا۔ اگر حکومتی سطح پر جانوروں کی خرید و فروخت اور منظم انداز میں فارمنگ اور افزایش کے لیے منصوبہ بندی کی جائے تو قربانی کے جانوروں کی قیمتوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
٭کس کی کھال اچھی ہوتی ہے
پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے عہدے دار گلزار فیروز کا کہنا ہے پاکستان میں عید پر قربان ہونے والے جانوروں کی صحیح تعداد بتانا تو مشکل ہے لیکن گذشتہ برس جمع ہونے والی کھالوں کے اعداد و شمار سے اس کا کچھ اندازہ ممکن ہے۔2014میں ملک سے 25لاکھ گائے، 40 لاکھ بکرے، 10لاکھ دنبے اور چھترے اور 30ہزار اونٹ کی کھالیں جمع ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بتانا تو مشکل ہے کہ کس خاص نسل کی کھال زیادہ کارآمد ہوتی ہے لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ سرسبز و شاداب اور زرخیز علاقوں میں پلنے والے جانوروں کی کھال کی کوالٹی زیادہ اچھی ہوتی ہے جب کہ پہاڑی اور خشک علاقوں کے جانوروں خاص طور پر بکروں کے جسم پر بال زیادہ ہوتے ہیں جو کہ دیگر مقاصد کے لیے تو موزوں ہوتے ہیں لیکن چمڑے کے حصول کے لیے سرسبز علاقوں میں پلے جانوروں کی کھال کی کوالٹی زیادہ اچھی ہوتی ہے۔

Comments

Click here to post a comment

  • درست تفہیم ہے. جیسے جمہوریت اور حقوق انسانی کے تصورات کو مغرب مسلمانوں کے خلاف ایک Tool یا ہتهیار کے طور پر استعمال کرتا ہے. اسی طرح یہ تصور بھی ایک ہتهیار کے طور پر برتا جاتا ہے.